نہایت دلچسپ!ایک مجرم تو پکڑا گیا۔
اس سے ملئے، یہ ہے قدیر ۔ ۔ ۔
دراصل مجھے ویب ٹیکنالوجی بہت پسند ہے۔ میں نے تقریباً دو سال پہلے کمپیوٹر خریدا۔ جب میں نے کمپیوٹر خریدا تو مجھے کلک کرنے اور اور فولڈر یا فائلیں کھولنے کے سوا کچھ نہیں آتا تھا۔ چنانچہ میں نے کمپیوٹر سیکھنے کو اپنا نصب العین بنا لیا۔ نتیجتاً تقریباً ایک ماہ میں میں نے پوری ونڈوز کھنگال ڈالی اور کمپیوٹر میں " چیتا " ہو گیا۔ اس کا ایک اور نتیجہ یہ نکلا کہ میں ایف ایس سی میں صرف ساٹھ فیصد نمبر لے سکا اور انجینیرنگ یونیورسٹی والوں نے میرے پاؤں پکڑے، کہ بھائی آپ گھر میں آرام کریں، یہاں یونیورسٹی میں خوامخواہ آپ کی ٹیکنیکل صلاحیتوں کو زنگ لگ جائے گا۔ میں کمپیوٹر تو بخوبی سیکھ گیا، مگر دوسری طرف ذرا نقصان ہوگیا۔
اب دلِ ناتواں نے سوچا کہ یار! انجینیرنگ میں کیا رکھا ہے، خوامخواہ مشینوں کے ساتھ طبع آزمائی کرنی پڑتی ہے۔ چھوڑو اس کو اور بی ایس سی کر لو۔ چنانچہ میں نے بی ایس سی میں داخلہ لے لیا اور زور و شور، لگن اور تندہی کے ساتھ کمپیوٹر کی فیلڈ میں مزید ہاتھ پاؤں مارنے شروع کر دیے۔ جب کمپیوٹر سیکھا تو انٹرنیٹ کیا مشکل تھا۔ اس کو تو ویسے ہی کامن سینس نے لتاڑ دیا۔ ایک بات میں واضح کردوں، میں نے یہ تمام خرابہ کسی سے نہیں سیکھا صرف کامن سینس استعمال کی۔ ہاں کچھ کچھ باتیں کہیں کہیں سے معلوم ہوتی گئیں۔
ایک دن میں نے اپنے دوست عمیر خان سے پوچھا کہ یار، یہ ویبسائٹیں کیسے بنتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس کے لیے ویب پیج بنانے پڑتے ہیں جن کے لیے ایچ ٹی ایم ایل کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ ایک زبان ہے اور یہ تم جیسے عقل کے اندھے کی سمجھ میں نہیں آنے کی۔ میں نے ان سے بہت کہا کہ مجھے بھی سمجھائیے یہ کیا ہے انہوں نے کہا کہ میرا سر نہ کھاؤ ، یہ تمہیں پسند نہیں آئے گا۔
مگر بندہِ ناچیز نے بھی ہمت نہ ہاری۔ میں نے یہ کیا کہ جو ویب پیج بھی کھولتا اس کا سورس کوڈ نوٹ پیڈ میں دیکھنا شروع کردیتا، پھر اس کا کچھ حصہ ڈیلیٹ کر کے دیکھتا کہ کیا فرق پڑا ہے۔ اس طرح کرتے کرتے میں نے ایک ماہ میں ایچ ٹی ایم ایل سیکھ لی۔ اس کے بعد مجھے اس سے متعلق ایک کتاب ملی، چنانچہ میں نے کچھ اپنا سر پِیٹا اور کچھ کتاب کو بے نقط سنائیں کہ کمبخت! تو نے ابھی ملنا تھا، کچھ دیر پہلے مل جاتی تو کیا بگڑ جاتا۔
چونکہ میں پیدائشی ذہین و فطین اور قابل و عامل تھا ، چنانچہ میں نے آہستہ آہستہ ویب سے متعلق دوسری ٹیکنالوجیز سے بھی روشنائی حاصل کرلی۔ پھر میں نے کسی پپّو قسم کے ویب ہوسٹ کی تلاش شروع کردی جو مفت جگہ اور پروگرامنگ لینگوئج کے لیے آب و ہوا فراہم کرے۔ مگر کوئی بھی میرے معیارِ بے شمار پر نہ اتر سکا بلکہ جو پہلے موجود تھے ، وہ بھی اڑ گئے۔
چونکہ مجھے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ وغیرہا سیکھنے میں بہت مشکل پیش آئی تھی ، اس لیے میں نے سوچا کہ نو آموزوں کے لیے ویب سے متعلق مضامین اردو میں پیش کرنے چاہییں تا کہ وہ بچے بلونگڑے جو اپنا وقت انڑنیٹ پر لچر بکواس دیکھنے میں گزارتے ہیں اور کوئی ذریعہ و منبعِ علم نہیں پاتے ، ان کو مدد فراہم ہو۔