محمد تابش صدیقی
منتظم
محفل کی سالگرہ کی ایک لڑی میں سید ذیشان بھائی نے اپنی آمد اور متوقع ملاقات سے آگاہ کر دیا تھا۔ دو ہفتہ قبل ایک مکالمہ میں باضابطہ ملاقات کے لیے شامل کیا۔ اور مدعو تمام افراد نے اپنی شرکت کی یقین دہانی کروائی، اور بالآخر آج کی تاریخ طے پائی۔ اور فاتح بھائی نے تندوری ریستوران میں باقاعدہ بکنگ بھی کروا لی۔
آج مقررہ وقت پر پہنچنے کے لیے گھر سے روانہ ہوا تو راستے میں ہی سعادت بھائی کی کال آ گئی کہ وہ پہنچ گئے ہیں۔ انھیں بکنگ کا بتایا۔ پھر میں پہنچا تو سعادت بھائی ہی میرے منتظر تھے۔ اور پہلی نظر میں جو خیال ذہن سے گزرا وہ یہی تھا کہ چلو آج کی ملاقات میں بھی کوئی فاتح بھائی کے جوڑ کا ہو گا۔ (قد کے اعتبار سے)
ہلکی پھلکی گپ شپ شروع ہی کی تھی تو سید شہزاد ناصر صاحب پہنچ گئے۔ اور تھوڑی دیر میں سید ذیشان بھائی اور نمرہ بہن بھی پہنچ گئے۔ تعارفی گپ شپ جاری تھی کہ فاتح بھائی بھی پہنچ گئے۔
اتنے میں نمرہ بہن نے اجازت طلب کی۔ ابھی تک انھوں نے زیادہ تر سامع کا کردار ادا کیا تھا، البتہ کسی اور کمٹمنٹ کے سبب انھیں جلدی جانا پڑا۔ اور ہم جو ان سے کلام سننے کی خواہش لیے بیٹھے تھے، وہ خواہش ہی رہی۔
ایک صاحب ابھی تک نہیں پہنچے تھے، خیر کھانا آرڈر کر دیا۔
ساتھ ساتھ گپ شپ جاری رہی۔ مختلف موضوعات پر گفتگو رہی۔ اتنے میں کھانا آ گیا اور سب کی توجہ کھانا پر مرکوز ہو گئی۔ بار بی کیو پلیٹر پر ہاتھ صاف کیے گئے۔ کھانے کے دوران ہی محمد سعد بھائی کی آمد ہوئی۔
اور اپنی اس آمد کو خود انھوں نے بعد میں اس شعر سے مناسبت دی۔ اور یہ شعر بھی فاتح بھائی کے کافی اصرار پر سنایا کہ کوئی شعر تو سنائیں۔
شاید مجھے نکال کر "کچھ کھا" رہے ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آ گیا ہوں میں
کھانے کے بعد کھل کر مختلف موضوعات پر اچھی گفتگو رہی۔
اور اس دوران فاتح بھائی کی بٹیا کی جانب سے ناراضگی کے پیغامات آنا شروع ہو گئے۔ اور جب نوبت کال تک پہنچی تو پھر ہمارے لیے یہ خوبصورت محفل برخواست کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا۔ یوں فاتح بھائی کی ایک خوبصورت غزل کے ساتھ ملاقات اختتام پر پہنچی۔
ملاقات کی روداد ان شاء اللہ دیگر احباب بھی اپنی سہولت کے ساتھ شامل کرتے رہیں گے۔
آج مقررہ وقت پر پہنچنے کے لیے گھر سے روانہ ہوا تو راستے میں ہی سعادت بھائی کی کال آ گئی کہ وہ پہنچ گئے ہیں۔ انھیں بکنگ کا بتایا۔ پھر میں پہنچا تو سعادت بھائی ہی میرے منتظر تھے۔ اور پہلی نظر میں جو خیال ذہن سے گزرا وہ یہی تھا کہ چلو آج کی ملاقات میں بھی کوئی فاتح بھائی کے جوڑ کا ہو گا۔ (قد کے اعتبار سے)
ہلکی پھلکی گپ شپ شروع ہی کی تھی تو سید شہزاد ناصر صاحب پہنچ گئے۔ اور تھوڑی دیر میں سید ذیشان بھائی اور نمرہ بہن بھی پہنچ گئے۔ تعارفی گپ شپ جاری تھی کہ فاتح بھائی بھی پہنچ گئے۔
اتنے میں نمرہ بہن نے اجازت طلب کی۔ ابھی تک انھوں نے زیادہ تر سامع کا کردار ادا کیا تھا، البتہ کسی اور کمٹمنٹ کے سبب انھیں جلدی جانا پڑا۔ اور ہم جو ان سے کلام سننے کی خواہش لیے بیٹھے تھے، وہ خواہش ہی رہی۔
ایک صاحب ابھی تک نہیں پہنچے تھے، خیر کھانا آرڈر کر دیا۔
ساتھ ساتھ گپ شپ جاری رہی۔ مختلف موضوعات پر گفتگو رہی۔ اتنے میں کھانا آ گیا اور سب کی توجہ کھانا پر مرکوز ہو گئی۔ بار بی کیو پلیٹر پر ہاتھ صاف کیے گئے۔ کھانے کے دوران ہی محمد سعد بھائی کی آمد ہوئی۔
اور اپنی اس آمد کو خود انھوں نے بعد میں اس شعر سے مناسبت دی۔ اور یہ شعر بھی فاتح بھائی کے کافی اصرار پر سنایا کہ کوئی شعر تو سنائیں۔
شاید مجھے نکال کر "کچھ کھا" رہے ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آ گیا ہوں میں
کھانے کے بعد کھل کر مختلف موضوعات پر اچھی گفتگو رہی۔
اور اس دوران فاتح بھائی کی بٹیا کی جانب سے ناراضگی کے پیغامات آنا شروع ہو گئے۔ اور جب نوبت کال تک پہنچی تو پھر ہمارے لیے یہ خوبصورت محفل برخواست کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا۔ یوں فاتح بھائی کی ایک خوبصورت غزل کے ساتھ ملاقات اختتام پر پہنچی۔
ملاقات کی روداد ان شاء اللہ دیگر احباب بھی اپنی سہولت کے ساتھ شامل کرتے رہیں گے۔