میرا جواب آپ سے زیادہ منصور کے لیے تھا جسے وہ سمجھ گئے تھے
صحت مند تنقید وہی ہوتی ہے جہاں آپ پوری ایمانداری سے کسی کو 100 ٪ فیڈبیک دیتے ہیں مگر آج جب تحریر کا مقصد صرف داد بٹورنا ہے تو صحت مند تنقید کا نہ کوئی مقصد ہے نہ وجود
جی اپیا ۔۔۔۔۔ مجھے لگتا ہے میں سمجھا نہیں پاؤں گا اس لیئے اس موضوع کو میں یہاں ہی ختم کرنے جا رہا ہوں۔ مجھے آپ کی خواہش کا مکمل احترام ہے!
تلاش ِخوشی سے دور نکل گئے ۔۔۔۔ وہی المیہ ہے جو زمانے بھر میں عام ہے
یعنی پہلا دوسرے سے اور دوسرا پہلے سے خائف نظر آتا ہے ۔۔۔ ادب کا معاملہ بھی یہی ہے
نقاد لکھاری سے اور لکھاری نقاد سے دل برا کئے بیٹھا ہے، حقیقت یہ ہے کہ
پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں
بعض لکھاری ایسی طیعت کے ہوتے ہیں جو اپنی تصحیح گوارا ہی نہیں کرتےمطلب کسی کی اصلاح برداشت نہیں کرتے
سمجھتے ہیں کہ ان کا لکھا ہر عیب سے پاک ہے یہ عموماَ نئی پود میں بخوبی نظر آتا ہے کیونکہ برداشت تمام ہو چکی ہے
انتظار گورار نہیں، منزل تلک کا سفر بھی بھاری لگنے لگتا ہے اس لئے وہ بھٹی میں اترنے سے پہلے ہی اپنے آپ کو کندن
سمجھنے لگتے ہیں اور کافی فورمز پر دیکھتا آیا ہوں ، بد تمیزی بھی کر بیٹھتے ہیں سامنے والے سے
دوسری جانب بعض نقاد اپنے علم کو اور اپنی بات کو حرف ِ آخر جانتے ہیں اور سامنے والے کو بس ایک ہی نظر سے دیکھنے کے
عادی ہوتے ہیں اور وہ ہوتی ہے نظر اپنے آپ سے کم علم جاننے اور ماننے والی۔۔۔۔ بعض نقاد ذاتی پسند ، ناپسند کے حصار
میں گھر جاتے ہیں اور کچھ قسم کھائے بیٹھے ہوتے ہیں کہ سامنے والے کی گر غلطیاں دو ہوں تو کسی چارٹرڈ اکاونٹیٹ کی طرح
اس دو کو چار اور چار کو چھ کرنا ہے۔۔۔۔
مگر اب بالا دونوں پیراگراف کا مطلب یا حاصل یہ نہیں کہ ہر لکھاری اپنی کاوش پر تنقید گوارا نہیں کرتا اور ہر نقاد اپنے کہے کو
ہی حرف آخر مانتا ہے ۔۔۔۔ اصل بات ہے طریقہ کار کی ۔۔۔۔ آپ ایک بار کہوں اور بات دل میں اتر جائے، اور ایسے اترے
کہ نہ سننے والے پر گراں گزرے اور نہ پڑھنے والے کو عجیب لگے اور یہ کام اور یہ سنت کہ اعلی اخلاق کو اپنایا جائے۔۔۔ دونوں ہی
یعنی لکھاری اور نقاد پر لازم ہے، بحیثیت مسلم بھی اور اگر کوئی غیر مسلم ہو تو بحیثیت انسانیت بھی
خیر جی معافی چاہتا ہوں دو بڑوں کے درمیان بول پڑا ۔۔۔ امید ہے گوارا فرمائیں گے
دعاگو
س ن مخمور