ہانیہ
محفلین
تعلیم اور بچپن پر نفسیاتی دباؤ
مصنف / مصنفہ: سیدہ ثناء بتول | بلاگ | 27.03.2021
سیدہ ثنا بتول اپنے اس بلاگ میں تفصیل سے بتا رہی ہیں کہ کس طرح طلبہ پر بہتر گریڈز لانے کے لیے روا رکھا جانے والا دباؤ انہیں اس نہج پر پہنچا دیتا ہے کہ وہ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی زندگی ختم کر دینے کی راہ چن لیتے ہیں۔
مجھے یاد ہے میں گیارہویں جماعت میں تھی، اسکول سے نکلے سال ہی گزرا تھا، جب ایک دن خبر ملی کے میری ایک سینیئر ساتھی نے نیند کی گولیاں کھا کر خود کشی کر لی ہے۔ مجھے آج بھی اس لڑکی کی صورت یاد ہے۔ لڑکوں جیسا حلیہ بنائے رابعہ ہمارے اسکول کی کرکٹ ٹیم کی کیپٹن تھی۔
پڑھائی میں رابعہ کو ہمیشہ مسائل کا سامنا رہا، وہ مختلف تھی، ہم سب سے، شاید اس کو اسکولوں میں دی جانے والی روایتی تعلیم حاصل ہی نہیں کرنی تھی۔ وہ تو بس کرکٹ کھیلنا چاہتی تھی، دنیا کو مسخر کرنا چاہتی تھی، لیکن اسکول میں نہ تو اس طرح کا کوئی ماحول تھا اور نہ ہی اس زمانے میں پریکٹیکل لرننگ اپروچ پر بات کی جاتی تھی۔ بس اچھے گریڈز کی ایک دوڑ تھی جس میں ہم سب بھاگ رہے تھے۔ جو بچہ اچھے گریڈز لے آتا، اس کو ٹیچرز بھی پسند کرتے تھے اور ماں باپ بھی اس ہی بچے پر زیادہ توجہ دیتے تھے۔
رابعہ جیسے بچے، ایسے ماحول میں نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوجاتے تھے۔ اسکول میں ٹیچرز سے الگ ڈانٹ کھانا اور گھر جاکر ماں باپ سے بھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ رابعہ کو کن مسائل کا سامنا تھا جس کے باعث اپنی زندگی ختم کردینے کا نہایت تکلیف دہ قدم اٹھایا لیکن مجھے اتنا معلوم ہے کہ رابعہ جیسے بہت سے بچے آج بھی اس روایتی تعلیم اور گریڈز کی دوڑ میں ہار مان کر، ٹیچرز اور ماں باپ اور معاشرے کے تکلیف دہ اور چبھتے جملوں سے فرار اختیار کرنے کے لیے زندگی سے دور ہو جانے کا راستہ چنتے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال طلبہ میں گریڈز خراب آنے کہ باعث خود کشی کے متعدد واقعات سامنے آتے ہیں۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں تعلیم کو معاشی ترقی کی نسبت سے جوڑا جاتا ہے۔ یونیورسٹیوں میں داخلے بھی گریڈز کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ تکریم اسکولوں میں ان ہی طلبہ کو دی جاتی ہے جو گریڈز اچھے لے کر آئیں، درمیانے اور کم درجات پر آنے والے طلبہ کو سب سے پہلے احساس کمتری میں مبتلا کیا جاتا ہے اور بعد میں وہی ان کی خود اعتمادی میں کمی کا باعث بنتا ہے۔ جس کی وجہ سے اکثر بچوں کا دل پڑھائی سے اچاٹ ہوجاتا ہے یا وہ اس دوڑ سے تھک جاتے ہیں۔
جن بچوں کو اکثر خاندان کے لائق بچوں کی مثالیں دی جاتی ہیں، وہ بھی ایک نفسیاتی دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔ ان کو مختلف مواقع پر باور کرایا جاتا ہے کہ وہ دوسروں سے کم ہیں اور انہیں خاندان کے کامیاب بچوں کی طرح بننے کے لیے محنت کرنی چاہیے۔
چند سالوں پہلے انسانی نفسیات سے متعلق ایک ورک شاپ میں شامل ہونے کا موقع ملا۔ اس وقت مجھے ہوورڈ گارڈنر کی ''ملٹپل انٹیلیجنس تھیوری‘‘ کے بارے میں پتہ چلا۔ جس کے مطابق انسان کی ذہانت کی مختلف اقسام ہیں۔
وہ کہتا ہے کہ انسانی ذہانت کو گریڈز میں ناپا نہیں جاسکتا۔ بلکہ ہر انسان ذہین ہے۔ لیکن اس کی ذہانت دوسرے سے مختلف ہے۔ اپنی تھیوری میں اس نے ''اسپیشل انٹیلیجنس‘‘ کے بارے میں بات کی جس میں یہ بتایا گیا کے کچھ انسانی ذہن تصاویر کے ذریعے سیکھتے ہیں اور اپنا علم تصاویر، جیومیٹرکلی اور ویژولز کے ذریعے پیش کرتے ہیں۔ ایسے افراد شاید لکھنے میں اچھے ثابت نہ ہوں لیکن اگر ان کو رنگ اور کینوس دیدیا جائے تو وہ اپنے آپ کو سب سے بہتر طریقے سے ایکسپریس کر سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ گارڈنر نے ذہانت کی دیگر اقسام کے بارے میں بھی بات کی۔ جن میں ''فطری ذہانت‘‘ ، جس کا تعلق آب و ہوا اور قدرتی چیزوں سے ہے، انٹر پرسنل سوشل، انٹراپرسنل اکیلے رہ کر پڑھنا، لاجک میتھمیٹک، میوزیکل یا موسیقی کے ذریعے سیکھنا، باڈلی انٹیلیجنس جس کا تعلق کھیلوں اور جسمانی ورزش وغیرہ سے ہے، شامل ہیں۔
لیکن اگر ہم اپنے ارد گرد دیکھیں تو ہمارا تعلیمی نظام صرف ایک طرح کی ذہانت کو فروغ دیتا ہے جس میں سب سے زیادہ زور گریڈز پر ہوتا ہے۔ ایسے میں مختلف نوعیت کی ذہانت رکھنے والے افراد اپنی خواہشات کو دبا کر معاشرے میں رائج تعلیمی دوڑ کا حصہ بن جاتے ہیں۔
جن میں اچھے گریڈز لانا، اس کی بنیاد پر اچھی یونیورسٹی میں داخلہ ملنا اور اس کے بعد اچھی کمپنی میں نوکری، بس یہی ہمیں سکھایا جاتا ہے اور ماں باپ کا بھی یہی خواب ہوتا ہے۔
لیکن دراصل یہ ماحول خود غرضی پر مبنی ماحول ہے۔ جہاں کامیابی معاشی ترقی، اچھی نوکری کی بنیاد پر ناپی جاتی ہے۔ پھر انسان اپنی خواہش سے نہیں بلکہ معاشرے کے دباؤ میں آکر کام کرتے ہیں۔ اور جو افراد معاشرے کی متعین کردہ کامیابی کی منزل تک نہیں پہنچ پاتے وہ کبھی کبھی شروع میں اور کبھی اختتامی لکیر سے پہلے ہی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔
مصنف / مصنفہ: سیدہ ثناء بتول | بلاگ | 27.03.2021
سیدہ ثنا بتول اپنے اس بلاگ میں تفصیل سے بتا رہی ہیں کہ کس طرح طلبہ پر بہتر گریڈز لانے کے لیے روا رکھا جانے والا دباؤ انہیں اس نہج پر پہنچا دیتا ہے کہ وہ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی زندگی ختم کر دینے کی راہ چن لیتے ہیں۔
مجھے یاد ہے میں گیارہویں جماعت میں تھی، اسکول سے نکلے سال ہی گزرا تھا، جب ایک دن خبر ملی کے میری ایک سینیئر ساتھی نے نیند کی گولیاں کھا کر خود کشی کر لی ہے۔ مجھے آج بھی اس لڑکی کی صورت یاد ہے۔ لڑکوں جیسا حلیہ بنائے رابعہ ہمارے اسکول کی کرکٹ ٹیم کی کیپٹن تھی۔
پڑھائی میں رابعہ کو ہمیشہ مسائل کا سامنا رہا، وہ مختلف تھی، ہم سب سے، شاید اس کو اسکولوں میں دی جانے والی روایتی تعلیم حاصل ہی نہیں کرنی تھی۔ وہ تو بس کرکٹ کھیلنا چاہتی تھی، دنیا کو مسخر کرنا چاہتی تھی، لیکن اسکول میں نہ تو اس طرح کا کوئی ماحول تھا اور نہ ہی اس زمانے میں پریکٹیکل لرننگ اپروچ پر بات کی جاتی تھی۔ بس اچھے گریڈز کی ایک دوڑ تھی جس میں ہم سب بھاگ رہے تھے۔ جو بچہ اچھے گریڈز لے آتا، اس کو ٹیچرز بھی پسند کرتے تھے اور ماں باپ بھی اس ہی بچے پر زیادہ توجہ دیتے تھے۔
رابعہ جیسے بچے، ایسے ماحول میں نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوجاتے تھے۔ اسکول میں ٹیچرز سے الگ ڈانٹ کھانا اور گھر جاکر ماں باپ سے بھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ رابعہ کو کن مسائل کا سامنا تھا جس کے باعث اپنی زندگی ختم کردینے کا نہایت تکلیف دہ قدم اٹھایا لیکن مجھے اتنا معلوم ہے کہ رابعہ جیسے بہت سے بچے آج بھی اس روایتی تعلیم اور گریڈز کی دوڑ میں ہار مان کر، ٹیچرز اور ماں باپ اور معاشرے کے تکلیف دہ اور چبھتے جملوں سے فرار اختیار کرنے کے لیے زندگی سے دور ہو جانے کا راستہ چنتے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال طلبہ میں گریڈز خراب آنے کہ باعث خود کشی کے متعدد واقعات سامنے آتے ہیں۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں تعلیم کو معاشی ترقی کی نسبت سے جوڑا جاتا ہے۔ یونیورسٹیوں میں داخلے بھی گریڈز کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ تکریم اسکولوں میں ان ہی طلبہ کو دی جاتی ہے جو گریڈز اچھے لے کر آئیں، درمیانے اور کم درجات پر آنے والے طلبہ کو سب سے پہلے احساس کمتری میں مبتلا کیا جاتا ہے اور بعد میں وہی ان کی خود اعتمادی میں کمی کا باعث بنتا ہے۔ جس کی وجہ سے اکثر بچوں کا دل پڑھائی سے اچاٹ ہوجاتا ہے یا وہ اس دوڑ سے تھک جاتے ہیں۔
جن بچوں کو اکثر خاندان کے لائق بچوں کی مثالیں دی جاتی ہیں، وہ بھی ایک نفسیاتی دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔ ان کو مختلف مواقع پر باور کرایا جاتا ہے کہ وہ دوسروں سے کم ہیں اور انہیں خاندان کے کامیاب بچوں کی طرح بننے کے لیے محنت کرنی چاہیے۔
چند سالوں پہلے انسانی نفسیات سے متعلق ایک ورک شاپ میں شامل ہونے کا موقع ملا۔ اس وقت مجھے ہوورڈ گارڈنر کی ''ملٹپل انٹیلیجنس تھیوری‘‘ کے بارے میں پتہ چلا۔ جس کے مطابق انسان کی ذہانت کی مختلف اقسام ہیں۔
وہ کہتا ہے کہ انسانی ذہانت کو گریڈز میں ناپا نہیں جاسکتا۔ بلکہ ہر انسان ذہین ہے۔ لیکن اس کی ذہانت دوسرے سے مختلف ہے۔ اپنی تھیوری میں اس نے ''اسپیشل انٹیلیجنس‘‘ کے بارے میں بات کی جس میں یہ بتایا گیا کے کچھ انسانی ذہن تصاویر کے ذریعے سیکھتے ہیں اور اپنا علم تصاویر، جیومیٹرکلی اور ویژولز کے ذریعے پیش کرتے ہیں۔ ایسے افراد شاید لکھنے میں اچھے ثابت نہ ہوں لیکن اگر ان کو رنگ اور کینوس دیدیا جائے تو وہ اپنے آپ کو سب سے بہتر طریقے سے ایکسپریس کر سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ گارڈنر نے ذہانت کی دیگر اقسام کے بارے میں بھی بات کی۔ جن میں ''فطری ذہانت‘‘ ، جس کا تعلق آب و ہوا اور قدرتی چیزوں سے ہے، انٹر پرسنل سوشل، انٹراپرسنل اکیلے رہ کر پڑھنا، لاجک میتھمیٹک، میوزیکل یا موسیقی کے ذریعے سیکھنا، باڈلی انٹیلیجنس جس کا تعلق کھیلوں اور جسمانی ورزش وغیرہ سے ہے، شامل ہیں۔
لیکن اگر ہم اپنے ارد گرد دیکھیں تو ہمارا تعلیمی نظام صرف ایک طرح کی ذہانت کو فروغ دیتا ہے جس میں سب سے زیادہ زور گریڈز پر ہوتا ہے۔ ایسے میں مختلف نوعیت کی ذہانت رکھنے والے افراد اپنی خواہشات کو دبا کر معاشرے میں رائج تعلیمی دوڑ کا حصہ بن جاتے ہیں۔
جن میں اچھے گریڈز لانا، اس کی بنیاد پر اچھی یونیورسٹی میں داخلہ ملنا اور اس کے بعد اچھی کمپنی میں نوکری، بس یہی ہمیں سکھایا جاتا ہے اور ماں باپ کا بھی یہی خواب ہوتا ہے۔
لیکن دراصل یہ ماحول خود غرضی پر مبنی ماحول ہے۔ جہاں کامیابی معاشی ترقی، اچھی نوکری کی بنیاد پر ناپی جاتی ہے۔ پھر انسان اپنی خواہش سے نہیں بلکہ معاشرے کے دباؤ میں آکر کام کرتے ہیں۔ اور جو افراد معاشرے کی متعین کردہ کامیابی کی منزل تک نہیں پہنچ پاتے وہ کبھی کبھی شروع میں اور کبھی اختتامی لکیر سے پہلے ہی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔