محمد عمر بن عبد العزیز
محفلین
تلاش اور جستجو اللہ تعالیٰ کی وہ نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے اندر ودیعت رکھی ہے۔ وہ بوڑھا ہو یا جوان، شہری ہو یا دیہاتی، عربی ہو یا عجمی، مسلمان ہو یا کافر، حتی کہ انتہائی چھوٹا بچہ بھی اس صفت سے متصف نظر آتا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ انسان بچپن سے لے کر جوانی اور پھر بڑھاپے تک اسی تگ و دو میں رہتا ہے کہ نئی سے نئی چیز حاصل کروں۔ استاذِ محترم حضرت شیخ الحدیث مولانا حبیب اللہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ فرمایا کرتے ہیں: لوگ صبح صبح ٹی وی آن کر لیتے ہیں، اخبار پڑھتے ہیں کہ معلوم ہو کہ دنیا میں کیا ہورہا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ یہی جستجو ہے جو انسان کو چین نہیں لینے دیتی۔ ہر وقت انسان اسی تلاش میں ہوتا ہے کہ کوئی نئی خبر نئی بات مجھے مل جائے۔
چھوٹے بچوں کو دیکھتے ہیں کہ کوئی کھلونا جب ان کے ہاتھ میں آتا ہے تو کچھ ہی دیر کے بعد وہ کھلونا دو، چار حصوں میں تبدیل ہو چکا ہو تا ہے ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ہمارے حضرت پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں: چونکہ بچہ جاننا چاہ رہا ہوتا ہے کہ اس کے اندر کیا کیا چیز ہے۔ گویا! اس بچے کی جستجو کا جذبہ اس کو اس طرح کرنے پر مجبور کرتا ہے اور بچہ اس جذبے کی تسکین کے لیے اپنے پسندیدہ کھلونے کا آپریشن کرتا ہے۔ تو معلوم ہوا کہ ہر انسان کے اندر یہ جذبہ موجود ہوتا ہے۔
فرق صرف اتنا ہے کہ مادی دنیاکے لوگ نت نئی ایجادات کے ذریعے سے اپنے اس جذبے کو تسکین پہنچاتے ہیں کبھی کسی چیز پر ریسرچ ہورہی ہوتی ہے اور کبھی کسی چیز پر، کبھی زمین کی گہرائیوں کو ناپا جارہا ہوتا ہے تو کبھی آسمان کی بلندیوں کو چھونے کی کوشش ہورہی ہوتی ہے۔ غرض ہر کوئی کسی نہ انداز میں اندر کے اس جذبے کا اظہار کر رہا ہوتا ہے۔
لیکن علمِ حقیقی کے متوالوں کی تو شان ہی کچھ اور ہے ہمارے اکابر علم کی تلاش میں دن رات کا فرق مٹادیا کرتے تھے، بھوک پیاس کی شدت کی انہیں پرواہ ہی نہیں تھی، دنیاوی مفاد ان حضرات کے قریب بھی نہیں بھٹک سکتا تھا، ضروریات کو تو یہ لوگ سد راہ سمجھتے ہی نہیں تھے حقیقت تو یہ ہے کہ جومشقتیں حصولِ علم کی کوششوں میں ہمارے اکابر نے برداشت کی ہیں تاریخِ انسانیت اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
اکابر کے حالات زندگی پڑھ کر بندہ حیران ہوتا ہے کہ کیسے ان حضرات نے تحصیل علم کے لیے اپنے آپ کو کھپادیا تھا لیکن علم کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔
نبی نے بھی ارشاد فرمایا:
((مَنْهُوْمَانِ لَا يَشْبَعَانِ؛ طَالِبُ الْعِلْمِ وَطَالِبُ الدُّنْيَا.)) [کنزالعمال:۲۹۳۲۸]
’’دوحریص کبھی سیر نہیں ہوتے ایک علم کا طالب دوسرا دنیا کا طالب۔‘‘
یقینًا علم کی پیاس ہوتی ہی ایسی ہے کہ جب کسی کو لگ جاتی ہے تو بندہ پھر علم ہی کا ہو کر رہتا ہے، پھربندے کو اِرد گرد کا احساس تک نہیں ہوتا کہ کیا ہورہا ہے۔چندواقعات بطور نمونہ ذکر کیے جاتے ہیں تاکہ معلوم ہو کہ ہمارے اکابر نے کن حالات میں علمی تشنگی کو دور کیا ہےورنہ تاریخ کے اوراق بھرے ہوے ہیں۔
(۱)… چنانچہ امام ثعلب رحمہ اللہ راستہ چلتے ہوئے بھی مطالعہ کیا کرتے تھے، سڑک کے کنارے چلتے تھے، کتاب ہاتھ میں ہوتی تھی اور پڑھتے ہوئے چلتے تھے۔ ان کو اردگرد کی ٹریفک کا اور لوگو ں کا کچھ پتا نہیں ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ مطالعہ کرتے ہوئے جا رہے تھے، گھوڑے نے ٹکر ماری، آگے گڑھا تھا، پتا نہ چلا اور گڑھے کے اندر جا گرے اور گرتے ہی بیہوش ہوگئے۔ اسی حال میں ان کو گھر لایا گیا اور گھر پہنچ کر وفات ہوگئی۔
[اہل دل کے واقعات بحوالہ شذرات الذہب:۲/۲۰۷]
ان حضرات کے لیے ہر چیز قا بل برداشت تھی لیکن علم کے حصول میں کوتاہی ہرگز قابل برداشت نہ تھی۔
(۲)…امام ابویوسف رحمہ اللہ کا چھوٹا بیٹا فوت ہوگیا تھا۔ اللہ کی شان کہ عین یہی وقت تھا کہ جب وہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا فقہ کے موضوع پر مشتمل درس سنا کرتے تھے اور لکھا کرتے تھے۔ اب ان کو فکر ہوئی۔ بالآخر انہوںنے اپنے بھائیوں کی منت سماجت کرکے کہا: بھئی! جنازہ یہاں پڑھ لیتے ہیں اور تدفین آپ لوگ جا کے کردینا، میں نہیں چاہتا کہ میرے استاذ کے سبق میں میرا ناغہ ہوجائے۔
[ایضا:آداب المتعلمین:۶۴،طلبہ کے لیے تربیتی واقعات:۱۲۴]
(۳)…علامہ ابن عقیل رحمہ اللہ کو اسی سال کی عمر میں علم حاصل کرنے کا اتنا شوق تھا کہ بیس سال کے نوجوان ان کے پاس بیٹھ کر شرمندہ ہوا کرتے تھے۔ وہ کتاب کا مطالعہ کرتے تھے اور روٹی جو آتی تھی پانی میں بھگو کر رکھ دیتے تھے۔ شاگرد نے پوچھا: حضرت! یہ روٹی بھگو کر کیوں کھاتے ہیں؟ فرمایا: اس طرح چبانے میں وقت کم لگتا ہے، جلدی کھا لیتا ہوں اور کھانے کا وقت بچا کر اس کو بھی مطالعہ میں لگا لیتا ہوں۔
[ایضاً بحوالہ طبقات الحنابلہ: ۱/۵۸،مطالعہ کی اہمیت: ۲۶۷]
(۴)…یحییٰ بن معین رحمہ اللہ ایک محدث ہیں، جرح اور تعدیل کے امام گنے جاتے ہیں۔ یعنی حدیث کے راویوں کو پرکھنے میں اللہ نے ان کو خصوصی انعام دیا تھا۔
ایک دفعہ ان کو پتا چلا کہ ایک محدث محمد بن فضیل رحمہ اللہ کے پاس ایک حدیث ہے جو انہوں نے پہلے نہیں سنی۔ یہ ان کے پاس گئے، دروازہ کھٹکھٹایا اور انہوں نے دورازہ کھولا تو دروازے میں کھڑے کھڑے انہوں نے ان سے پوچھا: کیسے آنا ہوا؟ کہنے لگے: میں آپ سے فلاں حدیث مبارکہ سننے کے لیے آیا ہوں۔ انہوں نے کہا: ہاں! مجھے وہ حدیث زبانی بھی یاد ہے اور میں نے کتاب میں بھی لکھی ہوئی ہے، تو میں ابھی آپ کو کتاب لا کر سنائے دیتا ہوں۔ توجب وہ واپس ہونے لگے تو یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے ان کی قمیص پکڑ کر عرض کیا: حضرت! کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کتاب لینے جائیں اور اس دوران مجھے یا آپ کو موت آجائے، اس لیے حدیث پہلے سنادیں، پھر اس کے بعد جا کے کتاب لے آنا، میں حدیث دوبارہ سن لوں گا۔
[ایضاً بحوالہ شمائل ترمذی: باب فی لباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم]
(۵)…محدث یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے اپنی ایک ملاقات میں صالح بن امام احمدرحمہ اللہ کو کہا: ’’آپ کے والد شرماتے نہیں؟ میں نے انہیں دیکھا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ سواری پر ہیں اور یہ ان کی رکاب پکڑے ہوئے پیدل چل رہے ہیں۔‘‘ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے بات پوچھی تو انہوں نے فرمایا: یحییٰ بن معین سے ملاقات ہو تو کہنا: میرے والد صاحب کہہ رہے تھے: اگر فقہ حاصل کرنا چاہتے ہو تو آؤ اور دوسری طرف کی رکاب تم تھام لو۔
[ایضاً:آداب المتعلمین: ۳۶]
آخر میں اپنے طالب علم بھائیوں کے لیے اپنے حضرت مدظلہ کی زبانی (لفظی تبدیلی کے ساتھ) دو ہدیے پیش کرتا ہوں قبول فرماکر اپنی دعائوں میں یاد رکھیں۔
( ہمارے حضرت حضرت پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی دامت فیوضہم فرماتے ہیں) اس عاجز کی طرف سے طلبہ دو باتیں بطورِ تحفہ سمجھ لیں۔
(۱)… اس عاجز نے بعض بزرگوں کا معمول پڑھا اور پھر اس کو آزما کر دیکھا کہ قوت حافظہ کے لیے مجرب ہے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے ایک مرتبہ پوری رات آیتقُلْ رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا پڑھتے ہوئے گزاردی اسی مناسبت سے وہ عمل یہ ہے کہ تہجد کی نماز میں (اس آیت سے آگے پیچھے کی اتنی آیات جن سے نماز کی مسنون قرأت ہوسکے پڑھ لے اور) ہر رکعت میں اس آیت کو اپنے ذوق کے مطابق جتنی مرتبہ چاہے پڑھے،اس طرح تہجد میں اس آیت کا چند دنوں تک بار بار وِرد کرنے کی برکت سے اللہ تعالیٰ اسے شرح صدر عطا فرمادیں گے اور اس کا سینہ علم کے لیے کھل جائے گا۔
(۲)… ایک دوسرا عمل: کسی بزرگ نے اس عاجز کو اس کی اجازت دی تھی اور آج آپ لوگوں کو اس کی اجازت دے دیتے ہیں، فائدہ اُٹھائیں۔
طلبہ، طالبات خود یاان کے ماں باپ روزانہ ہر نماز کے بعد سورۂ الم نشرح پڑھ کر ان کے سینے پر پھونک مار دیا کریں، اول آخر ایک ایک مرتبہ درود شریف بھی پڑھیں، اگر بچے سمجھدار اور بڑے ہوں تو جب بھی پڑھنے بیٹھیں، پیپر دینے بیٹھیں، لیکچر سننے بیٹھیں یا استاذ کا درس سننے بیٹھیں تو یہ پوری سورۃ پڑھ کر اپنے سینے پر پھونک مار دیں، جو آدمی اس کو اپنا معمول بنالے گا اللہ تعالیٰ اس کا حافظہ قوی فرمادیں گے، اس عاجز نے اس عمل کو ہزاروں دوستوں پر آزمایا ہے۔
اللہ تعالی ہمیں بھی علمی ذوق نصیب فرمائیں آمین
چھوٹے بچوں کو دیکھتے ہیں کہ کوئی کھلونا جب ان کے ہاتھ میں آتا ہے تو کچھ ہی دیر کے بعد وہ کھلونا دو، چار حصوں میں تبدیل ہو چکا ہو تا ہے ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ہمارے حضرت پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں: چونکہ بچہ جاننا چاہ رہا ہوتا ہے کہ اس کے اندر کیا کیا چیز ہے۔ گویا! اس بچے کی جستجو کا جذبہ اس کو اس طرح کرنے پر مجبور کرتا ہے اور بچہ اس جذبے کی تسکین کے لیے اپنے پسندیدہ کھلونے کا آپریشن کرتا ہے۔ تو معلوم ہوا کہ ہر انسان کے اندر یہ جذبہ موجود ہوتا ہے۔
فرق صرف اتنا ہے کہ مادی دنیاکے لوگ نت نئی ایجادات کے ذریعے سے اپنے اس جذبے کو تسکین پہنچاتے ہیں کبھی کسی چیز پر ریسرچ ہورہی ہوتی ہے اور کبھی کسی چیز پر، کبھی زمین کی گہرائیوں کو ناپا جارہا ہوتا ہے تو کبھی آسمان کی بلندیوں کو چھونے کی کوشش ہورہی ہوتی ہے۔ غرض ہر کوئی کسی نہ انداز میں اندر کے اس جذبے کا اظہار کر رہا ہوتا ہے۔
لیکن علمِ حقیقی کے متوالوں کی تو شان ہی کچھ اور ہے ہمارے اکابر علم کی تلاش میں دن رات کا فرق مٹادیا کرتے تھے، بھوک پیاس کی شدت کی انہیں پرواہ ہی نہیں تھی، دنیاوی مفاد ان حضرات کے قریب بھی نہیں بھٹک سکتا تھا، ضروریات کو تو یہ لوگ سد راہ سمجھتے ہی نہیں تھے حقیقت تو یہ ہے کہ جومشقتیں حصولِ علم کی کوششوں میں ہمارے اکابر نے برداشت کی ہیں تاریخِ انسانیت اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
اکابر کے حالات زندگی پڑھ کر بندہ حیران ہوتا ہے کہ کیسے ان حضرات نے تحصیل علم کے لیے اپنے آپ کو کھپادیا تھا لیکن علم کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔
نبی نے بھی ارشاد فرمایا:
((مَنْهُوْمَانِ لَا يَشْبَعَانِ؛ طَالِبُ الْعِلْمِ وَطَالِبُ الدُّنْيَا.)) [کنزالعمال:۲۹۳۲۸]
’’دوحریص کبھی سیر نہیں ہوتے ایک علم کا طالب دوسرا دنیا کا طالب۔‘‘
یقینًا علم کی پیاس ہوتی ہی ایسی ہے کہ جب کسی کو لگ جاتی ہے تو بندہ پھر علم ہی کا ہو کر رہتا ہے، پھربندے کو اِرد گرد کا احساس تک نہیں ہوتا کہ کیا ہورہا ہے۔چندواقعات بطور نمونہ ذکر کیے جاتے ہیں تاکہ معلوم ہو کہ ہمارے اکابر نے کن حالات میں علمی تشنگی کو دور کیا ہےورنہ تاریخ کے اوراق بھرے ہوے ہیں۔
(۱)… چنانچہ امام ثعلب رحمہ اللہ راستہ چلتے ہوئے بھی مطالعہ کیا کرتے تھے، سڑک کے کنارے چلتے تھے، کتاب ہاتھ میں ہوتی تھی اور پڑھتے ہوئے چلتے تھے۔ ان کو اردگرد کی ٹریفک کا اور لوگو ں کا کچھ پتا نہیں ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ مطالعہ کرتے ہوئے جا رہے تھے، گھوڑے نے ٹکر ماری، آگے گڑھا تھا، پتا نہ چلا اور گڑھے کے اندر جا گرے اور گرتے ہی بیہوش ہوگئے۔ اسی حال میں ان کو گھر لایا گیا اور گھر پہنچ کر وفات ہوگئی۔
[اہل دل کے واقعات بحوالہ شذرات الذہب:۲/۲۰۷]
ان حضرات کے لیے ہر چیز قا بل برداشت تھی لیکن علم کے حصول میں کوتاہی ہرگز قابل برداشت نہ تھی۔
(۲)…امام ابویوسف رحمہ اللہ کا چھوٹا بیٹا فوت ہوگیا تھا۔ اللہ کی شان کہ عین یہی وقت تھا کہ جب وہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا فقہ کے موضوع پر مشتمل درس سنا کرتے تھے اور لکھا کرتے تھے۔ اب ان کو فکر ہوئی۔ بالآخر انہوںنے اپنے بھائیوں کی منت سماجت کرکے کہا: بھئی! جنازہ یہاں پڑھ لیتے ہیں اور تدفین آپ لوگ جا کے کردینا، میں نہیں چاہتا کہ میرے استاذ کے سبق میں میرا ناغہ ہوجائے۔
[ایضا:آداب المتعلمین:۶۴،طلبہ کے لیے تربیتی واقعات:۱۲۴]
(۳)…علامہ ابن عقیل رحمہ اللہ کو اسی سال کی عمر میں علم حاصل کرنے کا اتنا شوق تھا کہ بیس سال کے نوجوان ان کے پاس بیٹھ کر شرمندہ ہوا کرتے تھے۔ وہ کتاب کا مطالعہ کرتے تھے اور روٹی جو آتی تھی پانی میں بھگو کر رکھ دیتے تھے۔ شاگرد نے پوچھا: حضرت! یہ روٹی بھگو کر کیوں کھاتے ہیں؟ فرمایا: اس طرح چبانے میں وقت کم لگتا ہے، جلدی کھا لیتا ہوں اور کھانے کا وقت بچا کر اس کو بھی مطالعہ میں لگا لیتا ہوں۔
[ایضاً بحوالہ طبقات الحنابلہ: ۱/۵۸،مطالعہ کی اہمیت: ۲۶۷]
(۴)…یحییٰ بن معین رحمہ اللہ ایک محدث ہیں، جرح اور تعدیل کے امام گنے جاتے ہیں۔ یعنی حدیث کے راویوں کو پرکھنے میں اللہ نے ان کو خصوصی انعام دیا تھا۔
ایک دفعہ ان کو پتا چلا کہ ایک محدث محمد بن فضیل رحمہ اللہ کے پاس ایک حدیث ہے جو انہوں نے پہلے نہیں سنی۔ یہ ان کے پاس گئے، دروازہ کھٹکھٹایا اور انہوں نے دورازہ کھولا تو دروازے میں کھڑے کھڑے انہوں نے ان سے پوچھا: کیسے آنا ہوا؟ کہنے لگے: میں آپ سے فلاں حدیث مبارکہ سننے کے لیے آیا ہوں۔ انہوں نے کہا: ہاں! مجھے وہ حدیث زبانی بھی یاد ہے اور میں نے کتاب میں بھی لکھی ہوئی ہے، تو میں ابھی آپ کو کتاب لا کر سنائے دیتا ہوں۔ توجب وہ واپس ہونے لگے تو یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے ان کی قمیص پکڑ کر عرض کیا: حضرت! کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کتاب لینے جائیں اور اس دوران مجھے یا آپ کو موت آجائے، اس لیے حدیث پہلے سنادیں، پھر اس کے بعد جا کے کتاب لے آنا، میں حدیث دوبارہ سن لوں گا۔
[ایضاً بحوالہ شمائل ترمذی: باب فی لباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم]
(۵)…محدث یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے اپنی ایک ملاقات میں صالح بن امام احمدرحمہ اللہ کو کہا: ’’آپ کے والد شرماتے نہیں؟ میں نے انہیں دیکھا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ سواری پر ہیں اور یہ ان کی رکاب پکڑے ہوئے پیدل چل رہے ہیں۔‘‘ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے بات پوچھی تو انہوں نے فرمایا: یحییٰ بن معین سے ملاقات ہو تو کہنا: میرے والد صاحب کہہ رہے تھے: اگر فقہ حاصل کرنا چاہتے ہو تو آؤ اور دوسری طرف کی رکاب تم تھام لو۔
[ایضاً:آداب المتعلمین: ۳۶]
آخر میں اپنے طالب علم بھائیوں کے لیے اپنے حضرت مدظلہ کی زبانی (لفظی تبدیلی کے ساتھ) دو ہدیے پیش کرتا ہوں قبول فرماکر اپنی دعائوں میں یاد رکھیں۔
( ہمارے حضرت حضرت پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی دامت فیوضہم فرماتے ہیں) اس عاجز کی طرف سے طلبہ دو باتیں بطورِ تحفہ سمجھ لیں۔
(۱)… اس عاجز نے بعض بزرگوں کا معمول پڑھا اور پھر اس کو آزما کر دیکھا کہ قوت حافظہ کے لیے مجرب ہے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے ایک مرتبہ پوری رات آیتقُلْ رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا پڑھتے ہوئے گزاردی اسی مناسبت سے وہ عمل یہ ہے کہ تہجد کی نماز میں (اس آیت سے آگے پیچھے کی اتنی آیات جن سے نماز کی مسنون قرأت ہوسکے پڑھ لے اور) ہر رکعت میں اس آیت کو اپنے ذوق کے مطابق جتنی مرتبہ چاہے پڑھے،اس طرح تہجد میں اس آیت کا چند دنوں تک بار بار وِرد کرنے کی برکت سے اللہ تعالیٰ اسے شرح صدر عطا فرمادیں گے اور اس کا سینہ علم کے لیے کھل جائے گا۔
(۲)… ایک دوسرا عمل: کسی بزرگ نے اس عاجز کو اس کی اجازت دی تھی اور آج آپ لوگوں کو اس کی اجازت دے دیتے ہیں، فائدہ اُٹھائیں۔
طلبہ، طالبات خود یاان کے ماں باپ روزانہ ہر نماز کے بعد سورۂ الم نشرح پڑھ کر ان کے سینے پر پھونک مار دیا کریں، اول آخر ایک ایک مرتبہ درود شریف بھی پڑھیں، اگر بچے سمجھدار اور بڑے ہوں تو جب بھی پڑھنے بیٹھیں، پیپر دینے بیٹھیں، لیکچر سننے بیٹھیں یا استاذ کا درس سننے بیٹھیں تو یہ پوری سورۃ پڑھ کر اپنے سینے پر پھونک مار دیں، جو آدمی اس کو اپنا معمول بنالے گا اللہ تعالیٰ اس کا حافظہ قوی فرمادیں گے، اس عاجز نے اس عمل کو ہزاروں دوستوں پر آزمایا ہے۔
اللہ تعالی ہمیں بھی علمی ذوق نصیب فرمائیں آمین