الف نظامی
لائبریرین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تضمینات
برکلام حضرت مولانا احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ
از شاعر ہفت زباں علامہ پیر سید نصیر الدین نصیر گولڑوی
پیش گفتار
ڈاکٹر توصیف تبسم (بدایونی)
اسلام آباد 3 ربیع الاول 1426 ھجری
پیر نصیر الدین نصیر گولڑوی کی ان تضمینوں پر جو حضرت مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی کے کلام پر کی گئی ہیں، گفتگو کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ تضمین کے حدود و مطالب و معانی پر غور کرلیا جائے تاکہ بات چیت زیادہ مربوط اور بامعنی انداز میں آگے بڑھ سکے۔ تضمین کے لغوی معنی ، قبول کرنا اور پناہ میں لینے کے ہیں، تضمین کا لفظ ضم سے مشتق ہے جس کے معنی ملانا یا پیوست کرنا ہیں۔ اصطلاح میں ، تضمین کسی دوسرے شاعر کے کسی شعر یا مصرع کو اپنے کلام میں شامل کرنے کا نام ہے۔ اگر وہ شعر یا مصرع جس کی تضمین کی جائے معروف اور جانا پہچانا نہ ہو تو سرقہ یا توارد کے الزام سے بچنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس امر کی طرف اشارہ کردیا جائے کہ یہ شعر یہ مصرع میرا نہیں، کسی اور شاعر کا ہے، تضمینات
برکلام حضرت مولانا احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ
از شاعر ہفت زباں علامہ پیر سید نصیر الدین نصیر گولڑوی
پیش گفتار
ڈاکٹر توصیف تبسم (بدایونی)
اسلام آباد 3 ربیع الاول 1426 ھجری
جیسے سودا کہتے ہیں
میں کیا کہوں کہ کون ہوں سودا، بقول درد
جو کچھ کہ ہوں سو ہوں ، غرض آفت رسیدہ ہوں
تضمین کی ایک صورت تو یہ ہے کہ تضمین لکھنے والا شاعر کسی خاص مصرع یا شعر کو بنیاد بنا کر پوری نظم تخلیق کرتا ہے۔ اقبال کے یہاں اس قسم کی تضمینوں کی واضح مثالیں موجود ہیں۔ انہوں نے بانگ درا میں ابوطالب کلیم ، صائب ، انیسی شاملو کے شعروں کو اسی طرح جزوکلام بنایا ہے۔ دوسری صورت تضمین کی یہ ہے کہ پوری غزل کو شعر بہ شعر تضمین کیا جائے ، یوں اصل غزل کی ہیئت تضمین ہونے کے بعد مخمس کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ تضمین کا بنیادی فریضہ اصل شعر کی شرع و تفسیر ہوتا ہے مگر بعض صورتوں میں تضمین کرنے والا شاعت کسی شعر کو نئے سیاق و سباق میں رکھ کر اس کو ایک نئی جہت عطا کرتا ہے، جیسے مولٰنا غنی کاشمیری کا شعر، جس کی تضمین اقبال نے اپنی نظم "خطاب بہ نوجوانان اسلام" میں کی ہے
غنی ، روزِ سیاہ پیر کنعاں را تماشا کن
کہ نورِ دیدہ اش روشن کند چشم زلیخا را
اقبال نے غنی کے اس شعر کو ایک نئی معنویت سے ہم کنار کیا ہے۔ یہاں "پیر کنعاں" سے مراد ملتِ اسلامیہ ، حضرت یوسف سے مراد مسلمانوں کا علمی سرمایہ ہے جو اہل یورپ(زلیخا) کی آنکھوں کی روسنی کا وسیلہ بنا ہوا ہے۔ تضمین کی اکثر و بیشتر صورتوں میں اصل شعر کی تشریح و تفسیر ہی ہوتی ہے۔ تضمین کے اس بنیادی مقصد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مرزا عزیز بیگ سہارن پوری نے غالب کی اردو غزلیات کی تضمین سعوری طور پر اس انداز سے کی ہے کہ کلام غالب کو ایک عام قاری کے لیے آسان بنایا جاسکے۔ ان کی اس منظوم تشریح کا نام "روحِ کلام غالب" ہے۔ اس تضمینِ کلام غالب کی تعریف کرتے ہوئے نظامی بدایونی لکھتے ہیں:
"اس کی ادنی خصوصیت یہ ہے کہ مشکل ترین اشعار کے معانی اور مطالب اس درجہ واضح ہوجاتے ہیں کہ کسی شرح کےدیکھنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی"
حضرت مولانا احمد رضا خان کے کلام کے حوالے سے جب ہم پیر سید نصیر الدین نصیر کی تضمینوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ ان کی یہ کاوشیں جن میں آٹھ نعتیں ، ایک منقبت اور ایک سلام شامل ہے ، تضمین کے اصل مقصد کو بطریق احسن پورا کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اصل شعر جس پر شاعر تین اضافی مصرعے بہم پچاتا ہے۔ ان مطالب کو کھول کر بیان کردیتے ہیں جن کی طرف اصل شعر میں مبہم اشارے موجود ہوتے ہیں۔ اس طرح تضمین کا ہر بند ایک ایسی وحدت کی شکل اختیار کرلیتا ہے جو اپنی جگہ مکمل اور حد درجہ مربوط ہوتی ہے۔ تضمین کی اس خصوصیت کی طرف علامہ نیاز فتح پوری اپنی تصنیف انتقادیات (ص 283) میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
"تضمین کی خوبی یہ ہے کہ وہ اصل شعر کے ساتھ مل کر بالکل ایک چیز ہو جائے"
نصیر الدین نصیر کی تضمین کا ایک بند بطورِ مثال
دل کے آنگن میں یہ اک چاند سا اترا کیا ہے
موج زن آنکھوں میں یہ نور کا دریا کیا ہے
ماجرا کیا ہے یہ آخر ، یہ معما کیا ہے
کس کے جلوے کی جھلک ہے یہ اجالا کیا ہے
ہر طرف دیدہ حیرت زدہ تکتا کیا ہے
اصل شعر میں جو تحیر کا عنصر تھا ، اس کو باکمال تضمین نگار نے اس طرھ پورے بند میں پھیلا دیا ہے کہ سارے مصرعے مل کر ایک پُرلطف فضا کی تشکیل کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ،
ایک اور بند دیکھیے
جب چلے حشر کے میدان میں امت کی سپاہ
سرور جیش ہو وہ مطلع کونین کا ماہ
اہل بیت اور صحابہ بھی رواں ہوں ہمراہ
یہ سماں دیکھ کہ محشر میں اٹھے شور کہ واہ
چشم بد ور ہو ، کیا شان ہے رتبہ کیا ہے
ان بندوں میں جزئیات و واقعات کی ترتیب اس طرح رکھی گئی ہے کہ ایک متحرک تصویر چشمِ تصور کے سامنے آجاتی ہے۔ شاعری کا یہ وہ مقام ہے جہاں شعر مصوری کی حدود میں داخل ہوجاتا ہے۔ یہ چند مثالیں بطور نمونہ پیش کی گئیں ورنہ یہ کیفیت ان تضمینوں میں کم و بیش ہر جگہ موجود ہے۔ زور بیاں ہے کہ کہیں کم نہیں ہونے پاتا جس سے پیر نصیر الدین نصیر کی قدرت کلام کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ وہ ایک مدت سے اردو اور فارسی میں داد سخن دے رہے ہیں۔ اب تک ان کے متعدد مجموعہ ہائے کلام زیور طباعت سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آچکے ہیں۔ خصوصا انہوں نے اردو اور فارسی میں صنف رباعی کو جس قرینے اور سلیقے سے برتا ہے اس کی نظیر آج کے دور میں مشکل ہی سے ملے گی۔ رباعی اپنی فنی قیود ، خاص بحور اور دوسرے التزامات کے سبب ایک مشکل ترین صنف سمجھی جاتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ ہر شاعر اس صنف پر ہاتھ ڈالتے ہوئے ڈرتا ہے۔ نصیر الدین نصیر نے جو ریاضت رباعی کے میدان میں کی ، اس نے ان کے تضمین کے فن کو ان کے لیے آسان بنا دیا۔ جیسے رباعی کے چار مصرعوں میں بتدریج ایک ارتقائی کیفیت اس کے حسن کا باعث ہوتی ہے ، یہی صورت حال ان کی تضمین کے پر بند مٰیںموجود ہے۔ نصیر الدین نصیر کی عربی اور فارسی کی بنیاد حد درجہ مستحکم ہے۔ اسی لیے وہ تضمین کرتے ہوئے ، ان مشکل مقامات سے با آسانی گزر جاتے ہیں جہاں دوسرے شاعروں کے پاوں لڑکھڑا جائیں۔
صوم و صلوۃ ہیں کہ سجود و رکوع ہیں
ہر چند شرع میں یہ اہم الوقوع ہیں
حبِ نبی نہ ہو تو یہ سب لا نفوع ہیں
ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں
اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے
تضمین کے لغوی معانی پر اگر غور کرلیا جائے تو اس سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ جس شاعر کا کلام ، تضمین کے لیے منتخب کیا جاتا ہے ، دراصل ایک طرف تو اس خاص شاعر سے یہ اظہار عقیدت کی صورت ہے تو دوسری طرف تضمین کرنے والے شاعر کی اثر پذیر طبیعت کا ثبوت بھی ہے۔ نصیر میاں نے بھی ، حضرت مولانا احمد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ کی نعت ، منقبت اور سلام کا انتخاب ، تضمین کے لیے کر کے ایک طرح ان کو خراج عقیدت پیش کیا ہے ورنہ وہ یہ کبھی نہ کہتے
اہل نظر میں تیرا ذہن رسا مسلم
دنیائے علم و فن میں تیری جا مسلم
نزد نصیر تیری طرزِ نوا مسلم
ملک سخن کی شاہی تجھ کو رضا مسلم
جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دئیے ہیں
پیر سید نصیر الدین نصیر کو نعتیہ تضمین کرتے ہوئے ، دوسرے عام شاعروں کے مقابلہ میں ایک یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ وہ اعلی حضرت سید پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوہ قدس سرہ کے خانوادہ سے ہیں ، یوں وہ دوسرے نعت گو شعراء کے مقابلہ میں حمد و ثنا کی اسی مقدس فضا میں سانس لے رہے ہیں ، جو حضرت فاضل بریلوی کو میسر تھی۔
شعر کے معانی و مطالب کے پہلو بہ پہلو ، اس کا دوسرا جزو زبان و بیان سے تعلق رکھتا ہے۔ حضرت احمد رضا خان ، اردو زبان کے ایک ایسے مرکز U-p سے متعلق تھے ، جو شعر میں حسن محاورہ اور لطف روزمرہ کا قائل تھا۔ اسی لیے ان کی نعتوں میں زبان و بیان کی ایک خاص چاشنی ملتی ہے۔ پیر سید نصیر الدین نصیر بھی اپنی ان تضمینوں میں ، اصل نعت کی فضا کو برقرار رکھنے کے لیے ، اسی زبان و بیان سے کام لیتے ہیں ، جو اس کا اولین تقاضا تھی۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ اردو زبان و ادب سے کے مراکز سے دور ، گولڑہ شریف میں رہ کر انہوں نے اس زبان کو کیسے سیکھا ،ان کا ایک اور بند دیکھیے:
سر پر سجا کے حمد و ثنا کی کی گھڑولیاں
وہ عاشقوں کی بھیڑ ، وہ لہجے ، وہ بولیاں
جالی کے سامنے وہ فقیروں کی ٹولیاں
لب وا ہیں ، آنکھیں بند ہیں ، پھیلی ہیں جھولیاں
کتنے مزے کی کی بھیک ، ترے پاک در کی ہے
امید واثق ہے کہ یہ نعتیہ تضمین ، صاحبان دل کے حلقوں میں ذوق و شوق سے پڑھی جائیں گی اور اپنی روحانیت اور اعلی شعری خصوصیات کے سبب دربارِ بقا میں جگہ پائیں گی۔
ڈاکٹر توصیف تبسم
اسلام آباد
3 ربیع الاول 1426 ھ