توہین مذہب کی مختلف اقسام اور ہمارا رد عمل!

x boy

محفلین
حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی پر ایمان نہیں رکھتا۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت کا سلسلہ ختم سمجھتا ہوں۔ چہ خوش ؟

انصاف سب کے لئے ایک ہے ناکہ قوم مذہب یا نسل کی مناسبت سے۔ کسی کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے لئے آواز بلندکرنے کا مطلب یہ نہیں کہ بندہ اس کے مذہب کے ساتھ ساتھ ہو۔
جزاک اللہ

اللہ آپ کو بمع اہل و عیال خوش رکھے اور امت مسلمہ پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے ،،، آمین
اب مجھے یقین ہوگیا کہ آپ میرے بھائی ہیں
الحمدللہ غلط فہمی دور ہوگئی،،، اور میں بد گمان بھی نہیں ہوتا لیکن کچھ باتوں کی وجہ سے میں کسی کو ایسا کہا کیونکہ جہاں پاکستان کی بات آتی ہے وہاں کہا جاتا ہے یا کہتا ہے کہ پاکستان میں اقلییتوں کے ساتھ ظلم ہوتا ہے جبکہ میں اپنی ذندگی میں کبھی ایسا نہیں دیکھا،،، سب سے زیادہ پاکستان میں مسلمان مرے ہیں
اقلیت نہیں۔
 

نعمان خالد

محفلین
آخری تدوین:

نعمان خالد

محفلین
جنگ کرنے کے معانی جانتے ہیں آپ ؟ زبانی جمع خرچ کو جنگ نہیں کہتے ، آپ کا دیا ہوا ریفرنس نا مناسب ہے ۔ البتہ طالبان کے لئے یہ آیت مناسب ہے جو ہٹھیار اٹھا کر قتل کرتے پھررہے ہیں۔


انصاف یہ ہے کہ جو ایک طرف درست وہی دوسری طرف درست۔ کیا آپ ہندوؤں کو اجازت دیں گے کہ وہ ان کے مذہب کے خلاف کچھ بھی کہنے والوں کو قتل کردیا کریں؟ صبح شام مسلمان رام کے پیروکاروں کو کافر کہتے ہیں۔ کیا یہ کہی سنی ہندوؤں کے لئے کافی ہے کہ وہ مسلمانوںکا قتل عام کردیں۔

جب آپ فیصلہ کیجئے تو اپنا خیال بھی رکھئے ۔۔۔ کہ یہی فیصلہ آپ کے خلاف استعمال نا ہو جائے ۔۔۔۔

ملاء ازم کا بنیادی اصول ہے " اختلاف کی سزا ، موت !" یہ سزا ملاء کو بھی مل کر ہی رہے گی ۔ چاہے اس کے لئے 1792 کی طرح سات سمندر پار سے انگریز آئے یا امریکی یا پھر پاکستانی افواج ۔۔۔

جنگ نہ سہی لیکن کیا ایک نبی کو گالی دینا "فساد فی الارض" کے زمرے میں بھی نہیں آتا؟ جبکہ تمام ائمہ اس بات پر متفق ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو گالی دینے (زبانی جمع خرچ کرنے) سے ذمی واجب القتل ہو جاتا ہے اور اس کا عہد ٹوٹ جاتا ہے تو غیر ذمی کافر پر تو بدرجہ اولیٰ اس سزا کا اطلاق ہو گا۔ اور آپ ﷺ کے دور میں خود آپﷺ نے اپنے خلاف زبانی جمع خرچ کرنے والے کئی لوگوں کے خون کو ھدر (رائیگاں) قرار دیا اور کئی ایک کو معاف بھی کیا اور یہ معاف کرنا صرف رسول اللہ ﷺ کا ذاتی حق تھا۔
آپ انصاف کی بات کرتے ہیں تو یہ کیسا انصاف ہے کہ ایک طرف تو ہولوکاسٹ کے خلاف "زبانی جمع خرچ" تو دور کی بات فیس بک کے کومنٹس پر پابندی ہو اور دوسری طرف نبی کو گالی دینا فریڈم آف سپیچ ہو؟
خان صاحب گزارش ہے کہ مسئلہ مجھے یا آپ کو مناسب لگنے یا نہ لگنے کا نہیں، گفتگو کا مقصد بحث برائے بحث نہ ہو۔ آیئے قرآن کے حکم کے مطابق اپنے باہمی اختلافات میں فیصل اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو بنا لیں اور دیکھیں کہ اس ضمن میں اللہ کا قرآن کیا کہتا ہے اور رسول ﷺ کی شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے؟ (میں صرف زبانی جمع خرچ والے نکتہ پر ہی فوکس کر رہا ہوں)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک منافق کا سر صرف اس لیے قلم کر دیا کہ اس نے یہودی کے حق میں آپ ﷺ کا فیصلہ تسلیم نہیں کیا بلکہ فیصلہ کی تصدیق کے لیے یہودی کو لے کر حضرت عمر کے پاس چلا گیا تھا۔ جب عمر رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا کہ اس مقدمے کا فیصلہ رسول اللہ ﷺ یہودی کے حق میں دے چکے ہیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر منافق کا سر قلم کر دیا کہ "هكذا أقضي لمن لم يرض بقضاء الله ورسوله" (یہ میرا فیصلہ ہے اس شخص کے لیے جو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے پر راضی نہیں)۔ اور پھر حضرت عمر کے اس فیصلے کے حق میں سورۃ النساء کی یہ آیت نازل ہوئی "فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم ثم لا يجدوا في أنفسهم حرجا مما قضيت ويسلموا تسليما" ((اے نبیﷺ) مجھے آپﷺ کا رب ہونے کی قسم ہے! یہ لوگ اس وقت تک مومن ہو ہی نہیں سکتے جب تک کہ اپنے باہمی جھگڑوں میں آپﷺ کے فیصلوں کو تسلیم نہ کرلیں اور پھر اپنے دلوں میں کوئی تنگی (اس فیصلے کے حوالے سے) محسوس نہ کریں اور سر تسلیم خم کر دیں)۔ چنانچہ اس شخص کا خون بھی ھدر قرار دے دیا گا۔
محترم آپ کو زبانی جمع خرچ پر اعتراض ہے اور یہاں دلوں میں تنگی بھی محسوس نہ کرنے کا حکم ہے اور یہی ہے ایمان کا تقاضا بھی۔۔۔اسی طرح دیگر کئی آیات اور متعدد احادیث موجود ہیں جو اللہ، اللہ کے رسولﷺ اور امہات المؤمنین الطیبات والطاہرات اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف "زبانی جمع خرچ" کو قابل گردن زنی جرم قرار دیتی ہیں۔
ملا ازم کے نقصانات اپنی جگہ۔۔۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اس معاملے میں شریعت کے احکام غلط ہیں۔ غلط تو وہ لوگ ہیں جو ذاتی یا مسلکی مقاصد کے فروغ کے لیے ان قوانین کو استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے تو بہرحال مشرکین کے خود ساختہ خداؤں کو بھی گالی دینے سے منع فرمایا ہے۔
ملا ازم کے متعلق میرا خیال تو یہی ہے کہ یہ لوگ دانستگی میں یا نا دانستگی میں "اغیار" کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں اور عملاً ایسے اقدامات کر رہے ہیں جن سے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ ان حالات میں ہم سب کو موسیٰ علیہ السلام کی اس دعا "ربنا لا تجعلنا فتنۃ للقوم الظالمین" کی اشد ضرورت ہے کہ کہیں ہم سے ایسے اعمال و اقوال سر زد نہ ہو جائیں جنکا فائدہ ظالموں کو ہو اور نقصان اہل ایمان کو۔۔۔[/QUOTE]
 

نعمان خالد

محفلین
جب کہ جنید جمشید کی اپنی زبان سے گواہی موجود ہے تو کیا جنید جمشید کو بھی پھانسی کی سزا دی جائے گی ؟ کیا ملاء اس پھانسی کی حمایت کریں گے یا مخالفت کریں گے ؟ کیا آسیہ بی بی کو معافی اس لئے نہیں ہوگی کہ وہ عیسائی قوم کی ہے جس سے ملاء کو عداوت ہے ؟ جس کے خلاف کوئی ثبوت ریکارڈ پر نہیں -- کیا ملاء اس کی حمایت کریں گے یا مخالفت کریں گے ؟ کیا ملا نیٹ ورک پاکستانی پاکستان سے اکھاڑنے میں کامیاب ہو جائیں گے ؟ کیا سلمان تاثیر کا خون رائیگاں جائے گا؟ لگتا ہے کہ ملاء کی جس سے عداوت ہے وہ مجرم ہے اور جس سے موافقت ہے وہ مجرم نہیں ہے۔

سورۃ المائیدہ آیت نمبر 8 : اے ایمان والوں اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ پرہیزگاری سے زیادہ قریب ہے، اور اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ کو تمہارے کامو ں کی خبر ہے،

پاکستان کا آئین قرآن اور حدیث کے مطابق ہوگا ۔۔۔۔ اس شق کی ٹیسٹ کا وقت آگیا ہے۔ ضروری ہے کہ یا تو اس قانون کو ختم کیا جائے یا پھر سب مجرموں کو اسی قانون کے مطابق سزا دی جائے ۔

جناب اس نکتہ پر میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں واقعی جنید جمشید کے معاملے میں"یاران جہاں" کی منافقت کھل کر سامنے آ گئی۔ وہی لوگ جو کل تک عامر لیاقت، وینا ملک اور شائستہ واحدی کے خون کے پیاسے تھے ان ہی لوگوں کی زبانی یہ بات سننے کو مِلی کہ اگر عامر لیاقت وغیرھم کو سزا نہیں ملی تو جنید کا کیا قصور؟
اور پھر جنید جمشید کی معافی پر اک ایسا طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا کہ الامان! اس سے بڑھ کر اور کیا منافقت ہو گی؟ جہاں تک معافی کا تعلق ہے تو جس طرح شریعت میں قتل عمد کے مجرم کو معاف کرنے کا حق صرف مقتول کا وارثوں کا ہوتا ہے اور کسی صدر یا وزیر اعظم کا نہیں، بعینہ اس جرم کو معاف کرنے کا حق بھی صرف رسول اللہﷺ کا تھا، آپ ﷺ کے بعد کسی مائی کے لعل کو یہ حق حاصل نہیں چہ جائیکہ نام نہاد دو رکعت کے امام، ملا۔
اور یار لوگوں سے یہ بات بھی سننے کو ملی کہ یہ معاملہ توہین رسالت کا تو ہے ہی نہیں یہ تو ام المومنین رضی اللہ عنہا (فداھا امی وابی) کی توہین ہے (گویا کہ نعوذ باللہ یہ قابل برداشت ہے)۔ میری یا آپ میں سے کسی شخص کی بیوی سے کوئی بدتمیزی سے پیش آئے تو کیا ہم خاموش رہیں گے کہ چلو خیر میری بیوی کے ساتھ بد اخلاقی کی مجھے تو کچھ نہیں کہا؟ اور یہاں بات ان کی ہے جن کی برات میں قرآن کی 18 آیات نازل ہوئیں۔ جبکہ شریعت کے مطابق امہات المؤمنین پر طعن کرنے والا رسول اللہ ﷺ پر طعن کرنے والا ہے اور رسول اللہ ﷺ پر طعن کرنے والا اللہ کی ذات پر طعن کرنے والا ہے۔
لیکن مسئلہ وہی کہ غلط شریعت کے قوانین نہیں، غلط ان قوانین کو اپنے ذاتی اور مسلکی مفادات کے لیے استعمال کرنے والے نام نہاد علماء اور سیاہ ستدان ہیں۔ اور قرآن حکیم میں یہودیوں کی جو بدعنوانیاں گنوائی گئی ہیں ان میں یہ بھی ہے کہ اللہ کے نازل کردہ قوانین کو بدل دینا۔ اللہ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائیں اور ہمیں ظالموں کے لیے فتنہ کا باعث نہ بنائیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
عام مسلمان کو حکم ہی دل سے برا جاننے کا ہے، زبان سے برا کہنے کا حکم علماء کرام کیلئے ہے اور ہاتھ (طاقت) سے روکنے کا حکم حکومت کے لئے ہے۔۔۔
ہر شخص جن پہ قوام ہے انهیں اگر پیار و محبت سے نہ روک سکے تو بتدریج سختی کر سکتا هے. جیسے 10 سال کے بچے کو نماز نه پڑھنے پہ سختی کا حکم ہے. جب طلبه ادارے میں ہمارے پاس ہوتے هیں تو ہم کئی باتوں میں مجبور اور کئی میں مختار ہوتے ہیں اور ان سے منوا سکتے ہیں. دوران ٹرپ ہم ان په مکمل قوام ہوتے ہیں. کسی ادارے کا سربراه ہونے کے ناتے اپنے سٹاف اور طلبه(سٹاف اور ورکرز) سے بہت کچھ منوانے کی پوزیشن ہوتی ہے ۔ پیارو محبت سے اور کبھی کبھی کسی معاملے میں سختی بھی کرنی پڑ جاتی ہے. کچھ دن قبل ایک لاری سے سفر کرنا پڑا. ہم دونوں دوستوں کو پیچھے جگه ملی. ریکارڈنگ ہو رہی تھی. اتنی تھکن میں یہ مرے پہ سو درّے تھا. کنڈیکٹر آیا تو بهت تہذیب سے درخواست کی که بند کر دیں. اس وقت تو ہاں کر کے چلا گیا پر نه بند ہوئی. اترنے سے کچھ منٹ پہلے بہت فضول گانا شروع ہؤا . میں نے کھڑے ہو کے ڈرائیور کو سختی سے بند کرنے کو کها اور لاری میں بیٹھے مردوں کو بھی ان کی خاموشی په لتاڑا. گانے بند ہونے په سکون کی حالت میں کئی لوگوں کے کلمات سنے. لیکن یہی لوگ پہلے نہیں بول سکے تھے.
 
آخری تدوین:

x boy

محفلین
مولوی، یعنی عالم ، مذہب کا عالم ، اللہ کے خوف سے بھرپور۔ ملاء -- مولوی کے بھیس میں پنڈت
بہت شکریہ
لیکن یہ ملاء آیا کہاں سے عربستان میں تو ملاء نام کا کوئی ذرہ بھی نہیں پھر اس کو اسلامی کیسے کہہ سکتے ہیں اور مولوی بھی نہیں ہے، یا تو شیخ الاسلام
شیخ الکتاب، شیخ الحدیث، شیخ القانون یعنی ماہر جو بھی جس کی تعلیم رکھی ہے وہ اس بابت شیخ ہوتا ہے
 
پاکستان میں ایک عیسائی عورت آسیہ بی بی جس نے حضرت محمد کی شان میں گستاخی کی اور اپنا جرم عدالت میں قبول کیا۔ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر نے اس کی حمایت میں قانون توہین رسالت میں ترمیم کرانے کی کوشش کی اور اسے کالا قانوں کہا۔ اس گورنر کو ملک ممتاز حسین قادری نے قتل کردیا۔
http://ur.wikipedia.org/wiki/آسیہ_بی_بی

تھوڑی سی مزید معلومات۔
آسیہ بی بی نے اپنے عدالتی بیان میں کبھی بھی اپنا جرم قبول نہیں کیا ۔ اس پر محلے کے مسجد کے ایک قاری نے یہ الزام لگایا کہ اس نے دو عورتوں سے سنا تھا کہ جن سے اسیہ بی بی کا جھگڑا ہوا تھا ان عورتوں نے جا کر اس قاری کو بتایا کہ آسیہ نے ایسا ایسا کہا ۔ اسی طرح اس فارم کے مالک کا بھی یہی بیان ہے کہ اس کو انھی دونوں عورتوں نے بتایا کہ آسیہ بی بی نے گستاخی کی ہے۔ یہ دونوں مرد عدالت میں پیش ہوئے لیکن وہ دونوں عورتیں معدالت میں کبھی پیش نہیں ہوئیں بلکہ ان دونوں عورتوں کا انگریزی ( جی انگریزی) میں بیان عدالت میں داخل کیاگیا کہ ان دونوں نے اسیہ بی بی کو گستاخی رسول کا مرتکب پایا ۔

یہ افسوسناک حقیقت لاہور ہائی کورٹ کی پبلش شدہ اس مقدمے کی تفصیل کا حصہ ہے آپ بھی پڑھ سکتے ہیں اس ججمنٹ شیٹ کو
https://assets.documentcloud.org/documents/2104047/lhc-verdict.pdf

کیا ایسا ممکن ہے کہ جن دو عورتوں نے دیکھا اور سنا وہ پیش ہی نہ ہوں اور ان دو عورتوں کی لڑائی جن عورتوں نے دیکھی وہ بھی پیش نا ہوں اور سنے سنائے گواہ ( یہ میں نہیں ، کورٹ کا یہ ڈاکومینٹ کہہ رہا ہے) ایک عورت کو موت کی سزا دلوا سکیں؟؟

یہی سوال سلمان تاثیر کا بھی تھا۔ اس کی شیخوپورہ جیل کی ویڈیو یو ٹیوب پر موجود ہے۔ اس نے کبھی کالا قانون نہی کہا ۔ اس کا کوئی ثبوت اب تک سامنے نہیں آیا ہے ۔
 

حسیب

محفلین
اس نے کبھی کالا قانون نہی کہا ۔ اس کا کوئی ثبوت اب تک سامنے نہیں آیا ہے
نجم سیٹھی کے ساتھ دنیا نیوز پہ گفتگو کے دوران سلمان تاثیر نے اس قانون کو کالا قانون کہا تھا
یہ ایک الگ بحث ہے کہ کالا قانون کس معنوں میں کہا تھا
 

کعنان

محفلین
سلمان تاثیر قتل کیس، تحفظ ناموس رسالت قانون کسی کو توہین کرنے والے شخص کو کس طرح سزا دینے کی اجازت ہے؟ سپریم کورٹ
07 اکتوبر 2015

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گستاخی کرنے والوں کے خلاف جو حکم دیا یا گستاخوں کے خلاف کارروائی کرنے والوں کو سراہا تو آج یہ حکم دینے کا اختیار کس کو حاصل ہے ، کیا فرد واحد یہ اختیار استعمال کر سکتا ہے؛ جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ریمارکس اگر فرد واحد کو اس طرح کے اقدامات کی اجازت دے دی گئی تو پھر معاشرے میں بدامنی پھیل جائے گی، اس قانون کے استعمال میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے، 3 رکنی بنچ کے ریمارکس گستاخان رسول کی سخت سے سخت سزا رکھی گئی ہے، ایسے لوگ فسادی ہیں، قرآن میں نبی اکرم کی آواز سے آواز بلند کرنے سے بھی روکا گیا ہے، حکومت ایکشن نہ لے تو اللہ کا اپنا نظام حرکت میں آ کر گستاخوں کو سزا دیتا ہے؛ ممتاز قادری کے وکیل کے دلائل


اسلام آباد (روزنامہ قدرت ۔۔۔۔۔۔۔ 07 اکتوبر 2015 آن لائن) سپریم کورٹ نے سابق گورنر سلمان تاثیر کے قتل میں ملوث ممتاز قادری کی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر درخواست کی سماعت آج (بدھ) تک ملتوی کرتے ہوئے درخواست گزار کے وکیل میاں نذیر اختر کو ہدایت کی ہے کہ عدالت کو بتایا جائے کہ تحفظ ناموس رسالت قانون ہونے کے باوجود کسی انفرادی شخص کو توہین کرنے والے شخص کو کس طرح سزا دینے کی اجازت ہے؟
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گستاخی کرنے والوں کے خلاف جو حکم دیا یا گستاخوں کے خلاف کارروائی کرنے والوں کو سراہا تو آج یہ حکم دینے کا اختیار کس کو حاصل ہے ، کیا فرد واحد یہ اختیار استعمال کر سکتا ہے۔ عدالت فتویٰ نہیں دے سکتی تاہم ہائی کورٹ نے آپ کے اسوہ حسنہ کے واقعات کو سنت نہیں مانا تو اس کو فیصلے سے الگ کر سکتی ہے، شرعی فیصلے کیلئے شریعت اپیلٹ بنچ سے رجوع کرنا ہو گا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے ریمارکس میں کہا ہے کہ اگر فرد واحد کو اس طرح کے اقدامات کی اجازت دے دی گئی تو پھر معاشرے میں بدامنی پھیل جائے گی۔ اس قانون کے استعمال میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ انہوں نے یہ ریمارکس منگل کے روز دیئے ۔

ممتاز قادری کے وکیل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ گستاخان رسول کی سخت سے سخت سزا رکھی گئی ہے۔ ایسے لوگ فسادی ہیں نبی اکرم کی آواز سے آواز بلند کرنے سے بھی روکا گیا ہے اس کا ذکر قرآن میں بھی ہے۔ شان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بات کرنے والوں کے اعمال غارت ہو جاتے ہیں۔

جسٹس آصف نے کہا کہ آیت کریمہ اور ترجمہ کے بعد لکھے گئے الفاظ کس کے ہیں کیا یہ کسی عالم کے ہیں

اس پر وکیل نے کہا جی ہاں یہ عالم دین اور مفکر کے الفاظ ہیں۔ وکیل نے ممتاز قادری کا پورا بیان پڑھ کر سنایا۔ حضرت سعد بن عبادہؓ لوگوں کی زبان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے راعنا کا لفظ سن کر دکھی ہو گئے اور کہا کہ جس نے یہ لفظ استعمال کیا میں اسے قتل کر دوں گا جس پر اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی اور کہہ دیا کہ راعنا نہ کہا جائے بلکہ ”انظرنا“ کہا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے انظرنا کا لفظ بھی خود عطا فرما دیا۔ نیت کے ایشو پر ہائی کورٹ میں بحث ہی نہیں کی گئی 8 صفحات لکھ ڈالے یہ شریعت کورٹ کے فیصلے سے یہ الفاظ لیا گیا تھا حالانکہ شریعت کورٹ میں ایشو ہی اور تھا۔ اسلام میں عمر قید کی سزا نہیں بلکہ سزائے موت ہے یہ قانون باقی انبیاء پر بھی قرار دیا گیا ہے اس کے علاوہ کوئی اور فیصلہ نہیں دیا۔

وکیل نے ایک اور آیت کا مفہوم بیان کیا اور کہا کہ بے شک جو اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف دیتے ہیں ان کے لئے اللہ نے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

وکیل نے کہا کہ اس سزا کا اطلاق صرف آخرت ہی نہیں بلکہ دنیا کی سزا بھی ہے۔

عدالت نے کہا کہ اس کا اطلاق تو مستقبل کے لئے ہے۔ دنیا کے حوالے سے کیسے اطلاق ہو گا۔

وکیل نے کہا کہ اس کا اطلاق وہاں کے لئے بھی ہے کیونکہ اس لغت کا لفظ استعمال ہوا ہے یہ سزا سے بھی زیادہ سخت بات ہے۔

جسٹس آصف نے کہا کہ اس ایت میں اللہ کو تکلیف دینے کی بات ہے۔ بڑی اہم ہے وگرنہ انسان کس طرح سے اللہ کو تکلیف دے سکتا ہے اللہ کی تخلیق اس کو کیسے ایزاء دے سکتی ہے۔

وکیل نے کہا کہ ملعون جہاں ملیں ان کو قتل کر دیا جائے۔ یہ سزا پہلی امتوں کے لئے بھی مقرر تھی۔ حضرت عمر فاروقؓ کو فاروق کا لقب ایک ایسے نام نہاد مسلمان کو قتل کرنے پر دیا گیا جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو تسلیم نہیں کیا تھا۔

جسٹس آصف نے کہا کہ جتنی آیات آپ نے پیش کی ہیں وہ سب آپ کی شان اقدس کے حوالے سے ہیں مگر کسی مفسر نے ان آیات کو ناموس رسالت سے جوڑا ہے۔ یہ انسانی تشریح ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مفسر کا نتیجہ صحیح ہو ہمیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے مگر یہ انسانی تشریح ہے۔ مفسرین کا علم ہم سے ہزار گنا زیادہ ہے ان کی تفسیر سر آنکھوں پر ہے۔

وکیل نے کہا کہ آیت میں کہا گیا ہے جو اللہ کے رسول سے نعوذ باللہ مذاق کرتے ہیں وہ مسلمان ہونے کے باوجود کافر ہو چکے ہیں۔ اللہ اور رسول کی مخالفت کرنے والوں کے لئے سخت عذاب ہے۔ مخالفت کرنے والوں کو قتل کرنے کا حکم ہے۔
حضرت علیؓ نے روایت کی ہے اللہ کے نبی نے فرمایا جس نے انبیاء میں سے کسی کو گالی دی اس کو قتل کر دو صحابی کو گالی دی اس کو کوڑے مارے جائیں۔ قاضی ایاز اندلس کے چیف جسٹس تھے انہوں نے الشفا کتاب لکھی۔

جسٹس آصف سعید نے کہا کہ اللہ نے اپنے نبی کو فیصلے کا اختیار دیا تو انہوں نے قتل کرنے کا حکم دیا یہ اختیار اللہ کے نبی کے پاس تھا موجودہ سوال یہی ہے کہ قانون موجود ہے اپنے ہاتھ میں فیصلہ لے لینا یہ اختیار کہاں سے آتا ہے اس کی وضاحت ضروری ہے کیا ہر شخص کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی کو قتل کر دے

وکیل نے کہا کہ حضرت عمرؓ نے اپنے طور پر ایکشن لیا تھا اگر اللہ کے نبی روکنا چاہتے تو روک دیتے مگر اللہ نے آیت اتار دی اور آپ نے عمر کو فاروق کا لقب عطا فرما دیا۔

جسٹس آصف نے کہا کہ اس اختیار کی وضاحت تو ہونی چاہئے اگر اس طرح کی اجازت دے دی جائے تو کیا معاشرے میں ہر شخص اپنا فیصلہ اور عمل درآمد شروع کر دے تو معاشرہ خراب ہو جائے گا۔

وکیل نے کہا کہ یہ ایک مفروضہ ہے ہر الگ الگ حالت کے لئے قانون نہیں ہوتا 14 صدیاں گزر گئیں 80 کے قریب ریاست نے سزا دی 40 افراد کو از خود مارا گیا۔ امت کا رویہ یہ ہے عملاً رب کریم خود کنٹرول فرماتا ہے ہر بندے کو اس کی اجازت بھی نہیں دی۔ اہانت کرنے والے کو قتل کرنا مذہبی فریضہ ہے۔ ریاست فوری طور پر کارروائی کرے تو بہتر وگرنہ اللہ نے اپنا ایک نظام رکھا ہے ایک سبب بنا اور ممتاز قادری نے یہ قتل کر دیا۔

عدالت نے کہا تھا کہ اگر آپ کو اجازت دیں تو قیاس ہو گا۔ حالانکہ اس کی اجازت 14 صدیاں قبل دے دی تھی۔ کئی لوگوں کو انفرادی طور پر مارا گیا تھا۔

جسٹس دوست نے کہا کہ کیا یہ سب آیات مدنی ہیں اگر یہ مدنی ہیں تو اس وقت منافقین کی تعداد زیادہ تھی۔ 4 بڑی ایک چھوٹی جنگ بھی لڑی گئی اس کے بعد میثاق ہو گیا صلح حدیبیہ ہو گیا۔ قانونی اہمیت بھی دیکھنی ہو گی۔ مفتی اور مفسر نے جتنی باتیں کہیں ملزم کو خود معلوم نہ تھیں یہ باتین ان کو لکھ کر دی گئیں۔ کیا ملزم کو یہ علم حاصل تھا کہ جس کی بناء پر اس نے کارروائی کی۔

جسٹس دوست نے کہا کہ یہ تو قدرتی ہے ہم رسول اللہ کی شان کے خلاف کس طرح کوئی بات برداشت کر سکتے ہیں قرآن مجید میں آپ کی تعریف بیان کی گئی ہے۔ وقوعے کے وقت ملزم کے پاس یہ علم نہیں تھا۔

وکیل نے کہا کہ بنیادی علم تو حاصل تھا۔ دعوت اسلامی کے درس سنتے تھے جس کو بعد میں دعوت اسلامی نے تسلیم نہیں کیا۔ بحرین میں ایک چرچ تھا اس کے قریب بچے ہاکی کھیل رہے تھے گیند پادری کو لگ گئی وہ غصے ہو گئے انہوں نے گیند دینے سے انکار کر دیا۔ بچوں نے آپ کا واسطہ دیا مگر پادری نے گستاخی شروع کر دی جس پر بچوں نے ان کو لکڑیوں سے مار دیا۔ حضرت عمرؓ کے روبرو قصاص دیت کا مطالبہ کیا تو آپ نے مسترد کر دیا اور کہا کہ وہ بچوں کے اقدام سے بہت خوش ہیں اتنی جنگ کی فتح سے خوش نہیں ہوئے۔

جسٹس دوست نے کہا کہ جو جرم امریکہ میں کر رہا ہے یہاں تو لوگوں کو سزا نہ دی جائے۔ لوگ اس طرح کے معاملات میں جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں۔

جسٹس آصف نے کہاکہ آپ کی نظر میں بہت سے واقعات گزرے ہوں گے کہ فلاں شخص نے توہین کر دی لوگ اکٹھے ہو گئے گھر جلا دیتے ہیں بوٹیاں نوچ لیتے ہیں کیا ہر ایک کو لائسنس حاصل ہے کہ وہ جو مرضی آئے کرتا پھرے۔ اللہ نے بلا تحقیق کے بات آگے پھیلانے سے روکا ہے۔ ممتاز قادری کے پاس کیا اطلاع تھی کہ سابق گورنر نے گستاخی کی تھی سب چیزیں دیکھی تھیں۔ اگر اس کے پاس ٹھوس معلومات نہیں تھیں کیا ہر شخص کے پاس لائسنس ہے کہ بات درست پہنچے یا غلط کیا اس کو قتل کرنے کا اختیار ہے۔

وکیل نے کہا کہ اگر ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرے تو شاید اس کی ضرورت نہ تھی

عدالت نے کہا کہ کیا کسی نے ریاست سے رجوع کیا تھا۔

وکیل نے کہا کہ پہلی ریاست کی ذمہ داری ہے اگر وہ نہیں کرتی تو کوئی اور اقدام کرتا ہے تو اس کو سزائے موت نہیں دی جا سکتی اس کو رہا بھی کیا جا سکتا ہے۔

جسٹس دوست نے کہا کہ ریاست کے اہم تین ستون ہیں انتظامیہ‘ مقننہ اور عدلیہ ہیں۔ کیا کسی عدالت سے رجوع کیا گیا۔

وکیل نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی۔ عدالت نے کہا تھا گورنر کے خلاف مقدمہ درج نہیں ہو سکتا تھا اس کے خلاف نظرثانی درخواست دائر نہیں کی گئی۔

جسٹس آصف نے کہا کہ ایک سیکیورٹی ادارے کا ملازم کو تو قانون بھی پتہ ہے وہ بھی رجوع کر سکتا تھا۔

جسٹس دوست نے کہا کہ گورنر اگر جیل گیا تھا اس وقت تو چند لوگ ساتھ ہوں گے۔ آمر نے قانون شہادت نافذ کیا تھا۔

وکیل نے کہا کہ پریس کانفرنس کی گئی تھی۔

جسٹس آصف نے کہا کہ اس کو سماعت میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ اینٹوں کے بھٹے میں شادی شدہ جوڑے کو جلا دیا تھا آپ نے کہا کہ چند مقدمات ہیں 40 مقدمات سے زائد ہیں کئی مقدمات تو رپورٹ نہیں ہوئے۔ کئی مقدمات کو ہم نے خود ڈیل کیا ہوا ہے جائیداد کے تنازعے پر بھی توہین کا الزام لگوا کر ایک شخص کو سزائے موت دلوائی گئی بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ ایک صوبے کا گورنر ہے۔ قانون کے غلط استعمال بارے وہ اپنے تحفظات بیان کر سکتے تھے۔

وکیل نے کہا کہ انہوں نے الفاظ بولتے ہوئے احتیاط نہیں کی بہت آگے بڑھ گئے۔ انہوں نے ان الفاظ کی تردید تک نہیں کی۔

جسٹس آصف نے کہا کہ ہم نے ہر ایک چیز کا جائزہ لینا ہے کہ اگر کیس کا یہ فیصلہ کیا تو اس کے یہ نتائج ہوں گے اور اگر یہ کیا تو اس کے کیا نتائج ہوں گے۔

جسٹس دوست نے کہا کہ آپ نے جتنے واقعات بیان کئے ان میں گواہ موجود تھے۔ موجودہ واقعہ کو اس کے ساتھ کیسے نسبت دی جا سکتی ہے اللہ کے رسول کا اللہ سے براہ راست تعلق تھا۔ ہم تو گناہگار ہیں لیڈی ڈاکٹر نے نرس کے کاروبار سے تنگ آ کر اس کو بھی اس طرح کے مقدمے میں پھنسایا۔ بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔

وکیل نے کہا کہ اللہ نے اپنی اطاعت بھی رسول اللہ کی اطاعت سے مشروط کی ہے۔ بعض مقدمات میں آپ نے معاف بھی فرمایا مگر ان کے وصال کے بعد کس طرح معافی دی جا سکتی ہے۔

جسٹس دوست نے کہا کہ ریاست کی عملداری چھوڑ کر ہر شخص کو اجازت دے دیں تو فساد پھیل جائے۔ ہمارے ہاں بھی فرقہ بندی ہے اسی طرح سے معاشرے میں بھی تفریق آ چکی ہے اب قائد اعظم کا پاکستان نہیں رہا۔ جب ملک بنا تھا سب ان کے پرچم تلے جمع تھے۔ اب ایسا نہیں ہے غیر مسلم کو پھنسانے کے لئے اس کا غلط استعمال بھی ہو سکتا ہے۔

وکیل نے کہا کہ قانون کے غلط استعمال کا معاملہ الگ ہے۔ تاہم قانون و سنت سے بنائے گئے قانون کے بارے کوئی کس طرح سے یہ الفاظ بول سکتا ہے۔ تمام مسالک نے اس کو غلط قرار دیا۔ سیکیورٹی گارڈ کو آخر کیسے یہ جرات ہوئی، سیکیورٹی گارڈ نے آخر کیوں اس کو مارا، کسی نے اس وقت ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔

جسٹس دوست نے کہا کہ وقوعے کے وقت باقیوں کا خاموش رہنا اس کے حق میں رہنا ہے یہ ہم نے نوٹ کیا ہے۔

جسٹس آصف نے کہا کہ اللہ کے نبی تو حاکم بھی ہیں ان کی مثالوں کو کیسے اپنایا جائے۔ آج کون حکم کرے گا؟

وکیل نے کہا کہ پہلی ذمہ داری ریاست کی ہے۔

جسٹس دوست نے کہا کہ حکومت کا مفتی اعظم مقرر ہونا چاہئے اس فتوے پر عمل ہونا چاہئے وہ نہ ہو تو پھر قاضی کے سامنے پیش کر کے اس کو سزا دی جاتی۔ اگر ریاست کچھ نہیں کرتی تو پھر کیا ہو گا؟

جسٹس آصف نے کہا کہ آپ کے قول و فعل سے معاملات سامنے آ چکے ان کو ہم حق اور سچ سمجھتے ہیں۔

جسٹس دوست نے کہا کہ آپ ایک الگ سے اسلامی بورڈ بنانے کے لئے ریاست سے رجوع کیا جائے جو حکومت کے اثرات سے باہر ہو وہی اس طرح کے معاملات کا فیصلہ کرے۔ اس حوالے سے قانون میں ترمیم کی جاتی۔

وکیل نے کہا کہ ہم نے جو سرکار کی جو مثالیں دی ہیں ان کو ہائی کورٹ نے اسوہ حسنہ اور سنت نہیں مانا

عدالت نے کہا کہ ہائی کورٹ کو اس کا اختیار نہیں تھا اور یہ اختیار صرف وفاقی شرعی عدالت کو ہے آرٹیکل 203 (G-G) کے تحت ہائی کورٹ اس بارے فیصلہ نہیں دے سکتی تھی۔

جسٹس آصف نے کہا کہ شریعت بارے تو کچھ نہیں کہہ سکتا اور نہ ہی میرا یہ دائرہ کار ہے فوجداری مقدمے کی حد تک فیصلہ کرنا ہمارا فریضہ ہے ہم صحیح سے صحیح فیصلہ کرنے کی کوشش کریں گے اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے شریعت کے فتوے نہیں دے سکیں گے۔ ملزم نے ایک مجلس میں شرکت کی تھی اس کا بھی حوالہ دیا تھا۔ ملزم کے جذبات کو دیکھتے ہوئے آج کے معاشرے کی سکیم میں کہاں فٹ کر سکتے ہیں ہم نتیجہ پر جانا چاہتے ہیں فتویٰ اگر مانگیں گے تو یہ غیر موثر ہو گا۔ اسلامی پوزیشن پر تعلیم نہیں دے پائیں گے اس کے لئے آپ کو شریعت اپیلٹ بنچ سے رجوع کرنا پڑے گا۔ آپ اپنے دلائل بھی مکمل کریں۔

ح


جاری ہے
 

کعنان

محفلین
سپریم کورٹ نے سلمان تاثیر قتل کیس کا تفصیلی فیصلہ سنا دیا
28 اکتوبر 2015

اسلام آباد (روزنامہ قدرت ۔۔۔۔۔۔ 28 اکتوبر 2015) سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ توہینِ رسالت کے قانون میں بہتری یا اصلاح کا مطالبہ کرنا قابل اعتراض نہیں ہے اور اس کا مقصد جھوٹے الزامات کے حوالے سے اس قانون کے غلط استعمال سے حفاظت کرنا ہے۔


سابق وزیراعلیٰ پنجاب سلمان تاثیر قتل کیس پر تفصیلی فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ توہین رسالت کے قانون (پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295 سی) میں اصلاح کا مطالبہ کرنا کوئی غلطی نہیں ہے اور اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ اس کا مقصد نامزد فرد کے خلاف اس قانون کے غلط استعمال سے روکنا ہے۔

خیال رہے کہ رواں ماہ 7 اکتوبر کو جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے ایلیٹ فورس سے تعلق رکھنے والے ملک محمد ممتاز قادری کو انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے یکم اکتوبر 2011 کو سنائی جانے والی سزائے موت کو بحال رکھا تھا۔

ممتاز قادری نے 4 جون 2011 کو اسلام آباد میں مبینہ طور پر توہین رسالت کے مرتکب سلمان تاثیر کو فائرنگ کر کے قتل کردیا تھا۔ سپریم کورٹ میں وفاق کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی گئی تھی جبکہ ممتاز قادری کی جانب سے ان کے وکیل میاں نظیر اختر نے بھی ایک اپیل دائر کر رکھی تھی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی جانب سے تحریر کروائے جانے والے 39 صفات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا ہے کہ توہین رسالت کا ارتکاب غیر اخلاقی اور قابل نفرت ہے، تاہم جھوٹا الزام لگانا بھی برابر کا جرم ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ اگر اسلام توہینِ رسالت کرنے والوں کے حوالے سے بہت سخت ہے تو ساتھ ہی ساتھ جھوٹے الزامات لگانے والوں کو بھی مجرم قرار دیتا ہے۔ اس میں ریاست کو اس بات کو یقینی بنانے کا بھی کہا گیا ہے کہ کوئی بھی بے قصور فرد توہینِ رسالت کے حوالے سے جھوٹے مقدمے اور تفتیش کا سامنا نہ کرے۔

ح
 

کعنان

محفلین
چند خطباء نے جن کی روزی روٹی کا واحد ذریعہ آتشیں خطابت تھی اور ہے ، نے سلمان تاثیر کے قتل کے فتوے دینے شروع کر دئے ، ان میں سر فھرست مفتی حنیف قریشی تھے، جن کو شمشیر اعلی حضرت کا خطاب ان کے مریدین کی جانب سے دیا گیا ہے ، جنہوں نے اپنے خطاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ جھوٹ بھی باندھا ، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا کہ اس گستاخ رسول کو کون قتل کرے گا؟

اگر یہ حنیف قریشی صاحب اتنے ہی بڑے عاشق رسول تھے، کہ ان کے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ہی یہ حکم کیوں نہ دیا؟ کہ تم میرے گستاخ کو قتل کردو! یا تمہارا کوئی بھائی یا عزیز یہ فریضہ سر انجام دے!

یہ وہی مفتی حنیف قریشی صاحب ہیں ، جنہوں نے بعد ازاں اشٹام پیپر پر عدالت میں حلفیہ بیان بھی داخل کروایا ، کہ میرا ممتاز قادری سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نہیں، اور اس حلفیہ بیان کے دیتے وقت نہ ہی ان کے عشق رسول میں کوئی کمی ہوئی اور نہ ہی اس جو موت آئی، حالانکہ ممتاز قادری ان کے ہر پروگرام میں شمولیت اپنے لئے بہت بڑا اعزاز سمجھتا تھا، اور ان کے خاص الخاص معتقدین میں سے تھا،

عدالت میں تو بیان حلفی داخل کروایا تھا ، کہ میرا ممتاز قادری سے کوئی تعلق نہیں، اور اب مال بٹورنے کے لئے ان کے سب سے بڑے وارث یہی مفتی صاحب بنے ہوئے ہیں ، اور ممتاز قادری صاحب کی میت کے سرھانے بھی کھڑے ہیں۔
(سید بلال قطب)

1916168_978892175498155_5878057713279304848_n.jpg

 
قانونی موشگافیوں کے جادو اثر نتائج سے کون واقف نہیں! "الفاظ گستاخی کے زمرے میں آتے ہیں یا نہیں آتے" اس بات کو تو قانون کے مداری چٹکیوں میں مرضی کے مطابق ڈھال سکتے ہیں۔ ان مداریوں کو اشارہ ہڈی دینے والے کی طرف سے کیا جائے، تو پھر پاکستانی شہریوں کے قاتل کو اٹھا کر بحفاظت امریکہ پہنچانا بھی جائز ثابت کر سکتے ہیں۔
 
Top