اسمیں کسکی ہتک یا توہین ہو رہی ہے؟ اگر نام نہاد عُلما، مسالک اور فرقے اسکی زد میں آرہے ہیں تو مجھے خوشی ہے کہ انکو یہ برداشت کرنا چاہئے
مذہبی نوعیت کے قوانین بنانے کا اختیار صرف اللہ کو ہے، انسان کو نہیں۔ اب یہ مولویانہ اور علمانہ ڈرامے بازی بند ہونی چاہئے۔ جس قانون کا کوئی فائدہ نہیں اور آج تک محض نقصان ہی ہوا ہے اسکو قائم رکھنے کا جواز کیا؟ اگر عمران نے اقتدار میں آکر اس گھٹیا قانون کو ختم نہ کیا تو آئندہ الیکشن میں اسکو تاریخی شکست ملے گی۔ جیسے بھٹو کو اقتدار ایک بار سے زائد ہضم نہیں ہوا ان انصاف سے عاری قوانین کی پشت پناہی کر کے، وہی انجام انشاءاللہ عمران کا ہو!
جناح اور اقبال کا اسبارہ میں کیا مؤقف تھا؟ انہوں نے تو آجتک فرقہ واریت کو ہوا نہیں دی۔ بلکہ انکا تو قادیانیوں، بہائیوں اور دیگر متنازع اسلامی فرقوں سے متعلق کوئی منفی رویہ نہیں تھا!
قادیانی تو مسلمان ہیں ہی نہیں تو وہ یہاں کہاں سے فٹ آگئے؟ جہاں تک آسیہ بی بی کا سوال ہے تو اسکو کہاں ریمنڈ ڈیوس اور عافیہ سے ملا رہے ہیں؟
یہودی قبیلے کا قتل عام بھی تو سنت نبوی ہی کا حصہ ہے۔ اسی کی پیروی کرتے ہوئے آج کے فلسطینی مسلمان اسرائیلی یہودیوں کو ڈراتے دھمکاتے رہتے ہیں
http://ur.wikipedia.org/wiki/غزوہ_بنی_قریظہ
شاید گورنر تھے۔ اب یاد نہیں۔
اسرائیلی قوم کا
ہاہاہا۔ آپنے طنز کرنے کی ڈگری کہاں سے حاصل کی؟
؟؟؟ یعنی مرد کی تعریف سزا سے قبل کی گئی تھی؟
مجھے حیرت ہے کہ آپ اس موضوع پر اس قسم کی مضحکہ خیز گفتگو کیوں کر رہی ہیں؟ اول ممالک کا کوئی مذہب و دین نہیں ہوتا۔ یہ ایک انتظامی یونٹ ہوتے ہیں جن میں مختلف ادیان کے لوگ بستے ہیں۔ براہ کرم عمران خان سے اس بارہ میں رجوع کریں یا یہاں مغرب میں آکر دیکھیں جہاں مذہب اور ریاست کا آپس میں کوئی رشتہ نہیں۔
دوئم یورپ میں ہالوکاسٹ ہر تنقید ناجائز نہیں ہے، البتہ تنقید کی آڑ میں ہالوکاسٹ کے دوران ہونے والی نسل کشی اور اسمیں نشانہ بننے والوں کا استہزاء کرنا، مذاق اڑانا وغیرہ قانوناً جرم ہے۔ اور یہ قانون پورے یورپ میں لاگو نہیں ہوتا۔ چنیدہ ممالک تک محدود ہے:
http://en.wikipedia.org/wiki/Laws_against_Holocaust_denial
یعنی زبان کی قوت جسمانی قوت سے بڑھ گئی؟ لاحول ولاقوۃ!
ایک تو مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ ہم آجکل کے مسائل کے حل کیلئے 1400 پرانے قصے کہانیاں لیکر کیوں بیٹھ جاتے ہیں؟
یعنی مغربی اسلام کے بارہ میں جو تنقید کرتے ہیں وہ بالکل درست ہے کہ یہ اسلام امن کا نہیں جنگ و ظلم کا مذہب ہے
متفق! مغرب میں 14 سال گزارنے کے بعد میں بھی عین اسی نتیجہ پر پہنچا ہوں۔ پاکستان میں رہتے ہوئے ہماری سوچ اتنی پست اور یکطرفہ ہوتی ہے کہ ہم مختلف زاویوں سے اپنے ہی مذہب و دین کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ یہاں مغرب میں آکر دماغ اور ذہن کھلنا شروع ہوتا ہے۔ عیسائیوں، یہودیوں، لبرل فاشسٹوں سے ملاقات کے بعد مسلمانوں کے بارہ میں حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ وہ آج کے دور میں اتنا پیچھے کیوں ہیں اور آئندہ کتنے ہزار سال تک ان میں بہتری کی کوئی گنجائش نہیں
کعب نے جو کچھ بھی کہا محض اپنی زبان سے کہا۔ جیسے دین اسلام آنحضور ﷺ کی زبان سے پھیلا ویسے ہی کعب کو بھی اسکے خلاف زبان کھولنے کا مکمل اختیار تھا۔ آپکو شاید معلوم نہیں لیکن مسلمانوں کی اسی دوغلی اور منافقانہ تاریخ کی وجہ سے مغربی لوگ اسلام کو پسند نہیں کرتے کہ مسلمان خود جس چیز کو اپنے لئے پسند کرتے ہیں اسی کو دوسروں پر حرام کر دیتے ہیں۔ حضرت محمد ﷺ نے پہلے زبان سے اور پھر فتح مکہ کے بعد ہاتھ سے کافرین کے بت توڑے۔ وہ ہمارے لئے ٹھیک ہے۔ اور اسکے جواب میں اگر کافرین محض اپنی زبان سے توہین رسول اللہ ﷺ کر دیں تو انکے خلاف قتل کے فتوے جاری ہو جاتے ہیں۔ یہ کیسی عجیب بے منطقی سی بات ہے؟ اگر مسلمانوں کو ہاتھ پاؤں زبان اللہ نے دی ہے تو کافروں کو بھی دی ہے۔ ہمارا کیا کام انکو اسلام یا رسولﷺ کے بارہ میں نازیبا الفاظ کہنے پر انکا سر قلم کرتے پھریں۔ اگر وہ زبان یا قلم کا استعمال کر رہے ہیں تو آپکو کسنے روکا اسی طریقے سے انکا جواب دینے سے؟ جسمانی قوت کا استعمال وہ کرتا ہے جو ذہنی و نفسیاتی قوت سے پست ہو اور زبان کا جواب زبان سے دینے کی بجائے تلوار لیکر اپنے مخالف پر چڑھ دوڑھے!