توہینِ عدالت کیس میں وزیراعظم مجرم قرار

بات مال بنانے کی نہیں، اس کی قربانی دے کر اسے کیش کروانے کی ہے، جیسے زرداری نے بے نظیر بھٹو کے قتل کو کیش کروایا، جیسے بے نظیر بھٹو نے اپنے باپ کی پھانسی کو کیش کروایا۔
چاچو یہ تو اچھی بات ہے !
وچ مینس زرداری اچھے پتے کھیل رہا ہے!

میں تو زرداری کو کھوں گا لگے رہو منا بھائی!
:party:
 

S. H. Naqvi

محفلین
اگرچہ یہ سزا بہت کم ہے اور میں غزنوی صاحب سے متفق ہوں کہ اس سے عوام کا عدلیہ پر اعتماد کم ہو گا کہ سزا صرف غریب کے لیے ہے مگر یہ انتہائی مبنی بر حکمت فیصلہ ہے اس کے لیے ہمیں تھوڑی گہرائی میں جانا ہو گا۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق، اس وقت صورت حال یہ ہے کہ گیلانی خود بلکہ ان کا پورا خاندان ہی گردن تک کرپشن کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے اور نہ صرف اپنی بلکہ پارٹی کی بھی بدنامی کا سبب بن رہا ہے، ادھر پارٹی کی اپنی پرفارمنس بھی کچھ اتنی اچھی نہیں کہ چار سالوں میں عوام کے لیے کچھ کیا ہوں بلکہ ہر پارٹی ممبر نے جو صاحب اقتدار ہے، اپنے گرو مہاراجہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ٹھیک ٹھاک مال بنایا ہے۔ بہت مشکل نظر آتا ہےکہ پارٹی اپنے ہی ووٹرز میں اپنا اعتماد اور اپنی ساکھ بحال کر سکے جبکہ الیکشن بھی سر پر ہیں تو ان حالات کے تناظر میں گرو جی مہاراج نے ترپ کا پتہ کھیلا ہے اور ایک تیر سے کئ شکار کرنے کا سوچا ہے مگر عدلیہ نے بہت ہی دانائی سے گرو جی کی چال انھی پر الٹ دی ہے اور یہ میرے لیے حیرت کی بات ہے کہ جیوڈیشری ان پالیٹیکس!! اگر عدالت گیلانی کو ان کے 'جثے' کے مطابق سزا دے دیتی تو کرپشن سے لھتڑاگیلانی سیاسی شہید بن جاتا اور مظلومیت کے پردے تلے ساری کرپشن چھپ جاتی، ادھر پارٹی اسکی سیاسی شہادت کو خوب کیش کرتی اور عوامی ہمدردیاں بٹورنا شروع کر دیتی جہاں پارٹی کی نا اہلیت کہیں پھیچھے رہے جاتی اور سب اچھا ہو جاتا، اب ان میں سے کوئی مقصد پورا ہونے والا نہیں اور عدالت نے وزیراعظم کو مجرم بھی بنا دیا اور ایسی سزا دی کہ جس کو اپیل سے بھی واپس نہیں کیا جا سکتا اور دفعہ بھی 63جی کی لگائی کہ اول تو اگر تھوڑی غیرت کی تو گیلانی صاحب خود ہی استعفٰی دینے پر مجبور ہو جائیں گے نہیں تو اگلے کسی مرحلے میں الیکشن سے پہلے، یا دوران، کسی پٹیشن پر عدلیہ اسی آرٹیکل کے تحت سزا یافتہ گیلانی کو پانچ سال کے لیے نااہل قرار دے سکتی ہے۔ اسے کہتے ہیں آم کے آم گھٹلیوں کے دام، عدلیہ کا وار بہت ہی کارا ہے، گرو جی کی ساری چالیں انھیں پر الٹ دی گئی ہیں
 

S. H. Naqvi

محفلین
اور ان فوجیوں نے تو تمام ملک کے عوام کو قربانی کا بکرا بنایا ہوا ہے
تو سول حکمران کون سا بکرے کے ساتھ اچھا سلوک کر رہے ہیں، پچھلے چار سالوں میں جمہوریت نے جتنا نقصان ملک اور عوام کو پہنچایا ہے اس سے ثابت ہو گیا ہے کہ بلا شبہ بی بی کے قتل کا بدلہ پاکستانی عوام سے لینے کے لیے، جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے۔۔۔۔۔!
 
تو سول حکمران کون سا بکرے کے ساتھ اچھا سلوک کر رہے ہیں، پچھلے چار سالوں میں جمہوریت نے جتنا نقصان ملک اور عوام کو پہنچایا ہے اس سے ثابت ہو گیا ہے کہ بلا شبہ بی بی کے قتل کا بدلہ پاکستانی عوام سے لینے کے لیے، جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے۔۔۔ ۔۔!
دنیا کے بے کا ر ترین لوگ یہ پاکستان کے عوام ہیں۔ اپنے برے بھلے کا بھی پتہ نہیں
 

یوسف-2

محفلین
کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ بھلا یہ کیا سزا ہوئی۔ 30 سیکنڈ کی سزا؟ وہ یہ بھول رہے ہیں کہ :
1۔ عدالتوں کا کام سزا سنانا ہوتا ہے۔ عملدرآند کرنا نہیں۔ یہ اپنی نوعیت کی انوکھی سزا ہے کہ عدالت نے ملزم کو مجرم بھی ڈیکلیئر کیا، سزا بھی سنائی اور اپنی موجودگی میں سزا پر عمل درآمد کو یقینی بھی بنایا۔ جس کے بعد گیلانی صاحب سزا یافتہ مجرم بن گئے
2۔ لوگ یہ بھی بھول رہے ہیں کہ وزیراعظم یعنی سربراہ مملکت پر مقدمہ ہی اس الزام پر چلا کہ انہوں نے عدالتی حکم پر عملدرآمد نہیں کرکے توہین عدالت کی تھی۔ اب اگر عدالت اس جرم کی زیادہ سے زیادہ سزا چھ ماہ سنا بھی دیتی تو کیا اس پر عمل درآمد ہوتا؟ تو کیا عدالت اپنے اس عدالتی حکم کا بھی مذاق اڑانے کا موقع دیتی؟
3۔ اگر عدالت قید کی سزا سناتی تو کیا عدالت میں مجرم کو گرفتار کرلیا جاتا؟ ہر گز نہیں۔ پھر مذاق اڑتا
4۔ یا پھرصدر مملکت عدالتی سزا کو فورا" معاف کردیتے۔ اس صورت میں بھی عدالت کا مذاق اڑتا۔
5۔ حکومت پی ایم ہاؤس کو سب جیل قرار دے دیتی۔ اور گیلانی صاحب پی ایم ہاؤس کی سب جیل میں سزا بھی کاٹتے اور وزیر اعظم کے فرائض بھی انجام دیتے۔ اور بابر اعوان کی طرح پوری حکومت عدلیہ سے زبان حال سے کہتی: ککھ وی نئیں بگڑیا
عدالت نے ان سب ممکنہ خدشات کے پیش نظر ایک بہترین فیصلہ سنایا۔ وزیر اعظم کو عدالت میں طلب کیا اور ان کے سامنے سزا سنائی اور اس سزا پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنایا۔ اب وہ ایک سزا یافتہ مجرم ہیں۔
 
لیکن اگر اب بھی حکمران جماعت اور انکے اتحادی اسی بات پر مصر ہوں کہ سب اچھا ہے اور عدالت سے باہر وکٹری کے نشان بناتے نظر آئیں تو اس کا کیا علاج ہے۔۔۔
یہیں سے ایک لطیفہ یاد آیا جوکسی پرانی کتاب میں پڑھا تھا۔۔۔ایک افغانی صاحب ہندوستان کے کسی شہر میں وارد ہوئے۔ شہر کے بازار میں پھر رہے تھے کہ اسے ایک مٹھائی کی دوکان نظر آئی کھڑے کھڑے کئی لڈّو اور گلاب جامن وغیرہ کھا لئے اور جب دوکاندار نے پیسے طلب کئے تو ہنس کر کہنے لگے کہ کیسے پیسے۔۔ جاؤ کوئی پیسے نہیں ہیں۔ اس پر انکے ساتھ جیسا بھی سلوک کیا گیا اس سے قطعِ نظر، جب واپس اپنے وطن میں پہنچے تو رشتے داروں اور دوست احباب نے انکی دعوت کی۔ کھانے سے فراغت کے بعد قہوے کا دور چلا اور سب پوچھنے لگے کہ بتاؤ ہندوستان کیسا ملک ہے اور وہاں کے لوگ کیسے ہیں۔
فرمانے لگے، "ہندوستان کی کیا پوچھتے ہو دوستو۔۔۔بہت مہمان نواز ملک ہے اور بہترین لوگ ہیں۔۔آپ انکی مٹھائیوں کی دوکان سے کوئی بھی چیز کھالیں، بالکل منع نہیں کریں گے، پیسے بھی نہیں دینے پڑتے، بلکہ الٹا آپ کے ممنون ہوکر کئی آدمی آپ کواپنے ہاتھوں اور کاندھوں پر اٹھا کر دوکان سے باہر چحوڑ کے آتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ آپ کو بالکل مفت گدھے کی سواری بھی فراہم کرتے ہیں، آپ کے گلے میں بہترین قسم کا ہار ڈالتے ہیں جس میں تحفتاّ آپکے استعمال کیلئے کئی جوتے بھی پروئے ہوتے ہیں، لڑکے بالے استقبالی نعرے لگاتے ہوئے آپ کو پورے شہر کی سیر بھی کرو اکر آتے ہیں۔۔۔کیا ملک ہے یارو اور کیسے مست قسم کے لوگ ہیں ۔۔۔واہ واہ
:)
 

عسکری

معطل
یار کیسا سیاسی شھید عوام کیا پاگل ہے کہ 4 سال ان لٹیروں کو دیکھنے کے بعد بھی ان کو دوبارہ ووٹ دے گی؟ کیسی سیاسی شھادت ؟ میرے لیے زرداری گیلانی بلاول اور چمچوں کو اگر ایک ساتھ پھانسی بھی دے دیں تو بھی میں اس غنڈہ کرپٹ پارٹی کو ووٹ نا دوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
فکر نہ کرو، ووٹ اس دفعہ بھی پی پی پی ہی نے لے جانے ہیں، دھونس سے دھاندلی سے پیسے سے، ہر طریقہ ان کے پاس ہے۔
 

عسکری

معطل
محض سزا یافتہ مجرم

سعید آسی ۔ 7 گھنٹے 50 منٹ پہلے شائع کی گئی
لوگ اس بات کو پکڑ کر بیٹھے ہیں کہ وزیراعظم کو محض 30 سیکنڈ قید کی سزا، بھلا یہ کیا سزا ہوئی۔ قوم کو اپنے تئیں یہ توقع تھی کہ وزیراعظم کیخلاف توہین عدالت کے کیس نے جتنی طوالت اختیار کی ہے، ان کیلئے سزا بھی اتنی ہی طویل ہوگی، یہ توقع باندھنے میں اس لئے بھی مضائقہ نہیں تھا کہ پہلے قوم نے ہی اس کیس کی ذہنی ہیجان و خلفشار پیدا کرنیوالی طوالت کی سزا بھگتی ہے اور قوم کے بعض طبقات کو مایوسی بھی اس لئے ہوئی کہ انہیں تو کیس کے فیصلے کے انتظار کی سولی پر طویل عرصہ تک لٹکائے رکھنے کی سزا اور وزیراعظم کیلئے سزا جھٹ پٹ بھی نہیں، بس چٹکی بجائی اور انکی سزا پوری ہوگئی۔
وزیراعظم کی سزا سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلہ کا اگر جذباتی بنیادوں پر جائزہ لیا جائے تو یقیناً اس فیصلہ پر مایوسی ہی مایوسی نظر آئیگی مگر اس فیصلہ کے جو قانونی اور آئینی اثرات وزیراعظم کی ذات پر مرتب ہوئے ہیں، وہ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ میں موجود دانش و حکمت کی پرتیں کھولتے نظر آئینگے۔ اس کیس میں بلاشبہ سپریم کورٹ نے بھی آخری حد تک جاکر صبروتحمل کا مظاہرہ کیا اور حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل کو اس کیس میں استغاثہ کے وکیل کی حیثیت سے سپریم کورٹ کے مدمقابل لانے کی حرکت بھی برداشت کرلی۔ کیوں؟ ذرا دیکھئے سپریم کورٹ کے اس فیصلہ سے قانون و آئین کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری تسلیم کرانے کے معاملہ میں کتنے مثبت اور دوررس اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ جن حکومتی بہی خواہوں کو یہ خوش فہمی اور درحقیقت غلط فہمی ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد اب سپیکر قومی اسمبلی بھی آئین کی دفعہ 63(2) والے اپنے آئینی اختیار کے تحت سید یوسف رضا گیلانی کی نااہلیت کا معاملہ ایک ماہ تک اپنے پاس زیرالتواءرکھیں گی اور پھر ایک ماہ بعد انکے بھجوائے گئے ریفرنس کو چیف الیکشن کمشنر 6 ماہ تک لٹکائے رکھیں گے اور اس دوران مرشد گیلانی وزیراعظم کے منصب پر برقرار رہتے ہوئے اگلے انتخابات کی نوبت لے آئینگے، انکی یہ غلط فہمی وزیراعظم کی 30 سیکنڈ کی سزائے قید اور اسی فیصلہ میں سپریم کورٹ ہی کی جانب سے آئین کی دفعہ 63 جی ون کے تحت مرشد گیلانی کو ملنے والی پانچ سال کی نااہلیت کی سزا کی بنیاد پر بہت جلد ختم ہوجائےگی کیونکہ اس فیصلہ کے بعد سپیکر قومی اسمبلی کا آئین کی دفعہ 63(2) والا اختیار تو بروئے کار ہی نہیں لایا جاسکے گا۔
سپیکر کا یہ اختیار کسی رکن قومی اسمبلی کیخلاف کسی شخص یا ادارے کی جانب سے دی گئی درخواست کی بنیاد پر استعمال ہوتا ہے جس میں سپیکر کو جائزہ لینا ہوتا ہے کہ متعلقہ رکن اسمبلی کی اہلیت کیخلاف درخواست میں لگائے گئے الزامات درست ہیں یا نہیں۔ اگر سپیکر محسوس کریں کہ درخواست میں متعلقہ رکن اسمبلی پر لگائے گئے الزامات بادی النظر میں درست ہیں تو پھر انکی جانب سے متعلقہ رکن کی نااہلیت کا ریفرنس چیف الیکشن کمشنر کو بھجوایا جائیگا جو اس رکن اسمبلی کی نشست خالی ہونے کا نوٹیفکیش جاری کریں گے جبکہ موجودہ کیس میں بطور رکن اسمبلی وزیراعظم کی اہلیت کیخلاف کوئی عام شہری شکائت کنندہ نہیں بلکہ سپریم کورٹ نے انہیں فوجداری جرم کی سزا دیکر آئین کی دفعہ 63 جی ون کے تحت خود نااہل قرار دیا ہے اسلئے سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کو سپیکر قومی اسمبلی کے روبرو وزیراعظم کیخلاف درخواست تو متصور نہیں کیا جا سکتا، اس فیصلہ کی اپنی قانونی اور آئینی حیثیت ہے جس کے لاگو ہوتے ہی سید یوسف رضا گیلانی بطور رکن قومی اسمبلی نااہل ہوچکے ہیں اور جب انکی قومی اسمبلی کی رکنیت ہی برقرار نہیں رہی تو وہ وزیراعظم کے منصب پر کیسے فائز رہ سکتے ہیں، یقیناً اسی تناظر میں سپریم کورٹ نے اپنے مختصر فیصلہ میں خود باور کرایا ہے کہ وزیراعظم کو توہین عدالت کے جرم کی سزا اس لئے کم دی گئی ہے کہ ان پر آئین کی دفعہ 63 جی ون کا اطلاق بھی ہورہا ہے جو بذاتِ خود بہت بڑی سزا ہے۔
گیلانی بادشاہ کی وزارت عظمیٰ کے برقرار رہنے کے فریب میں مبتلا ان کے بہی خواہوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ کسی رکن پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی کو اسکے کسی غیرقانونی، غیرآئینی اقدام کی بنیاد پر نااہل قرار دلانے کے تین مختلف فورم ہیں اور ہر فورم کا اپنا اپنا اختیار ہے اس لئے ان میں سے کوئی ایک فورم بھی کسی رکن کو نااہل قرار دیدے تو اسکے خلاف دادرسی کیلئے صرف مجاز اپیلٹ فورم سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ یہ تین فورم مجاز عدالت، الیکشن کمیشن اور سپیکر قومی یا صوبائی اسمبلی کے ہیں۔ اگر کسی رکن پارلیمنٹ یا رکن صوبائی اسمبلی کیخلاف دادرسی کیلئے کوئی شخص یا ادارہ الیکشن کمیشن سے رجوع کریگا تو الیکشن کمیشن خود اس درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے الزامات درست ثابت ہونے کی صورت میںمتعلقہ رکن کی نشست ختم کردیگا جیسا کہ حال ہی میں الیکشن کمیشن نے سندھ اسمبلی کی نومنتخب رکن وحیدہ شاہ کی رکنیت ختم کرکے انہیں دو سال کیلئے نااہل قرار دیا۔ اس فیصلہ کے بعد متعلقہ سپیکر صوبائی اسمبلی کی جانب سے وحیدہ شاہ کیخلاف نااہلیت کا ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوانے کی کوئی گنجائش نہیں رہی تھی جبکہ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کیخلاف مجاز اپیلٹ اتھارٹی سندھ ہائیکورٹ تھی جس نے اس فیصلے کیخلاف حکم امتناعی جاری کردیا۔ اسی طرح اگر کسی رکن قومی اسمبلی کیخلاف کسی درخواست کی بنیاد پر سپیکر قومی اسمبلی الیکشن کمیشن کو اسکی نااہلیت کا ریفرنس بھجوائیں جس کی بنیاد پر الیکشن کمیشن اسے نااہل قرار دیدے تو اسکے خلاف بھی مجاز عدالت میں اپیل دائر کی جاسکتی ہے جبکہ مجاز عدالت کے فیصلہ کو الیکشن کمیشن یا سپیکر قومی یا صوبائی اسمبلی کے پاس نہیں صرف متعلقہ اپیلٹ کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ پھر یہ کیسی خوش فہمی ہے کہ وزیراعظم کیخلاف سپریم کورٹ کے فیصلہ کو جو بذاتِ خود مجاز اپیلٹ اتھارٹی بھی ہے، سپیکر قومی اسمبلی کے پاس بھجوایا جائیگا جو اسے ایک ماہ تک لیکر بیٹھ جائیں گی۔ حضور والا، اب سپیکر قومی اسمبلی نے کچھ نہیں کرنا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کی بنیاد پر الیکشن کمیشن نے گیلانی بادشاہ کی قومی اسمبلی کی نشست خالی ہونے کا نوٹیفکیشن جاری کرنا ہے، پھر آپ کس دھیان میں ہیں، کس گمان میں ہیں، اور آپ نے دیکھا نہیں، سپریم کورٹ نے کس دانشمندی کے ساتھ وزیراعظم کو عدالت میں بلوا کراور انہیں تابرخاست عدالت قید کی سزا کاٹنے پر مجبور کرکے اس سزا کیخلاف اپیل کے راستے بھی بند کردئیے ہیں۔ جب وزیراعظم نے سزا بھگت ہی لی تو اب اس سزا میں کمی یا اسے ختم کرنے کی اپیل کیسے کی جاسکتی ہے؟ سپریم کورٹ کے فیصلے کی یہی حکمت ہے کہ وزیراعظم کی نااہلیت کی سزا کے بعد ان کیلئے دادرسی کے سارے دروازے ازخود بند ہوگئے ہیں۔ تو بھائی صاحب، کیا خیال ہے، سپریم کورٹ وزیراعظم کو 6 ماہ یا اس سے زیادہ قید کی سزا دیکر اس کیخلاف اپیل کی صورت میں انہیں پھر تاخیری حربے اختیار کرکے کیس کو طول دینے کا موقع فراہم کردیتی؟ سپریم کورٹ نے یہی حکومتی ساز ش تو ناکام بنائی ہے، اس لئے سارے خوش فہموں کو خاطر جمع رکھنی چاہئے۔ ان کے وزیراعظم اب مجرم ہیں، محض سزا یافتہ مجرم....!
http://www.nawaiwaqt.com.pk/pakista...rdu-online/Opinions/Columns/27-Apr-2012/27253
 

S. H. Naqvi

محفلین
یار کیسا سیاسی شھید عوام کیا پاگل ہے کہ 4 سال ان لٹیروں کو دیکھنے کے بعد بھی ان کو دوبارہ ووٹ دے گی؟ کیسی سیاسی شھادت ؟ میرے لیے زرداری گیلانی بلاول اور چمچوں کو اگر ایک ساتھ پھانسی بھی دے دیں تو بھی میں اس غنڈہ کرپٹ پارٹی کو ووٹ نا دوں۔
جی جی پاگل ہیں، یا پھر حقیقت میں عوام کے پاس منتخب کرنے کی طاقت ہی نہیں۔۔۔۔! ملتان کے ضمنی الیکشن کے نتائج ملاحظہ فرمائیں جہاں سنا ہے نواز لیگ کا علاقہ ہونے کے باوجود پی پی کا امیدوار ہی جیتا ہے اور اسی الیکشن کی مبارکباد دیتے ہوئے گرو مہاراج نے اپنے بکرے کی ڈھارس بندھائی جو آج کے جنگ اخبار کی زینت بنی، عوام کی عدالت نے گیلانی کو سرخرو کر دیا ہے۔۔۔۔۔!
 

ساجد

محفلین
جی جی پاگل ہیں، یا پھر حقیقت میں عوام کے پاس منتخب کرنے کی طاقت ہی نہیں۔۔۔ ۔! ملتان کے ضمنی الیکشن کے نتائج ملاحظہ فرمائیں جہاں سنا ہے نواز لیگ کا علاقہ ہونے کے باوجود پی پی کا امیدوار ہی جیتا ہے اور اسی الیکشن کی مبارکباد دیتے ہوئے گرو مہاراج نے اپنے بکرے کی ڈھارس بندھائی جو آج کے جنگ اخبار کی زینت بنی، عوام کی عدالت نے گیلانی کو سرخرو کر دیا ہے۔۔۔ ۔۔!
یہ سیاسی لیڈر خود ہی اپنی حرکتوں سے باز آ جائیں قبل اس کے کہ عوام واقعی انہیں "سُرخ رُو" کر دیں:) ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
عدلیہ اور گیلانی کا مشترکہ ڈرامہ۔۔۔ 30 سیکنڈز کی سزا پر پورے ملک میں ہیجان برپا کردیا۔۔۔

ٹھیک ۔۔۔۔! لیکن 30 سیکنڈ کی سزا ایسی ہے کہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔ ایسی سزا جو ہو بھی گئی اور موصوف ایک بار پھر سزا یافتہ ہوگئے اس میں بھی تو کوئی نہ کوئی حکمت ہے نا۔۔۔۔! ورنہ تو یہ سب ایسے ہی چلتا رہتا۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
ساجد صاحب عوام نے کیا سرخرو کرنا،عوام کے پاس تو الیکٹ کرنے کی درحقیقت پاور ہی نہیں ہے، عوام کسی اورنشان پر مہر لگا کر ڈبے میں ڈالتے ہیں اور اندرون خانے بنے بنائے ڈبے تیار پڑے ہوتے ہیں جنہیں بدل دیا جاتا ہے یا پھر جو بھی خفیہ گیم کی جاتی ہے، یا پھر دوسرا نظریہ کہ عوام مہنگائی، دہشت گردی اور اسی طرح کے دوسرے مصائب میں الجھ کر اچھے برے کی تمیز ہی کھو بیٹھی ہے کہ وہ اب بھی انہی چہروں کو الیکٹ کر رہی ہے اور امید ہے کہ آگے بھی کرے گی۔ پی پی کے دور کے ضمنی الیکشن کی تاریخ اٹھا کر دیکھں کہ سیونٹی پرسینٹ پی پی کے امیدوار ہی دوبارہ منتخب ہو رہے ہیں اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟
 
Top