جنگ کرنے کے معانی جانتے ہیں آپ ؟ زبانی جمع خرچ کو جنگ نہیں کہتے ، آپ کا دیا ہوا ریفرنس نا مناسب ہے ۔ البتہ طالبان کے لئے یہ آیت مناسب ہے جو ہٹھیار اٹھا کر قتل کرتے پھررہے ہیں۔
انصاف یہ ہے کہ جو ایک طرف درست وہی دوسری طرف درست۔ کیا آپ ہندوؤں کو اجازت دیں گے کہ وہ ان کے مذہب کے خلاف کچھ بھی کہنے والوں کو قتل کردیا کریں؟ صبح شام مسلمان رام کے پیروکاروں کو کافر کہتے ہیں۔ کیا یہ کہی سنی ہندوؤں کے لئے کافی ہے کہ وہ مسلمانوںکا قتل عام کردیں۔
جب آپ فیصلہ کیجئے تو اپنا خیال بھی رکھئے ۔۔۔ کہ یہی فیصلہ آپ کے خلاف استعمال نا ہو جائے ۔۔۔۔
ملاء ازم کا بنیادی اصول ہے " اختلاف کی سزا ، موت !" یہ سزا ملاء کو بھی مل کر ہی رہے گی ۔ چاہے اس کے لئے 1792 کی طرح سات سمندر پار سے انگریز آئے یا امریکی یا پھر پاکستانی افواج ۔۔۔
جنگ نہ سہی لیکن کیا ایک نبی کو گالی دینا "فساد فی الارض" کے زمرے میں بھی نہیں آتا؟ جبکہ تمام ائمہ اس بات پر متفق ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو گالی دینے (زبانی جمع خرچ کرنے) سے ذمی واجب القتل ہو جاتا ہے اور اس کا عہد ٹوٹ جاتا ہے تو غیر ذمی کافر پر تو بدرجہ اولیٰ اس سزا کا اطلاق ہو گا۔ اور آپ ﷺ کے دور میں خود آپﷺ نے اپنے خلاف زبانی جمع خرچ کرنے والے کئی لوگوں کے خون کو ھدر (رائیگاں) قرار دیا اور کئی ایک کو معاف بھی کیا اور یہ معاف کرنا صرف رسول اللہ ﷺ کا ذاتی حق تھا۔
آپ انصاف کی بات کرتے ہیں تو یہ کیسا انصاف ہے کہ ایک طرف تو ہولوکاسٹ کے خلاف "زبانی جمع خرچ" تو دور کی بات فیس بک کے کومنٹس پر پابندی ہو اور دوسری طرف نبی کو گالی دینا فریڈم آف سپیچ ہو؟
خان صاحب گزارش ہے کہ مسئلہ مجھے یا آپ کو مناسب لگنے یا نہ لگنے کا نہیں، گفتگو کا مقصد بحث برائے بحث نہ ہو۔ آیئے قرآن کے حکم کے مطابق اپنے باہمی اختلافات میں فیصل اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو بنا لیں اور دیکھیں کہ اس ضمن میں اللہ کا قرآن کیا کہتا ہے اور رسول ﷺ کی شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے؟ (میں صرف زبانی جمع خرچ والے نکتہ پر ہی فوکس کر رہا ہوں)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک منافق کا سر صرف اس لیے قلم کر دیا کہ اس نے یہودی کے حق میں آپ ﷺ کا فیصلہ تسلیم نہیں کیا بلکہ فیصلہ کی تصدیق کے لیے یہودی کو لے کر حضرت عمر کے پاس چلا گیا تھا۔ جب عمر رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا کہ اس مقدمے کا فیصلہ رسول اللہ ﷺ یہودی کے حق میں دے چکے ہیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر منافق کا سر قلم کر دیا کہ
"هكذا أقضي لمن لم يرض بقضاء الله ورسوله" (یہ میرا فیصلہ ہے اس شخص کے لیے جو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے پر راضی نہیں)۔ اور پھر حضرت عمر کے اس فیصلے کے حق میں سورۃ النساء کی یہ آیت نازل ہوئی "
فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم ثم لا يجدوا في أنفسهم حرجا مما قضيت ويسلموا تسليما" ((اے نبیﷺ) مجھے آپﷺ کا رب ہونے کی قسم ہے! یہ لوگ اس وقت تک مومن ہو ہی نہیں سکتے جب تک کہ اپنے باہمی جھگڑوں میں آپﷺ کے فیصلوں کو تسلیم نہ کرلیں اور پھر اپنے دلوں میں کوئی تنگی (اس فیصلے کے حوالے سے) محسوس نہ کریں اور سر تسلیم خم کر دیں)۔ چنانچہ اس شخص کا خون بھی ھدر قرار دے دیا گا۔
محترم آپ کو زبانی جمع خرچ پر اعتراض ہے اور یہاں دلوں میں تنگی بھی محسوس نہ کرنے کا حکم ہے اور یہی ہے ایمان کا تقاضا بھی۔۔۔اسی طرح دیگر کئی آیات اور متعدد احادیث موجود ہیں جو اللہ، اللہ کے رسولﷺ اور امہات المؤمنین الطیبات والطاہرات اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف "زبانی جمع خرچ" کو قابل گردن زنی جرم قرار دیتی ہیں۔
ملا ازم کے نقصانات اپنی جگہ۔۔۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اس معاملے میں شریعت کے احکام غلط ہیں۔ غلط تو وہ لوگ ہیں جو ذاتی یا مسلکی مقاصد کے فروغ کے لیے ان قوانین کو استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے تو بہرحال مشرکین کے خود ساختہ خداؤں کو بھی گالی دینے سے منع فرمایا ہے۔
ملا ازم کے متعلق میرا خیال تو یہی ہے کہ یہ لوگ دانستگی میں یا نا دانستگی میں "اغیار" کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں اور عملاً ایسے اقدامات کر رہے ہیں جن سے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ ان حالات میں ہم سب کو موسیٰ علیہ السلام کی اس دعا "ربنا لا تجعلنا فتنۃ للقوم الظالمین" کی اشد ضرورت ہے کہ کہیں ہم سے ایسے اعمال و اقوال سر زد نہ ہو جائیں جنکا فائدہ ظالموں کو ہو اور نقصان اہل ایمان کو۔۔۔[/QUOTE]