محض سزا یافتہ مجرم
سعید آسی ۔ 7 گھنٹے 50 منٹ پہلے شائع کی گئی
لوگ اس بات کو پکڑ کر بیٹھے ہیں کہ وزیراعظم کو محض 30 سیکنڈ قید کی سزا، بھلا یہ کیا سزا ہوئی۔ قوم کو اپنے تئیں یہ توقع تھی کہ وزیراعظم کیخلاف توہین عدالت کے کیس نے جتنی طوالت اختیار کی ہے، ان کیلئے سزا بھی اتنی ہی طویل ہوگی، یہ توقع باندھنے میں اس لئے بھی مضائقہ نہیں تھا کہ پہلے قوم نے ہی اس کیس کی ذہنی ہیجان و خلفشار پیدا کرنیوالی طوالت کی سزا بھگتی ہے اور قوم کے بعض طبقات کو مایوسی بھی اس لئے ہوئی کہ انہیں تو کیس کے فیصلے کے انتظار کی سولی پر طویل عرصہ تک لٹکائے رکھنے کی سزا اور وزیراعظم کیلئے سزا جھٹ پٹ بھی نہیں، بس چٹکی بجائی اور انکی سزا پوری ہوگئی۔
وزیراعظم کی سزا سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلہ کا اگر جذباتی بنیادوں پر جائزہ لیا جائے تو یقیناً اس فیصلہ پر مایوسی ہی مایوسی نظر آئیگی مگر اس فیصلہ کے جو قانونی اور آئینی اثرات وزیراعظم کی ذات پر مرتب ہوئے ہیں، وہ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ میں موجود دانش و حکمت کی پرتیں کھولتے نظر آئینگے۔ اس کیس میں بلاشبہ سپریم کورٹ نے بھی آخری حد تک جاکر صبروتحمل کا مظاہرہ کیا اور حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل کو اس کیس میں استغاثہ کے وکیل کی حیثیت سے سپریم کورٹ کے مدمقابل لانے کی حرکت بھی برداشت کرلی۔ کیوں؟ ذرا دیکھئے سپریم کورٹ کے اس فیصلہ سے قانون و آئین کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری تسلیم کرانے کے معاملہ میں کتنے مثبت اور دوررس اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ جن حکومتی بہی خواہوں کو یہ خوش فہمی اور درحقیقت غلط فہمی ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد اب سپیکر قومی اسمبلی بھی آئین کی دفعہ 63(2) والے اپنے آئینی اختیار کے تحت سید یوسف رضا گیلانی کی نااہلیت کا معاملہ ایک ماہ تک اپنے پاس زیرالتواءرکھیں گی اور پھر ایک ماہ بعد انکے بھجوائے گئے ریفرنس کو چیف الیکشن کمشنر 6 ماہ تک لٹکائے رکھیں گے اور اس دوران مرشد گیلانی وزیراعظم کے منصب پر برقرار رہتے ہوئے اگلے انتخابات کی نوبت لے آئینگے، انکی یہ غلط فہمی وزیراعظم کی 30 سیکنڈ کی سزائے قید اور اسی فیصلہ میں سپریم کورٹ ہی کی جانب سے آئین کی دفعہ 63 جی ون کے تحت مرشد گیلانی کو ملنے والی پانچ سال کی نااہلیت کی سزا کی بنیاد پر بہت جلد ختم ہوجائےگی کیونکہ اس فیصلہ کے بعد سپیکر قومی اسمبلی کا آئین کی دفعہ 63(2) والا اختیار تو بروئے کار ہی نہیں لایا جاسکے گا۔
سپیکر کا یہ اختیار کسی رکن قومی اسمبلی کیخلاف کسی شخص یا ادارے کی جانب سے دی گئی درخواست کی بنیاد پر استعمال ہوتا ہے جس میں سپیکر کو جائزہ لینا ہوتا ہے کہ متعلقہ رکن اسمبلی کی اہلیت کیخلاف درخواست میں لگائے گئے الزامات درست ہیں یا نہیں۔ اگر سپیکر محسوس کریں کہ درخواست میں متعلقہ رکن اسمبلی پر لگائے گئے الزامات بادی النظر میں درست ہیں تو پھر انکی جانب سے متعلقہ رکن کی نااہلیت کا ریفرنس چیف الیکشن کمشنر کو بھجوایا جائیگا جو اس رکن اسمبلی کی نشست خالی ہونے کا نوٹیفکیش جاری کریں گے جبکہ موجودہ کیس میں بطور رکن اسمبلی وزیراعظم کی اہلیت کیخلاف کوئی عام شہری شکائت کنندہ نہیں بلکہ سپریم کورٹ نے انہیں فوجداری جرم کی سزا دیکر آئین کی دفعہ 63 جی ون کے تحت خود نااہل قرار دیا ہے اسلئے سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کو سپیکر قومی اسمبلی کے روبرو وزیراعظم کیخلاف درخواست تو متصور نہیں کیا جا سکتا، اس فیصلہ کی اپنی قانونی اور آئینی حیثیت ہے جس کے لاگو ہوتے ہی سید یوسف رضا گیلانی بطور رکن قومی اسمبلی نااہل ہوچکے ہیں اور جب انکی قومی اسمبلی کی رکنیت ہی برقرار نہیں رہی تو وہ وزیراعظم کے منصب پر کیسے فائز رہ سکتے ہیں، یقیناً اسی تناظر میں سپریم کورٹ نے اپنے مختصر فیصلہ میں خود باور کرایا ہے کہ وزیراعظم کو توہین عدالت کے جرم کی سزا اس لئے کم دی گئی ہے کہ ان پر آئین کی دفعہ 63 جی ون کا اطلاق بھی ہورہا ہے جو بذاتِ خود بہت بڑی سزا ہے۔
گیلانی بادشاہ کی وزارت عظمیٰ کے برقرار رہنے کے فریب میں مبتلا ان کے بہی خواہوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ کسی رکن پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی کو اسکے کسی غیرقانونی، غیرآئینی اقدام کی بنیاد پر نااہل قرار دلانے کے تین مختلف فورم ہیں اور ہر فورم کا اپنا اپنا اختیار ہے اس لئے ان میں سے کوئی ایک فورم بھی کسی رکن کو نااہل قرار دیدے تو اسکے خلاف دادرسی کیلئے صرف مجاز اپیلٹ فورم سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ یہ تین فورم مجاز عدالت، الیکشن کمیشن اور سپیکر قومی یا صوبائی اسمبلی کے ہیں۔ اگر کسی رکن پارلیمنٹ یا رکن صوبائی اسمبلی کیخلاف دادرسی کیلئے کوئی شخص یا ادارہ الیکشن کمیشن سے رجوع کریگا تو الیکشن کمیشن خود اس درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے الزامات درست ثابت ہونے کی صورت میںمتعلقہ رکن کی نشست ختم کردیگا جیسا کہ حال ہی میں الیکشن کمیشن نے سندھ اسمبلی کی نومنتخب رکن وحیدہ شاہ کی رکنیت ختم کرکے انہیں دو سال کیلئے نااہل قرار دیا۔ اس فیصلہ کے بعد متعلقہ سپیکر صوبائی اسمبلی کی جانب سے وحیدہ شاہ کیخلاف نااہلیت کا ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوانے کی کوئی گنجائش نہیں رہی تھی جبکہ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کیخلاف مجاز اپیلٹ اتھارٹی سندھ ہائیکورٹ تھی جس نے اس فیصلے کیخلاف حکم امتناعی جاری کردیا۔ اسی طرح اگر کسی رکن قومی اسمبلی کیخلاف کسی درخواست کی بنیاد پر سپیکر قومی اسمبلی الیکشن کمیشن کو اسکی نااہلیت کا ریفرنس بھجوائیں جس کی بنیاد پر الیکشن کمیشن اسے نااہل قرار دیدے تو اسکے خلاف بھی مجاز عدالت میں اپیل دائر کی جاسکتی ہے جبکہ مجاز عدالت کے فیصلہ کو الیکشن کمیشن یا سپیکر قومی یا صوبائی اسمبلی کے پاس نہیں صرف متعلقہ اپیلٹ کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ پھر یہ کیسی خوش فہمی ہے کہ وزیراعظم کیخلاف سپریم کورٹ کے فیصلہ کو جو بذاتِ خود مجاز اپیلٹ اتھارٹی بھی ہے، سپیکر قومی اسمبلی کے پاس بھجوایا جائیگا جو اسے ایک ماہ تک لیکر بیٹھ جائیں گی۔ حضور والا، اب سپیکر قومی اسمبلی نے کچھ نہیں کرنا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کی بنیاد پر الیکشن کمیشن نے گیلانی بادشاہ کی قومی اسمبلی کی نشست خالی ہونے کا نوٹیفکیشن جاری کرنا ہے، پھر آپ کس دھیان میں ہیں، کس گمان میں ہیں، اور آپ نے دیکھا نہیں، سپریم کورٹ نے کس دانشمندی کے ساتھ وزیراعظم کو عدالت میں بلوا کراور انہیں تابرخاست عدالت قید کی سزا کاٹنے پر مجبور کرکے اس سزا کیخلاف اپیل کے راستے بھی بند کردئیے ہیں۔ جب وزیراعظم نے سزا بھگت ہی لی تو اب اس سزا میں کمی یا اسے ختم کرنے کی اپیل کیسے کی جاسکتی ہے؟ سپریم کورٹ کے فیصلے کی یہی حکمت ہے کہ وزیراعظم کی نااہلیت کی سزا کے بعد ان کیلئے دادرسی کے سارے دروازے ازخود بند ہوگئے ہیں۔ تو بھائی صاحب، کیا خیال ہے، سپریم کورٹ وزیراعظم کو 6 ماہ یا اس سے زیادہ قید کی سزا دیکر اس کیخلاف اپیل کی صورت میں انہیں پھر تاخیری حربے اختیار کرکے کیس کو طول دینے کا موقع فراہم کردیتی؟ سپریم کورٹ نے یہی حکومتی ساز ش تو ناکام بنائی ہے، اس لئے سارے خوش فہموں کو خاطر جمع رکھنی چاہئے۔ ان کے وزیراعظم اب مجرم ہیں، محض سزا یافتہ مجرم....!
http://www.nawaiwaqt.com.pk/pakista...rdu-online/Opinions/Columns/27-Apr-2012/27253