تو مرے دل مری تنہائی کا افسانہ بنا

الف عین

لائبریرین
. بھر کے اک لذّت آزار کا پیمانہ بنا
پھر مرے دل مری تنہائی کا افسانہ بنا
÷÷مطلع میری کم عقلی کے باعث سمجھ میں نہیں آیا۔

2. بجلیاں روز گریں، خاک ہو گلشن، لیکن
آشیاں تنکے جمع کر کے تو روزانہ بنا
÷÷درست، لیکن کی جگہ اگرچہ لا سکو تو مزید بہتر ہو۔

3. اس کی ہر بات نے یوں گھر کیا دل میں میرے
جیسے ہر لفظ سے اس دل میں ہو بت خانہ بنا
۔۔درست، لیکن ایسا کوئی قرینہ نہیں جس سے پتہ چلے کہ الفاظ بت کی صورت ہیں۔

4. میں اکیلا ہی چلا، جانبِ منزل، لیکن
یہ جو تم قافلہ.دیکھو، پئے رندانہ بنا
÷÷جیسے آسی بھائی نے کہا ہے ، یہ مشہور شعر مجروح سلطان پوری کا ہے۔ اس شعر میں بھی ئے رندانہ کے تعلق سے پہلے مصرع میں کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔ اس کو دو لخی ہی کہا جائے گا۔

5. سر پہ بس دھوپ کی چادر کو ہی تانے رہتے
اک جنوں اوڑھ کے نکلے تو یہ کاشانہ بنا
۔۔خیال اچھا ہے۔ لیکن ویسا ہی ایک مسئلہ ہے۔ جب جنوں اوڑھ کے نکلے ہوں گے تو باہر ہی تو نکلے ہوں گے!! سڑک یا ویرانہ یا صحرا کہیں بھی کاشانہ کس طرح بن سکتا ہے۔

6. وہ تو بروقت سنبھالا ترے غم نے، ورنہ
ایسی خوش فہمی تھی، لگتا تھا کہ دیوانہ بنا
÷÷واہ، میرے خیال میں اس میں بات مکمل ہے اور خوب ہے۔

7. قلزم ہستی میں یادوں کا جزیرہ کاشف
عمر بھر اس میں مشقت کی تو ویرانہ بنا

دوسرا مصرع سمجھ میں نہیں آیا۔ مشقت کاہے کی کی؟

المختصر۔۔ یہ غزل اپنی ردیف قافئے کی وجہ سے کامیاب نہیں رہی۔
 
بہت بہت نوازش استاد محترم۔۔
جزاک اللہ ۔۔۔
جیسا کہ آپ کا مشورہ ہے میں اس غزل سے ایک دو اشعار ہی قابل اعتنا سمجھونگا۔۔
اگر کچھ اشعار درست کر سکا تو ان شا اللہ اصلاح کے لئے ضرور پیش کرونگا ۔۔۔
بہت بہت شکریہ سر ۔۔۔
 
السلام علیکم
استاد محترم جناب الف عین سر
کافی عرصے بعد اس غزل میں کچھ نئے اشعار کہہ پایا ہوں۔
آپ سے اصلاح کی درخواست ہے۔ شاید اب کچھ بہتر شکل میں سامنے آئی ہو۔ کئی مصرع اور اشعار بالکل نئے ہیں یا اب ان کے مضمون مختلف ہیں۔
آپ کی توجّہ چاہونگا:
اشکِ ہجراں سے ذرا بھر کے تُو پیمانہ بنا !
پھر مرے دل، مری تنہائی کا افسانہ بنا !

وہ تو بر وقت سنبھالا ترے غم نے، ورنہ
ایسی خوش فہمی تھی، لگتا تھا کہ دیوانہ بنا !

بجلیاں روز گریں، ہمّتِ مرداں ہے یہی
آشیاں تنکے جمع کر کے تو روزانہ بنا !

سر پہ بس دھوپ کی چادر کو ہی تانے رہتے
اک جنوں اوڑھ کے نکلے تھے، تو کاشانہ بنا !

جس کے وعدوں نے ، بھروسے کو جِلا دی تھی مرے
اس کی بدعہدی سے ، یہ گھر مرا ویرانہ بنا !


تیرے احساس کے آذر نے، تراشا جب دل
سنگ سے نقش وہ نکلے، کہ یہ بت خانہ بنا !


قلزمِ ہستی میں یادوں کا جزیرہ کاشف
عمر سے آیا نہیں کوئی، تو ویرانہ بنا !

سیّد کاشف
جزاک اللہ
 

الف عین

لائبریرین
دو اشعار ان بھی اصلاح طلب ہیں، ایک تو میری توجہ سے نہیں گزرا۔

آشیاں تنکے جمع کر کے تو روزانہ بنا !
جمع کا تلفظ۔ درست جم ع ہے یعنی ع ساکن، ج مَع یا ’جما ‘ نہیں۔

دوسرے مقطع۔۔ قلزم بحر کا ہم معنی نہیں، محض چھوٹی سی water body کو کہتے ہیں، اس میں جزیرہ؟
 
بہت بہتر جناب۔ میرے ذہن میں یہ قلزم والا نکتہ نہیں تھا سر۔
میں دونوں اشعار درست کرتا ہوں۔ ان شا اللہ۔
اللہ آپ کو خوش رکھے !
جزاک اللہ
 
Top