اب تک کے نتائج:
ترکی کی موجودہ اقتصادی و معاشی صورتحال کا ایک جائزہ جس کے مطابق اے کے پارٹی کے دور میں فی کس آمدنی جو 2002ء میں 2598 ڈالرز تھی اب 5477 ڈالرز ہو گئی ہے۔ جی این پی 181 ارب سے 400 ارب ڈالرز پر پہنچا، برآمدات85.14 ارب سے 36.05 ارب ڈالرز تک پہنچیں، بے روزگاری کی شرح 10.03 سے 9.9 تک گر گئی، بیرونی سرمایہ کاری 1.14 ارب ڈالرز سے 20.2 ارب ڈالرز تک پہنچ گئی، اس کے علاوہ دیگر اعداد و شمار بھی مندرجہ بالا ربط پر دیکھے جاسکتے ہیں۔
اس
ربط پر ترکی کے انتخابات کے حوالے سے تصاویر دیکھی جا سکتی ہیں۔
لیکن جناب یہ بتائیے گا کہ کیا یہ حضرات (اے کے پارٹی) نام کے ہی اسلام پسند ہیں؟ کیوں کہ یہاں انہوں نے اسلام کا نام لیا اور ادھر ادھر کمالی حضرات اٹھ کھڑے ہوئے کہ جناب یہ ہمارے بانی کی سیکولر (لادین) بنیادوں پر حملہ کر رہے ہیں؟ یہ کیا صورت ہے؟
دلوں کا حال تو بھائی اللہ جانتا ہے لیکن اتنا میں ضرور کہوں گا کہ یہ نجم الدین اربکان کے مقابلے میں زیادہ جدت پسند ہیں، لیکن ترکی جیسے آزاد خیال معاشرے خصوصا فوج کو یہ روشن خیال مسلمان بھی پسند نہیں، اس لیے ان کے خلاف لاکھوں کے جلوس نکلوائے گئے حالانکہ زمینی حقائق کچھ اور تھے جن کا انتخابات کے ذریعے اندازہ ہو گیا۔ اور مجھے لگ رہا ہے کہ فوج انتہائی باریک بینی سے اے کے پارٹی کی سرگرمیوں اور اقدامات کو "مانیٹر" کررہی ہے اور کرے گی اور اگر ضرورت پڑی تو ان کے خلاف بھی نجم الدین اربکان جیسا ہی ایکشن لیا جائے گا جن پر سیاست میں حصہ لینے پر تاحیات پابندی ہے۔ فی الحال اے کے پارٹی کی پالیسیاں بالکل ویسی ہی ہیں جیسے
عدنان میندریس کی تھیں انہوں نے ہی ملک میں سیکولرزم کی نئی تعریف متعارف کرائی کہ سیکولرازم دراصل دین سے بیزاری نہیں بلکہ ہر کسی کو اپنے دین پر آزادی سے عمل کرنے دینے کا نام ہے اور عربی زبان میں اذان کی بحالی، ترکوں کے ادائیگی حج پر عائد پابندیاں اٹھانا اور دیگر چند اقدامات پر فوج نے انہیں ساتھیوں سمیت سزائے موت دے دی تھی۔ بہرحال ترکی جیسے ملک میں اسلام کے نام لیواؤں کا اقتدار تک پہنچنا اہل ایمان کے لیے تقویت کا باعث ہے، اللہ انہیں مزید کامیابیاں عطا کرے اور ان کامیابیوں کے ذریعے اسلام کی خدمت کا مزید موقع دے۔