محمد یعقوب آسی
محفلین
ایک سستا سا ریڈیو لے لیا تھا۔ دو بڑی دل چسپیاں تھیں، ایک تو خبریں سننا اور دوسرے غیر فلمی گیت اور غزلیں۔ ریڈیو لاہور کا پروگرام ’’ندائے حق‘‘، اسلام آباد کا ’’آوازِ دوست‘‘، پشاور کا ’’سب رنگ‘‘، کراچی کا ’’اردو ڈرامہ‘‘ میرے پسندیدہ نشریے تھے۔ ویسے ریڈیو کم و بیش سارا دن بولا کرتا، مگر دھیمی آواز میں۔ بلند آہنگی میرے مزاج کا حصہ ہی نہیں تھی۔ ایف اے کا امتحان تو نہ دے سکا کہ نوکری چھوڑنی پڑی، مگر کچھ کچھ لکھنے کی طرف طبیعت مائل ہونے لگی۔
جس رات سقوطِ ڈھاکہ کی خبر نشر ہوئی وہ رات میں نے کیسے گزاری میرا اللہ جانتا ہے۔ قومی المیے میں میرے دو ذاتی المیے بھی شامل تھے، ایک تو بڑے بھائی اور ایک بہت پیارے ہم جماعت ڈھاکہ میں تھے۔ دونوں فوجی سپاہی تھے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ ان کے جنگی قیدی ہو جانے کی خبر سکون آور ہوئی۔ یہ چلئے زندہ تو ہیں۔
کچھ سنبھالا ملا تو ایک پنجابی نظم کہی اور لاہور سے شائع ہونے والے ماہانہ ’’پنجابی زبان‘‘ کو بھیج بھی دی۔ ڈاکٹر رشید انور ایڈیٹر تھے، انہوں نے چھاپ بھی دی۔ پھر ایک کہانی لکھی ’’ماں دا خط، قیدی پتر دے ناں‘‘ وہ بھی ’’پنجابی زبان‘‘ میں شائع ہوا۔ مہینہ وار ’’لہراں‘‘ مجھے خاصا مشکل لگتا تھا، تاہم میں اسے باقاعدگی سے پڑھا کرتا۔ میرے ہم جماعت دوست کی والدہ فوت ہوئی، جب وہ ادھر قیدی تھا تو میں نے اس کو بھی ایک کہانی میں بیان کرنے کی کوشش کی ’’ماسی فتح‘‘ نامی یہ کہانی لہراں میں شائع ہوئی۔ یہ غالباََ 1972 کے اوائل کی بات ہے۔ اچھی بات یہ رہی کہ ان تینوں کاوشوں میں ایڈیٹر صاحبان کو بہت تھوڑی اصلاح کرنی پڑی۔
جس رات سقوطِ ڈھاکہ کی خبر نشر ہوئی وہ رات میں نے کیسے گزاری میرا اللہ جانتا ہے۔ قومی المیے میں میرے دو ذاتی المیے بھی شامل تھے، ایک تو بڑے بھائی اور ایک بہت پیارے ہم جماعت ڈھاکہ میں تھے۔ دونوں فوجی سپاہی تھے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ ان کے جنگی قیدی ہو جانے کی خبر سکون آور ہوئی۔ یہ چلئے زندہ تو ہیں۔
کچھ سنبھالا ملا تو ایک پنجابی نظم کہی اور لاہور سے شائع ہونے والے ماہانہ ’’پنجابی زبان‘‘ کو بھیج بھی دی۔ ڈاکٹر رشید انور ایڈیٹر تھے، انہوں نے چھاپ بھی دی۔ پھر ایک کہانی لکھی ’’ماں دا خط، قیدی پتر دے ناں‘‘ وہ بھی ’’پنجابی زبان‘‘ میں شائع ہوا۔ مہینہ وار ’’لہراں‘‘ مجھے خاصا مشکل لگتا تھا، تاہم میں اسے باقاعدگی سے پڑھا کرتا۔ میرے ہم جماعت دوست کی والدہ فوت ہوئی، جب وہ ادھر قیدی تھا تو میں نے اس کو بھی ایک کہانی میں بیان کرنے کی کوشش کی ’’ماسی فتح‘‘ نامی یہ کہانی لہراں میں شائع ہوئی۔ یہ غالباََ 1972 کے اوائل کی بات ہے۔ اچھی بات یہ رہی کہ ان تینوں کاوشوں میں ایڈیٹر صاحبان کو بہت تھوڑی اصلاح کرنی پڑی۔