فلک شیر

محفلین
گئے وقتوں کی بات ہے، بادشاہوں اور امراء کے سوانح ان کے درباری انشاءپرداز لکھا کرتے تھے ۔ عام آدمی کی سوانح چونکہ ہر ملک اور ہر خطے میں ایک جیسی ہوتی تھی، سو اس کو لکھنے کا تردد ہم جنس کیوں کرتے ۔ مسیحی سینٹ آگسٹائن اور اندلس میں آخری مسلم بادشاہ عبداللہ کے خود نوشت سوانح کو عالم مسیحیت اور اسلام میں بالترتیب آٹو بائیوگرافی کے میدان کی پہلی چیزیں تصور کیا جاتا ہے۔ شعراء اور ادیب حضرات چونکہ لفظوں کے کھلاڑی ہوتے ہیں ، اس لیے اپنی زندگی کے گرم و سرد کو قلمبند کرنے میں انہیں ایک گونہ سہولت ہوتی ہے ، ورنہ عام آدمی تو اس ضمن میں شاید ایک صفحہ لکھنے سے بھی قاصر ہو۔
میں اس دھاگے میں اردو محفل کے سینیر رکن، اردو اور پنجابی کے ممتاز شاعر ، ماہر عروض اور اپنے تجربات سے بہتوں کو سکھانے سمجھانے والے بزرگ جناب محمد یعقوب آسی صاحب کو دعوت دیتا ہوں، کہ محفل کو یہ شرف بخشیں کہ اپنی خود نوشت سوانح حیات یہا ں جستہ جستہ عطا فرمائیں ، تاکہ ادھر ادھر بکھری چیزیں ، باتیں، یادیں ، تذکار اور واقعات ایک جگہ اکٹھے ہو سکیں۔

نوٹ: تبصرہ کرنے کے لیے "تھا وہ اک یعقوب آسی۔۔تبصرہ جات" دھاگہ میسر ہے۔ اس دھاگے میں تبصرہ کرنے سے احتراز فرمائیے ، تاکہ لڑی مسلسل آسی صاحب کے مراسلہ جات پہ مشتمل ہو اور بعد میں اسے ای بک کی شکل دینے میں دشواری نہ ہو۔
 
آخری تدوین:
دل وچ بھانبڑ عشق دی لشک مچایا نیں
دھوں دا بدل اکھاں تیکر آیا نیں
یاراں میری قدر پچھانی کچھ بہتی
مینوں میرے قدوں اچا چایا نیں​
16 فروری 1999 ء​
 
خواب سے سانجھ تک
کچی اینٹوں اور گارے سے بنی چوڑی چوڑی دیواروں والے بغیر پھاٹک کے کھلے کھلے بڑے بڑے احاطے کے اندر چار چار پانچ پانچ گھروں کے کچے کوٹھے اور کچے صحن؛ گرد سے اٹی کھلی کھلی گلیاں اور سڑکیں، دور تک بکھرے درخت اور کھیت؛ اور ان سب کے اوپر لمحہ بہ لمحہ رنگ بدلتے آسمان کی چھت!! فضا پر بالعموم خاموشی کا راج ہوتا۔ یہ خاموشی منہ اندھیرے مرغے کی بانگ اور اللہ اکبر کے سرمدی نغمے سے ٹوٹتی تو کئی مکالموں کا آغاز ہو جاتا؛ بھینسوں، گائیوں اور بیلوں کے گلے میں بندھی گھنٹیوں کی کھنکھناہٹ اور بیل گاڑیوں کی کھڑکھڑاہٹ تو گلیوں سے نکل کر کھیتوں میں گم ہو جاتی۔ لیکن چڑیوں کی چہچہاہٹ اور ننھے بچوں کا شور صبح دم زندگی سے آشنائی کا اعلان کر دیتا۔ کچھ ہی دیر بعد سرمئی اور سفید دھوئیں کی لکیریں کچے گھروں کے صحنوں سے اٹھ کر فضا میں لہرئیے بناتیں اور تحلیل ہو جاتیں۔ سورج ذرا اوپر اٹھتا تو کتنی ہی الھڑ مٹیاریں ناشتے کی اشیاء سروں پر رکھے اپنے دوپٹوں کے لہرئیے بناتی اورسراپاؤں سے بجلیاں جگاتی مختلف پگڈنڈیوں سے ہوتی ہوئی کھیتوں میں گم ہو جاتیں۔ بڑے بوڑھوں کا تو پتہ نہیں، لڑکے بالے بجلی کی صرف ایک ہی صورت سے واقف تھے، جو بادلوں میں چمک جایا کرتی اور پھر کبھی کڑکڑاہٹ اور کبھی گڑگڑاہٹ سنائی دے جاتی۔ بارش سے گلی کوچوں کی دھول کیچڑ اور گاد میں بدل جاتی اورفضا شفاف ہو جاتی۔
مگھر پوہ کی ایسی ہی صبح تھی، صاف شفاف، بارش سے دھلی ہوئی! پہر بھر دن گزرنے پر بھی خنکی غالب تھی۔ ساٹھ پینسٹھ برس کا ایک دمکتے چہرے والا بوڑھا کھلے احاطے میں بچھی چارپائی پر نیم دراز تھا۔ سفید ململ کے صافے ڈھکے سر میں اس کے بالوں، ہلکی پھلکی داڑھی اور باریک تراشی ہوئی مونچھوں کی سفیدی بھی شامل ہو رہی تھی۔ پائنتی کی طرف بیٹھا بارہ تیرہ برس کا لڑکا آنکھوں میں صدیوں کے خواب سجائے بوڑھے باپ کے پاؤں داب رہا تھا۔ بوڑھے کا مہینوں کا بیمار جسم یک دم یوں لرز اٹھا جیسے بھونچال آ گیا ہو۔ وہ سیدھا ہو کر بیٹھ بھی نہ پایا تھا کہ اس کے منہ سے اوغ کی آواز نکلی اور کوئی سیر بھر لہو قے کی صورت میں کچھ اس کے سفید لباس پر، کچھ چارپائی پر اور کچھ زمین پر بکھر گیا۔ بچہ پریشان ہو کر اندر کو بھاگ گیا۔ ایک نحیف بڑھیااپنے کانپتے وجود کو سنبھالتی ہوئی آئی۔بوڑھے نے ہاتھ سے ’سب ٹھیک ہے‘ کا اشارہ دیا۔ بڑھیا نے لڑکے کے کان میں کچھ کہا اور وہ تیزی سے احاطے سے باہر نکل گیا۔ کچھ ہی دیر میں بڑھیا نے اپنے رفیقِ حیات کا منہ ہاتھ دھلا کر کپڑے تبدیل کرا دئے اوراندر چلی گئی۔ وہ دودھ سے بھرا پیالہ لے کر آئی تو بوڑھا اپنے زردی کھنڈے چہرے پر دنیا جہان کی آسائشیں سجائے آنکھیں بند کئے لیٹا ہوا تھا۔ ’یہ دودھ پی لے یعقوب کے ابا!‘ ... کوئی جواب نہ پا کر اُس نے بوڑھے کے بازو کو پکڑ کر ہلایا تو جیسے زمین ہل گئی۔ پہلے تو اس کے ہاتھ سے پیالہ گرا اور پھر وہ خود بھی چارپائی کے پاس ڈھے گئی ۔ کوئی ایک پہر دن باقی ہو گا جب بوڑھا منوں مٹی تلے جاچکا تھا، یعقوب کے سارے خوابوں سمیت!
یہ کہانی کی ابتدا ہے، صاحبو! کون جانے؟ یہی ناآسودہ خواب ہوں اور اظہار کو ترس رہے ہوں اور لفظ سے میرے تعلق کا سبب بنے ہوں۔ ایک تھا بادشاہ، اس کے سات بیٹے تھے ... ایک تھا بادشاہ، اس کی سات ملکائیں تھیں، ہر ایک سے ایک ایک لڑکی تھی ... ایسے جملوں سے شروع ہونے والی داستانیں بڑے بوڑھوں میں بہت مقبول تھیں۔ ہر داستان میں کبھی ایک اور کبھی زیادہ اخلاقی درس ہوتے۔ سردیوں کی طویل اورگرمیوں کی مختصر راتوں میں کسی زمیندار کے ڈیرے پر محفل جمتی۔ ایک شخص داستان شروع کرتا: ایک تھا فقیر، وہ بستی سے دور جنگل میں ایک کٹیا میں رہتا تھا ..... اور پھر رات گزر جاتی داستان جاری ہوتی۔ اگلی رات جہاں پر بات رکی تھی، وہاں سے آگے چلتی اور یوں کئی ہفتوں بعد اپنے اختتام کو پہنچ جاتی۔ میں کہانی کی ایسی محفلوں میں بڑے شوق سے بیٹھا کرتا اور ہر کہانی کو اس قدر توجہ سے سنتا جیسے وہ میرا سکول کا سبق رہا ہو۔
والدہ مرحومہ رسمی تعلیم کے لحاظ سے تو اَن پڑھ تھیں تاہم قرآن مجیدکے علاوہ چیدہ چیدہ دینی کتابیں جو عموماً پنجابی شاعری تھی خواتین کی محفلوں میں پڑھا کرتی تھیں۔ میں پہلے پہل تو والدہ کے پاس بیٹھ کر انہیں سنا کرتا اور کرتے کرتے ان کتابوں کو روانی سے پڑھنے لگا۔ لفظ کے ساتھ میرا تعلق شاید اُن داستانوں کی بدولت قائم ہوا اور شعر کا چسکا اُن دینی کتابوں کی برکت سے پڑا۔ مجھے شعر کو درست پڑھناآ گیا تھا۔ سو میرے مہربان استاد نے مجھے سکول کی بزم ادب میں شامل کر لیا۔ پھر تو ہر جمعے کو بزمِ ادب کے اجلاس کی نظامت مجھے کرنا پڑتی اور ہیڈماسٹر صاحب صدرِ بزم ہوتے۔ یہ سلسلہ ہائی سکول سے میری فراغت تک جاری رہا۔ ۱۹۶۷ء میں جب میں دسویں جماعت میں تھا، لفظ اور مصرعے سیدھے کرنے کی کوشش کرنے لگا تھا۔ مگر غم روزگار غالب آ گیا اور میری تخلیقی صلاحیتیں کم عمری کی ملازمت میں پسنے لگیں۔​


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ : ’’لفظ کھو جائیں گے‘‘ (اردو غزلیات) کے دیباچے سے اقتباس
 
بات چلی کہاں سے تھی بھلا ۔۔۔
کہ آپ نے زندگی میں کبھی اپنے مفادات کو چھوڑ کر سچائی کو اپنانے کی جرات کی؟

(۱)​

میں نے الحمد للہ چھ بچوں کی شادیاں کیں۔ تین بیٹے، تین بیٹیاں۔ اور جہیز نہ لیا نہ دیا۔
ایک فریق سے (جس کی طرف سے جہیز کے مطالبے کا امکان تھا) میں نے بیٹی کا رشتہ طے کرنے سے پہلے کہہ دیا تھا کہ ’’بہن! اگر میری بیٹی کو دل سے اپنی بیٹی بنانا چاہتی ہیں تو جب جی چاہے دو چار دس مہمان لے کر آ جائیں اور بیٹی کو لے جائیں ۔ اور اگر دیگچیاں اور رضائیاں اور کرسیاں اور صوفے اور فرج اولیت رکھتے ہیں تو کوئی ایسا گھرانہ ابھی دیکھ لیجئے۔‘‘ وہ چیں بہ جبیں تو ہوئیں تاہم انہوں نے اپنا مطالبہ ترک کر دیا۔
ایک بیٹے کے (اس وقت ہونے والے) سسر نے مجھ سے کہا: ’’میں فرنیچر کا آرڈر دینے والا ہوں، آپ یہ بتائیے کہ فرنیچر براہ راست آپ کے ہاں پہنچا دیا جائے؟‘‘ میں نے کہا: ’’نہیں صاحب۔ اپنی دولت یوں ایک بچی کو نہ دے دیجئے جس پر آپ کی چاروں بچیوں اور بیٹے کا حق مقرر ہے‘‘۔ انہی دنوں میرے بیٹے کا فون آ گیا کہ ابو جی مجھے خبر ملی ہے وہ لوگ جہیز وغیرہ تیار کر رہے ہیں، ان کو منع کر دیں‘‘۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ نکاح کے بعد بھی سمدھی صاحب بضد تھے کہ میں تو سامان بنواؤں گا۔ پڑھے لکھے صاحب تھے (اللہ مغفرت فرمائے) سمجھانے پر سمجھ گئے اور اپنا ارادہ ترک کر دیا۔
ایک بیٹی کا رشتہ برادری سے باہر ہوا۔ دو طرفہ رضامندی کا اظہار ہو چکا تھا۔ دعائے خیر کے دن وہ لوگ میرے مہمان ہوئے۔ لڑکے کے بڑے بھائی (ایم اے اسلامیات اور پیشہ تدریس) مجھے کہنے لگے: چاچو جہیز کے بارے میں کچھ؟ میں نے کہا: مجھے یہ فرمائیے کہ شریعت کیا کہتی ہے؟ بولے: شریعت میں تو کوئی جہیز نہیں ہوتا۔ میں نے کہا: اللہ آپ کا بھلا کرے، ہم نیا کام کیوں کریں!۔

اہم بات جو یہاں بتانے کی ہے کہ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے، بچیاں بچے اولادوں والے ہو گئے۔ ایک نواسی تو انیس برس کی ہو گئیں۔ کسی بھی طرف سے کبھی کسی بھی سطح پر یہ مسئلہ نہیں اٹھایا گیا۔ اور نہ اس بنا پر کوئی گھریلو ناجاقی یا طعن و تشنیع ہوئی ہے۔

ایک اور اہم تر بات ۔۔ میرے اسی بیٹے کی سالی کے نکاح کی بات بعد میں چلی۔ لڑکے نے پہلے کہہ دیا کہ جہیز کو اس معاملے سے نکال باہر کیا جائے۔ وہ میاں بیوی بھی ماشا اللہ خوش ہیں۔ انہیں پچھلے دنوں اللہ تعالیٰ نے چاند سا بیٹا عطا کیا ہے۔ اللہ کریم برکات سے نوازے۔ میں اس لڑکے سے ملا تو پوچھا: میاں آپ کو جہیز سے انکار کی کیا سوجھی؟ بولا: وہی سوجھی انکل، جو آپ کو اور بھائی کو سوجھی تھی (’’بھائی‘‘ سے مراد پیرا بیٹا تھا)۔

بعد میں اپنے ہی محلے میں ایک لڑکے کی ماں نے جہیز لینے سے انکار کر دیا اور لڑکی والوں کو پہلے بتا دیا کہ جہیز تیار نہ کریں۔

اللہ کریم ہم سب کے لئے آسانیاں پیدا فرمائے۔ کچھ ہلنا جلنا تو کرنا پڑتا ہے، باتیں بھی سننی پڑتی ہیں۔
 
بات چلی کہاں سے تھی بھلا ۔۔۔
کہ آپ نے زندگی میں کبھی اپنے مفادات کو چھوڑ کر سچائی کو اپنانے کی جرات کی؟

(۲)
میرے ایک بیٹے کی شادی اپنے ماموں کے گھر میں ہوئی۔ بات پکی ہو گئی اس سے پہلے انہیں بتا دیا تھا کہ رخصتی ایک مہینے کے اندر اندر کرنی ہو گی، اور اس جلدی کی وجوہات بھی تفصیلا زیرِ بحث آئیں۔ بچے کے ماموں (مجھ سے چھوٹے ہیں) کہنے لگے: بھائی جان! میں اتنی جلدی کیسے کر سکتا ہوں، جہیز اور کھانا اور تیاریاں اور ۔۔۔ میں نے ٹوک دیا: یار کیا کہہ رہے ہو؟ یہ جہیز کس بیماری کا نام ہے؟ اور رہا کھانا تو بھائی میرا آپ کا طے ہوتا ہے کہ جو لوگ بارات کے ساتھ ہوں گے ان کا کھانا میرے ذمے، انتظام تم کرو گے، میرے حصے کا خرچ مجھ سے تب لے لو یا ابھی لے لو۔ پھر اپنی گھر والی کے اشارے پر میں نے ’’اپنے‘‘ مہمانوں کے کھانے کا اندازاً خرچ دے دیا۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ طے شدہ دن پر ہم لوگ گئے، نکاح ہوا اور بیٹی (بہو) کو ساتھ لے کر آ گئے۔
 
بات چلی کہاں سے تھی بھلا ۔۔۔
کہ آپ نے زندگی میں کبھی اپنے مفادات کو چھوڑ کر سچائی کو اپنانے کی جرات کی؟

(۳)​

ہمارے پرانے جاننے والے ایک صاحب ہیں یہاں فرنیچر کا کام کرتے ہیں۔ پہلے بیٹے کی شادی پر اُن صاحب کو بلوایا گیا کہ بھائی، کمرہ دیکھ لو، اس میں پلنگ، سائڈ ٹیبلز، الماری وغیرہ کیسے کیسے سیٹ ہو گی، اور پھر بھاؤ تاؤ اور فرنیچر کا آرڈر دے دیا۔ دوسرے بیٹے کی شادی پر بھی اسی طرح ہوا، اور تیسرے کی شادی پر بھی۔
میری ملاقات ان سے تیسرے بیٹے کی شادی سے کچھ دن پہلے ہوئی، باقی معاملات لڑکوں نے خود ہی سنبھالے ہوئے تھے۔ جناب وُڈ ورکر مجھے کہنے لگے: بھائی جان یہ آپ کے ہاں دیکھا ہے صرف، کہ بہو کے کمرے میں فرنیچر وغیرہ آپ مہیا کر رہے ہیں، وہ تو لڑکی والوں کی طرف سے ہوتا ہے۔ ان کو میں نے مطمئن کر دیا۔
کہنے لگے دراصل پریشانی میرے سامنے ہے۔ میری بیٹی کی شادی ہے اور مجھے اس کے لئے جہیز بنانا ہے۔ محنت کش آدمی ہوں مشکل مرحلہ آن پڑا ہے، آگے اس سے چھوٹی دو بیٹیاں ہیں۔ آپ نے تو کمال کر دیا، لڑکی والوں کا بوجھ ہلکا کر دیا۔ اس بار کا تو طے ہو چکا، دعا کیجئے مجھے کوئی آپ لوگوں جیسا سمدھانہ مل جائے۔
 
بات چلی کہاں سے تھی بھلا ۔۔۔
کہ آپ نے زندگی میں کبھی اپنے مفادات کو چھوڑ کر سچائی کو اپنانے کی جرات کی؟

(۳)​

بارے ایسا ہوا کہ مجھے کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی تھی سوائے قرض لینے کے۔ میری تنخواہ بینک میں جاتی تھی، میں مینیجر صاحب کے پاس چلا گیا کہ مجھے اتنا قرض لینا ہے۔ کہنے لگے آپ بیس تنخواہوں کے برابر قرض لے سکتے ہیں جو آپ کو پچاس مہینوں میں مع سود ادا کرنا ہو گا۔ حساب وغیرہ کیا تو اندازہ ہوا کہ سو کے ایک اسی دینے ہوں گے۔ میری مجبوری تھی، تاہم دل مان نہیں رہا تھا کہ سود پر قرضہ لوں۔ مینجر صاحب نے شاید میری کیفیت بھانپ لی، کہنے لگے: اپنے پیشہ ورانہ فرائض کے خلاف بات کرنے لگا ہوں۔ آپ یہاں سے کیا کسی بھی بینک سے قرضہ نہ لیجئے۔ ایک بار پھر اپنے دوستوں کو ٹٹول لیجئے کوئی نہ کوئی سبیل نکل ائے گی۔ میں گھر چلا آیا، بیوی کو بتایا کہ بھئی مینجر صاحب یہ کہہ رہے تھے۔ دو چار دن کی بھاگ دوڑ کے بعد ایک ساتھی سے سال بھر کے وعدے پر ادھار مل گیا۔ ادھار بندہ جیسے تیسے چکا ہی دیتا ہے۔ سو چکا دیا۔ اللہ کا کرم ہوا، اس نے بچا لیا۔ وہ مسبب الاسباب ہے۔
 
بات چلی کہاں سے تھی بھلا ۔۔۔
کہ آپ نے زندگی میں کبھی اپنے مفادات کو چھوڑ کر سچائی کو اپنانے کی جرات کی؟

(۴)​

حاصل یہ ہے کہ جو اچھائی کی طرف جانے میں مخلص ہو اللہ کریم اس پر ادھر آسانیاں فراہم کر دیتے ہیں اور جو برائی پر مائل ہو اللہ کریم اس پر ادھر آسانی فراہم کر دیتے ہیں۔ بات صبر کرنے کی بھی ہے۔ میری بیوی اللہ کریم اس کی قبر کو نور سے بھر دے، بہت اچھی تھی، اس نے ہر خشک و تر میں میرا ساتھ نبھانے کا حق ادا کر دیا۔ اور اس مشقت میں چالیس برس تک میرے ساتھ چلتے چلتے تھک کے گر پڑی۔ اس نے اپنا کام پورا کر لیا ہو گا، اس کی چھٹی ہو گئی، اب کچھ کام مجھے نمٹانے ہوں گے، واللہ اعلم۔ اللہ اس کی مغفرت کرے۔
 
بات چلی کہاں سے تھی بھلا ۔۔۔
کہ آپ نے زندگی میں کبھی اپنے مفادات کو چھوڑ کر سچائی کو اپنانے کی جرات کی؟

(۵)​


میرے موجودہ حالت الحمد للہ بہت بہتر ہیں۔ ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہا ہوں۔ پنشن بھی معقول ہے۔ بچے اپنا اپنا کما رہے ہیں اور میرے بھی نخرے برداشت کر رہے ہیں، اللہ کریم ان کو خوشیاں دے۔ ملازمت میں میری سب سے بڑی کمائی عزت و احترام ہے الحمد للہ۔ رزق کا معاملہ ایسا ہے کہ جو لکھ دیا گیا ہے وہ ملے گا، بہر صورت ملے گا اور وہی ملے گا۔ انسان کی جواب دہی کا مغز یہ ہے کہ جس شے کا ملنا مقدر کر دیا گیا تھا، انسان نے اس کے لئے طریقہ کون سا اپنایا؟ غلط یا درست۔ بات اتنی سی ہے، بس!۔ جو مل گیا ہے اس کو سدا رہنا تو نہیں، خرچ ہونا ہے ۔ میرا منصب صرف یہ ہے کہ میں نے اس کو خرچ کیسے کیا؟!!
 
بات چلی کہاں سے تھی بھلا ۔۔۔
کہ آپ نے زندگی میں کبھی اپنے مفادات کو چھوڑ کر سچائی کو اپنانے کی جرات کی؟

(۶)​


میرا تعلق اصلآ اس طبقے سے ہے جس میں بچپن کے بعد بڑھایا آتا ہے۔ اور اس میں کوئی مبالغہ نہیں۔
میں اپنے والدین آخری اولاد ہوں، سب سے چھوٹا اور لاڈلا۔ مگر مجھ پر جیسی کڑی گزری شاید میرے سارے بہن بھائیوں پر نہیں گزری ہو گی۔ ابا اپنے ایک قریبی رشتے دار کی سات یا نو ایکڑ زمین بٹائی پر کاشت کرتے تھے۔ جیب چھوٹی مگر دل بڑا پایا تھا۔ ’’گھر چل رہا ہے، بس ٹھیک ہے، بندہ خود کو گرنے کیوں دے!‘‘ ان کی زندگی کا فلسفہ ہی یہ تھا۔ میں نے غریبوں والے ٹاٹ سکول میں پرائمری کا امتحان پاس کیا۔ اور پھر خستہ چوبی بنچوں والے ایک سکول سے دسویں کا امتحان دیا۔ سکول کے آدھے بچے بنچوں پر بیٹھتے تھے اور آدھے ٹاہلی اور کیکر کی گھنی چھاؤں میں کھلی زمین پر یا پھر سردیوں کی دلربا دھوپ کا مزہ شور زدہ گراؤند میں بیٹھ کر لیتے اور ساتھ ساتھ پڑھائی بھی چلتی رہتی۔ گاؤں سے سکول تک یہی کوئی پانچ کلومیٹر کا فاصلہ ہو گا۔ روزانہ پیدل آنے جانے سے اس کے ایسے عادی ہوئے کہ وہ فاصلہ فاصلہ لگتا ہی نہیں تھا۔
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں​
 
بات چلی کہاں سے تھی بھلا ۔۔۔
کہ آپ نے زندگی میں کبھی اپنے مفادات کو چھوڑ کر سچائی کو اپنانے کی جرات کی؟

(۷)

میں ساتویں میں تھا کہ ابا کا بلاوا آ گیا۔ اس کا احوال ’’لفظ کھو جائیں گے‘‘ کے دیباچے میں پیش کر چکا ہوں۔ ماں نے لوگوں کا سوت کات کر یا جیسے بھی بن پڑا میرا دسوین جماعت تک کا خرچہ اٹھایا۔ میں خود بھی چھٹی کے دن یا گرمیوں کی چھٹیوں میں گاؤں میں کوئی مزدوری مل جاتی تو کر لیتا۔ ایک آدھی کتاب کی قیمت نکل آتی تھی۔ میرے میٹرک کے امتحانات ہو گئے تو ماں نے کہہ دیا: ’’بیٹا بس! میں تھک گئی ہوں، اب تیری باری ہے۔‘‘ تب میری عمر ساڑھے پندرہ سال تھی۔

جواب نمبر ۳ ۔۔۔۔۔ ’’خواب سے سانجھ تک‘‘​
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے میٹرک کے امتحانات ہو گئے تو ماں نے کہہ دیا: ’’بیٹا بس! میں تھک گئی ہوں، اب تیری باری ہے۔‘‘ تب میری عمر ساڑھے پندرہ سال تھی۔
میرے بڑے بھائی ابا کی زندگی میں ہی سکول چھوڑ چھاڑ کر فوج میں سپاہی بھرتی ہو گئے تھے۔ میرے رشتے کے بھائی جلو موڑ (لاہور) ہوتے تھے، محکمہ نہر میں بہت چھوٹے درجے کے ملازم تھے۔ انہوں نے اپنے کسی افسر کو کہہ کہلوا کر مجھے وہاں ایک ’’ورک چارج‘‘ یعنی دیہاڑی دارا پروگرام میں نوکری دلا دی۔ یہ 1968 کی بات ہے۔ وہاں مجھے ایک ایسے دفتر میں کام کرنا تھا جس کا کل عملہ میں خود تھا۔

مقام، ماحول، کام کی نوعیت؛ ایسی تفصیلات عام طور پر غیر اہم ہوا کرتی ہیں۔ تاہم ان کو نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا، سو بہت ضروری باتیں مختصر مختصر بیان ہو جانے میں ہرج بھی کوئی نہیں۔ ہم یہاں سے آگے چلیں گے۔
 
۔۔۔ یہ 1968 کی بات ہے۔ وہاں مجھے ایک ایسے دفتر میں کام کرنا تھا جس کا کل عملہ میں خود تھا۔
بی آر بی نہر : یہ وہی نہر ہے جس کو 1965 میں ’’غازی نہر‘‘ کا ’’خطاب‘‘ دیا گیا تھا۔ اس کا پورا نام ہے بی آر بی ڈی (بمباں والا، راوی، بیدیاں، دیپال پور) لنک کینال ۔ یہ ہیڈ بمباں والا (دریائے چناب) سے پانی لیتی ہے، دریائے راوی کے نیچے سے گزرتی ہے اور بیدیاں سے ہوتی ہوئی دیپال پور کے قریب دریائے ستلج میں گر جاتی ہے۔ راستے میں متعدد مقامات پر زرعی اور شہری مقاصد کے لئے پانی مہیا کرتی ہے۔ اہلِ لاہور شالامار نہر سے بخوبی واقف ہیں جو شالامار باغ تک آب رسانی کرتی ہے۔ دوسری اور اس سے بڑی نہر لاہور برانچ ہے۔ یہ لاہور شہر کے پار ٹھوکر نیازبیگ تک جاتی ہے جہاں سے چھوٹے کھالوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ یہ دونوں نہریں جلو موڑ کے قریب اسی غازی نہر سے نکلتی ہیں۔ اس کے علاوہ بی آر بی نہر ایک بہت بڑا اور طویل دفاعی مورچہ بھی ہے۔
مختلف متعینہ مقامات پر پانی کے بہاؤ اور مقدار کی پیمائش کی جاتی ہے ۔ کسی ایک پوائنٹ پر نہر میں بہتے ہوئے پانی کی مقدار کو محکمہ جاتی زبان میں ’’ڈسچارج‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کا پیمانہ ’’کیوسک‘‘ ہے یعنی ’’مکعب فٹ فی سیکند‘‘۔
 
جن برسوں میں وہاں کام کرتا تھا، نہر کے کنارے کنارے ایسے تمام پوائنٹ پرانی طرز کی ٹیلیفون لائن کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک تھے۔ پرانے زمانے کے پیٹری والے سیٹ تھے جن میں ایک ہینڈل سے ڈائنمو کو گھمایا جاتا تو ساری لائن پر موجود ٹیلیفون بج اٹھتے۔ میں نے اگر مثال کے طور پر ’’بیدیاں‘‘ سے بات کرنی ہے تو میں کہتا ’’ہیلو بیدیاں‘‘ اور جواب ملتا: ’’ہاں جی، یہ بیدیاں ہے اللہ دتا بول رہا ہوں‘‘۔ باقی لوگوں کی مرضی پر منحصر تھا کہ وہ اپنے ٹیلیفون بند کر دیتے ہیں یا لائن پر رہتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ اس کی ہر کال کانفرنس کال ہو سکتی تھی کہ جتنے لوگ لائن پر ہیں، اگر ان کی بیٹریاں ٹھیک ہیں تو وہ سب بات چیت میں شریک ہو سکتے تھے۔ یوں کبھی کبھار ’’ٹیلیفونی بپرھیا‘‘ بھی منعقد ہو جاتی۔ نمبر ڈائل کرنے والا فون پوری لائن پر صرف میرے پاس تھا۔ یوں میری بڑی ذمہ داری کچھ یوں تھی:
۔1۔ ہر تین گھنٹے بعد سارے گیج پوائنٹس سے ڈسچارج روپورٹیں لینا، اور ان کا باقاعدہ ریکارڈ رکھنا۔
۔2۔ رپورٹوں کا تجزیہ کرنا کہ کہیں کسی بھی غیر معمولی کمی بیشی یا بہاؤ میں رکاوٹ کو نوٹ کرنا (ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا تھا)۔
۔3۔ دن میں تین بار ان رپورٹوں کی سمری بنا کر ڈویژنل آفس میں متعین فرد کو ٹیلیفون پر بول بول کر لکھوانا ۔
۔4۔ روزانہ ڈویژنل آفس (برڈ وُڈ روڈ) اور کینال ٹیلیگراف آفس (دھرم پورہ) جانے والے ڈاک رنر کو گزشتہ کل کی ساری رپورٹیں اور سمریاں لفافوں میں بند کر کے دینا۔

رسمی طور پر میرے انچارج ایک اوورسیئر صاحب تھے جن کو میری ذمہ داری سے عملاََ کوئی علاقہ نہیں تھا۔ ایس ڈی او صاحب کا دفتر میرے قریب تھا وہ آتے جاتے میرا ریکارڈ کبھی دیکھ لیتے تھے۔ میں اپنے کام میں اصلاََ ایکس ای این صاحب کو جواب دہ تھا۔ اور وہ جب ضرورت محسوس کرتے ٹیلیفون پر ہی پوچھ تاچھ لیتے۔ روزانہ کی رپورٹوں اور سمریوں میں شاید ہی کبھی کوئی تشنگی رہی ہو۔
 
آخری تدوین:
میری یہ اولین ملازمت تھی جس نے مجھے نوعمری ہی سے ذمہ دارانہ رویہ اپنانے کی عادت بخشی (مشکلات، سختیاں وغیرہ اپنے مقام پر بدستور)۔ دوسری بڑی چیز جو مجھے یہاں سے حاصل ہوئی وہ ہے خود اعتمادی، کہ مجھے کام کرنا بھی خود تھا، اور اس کی تکمیل پڑتال وغیرہ کو دیکھنا بھی خود ہی تھا۔ اپنے برابر کے اور اپنے سے کہیں ’’بڑے‘‘ لوگوں کے ساتھ روزانہ کے معاملات نے مجھے بات کرنے کا سلیقہ بھی سکھا دیا۔ نقصان البتہ یہ ہوا کہ میرے متعدد حاسدین پیدا ہو گئے۔ تاہم جہاں حاسدین اپنا رنگ دکھاتے رہے وہیں میرے کچھ مخلص دوست اور ہمدرد بھی اپنا رنگ جماتے رہے۔
 
دو برس سے کچھ اوپر کسی قدر سکون سے گزر گئے۔ ہر مہینے کبھی آدھی تنخواہ اور کبھی کم زیادہ اماں کو بھیج دیتا یا خود جا کے مل بھی آتا، پیسے بھی دے آتا۔ ہمارے دیہات میں ایک پوسٹ مین تے راؤ صاحب ایک ٹانگ سے لنگڑا کر چلا کرتے تھے مگر گاؤں گاؤں جا کر ایک ایک مکتوب الیہ سے خود مل کر چٹھیاں پہنچایا کرتے۔ راؤ صاحب کو میں اپنے طالب علمی (سکول) کے زمانے سے جانتا تھا، ان کی محنت اور کام کے ساتھ وابستگی کی لوگ مثال دیا کرتے تھے۔
ایک مہینے مجھے اماں کا پیغام ملا کہ پیسے نہیں پہنچے، جب کہ مجھے پاس منی آرڈر کی واپسی رسید مل چکی تھی۔ مقامی ڈاک خانے میں بات کی تو پتہ چلا مجھے تحریری شکایت پی ایم جی کو کرنی ہو گی۔ اور یہ بھی پتہ چلا کہ ڈاک خانے کے دفاتر کے نام (غیر شخصی) خط لکھنا ہو تو ڈاک ٹکٹ نہیں لگانے ہوتے۔ میں نے پی ایم جی صاحب کو اپنی شکایت اور واپسی رسید کی فوٹو کاپی ارسال کر دی اور اماں کو لکھ دیا کہ فی الحال اڑوس پڑوس سے کچھ پیسے ادھار لے کر کام چلائیں۔ دو تین ماہ گزر گئے مجھے اپنی درخواست کا کوئی ردِ عمل نہیں ملا۔ میں سوچ رہا تھا کہ وہ پیسے یا تو گئے یا پھر ان کے پیچھے اتنا بھاگنا پڑے گا کہ اس سے زیادہ خرچ ہو جائیں گے۔ ایک دن مجھے ڈاک سے ایک خاصا ’’صحت مند‘‘ پلندہ ملا، جس میں میری درخواست اور اس پر ہونے والی کارگزاری کی تفصیل تھی۔ خلاصہ کچھ یوں ہے:
راؤ صاحب کی ٹرانسفر کسی دوسرے علاقے میں ہو گئی اور ان کی جگہ ایک دوسرا پوسٹ میں آ گیا۔ اس نے ایک دو ماہ تک جائزہ لیا اور شاید ٹیسٹ کیس میرا ہی بنایا۔ اماں انگوٹھا لگاتی تھیں۔ ڈاکئے نے انگوٹھا اپنے گھر سے کسی کا لگوا لیا ہو گا، گواہ کے جعلی دستخط کئے اور پیسے جیب میں فارم ڈاک خانے میں۔ واضح رہے کہ تب تک قومی شناختی کارڈ کا کوئی تصور نہیں تھا، محکمانہ شناختی کارڈ البتہ ہوتے تھے۔ میری درخواست پر کارروائی ہوئی تو ڈاکئے کی چوری پکڑی گئی۔ اس کو تو اپنی ملازمت کی پڑ گئی، تاہم اسے معافی نامے کی شرط پر موقع دیا گیا کہ غبن کے پیسے اماں کو ادا کر دے۔ اس نے پیسے واپس کر دئے، اور گاؤں کے نمبردار اور ایک دو معتبرین سے کہہ کہلوا کر اماں سے معافی نامہ لکھوا لیا۔ تاہم اُس کا علاقہ بدل دیا گیا اور راؤ صاحب پھر ہمارے دیہات میں تعینات ہو گئے۔

رقم کتنی تھی؟ یہی کوئی پچیس یا تیس روپے رہی ہو گی کہ میر کل تنخواہ پینسٹھ روپے ماہوار تھی۔ یہ 1971 سے پہلے کی بات ہے۔
 
ڈویژنل آفس میں میرا ہم مرتبہ ایک لڑکا تھا، طاہر محمود۔ ٹیلیفون پر اسی سے بات ہوا کرتی، سو، باہم بے تکلفی پیدا ہو گئی۔ ایک دن اس نے بتایا کہ ایک اوورسیئر کے خلاف ایک گمنام درخواست پہنچی ہے، جس میں خاصے بڑے الزامات لگائے گئے ہیں۔ از راہِ تجسس اس سے درخواست کی نقل منگوا لی، پڑھی پھاڑ کے پھینک دی۔ ادھر اوورسیئر صاحب کی جواب طلبی ہوئی تو اُن کا سارا زور اس بات پر تھا کہ درخواست گزار کا پتہ لگایا جائے۔ عجیب تماشا بن گیا، ایک ایک کو بلا کر کہا جا رہا ہے کہ قرآن شریف پر قسم دو کہ نہ میں نے درخواست دی ہے، نہ مجھے پتہ ہے کہ اس میں کیا لکھا ہے۔
ظاہر ہے میری باری بھی آ گئی۔ میں نے کہہ دیا کہ آدھی بات کی قسم دوں گا! یہ کہ میں نے درخواست نہیں دی۔ رہی دوسری آدھی بات کہ درخواست میں کیا لکھا ہے؛ وہ میرے علم میں ہے لہٰذا اس سے انکار نہیں کر سکتا۔ دوسروں کے لئے خاصی دل چسپ صورتِ حال رہی ہو گی اور یہ سوال اپنی جگہ اہم رہا ہو گا کہ جناب محمد یعقوب کو درخواست کے مندرجات کیں کر معلوم ہیں۔ میں کسی بھی صورت میں طاہر محمود کا نام نہیں لے سکتا تھا کہ اس نے مجھے فوٹوکاپی بھیجی ہے۔ میں اپنے دوست کے اعتماد کو اتنی بڑی ٹھیس کیسے پہنچا دوں۔ درخواست کے مندرجات میں ایسی اطلاعات بھی تھیں جو اوورسیئر صاحب کا کوئی بہت قریبی یا راز دان ہی جان سکتا تھا۔
آخر کار مجھے کہا گیا کہ یا تو مان جاؤ کہ درخواست تم نے دی ہے۔ یا اس شخص کا نام بتاؤ جس نے تمہیں وہ ساری باتیں بتائیں جو درخواست میں شامل ہیں یا پھر ملازمت سے مستعفی ہو جاؤ نہیں تو ہم تمہاری چھٹی کرا دیں گے۔ میں نے استعفیٰ دیا، دیہاڑیوں کے بقیہ پیسے لئے اور اماں کے پاس پہنچ گیا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ بعد میں مجھے تجربے کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت پڑی۔ میری تحریری درخواست پر چاری کئے جانے والے سرٹیفکیٹ پر جاری کنندہ کے دستخط انہیں اوورسیئر صاحب کے ہیں اور توثیق کے دستخط اس وقت کے ایس ڈی او صاحب کے ہیں۔ سرٹیفکیٹ کے مندرجات میں یہ بات شامل ہے کہ ملازم مذکور اچھے چال چلن کا حامل اور دیانت دار شخص پایا گیا ۔
 
اسکول کے زمانے کا ایک واقع سنتے چلئے

ابا فوت ہوئے تو اُن پر اس وقت تقریباََ سترہ سو روپے قرضہ تھا، تب مزدور کی دیہاڑی دو روپے ہوتی تھی۔ آج مزدور چار سو پانچ سو روپے سے کم پر نہیں ملتا۔ تب کا سترہ سو آج کا تقریباََ ڈیڑھ لاکھ بنتا ہے۔ اماں نے مال مویشی بیچ کر وہ سترہ سو چکا دئے کسی سے نہیں کہا کہ مجھے تو خود دو روٹی کی فکر پڑی ہے۔ جو کچھ بچا اس کو خرچ کیا اور مجھے سے بڑے بھائی اور بہن کی شادیاں کر دیں۔ اب میں تھا، اور اماں تھیں اور اللہ تو ہر ایک کے ساتھ ہوتا ہی ہوتا ہے۔
میں جسمانی طور پر بھی اتنا کمزور تھا کہ دیہاڑی، مشقت وغیرہ کر ہی نہ پاتا۔ بڑے بھائی شادی کے کوئی سال سوا سال بعد پوسٹنگ ہو کر ڈھاکہ (مشرقی پاکستان) چلے گئے۔ ان کی تنخواہ بھابی کے نام آیا کرتی، ان کی مرضی ہوتی تو سو احسان جتا کر دس بیس روپے اماں کے ہاتھ پر رکھ دیتیں نہیں تو نہ سہی۔ اماں سارا دن ہاتھ کی سوئی سے لوگوں کے کپڑے سیا کرتیں اور رات میں سوت کاتا کرتیں۔ بہ این ہمہ نوبت بہ این جا رسید کے چولھا بجھنے لگا۔ اماں نے اپنی ساری خود داری کو ایک طرف رکھا اور مجھے کہنے لگیں: تمہارے فلاں (رشتے کے) چاچا ہر سال زکوٰۃ دیتے ہیں۔ ان سے کہو ہماری کچھ مدد کر دیں۔ میں نے وعدہ تو کر لیا کہ کہوں گا، مگر سوال کرنے کی ’’ہمت‘‘ کہاں سے لاتا۔ تین دن تک اپنے آپ سے لڑتا رہا، اماں روز پوچھتیں، میں ٹال دیتا۔ چوتھے دن انہوں نے زور دے کر کہا تو میں نے زندگی میں پہلی بار ماں کا کہا ماننے سے انکار کر دیا۔ میں نے کہا: اماں، سکول چھوڑ دیتا ہوں، دیہاڑی کر لوں گا، جتنی جوگا ہوں مزدوری کر لوں گا مگر یہ جو تو نے کہا ہے مجھ سے نہیں ہو گا۔ اس دن اماں سارا دن روتی رہیں، مجھے معلوم تھا کہ ان کا رونا میرے انکار کی وجہ سے نہیں تھا۔ میں بھی سارا دن روتا رہا، میرا ایک دکھ تو یہ تھا کہ میں اماں کا حکم ماننے جوگا بھی نہیں؟ اور دوسرا وہی، جو اماں کا تھا۔ کچھ کہنے سننے کی ضرورت ہی کسے تھی۔
شام ہوئی تو میں انا کی لاش اٹھائے چاچا کے گھر چلا گیا اور بصد ہزار مشکل وہ بات کہہ دی جو مجھے آج بھی تکلیف دے رہی ہے۔ ’’چاچا زکوٰۃ سے کچھ پیسے ۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘ اور پھر میرے لفظ آنکھوں سے بہہ نکلے۔ چاچا نے مجھے تسلی دی، بیٹا گھبراؤ نہیں، تم میرے عزیز ہو پر مجبوری یہ ہے کہ زکوٰۃ اپنے رشتہ داروں کو نہیں دی جاتی۔ ان کی منطق وہ جانیں، میں گھر واپس آ گیا اور اماں کو بتا دیا جو چاچا نے کہا تھا۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اماں کے آنسو ان کی مسکراہٹ سے چمک اٹھے۔ انہوں نے مجھے سینے سے لگا لیا اور کہا: بیٹا! اللہ ہے نا، وہ ہمارے لئے کافی ہے، تو بالکل بے فکر ہو جا۔ چھٹی کا دن ہوتا میں کسی کے ہاں چھوٹا موٹا کام کرا دیا کرتا، کبھی ایک روپیہ مل جاتا کبھی دو بھی مل جاتے۔ جیسے تیسے رات کو پیٹ بھر کر سو جاتے اور میں صبح بستہ اٹھا کر سکول چلا جاتا۔ میرے دسویں جماعت کے امتحان ہو گئے تب اماں نے کہا تھا: بیٹا میں اب تھک گئی ہوں۔ اور پھر میں جلو موڑ چلا گیا تھا۔
 
جلو موڑ والی نوکری تو خیر جاتی رہی، وہ بیان ہو چکا مجھے جلو موڑ سے ملا بھی بہت کچھ! میں اس پر اپنے اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے۔ بندہ تو ویسے بھی شکر ادا نہیں کر پاتا۔ ہر سانس میں کلمہء شکر ادا کرے تو بھی آدھی سانس کا شکر بھی ادا نہیں ہوتا۔ دعوے کوئی جتنے بڑے کرتا پھرے۔
جلو موڑ نے مجھے دوست دیے۔ ایک تو وہ طاہر محمود تھا، ایک سلیم شیخ تھا اس کا گھر کرشن نگر میں تھا، میں سلیم کے گھر جایا کرتا تھا اور اس کی والدہ کو امی کہہ کر بلاتا تھا۔ ایک میرے محلے (کالونی) کا لڑکا، میرے ایک بزرگ ملازم ساتھی کا بیٹا الیاس بیگ تھا، اور بھی دوست تھے مگر یہ تینوں نمایاں تھے۔ الیاس بیگ کو دسویں جماعت کی انگریزی کی تیاری میں نے کرائی تھی، اس کے والد مرزا اکبر علی بیگ میری بہت قدر کرتے تھے۔ میرے ایک ایکس ای این صاحب تھے شیخ صاحب کہنا ہی کافی ہو گا۔ سلیم شیخ ان کا شاید ماموں زاد تھا یا چچا زاد، اب مجھے ٹھیک سے یاد نہیں۔ ان کا ذکر آگے آئے گا، نام اس لئے بھی لکھ دیے کہ اجنبیت کا احساس جاتا رہے۔
 
وقت بہت ہوتا تھا میرے پاس اور پابندی یہ تھی کہ دفتر چھوڑ کر بندہ کہیں آگے پیچھے نہیں ہو سکتا تھا۔ صبح سویرے چھ بجے پہلی رپورٹ جمع کی، کاغذات تیار کئے، فون پر سے فارغ ہوئے، ڈاک رنر کے لئے دو لفافے تیار کئے اور پھر ناشتہ۔ پھر نو بجے، پھر بارہ بجے، پھر تین بجے۔ ہر تین گھنٹے بعد کوئی آدھ گھنٹے کا کام ہوتا۔ پڑھنے سے لگاؤ تو تھا ہی، دو تین سستے سستے ادبی پرچے لگوا لئے، اس سے زیادہ کی جیب اجازت نہیں دیتی تھی۔ اوراق فنون تب بھی نکلتے تھے مگر ان کی قیمت سن کر غش آتا تھا، خریدنے کی جرات کون کرے۔ سوچا ایف اے کی تیاری کرتے ہیں۔ عربی کا کورس اس لئے بھی اچھا لگا کہ چلئے اور کچھ ہو نہ ہو، قرآن شریف پڑھنا تو آ جائے گا، کچھ کچھ معانی بھی جان جائیں گے۔ ’’عربی کا معلم‘‘ پہلی کتاب تھی جو میں نے خریدی۔ امریکن سنٹر اور برٹش کونسل لائبریری کی رکنیت مفت تھی، پندرہ دن میں ایک بار سائیکل کرائے پر لیتا، پہلی کتابیں واپس کرتا اور ایشو کروا کر لے آتا۔ انگریزی ناول شاعری سمجھ کچھ نہیں آتا تھا مگر پڑھتا جاتا پڑھتا جاتا، پھر ہولے ہولے انگریزی بھی سمجھ میں آنے لگ گئی، نصاب کی کتاب بھی رکھی تھی، مگر پڑھتا کم ہی تھا۔ زیادہ وقت عربی کو دیتا، وہ بھی پڑھانے والا کوئی نہیں، ٹیوشن فیس ادا کرنے کو کچھ نہیں؛ سو، خود ہی استاد، خود ہی شاگرد۔ ادھر دفتر کے کام میں خود ہی چپڑاسی، خود ہی بابو، اور خود ہی افسر ۔ ہانڈی روٹی پکانا بھی کچھ کچھ آ گیا، بازار کا کھانا نہ تو کام و دہن سے لگا کھاتا تھا نہ جیب سے۔ گویا جلو موڑ نے جینے کے کچھ حربے سکھا دیے۔
 
Top