تعلیم اور بچپن پر نفسیاتی دباؤ

ہانیہ

محفلین
تعلیم اور بچپن پر نفسیاتی دباؤ
مصنف / مصنفہ: سیدہ ثناء بتول | بلاگ | 27.03.2021‏

سیدہ ثنا بتول اپنے اس بلاگ میں تفصیل سے بتا رہی ہیں کہ کس طرح طلبہ پر بہتر گریڈز لانے کے لیے روا رکھا جانے والا دباؤ انہیں اس نہج پر پہنچا دیتا ہے کہ وہ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی زندگی ختم کر دینے کی راہ چن لیتے ہیں۔

مجھے یاد ہے میں گیارہویں جماعت میں تھی، اسکول سے نکلے سال ہی گزرا تھا، جب ایک دن خبر ملی کے میری ایک سینیئر ساتھی نے نیند کی گولیاں کھا کر خود کشی کر لی ہے۔ مجھے آج بھی اس لڑکی کی صورت یاد ہے۔ لڑکوں جیسا حلیہ بنائے رابعہ ہمارے اسکول کی کرکٹ ٹیم کی کیپٹن تھی۔

پڑھائی میں رابعہ کو ہمیشہ مسائل کا سامنا رہا، وہ مختلف تھی، ہم سب سے، شاید اس کو اسکولوں میں دی جانے والی روایتی تعلیم حاصل ہی نہیں کرنی تھی۔ وہ تو بس کرکٹ کھیلنا چاہتی تھی، دنیا کو مسخر کرنا چاہتی تھی، لیکن اسکول میں نہ تو اس طرح کا کوئی ماحول تھا اور نہ ہی اس زمانے میں پریکٹیکل لرننگ اپروچ پر بات کی جاتی تھی۔ بس اچھے گریڈز کی ایک دوڑ تھی جس میں ہم سب بھاگ رہے تھے۔ جو بچہ اچھے گریڈز لے آتا، اس کو ٹیچرز بھی پسند کرتے تھے اور ماں باپ بھی اس ہی بچے پر زیادہ توجہ دیتے تھے۔

رابعہ جیسے بچے، ایسے ماحول میں نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوجاتے تھے۔ اسکول میں ٹیچرز سے الگ ڈانٹ کھانا اور گھر جاکر ماں باپ سے بھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ رابعہ کو کن مسائل کا سامنا تھا جس کے باعث اپنی زندگی ختم کردینے کا نہایت تکلیف دہ قدم اٹھایا لیکن مجھے اتنا معلوم ہے کہ رابعہ جیسے بہت سے بچے آج بھی اس روایتی تعلیم اور گریڈز کی دوڑ میں ہار مان کر، ٹیچرز اور ماں باپ اور معاشرے کے تکلیف دہ اور چبھتے جملوں سے فرار اختیار کرنے کے لیے زندگی سے دور ہو جانے کا راستہ چنتے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال طلبہ میں گریڈز خراب آنے کہ باعث خود کشی کے متعدد واقعات سامنے آتے ہیں۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں تعلیم کو معاشی ترقی کی نسبت سے جوڑا جاتا ہے۔ یونیورسٹیوں میں داخلے بھی گریڈز کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ تکریم اسکولوں میں ان ہی طلبہ کو دی جاتی ہے جو گریڈز اچھے لے کر آئیں، درمیانے اور کم درجات پر آنے والے طلبہ کو سب سے پہلے احساس کمتری میں مبتلا کیا جاتا ہے اور بعد میں وہی ان کی خود اعتمادی میں کمی کا باعث بنتا ہے۔ جس کی وجہ سے اکثر بچوں کا دل پڑھائی سے اچاٹ ہوجاتا ہے یا وہ اس دوڑ سے تھک جاتے ہیں۔

جن بچوں کو اکثر خاندان کے لائق بچوں کی مثالیں دی جاتی ہیں، وہ بھی ایک نفسیاتی دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔ ان کو مختلف مواقع پر باور کرایا جاتا ہے کہ وہ دوسروں سے کم ہیں اور انہیں خاندان کے کامیاب بچوں کی طرح بننے کے لیے محنت کرنی چاہیے۔

چند سالوں پہلے انسانی نفسیات سے متعلق ایک ورک شاپ میں شامل ہونے کا موقع ملا۔ اس وقت مجھے ہوورڈ گارڈنر کی ''ملٹپل انٹیلیجنس تھیوری‘‘ کے بارے میں پتہ چلا۔ جس کے مطابق انسان کی ذہانت کی مختلف اقسام ہیں۔

وہ کہتا ہے کہ انسانی ذہانت کو گریڈز میں ناپا نہیں جاسکتا۔ بلکہ ہر انسان ذہین ہے۔ لیکن اس کی ذہانت دوسرے سے مختلف ہے۔ اپنی تھیوری میں اس نے ''اسپیشل انٹیلیجنس‘‘ کے بارے میں بات کی جس میں یہ بتایا گیا کے کچھ انسانی ذہن تصاویر کے ذریعے سیکھتے ہیں اور اپنا علم تصاویر، جیومیٹرکلی اور ویژولز کے ذریعے پیش کرتے ہیں۔ ایسے افراد شاید لکھنے میں اچھے ثابت نہ ہوں لیکن اگر ان کو رنگ اور کینوس دیدیا جائے تو وہ اپنے آپ کو سب سے بہتر طریقے سے ایکسپریس کر سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ گارڈنر نے ذہانت کی دیگر اقسام کے بارے میں بھی بات کی۔ جن میں ''فطری ذہانت‘‘ ، جس کا تعلق آب و ہوا اور قدرتی چیزوں سے ہے، انٹر پرسنل سوشل، انٹراپرسنل اکیلے رہ کر پڑھنا، لاجک میتھمیٹک، میوزیکل یا موسیقی کے ذریعے سیکھنا، باڈلی انٹیلیجنس جس کا تعلق کھیلوں اور جسمانی ورزش وغیرہ سے ہے، شامل ہیں۔

لیکن اگر ہم اپنے ارد گرد دیکھیں تو ہمارا تعلیمی نظام صرف ایک طرح کی ذہانت کو فروغ دیتا ہے جس میں سب سے زیادہ زور گریڈز پر ہوتا ہے۔ ایسے میں مختلف نوعیت کی ذہانت رکھنے والے افراد اپنی خواہشات کو دبا کر معاشرے میں رائج تعلیمی دوڑ کا حصہ بن جاتے ہیں۔

جن میں اچھے گریڈز لانا، اس کی بنیاد پر اچھی یونیورسٹی میں داخلہ ملنا اور اس کے بعد اچھی کمپنی میں نوکری، بس یہی ہمیں سکھایا جاتا ہے اور ماں باپ کا بھی یہی خواب ہوتا ہے۔

لیکن دراصل یہ ماحول خود غرضی پر مبنی ماحول ہے۔ جہاں کامیابی معاشی ترقی، اچھی نوکری کی بنیاد پر ناپی جاتی ہے۔ پھر انسان اپنی خواہش سے نہیں بلکہ معاشرے کے دباؤ میں آکر کام کرتے ہیں۔ اور جو افراد معاشرے کی متعین کردہ کامیابی کی منزل تک نہیں پہنچ پاتے وہ کبھی کبھی شروع میں اور کبھی اختتامی لکیر سے پہلے ہی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
بالکل درست ہے یہ بات۔
جب انسان اپنی مرضی اور خواہش کو پسِ پُشت رکھتے ہوئے بس دوسروں کے چنےہوئے راستے پر چل کر اپنی منزل کی تلاش کرتا ہے وہ اکثر زندگی کی بازی کو ہی ہار دیتا ہے۔
 

ہانیہ

محفلین
بالکل درست ہے یہ بات۔
جب انسان اپنی مرضی اور خواہش کو پسِ پُشت رکھتے ہوئے بس دوسروں کے چنےہوئے راستے پر چل کر اپنی منزل کی تلاش کرتا ہے وہ اکثر زندگی کی بازی کو ہی ہار دیتا ہے۔

جی گل سسٹر۔۔۔۔اور ہمارے یہاں والدین بچپن سے بچوں پر اپنی مرضی مسلط کرتے ہیں۔۔۔۔بچہ پالنے میں ہوتا ہے۔۔۔۔ماں باپ کہہ رہے ہوتے ہیں۔۔۔ڈاکٹر بنے گا ۔۔۔پائلٹ بنے گا۔۔۔۔فلاں کے یہاں اس کی شادی کریں گے۔۔۔ ایسا لگتا ہے ۔۔۔بڑا ہوگا تو اپنا دل دماغ لے کر بڑا ہی نہیں ہوگا۔۔۔۔ماں باپ کے جذبات اور احساسات ہوں گے اس کے اندد بھی۔۔۔۔
 

حسرت جاوید

محفلین
افسوس کہ نہ تو ہمارے ہاں کوئی خاص نظام تعلیم ہے اور نہ ہی وہ استاد جو پڑھانا جانتے ہوں اور نہ ہی ڈھنگ کا کوئی معاشرتی نظام۔ اس سے بھی بد تر صورتحال یہ ہے کہ ہر رشتہ حاکم اور محکوم کے پیمانے میں تولا جاتا ہے۔ ماں، باپ، بڑے بہن بھائی، تایا، چاچو، ماموں، استاد وغیرہ چاہے کوئی عمر میں ایک دن بھی بڑا ہو وہ چھوٹے پر حاکم تصور کیا جاتا ہے۔ اس غلامی کو قبول کر کے جینے والی قوم بھی سمجھتی ہے کہ وہ دنیا فتح کرے گی۔ پیار نام ہے ان کنڈیشنل سپورٹ کا لیکن ہمارے ہاں یہ ایک کاروبار ہے۔ والدین کے نزدیک بچے بچے نہیں بلکہ ایک بزنز انٹیٹی ہیں جن پہ وہ سرمایہ لگاتے ہیں اس امید سے کہ وہ سود سمیت واپس کریں گے اور جب انہیں بچے کی مرضی میں اپنا خسارہ نظر آتا ہے تو خسارہ کس کو قبول ہے؟ سو وہ ہر وہ اثر و رسوخ استعمال کرتے ہیں جو کہ ایک بزنزمین کو کرنا چاہیے۔ ہم میں سے اکثریت اس ڈائمینشن میں نہیں سوچتی کہ وہ معاشرے کو ایسا فرد دے کر جائے جو معاشرے کے لیے فائدہ مند ہو بلکہ اس کے برعکس کاروباری سوچ رکھتی ہے۔
 

ہانیہ

محفلین
افسوس کہ نہ تو ہمارے ہاں کوئی خاص نظام تعلیم ہے اور نہ ہی وہ استاد جو پڑھانا جانتے ہوں اور نہ ہی ڈھنگ کا کوئی معاشرتی نظام۔ اس سے بھی بد تر صورتحال یہ ہے کہ ہر رشتہ حاکم اور محکوم کے پیمانے میں تولا جاتا ہے۔ ماں، باپ، بڑے بہن بھائی، تایا، چاچو، ماموں، استاد وغیرہ چاہے کوئی عمر میں ایک دن بھی بڑا ہو وہ چھوٹے پر حاکم تصور کیا جاتا ہے۔ اس غلامی کو قبول کر کے جینے والی قوم بھی سمجھتی ہے کہ وہ دنیا فتح کرے گی۔ پیار نام ہے ان کنڈیشنل سپورٹ کا لیکن ہمارے ہاں یہ ایک کاروبار ہے۔ والدین کے نزدیک بچے بچے نہیں بلکہ ایک بزنز انٹیٹی ہیں جن پہ وہ سرمایہ لگاتے ہیں اس امید سے کہ وہ سود سمیت واپس کریں گے اور جب انہیں بچے کی مرضی میں اپنا خسارہ نظر آتا ہے تو خسارہ کس کو قبول ہے؟ سو وہ ہر وہ اثر و رسوخ استعمال کرتے ہیں جو کہ ایک بزنزمین کو کرنا چاہیے۔ ہم میں سے اکثریت اس ڈائمینشن میں نہیں سوچتی کہ وہ معاشرے کو ایسا فرد دے کر جائے جو معاشرے کے لیے فائدہ مند ہو بلکہ اس کے برعکس کاروباری سوچ رکھتی ہے۔

سر آپکی سب باتوں سے متفق۔۔۔۔اسی لئے ہمارے یہاں اپنی سوچ ہی نہیں ہے۔۔۔۔خود سے سوچتے ہوئے ڈرتے ہیں۔۔۔۔بس ہاں میں ہاں بچپن سے ملانا سکھائی جاتی ہے۔۔۔۔دوسروں کی باتوں پر واہ واہ کرتے ہیں۔۔۔۔اس ڈر میں ہی رہتے ہیں کہیں کوئی ناراض نہ ہو جائے۔۔ کوئی بات اکثریت کی سوچ کے خلاف کر دی۔۔۔۔سوچتے ہیں دوستی خراب ہو جائےگی۔۔۔ سب کو خوش رکھنے کی کوشش میں برائی کو برائی کہنے کی بھی ہمارے یہاں ہمت نہیں ہے
۔۔۔کیونکہ بچپن میں ہی ہمارے یہاں یہ صلاحیت بڑے ختم لر دیتے ہیں۔۔۔۔

اور عمر کا تو آپ نے بالکل ٹھیک کہا۔۔۔۔اجنبی تک عمر کا رعب جماتے ہیں
۔۔مجھے تو یہاں بھی سننے کو ملا کہ میں چھوٹی ہوں اور بات بڑوں کی نہیں مان رہی ہوں۔۔۔۔

اور بات بات پر تربیت کی طعنے بھی ملتے ہیں ۔۔۔۔ بس ذرا مختلف بات کرو ۔۔۔۔ فورا سننے کو ملتا ہےماں باپ نے تمیز نہیں سکھائی۔۔۔وہ نہیں سکھایا۔۔۔۔یہ نہیں سکھایا۔۔۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
سر آپکی سب باتوں سے متفق۔۔۔۔اسی لئے ہمارے یہاں اپنی سوچ ہی نہیں ہے۔۔۔۔خود سے سوچتے ہوئے ڈرتے ہیں۔۔۔۔بس ہاں میں ہاں بچپن سے ملانا سکھائی جاتی ہے۔۔۔۔دوسروں کی باتوں پر واہ واہ کرتے ہیں۔۔۔۔اس ڈر میں ہی رہتے ہیں کہیں ناراض ہو جائیں گے۔۔ کوئی بات اکثریت کی سچ کے خلاف کر دی۔۔۔۔دوستی خراب ہو جائےگی۔۔۔ سب کو خوش رکھنے کی کوشش میں برائی کو برائی کہنے کی بھی ہمارے یہاں ہمت نہیں ہے
۔۔۔کیونکہ بچپن میں ہی ہمارے یہاں یہ صلاحیت بڑے ختم لر دیتے ہیں۔۔۔۔

اور عمر کا تو آپ نے بالکل ٹھیک کہا۔۔۔۔اجنبی تک عمر کا رعب جماتے ہیں
۔۔مجھے تو یہاں بھی سننے کو ملا کہ میں چھوٹی ہوں اور بات بڑوں کی نہیں مان رہی ہوں۔۔۔۔

اور بات بات پر تربیت کی طعنے بھی ملتے ہیں ۔۔۔۔ بس ذرا مختلف بات کرو ۔۔۔۔ فورا سننے کو ملتا ہےماں باپ نے تمیز نہیں سکھائی۔۔۔وہ نہیں سکھایا۔۔۔۔یہ نہیں سکھایا۔۔۔
اور المیہ تو یہ ہے کہ یہ سلسلہ چلتا ہی جا رہا ہے۔ ہمارے والدین کے والدین نے ان کے لئے خواب دیکھے۔۔۔ ہمارے والدین نے ہمیں اس راہ پہ چلانا چاہا کہ جو ان کے خواب ہیں وہ پورے کر سکیں۔ اب کل کے بچوں کے ساتھ ہم نے بھی یہی رویہ اپنایا تو ؟؟؟
اب اس سوچ کو ہمیں روکنا ہو گا کہ مزید نسلوں تک نہ جائے۔
بچے کو اس کے ذہن اور سمجھ کے مطابق تعلیم کے میدان میں اپنے چناؤ کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئیے۔
رہی بات اکثریت کے خلاف سچ کہنے کی یا اپنا موقف بیان کرنے کی۔۔۔۔ اس معاملے میں ہمیں خود ہمت کرنی ہو گی۔ ورنہ وہی لکیر کے فقیر بنے گزر جائے گی زندگی۔
خدانخواستہ ہم بے ادب یا منہ پھٹ نہیں ہیں مگر جو بات ہو، کہہ دیتے ہیں۔ اور اس کے بعد کسی کے سر سے لگے اور تلووں میں بجھے۔۔۔ اپنا کام ختم۔
بڑے صلاحیت کو بچپن میں ختم کرتے ہیں لیکن اچھائی اور برائی میں تمیز کی سمجھ آنے کے بعد ہم پر فرض ہے کہ اپنا موقف ہر صورت بیان کریں۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
افسوس کہ نہ تو ہمارے ہاں کوئی خاص نظام تعلیم ہے اور نہ ہی وہ استاد جو پڑھانا جانتے ہوں اور نہ ہی ڈھنگ کا کوئی معاشرتی نظام۔ اس سے بھی بد تر صورتحال یہ ہے کہ ہر رشتہ حاکم اور محکوم کے پیمانے میں تولا جاتا ہے۔ ماں، باپ، بڑے بہن بھائی، تایا، چاچو، ماموں، استاد وغیرہ چاہے کوئی عمر میں ایک دن بھی بڑا ہو وہ چھوٹے پر حاکم تصور کیا جاتا ہے۔ اس غلامی کو قبول کر کے جینے والی قوم بھی سمجھتی ہے کہ وہ دنیا فتح کرے گی۔ پیار نام ہے ان کنڈیشنل سپورٹ کا لیکن ہمارے ہاں یہ ایک کاروبار ہے۔ والدین کے نزدیک بچے بچے نہیں بلکہ ایک بزنز انٹیٹی ہیں جن پہ وہ سرمایہ لگاتے ہیں اس امید سے کہ وہ سود سمیت واپس کریں گے اور جب انہیں بچے کی مرضی میں اپنا خسارہ نظر آتا ہے تو خسارہ کس کو قبول ہے؟ سو وہ ہر وہ اثر و رسوخ استعمال کرتے ہیں جو کہ ایک بزنزمین کو کرنا چاہیے۔ ہم میں سے اکثریت اس ڈائمینشن میں نہیں سوچتی کہ وہ معاشرے کو ایسا فرد دے کر جائے جو معاشرے کے لیے فائدہ مند ہو بلکہ اس کے برعکس کاروباری سوچ رکھتی ہے۔
اس کاروباری سوچ کی وجہ سے ہی تو منزل سے دور ہو جاتے ہیں اچھے ذہین لوگ بھی۔
لیکن جو ہو گیا ، سو ہو گیا۔ اگر سب انفرادی طور پر تہیہ کر لیں کہ اسی دائرے میں گھومتے رہنے کی بجائے اپنا راستہ نکالنا ہے تو بہت بہتری ہو سکتی ہے۔
 

حسرت جاوید

محفلین
اس کاروباری سوچ کی وجہ سے ہی تو منزل سے دور ہو جاتے ہیں اچھے ذہین لوگ بھی۔
لیکن جو ہو گیا ، سو ہو گیا۔ اگر سب انفرادی طور پر تہیہ کر لیں کہ اسی دائرے میں گھومتے رہنے کی بجائے اپنا راستہ نکالنا ہے تو بہت بہتری ہو سکتی ہے۔
آپ کی بات بجا ہے لیکن انفرادی سطح پر بھی یہ اسی وقت ممکن ہے جب انفرادی طور پر معاشرے کی اکثریت اس پہ عمل پیرا ہو۔ معاشرتی سطح پہ انسان مجبورِ محض سے بڑھ کر کچھ نہیں کیونکہ انفرادی ایکٹ کو بھی معاشرہ ہی طے کرتا ہے کہ یہ صحیح ہے یا غلط۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
آپ کی بات بجا ہے لیکن انفرادی سطح پر بھی یہ اسی وقت ممکن ہے جب انفرادی طور پر معاشرے کی اکثریت اس پہ عمل پیرا ہو۔ معاشرتی سطح پہ انسان مجبورِ محض سے بڑھ کر کچھ نہیں کیونکہ انفرادی ایکٹ کو بھی معاشرہ ہی طے کرتا ہے کہ یہ صحیح ہے یا غلط۔
اسی لئے تو سب کا لکھا نا۔۔۔ اب ہر بندہ نہ سہی لیکن اگر اکثریت اپنی سوچ بدل لے تو بہت کچھ تبدیلی ہو سکتی ہے۔ ورنہ معلوم نہیں مزید کتنی نسلوں کو یہی سب دیکھنا اور سہنا ہو گا۔
معاشرہ ہم لوگوں کا اپنا بنایا ہوا ہے نا۔۔۔۔ اگر یہی سوچ کر بیٹھے رہیں گے تو کچھ نہ ہو پائے گا۔
 

حسرت جاوید

محفلین
اسی لئے تو سب کا لکھا نا۔۔۔ اب ہر بندہ نہ سہی لیکن اگر اکثریت اپنی سوچ بدل لے تو بہت کچھ تبدیلی ہو سکتی ہے۔ ورنہ معلوم نہیں مزید کتنی نسلوں کو یہی سب دیکھنا اور سہنا ہو گا۔
معاشرہ ہم لوگوں کا اپنا بنایا ہوا ہے نا۔۔۔۔ اگر یہی سوچ کر بیٹھے رہیں گے تو کچھ نہ ہو پائے گا۔
جی، درست کہا آپ نے۔
 

سید رافع

محفلین
ہانیہ

پاکستان تو کسی حساب و کتاب میں نہیں۔ اس تعلیم نے اصل درندگی وہیں مچائی ہے جس جاپان، جرمنی، سوئیڈن اور ہنگری و یورپ سے یہ آئی ہے۔ الحمد للہ پاکستان میں لوگ خوب اللہ پر بھروسا کر کے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سہولیات کی عدم موجودگی کے باوجود یہاں لوگ گزارہ کر لیتے ہیں۔

کوڈ:
South Korea    24.7
Hungary    21.0
Japan    19.4
Belgium    18.4
Finland    16.5
France    14.6
Austria    13.8
Poland    13.8
Czech Republic    12.7
New Zealand    11.9
Denmark    11.3
Sweden    11.1
Norway    10.9
Slovak Republic    10.9
Iceland    10.4
Germany    10.3
Canada    10.2
United States    10.1
Luxembourg    9.5
Portugal    8.7
Netherlands    7.9
Spain    6.3
Britain    6
Italy    5.5
Mexico    4.4
Greece    2.9

Suicide Rate by Country 2021

https://www.washingtonpost.com/wp-srv/world/suiciderate.html
 

حسرت جاوید

محفلین
سر آپکی سب باتوں سے متفق۔۔۔۔اسی لئے ہمارے یہاں اپنی سوچ ہی نہیں ہے۔۔۔۔خود سے سوچتے ہوئے ڈرتے ہیں۔۔۔۔بس ہاں میں ہاں بچپن سے ملانا سکھائی جاتی ہے۔۔۔۔دوسروں کی باتوں پر واہ واہ کرتے ہیں۔۔۔۔اس ڈر میں ہی رہتے ہیں کہیں کوئی ناراض نہ ہو جائے۔۔ کوئی بات اکثریت کی سوچ کے خلاف کر دی۔۔۔۔سوچتے ہیں دوستی خراب ہو جائےگی۔۔۔ سب کو خوش رکھنے کی کوشش میں برائی کو برائی کہنے کی بھی ہمارے یہاں ہمت نہیں ہے
۔۔۔کیونکہ بچپن میں ہی ہمارے یہاں یہ صلاحیت بڑے ختم لر دیتے ہیں۔۔۔۔

اور عمر کا تو آپ نے بالکل ٹھیک کہا۔۔۔۔اجنبی تک عمر کا رعب جماتے ہیں
۔۔مجھے تو یہاں بھی سننے کو ملا کہ میں چھوٹی ہوں اور بات بڑوں کی نہیں مان رہی ہوں۔۔۔۔

اور بات بات پر تربیت کی طعنے بھی ملتے ہیں ۔۔۔۔ بس ذرا مختلف بات کرو ۔۔۔۔ فورا سننے کو ملتا ہےماں باپ نے تمیز نہیں سکھائی۔۔۔وہ نہیں سکھایا۔۔۔۔یہ نہیں سکھایا۔۔۔
مکمل متفق ہوں۔ ہمارے معاشرے کی اکثریت ابھی اختلاف و ادب میں تمیز سے محروم ہے۔ یہاں ہر اختلاف کو ادب کے ترازو میں تولا جاتا ہے، جیسے آپ نے کسی کی شان میں گستاخی ہو اور یہ رواج ہمیشہ اس معاشرے میں ہوتا ہے جہاں معاشرے کا ہر فرد سمجھتا ہے کہ وہ کامل علم رکھتا ہے اور ناقابلِ تسخیر ہے۔ انسان جتنی شعور کی منزلیں طے کرتا جاتا ہے اسے معلوم ہوتا جاتا ہے کہ وہ کتنا کم علم ہے اور دنیا کتنی وسیع ہے۔ اس لیے میرے نزدیک اس کا واحد حل تعلیم ہے تاکہ ہر شخص اپنی اصل اوقات کو سمجھ سکے۔
 

ہانیہ

محفلین
ہانیہ

پاکستان تو کسی حساب و کتاب میں نہیں۔ اس تعلیم نے اصل درندگی وہیں مچائی ہے جس جاپان، جرمنی، سوئیڈن اور ہنگری و یورپ سے یہ آئی ہے۔ الحمد للہ پاکستان میں لوگ خوب اللہ پر بھروسا کر کے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سہولیات کی عدم موجودگی کے باوجود یہاں لوگ گزارہ کر لیتے ہیں۔

کوڈ:
South Korea    24.7
Hungary    21.0
Japan    19.4
Belgium    18.4
Finland    16.5
France    14.6
Austria    13.8
Poland    13.8
Czech Republic    12.7
New Zealand    11.9
Denmark    11.3
Sweden    11.1
Norway    10.9
Slovak Republic    10.9
Iceland    10.4
Germany    10.3
Canada    10.2
United States    10.1
Luxembourg    9.5
Portugal    8.7
Netherlands    7.9
Spain    6.3
Britain    6
Italy    5.5
Mexico    4.4
Greece    2.9

Suicide Rate by Country 2021

https://www.washingtonpost.com/wp-srv/world/suiciderate.html

سر۔۔۔۔یہ جو آپ نےاعداد و شمار پوسٹ کیے ہیں۔۔۔۔تو یہ جو سب لوگ خودکشی کرتے ہیں مغربی ممالک میں۔۔۔۔اس کی وجہ ان کی تعلیم ہی ہوتی ہے یا کچھ اور بھی ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔جیسے طلاق۔۔۔دھوکہ۔۔۔۔پیسوں کی تنگی وغیرہ۔۔۔۔۔

ویسے سر۔۔۔۔ خودکشی موضوع نہیں ہے یہاں پر۔۔۔۔یہاں موضوع ہے۔۔۔۔بچوں پر پڑھائی کا دباؤ۔۔۔۔اچھے گریڈز لانے ہیں۔۔۔۔اپنی مرضی کے کیرئیر کا انتخاب نہ کرنے دینا۔۔۔۔ایک ہی طرح کی پڑھائی پر زور دینا۔۔۔۔کھیل کود میں کوئی دلچسی رکھتا ہے تو اسے اس پر توجہ نہ دینے دینا وغیرہ۔۔۔۔آپ پھر سے پڑھیں آرٹیکل۔۔۔۔
 

سید رافع

محفلین
سر۔۔۔۔یہ جو آپ نےاعداد و شمار پوسٹ کیے ہیں۔۔۔۔تو یہ جو سب لوگ خودکشی کرتے ہیں مغربی ممالک میں۔۔۔۔اس کی وجہ ان کی تعلیم ہی ہوتی ہے یا کچھ اور بھی ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔جیسے طلاق۔۔۔دھوکہ۔۔۔۔پیسوں کی تنگی وغیرہ۔۔۔۔۔

ویسے سر۔۔۔۔ خودکشی موضوع نہیں ہے یہاں پر۔۔۔۔یہاں موضوع ہے۔۔۔۔بچوں پر پڑھائی کا دباؤ۔۔۔۔اچھے گریڈز لانے ہیں۔۔۔۔اپنی مرضی کے کیرئیر کا انتخاب نہ کرنے دینا۔۔۔۔ایک ہی طرح کی پڑھائی پر زور دینا۔۔۔۔کھیل کود میں کوئی دلچسی رکھتا ہے تو اسے اس پر توجہ نہ دینے دینا وغیرہ۔۔۔۔آپ پھر سے پڑھیں آرٹیکل۔۔۔۔

رابعہ کی خودکشی تو موضوع ہے۔ یہ اسکا جواب تھا کہ ان جیسے بچے بھی طلاق۔۔۔دھوکہ۔۔۔ کی پیداوار ہیں۔ آپ تعلیم کو اسکا دوش نہ دیں۔ اصل جڑ ماں اور باپ کا بے دین ہو کر سلامتی سے پرے کاموں میں لگنا ہوتا ہے۔

باقی کون سا بچہ ہے جو دلچسپی سے پڑھائی کرے گا جبکہ اسکے سامنے طرح طرح کی ڈیوائسسز ہیں۔ پھر کھیل اور تفریح کے انگنت مواقع۔ سو معاش کی تنگی اور برے حالوں سے بچانے کے لیے بچوں کو یہ جنگ و جہاد تو کرنا ہی ہو گا۔ ورنہ نرے نکمے بنیں گے۔
 

ہانیہ

محفلین
اور المیہ تو یہ ہے کہ یہ سلسلہ چلتا ہی جا رہا ہے۔ ہمارے والدین کے والدین نے ان کے لئے خواب دیکھے۔۔۔ ہمارے والدین نے ہمیں اس راہ پہ چلانا چاہا کہ جو ان کے خواب ہیں وہ پورے کر سکیں۔ اب کل کے بچوں کے ساتھ ہم نے بھی یہی رویہ اپنایا تو ؟؟؟
اب اس سوچ کو ہمیں روکنا ہو گا کہ مزید نسلوں تک نہ جائے۔
بچے کو اس کے ذہن اور سمجھ کے مطابق تعلیم کے میدان میں اپنے چناؤ کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئیے۔
رہی بات اکثریت کے خلاف سچ کہنے کی یا اپنا موقف بیان کرنے کی۔۔۔۔ اس معاملے میں ہمیں خود ہمت کرنی ہو گی۔ ورنہ وہی لکیر کے فقیر بنے گزر جائے گی زندگی۔
خدانخواستہ ہم بے ادب یا منہ پھٹ نہیں ہیں مگر جو بات ہو، کہہ دیتے ہیں۔ اور اس کے بعد کسی کے سر سے لگے اور تلووں میں بجھے۔۔۔ اپنا کام ختم۔
بڑے صلاحیت کو بچپن میں ختم کرتے ہیں لیکن اچھائی اور برائی میں تمیز کی سمجھ آنے کے بعد ہم پر فرض ہے کہ اپنا موقف ہر صورت بیان کریں۔

آپ کی سب باتوں سے متفق گل سسٹر۔۔۔۔ماں باپ موٹی سی ڈگری ہی بچوں کے ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں۔۔۔۔اگر کوئی بچہ آرٹسٹ بننے کی فرمائش کر دے ۔۔۔۔ اور ماں باپ کوئی ڈگری چاہتے ہوں۔۔۔اسے اپنا شوق دبانا پڑتا ہے۔۔۔۔آپ دیکھیں ہمارے یہاں کتنے ہی سٹوڈنٹس ہوتے ہیں۔۔۔۔جو ڈگری لیول پر کامیاب نہیں ہو رہے ہوتے ہیں۔۔۔۔کیونکہ ان کا انٹرسٹ ہی نہیں ہوتا ہے۔۔۔ان کو سمجھ ہی نہیں آرہا ہوتا ہے کہ کیا پڑھایا جا رہا ہے۔۔۔۔۔

گل سسٹر لیا ہی بہترین بات کہی۔۔۔۔کسی کے سر سے لگے تلوو میں بجھے۔۔۔۔فرق واقعی نہیں پڑنا چاہئے
۔۔۔۔لیکن میں نس ایسے دوہرے رویے پوائنٹ آؤٹ ضرور کرتی ہوں۔۔۔۔تاکہ سب کو پتہ چلتا رہے ۔۔۔۔کہ کر کیا رہے ہیں۔۔۔۔
 

ہانیہ

محفلین
رابعہ کی خودکشی تو موضوع ہے۔ یہ اسکا جواب تھا کہ ان جیسے بچے بھی طلاق۔۔۔دھوکہ۔۔۔ کی پیداوار ہیں۔ آپ تعلیم کو اسکا دوش نہ دیں۔ اصل جڑ ماں اور باپ کا بے دین ہو کر سلامتی سے پرے کاموں میں لگنا ہوتا ہے۔

باقی کون سا بچہ ہے جو دلچسپی سے پڑھائی کرے گا جبکہ اسکے سامنے طرح طرح کی ڈیوائسسز ہیں۔ پھر کھیل اور تفریح کے انگنت مواقع۔ سو معاش کی تنگی اور برے حالوں سے بچانے کے لیے بچوں کو یہ جنگ و جہاد تو کرنا ہی ہو گا۔ ورنہ نرے نکمے بنیں گے۔

آپ کو الہام ہوا ہے۔۔۔۔کہ رابعہ جیسا ہر بچہ طلاق۔۔۔۔اور دھوکے کی پیداوار ہے۔۔۔۔۔
رابعہ کی خودکشی مثال ہے۔۔۔۔کہ ایسے حالات میں۔۔۔۔بچے انتہائی قدم بھی اٹھا لیتے ہیں۔۔۔۔نفسیاتی دباؤ اصل موضوع ہے۔۔۔۔پھر سے پڑھیں سر۔۔۔۔۔
اور اگر کوئی بچہ سائنس نہیں پڑھنا چاہتا ہے۔۔۔آرٹس پڑھنا چاہتا ہے۔۔۔۔لیکن والدین چاہتے ہیں کہ تم ڈاکٹر ہی بنو۔۔۔تو اس میں بے دینی کہاں سے آگئی۔۔۔۔۔
اور جہاں تک ڈیوائسز کا تعلق ہے تو۔۔۔۔وہ بھی والدین غلط ہی کرتے ہیں۔۔۔بہرحال یہ بھی موضوع نہیں ہے۔۔۔۔موضوع ہے اپنی من پسند تعلیم حاصل کرنا۔۔۔۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
آپ کی سب باتوں سے متفق گل سسٹر۔۔۔۔ماں باپ موٹی سی ڈگری ہی بچوں کے ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں۔۔۔۔اگر کوئی بچہ آرٹسٹ بننے کی فرمائش کر دے ۔۔۔۔ اور ماں باپ کوئی ڈگری چاہتے ہوں۔۔۔اسے اپنا شوق دبانا پڑتا ہے۔۔۔۔آپ دیکھیں ہمارے یہاں کتنے ہی سٹوڈنٹس ہوتے ہیں۔۔۔۔جو ڈگری لیول پر کامیاب نہیں ہو رہے ہوتے ہیں۔۔۔۔کیونکہ ان کا انٹرسٹ ہی نہیں ہوتا ہے۔۔۔ان کو سمجھ ہی نہیں آرہا ہوتا ہے کہ کیا پڑھایا جا رہا ہے۔۔۔۔۔

گل سسٹر لیا ہی بہترین بات کہی۔۔۔۔کسی کے سر سے لگے تلوو میں بجھے۔۔۔۔فرق واقعی نہیں پڑنا چاہئے
۔۔۔۔لیکن میں نس ایسے دوہرے رویے پوائنٹ آؤٹ ضرور کرتی ہوں۔۔۔۔تاکہ سب کو پتہ چلتا رہے ۔۔۔۔کہ کر کیا رہے ہیں۔۔۔۔
کرنا بھی چاہئیں ایسے رویے پوائنٹ آؤٹ ورنہ سب اپنے آپ کو ہی ٹھیک سمجھتے رہیں گے۔
ہماری کل بھی اس بات پر بھائی سے کافی بحث ہوئی اور آخر کار انھیں قائل کر ہی لیا کہ وہ اپنے بیٹے کو اس کی مرضی سے اپنے لئے اگلی راہ متعین کرنے دیں۔ یہاں معاملہ یہ ہے کچھ والدین اپنے بچوں کو بڑا ہو جانے کے بعد بھی انگلی پکڑ کر ہی چلانا چاہتے ہیں۔ آج کے بچوں میں آگے بڑھنے کی لگن ہے مگر بڑے آگے بڑھنے نہیں دے رہے۔
 

ہانیہ

محفلین
کرنا بھی چاہئیں ایسے رویے پوائنٹ آؤٹ ورنہ سب اپنے آپ کو ہی ٹھیک سمجھتے رہیں گے۔
ہماری کل بھی اس بات پر بھائی سے کافی بحث ہوئی اور آخر کار انھیں قائل کر ہی لیا کہ وہ اپنے بیٹے کو اس کی مرضی سے اپنے لئے اگلی راہ متعین کرنے دیں۔ یہاں معاملہ یہ ہے کچھ والدین اپنے بچوں کو بڑا ہو جانے کے بعد بھی انگلی پکڑ کر ہی چلانا چاہتے ہیں۔ آج کے بچوں میں آگے بڑھنے کی لگن ہے مگر بڑے آگے بڑھنے نہیں دے رہے۔

بہت بہت بہترین کام کیا۔۔۔۔آپ کے بھتیجے کے لیے ڈھیر ساری دعائیں کامیابی کے لئے۔۔۔۔ اور آپ کے لئے بھی۔۔۔۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
مغربی ممالک میں کم ہی دیکھنے میں آتا ہے کہ کسی پر تعلیمی دباؤ ہو کسی بھی طرح سے۔ اپنی مرضی سے تعلیمی راہ چننے کا اختیار بھی ہوتا ہے اور چھٹیوں میں پڑھائی سے آزادی بھی رہتی ہے کہ لکھ لکھ کر صفحے کالے نہیں کرنے ہوتے۔ اس کے باوجود خودکشی کرتے ہیں بچے۔۔۔ جن کے پیچھے زیادہ تر وجوہات دوسرے طالب علموں کے مذاق کا نشانہ بننا، والدین کے مابین کشیدہ تعلقات اور بچپن میں ہی ذمہ داری کا بوجھ۔ اور نتیجہ اکثر جان دینے کی صورت نکلتا ہے، اگر مسائل کے بارے لکھنے بیٹھیں تو لمبی فہرست بن جاتی ہے جو ہمیں اپنے ہی آس پاس دیکھنے میں ملتے ہیں۔ ہر ملک میں ہر معاشرے میں ابھی بہت سدھار کی ضرورت ہے تا کہ بچے نفسیاتی دباؤ کا شکار نہ بنیں۔
 
Top