تعلیم اور بچپن پر نفسیاتی دباؤ

ہانیہ

محفلین
مکمل متفق ہوں۔ ہمارے معاشرے کی اکثریت ابھی اختلاف و ادب میں تمیز سے محروم ہے۔ یہاں ہر اختلاف کو ادب کے ترازو میں تولا جاتا ہے، جیسے آپ نے کسی کی شان میں گستاخی ہو اور یہ رواج ہمیشہ اس معاشرے میں ہوتا ہے جہاں معاشرے کا ہر فرد سمجھتا ہے کہ وہ کامل علم رکھتا ہے اور ناقابلِ تسخیر ہے۔ انسان جتنی شعور کی منزلیں طے کرتا جاتا ہے اسے معلوم ہوتا جاتا ہے کہ وہ کتنا کم علم ہے اور دنیا کتنی وسیع ہے۔ اس لیے میرے نزدیک اس کا واحد حل تعلیم ہے تاکہ ہر شخص اپنی اصل اوقات کو سمجھ سکے۔

جی سر۔۔۔۔بالکل ٹھیک کہا۔۔۔ہر کسی عزت پر فرق آتا رہتا ہے۔۔۔۔ اپنے آپ کو اعلی سمجھنا۔۔۔۔دوسروں کو کمتر سمجھنا۔۔۔انکساری بہت کم دیکھنے میں آتی ہے۔۔۔۔بات شروع ہوتی ہے اپنے سے اور اپنے خاندان سے۔۔۔۔۔اور دوسروں کو تو بس پتہ نہیں کیا سمجے ہیں۔۔۔۔

اور اگر اپنی ذات کو کبھی بیچ میں نہیں لاتے ۔۔۔۔تو وطن اور مذہب اور ملت کو لے آتتے ہیں۔۔۔۔وطن کی بے عزتی کردی۔۔۔۔اسلام کے خلاف بات کر دی،۔۔مسلمانوں کو برا کہہ دیا۔۔۔۔

ارے سر۔۔۔مجھے تو ایک ہی بات سمجھ آتی ہے۔۔۔۔جب ضمیر ہی سو رہا ہو۔۔۔۔تو اس کو سونے دینے کے لئے ہزار بہانے بناتے ہیں۔۔۔۔اور یہ سب بہانے ہی ہیں۔۔۔۔ضمیر کی چیخ و پکار سننا بہت مشکل ہوتی ہے۔۔۔۔
 

ہانیہ

محفلین
مغربی ممالک میں کم ہی دیکھنے میں آتا ہے کہ کسی پر تعلیمی دباؤ ہو کسی بھی طرح سے۔ اپنی مرضی سے تعلیمی راہ چننے کا اختیار بھی ہوتا ہے اور چھٹیوں میں پڑھائی سے آزادی بھی رہتی ہے کہ لکھ لکھ کر صفحے کالے نہیں کرنے ہوتے۔ اس کے باوجود خودکشی کرتے ہیں بچے۔۔۔ جن کے پیچھے زیادہ تر وجوہات دوسرے طالب علموں کے مذاق کا نشانہ بننا، والدین کے مابین کشیدہ تعلقات اور بچپن میں ہی ذمہ داری کا بوجھ۔ اور نتیجہ اکثر جان دینے کی صورت نکلتا ہے، اگر مسائل کے بارے لکھنے بیٹھیں تو لمبی فہرست بن جاتی ہے جو ہمیں اپنے ہی آس پاس دیکھنے میں ملتے ہیں۔ ہر ملک میں ہر معاشرے میں ابھی بہت سدھار کی ضرورت ہے تا کہ بچے نفسیاتی دباؤ کا شکار نہ بنیں۔

جی سسٹر صحیح کہا۔۔۔۔تعلیمی دباؤ مغربی ممالک میں ختم کر دیا گیا ہے۔۔۔۔۔وجوہات دوسری ہوتی ہیں خودکشی کی۔۔۔۔

سسٹر آج بھی کتنے ہی ٹیچرز ہیں۔۔۔۔جو آنسرز کے صفحے گنتے ہیں۔۔۔۔لکھا کیا ہے نہیں پڑھتے ہیں۔۔۔۔معلومات درست ہونے چاہئیں۔۔۔۔
ایک لطیفہ یاد آگیا ۔۔۔۔ہمارے ایک کزن کو پاکستان سٹڈیز میں لمبے لمبے جواب لکھنا عذاب لگتے تھے۔۔۔۔ انھوں نے دو تین سوالات کی تیاری کی۔۔۔۔اتفاق سے کوئی بھہی وہ سوال نہیں آئے جو ان کو آتے تھے۔۔۔۔انھوں نے وہی جواب لکھ دئے ۔۔۔۔پاس ہو گئے۔۔۔۔جس ٹیچر نے چیکنگ کی تھی۔۔۔۔ اس مے پڑھا ہی نہیں لکھا کیا ہے۔۔۔۔۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
جی سسٹر صحیح کہا۔۔۔۔تعلیمی دباؤ مغربی ممالک میں ختم کر دیا گیا ہے۔۔۔۔۔وجوہات دوسری ہوتی ہیں خودکشی کی۔۔۔۔

سسٹر آج بھی کتنے ہی ٹیچرز ہیں۔۔۔۔جو آنسرز کے صفحے گنتے ہیں۔۔۔۔لکھا کیا ہے نہیں پڑھتے ہیں۔۔۔۔معلومات درست ہونے چاہئیں۔۔۔۔
ایک لطیفہ یاد آگیا ۔۔۔۔ہمارے ایک کزن کو پاکستان سٹڈیز میں لمبے لمبے جواب لکھنا عذاب لگتے تھے۔۔۔۔ انھوں نے دو تین سوالات کی تیاری کی۔۔۔۔اتفاق سے کوئی بھہی وہ سوال نہیں آئے جو ان کو آتے تھے۔۔۔۔انھوں نے وہی جواب لکھ دئے ۔۔۔۔پاس ہو گئے۔۔۔۔جس ٹیچر نے چیکنگ کی تھی۔۔۔۔ اس مے پڑھا ہی نہیں لکھا کیا ہے۔۔۔۔۔

تو ثابت یہ ہوا کہ بچوں کو نہیں بڑوں کو سبق کی ضرورت ہے۔
جڑیں مضبوط ہوں گی تو شاخیں ، پتے اور پھل پھول کی اچھی امید رکھ سکتے ہیں نا۔
 

ہانیہ

محفلین
تو ثابت یہ ہوا کہ بچوں کو نہیں بڑوں کو سبق کی ضرورت ہے۔
جڑیں مضبوط ہوں گی تو شاخیں ، پتے اور پھل پھول کی اچھی امید رکھ سکتے ہیں نا۔

جی سسٹر۔۔۔بڑوں کو تربیت کی ضرورت ہے۔۔۔ایک بات اور ۔۔۔میں نے دیکہے کہ والدین بچوں کے معاملے میں۔۔۔دوسرے والدین سے مقابلہ بہت کرتے ہیں۔۔۔۔فلاں کا بچہ انجنئیر بن گیا۔۔۔ہمارا بچہ بھی بننا چاہئے۔۔۔۔فلاں نے اپنے بچے کے اتنے اچھے اچھے گریڈز فیس بک پر لکھے۔۔۔ناک کٹ گئی۔۔۔۔بچے پر ان چیزوں سے دباؤ نہیں بڑھے گا تو اور کیا ہوگا۔۔۔دکھاوا بہت کرنا ہوتا ہے۔۔۔۔ہم زبردست ۔۔۔ہمارے بچے بھی افلاطون۔۔۔۔

کچھ والدین آتے ہیں رزلٹ ڈے پر۔۔۔۔جو بچے اچھے پاس ہوئے وہتے ہیں۔۔۔ان کے بارے میں ہم سے پوچھتے ہیں کہ اس کے اتنے نمبر کیسے آگئے۔۔۔پھر اگر اچھے پاس ہونے والے بچوں کے والدین پیپر دکھا دیں۔۔۔۔وہیں ڈانٹنا شروع کر دیتے ہیں۔۔۔کہ دیکھو اس نے کتنا اچھا پیپر دیا ہے۔۔۔ایک تم ہو۔۔۔۔

دوسروں کے سامنے بچے کو بے عزت کرنے سے اس میں احساس کمتری آتی چلی جاتی ہے۔۔۔۔ایسی حرکتوں سے بچنے کی بہت ضرورت ہے۔۔۔۔اگر سمجھانا بھی ہو تو پیار سے۔۔۔۔اکیلے میں سمجھائیں تو اسے سمجھ بھی آئے گا۔۔۔۔
 

امین شارق

محفلین
تعلیم اور بچپن پر نفسیاتی دباؤ
مصنف / مصنفہ: سیدہ ثناء بتول | بلاگ | 27.03.2021‏

سیدہ ثنا بتول اپنے اس بلاگ میں تفصیل سے بتا رہی ہیں کہ کس طرح طلبہ پر بہتر گریڈز لانے کے لیے روا رکھا جانے والا دباؤ انہیں اس نہج پر پہنچا دیتا ہے کہ وہ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی زندگی ختم کر دینے کی راہ چن لیتے ہیں۔

مجھے یاد ہے میں گیارہویں جماعت میں تھی، اسکول سے نکلے سال ہی گزرا تھا، جب ایک دن خبر ملی کے میری ایک سینیئر ساتھی نے نیند کی گولیاں کھا کر خود کشی کر لی ہے۔ مجھے آج بھی اس لڑکی کی صورت یاد ہے۔ لڑکوں جیسا حلیہ بنائے رابعہ ہمارے اسکول کی کرکٹ ٹیم کی کیپٹن تھی۔

پڑھائی میں رابعہ کو ہمیشہ مسائل کا سامنا رہا، وہ مختلف تھی، ہم سب سے، شاید اس کو اسکولوں میں دی جانے والی روایتی تعلیم حاصل ہی نہیں کرنی تھی۔ وہ تو بس کرکٹ کھیلنا چاہتی تھی، دنیا کو مسخر کرنا چاہتی تھی، لیکن اسکول میں نہ تو اس طرح کا کوئی ماحول تھا اور نہ ہی اس زمانے میں پریکٹیکل لرننگ اپروچ پر بات کی جاتی تھی۔ بس اچھے گریڈز کی ایک دوڑ تھی جس میں ہم سب بھاگ رہے تھے۔ جو بچہ اچھے گریڈز لے آتا، اس کو ٹیچرز بھی پسند کرتے تھے اور ماں باپ بھی اس ہی بچے پر زیادہ توجہ دیتے تھے۔

رابعہ جیسے بچے، ایسے ماحول میں نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوجاتے تھے۔ اسکول میں ٹیچرز سے الگ ڈانٹ کھانا اور گھر جاکر ماں باپ سے بھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ رابعہ کو کن مسائل کا سامنا تھا جس کے باعث اپنی زندگی ختم کردینے کا نہایت تکلیف دہ قدم اٹھایا لیکن مجھے اتنا معلوم ہے کہ رابعہ جیسے بہت سے بچے آج بھی اس روایتی تعلیم اور گریڈز کی دوڑ میں ہار مان کر، ٹیچرز اور ماں باپ اور معاشرے کے تکلیف دہ اور چبھتے جملوں سے فرار اختیار کرنے کے لیے زندگی سے دور ہو جانے کا راستہ چنتے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال طلبہ میں گریڈز خراب آنے کہ باعث خود کشی کے متعدد واقعات سامنے آتے ہیں۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں تعلیم کو معاشی ترقی کی نسبت سے جوڑا جاتا ہے۔ یونیورسٹیوں میں داخلے بھی گریڈز کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ تکریم اسکولوں میں ان ہی طلبہ کو دی جاتی ہے جو گریڈز اچھے لے کر آئیں، درمیانے اور کم درجات پر آنے والے طلبہ کو سب سے پہلے احساس کمتری میں مبتلا کیا جاتا ہے اور بعد میں وہی ان کی خود اعتمادی میں کمی کا باعث بنتا ہے۔ جس کی وجہ سے اکثر بچوں کا دل پڑھائی سے اچاٹ ہوجاتا ہے یا وہ اس دوڑ سے تھک جاتے ہیں۔

جن بچوں کو اکثر خاندان کے لائق بچوں کی مثالیں دی جاتی ہیں، وہ بھی ایک نفسیاتی دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔ ان کو مختلف مواقع پر باور کرایا جاتا ہے کہ وہ دوسروں سے کم ہیں اور انہیں خاندان کے کامیاب بچوں کی طرح بننے کے لیے محنت کرنی چاہیے۔

چند سالوں پہلے انسانی نفسیات سے متعلق ایک ورک شاپ میں شامل ہونے کا موقع ملا۔ اس وقت مجھے ہوورڈ گارڈنر کی ''ملٹپل انٹیلیجنس تھیوری‘‘ کے بارے میں پتہ چلا۔ جس کے مطابق انسان کی ذہانت کی مختلف اقسام ہیں۔

وہ کہتا ہے کہ انسانی ذہانت کو گریڈز میں ناپا نہیں جاسکتا۔ بلکہ ہر انسان ذہین ہے۔ لیکن اس کی ذہانت دوسرے سے مختلف ہے۔ اپنی تھیوری میں اس نے ''اسپیشل انٹیلیجنس‘‘ کے بارے میں بات کی جس میں یہ بتایا گیا کے کچھ انسانی ذہن تصاویر کے ذریعے سیکھتے ہیں اور اپنا علم تصاویر، جیومیٹرکلی اور ویژولز کے ذریعے پیش کرتے ہیں۔ ایسے افراد شاید لکھنے میں اچھے ثابت نہ ہوں لیکن اگر ان کو رنگ اور کینوس دیدیا جائے تو وہ اپنے آپ کو سب سے بہتر طریقے سے ایکسپریس کر سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ گارڈنر نے ذہانت کی دیگر اقسام کے بارے میں بھی بات کی۔ جن میں ''فطری ذہانت‘‘ ، جس کا تعلق آب و ہوا اور قدرتی چیزوں سے ہے، انٹر پرسنل سوشل، انٹراپرسنل اکیلے رہ کر پڑھنا، لاجک میتھمیٹک، میوزیکل یا موسیقی کے ذریعے سیکھنا، باڈلی انٹیلیجنس جس کا تعلق کھیلوں اور جسمانی ورزش وغیرہ سے ہے، شامل ہیں۔

لیکن اگر ہم اپنے ارد گرد دیکھیں تو ہمارا تعلیمی نظام صرف ایک طرح کی ذہانت کو فروغ دیتا ہے جس میں سب سے زیادہ زور گریڈز پر ہوتا ہے۔ ایسے میں مختلف نوعیت کی ذہانت رکھنے والے افراد اپنی خواہشات کو دبا کر معاشرے میں رائج تعلیمی دوڑ کا حصہ بن جاتے ہیں۔

جن میں اچھے گریڈز لانا، اس کی بنیاد پر اچھی یونیورسٹی میں داخلہ ملنا اور اس کے بعد اچھی کمپنی میں نوکری، بس یہی ہمیں سکھایا جاتا ہے اور ماں باپ کا بھی یہی خواب ہوتا ہے۔

لیکن دراصل یہ ماحول خود غرضی پر مبنی ماحول ہے۔ جہاں کامیابی معاشی ترقی، اچھی نوکری کی بنیاد پر ناپی جاتی ہے۔ پھر انسان اپنی خواہش سے نہیں بلکہ معاشرے کے دباؤ میں آکر کام کرتے ہیں۔ اور جو افراد معاشرے کی متعین کردہ کامیابی کی منزل تک نہیں پہنچ پاتے وہ کبھی کبھی شروع میں اور کبھی اختتامی لکیر سے پہلے ہی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔
صحیح بات ہے یہ سب ماحول میں جو مقابلے کی فضا بنی ہوئی ہے اسی کی وجہ سے سب ہورہا ہے ہر کوئی دوسرے سے بہتربنناچاہتاہے
 

ہانیہ

محفلین
صحیح بات ہے یہ سب ماحول میں جو مقابلے کی فضا بنی ہوئی ہے اسی کی وجہ سے سب ہورہا ہے ہر کوئی دوسرے سے بہتربنناچاہتاہے

جی سر۔۔۔اس مصنوعی اور خود ساختہ مقابلے سے نکلنا ہوگا۔۔۔۔جس کے بچے اچھا پڑھ رہے ہیں وہ شیخیاں مارنا چھوڑیں۔۔۔۔تاکہ دوسروں کو برا محسوس نہ ہو۔۔۔اور لوگ بلاوجہ اپنے اوپر طاری نہ کریں کہ کون کیا کر رہا ہے۔۔۔۔اپنے بچے کی ضروریات اور اس کے ذہانت کے لیول کو دیکھیں۔۔۔۔اور اسے خود سے پڑھنے دیں۔۔۔۔اپنے لئے خود راہ چننے دیں۔۔۔
 

امین شارق

محفلین
جی سر۔۔۔اس مصنوعی اور خود ساختہ مقابلے سے نکلنا ہوگا۔۔۔۔جس کے بچے اچھا پڑھ رہے ہیں وہ شیخیاں مارنا چھوڑیں۔۔۔۔تاکہ دوسروں کو برا محسوس نہ ہو۔۔۔اور لوگ بلاوجہ اپنے اوپر طاری نہ کریں کہ کون کیا کر رہا ہے۔۔۔۔اپنے بچے کی ضروریات اور اس کے ذہانت کے لیول کو دیکھیں۔۔۔۔اور اسے خود سے پڑھنے دیں۔۔۔۔اپنے لئے خود راہ چننے دیں۔۔۔
اس میں حکومت وقت کا بھی تو کہیں نہ کہیں کوئی قصور ہے کیونکہ دوہرا نظام تعلیم امیروں کے لئے کچھ غریبوں کچھ
 

حسرت جاوید

محفلین
جی سر۔۔۔۔بالکل ٹھیک کہا۔۔۔ہر کسی عزت پر فرق آتا رہتا ہے۔۔۔۔ اپنے آپ کو اعلی سمجھنا۔۔۔۔دوسروں کو کمتر سمجھنا۔۔۔انکساری بہت کم دیکھنے میں آتی ہے۔۔۔۔بات شروع ہوتی ہے اپنے سے اور اپنے خاندان سے۔۔۔۔۔اور دوسروں کو تو بس پتہ نہیں کیا سمجے ہیں۔۔۔۔

اور اگر اپنی ذات کو کبھی بیچ میں نہیں لاتے ۔۔۔۔تو وطن اور مذہب اور ملت کو لے آتتے ہیں۔۔۔۔وطن کی بے عزتی کردی۔۔۔۔اسلام کے خلاف بات کر دی،۔۔مسلمانوں کو برا کہہ دیا۔۔۔۔

ارے سر۔۔۔مجھے تو ایک ہی بات سمجھ آتی ہے۔۔۔۔جب ضمیر ہی سو رہا ہو۔۔۔۔تو اس کو سونے دینے کے لئے ہزار بہانے بناتے ہیں۔۔۔۔اور یہ سب بہانے ہی ہیں۔۔۔۔ضمیر کی چیخ و پکار سننا بہت مشکل ہوتی ہے۔۔۔۔
انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ پرسیپشن پہ چلتا ہے۔ آپ جیسی فضا قائم کریں گے لوگ ویسے ہی اپنی سوچ بنا لیں گے۔ مثال کے طور پر ہم صبح شام ہر فورم پہ ایک بات کو دہراتے رہیں کہ فلاں ہمارا دشمن ہے تو لوگ ویسا ہی سمجھنا شروع کر دیں گے کہ واقعی فلاں ہمارا دشمن ہے اور ان کی سوچ اس کو سچ ثابت کرنے کے لیے جواز مہیا کرتی رہے گی۔ حقائق کی کھوج چند لوگوں کو ہوتی ہے کہ آیا واقعی ایسا ہے یا نہیں۔ زیادہ تر انسان حقیقت کو کھوجنے اور سمجھنے کی بجائے ایک دوسرے کو کنفرم کرنے میں لگے ہیں یعنی ننانوے لوگ اگر کسی غلط بات پہ اتفاق کر لیں تو وہ سوویں کو غلط تصور کریں گے چاہے وہ حقیقت کے قریب ترین ہو۔ معاشرہ ویسا ہی ری ایکٹ کرے گا جیسی آپ فضا قائم کریں گے اور ہمارے ہاں مذہب سے لے کر معاشرت تک ہر معاملے میں ہی کچھ ایسی فضا بنی ہوئی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسرت جاوید

محفلین
آپ کو الہام ہوا ہے۔۔۔۔کہ رابعہ جیسا ہر بچہ طلاق۔۔۔۔اور دھوکے کی پیداوار ہے۔۔۔۔۔
رابعہ کی خودکشی مثال ہے۔۔۔۔کہ ایسے حالات میں۔۔۔۔بچے انتہائی قدم بھی اٹھا لیتے ہیں۔۔۔۔نفسیاتی دباؤ اصل موضوع ہے۔۔۔۔پھر سے پڑھیں سر۔۔۔۔۔
اور اگر کوئی بچہ سائنس نہیں پڑھنا چاہتا ہے۔۔۔آرٹس پڑھنا چاہتا ہے۔۔۔۔لیکن والدین چاہتے ہیں کہ تم ڈاکٹر ہی بنو۔۔۔تو اس میں بے دینی کہاں سے آگئی۔۔۔۔۔
اور جہاں تک ڈیوائسز کا تعلق ہے تو۔۔۔۔وہ بھی والدین غلط ہی کرتے ہیں۔۔۔بہرحال یہ بھی موضوع نہیں ہے۔۔۔۔موضوع ہے اپنی من پسند تعلیم حاصل کرنا۔۔۔۔
زبردست، کیا ہی شاندار لکھا ہے۔
 

ہانیہ

محفلین
اس میں حکومت وقت کا بھی تو کہیں نہ کہیں کوئی قصور ہے کیونکہ دوہرا نظام تعلیم امیروں کے لئے کچھ غریبوں کچھ

بالکل ہے سر۔۔۔۔سرکاری سکولوں میں کیرئیر کاونسلنگ کا کا کوئی انتظام سرے سے ہی نہیں ۔۔۔پرائیویٹ سکولوں میں بھی بہت کم توجہ دیتے ہیں۔۔۔۔ابھی تو مولا بخش کا استعمال ہی روک لیں ۔۔۔سکولوں میں فرنیچر نہیں ہے۔۔۔ٹیچرز ٹریننگ کا انتظام نہیں ہے۔۔۔۔۔

ایک ہی جیسے تعلیمی نظام کا نفاذ تو صرف حکومتی لیول پر ہی ہو سکتا ہے۔۔۔۔ان سب اقدامات کے لئے بجٹ بھی چاہئے ہوتا ہے۔۔۔جو کہ ہم سب کو معلوم ہی ہے کہ ہمارے ملک کی آبادی کے حساب سے بہت ہی کم ہوتا ہے۔۔۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
جی سسٹر۔۔۔بڑوں کو تربیت کی ضرورت ہے۔۔۔ایک بات اور ۔۔۔میں نے دیکہے کہ والدین بچوں کے معاملے میں۔۔۔دوسرے والدین سے مقابلہ بہت کرتے ہیں۔۔۔۔فلاں کا بچہ انجنئیر بن گیا۔۔۔ہمارا بچہ بھی بننا چاہئے۔۔۔۔فلاں نے اپنے بچے کے اتنے اچھے اچھے گریڈز فیس بک پر لکھے۔۔۔ناک کٹ گئی۔۔۔۔بچے پر ان چیزوں سے دباؤ نہیں بڑھے گا تو اور کیا ہوگا۔۔۔دکھاوا بہت کرنا ہوتا ہے۔۔۔۔ہم زبردست ۔۔۔ہمارے بچے بھی افلاطون۔۔۔۔

کچھ والدین آتے ہیں رزلٹ ڈے پر۔۔۔۔جو بچے اچھے پاس ہوئے وہتے ہیں۔۔۔ان کے بارے میں ہم سے پوچھتے ہیں کہ اس کے اتنے نمبر کیسے آگئے۔۔۔پھر اگر اچھے پاس ہونے والے بچوں کے والدین پیپر دکھا دیں۔۔۔۔وہیں ڈانٹنا شروع کر دیتے ہیں۔۔۔کہ دیکھو اس نے کتنا اچھا پیپر دیا ہے۔۔۔ایک تم ہو۔۔۔۔

دوسروں کے سامنے بچے کو بے عزت کرنے سے اس میں احساس کمتری آتی چلی جاتی ہے۔۔۔۔ایسی حرکتوں سے بچنے کی بہت ضرورت ہے۔۔۔۔اگر سمجھانا بھی ہو تو پیار سے۔۔۔۔اکیلے میں سمجھائیں تو اسے سمجھ بھی آئے گا۔۔۔۔
بالکل رِیس کی جو ریس بڑوں کے بیچ لگی ہوئی ہے، اس نے بچوں کو احساسِ کمتری میں مبتلا کر دیا ہے۔
اگر اکیلے میں سمجھانے والی بات سمجھ لی جائے تو اس کا بہتر اثر ہو گا۔
آپ ٹیچرہیں؟
 

ہانیہ

محفلین
انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ پرسیپشن پہ چلتا ہے۔ آپ جیسی فضا قائم کریں گے لوگ ویسے ہی اپنی سوچ بنا لیں گے۔ مثال کے طور پر ہم صبح شام ہر فورم پہ ایک بات کو دہراتے رہیں کہ فلاں ہمارا دشمن ہے تو لوگ ویسا ہی سمجھنا شروع کر دیں گے کہ واقعی فلاں ہمارا دشمن ہے اور ان کی سوچ اس کو سچ ثابت کرنے کے لیے جواز مہیا کرتی رہے گی۔ حقائق کی کھوج چند لوگوں کو ہوتی ہے کہ آیا واقعی ایسا ہے یا نہیں۔ زیادہ تر انسان حقیقت کو کھوجنے اور سمجھنے کی بجائے ایک دوسرے کو کنفرم کرنے میں لگے ہیں یعنی ننانوے لوگ اگر کسی غلط بات پہ اتفاق کر لیں تو وہ سوویں کو غلط تصور کریں گے چاہے وہ حقیقت کے قریب ترین ہو۔ معاشرہ ویسا ہی ری ایکٹ کرے گا جیسی آپ فضا قائم کریں گے اور ہمارے ہاں مذہب سے لے کر معاشرت تک ہر معاملے میں ہی کچھ ایسی فضا بنی ہوئی ہے۔

بالکل صحیح کہا سر۔۔۔۔ہمارے سوشل میڈیا پر اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کا الزام ۔۔۔۔مغرب یا انڈیا پر ڈال دیا جاتا ہے۔۔۔۔اور پھر سکون سے سب ہو جاتے ہیں۔۔۔کہ ہم پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔۔۔۔ہمیں کچھ نہیں کرنا ہے۔۔۔۔ضمیر سوتا رہے۔۔۔۔ہم بھی چین سے رہیں۔۔۔

یہ بہت خطرناک روش ہے ہمارے معاشرے کی۔۔۔۔ہمارے مذہب میں بار بار اپنی برائیوں پر نگاہ رکھنے کو کہا گیا ہے۔۔۔۔جبھی برائی سے بچا جائے گا۔۔۔۔لیکن اس طرف توجہ ہے ہی نہیں۔۔۔۔
 

ہانیہ

محفلین
بالکل رِیس کی جو ریس بڑوں کے بیچ لگی ہوئی ہے، اس نے بچوں کو احساسِ کمتری میں مبتلا کر دیا ہے۔
اگر اکیلے میں سمجھانے والی بات سمجھ لی جائے تو اس کا بہتر اثر ہو گا۔
آپ ٹیچرہیں؟

جی سسٹر ۔۔۔میں سکول میں پڑھاتی ہوں۔۔۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
جی سسٹر ۔۔۔میں سکول میں پڑھاتی ہوں۔۔۔
واہ گُلِ یاسمیں۔۔۔ شاباش۔

آپ کا تجزیہ اور مشاہدہ یقیناً ہماری نسبت بہتر ہے کیونکہ آپ کا واسطہ تو آئے دن ایسے حالات و مشاہدات سے پڑتا رہتا ہے۔
والدین کو بھی تو بلایا جاتا ہے نا میٹنگز کے لئے۔۔۔ کیا ان پر یہ بات واضح نہیں کی جا سکتیَ؟
لیکن کیسے کی جا سکے۔۔۔ کوئی اپنے نقطہ ء نظر سے نیچے آتا ہی نہیں۔ لازمی ان کا جواب کچھ ایسا ہی ہو گا کہ ہمیں پتہ ہے کہ ہمارے بچوں کے لئے کیا اچھا ہے اور کیا بُرا۔
 
آپ کو الہام ہوا ہے۔۔۔۔کہ رابعہ جیسا ہر بچہ طلاق۔۔۔۔اور دھوکے کی پیداوار ہے۔۔۔۔۔

سب نہیں لیکن بعض صورتوں میں ایسا ضرور ہے۔

جن کے پیچھے زیادہ تر وجوہات دوسرے طالب علموں کے مذاق کا نشانہ بننا، والدین کے مابین کشیدہ تعلقات اور بچپن میں ہی ذمہ داری کا بوجھ۔
 

ہانیہ

محفلین
واہ گُلِ یاسمیں۔۔۔ شاباش۔

آپ کا تجزیہ اور مشاہدہ یقیناً ہماری نسبت بہتر ہے کیونکہ آپ کا واسطہ تو آئے دن ایسے حالات و مشاہدات سے پڑتا رہتا ہے۔
والدین کو بھی تو بلایا جاتا ہے نا میٹنگز کے لئے۔۔۔ کیا ان پر یہ بات واضح نہیں کی جا سکتیَ؟
لیکن کیسے کی جا سکے۔۔۔ کوئی اپنے نقطہ ء نظر سے نیچے آتا ہی نہیں۔ لازمی ان کا جواب کچھ ایسا ہی ہو گا کہ ہمیں پتہ ہے کہ ہمارے بچوں کے لئے کیا اچھا ہے اور کیا بُرا۔

جی سسٹر ۔۔۔پیرنٹ ٹیچر میٹنگ ہمارے سکول میں ہر مہینے ہوتی ہے۔۔۔۔آپ سوچ نہیں سکتی ہیں کیسے کیسے رویے دیکھنے کو ملتے ہیں۔۔۔۔ پیرنٹس ایک نمبر پر لڑتے ہیں۔۔۔۔کہ فلاں سٹوڈنٹ آپ کا فیوریٹ ہے ۔۔۔پھر جب ان کو دکھا دیا جاتا ہے کہ بچے کی غلطیاں ہیں۔۔۔تو اپنے بچے پر برسنا شروع کر دیتے ہیں۔۔۔
کچھ بچے اچھا نہیں پڑھ رہے ہوتے ہیں۔۔۔جیسے سائنس سبجکٹس میں بہت برا پرفارم کر رہے ہوتے ہیں۔۔۔ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ پچہ نہیں پڑھنا چاہتا ہے سائنس یا میتھس۔۔۔۔تو والدین سے کہتے ہیں کہ آپ اس کے سبجیکٹ چینج کروا دیں۔۔۔۔وہ مان کر ہی نہیں دیتے ہیں ۔۔۔ان کو لگتا ہے ہم بچے کا فیوچر برباد کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ہم ٹیچرز صحیح طرح نہیں پڑھا رہے۔۔۔اب بچہ اپنے منہ سے بول رہا ہے ۔۔۔اسے نہیں یہ سبجیکٹ پڑھنا ۔۔۔تو کتنا زور زبردستی ہم انٹرسٹ پیدا کر سکتے ہیں۔۔۔۔گائیڈ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے لچھ لوگوں کے لئے۔۔۔کچھ سمجھ بھی جاتے ہیں۔۔۔کچھ نہیں سمجھتے۔۔۔ایک سٹوڈنٹ ہے۔۔۔۔بہت زبردست debater ہے۔۔۔لیکن نمبر اچھے نہیں آتے تھے میتھس اور سائنس میں۔۔۔بہت مشکل سے اس کے والدین کو منایا کہ بچہ جرنلسٹ بڑے ہو کر بننا چاہتا ہے۔۔۔آپ اسے آرٹس سبجیکٹ دلوا دیں۔۔۔پر وہی اصرار تھا کہ میٹرک تو سائنس میں کر لے۔۔۔لیکن مان گئے کچھ عرصے بعد۔۔۔۔اب اس کے مارکس دیکھیں اور اس کی خوشی دیکھنے والی ہے۔۔۔۔
پرائیوٹ سکولز میں ۔۔۔اور وہ بھی چند ہی ہیں جہاں یہ سب دیکھا جاتا ہے۔۔۔ہر جگہ ایسا نہیں ہوتا ہے۔۔۔کاروباری سوچ ہے۔۔۔
 
نفسیاتی دباؤ اصل موضوع ہے

نفس پر دباؤ محبتوں کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جہاں خاندان بھر پیار کرنے والا ہو وہاں بچے کے پاس کئی گودیں چھپنے کے لیے ہوتی ہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ بچے پوری پوری کتابیں حفظ کر لیتے تھے لیکن انکے نفس پر دباؤ نہیں پڑتا تھا۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ خاندان محلے اور رشتے داروں سے خوب پیار محبت ملتا تھا۔

اور اگر کوئی بچہ سائنس نہیں پڑھنا چاہتا ہے۔۔۔آرٹس پڑھنا چاہتا ہے۔۔۔۔لیکن والدین چاہتے ہیں کہ تم ڈاکٹر ہی بنو۔۔۔تو اس میں بے دینی کہاں سے آگئی۔۔۔۔۔

ڈاکٹر ہی بنو گے اپنے سے کمزور پر ظلم ہے۔ بچوں پر شفقت کا علم نہ ہونا بے دینی کی وجہ سے ہے۔ آفس یا گھر چھٹی کے دن فارغ وقت میں دین اور خاص کر بچوں بیوی کے متعلق احکامات پڑھیں تو یہ موقع ہی نہ آئے۔

موضوع ہے اپنی من پسند تعلیم حاصل کرنا۔۔۔۔

تعلیم ایک مشقت بھرا کام ہے۔ ماں باپ من پسند تعلیم مثلا ٹیچر یا سنگر یا آرٹسٹ بننے کے بجائے ڈاکٹر، اکاونٹنٹ یا انجینئیر بنائیں گے تو انکو معاش حاصل کرنے میں آسانی رہے گی۔ انکی نسلیں خوشحالی کی زندگی گزاریں گی۔ ہاں بچوں کو صاف صاف بتانا چاہیے کہ معاش کے لیے پیشہ اور شوق کے لیے مشغلہ ہوتا ہے۔ آٹھ دس گھنٹے تعلیم اور معاش کے لیے نکالیں اور بقیہ وقت مشغلے کے لیے مثلا کتابیں لکھنا، شاعری کرنا، غزلیں گانا، نعتیں پڑھنا، پھل پھول کے درخت لگانا، تصاویر بنانا، خدمت خلق کرنا وغیرہ۔
 
جی سر۔۔۔اس مصنوعی اور خود ساختہ مقابلے سے نکلنا ہوگا۔۔۔۔جس کے بچے اچھا پڑھ رہے ہیں وہ شیخیاں مارنا چھوڑیں۔۔۔۔تاکہ دوسروں کو برا محسوس نہ ہو۔۔۔اور لوگ بلاوجہ اپنے اوپر طاری نہ کریں کہ کون کیا کر رہا ہے۔۔۔۔اپنے بچے کی ضروریات اور اس کے ذہانت کے لیول کو دیکھیں۔۔۔۔اور اسے خود سے پڑھنے دیں۔۔۔۔اپنے لئے خود راہ چننے دیں۔۔۔

یوں تو بہت زیادہ نکات ہو جائیں گے۔ انسان کو سمجھ ہی نہیں آئے گا کہ اصل میں بننا کیسا مرد یا عورت ہے۔

تو آسان نسخہ یہ ہے کہ ان سب کے بجائے بزرگان دین کی زندگی اپنائیں۔ ہر ہر بات میں انکی انکساری کی مثال دیں۔
 

ہانیہ

محفلین
نفس پر دباؤ محبتوں کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جہاں خاندان بھر پیار کرنے والا ہو وہاں بچے کے پاس کئی گودیں چھپنے کے لیے ہوتی ہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ بچے پوری پوری کتابیں حفظ کر لیتے تھے لیکن انکے نفس پر دباؤ نہیں پڑتا تھا۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ خاندان محلے اور رشتے داروں سے خوب پیار محبت ملتا تھا

تعلیم ایک مشقت بھرا کام ہے۔ ماں باپ من پسند تعلیم مثلا ٹیچر یا سنگر یا آرٹسٹ بننے کے بجائے ڈاکٹر، اکاونٹنٹ یا انجینئیر بنائیں گے تو انکو معاش حاصل کرنے میں آسانی رہے گی۔ انکی نسلیں خوشحالی کی زندگی گزاریں گی۔ ہاں بچوں کو صاف صاف بتانا چاہیے کہ معاش کے لیے پیشہ اور شوق کے لیے مشغلہ ہوتا ہے۔ آٹھ دس گھنٹے تعلیم اور معاش کے لیے نکالیں اور بقیہ وقت مشغلے کے لیے مثلا کتابیں لکھنا، شاعری کرنا، غزلیں گانا، نعتیں پڑھنا، پھل پھول کے درخت لگانا، تصاویر بنانا، خدمت خلق کرنا وغیرہ۔

سر آپ کی اس بات سے متفق ہوں۔۔۔پیار محبت کا ماحول ہی بچے کی ذہنی حالت اچھی رکھتا ہے۔۔۔۔لیکن بے جا لاڈ پیار بگاڑ کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔۔۔اس کے غلط کاموں پر اس کو ڈانٹ ڈپٹ لیکن ایسے کہ جس سے اس پر برا اثر نہیں پڑے اور ضروری روک ٹوک۔۔۔یہ سب بھی پیار کے ساتھ ضروری ہے۔۔۔

سر تعلیم کو میں پیسے سے جڑا ہوا نہیں سمجھتی ہوں۔۔۔آپ ہمارے ملک کے تاجر برادری کو دیکھیں۔۔۔ما شاء اللہ۔۔۔۔کتنا کماتے ہیں اور کتنی برکت ہوتی ہے ان کے یہاں۔۔۔لیکن تعلیم زیادہ نہیں ہوتی ہے۔۔۔۔ضروری نہیں کہ ہر کوئی ایم بی اے ہو۔۔۔۔

کمانے کے بہت ذرائع ہیں۔۔۔۔ہر بچہ ڈاکٹر انجنئیر پائلٹ نہیں بن سکتا ہے۔۔۔۔بچے کو تعلیم حاصل کرنی دی جائے ۔۔۔جو کرنا چاہتا ہے۔۔۔روزگار اور رزق کی راہیں نکل ہی آتی ہیں۔۔۔کاروبار کرنے میں بھی بہت برکت ہے۔۔۔۔
 
تعلیم اور بچپن پر نفسیاتی دباؤ
مصنف / مصنفہ: سیدہ ثناء بتول | بلاگ | 27.03.2021‏

سیدہ ثنا بتول اپنے اس بلاگ میں تفصیل سے بتا رہی ہیں کہ کس طرح طلبہ پر بہتر گریڈز لانے کے لیے روا رکھا جانے والا دباؤ انہیں اس نہج پر پہنچا دیتا ہے کہ وہ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی زندگی ختم کر دینے کی راہ چن لیتے ہیں۔

مجھے یاد ہے میں گیارہویں جماعت میں تھی، اسکول سے نکلے سال ہی گزرا تھا، جب ایک دن خبر ملی کے میری ایک سینیئر ساتھی نے نیند کی گولیاں کھا کر خود کشی کر لی ہے۔ مجھے آج بھی اس لڑکی کی صورت یاد ہے۔ لڑکوں جیسا حلیہ بنائے رابعہ ہمارے اسکول کی کرکٹ ٹیم کی کیپٹن تھی۔

پڑھائی میں رابعہ کو ہمیشہ مسائل کا سامنا رہا، وہ مختلف تھی، ہم سب سے، شاید اس کو اسکولوں میں دی جانے والی روایتی تعلیم حاصل ہی نہیں کرنی تھی۔ وہ تو بس کرکٹ کھیلنا چاہتی تھی، دنیا کو مسخر کرنا چاہتی تھی، لیکن اسکول میں نہ تو اس طرح کا کوئی ماحول تھا اور نہ ہی اس زمانے میں پریکٹیکل لرننگ اپروچ پر بات کی جاتی تھی۔ بس اچھے گریڈز کی ایک دوڑ تھی جس میں ہم سب بھاگ رہے تھے۔ جو بچہ اچھے گریڈز لے آتا، اس کو ٹیچرز بھی پسند کرتے تھے اور ماں باپ بھی اس ہی بچے پر زیادہ توجہ دیتے تھے۔

رابعہ جیسے بچے، ایسے ماحول میں نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوجاتے تھے۔ اسکول میں ٹیچرز سے الگ ڈانٹ کھانا اور گھر جاکر ماں باپ سے بھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ رابعہ کو کن مسائل کا سامنا تھا جس کے باعث اپنی زندگی ختم کردینے کا نہایت تکلیف دہ قدم اٹھایا لیکن مجھے اتنا معلوم ہے کہ رابعہ جیسے بہت سے بچے آج بھی اس روایتی تعلیم اور گریڈز کی دوڑ میں ہار مان کر، ٹیچرز اور ماں باپ اور معاشرے کے تکلیف دہ اور چبھتے جملوں سے فرار اختیار کرنے کے لیے زندگی سے دور ہو جانے کا راستہ چنتے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال طلبہ میں گریڈز خراب آنے کہ باعث خود کشی کے متعدد واقعات سامنے آتے ہیں۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں تعلیم کو معاشی ترقی کی نسبت سے جوڑا جاتا ہے۔ یونیورسٹیوں میں داخلے بھی گریڈز کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ تکریم اسکولوں میں ان ہی طلبہ کو دی جاتی ہے جو گریڈز اچھے لے کر آئیں، درمیانے اور کم درجات پر آنے والے طلبہ کو سب سے پہلے احساس کمتری میں مبتلا کیا جاتا ہے اور بعد میں وہی ان کی خود اعتمادی میں کمی کا باعث بنتا ہے۔ جس کی وجہ سے اکثر بچوں کا دل پڑھائی سے اچاٹ ہوجاتا ہے یا وہ اس دوڑ سے تھک جاتے ہیں۔

جن بچوں کو اکثر خاندان کے لائق بچوں کی مثالیں دی جاتی ہیں، وہ بھی ایک نفسیاتی دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔ ان کو مختلف مواقع پر باور کرایا جاتا ہے کہ وہ دوسروں سے کم ہیں اور انہیں خاندان کے کامیاب بچوں کی طرح بننے کے لیے محنت کرنی چاہیے۔

چند سالوں پہلے انسانی نفسیات سے متعلق ایک ورک شاپ میں شامل ہونے کا موقع ملا۔ اس وقت مجھے ہوورڈ گارڈنر کی ''ملٹپل انٹیلیجنس تھیوری‘‘ کے بارے میں پتہ چلا۔ جس کے مطابق انسان کی ذہانت کی مختلف اقسام ہیں۔

وہ کہتا ہے کہ انسانی ذہانت کو گریڈز میں ناپا نہیں جاسکتا۔ بلکہ ہر انسان ذہین ہے۔ لیکن اس کی ذہانت دوسرے سے مختلف ہے۔ اپنی تھیوری میں اس نے ''اسپیشل انٹیلیجنس‘‘ کے بارے میں بات کی جس میں یہ بتایا گیا کے کچھ انسانی ذہن تصاویر کے ذریعے سیکھتے ہیں اور اپنا علم تصاویر، جیومیٹرکلی اور ویژولز کے ذریعے پیش کرتے ہیں۔ ایسے افراد شاید لکھنے میں اچھے ثابت نہ ہوں لیکن اگر ان کو رنگ اور کینوس دیدیا جائے تو وہ اپنے آپ کو سب سے بہتر طریقے سے ایکسپریس کر سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ گارڈنر نے ذہانت کی دیگر اقسام کے بارے میں بھی بات کی۔ جن میں ''فطری ذہانت‘‘ ، جس کا تعلق آب و ہوا اور قدرتی چیزوں سے ہے، انٹر پرسنل سوشل، انٹراپرسنل اکیلے رہ کر پڑھنا، لاجک میتھمیٹک، میوزیکل یا موسیقی کے ذریعے سیکھنا، باڈلی انٹیلیجنس جس کا تعلق کھیلوں اور جسمانی ورزش وغیرہ سے ہے، شامل ہیں۔

لیکن اگر ہم اپنے ارد گرد دیکھیں تو ہمارا تعلیمی نظام صرف ایک طرح کی ذہانت کو فروغ دیتا ہے جس میں سب سے زیادہ زور گریڈز پر ہوتا ہے۔ ایسے میں مختلف نوعیت کی ذہانت رکھنے والے افراد اپنی خواہشات کو دبا کر معاشرے میں رائج تعلیمی دوڑ کا حصہ بن جاتے ہیں۔

جن میں اچھے گریڈز لانا، اس کی بنیاد پر اچھی یونیورسٹی میں داخلہ ملنا اور اس کے بعد اچھی کمپنی میں نوکری، بس یہی ہمیں سکھایا جاتا ہے اور ماں باپ کا بھی یہی خواب ہوتا ہے۔

لیکن دراصل یہ ماحول خود غرضی پر مبنی ماحول ہے۔ جہاں کامیابی معاشی ترقی، اچھی نوکری کی بنیاد پر ناپی جاتی ہے۔ پھر انسان اپنی خواہش سے نہیں بلکہ معاشرے کے دباؤ میں آکر کام کرتے ہیں۔ اور جو افراد معاشرے کی متعین کردہ کامیابی کی منزل تک نہیں پہنچ پاتے وہ کبھی کبھی شروع میں اور کبھی اختتامی لکیر سے پہلے ہی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔
یہ میں نے ڈاکٹر کی پڑھائی میں بھی سُنا ہے کہ بہت موٹی موٹی کتابیں ہوتی ہیں لوگ پڑھتے پڑھتے پاگل بھی ہوجاتے ہیں
 
Top