تنقیدی نشست

ایوب ناطق

محفلین
تمام اساتذہ کرام سے اغلاطِ لفظی و معنوی کی نشاندئی اور اربابِ فن و ادب سے کل کر تنقید کی توقع لیے حاضرِ خدمت ہوں ، ابلاغِ شعر پر خصوصی توجہ دینے کی استدعا ہے۔۔۔ اسے ایک حقیقی تنقیدی نشست کی شکل دیجیے گا۔۔۔ یہ غزل 2009ع میں کہی تھی۔۔۔ بحر رمل مسدس محذوف (فاعلاتن فاعلاتن فاعلن)

(1) میری چاہت اک فسانہ ہے مجھے
ہارنا ہے ، ہار جانا ہے مجھے
(2) عشرتِ دنیا و دیں ہے جن کا لمس
ان لبوں پر مسکرانا ہے مجھے
(3) دل ٹھہرتا ہی نہیں ، اے دل کشا
تجھ کو سینے سے لگانا ہے مجھے
(4) کیا کہوں اس تنگیِ حالات میں
ایک اک لمحہ زمانہ ہے مجھے
(5) گردشوں میں کوئی منزل ہی نہیں
زندگی بھر چلتے جانا ہے مجھے
 

الف عین

لائبریرین
1۔ہارنا، اور ہار جانا میں کیا فرق ہے؟
2۔ دنیا و دیں۔۔ دین کی عشرت کس طرح ہو سکتی ہے؟
3۔ دل کشا کا کیا محل ہے، سمجھ میں نہیں آیا۔ اس لئے مفہوم بھی سمجھ میں نہیں آ سکا
 

ایوب ناطق

محفلین
آداب۔۔۔ بہت اہم نکتے اٹھائے ہیں جناب استاد محترم نے۔۔۔۔ چونکہ انداز سوالیہ ہے اس لیے انتہائی ادب کے ساتھ کھل کر اپنی گزارشات پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہوں
 

ایوب ناطق

محفلین
1) ہارنا اسمِ مصدر ہے ۔۔۔ یعنی زمانے کا تعیئن کیے بنا ، یہ فعل کی وضاحت کرتا ہے ۔۔۔ یا یوں کہہ لیجیے یہاں زمانے کا اظہارنہ کر کے اسے اپنی فطرتِ ثانیہ یا جبلت ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ یہی رسمِ عاشقی ہے
جبکہ ہار جانا محاورہ ہے بمعنی مات ہو جانا۔۔ شکست کھا جانا۔۔۔۔
دوسرا فرق لہجے کا ہے۔۔۔۔ ہارنا ہے (یہ میری تقدیر ہے) اورہار جانا ہے مجھے (میں جانتا ہوں کہ میں ہار جائوں گا۔۔۔۔دلیل عاشقی)۔۔۔۔ یہی میرا فسانہ ہے۔۔۔
میرا ایک شعر شاید وضاحت کر سکے۔۔۔۔۔

وائے ناکامی کہ اب خواب بدل سکتا نہیں
اور بدل سکتا نہیں خواب کی تعبیر کو میں
 

ایوب ناطق

محفلین
2) کافی مضبوط نکتہ ہے ، اتنا کہہ سکتا ہوں کہ دین تقدس کا اظہار ھے (یہاں محبت "چودھویں کے چاند" کی طرح بازاروں میں discuss نہیں ہوتی کہ شاعر سر جھکا کر شرم سے چپ سادھ لے ، بلکہ ایک مقدس روحانی تجربہ ہے جو اناالحق بن کر ہونٹوں پر مسکراتی ہے یا پھر وہ آخری مسکراہٹ ، جو زہر پینے سے بیشتر سقراط کے چہرے پر کھلتی ہے) یعنی اس کے ہونٹوں کے لمس سے جسم اور روح دونوں سرشار ہوجاتے ھیں ،دنیا بہ معنی جسم ، دین بہ معنی روح یا یوں کہہ لیں کہ یہ مبالغہ ھے ، شاعری میں اسکی اپنی افادیت ہے.
 

ایوب ناطق

محفلین
3) لفظ کشا ماخوذ ہے کشود سے جس کے معنی کھلنا، ظاہر ہونا، وا ہونا، بکھرنا ، تصوف کی اصطلاح میں انکشاف راز۔۔۔ولی اللہ کو غیبی اور آئندہ کی خبروں کا علم، خدا سے وجدانی تعلق کے ذریعے حاصل کردہ علم، کشف و کرامات۔۔۔اب دل کشا کے لغوی معانی ہوئے طبیعت کو شگفتہ کرنے والا؛ روشن؛ کھلا ہوا، وسیع اور اصطلاحا" ۔۔۔ پہلے یہ شعر دیکھتےہیں اردو کے عظیم صوفی شاعر کا

دل مرا ، با غ دل کشا ہے مجھے
دیدہ ۱ جام جہاں نما ہے مجھے
یا پھر یہ
ہم پر کشود زلفِ بتاں سے کھلے وہ راز
کھلتے نہ تھے جو گوشہ نشینانِ راز پر

اصطاح کی وضاحت اشعار نے کردی ۔۔۔۔ دل ٹھہرنا محاورہ ہے تسکین ہونا ' صبر آ جانا' دل جمعی ہونا ، اب شاعر کا دل ٹھہرتا ہی نہیں تو اسے کسی دل کشا کی ضرورت پڑنی ہی تھی جو اسے سینے سے لگا کر دلاسا دے سکے ، اس کی مایوسیوں کا ازالہ کر سکے اور وہ راز اس پر کھولے وہ راز جو شاعر کو دیواروں میں چہروں کی صورت نظر آتے ہیں
 

ابن رضا

لائبریرین
2) کافی مضبوط نکتہ ہے ، اتنا کہہ سکتا ہوں کہ دین تقدس کا اظہار ھے (یہاں محبت "چودھویں کے چاند" کی طرح بازاروں میں discuss نہیں ہوتی کہ شاعر سر جھکا کر شرم سے چپ سادھ لے ، بلکہ ایک مقدس روحانی تجربہ ہے جو اناالحق بن کر ہونٹوں پر مسکراتی ہے یا پھر وہ آخری مسکراہٹ ، جو زہر پینے سے بیشتر سقراط کے چہرے پر کھلتی ہے) یعنی اس کے ہونٹوں کے لمس سے جسم اور روح دونوں سرشار ہوجاتے ھیں ،دنیا بہ معنی جسم ، دین بہ معنی روح یا یوں کہہ لیں کہ یہ مبالغہ ھے ، شاعری میں اسکی اپنی افادیت ہے.
بہت عمدہ کوشش ہے ناطق صاحب۔

مذکور وضاحت میں عشرتِ دیں کے حوالے سے تشفی نہیں ہوئی، کچھ لوگ نالائق بھی ہوتے ہیں ہمارے جیسے ذرا مکرر نکتہ آرائی فرمائیں
 

ایوب ناطق

محفلین
عرصہ پہلے میرے روحانی پیشوا کا ایک شعر پڑھا تھا اور بہت الجھن ہوئی
دل نے تیرے ہی ڈھنگ سیکھا ہے
آن میں کچھ ہے آن میں کچھ ہے
یہاں تک کہ 2003ع میں خود اس زمین میں غزل ہو گئی ،
آگ جلتے مکان میں کچھ ہے
اور دیے کی زبان میں کچھ ہے
دھوپ کا زاویہ بدلتا ہے
آپ کے سائبان میں کچھ ہے
ہے زمیں فتنہ گر ابھی ، شاید
میرے کچے مکان میں کچھ ہے
استادِ محترم کا شعر معمہ بنا رہا، پھر عرصہ بعد کلامِ پاک کچھ آیات مبارکہ دیکھتے ہوئے 'دل کشائی' ہوئی اصطلاحا'۔۔۔ ذاتِ باری تعالٰی کے بارے یہ کہنا کہ آن میں کچھ ہے آن میں کچھ ہے۔۔۔ کا عقدہ مشکل کھلا "جہاں باری تعالٰی اپنے محبوب کی کروٹ کے پڑنے والی بستر کی سلوٹوں کی قسم کھاتے ہیں'(مزید تفاصیل سے اجتناب کرتے ہوئے)اور اسمٰی حسنٰی کی ہمہ جہتی اس کی روشن مثآل ہے اور ہاں سلوٹوں میں لمس ہی تو ہوتا ہے۔۔۔ اب یہ مصرح دوبارہ پڑھیے۔۔۔
عشرتِ دنیا و دیں ہے جن کا لمس
عشق کب تک بازاری پن تک محدود رہے گا ، ہماری آدھی شاعری تو کوٹھوں پر کی گئی ہیں (معزرت کے ساتھ)۔۔۔ غالب کے ایک علاوہ کس نے یہ کہنے کی جرات کی
خوایش کو احمقوں نے پرستش دیا قرار
کیا پوجتا ہوں اس بتِ بے داد گر کو میں
قصہ مختصر یہاں دیں کا لفظ تقدیس عشق کے لئے استعمال کیا تھا۔۔۔۔ ابلاغ ِ معانی ہوئے یا نہیں اس کا فیصلہ آپ اہلِ فن و ادب کیجیے
 

نمرہ

محفلین
شاید آپ نے صوتی قافیے استعمال کیے ہیں۔
کیا کہوں اس تنگیِ حالات میں
ایک اک لمحہ زمانہ ہے مجھے
اچھا شعر ہے۔
 

ایوب ناطق

محفلین
میں نے خلوص دل سے اپنی محسوسات بیان کی ان اشعار سے متعلق ، جناب استاد محترم کی رہنمائی کا بے حد مشکور ہوں اور جیسا کہ پہلے کہہ دیا تھا کہ دوسرا نکتہ بہت وزن رکھتا ہے میری توجیع صرف خیال کی معنوی پرت کے دفاع کے تناظر میں دیکھنی چاہئے ، جیسا کہ اسی جانب الف عین صاحب کا اشارہ تھا ۔۔۔ ابلاغ میں یقینا" سقم رہ گیا ہے ۔۔۔ آپ سب کا بے حد مشکور ہوں اور اساتذہ کرام کی توجہ کا طالب اور اہلِ علم کی نکتہ آرائیوں کا منتظر۔۔
 

ایوب ناطق

محفلین
استادِ محترم جناب الف عین صاحب کی رہنمائی کے بعد ۔۔۔ پہلا مصرح تبدیل کرنے سے متعلق بہت سوچا، لیکن سوچنے سے شعر تھوڑی ناں ہوتے ہیں ۔۔۔ آخرش یہ مصرح ہوا ہے ۔۔۔ آپ کی رہنمائی درکار ہے
ہے نشاطِ زندگی جن کا سرود
ان لبوں پر مسکرانا ہے مجھے
اساتذہ کرام الف عین صاحب محمد یعقوب آسی صاحب
 
استادِ محترم جناب الف عین صاحب کی رہنمائی کے بعد ۔۔۔ پہلا مصرح تبدیل کرنے سے متعلق بہت سوچا، لیکن سوچنے سے شعر تھوڑی ناں ہوتے ہیں ۔۔۔ آخرش یہ مصرح ہوا ہے ۔۔۔ آپ کی رہنمائی درکار ہے
ہے نشاطِ زندگی جن کا سرود
ان لبوں پر مسکرانا ہے مجھے
اساتذہ کرام الف عین صاحب محمد یعقوب آسی صاحب
دوسرا مصرع بدلئے ۔ اگر آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ’’مجھے ایسے لبوں پر مسکراہٹ لانی ہے یا ان کے لئے مسکراہٹ بننا ہے جو ۔۔۔۔‘‘ تو یہ مفہوم قوت کے ساتھ بیان نہیں ہو رہا۔
پہلے مصرعے میں اِس ’’جو ۔۔۔۔‘‘ کے مطابق لبوں کی تفصیل یا خوبی ہوگی۔ اور خوبی یا تفصیل کا میدان یہاں خاصا وسیع ہے: وہ جو مسکراہٹ کو ترس گئے ہیں؛ وہ جو بھوک پیاس سے سوکھ گئے ہیں؛ وہ جو نغمہ کو بھول گئے اور آہوں کے عادی ہو گئے ہیں؛ وغیرہ وغیر وغیرہ ۔۔۔
۔۔ اور پہلے مصرعے میں ردیف قافیے کی پابندی بھی نہیں ہوتی، سو وہ ایسا بڑا مسئلہ نہیں۔
 
چند الفاظ کے بارے میں بھی عرض کرتا چلوں:
توجیہ : وجہ ہونا، وجہ کی وضاحت کرنا، وجہ بنانا، چہرہ بنانا، واضح کرنا وغیرہ (مادہ: و ج ہ)
توضیح: بتدریج یا باریکی میں وضاحت کرنا (مادہ: و ض ح)۔
توضیع : وضع کرنے کا عمل (مادہ: وض ع)
نکتہ آفرینی: نکتہ پیدا کرنا ، نکتہ اٹھانا، ایک بات سے ایک ضمنی بات نکالنا۔ ۔۔آرائی کا تعلق آرائش سے ہے۔ جیسے خیال آرائی، انجمن آرائی، وغیرہ۔
رہی مشکور اور ممنون والی بات ۔۔۔ غلط العام کو خود پر لازم کیوں قرار دیا جائے! جب ہم غلط العام یا غلط العوام کہہ دیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے اس کی قبولیت مسلمہ نہیں ہے۔ کسی نے قبول کر لیا کسی نے نہیں کیا؛ اور یہ بھی کہ اس میں کچھ نہ کچھ غلط ضرور شامل ہے ورنہ غلط العام اور غلط العوام کی اصطلاح اس پر لاگو نہ ہوتی۔ میں اس ’’مشکور‘‘ کو ’’شکر گزار‘‘ کے طور پر قبول کرنے میں متامل ہوں۔

جناب الف عین صاحب
جناب ایوب ناطق صاحب
 

ایوب ناطق

محفلین
آپ کی محبت اور توجہ کا شکر گزار ہوں ، پہلا مصرع بدلنے کی کوشش کرتا ہوں ۔۔ اور الفاظ کے حوالے سے آپ کی 'توضیحات' میرے جیسوں کے لئے بے حد اہم ہیں ۔۔ آداب
 
Top