راحیل فاروق
محفلین
جی، بھائی۔ ربِ کائنات کے فرمان کے مطابق تو اطمینان اس کے ذکر میں ہے بس۔بہت خوب راحیل بھائی یہ موضوع واقعی بہت دلچسپ اور قابل غور ہے کہ خوشی اصل میں کہاں ہے؟ اور کیا ہے؟ مزے کی بات یہ ہے کہ ہر آدمی ہر بات پر خوش نہیں ہوتا نہ ہر ایک ہر بات پر دکھی
اور یاد ہے نا آپ کو؟ ہمارا دعویٰ ہے کہ آپ مشکل فلسفے سمجھ بغیر بھی ایسی باتیں کر سکتے ہیں کہ بندہ جھوم جھوم جائے!بہت خوبصورت تحریر راحیل بھائی!
کتنے مشکل فلسفے آپ کتنے آسانی سے سمجھا دیتے ہیں۔ ماشاءاللہ۔
شاد آباد رہیے۔
یہ رسیدیں ہم نہاں خانۂِ دل کی دیواروں پر لٹکائے رکھتے ہیں۔مجبوراً رسید سے کام چلانا پڑ رہا ہے۔ ابھی دفتر میں ہوں، یہ تحریر وقت مانگتی ہے۔
شکریہ، آقا۔مجھے کیا برا تھا مرنا ، اگر ایک بار ہوتا۔۔۔
خوب لکھا ہے بھائی۔۔۔
عنایت۔دلچسب موضوع اور بہترین تحریر۔
میں جہاں تک سمجھا ہوں دنیائے دوں کی کوئی بھی بات دل خوش کن فریب سے زیادہ کچھ نہیں۔میرے لیے صوفیا اور فلسفیوں کی باتیں دل کو خوش رکھنے والے خیالات سے بڑھ کر نہیں۔
یہی باشعور فطرت میرا خدا ہے۔فقط سائنسی توضیحات تسلی بخش ہیں۔ خوشی اور غم جذبات ہیں جو انسان کی بقا کے لیے فطرت نے منتخب کیے۔
مکرر جی۔ بک مارک کری کندی اے فیر تکساں کدھرے
تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے!
جزاک اللہ، مسیحا!قابلِ غور بات ہے!
بہت خوب صورت تحریر ہے مرشدی!
ماشا اللہ!
بہت شکریہ، عثمان بھائی۔اچھی تحریر ہے!
آداب، بھائی۔ آپ نے تعارف نہیں کروایا؟بہت عمدہ۔ قابل فکر تحریر۔
ایں خیال است و محال است و جنوں
بہترین قاری!بہترین تحریر
جی، یاز بھائی۔ بلکہ زیادہ تر آگے پڑی ہوتی ہیں۔ پیچھے والیوں کو تو گولی ماریے!زبردست تحریر ہے جناب۔
ہمارا بھی کچھ ایسا ہی کہنا ہے کہ خوشیاں آپ کے آگے پیچھے بکھری پڑی ہوتی ہیں۔ صرف ان کو تلاش کرنے یا ادراک کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
لیکن یہ ادراک بڑی اتھل پتھل کے بعد نصیب ہوتا ہے، بھائی۔بہت خوب اور عمدہ انداز سے ایک بہت اہم بات سمجھائی ہے۔
ویسے میرا تجربہ ہے کہ جب اس حقیقت کا ادراک ہو جاتا ہے تو زندگی میں کچھ ٹھہراؤ اور سکون آ جاتا ہے۔
بہت شکریہ، بہنا۔ خوش رہیں۔اپنے قلم پر کیا خوب گرفت رکھتے ہیں راحیل بھیا۔۔۔!!
بہت اعلی اور جاندار تحریر ہے۔۔!!
کیا ہی کہنے!خوشی اور غمی، پریشانی و آزمائش سے پیش آنے اور نمٹنے نمٹنے کا اسلامی فلسفہ ہماری عام معاشرتی سوچ سے کافی مختلف بھی ہے اور اکثریت کیلئے ناقابل فہم بھی!
مجھے اس موضوع میں ایک حدیث بڑی باکمال لگتی ہے :
عَجَبًا لأمرِ المؤمنِ إِنَّ أمْرَه كُلَّهُ لهُ خَيرٌ وليسَ ذلكَ لأحَدٍ إلا للمُؤْمنِ إِنْ أصَابتهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فكانتْ خَيرًا لهُ وإنْ أصَابتهُ ضَرَّاءُ صَبرَ فكانتْ خَيرًا لهُ "
مومن کامعاملہ بڑا ہی تعجب خیز ہے، اس کاہر معاملہ بھلائی سے بھرپور ہوتا ہے اور یہ کیفیت صرف مومن کے ساتھ خاص ہے!
اگر اسے خوشی پہنچتی ہے تو اس پر شکر کرتا ہے اور یہ اس کیلئے بھلائی ہے اور اگر اسے تنگی و تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے اور یہ بھی اس کیلئے بھلائی ہے۔
مرضی آپ کی!خوبصورت ترین تحریر۔
زبر دست پہ زبروں کی تعداد جتنی مرضی۔۔۔۔
زبردست، چوہدری صاب۔ اخیر کر دتی جے!بہت خوب راحیل میاں۔ اچھا مقدمہ پیش کیا ہے۔
وجود مٹی کا قرض ہے اور روح خدا کی پھونکی ہوئی۔ ہر دو اپنے اصل کے ہجر میں مبتلا کیے رکھتے ہیں، انسان خوش رہے بھی تو کیسے ؟ یہی خلش ہے یہی قلق ہے جس نے انسان کو مستقل بے چین رکھا ہوا ہے۔
ابیقورس نے اس مسئلے کے اس حصے پر اپنی تمام تر توجہ مبذول رکھی تھی جس کی جانب چوہدری صاحب نے اشارہ فرمایا ہے۔فلسفۂ مسرت پر سب سے اہم کام شاید ایپی کیورس Epicurus کا ہے، بلکہ Epicureanism اور مسرت مترادف اور "گالی" کے طور پر بھی استعمال ہوتے رہے ہیں۔ اور اسی نے مسرت اور حصولِ مسرت کو فلسفہ کا باقاعدہ حصہ بنایا۔
مسرت کو تو اخلاقیات کے اہدافِ ثلاثہ میں حسن اور خیر کے ساتھ جگہ ملتی آئی ہے۔ حصولِ مسرت کا البتہ جو ڈھنگ فیلسوفِ موصوف نے اپنایا وہ اتنا دلکش ہے کہ آج تک بوہیمئن ازم کی صورت میں اس کی باقیات مل جاتی ہیں۔وجود مٹی کا قرض ہے
مابعد الطبیعیات کی دلدل میں سے دو لوگ اچھے نکلے۔ ایک کانٹ جس کے ہاں فلسفے کا جواز بہرحال رہا۔ دوسرا کونت (Comte) جس کی ایجابیت پسندی نے تعقل پر بےجا پابندیاں عائد کر کے محض پیکرِ محسوس کو اپنی تگ و تاز کا محور بنایا۔ سائنس کی موجودہ روش سب سے زیادہ کونت ہی کی مرہونِ منت ہے۔سارا فلسفہ ہی سوختنی نہیں ہے بلکہ فلسفہ تو سائنس کے forerunner کے طور پر کام کرتا رہا ہے۔ ہاں مابعدالطبعیات فلسفے کی ایک ایسی دلدل ہے کہ اس میں جو پھنس گیا پھر مشکل اور قسمت ہی سے باہر نکل سکتا ہے
رہی فلسفے کے سوختنی ہونے کی بات، تو آپ کے منہ میں گھی شکر۔ خدا نے ہر انسان کو پیغمبر نہیں بنایا مگر ہر ایک کو کم یا زیادہ فلسفی ضرور بنایا ہے۔ اس سے زیادہ اس علم کی اہمیت کیا ہو سکتی ہے؟
جزاک اللہ، نوید بھائی!راحیل بھائی اچھی تحریر ہے۔۔۔ غم اور خوشی کے متعلق واصف صاحب کی چند باتیں آپ کی تسکین طبع کے لیے۔۔۔
× خوشی' بیٹی کی طرح گھر میں پلتی ہے اور جب جوان ہوتی ہے تو رخصت کر دی جاتی ہے×
×بہت زیادہ خوشیوں کے پیچھے بھاگنے والا' بہت زیادہ غم سے دوچار ہوتا ہے×
×ہم سب ایک دوسرے کا غم ہیں جو ایک دوسرے کی خوشیاں بنے ہوئے ہیں×
×جو کہے میں کل خوش ہو جاوں گا' وہ کبھی خوش نہیں ہو گا×
×اپنی مرضی اور اللہ کی مرضی میں فرق کا نام غم ہے×
×عبادت وہاں نہیں پہنچاتی' جہاں غم پہنچا دیتا ہے×
× غم جتنا بھی سنگین ہو، نیند سے پہلے تک ہے×
×خوشی صرف خوشی دینے والے کو ملتی ہے×