تنقیدی نشست 2

ایوب ناطق

محفلین
حالانکہ اس خصوصیت کی حامل کم ہی غزلیں ملیں گی لیکن بلا شبہ ایسا ہونا چائیے بلکہ میں تو اس کا بھی قائل نہیں کہ فنکار اپنی کسی دوسری تخلیق مین اپنے اس رائج کردہ سچ کی "اسی کیفیت" میں نفی کردے۔۔۔ جہاں قوافی اور ردیف ہمارے مجموعی مزاج کے ترجمان رہے ہیں وہاں ہمارے سچے تخلیق کاروں کو اپنا ایک مشترک سچ قائم نہیں کرنے دیا (میں ان میں اقبال کو شامل نہیں کر رہا)۔۔۔ جناب آسی صاحب نے کہیں پر کہا تھا کہ کسی غزل میں عموماً ایک یا دو شعر ہی آمد یا سچی تخلیق کے ہوتے ہیں (باقی استادی یا قافیہ پیمائی)۔۔۔۔ اللہ قافیہ پیمائی کی مثالیں دینے کے لیے بھی دس بارہ جلد کی کتاب لکھنی پڑے گی۔۔۔۔ اب جذبے سے عاری یہ مردہ دل قافیہ پیمائی چہ معنی دارد۔۔۔؟
 
دوم:
آپ کی گفتگو میں بنیادی حوالہ غزل کا ہے۔ میں نے ایک بات چیت میں غزل کو ’’اردو شاعری کا عطر‘‘ قرار دیا تھا (احباب کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)۔
وجہ اس کی یہ ہے کہ غزل میں شعری فنیات اپنے نفیس ترین صورت میں واقع ہوتی ہیں (یا کم از کم : ’’ہونی چاہئیں‘‘)
بے شک و شبہ غزل ہماری شاعری کا عطر ہے (ہماری سے مراد اردو اور فارسی دونوں) ۔۔۔ آپ کا ارشاد کہ غزل میں شعری فنیات اپنے نفیس ترین صورت میں واقع ہوتی ہیں (یا کم از کم : ’’ہونی چاہئیں‘‘) ۔۔۔ لاجواب ہے ۔۔۔ سرسری نظر سے دیکھتے ہوئے اس کا مفہوم یہ نکل سکتا ہے کہ دوسری اصناف نفیس ترین صورت میں شعری فنیات کے استعمال سے عاری ہیں اور اگر عاری نہیں تو وہ بھی غزل کے ہم پلہ ہو گی۔۔۔
لیکن غور کرنے سے نکتہ آفرینی ہوتی ہے کہ غزل کا ایجاز واختصار' صرف دو مصرعوں میں ایمائیت اور علامت نگاری اور دوسری فنیات حقیقتاً نفیس ترین اور جامع ترین شکل میں ہوتی ہے یا ہونی چائیے جو اسے مشکل ترین صنفِ سخن بناتی ہے
لیکن مجھے کہنے دیجیے کہ اگر یہ ایجاز و اختصار' ایمائیت' علامت نگاری ' اور دوسری فنیات اگر اپنی اعلٰی ترین سطح پر نظم میں واقع ہو اور مواد کا تنوع اور ہمہ جہتی شریک کار ہو کہ تو اس تخلیق کی سطح غزل سے بھی بہت اوپر اٹھ سکتی ہے ۔۔۔ مثال کے طور پر بلکہ اسے میرا دعوٰی سمجھ لیجیے کہ اردو ادب کی کوئی بھی غزل مسجدِ قرطبہ کی سطح سے بلند تو کجا اس کے ہم سر بھی نہیں ۔۔۔ (یا احباب مجھے غلط ثابت کرتے ہوئے ایسی کسی غزل کو یہاں نقل کردے یا حوالہ دے )

میں نے عمومی تناظر میں بات کی ہے، اس کو غزل اور نظم کا تقابل نہ جانئے۔ اقبال کے ساتھ بہت ساری چیزیں خاص ہیں، یوں کہہ لیجئے کہ وہ اقبال ہی کا حصہ ہیں۔
مزید یہ کہ میری گزارشات کو میری گزارشات ہی سمجھئے، میں نے ان کی حتمیت کا دعوٰی نہ کیا ہے اور نہ خود کو اس کا اہل سمجھتا ہوں۔
 
بالکل جیسے آپ کا کہنا ہے کہ: ’’ جہاں قوافی اور ردیف ہمارے مجموعی مزاج کے ترجمان رہے ہیں وہاں ہمارے سچے تخلیق کاروں کو اپنا ایک مشترک سچ قائم نہیں کرنے دیا (میں ان میں اقبال کو شامل نہیں کر رہا)۔‘‘
 
سوم اور چہارم۔۔۔ ۔ حرف بہ حرف متفق۔۔۔ بس سرسری صاحب کا انتظار ہے۔۔۔ ۔ بس اس ایک جملے پر آکر رک سا گیا۔۔۔
"ادب میں آ کر زبان کی ’’تہذیب‘‘ کی جاتی ہے اور اس کا جمالیاتی پہلو اجاگر ہوتا ہے"۔۔۔ ۔ لفظ تہذیب کی شائستگی میرا ذہن ظفر اقبال صاحب کی "ایجادات" کی طرف تو جانے سے روک رہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی تقسیم کے بعد سے ایسا ہے؟ کیا ہمارے محاوروں میں اضافہ ہو سکا ہیے یا ہونے دیا گیا ہےاور جدید روزمرہ کو غزل میں قبولیت حاصل ہو سکی ہے؟' کیا اب اچھے شاعروں کے استعمال میں آنے والے الفاظ کو سند مانا جاتا ہیں؟؟؟۔۔۔ ۔

آپ نے بہت سارے سوال اٹھا دیے۔ مجھے اپنی کام مایگی کا اعتراف ہے کہ دورِ حاضر کے ادب کا میرا مطالعہ تقریباً صفر ہے۔ آپ مجھے بلاتردد ’’شہر تمنا کا باسی‘‘ کہہ سکتے ہیں۔
تاہم ایک دو باتیں عرض کرنا لازم سجھتا ہوں:
(1) ہر اچھا شاعر استاد نہیں ہوتا، استاد کو اچھا شاعر ہونا چاہئے۔
(2) میں اس امر کا قائل ہوں کہ سند کو زبان کے قواعد پر پورا اترنا چاہئے۔
(3) محاورے اور ضرب الامثال بنتے بنتے بنا کرتے ہیں اور غیر محسوس طور پر زبان میں شامل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ کوئی تحقیق کرے تو ممکن ہے بہت کچھ نیا مل جائے، ممکن ہے کچھ بھی نہ ملے۔ یہ موقع نہیں کہ اپنے ہی دیس میں اپنی ہی زبان کی زبوں حالی کا قصہ چھیڑا جائے، سب کچھ عیاں ہے۔

بہت آداب۔
 
حالانکہ اس خصوصیت کی حامل کم ہی غزلیں ملیں گی لیکن بلا شبہ ایسا ہونا چائیے بلکہ میں تو اس کا بھی قائل نہیں کہ فنکار اپنی کسی دوسری تخلیق مین اپنے اس رائج کردہ سچ کی "اسی کیفیت" میں نفی کردے۔۔۔ جہاں قوافی اور ردیف ہمارے مجموعی مزاج کے ترجمان رہے ہیں وہاں ہمارے سچے تخلیق کاروں کو اپنا ایک مشترک سچ قائم نہیں کرنے دیا (میں ان میں اقبال کو شامل نہیں کر رہا)۔۔۔ جناب آسی صاحب نے کہیں پر کہا تھا کہ کسی غزل میں عموماً ایک یا دو شعر ہی آمد یا سچی تخلیق کے ہوتے ہیں (باقی استادی یا قافیہ پیمائی)۔۔۔ ۔ اللہ قافیہ پیمائی کی مثالیں دینے کے لیے بھی دس بارہ جلد کی کتاب لکھنی پڑے گی۔۔۔ ۔ اب جذبے سے عاری یہ مردہ دل قافیہ پیمائی چہ معنی دارد۔۔۔ ؟

ممکن ہے میں نے کوئی ایسی بات کہہ بھی دی ہو یا کسی قدر مختلف بات ہو۔
میں ذاتی طور پر محض استادی یا قافیہ پیمائی کا قائل نہیں ہوں۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ قافیہ اپنے معانی کے ساتھ انصاف کر سکے۔ اب، میں اس میں کس حد تک کامیاب رہا ہوں، میرے اہلِ نظر قارئین ہی کچھ بتا سکتے ہیں۔ مجھے تو جو کہنا تھا، اسے جس طور کہہ پایا شعر کی صورت میں کہہ دیا (ترمیم ، تہذیب، تخریج کسی وقت بھی ہو سکتی ہے)۔
میری اب تک کی ’’تازہ ترین‘‘ غزل دیکھ لیجئے۔ اس میں سے تیسرا شعر (حاصل کی ہوا۔۔۔)خارج گردانئیے گا:۔
1486779_393350430808421_1657504386_n.jpg
 
آخری تدوین:
جمالیات پر میری گزارشات احباب کے علم میں ہیں۔ جناب محمد اسامہ سَرسَری نے ان کو ایک مقام سے لے کر کسی دوسرے مقام پر نقل بھی کیا تھا۔ اگر وہ اس کو یہاں بھی نقل کر سکیں تو مجھے بات کرنے میں آسانی ہو جائے گی۔
ابلاغ:۔ شاعر اور قاری دونوں کا اصل مسئلہ ہے۔ میں شعر اس لئے کہتا ہوں کہ میری فکر یا میرا احساس میرے قاری تک اپنی پوری جمالیاتی تب و تاب کے ساتھ پہنچے۔ یہاں کچھ میرا کام ہے اور کچھ میرے قاری کا۔ مجھے اپنی بات کو بہت زیادہ الجھائے بغیر قاری تک پہنچانا ہے اور قاری کا منصب یہ ہے کہ وہ میری بات کا ادراک کرے۔ اس کے لئے بنیادی بات ہے کہ میں اس زبان میں بات کروں جو ادب کے ایک قاری کے لئے اجنبی نہ ہو۔ زبانِ غیر کی بات ہو تو وہاں مترجم چاہئے اور اس میں کوئی قباحت نہیں۔ ہاں زبان کی چاشنی ترجمے میں کھو جایا کرتی ہے، تاہم یہ ایک الگ بحث ہے۔
قاری میں اور مجھ میں جتنی (فنی فکری مذہبی لسانی سماجی نفسیاتی سیاسی تخلیقی) سانجھ ہو گی، ابلاغ کی سطح اتنی ہی بلند ہو گی۔ اس میں ابہام کا نہ ہونا بہترین بات ہے۔ اصولی طور پر ابہام ابلاغ کی ضد ہے، تاہم بسا اوقات یہ واقع ہو جاتا ہے۔ کہیں میں پورے طور پر بات کر نہیں پایا، کہیں میرے لفظوں میں کچھ ایہام جیسی بات ہو گئی، قاری کی اور میری سانجھ کسی بات پر صفر ہے یا تقریباً صفر ہے، وغیرہ وغیرہ۔ فکری اور نظریاتی ٹکراؤ اور چیز ہے تضاد اور چیز ہے۔
ابہام اور ایہام کو ہم معنی سمجھ لینا تخلیق میں ابہام پیدا کرتا ہے۔ ایہام کو بطور صنعت استعمال کرنا کم از کم میرے بس میں نہیں، میرے ہم قلم جانیں اور ان کی صلاحیتیں جانیں۔
یوں خیالوں کی تصویر قرطاس پر کیسے بن پائے گی
لفظ کھو جائیں گے فن کی باریکیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے
مزید موتی اس لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ :)
 

ایوب ناطق

محفلین
لاریب آپ کی بات تقابل میں نہیں تھی اور بےشک عمومی تناظر میں کہی گئی تھی ۔۔۔ (اس کا اعتراف میں نے یہ لکھ کر کیا تھا کہ سرسری نظر سے دیکھتے ہوئے) ۔۔۔ لیکن استاد محترم کوئی بات جس قدر عمومی ہوتی ہے اسی قدر وہ جملہ تفصیلات کا احاطہ کرتی ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ وہ تمام باریکیوں اور تفصیلات کا عطر ہوتی ہے ۔۔۔ میں نے آپ کے وضح کردہ خصوصیت کا اطلاق نظم پر کیا ۔۔۔ اختلاف کسی حرف سے بھی نہیں۔۔۔
(1) ہر اچھا شاعر استاد نہیں ہوتا، استاد کو اچھا شاعر ہونا چاہئے۔
(2) میں اس امر کا قائل ہوں کہ سند کو زبان کے قواعد پر پورا اترنا چاہئے۔
(3) محاورے اور ضرب الامثال بنتے بنتے بنا کرتے ہیں اور غیر محسوس طور پر زبان میں شامل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ کوئی تحقیق کرے تو ممکن ہے بہت کچھ نیا مل جائے، ممکن ہے کچھ بھی نہ ملے۔ یہ موقع نہیں کہ اپنے ہی دیس میں اپنی ہی زبان کی زبوں حالی کا قصہ چھیڑا جائے، سب کچھ عیاں ہے۔
1 اور 2 سے اختلاف کی گنجائش نہیں لیکن۔۔۔۔ جس تیزی سے محاورہ اور روزمرہ کی ترقی دہلی اور لکھنو کے دبستانوں میں ہوئی' ایک ایک لفظ اور جملے کو جس انداز سے بھرتا اور پرکھا جاتا تھا۔۔۔ کیا وہ رفتار ہمارے آج کے ادبی شعور کا حصہ ہے؟'
کیا ہمارے جدید شعراء فلسفی اور نفسیات نگار بنتے کی شعوری کوشش نہیں کر رہے کہ نقاد نے کہہ دیا کہ عظیم شاعری پورے انسانی روابط کو محیط ہوتی ہے اور ہم نے اس کا آسان راستہ ڈھونڈ لیا اور پہلے فلسفی کی کتابیں پڑھ کر شاعری کرنے لگے اور آج کل نفسیات کی خیر نہیں ۔۔۔ (جس کی ایجاد حسن عسکری صاحب نے فراق کی شاعری میں کی تھی) ۔۔۔
 

ایوب ناطق

محفلین
جناب اگر ایہام گوئی اور ابہام کے حوالے سے کچھ وضاحت و رہنمائی ہو سکے تو فائدہ ہوگا ۔۔۔
اور چونکہ آپ نے اپنی غزل اس تنقیدی نشست میں بطورِ مثال پیش کی ہے اس لیے غزل پر بات کرنے کی اجازت چاہتا ہوں (حالانکہ میری غزل پر اب تک ایک حرف بھی نہیں کہا گیا کہ سرسری صاحب کے سوال نے ہمیں کہیں اور پہنچا دیا ہے۔۔۔جملہ معترضہ)
 
آخری تدوین:
لاریب آپ کی بات تقابل میں نہیں تھی اور بےشک عمومی تناظر میں کہی گئی تھی ۔۔۔ (اس کا اعتراف میں نے یہ لکھ کر کیا تھا کہ سرسری نظر سے دیکھتے ہوئے) ۔۔۔ لیکن استاد محترم کوئی بات جس قدر عمومی ہوتی ہے اسی قدر وہ جملہ تفصیلات کا احاطہ کرتی ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ وہ تمام باریکیوں اور تفصیلات کا عطر ہوتی ہے ۔۔۔ میں نے آپ کے وضح کردہ خصوصیت کا اطلاق نظم پر کیا ۔۔۔ اختلاف کسی حرف سے بھی نہیں۔۔۔

1 اور 2 سے اختلاف کی گنجائش نہیں لیکن۔۔۔ ۔ جس تیزی سے محاورہ اور روزمرہ کی ترقی دہلی اور لکھنو کے دبستانوں میں ہوئی' ایک ایک لفظ اور جملے کو جس انداز سے بھرتا اور پرکھا جاتا تھا۔۔۔ کیا وہ رفتار ہمارے آج کے ادبی شعور کا حصہ ہے؟'
کیا ہمارے جدید شعراء فلسفی اور نفسیات نگار بنتے کی شعوری کوشش نہیں کر رہے کہ نقاد نے کہہ دیا کہ عظیم شاعری پورے انسانی روابط کو محیط ہوتی ہے اور ہم نے اس کا آسان راستہ ڈھونڈ لیا اور پہلے فلسفی کی کتابیں پڑھ کر شاعری کرنے لگے اور آج کل نفسیات کی خیر نہیں ۔۔۔ (جس کی ایجاد حسن عسکری صاحب نے فراق کی شاعری میں کی تھی) ۔۔۔
ایک بات میں نے کسی انٹرویو میں بھی کہی تھی کہ شاعر اپنی شاعری میں عام طور پر اور غزل میں خاص طور پر پورے کا پورا موجود ہوتا ہے۔ وہ سچا ہے، جھوٹا ہے، فریبی ہے، صاف گو ہے، ٹیڑھا ہے، سیدھا ہے، عالم ہے، جاہل ہے؛ جو کچھ بھی ہے۔ اس کا شعر اس کی شخصیت کے بہت سے پہلوؤں کی نمائندگی کر رہا ہوتا ہے۔ اسی تناظر میں اپنے ایک نو مشق دوست کو مشورہ بھی دیا تھا کہ میاں، اپنے آپ سے کبھی جھوٹ نہ بولنا اور اپنے شعر میں کبھی کوئی ایسی بات نہ کرنا جسے آپ خود ’’غلط‘‘ قیاس کر رہے ہوں۔
اس سے زیادہ ہم کر بھی کیا سکتے ہیں۔ شعر کے رو بہ تنزل ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شاعر کی شخصیت بکھر چکی ہے، یا بکھر رہی ہے یا وہ بے سمتی کا شکار ہے یا اس کے پاس عینک اپنی نہیں ہے۔ ادھر ناقد جو کبھی شاعر کی راہنمائی کرتا تھا، اب ڈھیلا ڈھالا تبصرہ کر کے فارغ ہو جاتا ہے، اور اس کی وجوہات بھی وہی ہیں جو شاعر کے ساتھ ہیں۔ ایسے میں آپ یقین جانئے کہ ایک اچھا شعر (واقعی اچھا شعر) غنیمت ہے اور اس کے شاعر کا وجود نعمت ہے۔
 
جناب اگر ایہام گوئی اور ابہام کے حوالے سے کچھ وضاحت و رہنمائی ہو سکے تو فائدہ ہوگا ۔۔۔
اور چونکہ آپ نے اپنی غزل اس تنقیدی نشست میں بطورِ مثال پیش کی ہے اس لیے غزل پر بات کرنے کی اجازت چاہتا ہوں (حالانکہ میری غزل پر اب تک ایک حرف بھی نہیں کہا گیا کہ سرسری صاحب کے سوال نے ہمیں کہیں اور پہنچا دیا ہے۔۔۔ جملہ معترضہ)
جی ضرور! آپ کے ارشادات کا منتظر ہوں، اس وضاحت کے ساتھ کہ میں نے اشارتاً بھی اپنی اس کاوش کو ’’تمام‘‘ نہیں کہا۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس غزل کا دفاع بالکل نہیں کروں گا۔ بات تو آپ کی غزل پر ہونی چاہئے تھی، تاہم جیسے آپ نے اشارہ کر دیا اپنے علامہ صاحب کے سوال نے گفتگو کا رخ ہی بدل دیا۔ سو، اب اسے سرے لگ ہی لینے دیجئے!
میں تو ایہام و ابہام کا قائل نہیں۔ ہاں، اک بات بتانی ہے اک بات چھپانی ہے کا ضرور قائل ہوں اور وہ بھی اس حد تک کہ بات کا بتایا ہوا حصہ بات کے چھپائے ہوئے حصے کی چغلی کھا جائے۔ جیسے کسی نے کہا تھا: ’’کیسا پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں‘‘۔ ایک شعر(بہت پرانا)، آپ کی اجازت سے:
اپنی تکلفات کی ہوتی ہے چاشنی
اچھا ہے کچھ حجاب ابھی درمیاں رہے​

’’کچھ حجاب‘‘ کو ابہام یا ایہام سے تعبیر نہ کیجئے گا۔ بہت آداب۔
 

ایوب ناطق

محفلین
غزل پر بات کرنے کی اجازت اس لیے طلب کی تھی کہ مجھے لگا کہ اس غزل کے جائزے سے ہم اس گفتگو کو ایک سمت دیتے ہوئے سمیٹ سکیں گے۔۔۔
بحر ہماری اردو شاعری کی شاید مانوس ترین بحر ' بحرِ ہزج کے مزاحف میں سے ہیں جسکا آہنگ بہت زیادہ مستعمل رہا ہے۔۔۔ اس بحر میں تقریباً ہر شاعر کی غزلیں موجود ہیں اور اس لیے اس میں ہر طرح کے خیالات اور جذبات کا اظہار ملتا ہے۔۔۔ اس بحر (ہزج) میں ایک بات کا احساس مجھے ایک آزاد نظم کہتے ہوئے' ہوا کہ اس بحر میں مجرد لفظی تصویریں اپنے کمالِ فن کے ساتھ بڑے بھرپور انداز سے بنتی ہیں۔۔۔
مطلع ہے
سپنے تو کجا ، دیکھیے کیا سو بھی سکیں گے؟
مانوس جدائی سے تری ہو بھی سکیں گے؟
پہلے مصرع میں کس کمال سے مفرد الفاظ کو اپنی بھرپور معنویت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔۔۔ ایک مضمون میں میں نے لکھا تھا کہ جتنی زبانیں میں جانتا ہوں مجھے آج تک صد فی صد ایک ہی معانی کے دو لفظ نہ مل سکے کوشش کے باوجود۔۔۔ جنہیں ہم مترادف الفاظ کہتے ہیں ان میں بڑا ہی لطیف فرق ہمیشہ موجود ہوتا ہے لفظ شناس ان حقیقتوں سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔۔۔۔ یہاں اگر سپنے کی جگہ نیند لکھ دے تو شعر بے معانی ہو جائےگا۔۔۔ جس کا فرق شاعر نے کمال خوبصورتی سے پہلے مصرع میں خود ہی واضح کر دیا ہے۔۔۔ مصرح اپنا ابلاغ خود کر رہا ہے۔۔۔ اور اس پر مستزاد لفظ "دیکھیے" کا استعمال ہے' پورا مصرع ایک لفظی تصویر بن کر سامنے آ جاتی ہے۔۔۔ اب پہلے مصرع کی روانی کے مقابل دوسرے مصرع کا ٹھہرائو دیکھیے۔۔۔۔ مانوس۔۔۔۔س پر ٹھہرائو۔۔۔۔ جدائی۔۔۔ ایک اور سکتہ۔۔۔۔ اپنے استفسار کو ٹھہر ٹھہر کر بیان کیا جا رہا ہے۔۔۔ دونوں مصرع سوالیہ سہی لیکن اسی سوال میں جواب موجود ہے کہ نہین ایسا نہیں ہو سکتا۔۔۔۔
اب صوتی جائزہ لیتے ہیں۔۔۔۔ مطلع میں پانچ بار اور پوری غزل میں 24 مرتبہ حرف س کی آواز کی تکرار کی گئی ہے۔۔۔۔ دوسرے اور چھوتیں شعر میں ش کو جلایا گیا ہے۔۔۔۔ ان دو سروں (کومل اور تیور) کے ساتھ الف کا صناعانہ استعمال ایک خونصورت صوتی فضا تشکیل دیتی ہے
بے حد خوبصورت مجرد لفظی تصویریں کو کہ اس بحر کا خاصہ ہے۔۔۔۔ ملاحظہ ہو۔۔۔۔ کم مائیگیٔ حرفِ تشکر' حاصل کی ہوا' وہ بچھڑا تو تبسم سے گئے ہم' اک بارکا اظہار جو صد خونِ انا تھا۔۔۔۔ یہاں اک کی خوبصورتی دیکھیے کہ جو بات اک میں ہے وہ یہاں "ایک" سے ادا ہو ہی نہین سکتی۔۔۔۔ غرض بے حد خوبصورت اور لاجواب غزل ہے'۔۔۔۔ ایک بات جو ایک دیانت دار ادب کے قاری کے طور پر محسوس کی اس کا اظہار بھی ضروری ہے ۔۔۔۔ کہ یہ میری ایک اپنی غزل میں میرے ساتھ ہو چکا ہے جس کی وجہ سے آج تک وہ غزل کسی کو سنائی نہیں۔۔۔۔ جناب آسی صاحب سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ ذرا وضاحت فرمادے کہ دریف میں کسی حرف کا اسقاط کہ اس سے پوری غزل میں وہ اسقاط ہوتا رہے گا کس حد تک روا ہے؟
استفسار اس حوالے سے بھی ہے کہ یہاں ردیف کے دوسرے ٹکڑے سکیں گے نے بھی کے ساتھ مل کر ایک خوبصورت فضا مختصر قافیہ کے ساتھ بنائی ہے صوتی لحاظ سے بھی۔۔۔۔ تو جب کوئی عیب ہنر کے ساتھ ہو تو وہ کس حد تک عیب ہے؟
 

ایوب ناطق

محفلین
ایک بھولی ہوئی صدا ہوں
تجھ کو پھر یاد آگیا ہوں

ابتدائی اشعار کے دونوں مصرعے اگر قافیہ بند ہوں تو انھیں مطلع کہا جاتا ہے، آخری شعر اگر ایسا ہو تو کیا اس کا کوئی اصطلاحی نام ہے؟
اس گفتگو اور بطورِ خاص جناب محمد یعقوب آسی محترم کی تازہ غزل' جس نے اس لڑی کو نہ صرف سجا دیا ہے بلکہ اسے ایک ریفرینس کا مقام عطا کیا ہے ۔۔۔ میں اس پوزیشن میں آگیا ہوں کہ جناب اسامہ صاحب کے سوال کا جواب دے سکوں۔۔۔ اصطلاح میں کوئی نام نہیں نہ ہی اس قسم کا تجربہ میری نظر سے گزرا ہے کہ شاعر نے ہر غزل میں اس کا بات کااہتمام کیا ہو لیکن بحر ' قوافی اور ردیف کا جواز اور اس کی اس قدر سخت پانبدی اور اس کے علاوہ دواوین کا ردیفی لحاظ سے ترتیب اس بات کا ثبوت ہے کہ صوتی آہنگ 'ترنم اور نغمہ ہمارے اساتذہ اس کا بطور خاص اہتمام کرتے رہے ہیں ۔۔۔ وہ حروفِ تہجی کے استعمال کے صناع تھے بطورِ خاص مصحفی ' تو اس لحاظ سے اسے میری اختراع سمجھ لیجیے کہ اگر آخری شعر میں غزل کے مجموعی آہنگ کا دوبارہ سے اہتمام کیا جائے تو صوتی خوبصورتی دو بالا ہو جائے گی۔۔۔ فقط ایوب ناطق
 

ایوب ناطق

محفلین
ممکن ہے میں نے کوئی ایسی بات کہہ بھی دی ہو یا کسی قدر مختلف بات ہو۔
فوری طور پر یاد نہ آ سکا کہ یہ کہاں پڑھا تھا' لیکن شکر ہے کہ آخر اللہ تعالٰی نے غلط کوٹ کرنے کی روستائی سے بچا لیا۔۔۔ یہ میں نے آپ کی خوبصورت اور عروض کو نئی جہت سے آشنا کرنے والی کتاب 'فاعلات' میں عروضی نظریے کی تشکیل کے ذیلی مباحث سے کوٹ کیا ہے ۔۔۔
پوری عبارت نقل کرتا ہوں۔۔۔
شاعری نہ توکلیتاً "آمد" ہوتی ہے اور نہ "آورد" بلکہ یہ ان دونوں کے بین بین کوئی عمل ہے جو شاعر کے تحت الشعور میں تکمیل پاتا ہے۔ بعض اوقات بنے بنائے مصرعے ذہن میں تشکیل پا جاتے ہیں بلکہ کچھ لوگوں کے بقول پوری کی پوری نظمیں یوں وارد ہوتی ہیں جیسے کوئی قوت املاء لکھا رہی ہو۔ ذاتی طور پر ہمیں کوئی ایسا تجربہ نہیں ہوا۔ ہوتا یہ ہے کہ ایک آدھ مصرع یا کبھی کبھار ایک دو شعر جیسے لاشعور سے ابھر کر شعور میں آ جاتے ہیں' باقی غزل البتہ بنانی پڑتی ہے۔ بسا اوقات خواہش کے باوجود کئی کئی ماہ تک ایک مصرع بھی موزوں نہیں ہوتا۔
اس کے علاوہ سوال نمبر 5 کے تحت بھی اسی بات کو رہرایا گیا ہے۔۔۔ اور میں آمد کی اس کیفیت کے اتفاق رکھتا ہوں اور صاحبِ کتاب کی صاف گوئی کی داد دیتا ہوں
 
جنابِ ایوب ناطق کا استفسار:

جناب آسی صاحب سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ ذرا وضاحت فرمادے کہ دریف میں کسی حرف کا اسقاط کہ اس سے پوری غزل میں وہ اسقاط ہوتا رہے گا کس حد تک روا ہے؟
استفسار اس حوالے سے بھی ہے کہ یہاں ردیف کے دوسرے ٹکڑے سکیں گے نے بھی کے ساتھ مل کر ایک خوبصورت فضا مختصر قافیہ کے ساتھ بنائی ہے صوتی لحاظ سے بھی۔۔۔ ۔ تو جب کوئی عیب ہنر کے ساتھ ہو تو وہ کس حد تک عیب ہے؟


آپ کا اشارہ ’’بھی‘‘ کی ’’ی‘‘ کی طرف ہے نا! سچی بات ہے کہ مجھے اس کا احساس تک نہیں ہوا۔ یہ غزل کس کیفیت میں ہوئی ہے، آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا۔
مانوس جدائی سے تری ہو بھی سکیں گے؟​
اپنی زوجہ مرحومہ سے اور کیا کہوں؟ کیا پوچھوں؟ بلکہ اس سے بھی کیا پوچھنا، یہ تو خود کلامی کی ایک صورت ہے!!

فنیات کے حوالے سے جناب مزمل شیخ بسمل بہتر انداز میں راہنمائی کر سکتے ہیں۔
 
ممکن ہے میں نے کوئی ایسی بات کہہ بھی دی ہو یا کسی قدر مختلف بات ہو۔
میں ذاتی طور پر محض استادی یا قافیہ پیمائی کا قائل نہیں ہوں۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ قافیہ اپنے معانی کے ساتھ انصاف کر سکے۔ اب، میں اس میں کس حد تک کامیاب رہا ہوں، میرے اہلِ نظر قارئین ہی کچھ بتا سکتے ہیں۔ مجھے تو جو کہنا تھا، اسے جس طور کہہ پایا شعر کی صورت میں کہہ دیا (ترمیم ، تہذیب، تخریج کسی وقت بھی ہو سکتی ہے)۔
میری اب تک کی ’’تازہ ترین‘‘ غزل دیکھ لیجئے۔ اس میں سے تیسرا شعر (حاصل کی ہوا۔۔۔ )خارج گردانئیے گا:۔
1486779_393350430808421_1657504386_n.jpg
واہ واہ واہ واہ لطف آ گیا جناب اُستاد
 
جناب آسی صاحب سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ ذرا وضاحت فرمادے کہ دریف میں کسی حرف کا اسقاط کہ اس سے پوری غزل میں وہ اسقاط ہوتا رہے گا کس حد تک روا ہے؟
استفسار اس حوالے سے بھی ہے کہ یہاں ردیف کے دوسرے ٹکڑے سکیں گے نے بھی کے ساتھ مل کر ایک خوبصورت فضا مختصر قافیہ کے ساتھ بنائی ہے صوتی لحاظ سے بھی۔۔۔ ۔ تو جب کوئی عیب ہنر کے ساتھ ہو تو وہ کس حد تک عیب ہے؟


جنابِ ایوب ناطق کا استفسار:

جناب آسی صاحب سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ ذرا وضاحت فرمادے کہ دریف میں کسی حرف کا اسقاط کہ اس سے پوری غزل میں وہ اسقاط ہوتا رہے گا کس حد تک روا ہے؟
استفسار اس حوالے سے بھی ہے کہ یہاں ردیف کے دوسرے ٹکڑے سکیں گے نے بھی کے ساتھ مل کر ایک خوبصورت فضا مختصر قافیہ کے ساتھ بنائی ہے صوتی لحاظ سے بھی۔۔۔ ۔ تو جب کوئی عیب ہنر کے ساتھ ہو تو وہ کس حد تک عیب ہے؟


آپ کا اشارہ ’’بھی‘‘ کی ’’ی‘‘ کی طرف ہے نا! سچی بات ہے کہ مجھے اس کا احساس تک نہیں ہوا۔ یہ غزل کس کیفیت میں ہوئی ہے، آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا۔
مانوس جدائی سے تری ہو بھی سکیں گے؟​
اپنی زوجہ مرحومہ سے اور کیا کہوں؟ کیا پوچھوں؟ بلکہ اس سے بھی کیا پوچھنا، یہ تو خود کلامی کی ایک صورت ہے!!

فنیات کے حوالے سے جناب مزمل شیخ بسمل بہتر انداز میں راہنمائی کر سکتے ہیں۔

کسی بھی حرف کا اسقاط جب تک روا ہے جب تک وہ بف مزگی پیدا نہ کرے۔ جہاں تک محمد یعقوب آسی صاحب کی غزل ہے اس میں نہ تو کوئی بدمزگی پیدا ہوتی ہے نہ وہ لفظ ہی ایسا ہے جہاں اسقاط نا جائز ہو۔ اس طرح کی آپ کو بے شمار مثالیں مل جائیں گی جہاں طویل ردیفوں میں یہ سلسلہ چلا کرتا ہے۔
عیب اور ہنر کی بات یہ ہے کہ اگر عیب اس قدر فاش ہے کہ با قاعدہ محسوس ہوتا ہے تو اس عیب کی درستی لازم ہے۔ بصورت دیگر کسی بھی صنف شاعری میں اگر مجموعی طور پر کلام میں حسن پایا جاتا ہے تو چھوٹے موٹے غیر واضح عیوب کو نظر انداز کیا جائے گا۔۔ آگے وہی کہوں گا جو اکثر کہتا ہوں کہ:
باقی اصلاح کی ضرورت تو مرزا غالب کے کلام کو بھی ہے۔

والسلام۔
 
Top