یاسر ، ایک تو آپ کے مراسلے کا مقصد سمجھ میں نہیں آیا۔ دوم یہ کہ اس میں آپ نے دو تین مختلف نکات کو خلط ملط کردیا ہے۔ معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ ان نکات میں سے کسی کا بھی کوئی سر پیر مجھے نظر نہیں آیا۔
بہرحال ، کوشش کرتا ہوں کہ اس خلط مبحث کو صاف کرکے آپ کو کچھ سمجھا سکوں۔
شعر اور شعریت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ شعریت کا عنصر ہی کلامِ موزوں کو شعر کا درجہ دیتا ہے۔ لیکن شعریت کی جامع اور مانع تعریف پر ابھی تک کوئی اتفاقِ رائے نہیں ہوسکا ہے۔ شعر یا شعریت کیا چیز ہے اس کے بارے میں نہ صرف اردو کا بلکہ دیگر عالمی زبانوں کا تنقیدی ادب مختلف آرا سے بھرا ہوا ہے۔ میں تجویز کروں گا کہ آپ شمس الرحمٰن فاروقی کا مضمون " شعر ، غیر شعر اور نثر" ایک دفعہ ضرور پڑھ لیجیے۔ میں نے ایک دو سال پہلے یہیں محفل پر پوسٹ کیا تھا۔ تلاش کرنے پر مل جائے گا ۔ ورنہ مجھے حکم دیجیے گا میں ربط ڈھونڈنے کی کوشش کروں گا۔
مرزا کلیم الدین احمد کے نزدیک شعر کی جو تعریف ہے وہ انہیں مبارک۔ البتہ یہ بتائیے کہ اُن کی اس تعریف پر اس غزل کا کون سا شعر پورا نہیں اترتا ؟! ہر شعر میں ایک تخیل یا احساس کا عنصر موجود ہےاور ظاہر ہے کہ میرے ذاتی مشاہدے اور تجربہ پر مبنی ہے ۔آپ کو کس شعر میں قافیہ پیمائی یا نری تک بندی نظر آتی ہے ؟ کون سا شعر شعر نہیں ہے؟
اب شعر کس پائے یا درجے کا ہے یہ ایک الگ بحث ہے۔ اور یہ بحث کسی بھی شاعر کے کسی بھی شعر پر کی جاسکتی ہے اور اسے جانچنے کے معیارات الگ ہوتے ہیں۔
یاسر ، یہ نتیجہ آپ نے کہاں سے نکالا کہ یہ اشعار قاری کے تخیل ، احساسات اور جذبات کو نہیں چھیڑتے۔ آپ یہ بات صرف اپنے متعلق تو کہہ سکتے ہیں لیکن اس کی تعمیم کرتے ہوئے اسے ہر قاری پر کس طرح منطبق کرسکتے ہیں؟یعنی عقلِ کُل کی طرح ذوقِ کُل بھی کوئی چیز ہوتی ہے کیا؟
یہ بات تو طے ہے کہ ہر قاری کا شعری ذوق اورفہم مختلف ہوتا ہے۔ ایک شعر جس پر ایک قاری دیر تک سر دھن سکتا ہے اُسی شعر پر ایک دوسرا قاری رکے بغیر آگے چل دیتا ہے۔ جس شعر پر غالب اپنا پورا دیوان مومن کو دینے پر تیار ہوجاتے ہیں اُسی شعر کو میں اور آپ بالکل عام سا گردان سکتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ شعری فہم اور ذوق نہ صرف ہر شخص میں مختلف ہوتا ہے بلکہ ایک ہی شخص میں مختلف موقعوں پر مختلف درجے کا ہوسکتا ہے۔ ایک ہی شعر کسی خاص کیفیت اور موقع پر آپ کو کسی اور طرح سے متاثر کرتا ہے اور کسی دوسرے وقت میں اس کا اثر مختلف ہوسکتا ہے۔
الفاظ دریچے ہیں جو کھلتے ہیں دلوں میں
معنی میرے سامع کے خیالات میں گم ہیں
یہ بات صرف شعر پر ہی نہیں بلکہ دیگر فنونِ لطیفہ ( موسیقی، آرٹ وغیرہ) پر بھی لاگو ہوتی ہے ۔ یعنی کسی فن پارےسے حظ اٹھانااُس لاشعوری تعامل ( انٹرایکشن ) پر منحصر ہے جو اس فن پارے اورقاری/ناظر کے درمیان واقع ہوتا ہے۔ اس پیچیدہ انٹرایکشن میں کئی عناصر کارفرما ہوتے ہیں ۔ شعر کے حوالے سے بات کی جائے تو اس انٹرایکشن میں سامع کا شعری مطالعہ ، اس کی زبان دانی ، اس کی شعری تربیت یا عدم تربیت، اس کی زندگی کے تجربات ، اس کی موجودہ داخلی کیفیت وغیرہ اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ کچھ اشعار جو آپ کو آج پسند نہیں آئے یا سمجھ میں نہیں آئے وہ آگے چل کر زندگی کے کسی مقام پر یکایک سمجھ میں آجائیں اور لطف دینے لگیں۔ آپ کو سمجھانے کی غرض سے مثالاً عرض کرتا ہوں کہ محمد وارث ، سید عاطف ، تابش صدیقی،احمد بھائی اور فہد اور دیگر حضرات کو اس غزل کے مختلف اشعار پسند آئے ہیں۔ اور یہ ایک دوسرے کی پسند سے مختلف ہیں۔ اس کا مطلب خدانخواستہ یہ نہیں نکالا جاسکتا کہ یہ حضرات شعری ذوق سے محروم ہیں۔ صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان حضرات کو مختلف اشعار اپنی اپنی طبیعت اور ذوق کے مطابق پسند آئے ۔ حاصلِ کلام یہ کہ ہر شعر سامع کے تخیل ، احساس یا جذبات کو ایک ہی طرح سے نہیں متاثر کرتا ۔ اس کے بھی درجات ہوتے ہیں ۔
اگر آپ کی محولہ بالا رائے کو ایک مطلق معیار مان لیا جائے تو اردو کی نوے فیصد شاعری (بشمول اساتذہ) شعر کے درجے پر نہیں پہنچے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو کے اکثر اچھے اشعار تخیل یا جذبات سے زیادہ فکر اور سوچ کے در وا کرتے ہیں۔ اقبال کی تو اکثر شاعری فکر انگیز ہے۔ چنانچہ شعر کی تعریف کو وسعت دینا پڑے گی۔ خیر، جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا اس موضوعِ واحد پر تو سینکڑوں مضامین اور کتب لکھے جاچکے ہیں۔اس بات پر میں یہیں رکتا ہوں۔
اگر محولہ بالا قول واقعی ساقی فاروقی کا ہے تو معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پھر ان کو تو عروض کی مبادیات کا بھی علم نہیں تھا۔ "میم کے زحاف کا اضافہ" پڑھ کر پہلے تو بے ساختہ ہنسی آئی پھر افسوس ہوا۔یاسر بھائی ، اس قسم کا کوئی زحاف یا اصطلاح عروض میں سرے سے وجود ہی نہیں رکھتا ۔ فاعلن ایک بنیادی رکن ہے یعنی افاعیلِ ہشتگانہ کا حصہ ہے۔ فاعلن پر جو ممکنہ زحافات لگ سکتے ہیں وہ چھ ہیں ۔ یعنی خبن ، قطع ، خلع، حذذ ، اذالہ اور ترفیل۔ ان زحافات کے استعمال کے بعد جو مزاحف اوزان حاصل ہوں گے وہ بالترتیب فعِلن ، فعلن ، فعِل ، فع ، فاعلان اور فاعلاتن ہوں گے ۔ فاعلن کسی بھی صورت مفاعلن میں تبدیل نہیں ہوسکتا۔ اگر آپ عروض سے واقف ہیں تو آپ کو علم ہوگا کہ بنیادی افاعیلِ ہشتگانہ پر لگنے والے زحافات میں کوئی بھی ایسا زحاف نہیں ہے جو رکن کے شروع میں ایک حرف کا اضافہ کردے۔ اس غزل کا وزن جیسا کہ میں لکھا رجز سالم مخبون ہے۔ اگر آپ کو عروض سے دلچسپی ہو تو اس کی تفصیل میرے ایک مراسلے میں اوپر دیکھ لیجیے۔
شاہ صاحب، عروضی تجربہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ شاعر ایک دن کسی بحر کو لے کر یہ طے کرے کہ اب میں اس کے وزن میں ردو بدل کرکے ایک نیا وزن ایجاد کروں گا اور اس میں شعر کہوں گا۔ عروضی تجربے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ شاعر اپنی فطری موزونیت کے باعث کچھ اشعار کہتا ہے یا یوں کہیے کہ کچھ اشعار اس سے موزوں ہوجاتے ہیں۔ ان اشعار میں حسبِ معمول روانی ہوتی ہے، غنائیت ہوتی ہے لیکن اسے علم ہوجاتا ہے کہ ان اشعار کا وزن کسی معلوم و معروف بحر پر منطبق نہیں ہورہا بلکہ یہ ایک نیا وزن ہے۔ اب وہ یہاں اپنے عروضی علم کا سہارا لیکر اس شعر کو کسی قریب ترین بحر اور اس کے زحافات پر منطبق کرتا ہے ۔ اور یوں ایک نیا وزن "ایجاد" ہوجاتا ہے۔ اب دو صورتیں ہیں ۔ یا تو وہ نیا وزن کسی قریب ترین بحر پر کسی جائز زحاف کی مدد سے تخریج ہوجائے گا یا نہیں ہوگا۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ موجودہ عروضی نظام اس درجہ وسیع اور لچکدار ہے کہ عموماً کوئی بھی نیا وزن اس کے دائرۂ کار سے باہر نہیں پڑتا ۔ آپ کسی بھی نئے وزن کو عموماً عروضی اصولوں کی مدد سے بیان کرسکتے ہیں ۔ اس سلسلے میں مزید تفصیلات کے لئے میری ایک غزل پر چند سال پہلے ہونے والی یہ عروضی گفتگو دیکھ لیجیے:
https://www.urduweb.org/mehfil/threads/دو-دل-جلے-باہم-جلے-تو-روشنی-ہوئی.94505/
اس سارے معاملے میں یاد رکھنے کی جو بات ہے وہ یہ ہے کہ اس نئے وزن میں شعر گوئی کا تخلیقی عمل اُس تخلیقی عمل سے قطعی مختلف نہیں ہوتا جو کسی مستعمل بحر میں شعر گوئی کرتے ہوئے واقع ہوتا ہے۔ شعری عمل کی نوعیت شاعر کے لئے تو بالکل ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔ کسی نئے یا غیر معروف وزن میں اظہارِ خیال کرنے سے شعر کی شعریت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ وزن بذاتِ خود شعریت پیدا نہیں کرتا۔ کلامِ موزوں کو شعریت دینا تو شاعر کا کام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شاعر کے لئے عموماً بحر سے زیادہ قافیہ ردیف کی پابندی آڑے آتی ہے۔ اگر قدرتِ بیان ہو اور قافیہ ردیف مناسب چنے جائیں تو شاعر کسی بھی وزن میں اپنا مافی الضمیر بخوبی بیان کرسکتا ہے۔
شاہ صاحب ، یہ مراسلہ خاصا طویل ہوگیا ۔ لیکن آپ نے جو مفروضہ نکات اٹھائے تھے وہ تفصیلی جواب کے متقاضی تھے۔ امید ہے کہ کچھ بنیادی تصورات اور اصولِ تنقید آپ کے ذہن میں واضح ہوگئے ہوں گے ۔ اگر کوئی بات رہ گئی ہو تو ارشاد کیجیے گا میں حاضرِ خدمت ہوجاؤں گا ۔