بات چلی تھی کہ انبیاء علھیم السلام سے کوئی افضل نہیں ۔آپ نے اس کا انکار کیا ۔ میں نے کہا اگر کوئی ثبوت ہے تو قرآن سے ہی دے دیں۔ آپ تو نہ دے سکے ، میں ہی اپنی بات کا ثبوت قرآن سے دے دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔
إن الله اصطفى آدم ونوحا وآل إبراهيم وآل عمران على العالمين آل عمران : 33)
اللہ نے آدم اور نوح اور خاندان ابراہیم اور خاندان عمران کو تمام جہان کے لوگوں میں منتخب فرمایا تھا۔
یہاں انبیاء علیھم السلام کی افضلیت ثابت ہورہی ہے۔
ایک جگہ ارشاد ہے :
وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۔۔الخ () سورة البقرة124
اور جب پروردگار نے چند باتوں میں ابراہیم کی آزمائش کی تو ان میں پورے اترے۔ اللہ نے کہا کہ میں تم کو لوگوں کا پیشوا بناؤں گا۔ انہوں نے کہا کہ (پروردگار) میری اولاد میں سے بھی (پیشوا بنائیو)
اس آیت میں ایک نبی کو پیشوا بنایا گیا ہے ۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام ہوئے ۔ حضرت اسحاق علیہ السلام سے بنی اسرائیل میں انبیاء کا سلسلہ چلا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام سے آقا علیہ السلام الصلاۃ والسلام مبعوث ہوئے ۔
سورہ انعام آیت 84 تا 89 میں انبیاء علھیم السلام کی افضلیت کے متعلق فرما رہا ہے :
وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ ۚ كُلًّا هَدَيْنَا ۚ وَنُوحًا هَدَيْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَمِن ذُرِّيَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ وَأَيُّوبَ وَيُوسُفَ وَمُوسَىٰ وَهَارُونَ ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ( 84 )
اور ہم نے ان (ابراہیم) کو اسحاق اور یعقوب بخشے۔ (اور( سب کو ہدایت دی۔ اور پہلے نوح کو بھی ہدایت دی تھی اور ان کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو بھی۔ اور ہم نیک لوگوں کو ایسا ہی بدلا دیا کرتے ہیں
وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَىٰ وَعِيسَىٰ وَإِلْيَاسَ ۖ كُلٌّ مِّنَ الصَّالِحِينَ ( 85 )
اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو بھی۔ یہ سب نیکوکار تھے
وَإِسْمَاعِيلَ وَالْيَسَعَ وَيُونُسَ وَلُوطًا ۚ وَكُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعَالَمِينَ ( 86 )
اور اسمٰعیل اور الیسع اور یونس اور لوط کو بھی اور ان سب کو جہان کے لوگوں پر فضلیت بخشی تھی
وَمِنْ آبَائِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَإِخْوَانِهِمْ ۖ وَاجْتَبَيْنَاهُمْ وَهَدَيْنَاهُمْ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ( 87 )
اور بعض بعض کو ان کے باپ دادا اور اولاد اور بھائیوں میں سے بھی۔ اور ان کو برگزیدہ بھی کیا تھا اور سیدھا رستہ بھی دکھایا تھا
ذَٰلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ( 88 )
یہ خدا کی ہدایت ہے اس پر اپنے بندوں میں سے جسے چاہے چلائے۔ اور اگر وہ لوگ شرک کرتے تو جو عمل وہ کرتے تھے سب ضائع ہوجاتے۔
أُولَٰئِكَ الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ۚ فَإِن يَكْفُرْ بِهَا هَٰؤُلَاءِ فَقَدْ وَكَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَّيْسُوا بِهَا بِكَافِرِينَ ( 89 )
یہ وہ لوگ تھے جن کو ہم نے کتاب اور حکم (شریعت) اور نبوت عطا فرمائی تھی۔ اگر یہ (کفار) ان باتوں سے انکار کریں تو ہم نے ان پر (ایمان لانے کے لئے) ایسے لوگ مقرر کردیئے ہیں کہ وہ ان سے کبھی انکار کرنے والے نہیں
أُولَٰئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ ۖ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ ۗ قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا ۖ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرَىٰ لِلْعَالَمِينَ
( 90 ) یہ وہ لوگ ہیں جن کو خدا نے ہدایت دی تھی تو تم انہیں کی ہدایت کی پیروی کرو۔ کہہ دو کہ میں تم سے اس (قرآن) کا صلہ نہیں مانگتا۔ یہ تو جہان کے لوگوں کے لئےمحض نصیحت ہے۔
ان آیات میں صاف طور پر اللہ کریم فضیلت انبیاء کا ذکر فرما رہا ہے بلکہ یہ بھی فرما رہا ہے کہ یہ وہ لوگ تھے جنہیں ہم نے کتاب اور شریعت اور نبوت عطا کی تھی اور انہی برگزیدہ اور افضل لوگوں کو اللہ نے ہدایت دی تھی لہذا انہی کے نقش قدم پر چلو اور انہی کی پیروی کرو۔
اب یہ آیت سورہ بقرہ کی 136 ملاحظہ کیجئے :
"(مسلمانو) کہو کہ ہم خدا پر ایمان لائے اور جو (کتاب) ہم پر اتری، اس پر اور جو (صحیفے) ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد پر نازل ہوئے ان پر اور جو (کتابیں) موسیٰ اور عیسی کو عطا ہوئیں، ان پر، اور جو اور پیغمبروں کو ان کے پروردگار کی طرف سے ملیں، ان پر (سب پر ایمان لائے) ہم ان پیغمروں میں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے اور ہم اسی (خدائے واحد) کے فرمانبردار ہیں‘‘۔
یہ میرا نہیں رب کا فرمان ہے کہ انسانوں میں کون سی ہستیاں افضل، اعلیٰ اور مقتدیٰ ہیں۔باقی صحابہ کرام و اہل بیت النبی ٖ صلی اللہ علیہ وسلم بعد میں آتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت کی توفیق عطا فرمائے اور اسلام پر ہی موت نصیب فرمائے۔
کافی عرصے بعد اردو محفل میں آنا ہوا اور میرے ساتھ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ میں جب آتا ہوں تو محفل میں آتا چلا جاتا ہوں اور اگر غائب ہوتا ہوں تو بہت عرصے تک اپنی مصروفیات کے باعث نہیں آسکتا۔ آپ نے جو آیات پیش کیں ان پر بے شک ہر مسلمان کا اعتقاد ہے ان آیات کا جو نتیجہ ہے یعنی سارے انبیاء نیکو کار اپنے زمانے کے تمام لوگوں سے افضل یہ بھی میرا کیا تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے ۔ لیکن اسکے علاوہ بھی قران میں بہت کچھ ہے جو ہم جیسوں سے مخفی ہے جیسے سب کا ایمان ہے کہ انبیاء علیہ السلام کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے لیکن تذکرہ پچاس کا بھی نہیں ہے اب ان انبیاء کا تذکرہ نہ ہونا اس بات کا ثبوت نہیں بن سکتا کہ وہ انبیاء کوئی فضیلت نہیں رکھتے تھے۔ یہ الگ بات کہ فضائل میں فرق تھا مراتب میں فرق تھا ایک عام نبی سے رسول کا رتبہ بلند تھا ایک عام رسول سے اولعزم رسول کا رتبہ بلند تھا اور تمام اولعزم نبیوں سے میرے آقا کا رتبہ سب سے بلند ہے وہ تمام انبیاء کے سردار ہیں اور پنجتن کے پہلے فرد بھی وہی ہیں۔ قران میں جسطرح انبیاء کی فضیلت پر آیات نازل ہوئی ہیں وہاں پنجتن پاک کی شان میں بھی متعد آیات نازل ہوئی ہیں۔
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا(سورۃ احزاب آیت ۳۳)۔
بس اللہ کا ارادہ ہے اے اہلیبیت علیہم السلام تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پا کیزہ رکھے جس طرح پاک وپا کیزہ رکھنے کا حق ہے۔
سنی شیعہ علماء کا اتفاق ہے کہ یہ آیت آنحضرت (ص) مولا علی(ع) بی بی فاطمہ (س) اور حضرات حسنین (ع) کی فضیلت میں نازل ہوئی ہیں
پورا قران ملاحضہ فرمالیں کسی بھی نبی کیلئے آنحضرت(ص) کے اور انکے اہلیبیت کے علاوہ اسطرح کا کلام جو اللہ نے صرف ان پاک ہستیوں کیلئے فرمایا ہے مجھ کو دکھادیں۔وجہ یہ ہے کے بیشک تمام انبیاء معصوم تھے اور ان سے گناہ سرزرد ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا کیوں کہ وہ تو لوگوں کو خود گناہوں سے بچانے آئے تھے لیکن ان سے بہر حال ترک اولٰی ہوجاتا تھا پر ہمارے نبی اور انکے اہلیبیت سے کبھی ترک اولٰی بھی نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ مولا علی (ع) نے فرمایا نہ کبھی میں نے جھوٹ بولا نہ کبھی مجھ سے جھوٹ بلوایا جاسکا نہ ہی میں نے کوئی گناہ کیا نہ مجھ سے کوئی گناہ کرایا جاسکا۔ کیوں کہ گناہ بھی رجس ہے اور اللہ نے آپ (ع) سے رجس کو دور کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔
سورہ ھل اتیٰ کے بارے میں شیعہ وسنی علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سورہ ٔ دہر علی علیہ السلام، بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا اور آئمہ بر حق حسنین علیہماالسلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
سورۃ شورٰی کی آیت نمبر 23۔ قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى۔
یہ آیت بھی آپ(ص) کے اہلیبیت کی شان میں نازٌ ہوئ ہے جس میں حکم ہے اہلیبیت سے محبت کا۔ اور اگر اجر رسالت ادا کرنا ہے تو آپ کو ان پاک ہستیوں سے محبت کرنا ہی ہوگی ایسی فضیلت کسی اور کی قران میں درج ہے؟۔
اب میں آپ کی اجازت سے ایک مومنہ عورت کی حجاج بن یوسف سے ہونے والی گفتگو ایک ویب سائیٹ سے یہاں نقل کر رہا ہوں ۔
یہ عورت قیدی بنا کر حجاج بن یوسف کے پاس لائی گئی تھی اور اس پر الزام تھا کہ یہ عورت حضرت علی(ع) کو انبیاء سے افضل سمجھتی ہے۔
حجاج: ”تیرا برا ہو، تو علی کو آٹھ پیغمبروں سے جن میں سے بعض اولوالعزم بھی ہیں افضل وبرتر جانتی ہے اگر تونے اپنے اس دعویٰ کو دلیل سے ثابت نہ کیا تو میں تیری گردن اڑاد وں گا۔“
حرہ: ”یہ میں نہیں کہتی کہ میں علی علیہ السلام کو ان پیغمبروں سے افضل وبر تر جانتی ہوں بلکہ خداوند متعال نے خود انھیں ان تمام پر برتری عطا کی ہے قرآن مجید جناب آدم علیہ السلام کے بارے میں فرماتا ہے:
”وَعَصیٰ آدمُ رَبَّہُ فَغَویٰ“
”اور آدم سے جو کوتاہی(ترک اولٰی) ہوئی اسکے نتیجہ میں اس کی جزا سے محروم ہو گئے“۔
لیکن خدا وند متعال علی علیہ السلام ،ان کی زوجہ اور ان کے بیٹوں کے بارے میں فرماتا ہے۔
”وَکَانَ سَعْیُکُمْ مَشْکُورًا“
”اور تمہاری سعی و کوشش مشکور ہے“۔
حجاج: ”شاباش لیکن یہ بتا کہ تونے حضرت علی علیہ السلام کو نوح و لوط علیہما السلام پر کس دلیل کے ذریعہ فضیلت دی “۔
حرہ: ”خداوند متعال انھیں ان لوگوں سے افضل و بر تر جانتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے:
”ضَرَبَ اللهُ مَثَلاً لِلَّذِینَ کَفَرُوا اِمْرَاٴَةَ نُوحٍ وَاِمْرَاٴَةَ لُوطٍ کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتَاہُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْہُمَا مِنْ اللهِ شَیْئًا وَقِیلَ ادْخُلاَالنَّارَ مَعَ الدَّاخِلِینَ “
”خدانے کافر ہونے والے لوگوں کو نوح و لوط کی بیویوں کی مثالیں دی ہیں۔یہ دونوں ہمارے صالح بندوں کے تحت تھیں مگر ان دونوں نے ان کے ساتھ خیانت کی لہٰذا ان کا ان دونوں سے تعلق انھیں کوئی فائدہ نہ پہنچا سکا اور ان سے کہا گیا کہ جہنم میں جانے والوں کے ساتھ تم بھی چلی جاوٴ“۔
لیکن علی علیہ السلام کی زوجہ ،پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کی بیٹی جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا ہیں جن کی خوشنودی خدا کی خوشنودی ہے اور جن کی ناراضگی خدا کی ناراضگی ہے۔
حجاج: شاباش حرہ! لیکن یہ بتا تو کس دلیل کی بنا پر ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام پر حضرت علی علیہ السلام کو فضیلت دیتی ہے؟
حرہ: ”خدا وند متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ جناب ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا:
”رَبِّ اٴَرِنِی کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتَی قَالَ اٴَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَی وَلَکِنْ لِیَطْمَئِن قَلْبِي“
”ابراہیم نے کہا پالنے والے! تو مجھے یہ دکھا دے کہ تو کیسے مردوں کو زندہ کرتا ہے تو خدا نے کہا کیا تمہارا اس پر ایمان نہیں ہے تو انھوں نے کہا کیوں نہیں مگر میں اطمینان قلب چاہتا ہوں“۔
لیکن میرے مولا علی علیہ السلام ا س حد تک یقین کے درجہ پر فائز تھے کہ آپ نے فرمایا:
”لوکشف الغطا ء ماازددت یقینا“۔
”اگر تمام پردے میرے سامنے سے ہٹا دئے جائیں تو بھی میرے یقین میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔“
اور اس طرح نہ پہلے کسی نے کہا تھا اور نہ اب کوئی ایسا کہہ سکتا ہے ۔“
حجاج: ”شاباش لیکن تو کس دلیل سے حضرت علی کو جناب موسیٰ کلیم اللہ پر فضیلت دیتے ہے؟“۔
حرہ: ”خداوند عالم قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
”فَخَرَجَ مِنْہَا خَائِفًا یَتَرَقَّبُ“
”وہ وہاں سے ڈرتے ہوئے (کسی بھی حادثہ کی)تو قع میں (مصر)سے باہر نکلے“۔
لیکن حضرت علی علیہ السلام کسی سے نہیں ڈرے، شب ہجرت رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے بستر پر آرام سے سوئے اور خدا نے ان کی شان میں یہ آیت نازل فرمائی:
”وَ مِنْ النَّاسِ مَنْ یَشْرِی نَفْسَہُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاةِ اللهِ “
”اور لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو اپنے نفس کو اللہ کی رضا کے لئے بیچ دیتے ہیں“۔
حجاج: ”شاباش لیکن اب یہ بتا کہ داوٴد علیہ السلام پر علی کو کس دلیل سے فضیلت حاصل ہے ؟“
حرہ: ”خداوند متعال جناب دادوٴ علیہ السلام کے سلسلہ میں فرماتا ہے:
” یَادَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیفَةً فِی الْاٴَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلاَتَتَّبِعْ الْہَوَی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیلِ اللهِ “
”اے دادوٴ! ہم نے تمہیں زمین پر خلیفہ بنا یا ہے لہٰذا تم لوگوں کے درمیان حق سے فیصلے کرو اور اپنی خواہشات کو پیروی نہ کرو کہ اس طرح تم راہ خدا سے بھٹک جاوٴ گے“۔
حجاج: ”جناب داوٴد کی قضاوت کس سلسلے میں تھی؟”
حرہ: ”دو آدمیوں کے بارے میں کہ ان میں سے ایک بھیڑ وں کا مالک تھا اور دوسرا کسان، اس بھیڑ کے مالک کی بھیڑوں نے اس کے کھیت میں جاکر اس میں کھیتی چرلی، اور اس کی زراعت کو تباہ و برباد کردیا، یہ دونوں آدمی فیصلہ کے لئے حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس آئے اور اپنی شکایت سنائی، حضرت داؤد نے فرمایا: بھیڑکے مالک کو اپنی تمام بھیڑوں کو بیچ کر اس کا پیسہ کسان کو دے دینا چاہئے تاکہ وہ ان پیسوں سے کھیتی کرے اور اس کا کھیت پہلے کی طرح ہو جائے لیکن جناب سلیمان نے اپنے والد سے کہا۔”آپ کو یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ بھیڑوں کا مالک کسان کو دودھ اور اون دےدے تاکہ اس کے ذریعہ اس کے نقصان کی تلافی ہوجائے“۔
اس سلسلہ میں خداوند عالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے: ”ففہمنا سلیمان“
” ہم نے حکم (حقیقی) سلیمان کو سمجھا دیا“۔
لیکن حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
”سلونی قبل ان تفقدونی“۔
”مجھ سے سوال کرلو قبل اس کے کہ تم مجھے کھو دو“۔
جنگ خیبر کی فتح کے دن جب حضرت رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی خد مت میں تشریف لے آئے تو آنحضرت نے لوگوں کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا:
”اٴفضلکم و اٴعلمکم و اٴقضاکم علي“۔
”تم میں سے افضل اور سب اچھا فیصلہ کرنے والے علی ہیں“۔
حجاج: ”شاباش لیکن اب یہ بتاوٴ کہ کس دلیل سے علی جناب سلیمان علیہ السلام سے افضل ہیں‘۔
(۱)حرہ: ”قرآن میں جنا ب سلیمان کا یہ قول نقل ہوا ہے:
” رَبِّ اغْفِرْ لِی وَہَبْ لِی مُلْکاً لاَیَنْبَغِی لِاٴَحَدٍ مِنْ بَعْدِی“
” پالنے والے! مجھے بخش دے اور مجھے ایسا ملک عطا کردے جو میرے بعد کسی کے لئے شائستہ نہ ہو“۔
لیکن میرے مولا علی علیہ السلام نے دنیا کو تین طلاق دی ہے جس کے بعد آیت نازل ہوئی:
” تِلْکَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِینَ لاَیُرِیدُونَ عُلُوًّا فِی الْاٴَرْضِ وَلاَفَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِینَ “
”وہ آخرت کا مقام ان لوگوں کے لئے ہم قرار دیتے ہیں جو زمین پر بلندی اور فساد کو دوست نہیں رکھتے اور عاقبت تو متقین کے لئے ہے“۔
حجاج: ”شاباش اے حرہ اب یہ بتا کہ تو کیوں حضرت علی کو جنا ب عیسیٰ علیہ السلام سے افضل و برتر جانتی ہے؟“
حرہ: ”خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا:
” وَإِذْ قَالَ اللهُ یَاعِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ اٴَاٴَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِی وَاٴُمِّی إِلَہَیْنِ مِنْ دُونِ اللهِ قَالَ سُبْحَانَکَ مَا یَکُونُ لِی اٴَنْ اٴَقُولَ مَا لَیْسَ لِی بِحَقٍّ إِنْ کُنتُ قُلْتُہُ فَقَدْ عَلِمْتَہُ تَعْلَمُ مَا فِی نَفْسِی وَلاَاٴَعْلَمُ مَا فِی نَفْسِکَ إِنَّکَ اٴَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ # مَا قُلْتُ لَہُمْ إِلاَّ مَا اٴَمَرْتَنِی بِہِ“
”اور جب (روز قیامت) خدا کہے گا: اے عیسیٰ بن مریم ! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کو چھوڑ کر مجھے اور میری ماں کو خدا قرار دو، تو وہ کہیں گے تو پاک وپاکیزہ ہے میں کیسے ایسی بات کہہ سکتا ہوں جس کا مجھے حق نہیں اگر میں نے کہا ہوتا تو تو ضرور جان لیتا تو جانتا ہے میرے نفس میں کیا ہے لیکن میں نہیں جانتا کہ تیرے نفس میں کیا ہے تو عالم الغیب ہے میں نے ان سے صرف وہی کیا ہے جو تونے مجھے حکم دیا تھا“۔
اسی طرح جناب عیسی ٰ کی عباد ت کرنے والوں کا فیصلہ قیامت کے دن کے لئے ٹال دیا گیا
مگر نصیروں نے حضرت علی علیہ السلام کی عبادت شروع کر دی تو آپ نے انھیں فوراً قتل کردیا اور ان کے عذاب و فیصلہ کو قیامت کے لئے نہیں چھوڑا ۔“
حجاج: ”اے حرہ! تو قابل تعریف ہے تو نے اپنے جواب میں نہایت اچھے دلائل پیش کئے اگر تو آج اپنے تمام دعووٴں میں سچی ثابت نہ ہوتی تو میں تیری گردن اڑادیتا ۔“
اس کے بعد حجاج نے حرہ کو انعام دیکر باعزت رخصت کردیا۔