سب سے پہلے تو آپ سے ایک درخواست کہ براہِ کرم مراسلوں کا الگ الگ اقتباس لیا کریں، خاص طور اس صورت میں کہ جب ایک مراسلے میں آپ نے پھلجڑی کا جواب دیا ہو اور ساتھ ہی کوئی پٹاخہ بھی پھوڑا ہو، عجب سا ملغوبہ بن جاتا ہے۔ تشکر کے تھریڈز میں تو یہ چل جاتا ہے لیکن سنجیدہ مباحث میں عجب کوفت ہوتی ہے۔ اس کے کئی ایک اور بھی فوائد ہیں، مثلاً نوٹس ملنے پر اپنے مراسلے کا جواب علیحدہ مراسلے کی صورت میں آسانی سے مل جاتا ہے لمبا اسکرول کرنے اور نظریں گاڑ کر ڈھونڈنا نہیں پڑتا۔ جواب الجواب کی صورت میں آپ کے مراسلے میں سے مطلوبہ حصے کا اقتباس لینے کے لیے طویل کتر بیونت کی کوفت نہیں اٹھانی پڑے گی، اور مزید برآں کے آپ کے مراسلے کو "مناسب" ریٹنگ دینے میں آسانی رہے گی
موجودہ سائنسی روش پر سب سے زیادہ اثر
فرانسس بیکن کا ہے۔ اسے اگر بابائے فلسفۂ سائنس کہا جائے تو غلط نہیں ہے۔ بیکن سے پہلے تو نیچرل فلاسفر (سائنسدان) یہ تجربہ کرنا بھی گوارہ نہیں کرتے تھے کہ عورتوں کے منہ میں بھی بتیس دانت ہی ہوتے ہیں یا کہ کم ہوتے ہیں جیسا کہ بابا ارسطو فرما گئے تھے۔ تجرباتی نتائج پر اصول اخذ کرنے کے بیکن کے فلسفے نے ہی صحیح معنوں میں جدید فلسفۂ سائنس کی بنیاد رکھی ہے۔ بیکن اور Comte کے درمیان والی دو سوا دو صدیوں میں اور بھی کئی نام اس فکر کے حوالے سے اہم ہیں۔
اور ایک بات پھر دہراؤں گا کہ فلسفۂ مسرت اور غم پر کوئی بھی سنجیدہ مضمون ایپی کیورس کے ذکر کے بغیر ادھورا ہے۔