تشنگانِ علم کے نام

تلاش اور جستجو اللہ تعالیٰ کی وہ نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے اندر ودیعت رکھی ہے۔ وہ بوڑھا ہو یا جوان، شہری ہو یا دیہاتی، عربی ہو یا عجمی، مسلمان ہو یا کافر، حتی کہ انتہائی چھوٹا بچہ بھی اس صفت سے متصف نظر آتا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ انسان بچپن سے لے کر جوانی اور پھر بڑھاپے تک اسی تگ و دو میں رہتا ہے کہ نئی سے نئی چیز حاصل کروں۔ استاذِ محترم حضرت شیخ الحدیث مولانا حبیب اللہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ فرمایا کرتے ہیں: لوگ صبح صبح ٹی وی آن کر لیتے ہیں، اخبار پڑھتے ہیں کہ معلوم ہو کہ دنیا میں کیا ہورہا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ یہی جستجو ہے جو انسان کو چین نہیں لینے دیتی۔ ہر وقت انسان اسی تلاش میں ہوتا ہے کہ کوئی نئی خبر نئی بات مجھے مل جائے۔
چھوٹے بچوں کو دیکھتے ہیں کہ کوئی کھلونا جب ان کے ہاتھ میں آتا ہے تو کچھ ہی دیر کے بعد وہ کھلونا دو، چار حصوں میں تبدیل ہو چکا ہو تا ہے ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ہمارے حضرت پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں: چونکہ بچہ جاننا چاہ رہا ہوتا ہے کہ اس کے اندر کیا کیا چیز ہے۔ گویا! اس بچے کی جستجو کا جذبہ اس کو اس طرح کرنے پر مجبور کرتا ہے اور بچہ اس جذبے کی تسکین کے لیے اپنے پسندیدہ کھلونے کا آپریشن کرتا ہے۔ تو معلوم ہوا کہ ہر انسان کے اندر یہ جذبہ موجود ہوتا ہے۔
فرق صرف اتنا ہے کہ مادی دنیاکے لوگ نت نئی ایجادات کے ذریعے سے اپنے اس جذبے کو تسکین پہنچاتے ہیں کبھی کسی چیز پر ریسرچ ہورہی ہوتی ہے اور کبھی کسی چیز پر، کبھی زمین کی گہرائیوں کو ناپا جارہا ہوتا ہے تو کبھی آسمان کی بلندیوں کو چھونے کی کوشش ہورہی ہوتی ہے۔ غرض ہر کوئی کسی نہ انداز میں اندر کے اس جذبے کا اظہار کر رہا ہوتا ہے۔
لیکن علمِ حقیقی کے متوالوں کی تو شان ہی کچھ اور ہے ہمارے اکابر علم کی تلاش میں دن رات کا فرق مٹادیا کرتے تھے، بھوک پیاس کی شدت کی انہیں پرواہ ہی نہیں تھی، دنیاوی مفاد ان حضرات کے قریب بھی نہیں بھٹک سکتا تھا، ضروریات کو تو یہ لوگ سد راہ سمجھتے ہی نہیں تھے حقیقت تو یہ ہے کہ جومشقتیں حصولِ علم کی کوششوں میں ہمارے اکابر نے برداشت کی ہیں تاریخِ انسانیت اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
اکابر کے حالات زندگی پڑھ کر بندہ حیران ہوتا ہے کہ کیسے ان حضرات نے تحصیل علم کے لیے اپنے آپ کو کھپادیا تھا لیکن علم کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔
نبی نے بھی ارشاد فرمایا:
((مَنْهُوْمَانِ لَا يَشْبَعَانِ؛ طَالِبُ الْعِلْمِ وَطَالِبُ الدُّنْيَا.)) [کنزالعمال:۲۹۳۲۸]
’’دوحریص کبھی سیر نہیں ہوتے ایک علم کا طالب دوسرا دنیا کا طالب۔‘‘
یقینًا علم کی پیاس ہوتی ہی ایسی ہے کہ جب کسی کو لگ جاتی ہے تو بندہ پھر علم ہی کا ہو کر رہتا ہے، پھربندے کو اِرد گرد کا احساس تک نہیں ہوتا کہ کیا ہورہا ہے۔چندواقعات بطور نمونہ ذکر کیے جاتے ہیں تاکہ معلوم ہو کہ ہمارے اکابر نے کن حالات میں علمی تشنگی کو دور کیا ہےورنہ تاریخ کے اوراق بھرے ہوے ہیں۔
(۱)… چنانچہ امام ثعلب رحمہ اللہ راستہ چلتے ہوئے بھی مطالعہ کیا کرتے تھے، سڑک کے کنارے چلتے تھے، کتاب ہاتھ میں ہوتی تھی اور پڑھتے ہوئے چلتے تھے۔ ان کو اردگرد کی ٹریفک کا اور لوگو ں کا کچھ پتا نہیں ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ مطالعہ کرتے ہوئے جا رہے تھے، گھوڑے نے ٹکر ماری، آگے گڑھا تھا، پتا نہ چلا اور گڑھے کے اندر جا گرے اور گرتے ہی بیہوش ہوگئے۔ اسی حال میں ان کو گھر لایا گیا اور گھر پہنچ کر وفات ہوگئی۔
[اہل دل کے واقعات بحوالہ شذرات الذہب:۲/۲۰۷]
ان حضرات کے لیے ہر چیز قا بل برداشت تھی لیکن علم کے حصول میں کوتاہی ہرگز قابل برداشت نہ تھی۔
(۲)…امام ابویوسف رحمہ اللہ کا چھوٹا بیٹا فوت ہوگیا تھا۔ اللہ کی شان کہ عین یہی وقت تھا کہ جب وہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا فقہ کے موضوع پر مشتمل درس سنا کرتے تھے اور لکھا کرتے تھے۔ اب ان کو فکر ہوئی۔ بالآخر انہوںنے اپنے بھائیوں کی منت سماجت کرکے کہا: بھئی! جنازہ یہاں پڑھ لیتے ہیں اور تدفین آپ لوگ جا کے کردینا، میں نہیں چاہتا کہ میرے استاذ کے سبق میں میرا ناغہ ہوجائے۔
[ایضا:آداب المتعلمین:۶۴،طلبہ کے لیے تربیتی واقعات:۱۲۴]
(۳)…علامہ ابن عقیل رحمہ اللہ کو اسی سال کی عمر میں علم حاصل کرنے کا اتنا شوق تھا کہ بیس سال کے نوجوان ان کے پاس بیٹھ کر شرمندہ ہوا کرتے تھے۔ وہ کتاب کا مطالعہ کرتے تھے اور روٹی جو آتی تھی پانی میں بھگو کر رکھ دیتے تھے۔ شاگرد نے پوچھا: حضرت! یہ روٹی بھگو کر کیوں کھاتے ہیں؟ فرمایا: اس طرح چبانے میں وقت کم لگتا ہے، جلدی کھا لیتا ہوں اور کھانے کا وقت بچا کر اس کو بھی مطالعہ میں لگا لیتا ہوں۔
[ایضاً بحوالہ طبقات الحنابلہ: ۱/۵۸،مطالعہ کی اہمیت: ۲۶۷]
(۴)…یحییٰ بن معین رحمہ اللہ ایک محدث ہیں، جرح اور تعدیل کے امام گنے جاتے ہیں۔ یعنی حدیث کے راویوں کو پرکھنے میں اللہ نے ان کو خصوصی انعام دیا تھا۔
ایک دفعہ ان کو پتا چلا کہ ایک محدث محمد بن فضیل رحمہ اللہ کے پاس ایک حدیث ہے جو انہوں نے پہلے نہیں سنی۔ یہ ان کے پاس گئے، دروازہ کھٹکھٹایا اور انہوں نے دورازہ کھولا تو دروازے میں کھڑے کھڑے انہوں نے ان سے پوچھا: کیسے آنا ہوا؟ کہنے لگے: میں آپ سے فلاں حدیث مبارکہ سننے کے لیے آیا ہوں۔ انہوں نے کہا: ہاں! مجھے وہ حدیث زبانی بھی یاد ہے اور میں نے کتاب میں بھی لکھی ہوئی ہے، تو میں ابھی آپ کو کتاب لا کر سنائے دیتا ہوں۔ توجب وہ واپس ہونے لگے تو یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے ان کی قمیص پکڑ کر عرض کیا: حضرت! کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کتاب لینے جائیں اور اس دوران مجھے یا آپ کو موت آجائے، اس لیے حدیث پہلے سنادیں، پھر اس کے بعد جا کے کتاب لے آنا، میں حدیث دوبارہ سن لوں گا۔
[ایضاً بحوالہ شمائل ترمذی: باب فی لباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم]
(۵)…محدث یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے اپنی ایک ملاقات میں صالح بن امام احمدرحمہ اللہ کو کہا: ’’آپ کے والد شرماتے نہیں؟ میں نے انہیں دیکھا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ سواری پر ہیں اور یہ ان کی رکاب پکڑے ہوئے پیدل چل رہے ہیں۔‘‘ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے بات پوچھی تو انہوں نے فرمایا: یحییٰ بن معین سے ملاقات ہو تو کہنا: میرے والد صاحب کہہ رہے تھے: اگر فقہ حاصل کرنا چاہتے ہو تو آؤ اور دوسری طرف کی رکاب تم تھام لو۔
[ایضاً:آداب المتعلمین: ۳۶]
آخر میں اپنے طالب علم بھائیوں کے لیے اپنے حضرت مدظلہ کی زبانی (لفظی تبدیلی کے ساتھ) دو ہدیے پیش کرتا ہوں قبول فرماکر اپنی دعائوں میں یاد رکھیں۔
( ہمارے حضرت حضرت پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی دامت فیوضہم فرماتے ہیں) اس عاجز کی طرف سے طلبہ دو باتیں بطورِ تحفہ سمجھ لیں۔
(۱)… اس عاجز نے بعض بزرگوں کا معمول پڑھا اور پھر اس کو آزما کر دیکھا کہ قوت حافظہ کے لیے مجرب ہے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے ایک مرتبہ پوری رات آیتقُلْ رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا پڑھتے ہوئے گزاردی اسی مناسبت سے وہ عمل یہ ہے کہ تہجد کی نماز میں (اس آیت سے آگے پیچھے کی اتنی آیات جن سے نماز کی مسنون قرأت ہوسکے پڑھ لے اور) ہر رکعت میں اس آیت کو اپنے ذوق کے مطابق جتنی مرتبہ چاہے پڑھے،اس طرح تہجد میں اس آیت کا چند دنوں تک بار بار وِرد کرنے کی برکت سے اللہ تعالیٰ اسے شرح صدر عطا فرمادیں گے اور اس کا سینہ علم کے لیے کھل جائے گا۔
(۲)… ایک دوسرا عمل: کسی بزرگ نے اس عاجز کو اس کی اجازت دی تھی اور آج آپ لوگوں کو اس کی اجازت دے دیتے ہیں، فائدہ اُٹھائیں۔
طلبہ، طالبات خود یاان کے ماں باپ روزانہ ہر نماز کے بعد سورۂ الم نشرح پڑھ کر ان کے سینے پر پھونک مار دیا کریں، اول آخر ایک ایک مرتبہ درود شریف بھی پڑھیں، اگر بچے سمجھدار اور بڑے ہوں تو جب بھی پڑھنے بیٹھیں، پیپر دینے بیٹھیں، لیکچر سننے بیٹھیں یا استاذ کا درس سننے بیٹھیں تو یہ پوری سورۃ پڑھ کر اپنے سینے پر پھونک مار دیں، جو آدمی اس کو اپنا معمول بنالے گا اللہ تعالیٰ اس کا حافظہ قوی فرمادیں گے، اس عاجز نے اس عمل کو ہزاروں دوستوں پر آزمایا ہے۔
اللہ تعالی ہمیں بھی علمی ذوق نصیب فرمائیں آمین
 

شمشاد

لائبریرین
محترم مندرجہ بالا تحریر اگر آپ کی اپنی ہے تو بے شک بہت اچھی تحریر ہے۔ اور اگر آپ نے کہیں سے نقل کر کے یہاں چسپاں کی ہے، تو آپ کو اس کا حوالہ دینا چاہیے تھا۔
مجھے یہ تحریر فیسبک پر Pratilipi Urdu کی وال پر بھی لکھی ہوئی ملی ہے۔

محمد خلیل الرحمٰن بھائی اس کے متعلق کوئی ضابطہ یا اردو محفل کی کوئی پالیسی ہو تو مطلع فرمائیں۔
 

فاخر رضا

محفلین
محترم مندرجہ بالا تحریر اگر آپ کی اپنی ہے تو بے شک بہت اچھی تحریر ہے۔ اور اگر آپ نے کہیں سے نقل کر کے یہاں چسپاں کی ہے، تو آپ کو اس کا حوالہ دینا چاہیے تھا۔
مجھے یہ تحریر فیسبک پر Pratilipi Urdu کی وال پر بھی لکھی ہوئی ملی ہے۔

محمد خلیل الرحمٰن بھائی اس کے متعلق کوئی ضابطہ یا اردو محفل کی کوئی پالیسی ہو تو مطلع فرمائیں۔
یہ تو اخلاقی معاملہ ہے. اس میں پالیسی بھی اس کے علاوہ کیا ہوسکتی ہے جو آپ نے بیان کی. اپنا کریڈٹ لینا اور اور دوسرے کا کریڈٹ اسکو دینا ہے
 
محمد عمر بن عبد العزیز بھائی انٹر نیٹ یا کسی بھی کتاب سے اقتباس لے کر کہیں پیش کرتے وقت یہ ضروری ہوتا ہے کہ آپ اپنی پیشکش کے ساتھ لکھنے والے کا نام اور اصل ماخذ کا حوالہ بھی دیں۔ نیز اس قسم کی تحاریر کے لیے دوسرے زمرے موجود ہیں۔ "آپ کی تحریریں" نامی اس زمرے میں قلم کار اپنی تخلیق کی ہوئی تحریریں شریک کرتے ہیں۔

آپ نے تحریر کے آخر میں "بہت عمدہ" کا ٹیگ استعمال کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے شاید یہ تحریر آپ نے کہیں سے مستعار لی ہے۔ ایسی صورت میں حوالہ بھی پیش فرمائیے۔
 
آخری تدوین:
محترم مندرجہ بالا تحریر اگر آپ کی اپنی ہے تو بے شک بہت اچھی تحریر ہے۔ اور اگر آپ نے کہیں سے نقل کر کے یہاں چسپاں کی ہے، تو آپ کو اس کا حوالہ دینا چاہیے تھا۔
مجھے یہ تحریر فیسبک پر Pratilipi Urdu کی وال پر بھی لکھی ہوئی ملی ہے۔

محمد خلیل الرحمٰن بھائی اس کے متعلق کوئی ضابطہ یا اردو محفل کی کوئی پالیسی ہو تو مطلع فرمائیں۔

یہ تو اخلاقی معاملہ ہے. اس میں پالیسی بھی اس کے علاوہ کیا ہوسکتی ہے جو آپ نے بیان کی. اپنا کریڈٹ لینا اور اور دوسرے کا کریڈٹ اسکو دینا ہے

شمشاد بھائی آپ نے درست نشاندھی فرمائی ہے نیز ہمارے نام آپ کے استفسار نے ہمیں بھی حیران کیا۔ آپ تو اس فورم کے موڈریٹر رہ چکے ہیں اور اس کے اصول و ضوابط سے واقف بھی۔ فاخر رضا بھائی نے درست کہا کہ یہ اخلاقی معاملہ ہے اور اس کے ضوابط وہی ہیں۔
 
محمد عمر بن عبد العزیز بھائی انٹر نیٹ یا کسی بھی کتاب سے اقتباس لے کر کہیں پیش کرتے وقت یہ ضروری ہوتا ہے کہ آپ اپنی پیشکش کے ساتھ لکھنے والے کا نام اور اصل ماخذ کا حوالہ بھی دیں۔ نیز اس قسم کی تحاریر کے لیے دوسرے زمرے موجود ہیں۔ "آپ کی تحریریں" نامی اس زمرے میں قلم کار اپنی تخلیق کی ہوئی تحریریں شریک کرتے ہیں۔

آپ نے تحریر کے آخر میں "بہت عمدہ" کا ٹیگ استعمال کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے شاید یہ تحریر آپ نے کہیں سے مستعار لی ہے۔ ایسی صورت میں حوالہ بھی پیش فرمائیے۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم المقام آپ کی توجہ اور مشورہ کا بے حد ممنون ومشکور ہوں، آپ نے امید سے بڑھ کر شفقت فرمائی۔
یہ تحریر بندہ کی ذاتی ہے اور روزنامہ اسلام کے صفحہ جھلمل،ماہنامہ الاکابر اور Pratilipi Urdu اور اس کے فیس بک پیج پر بندہ کے نام سے ہی شائع ہوچکی ہے،فللہ الحمد ۔
باقی رہی آپ کی یہ بات کہ بندہ نے بہت عمدہ جو لکھا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ بندہ اردو محفل میں نو وارد ہے، جس کی وجہ سے اس کی ترتیب اور رد عمل وغیرہ میں اجنبی ہے، یہ بات کسی اور تحریر کے تبصرہ کے طور پر لکھنا چاہتا تھا، لیکن جب لگا تو دیکھا کہ بندہ کی اپنی تحریر پر لگ گیا ہے تو بہت افسوس ہوا اور پھر متعدد بار اس کو ہٹانے کی کوشش کے باوجود اس کو نہ ہٹا سکا۔
امید ہے عذر قابل قبول ہوگا اور تشفی ہوگئی ہوگی۔
مزید کوئی بات ہو تو بندہ حاضر ہے۔ اور رہنمائی کا طلبگار ہے۔
محمد عمر بن عبد العزیز
 

شمشاد

لائبریرین
محمد عمر بن عبد العزیز صاحب اردو محفل میں خوش آمدید۔

اپنا تعارف تو دیں تاکہ دوسرے اراکین اردو محفل آپ سے متعارف ہو سکیں۔

یہ رہا تعارف کا زمرہ

ان شاء اللہ آپ سے مراست رہے گی۔

کسی بھی قسم کی مدد چاہیے ہو تو بلا تکلف پوچھ سکتے ہیں۔ آپ اردو محفل کے ہر رکن کو مددگار پائیں گے۔
 
اپنا تعارف تو دیں تاکہ دوسرے اراکین اردو محفل آپ سے متعارف ہو سکیں۔
بندہ محمد عمر بن عبد العزیز جھنگ صدر کا رہائشی ہے، جھنگ کی ہی ایک مسجد میں بطور امام مقرر ہے، مدرسہ معہد الفقیر الاسلامی العالمی جھنگ کا فضل ہے، اور اسی ادارے کے ایک شعبہ ای معہد ادارے میں بطور آن لائن ٹیچر اور مکتبۃ الفقیر میں کمپوزنگ، پروف ریڈنگ اور تخریج کی مصروفیات ہیں۔
بندہ کے خیال میں اتنا ہی کافی ہے شاید
 
کسی بھی قسم کی مدد چاہیے ہو تو بلا تکلف پوچھ سکتے ہیں۔ آپ اردو محفل کے ہر رکن کو مددگار پائیں گے۔
نوازشات کی بارش ……………
بہت بہت بلکہ بہت ہی شکریہ
جزاک اللہ خیرا کثیرا کثیرا واحسن الجزاء فی الدنیا والآخرۃ
 

شمشاد

لائبریرین
بندہ محمد عمر بن عبد العزیز جھنگ صدر کا رہائشی ہے، جھنگ کی ہی ایک مسجد میں بطور امام مقرر ہے، مدرسہ معہد الفقیر الاسلامی العالمی جھنگ کا فضل ہے، اور اسی ادارے کے ایک شعبہ ای معہد ادارے میں بطور آن لائن ٹیچر اور مکتبۃ الفقیر میں کمپوزنگ، پروف ریڈنگ اور تخریج کی مصروفیات ہیں۔
بندہ کے خیال میں اتنا ہی کافی ہے شاید
ماشاء اللہ

آپ سے عرض کی تھی کہ ادھر "تعارف" کے زمرے میں اپنا تعارف دیں، تاکہ دوسرے اراکین اردو محفل آپ سے متعارف ہو سکیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
بندہ محمد عمر بن عبد العزیز جھنگ صدر کا رہائشی ہے، جھنگ کی ہی ایک مسجد میں بطور امام مقرر ہے، مدرسہ معہد الفقیر الاسلامی العالمی جھنگ کا فضل ہے، اور اسی ادارے کے ایک شعبہ ای معہد ادارے میں بطور آن لائن ٹیچر اور مکتبۃ الفقیر میں کمپوزنگ، پروف ریڈنگ اور تخریج کی مصروفیات ہیں۔
بندہ کے خیال میں اتنا ہی کافی ہے شاید
یہ کمپوزنگ کس طرح کرتے ہیں؟
 
یہ کمپوزنگ کس طرح کرتے ہیں؟
ہمارا کام ان پیج میں ہوتا ہے اور اپنے پیر ومرشد حضرت پیر ذوالفقار احمد نقشبندی دامت برکاتہم العالیہ کی تصانیف اور خطبات ان پیج میں کمپوز کرکے مکتبۃ الفقیر کو ارسال کردیتے ہیں
 

سیما علی

لائبریرین
تلاش اور جستجو اللہ تعالیٰ کی وہ نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے اندر ودیعت رکھی ہے۔ وہ بوڑھا ہو یا جوان، شہری ہو یا دیہاتی، عربی ہو یا عجمی، مسلمان ہو یا کافر، حتی کہ انتہائی چھوٹا بچہ بھی اس صفت سے متصف نظر آتا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ انسان بچپن سے لے کر جوانی اور پھر بڑھاپے تک اسی تگ و دو میں رہتا ہے کہ نئی سے نئی چیز حاصل کروں۔
ماشاء اللّہ ماشاء اللّہ بہت خوب تحریر بے شک تلاش و جستجو پرودگار کی نعمتوں میں سے ایک گراں قدر نعمت ہے ؀
یہاں ایک واقعہ لکھنا چاہوں گی:
خواجہ حسن بصریؒ اپنے علم و فضل کی وجہ سے عوام النّاس میں بے انتہا مقبول تھے۔ لوگ ان سے بے پناہ عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ بنو اُمیّہ کا سخت مزاج حاکم، حجّاج بن یوسف بصرے کا گورنر تھا۔ ایک دن اس نے خالد بن صفوان سے پوچھا ’’بصرے کا سردار کون ہے؟‘‘ اس کا خیال تھا کہ خالد بن صفوان اس کا نام لیتے ہوئے تعریفی کلمات کہیں گے، لیکن خالد نے جواب دیا کہ ’’حسن‘‘ حجّاج نے حیران ہوکر تعجب سے پوچھا کہ ’’یہ کیوںکر ممکن ہے، حسن تو غلاموں کی اولاد ہے۔‘‘ خالد نے نڈر ہوکر بھرے دربار میں جواب دیا۔ ’’حسن اس لیے سردار ہیں کہ لوگ اپنے دین میں ان کے محتاج ہیں اور وہ ان کی دُنیا میں کسی کے محتاج نہیں۔ بہ خدا! میں نے بصرے میں کسی عزت دار کو نہیں دیکھا، جو حسن کے حلقے میں پہنچنے کی کوشش نہ کرتا ہو۔ ہر شخص ان کا وعظ سننے اور ان سے علم حاصل کرنےکا آرزومند رہتا ہے۔‘‘ یہ سن کر حجّاج بے اختیار بول پڑا، ’’خدا کی قسم یہی سرداری ہے۔‘‘ اس دو واقعہ سے علماء کی قدر و منزلت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ خود قرآنِ کریم میں اللہ رب العزت اپنے محبوبؐ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ ’’(اے نبی!) ان سے پوچھو کہ کیا علم رکھنے والے اور علم نہ رکھنےوالے کبھی یکساں ہوسکتے ہیں۔‘‘ (سورۃ الزمر)
پس یہی جستجو انسان کو عزت و تکریم سے نوازتی ہے ۔۔
بہت ڈھیر ساری دعائیں آپ کے لئیے ،سلامت رہیے ۔۔۔
 
بے شک تلاش و جستجو پرودگار کی نعمتوں میں سے ایک گراں قدر نعمت ہے ؀
یہاں ایک واقعہ لکھنا چاہوں گی:
خواجہ حسن بصریؒ اپنے علم و فضل کی وجہ سے عوام النّاس میں بے انتہا مقبول تھے۔ لوگ ان سے بے پناہ عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ بنو اُمیّہ کا سخت مزاج حاکم، حجّاج بن یوسف بصرے کا گورنر تھا۔ ایک دن اس نے خالد بن صفوان سے پوچھا ’’بصرے کا سردار کون ہے؟‘‘ اس کا خیال تھا کہ خالد بن صفوان اس کا نام لیتے ہوئے تعریفی کلمات کہیں گے، لیکن خالد نے جواب دیا کہ ’’حسن‘‘ حجّاج نے حیران ہوکر تعجب سے پوچھا کہ ’’یہ کیوںکر ممکن ہے، حسن تو غلاموں کی اولاد ہے۔‘‘ خالد نے نڈر ہوکر بھرے دربار میں جواب دیا۔ ’’حسن اس لیے سردار ہیں کہ لوگ اپنے دین میں ان کے محتاج ہیں اور وہ ان کی دُنیا میں کسی کے محتاج نہیں۔ بہ خدا! میں نے بصرے میں کسی عزت دار کو نہیں دیکھا، جو حسن کے حلقے میں پہنچنے کی کوشش نہ کرتا ہو۔ ہر شخص ان کا وعظ سننے اور ان سے علم حاصل کرنےکا آرزومند رہتا ہے۔‘‘ یہ سن کر حجّاج بے اختیار بول پڑا، ’’خدا کی قسم یہی سرداری ہے۔‘‘ اس دو واقعہ سے علماء کی قدر و منزلت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ خود قرآنِ کریم میں اللہ رب العزت اپنے محبوبؐ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ ’’(اے نبی!) ان سے پوچھو کہ کیا علم رکھنے والے اور علم نہ رکھنےوالے کبھی یکساں ہوسکتے ہیں۔‘‘ (سورۃ الزمر)
پس یہی جستجو انسان کو عزت و تکریم سے نوازتی ہے ۔۔
بہت ڈھیر ساری دعائیں آپ کے لئیے ،سلامت رہیے
جزاک اللہ خیرا بارک اللہ فی علمک وعملک اللھم زد فزد
بہت بہت خوشی ہوئی۔
 
ان شاء اللہ آپ سے مراست رہے گی۔

کسی بھی قسم کی مدد چاہیے ہو تو بلا تکلف پوچھ سکتے ہیں۔ آپ اردو محفل کے ہر رکن کو مددگار پائیں گے۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تمام احباب کیسے ہیں؟ امید ہے کہ سب خیریت سے ہوں گے۔
کافی دیر سے اردو محفل فورم میں کوشش کر رہا ہوں کوئی سمجھ نہیں آرہی کہ اس کے کون کون سے زمرے ہیں، کسی زمرے میں کیسے جاتے ہیں، کون سی تحریر کہاں ہونی چاہیے، محفلین اور لائبریرین سے کیا مراد ہے؟ اس حوالے سے اگر کوئی تحریر ہو تو بتائیے گا۔
جزاکم اللہ خیرا
 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تمام احباب کیسے ہیں؟ امید ہے کہ سب خیریت سے ہوں گے۔
کافی دیر سے اردو محفل فورم میں کوشش کر رہا ہوں کوئی سمجھ نہیں آرہی کہ اس کے کون کون سے زمرے ہیں، کسی زمرے میں کیسے جاتے ہیں، کون سی تحریر کہاں ہونی چاہیے، محفلین اور لائبریرین سے کیا مراد ہے؟ اس حوالے سے اگر کوئی تحریر ہو تو بتائیے گا۔
جزاکم اللہ خیرا


مندرجہ ذیل لڑی کا مطالعہ مفید رہے گا۔

محفل فورم ٹیوٹوریل
 
Top