تم اپنے حسن پہ غزلیں پڑھا کرو بیٹھے

ظہیرؔ بھائی کے لیے غدر سے قبل کی ایک غزل!

تم اپنے حسن پہ غزلیں پڑھا کرو بیٹھے
کہ لکھنے والے تو مدت سے ہوش کھو بیٹھے

ترس گئی ہیں نگاہیں، زیادہ کیا کہیے
صنم صنم رہے بہتر، خدا نہ ہو بیٹھے

خدا کے فضل سے تعلیم وہ ہوئی ہے عام
خرد تو خیر، جنوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے

برا کیا کہ تلاطم میں ناخدائی کی
کنارہ بھی نہ ملا، ناؤ بھی ڈبو بیٹھے

مریضِ عشق کا جلدی جنازہ نکلے گا
کچھ اور دیر پتا پوچھتے رہو بیٹھے

تمام شہر میں بانٹی ہے شعر کی خیرات
ہم اس کے درد کو دل میں نہیں سمو بیٹھے

تمھاری بزم بہت تنگ اور دشت وسیع
چلے تو آئے گھڑی دو گھڑی ہی گو بیٹھے

بجھی نہ آتشِ دل ہی کسی طرح راحیلؔ
وگرنہ یار تو آنکھیں بہت بھگو بیٹھے

راحیلؔ فاروق
۴ فروری ۲۰۱۷
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ واہ!! کیا خوب راحیل بھائی! کیا اچھی غزل ہے ۔ بالکل آپ کے خاص اسلوب کی!! مطلع اچھا ہے ، نیا خیال ہے !

تم اپنے حسن پہ غزلیں پڑھا کرو بیٹھے
کہ لکھنے والے تو مدت سے ہوش کھو بیٹھے​

بہت خوب!!

ویسے آپ کی غزل غدر سے پہلے کی ہو یا بعد کی لیکن جب بھی آتی ہے ایک غدر مچادیتی ہے ۔ :):):)
خوش رہیں ۔ سلامت رہیں !!
 

فہد اشرف

محفلین
کیا خوب غزل ہے آہاہا
تم اپنے حسن پہ غزلیں پڑھا کرو بیٹھے
کہ لکھنے والے تو مدت سے ہوش کھو بیٹھے
 
بہت خوب راحیل بھائی
:redheart::redheart::redheart:
واہ واہ!! کیا خوب راحیل بھائی! کیا اچھی غزل ہے ۔ بالکل آپ کے خاص اسلوب کی!! مطلع اچھا ہے ، نیا خیال ہے !

تم اپنے حسن پہ غزلیں پڑھا کرو بیٹھے
کہ لکھنے والے تو مدت سے ہوش کھو بیٹھے​

بہت خوب!!

ویسے آپ کی غزل غدر سے پہلے کی ہو یا بعد کی لیکن جب بھی آتی ہے ایک غدر مچادیتی ہے ۔ :):):)
خوش رہیں ۔ سلامت رہیں !!
میں شکر گزار ہوں، ظہیر بھائی۔ آپ محبت اور چشم پوشی دونوں سے کام لیتے ہیں۔ فقیر کو ہر دو پر ناز ہے!
بہت خوب!! راحیل بھائی.
چھوٹو، اس عمر میں شاعری پڑھنا اچھا نہیں۔ اور ہماری شاعری پڑھنا تو قطعاً اچھا نہیں۔ :laughing::laughing::laughing:
غدر کا کیا مطلب ہے؟؟ :question:
۱۸۵۷ء کے ہنگاموں کو فرنگیوں نے غداری سے تعبیر کیا تھا۔ بعد میں تاریخ میں بھی اس واقعے کے لیے غدر کی اصطلاح رائج ہو گئی۔ باقی رہا ہمارا اور غدر کا تعلق تو اس کے لیے یہ دیکھیے:
اس غزل کی فضا ۲۰۱۷ کی نہیں ۱۷۲۰ کی ہے ۔ یعنی ہم نے آپ کو ولی ، آرزو ، آبرو اور مرزا مظہر کے دور میں لا کھڑا کیا ۔ اسے بیداد نہیں بلکہ داد سمجھئے گا۔ :):) :)
عنایت، بھائی۔
کیا خوب غزل ہے آہاہا
:):):)
بہت خوب!! راحیل بھائی.خوب مخصوص لب و لہجہ ۔ :)
ماشاءاللہ
بہت عنایت، قبلہ۔ دلی خوشی ہوئی آپ کے تبصرے سے۔
کرو بیٹھے مجھے کچھ عجیب لگا۔
میرا خیال ہے کہ کچھ فرق اب ہندوستان اور پاکستان کے اردو محاورے میں پیدا ہو گئے ہیں۔ سید عاطف علی ،ظہیراحمدظہیر اور الف عین صاحبان خاص اس بندش کی بابت اپنی رائے ظاہر کریں تو بہت اچھا ہو گا۔
محبت!
واہ، کیا عمدہ غزل ہے داغ کی!!
داغؔ نہیں، قبلہ، داغ داغ کی ہے یہ غزل۔ :laughing::laughing::laughing:
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کرو بیٹھے مجھے کچھ عجیب لگا۔
محمدظہیر ایسا کہنا تو بہت پرانا روز مرہ ہے اور فصیح اردو ہے ۔ آپ کو یہ بندش ذرا عجیب اس لئے لگ رہی ہے کہ اس میں شعری ضرورت کی خاطر لفظی ترتیب بدل گئی ہے ۔ اصل محاورہ یوں ہے : تم بیٹھے غزلیں پڑھا کرو ، تم بیٹھے مکھیاں مارا کرو ۔ وغیرہ :):):)
میرا خیال ہے کہ کچھ فرق اب ہندوستان اور پاکستان کے اردو محاورے میں پیدا ہو گئے ہیں۔ سید عاطف علی ،ظہیراحمدظہیر اور الف عین صاحبان خاص اس بندش کی بابت اپنی رائے ظاہر کریں تو بہت اچھا ہو گا۔

راحیل بھائی ، یہ آپ نےبالکل درست کہا ۔ اور جیسا کہ آپ جانتے ہی ہیں کہ یہ فرق پیدا ہونا تو زبان کے فطری ارتقا کا ایک حصہ ہے ۔ میرا اپنا مشاہدہ ہے کہ کراچی اور حیدرآباد میں تقسیمِ ہند کے بعد مختلف علاقائی اور ثقافتی پس منظر کے لوگوں کا جو اجتماع ہوا ہےاس نے بہت سارے نئے الفاظ اور روزمرہ کو جنم دیا ہے ۔ ( مثلا ہاڑا ہوڑی ، پنگا ، دو نمبری ، چار سو بیسی ، آسرا کرانا ، لفٹ نہ کرانا وغیرہ ) ۔ نیز بہت سے پرانے الفاظ اب کچھ نئے معنی بھی اختیار کرچکے ہیں ۔ یہ سب نئے الفاظ اور معانی ہماری ثقافتی اور لسانی تاریخ کا حصہ ہیں اور انہیں محفوظ کرنا اہلِ قلم کی ذمہ داری ہے ۔ اخبارات ، عوامی رسائل اور انٹر نیٹ پر تو یہ الفاظ اب عام دکھائی دیتے ہیں ۔ لیکن ان کی باقاعدہ لغت نویسی میرے خیال میں ابھی تک نہیں ہوئی ہے۔ اسی طرح پنجاب میں وسیع پیمانے پر اردو ادب تخلیق ہورہا ہے ۔ اردو الفاظ کے کچھ نئے استعمال اور ڈھنگ وجود میں آئے ہیں ۔ کئی عام الفاظ مستند اردو محاورے اور اسلوب سے ہٹ کر نئے انداز میں استعمال ہونے لگے ہیں ۔ اردو پر اہلِ پنجاب اور پنجابی کے لسانی اثرات تو میری رائے میں تحقیق کا ایک مستقل مضمون ہے ۔ اور پھر سب سے بڑھ کر ایک بات یہ کہ جدید اردو شاعری نے انگریزی کا اثر قبول کرتے ہوئے اردو الفاظ کو بالکل تجریدی انداز میں استعمال کرنے کا جو تجربہ کیا ہے وہ اب بہت عام ہوتا جارہا ہے ۔ نئے شعرا میں مقبول ہے ۔ اب روح میں تاریکی جم سکتی ہے ، اُبل سکتی ہے اور روشنی آنکھوں میں بیٹھ سکتی ہے ۔ بلکہ زیادہ تھکی ہوئی ہو تو لیٹ بھی سکتی ہے ۔ :)
راحیل بھا ئی یہ ایک بہت اہم اور دلچسپ موضوع چھیڑدیا ہے آپ نے ۔ اگر مین اس گفتگو کو آگے بڑھاؤں تو یہ کہوں گا کہ جس طرح کسی لفظ کی لغت میں عدم موجودگی اس کے غلط ہونے پر دلالت نہیں کرتی ( ہزاروں تراکیب ایسی ہیں جو کسی اردو لغت کا حصہ نہیں لیکن اس کے باوجود شعر و ادب میں استعمال ہوئی ہیں) اسی طرح کسی لفظ کی لغت میں موجودگی اس بات کی دلیل نہیں کہ اب وہ لفظ بلا روک ٹوک شعر و ادب کا حصہ بھی بنادیا جائے ۔ شعری و ادبی زبان کے مروجہ مذاق اور اقدار کی پاسداری بھی ضروری ہے ۔ لغت تو ایک طرح سے بولی جانے والی زبان کا تحریری ریکارڈ ہوتا ہے ۔ اس میں ادبی اور عوامی تمام الفاظ محفوظ کرلئے جاتے ہیں ۔ جو جو لفظ کسی زبان کے بولنے والے بولتے ہیں وہ لغت کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ اس میں تو گالیاں بھی ہوتی ہیں ۔ ایسے عامیانہ الفاظ جو پڑھنا تو درکنار کوئی سننا بھی پسند نہیں کرتا وہ لغت میں جلی حروف میں لکھے ہوتے ہیں ۔ آفرین ہے اُن علماءپر جو یہ غلاظت اتنے صاف ستھرے طریقے سے لغات کی شکل میں ہم تک پہنچا گئے ہیں ۔ یقین جانئے فیروزاللغات کے بعض اندراجات دیکھ کر تو شبہ ہوتاہے کہ یہ کام اکیلے مولوی فیروزالدین صاحب کا نہیں بلکہ کاتب صاحبان نے بھی اس میں حسبِ توفیق و طبع اپنی اپنی طرف سے اضافہ کیا ہے ۔ :):):)
تفنن برطرف ، مدعا یہ ہے کہ لغت دراصل زبان کا تحریری ریکارڈ ہوتا ہے ۔ لیکن مروجہ اردو لغات میں کسی بھی لفظ کے ذیل میں عموما اس کی اصل ، تجنیس و تعدید اور تلفظ سے زیادہ معلومات نہیں دی جاتیں ۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ لفظ کا تاریخی پس منظر ، اس کے علاقائی تغیرات اور مختلف تلفظات کے بارے میں بھی کچھ لکھا ہو ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان بدلتے ہوئے حالات میں اس طرح کی اردو لغت نویسی کی بہت شدید ضرورت ہے ۔ چونکہ مختلف علاقائی اثرات نے سب سے زیادہ اردو تلفظ کو متاثر کیا ہے اس لئے اس بات کی تو اشد ضرورت ہے کہ معیاری اردو تلفظ کو صوتی لغت کی شکل میں بھی محفوظ کیا جائے ۔ کمپیوٹر کے بڑھتے ہوئے استعمال اور کاغذی کتب کےمستقبل کو دیکھتے ہوئے صوتی لغت میری رائے مین وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ دیکھئے اب یہ سہرا کس کے سر بندھتا ہے ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
سید عاطف علی ،ظہیراحمدظہیر اور الف عین صاحبان خاص اس بندش کی بابت اپنی رائے ظاہر کریں تو بہت اچھا ہو گا۔
راحیل فاروق بھائی، پچھلے مراسلے میں بات کسی اور طرف ہی نکلتی چلی گئی اور پھر حسبِ معمول ’’ پروگرام کا وقت ختم ہوگیا ‘‘ اور مجھے اٹھنا پڑا ۔:):):) آپ کےتعمیلِ ارشاد میں مطلع کی مذکورہ بندش کے بارے میں اظہارِ خیال ہی نہ کر سکا ۔ اب دوبارہ بیٹھا ہوں تو کچھ عرض کرتا ہوں ۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ جہاں بات روز مرہ اور محاورے کی ہو وہاں ہر ممکنہ حد تک الفاظ کی ترتیب اور ہیئت کو بعینہ قائم رکھنا ضروری ہوتا ہے ۔ کم از کم نثر میں اس ترتیب اور ہیئت سے انحراف سخت معیوب سمجھا جاتا ہے اور غیر فصیح کے زمرے میں آتا ہے ۔ البتہ شعر میں میرا خیال ہے کہ کسی حد تک چھوٹ دی گئی ہے اور اس کی مثالیں اساتذہ کے ہاں بھی ملتی ہیں ۔ ظاہر ہے کہ روزمرہ اور محاورے میں کسی لفظ کو اس کے متبادل سے بدلا تو کسی صورت میں بھی نہیں جاسکتا خواہ نثر ہو یا شعر ۔ لیکن شعر میں ان کی تقدیم و تاخیر اگر کچھ ایسی کرنی پڑجائے کہ بنیادی ساخت واضح طور پر پہچانی جاسکے اور بالکل ہی مجروح نہ ہوئی ہو تو میری ناقص رائے مین ایسا کیا جاسکتا ہے ۔ لیکن ایسا کرنے کے لئے مطالعے اور ذوقِ سلیم کو رہنما بنانا ہوگا ۔ ویسے بہتر اور فصیح تو یہی ہوگا کہ روزمرہ اور محاورے کو ان کی اصل ہیئت اور طریقہء استعمال کے ساتھ برتا جائے ۔ اس سے کلام کا اثر دوچند ہوجاتا ہے ۔ یہ میری ناقص رائے ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب۔ دیکھئے دیگر احباب کیا کہتے ہیں اس بارے میں ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
دیکھئے دیگر احباب کیا کہتے ہیں اس بارے میں ۔
ہماری رائے تو یہ ٹھہری کہ کچھ لوگ منہ کی بات چھیننے کا عجیب ہنر لے کر پیدا ہوتے ہیں ۔ :) بیان و سخن کی دنیا میں شعر کا تصور ہی کیوں کہ لفظی پابندی کے شعورسے اٹھتا ہے سو اس میں محاورات کی طرف اگر اس سلیقے سے محض اشارہ کر دیا جائے یا ایے انداز سے برتا جائے کہ نفس مضمون کی نفاست اور اجمالی بیان کی سلاست پر حرف نہ آئے تو شعر میں یہ نہ صرف جائز بلکہ بسا اوقات مقبول و مستحسن تاثر رکھتا ہے۔ ضرب الامثال کی بھی یہی کیفیت ہے بلکہ اس میں گنجائش ذرا اور وسیع تر ہے۔
مگر یہ محض اپنی رائے کی بات ہے ۔ ارباب علم و ہنر اپنا اپنا مزاج رکھتے ہیں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ہماری رائے تو یہ ٹھہری کہ کچھ لوگ منہ کی بات چھیننے کا عجیب ہنر لے کر پیدا ہوتے ہیں ۔ :)
بہت خوب حضرت شاہ صاحب! آپ کی یہ بات لطف دے گئی ! ہماری مسکراہٹ کو معدوم ہونے میں ابھی کچھ وقت لگے گا ۔ تب تک آپ کے لئے صدہا نیک خواہشات اور دعائے خیر !
خدا رحمت کند ایں صاحبانِ پاک طینت را
 
Top