لندن میں سمندر کا تصور بہت عجیب ہے کہ لندن میں سمندر شہر سے کافی دور ہے بلکہ شہر کے سب اربز سے بھی دور جا لگتا ہے۔ لندن کے ساحل حوالے سے جب بات کرتے ہیں تو عموماً دریائے تھیمز کا ہی ذکر ہوتا ہے۔ ٹائپو کے علاوہ بھی کچھ غلطیاں دکھائی دیں جن کو بہتر کیا جا سکتا ہے
لندن یا انگلینڈ یا مغرب میں پولیس مقابلے اس طرح کے نہیں ہوتے کہ اس طرح بندے مارے جائیں اور زخمی ہوں۔ یہ کوئی بہت بڑی دہشت گردی کی کاروائی ہو یا پھر ڈرگز کے کاروبار تو پھر یہ ممکن ہے۔ دوسرا سولہ سال کی لڑکی کےدوست بھی سولہ سترہ برس کے ہی ہوں گے جو کہ قانونی طور پر بالغ شمار نہیں ہوتے۔ ان کے خلاف پاکستانی پولیس جیسی کاروائی بہت عجیب تائثر چھوڑ رہی ہے۔ اگر وہ بالغ ہیں کہ اپنے گھر رہتا ہے لڑکا تو بھی بات کچھ ہضم نہیں ہوتی
لبیک کو تلبیح بے شک کہتے ہوں لیکن بہتر رہتا کہ آپ کا مطلب "میں حاضر ہوں" کہلواتیں۔ بچے کو بات آسان الفاظ میں سمجھائی جاتی ہے
فوٹان میں ڈھلے حسان۔۔۔ اس طرح فوٹان اور حسان سے نغمگی تو پیدا ہو رہی ہے لیکن اس سے بات بہت آؤٹ آف کاٹیکسٹ چلی جاتی ہے جو قاری کے ذہن میں مستقل الجھن چھوڑتی ہے اور افسانے پر توجہ نہیں رہ پاتی
عین یہی بات الیکٹرانک امیج ٹرانسفر پر بھی فٹ آتی ہے
گھر میں لائبریری میں کھڑا بندہ اپنی جیب میں بلڈ پریشر کی دوا لے کر کیوں پھر رہا ہے، یہ بات کافی تشنہ رہ گئی ہے
اس کے علاوہ یہ دیکھئے کہ وہ انعم کے ساتھ شادی کرنے کے بعد اور پہلے بیٹے کی پیدائش کے بعد پاکستان سے باہر جا رہا ہے اور پھر اچانک عابدہ صاحبہ دھم سے آن کودتی ہیں اور اسی طرح فیڈ آؤٹ ہو جاتی ہیں۔ اس پر کچھ وضاحت ہوتی تو بہتر لگتا
یہ پاکستانی معاشرہ نہیں ہے کہ جہاں اس طرح کی حالت میں بچی کو دیکھ کر لوگ بے حسی سے گذر جائیں گے یا باپ کو بچی دکھائی دے تو وہ اسے خود ہسپتال لے کر جائے۔ مغربی معاشرے میں یہ سب کچھ "فلی آٹومیٹڈ" ہوتا ہے
ابھی کے لئے اتنا ہی۔ اگر آپ کو مزید سننا ہو تو بعد میں