افسوس کہ نہ تو ہمارے ہاں کوئی خاص نظام تعلیم ہے اور نہ ہی وہ استاد جو پڑھانا جانتے ہوں اور نہ ہی ڈھنگ کا کوئی معاشرتی نظام۔ اس سے بھی بد تر صورتحال یہ ہے کہ ہر رشتہ حاکم اور محکوم کے پیمانے میں تولا جاتا ہے۔ ماں، باپ، بڑے بہن بھائی، تایا، چاچو، ماموں، استاد وغیرہ چاہے کوئی عمر میں ایک دن بھی بڑا ہو وہ چھوٹے پر حاکم تصور کیا جاتا ہے۔ اس غلامی کو قبول کر کے جینے والی قوم بھی سمجھتی ہے کہ وہ دنیا فتح کرے گی۔ پیار نام ہے ان کنڈیشنل سپورٹ کا لیکن ہمارے ہاں یہ ایک کاروبار ہے۔ والدین کے نزدیک بچے بچے نہیں بلکہ ایک بزنز انٹیٹی ہیں جن پہ وہ سرمایہ لگاتے ہیں اس امید سے کہ وہ سود سمیت واپس کریں گے اور جب انہیں بچے کی مرضی میں اپنا خسارہ نظر آتا ہے تو خسارہ کس کو قبول ہے؟ سو وہ ہر وہ اثر و رسوخ استعمال کرتے ہیں جو کہ ایک بزنزمین کو کرنا چاہیے۔ ہم میں سے اکثریت اس ڈائمینشن میں نہیں سوچتی کہ وہ معاشرے کو ایسا فرد دے کر جائے جو معاشرے کے لیے فائدہ مند ہو بلکہ اس کے برعکس کاروباری سوچ رکھتی ہے۔