السلام علیکم
استاد محترم جناب
الف عین سر
کافی عرصے بعد اس غزل میں کچھ نئے اشعار کہہ پایا ہوں۔
آپ سے اصلاح کی درخواست ہے۔ شاید اب کچھ بہتر شکل میں سامنے آئی ہو۔ کئی مصرع اور اشعار بالکل نئے ہیں یا اب ان کے مضمون مختلف ہیں۔
آپ کی توجّہ چاہونگا:
اشکِ ہجراں سے ذرا بھر کے تُو پیمانہ بنا !
پھر مرے دل، مری تنہائی کا افسانہ بنا !
وہ تو بر وقت سنبھالا ترے غم نے، ورنہ
ایسی خوش فہمی تھی، لگتا تھا کہ دیوانہ بنا !
بجلیاں روز گریں،
ہمّتِ مرداں ہے یہی
آشیاں تنکے جمع کر کے تو روزانہ بنا !
سر پہ بس دھوپ کی چادر کو ہی تانے رہتے
اک جنوں اوڑھ
کے نکلے تھے، تو کاشانہ بنا !
جس کے وعدوں نے ، بھروسے کو جِلا دی تھی مرے
اس کی بدعہدی سے ، یہ گھر مرا ویرانہ بنا !
تیرے احساس کے آذر نے، تراشا جب دل
سنگ سے نقش وہ نکلے، کہ یہ بت خانہ بنا !
قلزمِ ہستی میں یادوں
کا جزیرہ کاشف
عمر سے آیا نہیں کوئی، تو ویرانہ بنا !
سیّد کاشف
جزاک اللہ