ایک سستا سا ریڈیو لے لیا تھا۔ دو بڑی دل چسپیاں تھیں، ایک تو خبریں سننا اور دوسرے غیر فلمی گیت اور غزلیں۔ ریڈیو لاہور کا پروگرام ’’ندائے حق‘‘، اسلام آباد کا ’’آوازِ دوست‘‘، پشاور کا ’’سب رنگ‘‘، کراچی کا ’’اردو ڈرامہ‘‘ میرے پسندیدہ نشریے تھے۔ ویسے ریڈیو کم و بیش سارا دن بولا کرتا، مگر دھیمی آواز میں۔ بلند آہنگی میرے مزاج کا حصہ ہی نہیں تھی۔ ایف اے کا امتحان تو نہ دے سکا کہ نوکری چھوڑنی پڑی، مگر کچھ کچھ لکھنے کی طرف طبیعت مائل ہونے لگی۔
جس رات سقوطِ ڈھاکہ کی خبر نشر ہوئی وہ رات میں نے کیسے گزاری میرا اللہ جانتا ہے۔ قومی المیے میں میرے دو ذاتی المیے بھی شامل تھے، ایک تو بڑے بھائی اور ایک بہت پیارے ہم جماعت ڈھاکہ میں تھے۔ دونوں فوجی سپاہی تھے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ ان کے جنگی قیدی ہو جانے کی خبر سکون آور ہوئی۔ یہ چلئے زندہ تو ہیں۔
کچھ سنبھالا ملا تو ایک پنجابی نظم کہی اور لاہور سے شائع ہونے والے ماہانہ ’’پنجابی زبان‘‘ کو بھیج بھی دی۔ ڈاکٹر رشید انور ایڈیٹر تھے، انہوں نے چھاپ بھی دی۔ پھر ایک کہانی لکھی ’’ماں دا خط، قیدی پتر دے ناں‘‘ وہ بھی ’’پنجابی زبان‘‘ میں شائع ہوا۔ مہینہ وار ’’لہراں‘‘ مجھے خاصا مشکل لگتا تھا، تاہم میں اسے باقاعدگی سے پڑھا کرتا۔ میرے ہم جماعت دوست کی والدہ فوت ہوئی، جب وہ ادھر قیدی تھا تو میں نے اس کو بھی ایک کہانی میں بیان کرنے کی کوشش کی ’’ماسی فتح‘‘ نامی یہ کہانی لہراں میں شائع ہوئی۔ یہ غالباََ 1972 کے اوائل کی بات ہے۔ اچھی بات یہ رہی کہ ان تینوں کاوشوں میں ایڈیٹر صاحبان کو بہت تھوڑی اصلاح کرنی پڑی۔
 
میں نے پہلے بھی کہیں یہ بات کہی تھی یا لکھی تھی کہ میرا تعلق اس طبقے سے تھا جہاں بچپن کے بعد بڑھاپا آتا ہے۔ ان دونوں کے بیچ کی زندگی روٹی کے دو پاٹوں میں پس کر گرد و غبار کی صورت اڑ جاتی ہے۔ روٹی کمانا کوئی آسان کام ہے؟ ہاں اگر کوئی اپنے ایمان اور ضمیر کی قیمت پر کمانا جاہے تو شاید یہی کام بہت آسان ہو جاتا ہو گا۔ یہ ضمیر بھی عجیب بادشاہ ہے کہ غریبوں سے چمٹا رہتا ہے، یہ نہ کرو، وہ نہ کرو، یہ ٹھیک نہیں، وہ غلط ہے وغیرہ۔ ہزاروں لاکھوں ایسے رہے ہوں گے جو خود تو ہڈیوں کا ڈھانچا بن جاتے ہیں مگر اِس ضمیر کو پال پال کر مضبوط اور توانا کرتے رہتے ہیں۔ شاید ان کی زندگی کا محور ہی یہ ضمیر ہو، وہ اسی کو دیکھ دیکھ جیتے ہوں۔ انہی ہزاروں لاکھوں میں ایک وہ بارہ تیرہ سال کا زرد رُو لڑکا بھی رہا ہو گا جس کے بچپن کا آخری عمل اپنے باپ کے پاؤں دابنا ہو اور پھر زندگی کی آدھی صدی گم کرنے کے بعد اکیسویں صدی کی ڈیڑھ دہائی گزر جانے پر اسے پتہ چلا ہو کہ میں تو بوڑھا ہو چکا ہوں۔
 
ہمارے طبقے کے لوگوں کی بڑی بڑی خوشیاں بھی اور عظیم غم بھی دوسروں کی نظر میں بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ ہوا کریں میرے لئے تو بڑے ہیں نا! اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میری وہ آدھی صدی کہیں گم نہیں ہوئی۔ مجھے وہ کچھ دے گئی جو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔
جلو موڑ سے گاؤں واپسی ہوئی تو یہ فکر اور مضبوط ہو گئی کہ جناب کمانا کیسے ہے؟ اور وہ بھی ایسا کہ روٹی حلق سے نرمی کے ساتھ اتر جائے، اس میں کوئی احساسِ جرم یا کسی کی حق تلفی کا کانٹا نہ ہو جو گلے میں اٹک جائے۔ غریب آدمی کی ضروریات ہی کیا ہوتی ہیں! دیکھا جائے تو ضروریات تو غریب اور امیر دونوں کی ایک سی ہوتی ہیں، وہ الگ بات کہ کوئی اِسراف اور تعیش کو بھی ضرورت بنا لے اور اُن کو پورا کرنے میں اندر ہی اندر غریب سے غریب تر ہوتا چلا جائے۔ مجھے ایسی غربت سے بہت ڈر لگتا تھا۔ اسی ڈر سے محفوظ رہنے کے لئے گاؤں میں چھوٹی موٹی محنت مزدوری کرنے لگا، شہر میں روئی پیلنے اور تیل نکالنے کا ایک کارخانہ تھا، وہاں کام کرنے لگا۔ وہاں اپنی ہڈیوں سے زیادہ وزنی کڑاہے اٹھاتا اور شام کو دو روپے ملتے تو اس میں اپنے پسینے کی خوشبو محسوس کر کے نہال ہو جاتا۔
مگر اُس دل کا کیا کیجئے گا جس کو اللہ کریم ایک ماں کے سینے میں رکھ دیتا ہے۔ رمضان شریف آ گیا تو ماں نے کام پر جانے سے منع کر دیا کہ بیٹا روزہ رکھ کر ایسی مشقت نہیں کر پائے گا۔ پوچھا اماں روٹی بھی تو کھانی ہے، بولیں بیٹا! اللہ ہے نا! عید کے بعد چلے جانا کارخانے تب تک کوئی اور چھوٹا موٹا کر لے۔
 
رات کو اپنی پرانی خریدی ہوئی ایف اے کی کتابیں نکال کر بیٹھ جاتا اور لالٹین کی مدھم روشنی میں حرفوں سے کرنیں کشید کیا کرتا۔ اماں نماز پڑھ کے بظاہر سو جاتیں تو میرا کورس کی کتابوں سے مکالمہ شروع ہوتا۔ رات میں کسی وقت ان کی آنکھ کھلتی تو پوچھتیں: تو سویا نہیں اب تک؟ میں ہولے سے نہیں کہتا، اماں کہتیں سو جا! رات گزر گئی ہے، مگر زور دے کر نہ کہتیں۔ ان کے تو خیالات ہی اور ہو رہے تھے۔ بیٹا روٹی لتے کے چکر میں تھا اور اماں بہو لانے کی سوچ رہی تھیں۔ ایک دن ایک بزرگ ہمارے ہاں مہمان ہوئے۔ میں ان کے نام سے واقف تھا اور یہ جانتا تھا کہ دور پار سے میرے ماموں ہوتے ہیں اور اوکاڑا شہر میں رہتے ہیں، کسی سرکاری دفتر میں چپڑاسی ہیں۔ دن کا کچھ حصہ ہمارے ساتھ گزارا اور چلے گئے۔ دو تین دن بعد اماں ان کے ہاں گئیں، پھر ماموں کے بڑے صاحب زادے آئے، ان سے میں پہلے بھی مل چکا تھا۔ وہ ایک پرانی سی سائیکل پر گاؤں گاؤں پھرا کرتے، مرغیوں بطخوں کے انڈے خریدا کرتے اور شہر میں بیچ دیا کرتے تھے۔ انہوں نے میرا گویا انٹرویو سا لیا: کیا کرتے ہو، کیو سوچتے ہو، آگے کیا ارادہ ہے وغیرہ۔ وہ چلے گئے تو اماں نے بتایا کہ میں تیرے لئے لڑکی ڈھونڈ رہی تھی، وہ مل گئی ہے، اب بات پکی کرنی ہے۔ کہا: اماں ادھر کھانے کی پڑی ہے اور آپ بہو لانے کے چکر میں ہیں۔ دو ڈھِڈیاں پلنی مشکل ہو رہی ہیں، آپ کی بھتیجی کو بھی تو کچھ کھانے کو چاہئے ہو گا۔ جواب میں اماں کا وہی ایک جملہ، جس کا انکار نہ کبھی ہو، نہ ہو سکتا ہے! ’’اللہ ہے نا! ‘‘
بات پکی ہو گئی، مبارک سلامت کے تبادلے بھی ہو گئے تو اماں کے دل میں ایک اور خدشہ ابھرنے لگا کہ میرا کیا ہے، آج مرے کل دوجا دِن، میں مر مرا گئی تو کون یہ بات نبھائے گا! وہ لوگ بیٹی والے ہیں، کب تک انتظار کریں گے،کہیں پھسل ہی نہ جائیں۔ لڑکا رُل جائے گا۔ جلدی جلدی میں بیاہ تو ہو نہیں سکتا نکاح کر دیتے ہیں، لڑکا ادھر آنے جانے جوگا ہو جائے گا، مل ملا کے روزگار کا بھی کچھ نہ کچھ ہو رہے گا۔ سو بزرگوں نے مل بیٹھ کر میرا اور عائشہ کا نکاح کر دیا۔ تب میری عمر یہی کوئی بیس سال رہی ہو گی، اور اُس کی مجھ سے کوئی دو سال کم۔
 
اللہ کے کام حکمت سے خالی نہیں ہوتے۔ میں ایف اے کے پرائیویٹ امتحان کا داخلہ بھیج چکا تھا جن دنوں نکاح کی سنت ادا ہوئی۔ بعد میں ڈیٹ شیٹ آئی تو اوکاڑا شہر میں برلا ستلج ہائی سکول میرا امتحانی مرکز تھا۔ اوپر تلے دس پرچے کوئی بیس دن کا کل پروگرام، گاؤں سے رینالہ خورد شہر، وہاں سے اوکاڑا اور پھر سکول !! اماں سے اجازت لے کر کتابیں اٹھائیں اور ماماجی کا دروازہ آن کھٹکھٹایا۔ بہت سکون سے امتحان دیا اور ظاہر ہے بیگم سے گپ شپ تو ہونی ہی تھی!
میرے اکلوتے ہم زلف جو عمر میں میرے چچا لگتے تھے، اور میری رشتے کی بہن جو بلامبالغہ میری خالہ لگتی تھیں ان کی محبتیں میرے لئے ماں کے بعد سب سے زیادہ پر خلوص تھیں۔ بعد ازاں، اماں فوت ہوئیں تو میں نے باجی کے دامن میں پناہ لے لی تھی۔ اور جس دن باجی فوت ہوئیں، مجھے یوں لگا جیسے میری ماں ایک بار پھر مر گئی ہو۔
 
بیگم کے بڑے بھائی (اصل نام عنایت اللہ) نے اپنا ایک اختیاری نام رکھا ہوا تھا: سردار سعید عنایت اللہ وفا چوہدری ٹھیکے دار۔ اخبار بیچا کرتے تھے۔ مجھے بھی ساتھ ملا لیا، مگر وہ کام اپنے مزاج کا نہیں تھا۔ بھائی جان (ہم زلف) ایک مدت سے کچہری میں کام کرتے آ رہے تھے، مجھے بھی ایک وکیل کے ساتھ منشی رکھوا دیا۔ بیگم کے ہاتھ کی پکی روٹی ملنے لگی، کپڑے جیسے بھی تھے استری ہونے لگے۔
ملک شہادت علی نوناری ایڈووکیٹ کا تعلق دریا کے علاقے سے تھا، جس تہذیب کو ’’جانگلی‘‘ کہا جاتا ہے۔ ملک صاحب کے پاس اسی علاقے سے فوجداری کیس آیا کرتے تھے۔ خرچہ وغیرہ کر کے کوئی بیس روپے ہفتہ بچ رہتے وہ میں ہر ہفتے اماں کو دے آتا، چھٹی کا دن ان کے ساتھ گزارتا اور پھر ملک صاحب کے پاس حاضر ہو جاتا۔ مالی حالات میں کچھ بہتری آنے لگی، کہ مجھے نہانے کو کالے صابن کی بجائے لائف بوائے ملنے لگا تھا۔ معمول کے مطابق ایک دن میں اماں سے ملنے گیا، شام کو کھانا وغیرہ کھا کر ہم ماں بیٹا چولھے کے پاس بیٹھے تھے، میں نے پیسے دیے تو اماں نے نہیں لئے: بیٹا رہنے دو۔ میں بھانپ تو گیا کہ کہیں کچھ گڑبڑ ہے۔ میں کہتا رہا، اماں انکار کرتی رہیں، میں کریدنے لگا تو انہوں نے دل کی بات کھول دی جسے سن کر میں سناٹے میں آ گیا۔ وہ کہہ رہی تھیں: بیٹا، میں نے سنا ہے کہ وکیل لوگ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانے کے پیسے لیتے ہیں۔ اور انہیں اس کی کوئی پروا نہیں ہوتی کہ وہ کسی بے گناہ کے وکیل ہیں یا گناہگار کے۔ انہیں اپنے بندے کو بچانا اور دوسرے کے بندے کو پھنسانا ہوتا ہے۔ وہ یہ کام کر لیں تو اچھے وکیل، نہ کر سکیں تو لوگ ان کے پاس آتے ہیں نہیں۔ وہ جو کمائے گا، اپنے منشی کو بھی اسی سے دے گا نا! نہیں بیٹا! میں اس طرح کے پیسے نہیں لے سکتی۔ چھٹی کا دن گزرا ، میں ملک صاحب کے پاس حاضر ہوا اور ان کو بتایا کہ میں یہ منشی گیری چھوڑ رہا ہوں۔ ان سے اجازت لے کر بھائی جان کے تھڑے پر گیا اور پھر عائشہ، ماماجی، باجی، وغیرہ سے رخصت ہو کر ماں کے پاس حاضر ہو گیا۔ کچھ ہی مہینوں بعد رخصتی عمل میں آئی۔ عائشہ گاؤں میں کیا آ گئی میرے تفکرات دو چند سہ چند ہو گئے۔ وہ جو لاڈ اور خوشیوں اور مستیوں خرمستیوں کے دن ہوتے ہیں میرے لئے قطعی مختلف تھے۔
 
بیاہ شادیاں رشتے اپنے جیسے لوگوں سے ہوں تو اس کے فائدے بھی بہت ہوتے ہیں۔ اور عزیزوں رشتہ داروں میں ہوں تو اور بھی اچھی بات ہے۔ نیتوں اور دلوں کا صاف ہونا البتہ ہر جگہ شرط ہے، کوئی اپنا ہو یا پرایا۔۔ ضمناََ ایک واقعہ سنتے چلئے۔
یہاں راولپنڈی میں ادب کے حوالے سے ایک صاحب سے ملاقات ہوئی، نام میں کیا رکھا ہے چلئے اپنی سہولت کے لئے انہیں خاکوانی کہہ لیجئے۔ موصوف کی آنکھ کسی سیٹھ کی لاڈلی بیٹی سے لڑ گئی۔ سیٹھ صاحب نے بھی کوئی فلمی ڈائیلاگ نہیں بولے اور نہ کوئی رقیبِ رو سیاہ وارد ہوا، خاکوانی صاحب سیٹھ کی بیٹی کو بیاہ کر تین مرلے کے ایک مکان میں لے آئے جس کے مالکانہ حقوق اس کمپنی کے پاس تھے جس میں موصوف کے ابا حضور ملازم تھے۔ یار لوگ ولیمے کی دعوت میں جمع ہوئے تو باتوں سے باتیں چل نکلیں۔ میں نے پوچھ ہی لیا کہ یار خاکوانی تمہاری ’’سیٹھ زادی‘‘ یہاں رہنے سے تو رہیں! کیا کر رہے ہو؟ بولے: آج شام ہم اسلام آباد جا رہے ہیں، ایک مکان کرائے پر لے لیا ہے۔ ہم سے نہ رہا گیا، پوچھا: سسرال کے ہاں انیکسی میں رہو گے؟ یا الگ۔ بولے: مکان کرائے پہ لے لیا ہے تین ہزار ماہوار پر۔ ان دنوں موصوف لیکچرار تھے اور ان کی تنخواہ الاؤنس وغیرہ ملا کر کوئی اٹھائیس سو روپے بنتی تھی۔ سیٹھ صاحب کی انڈسٹریل ایریا میں ایک فیکٹری تھی۔ سینکڑوں مزدوروں کے ساتھ ساتھ خاکوانی صاحب جیسے بیسیوں لوگ ان کے آگے دست بستہ حاضر ہوتے تھے۔ ایسے میں ہمارے خاکوانی صاحب کہاں فٹ بیٹھتے ہیں، یہ سوال ہم ادیب دوستوں کا مشترکہ سوال تھا۔ کسی نے کچھ کہہ دیا، تو کوئی چپکا ہو رہا کہ بھائی وہ جانے وہ جانے، جنہوں نے کیا ہے کچھ سوچ سمجھ کر ہی کیا ہو گا۔ مگر اس کو کیا کہئے گا؟ کہ تین چار مہینے بعد ملنے والی خبر کے مطابق خاکوانی صاحب کو سسرال نے ڈسٹ بن میں پھینک دیا تاہم اس سے پہلے طلاق نامے پر دستخط لینا نہیں بھولے۔ اس کے پیچھے کتنی بھی کہانیاں ہوں جو کسی حیرت ڈائجسٹ کا حصہ بن سکتی ہوں۔ سب سے بڑا اور نمایاں فرق ’’اسٹیٹس‘‘ کا تھا۔
مشہور کہاوت ہے کہ : مایا کو مایا ملے کر کر لمبے ہاتھ، ماڑے کو ماڑا ملے سینہ کھول کھول۔
یہیں ایک اچھی خبر بھی ہے کہ بعد ازاں موصوف کی اپنے رشتہ داروں میں اسی لڑکی سے شادی ہوئی، جسے وہ کبھی رد فرما چکے تھے۔ حالیہ اطلاعات کے مطابق خاکوانی صاحب کا گھر خوشیوں کا گہوارا ہے۔ ما شاء اللہ۔
 
آخری تدوین:
مجھے نہیں معلوم کہ میں جو کچھ اب کہنے جا رہا ہوں اسے میرا واہمہ سمجھا جائے گا یا اعتقاد یا نفسیاتی مسئلہ؛ تاہم اپنے محسوسات پوری دیانت داری سے درج کر رہا ہوں۔
شروع شروع میں بہت سارے تخلص اختیار کئے مگر کوئی ذہن میں جم نہیں سکا۔ آخرکار ’’عاصی‘‘ اختیار کیا۔ اور ایف اے کے داخلہ فارم میں لکھ بھی دیا۔ میں اس کے معانی ’’گناہ گار‘‘ سمجھتا تھا، اور اعتراف میں کوئی قباحت بھی نہیں تھی کہ کچھ احساسات انسان کو نیکی کی طرف لانے میں تحریک کا درجہ بھی رکھتے ہیں۔ ایک موقعے پر یہ کھلا کہ ’’عاصی‘‘ کے درست معانی ’’گناہ گار‘‘ نہیں ’’نافرمان‘‘ ہیں۔ ایک طرح کی بے چینی سی لگی ہوئی تھی، کہ اب تو یہ ریکارڈ پر بھی آ جائے گا!! کیا ہونا چاہئے۔ سعید آسی صاحب ایک کالم نگار ہوتے تھے، ان کا نام دیکھا تو ذہن میں گویا ایک جھماکا سا ہوا: ’’یار یہ ٹھیک ہے!‘‘ آس سے آسی، پُر امید، جسے انگریزی والے آپٹیمسٹ کہتے ہیں۔ سو، اپنے طور پر یہی اختیار کر لیا۔ اللہ بھلا کرے ملتان بورڈ والوں کا کہ ایف اے کی سند پر انہوں نے نام صرف رومن میں لکھا، اردو عبارت میں ہوتا تو شاید بات مختلف ہو جاتی۔ بہت بعد میں بی اے کا داخلہ فارم بھیجا تو اس پر اردو اور انگریزی دونوں میں نام لکھنا تھا۔ ایک مدت بعد بی اے کی سند ملی تو اس پر دونوں خطوں میں نام لکھا ہوا تھا، اردو خط میں ’’محمد یعقوب آسی‘‘۔ بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی کا پہلا نام ’’ملتان یونیورسٹی‘‘ تھا۔
لفظ آسی کی معنویت ایک بار پھر زیرِ بحث آئی جب لفظیات اور ساختیات کا کچھ شعور ہوا۔ ساتھ ہی یہ بات بھی ذہن میں تھی کہ ’’نام اچھے رکھا کرو‘‘ بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کچھ ساتھیوں کے نام تبدیل بھی فرمائے۔ بہت ساری لغاتیں کھنگالنے کے بعد ایک بہت خوبصورت بات دریافت ہوئی۔ لفظ آسی کی اصل اسوۃ ہے، یعنی طرزِ حیات اور آسی کا مفہوم ہے اچھے اطوار میں زندگی کرنے والا۔ اللہ کا شکر ادا کیا اور دعا بھی کی کرتا بھی ہوں کہ اللہ مجھے اپنے اس اختیاری نام کا پاس رکھنے جوگا کر دے۔ آمین۔
سب سے چھوٹے بیٹے کا نام محمد حسان طلحہ ہے۔ حسان سے ایک نِک نیم ’’سانی‘‘ ایسا چلا کہ وہی نام کی جگہ چل نکلا۔ لفظ آسی کی معنویت کا معاملہ در اصل ’’سانی‘‘ سے اٹھا تھا۔ سوچا کہ یارو ایسا تو نہیں کہ ’’سانی‘‘ ایک مہمل لفظ نکلے یا کوئی ایسا ویسا ہو، ذرا دیکھا تو چاہئے! یہاں بھی ایک بہت خوبصورت بات سامنے آئی۔ ’’سانی‘‘ عربی محاورے میں وہ شخص ہے جو کنواں کھودے اور اس کا پانی دوسروں کو بھی پلائے۔ میں نے بچے سے کہا کہ یار، اس کو باقاعدہ طور پر اختیار کر لو کہ اس میں ایثار، ہمدردی، مؤدت، دریا دلی اور کچھ کر گزرنے کے معانی پائے جاتے ہیں۔ اور اب کے بعد اس نام سے پکارے جانے پر برا نہ منانا۔
 
آخری تدوین:
رودادِ سفر کی طرف آتا ہوں۔

ایک دن سلیم شیخ اچانک میرے گاؤں آن پہنچا۔ کہنے لگا: تمہیں تو پتہ نہیں ہو گا، بھائی جان (شیخ صاحب) کو ’’تین سو تین رشوت خوروں‘‘ میں ملازمت سے برطرف کر دیا گیا ہے اور انہوں نے کچھ دوستوں سے مل کر ایک کارپوریشن بنا لی ہے۔ حال ہی میں شاہدرہ والی ٹول ٹیکس کا ٹھیکہ لے لیا ہے۔ انہیں ایک اکاؤنٹنٹ کی ضرورت ہے، ان سے مل لو۔ میں ظاہر ہے بھاگا بھاگا شاہدرہ پہنچا، شیخ صاحب سے ملا تو انہوں نے مجھے نوکری دے دی۔ شاہدرہ ریلوے سٹیشن کے پاس ایک حجرہ سا تھا، اس میں ایک بجلی کا بلب لگ سکتا تھا اور کچھ نہیں، دس روپے مہینہ کرائے پر مل گیا۔ باہر ایک نلکا لگا تھا جو یقیناََ کسی ’’سانی‘‘ کا تحفہ تھا۔ ضروریات کے لئے ریلوے سٹیشن کے باتھ روم کفایت کر جاتے۔ روٹی کھانے کو سٹیشن کے باہر مسافر ہوٹل اور چھپر ہوٹل سے مل جاتی، نرخ بھی مناسب تھے۔ ایک سو اسی روپے ماہوار تنخواہ پیش کی گئی، ظاہر ہے قبول تو کرنی ہی تھی۔ اس دور میں بابو کی تنخواہ سے بہر حال زیادہ تھی۔
کام تو ظاہر ہے کام ہوتا ہے اور ہمیشہ مشکل ہوتا ہے۔ بندہ کام کرنے پہ آ جائے تو آسان ہو جاتا ہے نہیں تو بندہ خود بھاگ جاتا ہے۔ میں نے کام سنبھال لیا، شیخ صاحب جو وہاں مختارِ کل تھے میرے کام سے مطمئن سے۔ تاہم مجھے ایک مناسب اور باعزت کام مل جانے پر جو اطمینان ہوا تھا، اس کی عمر بیس دن سے زیادہ نہ نکلی۔ شیخ صاحب نے مجھے طلب کیا اور فرمایا: آج کا حساب شام چھ بجے تک جمع کرا دو، پھر اپنا حساب کر لینا، اور فارغ۔ میں تو ہکا بکا رہ گیا، کہ نہ کوئی شکایت، نہ وارننگ، نہ کوئی رپورٹ، نہ کچھ؛ یہ ایک دم کیا آن پڑا؟ میں نے ہمت کی اور پوچھ لیا: شیخ صاحب میرے کام میں کوئی گڑبڑ ہوئی؟ بولے: نہیں، کچھ بھی نہیں ہوا، بس تم آج شام سے فارغ ہو۔ میں نے پھر کہا: تسلیم کہ میں آج شام سے فارغ مگر کم از کم مجھے وجہ جاننے کا حق تو دیجئے، میں کوئی دعویٰ رکھتا بھی نہیں ہوں۔ کہنے لگے: صاف بات سنو گے؟ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ نعیم کو جانتے ہو؟ جی! جانتا ہوں، سلیم کا چھوٹا بھائی۔ ہاں وہی، اس کی ماں آئی تھی کہ نعیم کو نوکر رکھ لو، میری ماں نے بھی کہہ دیا کہ لڑکا بے کار پھرتا ہے، تمہارا بھائی ہے رکھ لو۔ اب اس کو رکھنے کے لئے تمہیں فارغ کرنا پڑے گا۔
میری تشفی کے لئے یہی کافی تھا، کہ مجھ پر کوئی الزام تو نہیں لگایا گیا۔ شام کو ٹول کولیکشن کا حساب اور نقد رقم وصول کر کے شیخ صاحب نے میرا حساب کیا اور سو روپے کا ایک نوٹ مجھے تھماتے ہوئے کہا۔ اٹھانوے روپے بنتے ہیں۔ میں نے دو روپے کے سکے ان کی میز پر رکھے اور سلام کہہ کر باہر نکل گیا۔ حجرے کے مالک کو جو ریلوے سٹیشن پر چائے بیچتا تھا، حجرے کی چابی تھمائی (کرایہ تو میں پیشگی دے چکا تھا)، اپنا بستر اور چارپائی اٹھائی اور اسی ٹال ٹیکس پوسٹ پر آ کر لاہور جانے والی کسی لوکل بس کا انتظار کرنے لگا۔
 
کوئی دو گھنٹے بعد میں اکبر علی بیگ صاحب کا دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا۔ انہیں اپنی کہانی سنائی اور کہا کہ میرا یہ سامان اپنے پاس رکھ لیں، میں گھر جاتا ہوں، ان کو پیسے تو پہنچا دوں باقی بعد کی بات ہے۔ کھانے کا وقت تھا، انہوں نے مجھے روک لیا اور کہا جلدی نہ کرو رات یہاں گزار لو، کل چلے جانا۔ الیاس بیگ کے ساتھ باہر ٹہلنے کو نکلا، ویسے بھی وہاں کے لوگ مجھے جانتے تو تھے، ملتا ملاتا اپنے سابقہ دفتر تک پہنچا، وہاں میری جگہ ایک نوجوان لڑکا بیٹھا تھا، اس کا نام ادریس احمد بتایا گیا، وہ اچھے انداز میں ملا۔ اگلے دن صبح اسی کی وساطت سے میں نے طاہر محمود سے فون پر بات کی، کہنے لگا: ٹھہرو! کہیں نہ جانا، میں تمہیں ابھی فون کرتا ہوں۔ دس پندرہ منٹ بعد اس کا فون آیا: ایسا کرو ٹھوکر نیاز بیگ چلے جاؤ۔ وہاں لیاقت ٹھیکے دار کو تلاش کر لینا، اس کا دفتر سڑک پر ہی ہے۔
مجھے ٹھوکر تک پہنچنے میں ایک گھنٹہ بھی نہیں لگا ہو گا۔ لیاقت صاحب کو پی ڈبلیو ڈی کا ایک ٹھیکہ تازہ تازہ ملا تھا، اور اسے ایسے کسی بندے کی ضرورت تھی جو ریل سے آنے والے سیمنٹ کو سائٹ تک پہنچائے اور اس کا حساب رکھے۔ کام میرے لئے نیا تھا، مگر یوں کہیئے کہ اب کوئی بھی کام میرے لئے نیا نہیں تھا۔ تھوڑی دیر بعد میں پھر ریلوے سٹیشن کی طرف رواں تھا مگر منشی جی کی حیثیت میں۔ لیاقت صاحب سے ساتھ کام کرتے مجھے کوئی دس بارہ دن ہوئے تھے کہ میرے بڑے ماموں مجھے ڈھونڈتے ڈھانڈتے مجھ تک آن پہنچے۔ ان کے پاس میرے نام ایک سرکاری نوکری پر تقرری کا خط تھا جس کے مطابق حاضری کی آخری تاریخ دو دن پہلے نکل چکی تھی۔ میری کیفیت کیا ہوئی ہو گی، یہ بیان کرنے کی بات نہیں ہے۔
بہ این ہمہ میں نے آس کا دامن نہیں چھوڑا۔ لیاقت صاحب سے کہا کہ جاتا ہوں اگر کسی طور نوکری مل گئی تو آپ کو اطلاع دے دوں گا، ورنہ میرے لئے کوئی موقع ضرور رکھئے گا چاہے خدمت گار کا ہی کیوں نہ ہو۔ شام کے وقت تک میں پھر اپنی ماں کی دعاؤں کی چھاؤں میں تھا۔
 
مجھے یاد آیا کہ میں جب جلو موڑ سے ملازمت چھوڑ کر نکلا تھا تو الیاس بیگ کو اپنی میٹرک کی سند اور ڈومی سائل کی کچھ نقول دے دی تھیں کہ یار تم شہر میں بیٹھے ہو۔ کوئی نوکری دیکھو تو درخواست جمع کرا دینا، آگے جو اللہ کو منظور۔ ہو سکتا ہے اس نے درخواست بھیج دی ہو! مگر کوئی انٹرویو کال نہ انٹرویو؟ تو پھر مجھے نوکری کیوں کر مل گئی؟؟ چٹھی پر میرا نام ولدیت ڈاک کا پتہ حرف بہ حرف درست تھا۔ محکمے کا نام تھا ’’نیشنل رجسٹریشن آرگنائزیشن‘‘ میرے لئے نیا نام تھا، ادھر ادھر لوگوں سے پتہ چلا کہ ایک نیا محکمہ بنا ہے، جو ہر بندے کا شناختی کارڈ بنائے گا۔
 
آخری تدوین:
اگلے دن جو اس نوزائیدہ محکمے کے دفتر میں پہنچا تو ایک ایک انداز میں اس کی نوزائیدگی عیاں تھی۔
برامدے میں کرسیاں بے ترتیب بلکہ ایک دوسری کے اوپر پڑی ہیں، جیسے ابھی ٹرک سے اتاری گئی ہوں۔ میزیں ایک طرف اکٹھی پڑی ہیں۔ ایک کمرہ ڈھنگ سے آباد دکھائی دیتا ہے، ایک اور کمرے میں کچھ بابو بیٹھے گپیں ہانک رہے ہیں، کچھ لوگ برامدے میں کرسیاں آڑی ترچھی رکھے نیم پریشان نیم اداس بیٹھے ہیں۔ کچھ کے لباس اور پگڑیوں صافوں سے لگتا ہے کہ سائلین ہوں گے، ان کے چہروں پر بھی وہی کیفیت ہے۔ میں ان لوگوں کو دیکھتا ہوا، اپنی استطاعت تک چہرے پڑھتا ہوا ان کے بیچ ذرا سا رکتا ہوں اور پھر اس کمرے کی طرف بڑھتا ہوں جسے میں نے ابھی ’’ڈھنگ سے آباد‘‘ کہا۔ دوسرے کمرے سے ایک بظاہر اچھا بھلا بابو ’’ہے!!!!‘‘ کی آوز دیتا ہوا میری طرف بڑھتا ہے۔ میں رک جاتا ہوں، وہ خاصے درشت لہجے میں بولتا ہے: ’’اُدھر کدھر جا رہے ہو؟‘‘ مجھے اس کا یہ انداز بالکل گنواروں کا سا لگتا ہے، میں اسی کے لہجے میں جواب دیتا ہوں: ’’کیوں؟ کیا ادھر مستورات بیٹھی ہیں؟‘‘ وہ میرے غیر متوقع ردَ عمل پر کچھ کھسیانا سا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے: ’’نہیں، ادھر صاحب بیٹھے ہیں۔‘‘ اس کا طنطنہ آدھا گھٹ چکا ہے۔ میں کہتا ہوں: ’’صاحب کی طرف ہی تو جا رہا ہوں۔‘‘ جواب ملتا ہے: تم نہیں جا سکتے! ’’کیوں نہیں جا سکتا بھئی؟ کیا ادھر جانے کو ویزا چاہئے؟‘‘ تب تک میں کمرے کے دروازے تک پہنچ چکا ہوں۔ ایک خاصے مہذب دکھائی دینے والے صاحب سامنے کی کرسی پر بیٹھے ہیں اور میز کے اِس طرف دو اور شخص ہیں۔ مجھے کچھ ایسا لگتا ہے کہ پرانے لوگ ہیں اور کسی دوسرے محکمے سے یہاں کا نظام ترتیب دینے کو لائے گئے ہیں۔ ’’اندر آ سکتا ہوں؟‘‘ ’’جی، آئیے‘‘۔ میں ان صاحب کو اپنا لیٹر دکھاتا ہوں۔ وہ پڑھ کر کہتے ہیں: ’’اوہ آپ تو بہت لیٹ ہو گئے! ‘‘۔ میں کہتا ہوں: ’’یہ تو ہے! اب مجھے کیا کرنا ہو گا، کوئی سینئر اتھارٹی؟ جن سے میں کہہ سکوں کہ میں لیٹ کیوں ہوا، اور اس کا کوئی حل؟‘‘ ’’کوئی حل نہیں ہے، آپ کا موقع ضائع ہو گیا‘‘۔
میں باہر آ جاتا ہوں۔ وہی اجڈ میرے سامنے آن کھڑا ہوتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں مکاری جھانک رہی ہے؛ ’’بڑی جلدی مڑے ہو، کھوٹے پیسے کی طرح، ہوا کیا ہے، مجھے بتاؤ‘‘ ’’میں لیٹ ہو گیا‘‘ ’’کتنے دن؟‘‘ ’’تین دن‘‘ ’’تو کیا ہوا، صاحب کیا کہتے ہیں؟‘‘ ’’انہوں نے تو انکار کر دیا‘‘ ’’اوئے ہوئے ہوئے ‘‘ اس کی اس اوئے ہوئے میں ہمدردی یا ترحم کی بجائے کاٹ نمایاں ہے۔ اتنے میں ایک اور صاحب جو کسی قدر بہتر پوزیشن والے دکھائی دیتے ہیں۔ آ کر میرے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہیں: ’’کیا ہوا جناب؟ آپ کچھ پریشان دکھائی دے رہے ہیں!‘‘ ’’میں تین دن لیٹ ہو گیا ہوں، اور صاحب نے میری جائننگ لینے سے انکار کر دیا ہے‘‘ ’’لگتا ہے پہلے کہیں ملازمت کرتے رہے ہیں‘‘ ’’آپ نے کسی اندازہ لگایا؟‘‘ ’’لیٹ ہو گیا، جائننگ نہیں لی، یہ الفاظ بتا رہے ہیں‘‘ ’’جی، تو اب؟ اس کا کوئی حل ہے‘‘ ’’حل تو ہے مگر مشکل ہے‘‘۔ ’’ پھر بھی! پتہ تو چلے!‘‘ ’’لمبا چکر ہے جناب، ہم آپ کی جائننگ کرا دیتے ہیں آج ہی‘‘ وہ معنی خیز نظروں سے میری طرف دیکھتے ہیں۔ ’’کچھ خدمت کرنی پڑے گی‘‘ ان کی ذات کا اندرون چھلک پڑتا ہے۔ وہ بھی کسی دوسرے محکمہ سے یہاں ابتدائی انتظامات کے لئے آئے ہوئے ہیں۔ میں بھولا بن جاتا ہوں ’’مثلاََ کتنی اور کیسے‘‘ ۔ ’’زیادہ نہیں، بس یہی کوئی ہزار بارہ سو۔ باقی ہم پہ چھوڑ دیجئے، آپ کی آج جائننگ پکی!‘‘ آج کے حساب میں وہ ’’بس یہی کوئی اسی نوے ہزار‘‘ بنتے ہوں گے۔ ’’کوئی کرنے کی بات کیجئے صاحب! اور آپ کا نام؟‘‘ ’’میرا نام منیر ہے، کل تک کچھ کر لیجئے‘‘ میں ان سے جان چھڑانا چاہ رہا ہوں اس لئے قدرے ہٹ کر ایک کرسی پر بیٹھ جاتا ہوں۔ منیر صاحب وہاں آ دھمکتے ہیں۔ ’’ہزار بارہ سو بڑی رقم ہے مجھے پتہ ہے چلئے چھ سات سو کر لیتے ہیں‘‘ ظاہر ہے یہ سب کچھ بلند آواز میں تو ہو نہیں سکتا۔ ’’میں ایک بار صاحب سے مل لوں؟‘‘ ’’ہاں ہاں، کیا ہرج ہے!‘‘ وہ خوش دلی سے کہتے ہیں اور میں پھر صاحب کے کمرے میں چلا جاتا ہوں۔ وہ کسی قدر بیزاری سے پوچھتے ہیں، ’’جی اب کیا ہوا؟‘‘ ’’مجھے بتائیے کوئی اعلیٰ افسر مجھے ایکسٹینشن دے سکتا ہے؟ میں ان سے مل لوں‘‘۔ ’’ضرور ملئے! ہمارے ڈپٹی ڈائریکٹر صاحب لاہور کے اختیار میں ہے‘‘۔ میں شکریہ ادا کر کے دفتر سے نکلتا ہوں تو وہی منیر صاحب مجھے پھر چھاپ لیتے ہیں: ’’دیکھئے پریشان نہ ہوئیے یہ بہترین حل ہے۔‘‘ میں ان سے کہتا ہوں کہ ذرا گیٹ تک میرے ساتھ آئیں، وہ سمجھتے ہیں کہ کانٹا لگ گیا، خوشی خوشی میرے ساتھ گیٹ تک آتے ہیں۔ اس کی آنکھوں سے لالچ، سوال، شوق، اور کمینگی سب کچھ مکمل عیاں ہے۔ میں اُن سے کہتا ہوں: ’’مسٹر منیر اگر میرے پاس آج ہزار بارہ سو روپے نقد ہوتے تو میں اپنے گاؤں میں کریانے کی ہٹی کھول کر بیٹھ جاتا، آپ جیسے کسی کو ہڈی نہ ڈالتا۔‘‘ ان پر غصے سے زیادہ حیرت طاری ہو جاتی ہے۔ اور ان کے اس کیفیت سے نکلنے سے پہلے میں ان کی طرف ہاتھ ہلاتا ہوا، بس سٹاپ کی طرف چلا جاتا ہوں۔
 
گھر پر میں بتا کر آیا تھا کہ نوکری ہو گئی تو میں شام تک گھر پہنچ جاؤں گا، نہ ہوئی تو ساہی وال سے سیدھا لاہور چلا جاؤں گا۔ دیہاڑیاں تو ضائع نہ ہوں، نا۔ دوپہر تک میں ٹھوکر نیاز بیگ پہنچ چکا تھا، لیاقت صاحب نہیں تھے، وہاں کوئی اور صاحب بیٹھے تھے۔ میں نے ان کو بتا یا کہ میں جلوموڑ جا رہا ہوں۔ اور اومنی بس پر سوار ہو گیا۔ میری کیفیت اس وقت تک بھی اس بھوکے کی سی تھی جس کے آگے کھانا رکھ کر اٹھا لیا گیا ہو۔ جلو موڑ میں جہاں میرے غم گسار موجود تھے وہیں مجھ پر آوزے کسنے والے بھی تھے، وہ مجھے اپنا دوسرا گھر لگتا تھا۔ ایک اکبر علی بیگ تھے، ایک خان صاحب تھے ان کا نام ذہن میں نہیں، ایک ملک فیروز صاحب تھے، جن کے بارے میں مجھے پتہ تھا کہ وہ اور کچھ بھی نہ کریں میری ڈھارس ضرور بندھائیں گے۔ ایک غلام رسول ڈاک رنر تھا جس کی منافقانہ روش سے میں بھی بخوبی واقف تھا، وغیرہ وغیرہ۔ زیادہ لوگ ایسے تھے جو ملیں تو مسکرا کر ملتے ہیں اور بعد میں بھول بھال جاتے ہیں۔ ایک ’’تنویڑ اختڑ‘‘ تھا جو ’’لوہاڑی دڑواژے کے اندڑ ڑہتا تھا‘‘۔ شیخ سلیم وہاں سے جا چکا تھا۔
الیاس بیگ فی الواقع شاگردِ رشید ثابت ہوا۔ ایک تو وہ مجھے سر کہہ کر مخاطب کرتا، دوسرے جہاں تک اس سے جو بن پڑتا میرے لئے کر دیتا۔ اس سے بات ہوئی تو کہنے لگا: پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ وہ ڈپٹی ڈائریکٹر صاحب، ان کا نام باسط عزیز ہے، اچھے آدمی ہیں، اگر وہ کہیں گئے ہوئے نہیں تو کل شام کو ان سے مل لیں گے، شادمان میں رہتے ہیں۔ اس نے کسی کو فون کیا، پتہ چلا باسط صاحب دورے پر گئے ہیں پرسوں لوٹیں گے۔ میں نے لیاقت صاحب کے پاس جانا چاہا تو اس نے مجھے روک دیا: ’’آپ کو کم از کم ایک دن آرام کی ضرورت ہے، اور ہاں! تسلی رکھئے آپ کو ایکسٹینشن مل جائے گی، میں پورے اعتماد سے کہہ رہا ہوں۔‘‘
ہم لوگ تقریباََ ّعصر کے وقت باسط عزیز صاحب سے ملے۔ انہوں نے خاصے سوال کئے۔ درخواست کب دی تھی، انٹرویو کب ہوئے تھے۔ میں نے بتا دیا کہ صاحب مجھے تو انٹرویو کال ملی ہی نہیں، کوئی میرا ہم نام بھگت گیا ہو گا۔ کہنے لگے نوکری آسان مل گئی نا، گھر بیٹھ رہے کہ دیر بھی ہو گئی تو باسط عزیز کے پاس چلے جائیں گے سرجی غریب آدمی ہوں یہ ہے وہ ہے، کام کی ضرورت ہو تو کوئی دیر نہیں کرتا؛ وغیرہ۔ میں فی الواقع غصے میں آ گیا اور کہا: صاحب اللہ نے آپ کو عزت دی ہے، ایسی ہی عزت غریب کی بھی ہوتی ہے، اور ہر کوئی کسی کے آگے یوں ہی ہاتھ نہیں پھیلا دیتا۔ آپ ایکسٹینشن دے بھی سکتے ہیں اور انکار بھی کر سکتے ہیں۔‘‘ ہنس پڑے: او، یار توں تے غصے وچہ آ گیا ایں۔ پھر قلم کھول لیا : اچھا بتاؤ کب تک ڈیوٹی پر حاضر ہو جاؤ گے۔ احساسِ تشکر سے میرے الفاظ گڑبڑا گئے۔ میں نے بمشکل کہا کہ میں کل ہی ڈیوٹی پر پہنچ جاؤں گا۔ انہوں نے کہا میں تمہیں آج سمیت چار دن لکھ دیتا ہوں، جاؤ مزے کرو۔
 
اگلے دن سویرے آٹھ بجے میں دفتر میں حاضر تھا، اس دن والے صاحب کرسی پر نہیں تھے کوئی اور صاحب تھے، میں جائننگ لکھ کر لے گیا تھا۔ انہوں نے دستخط کر کے دونوں کاغذ ساتھ بیٹھے ہوئے ایک بابو کو دے دئے، اور مجھ سے مخاطب ہوئے: لگتا ہے آپ نے پہلے بھی کسی دفتر میں ملازمت کی ہے اور کچھ کچھ دفتری طریقے سے بھی آشنا ہیں۔ میں نے مختصراََ بتایا کہ مختلف جگہوں پر کام کرتا رہا ہوں کچھ کچھ سیکھا بھی ہے۔ انہوں نے مسکراہٹ پر اکتفا کیا اور کہا: ٹھیک ہے آپ کے ذمے کام لگاتے ہیں، ابھی کچھ دیر نئے آنے والے ساتھیوں سے گپ شپ لگا لیجئے۔
ہو یہ رہا تھا کہ اس دن سب کی ڈیوٹیاں لگنی تھیں۔ میزیں کرسیاں الماریاں لگ چکی تھیں، ضروری ریکارڈ، خالی درخواست فارم، کنٹرول رجسٹر وغیرہ مہیا ہو چکے تھے۔ میں بھی ایک برامدے میں ایک کرسی پر جا بیٹھا۔ وہی منیر صاحب میرے پاس سے گزر گئے اور وہ اجڈ شخص سرگوشی میں مجھ سے مخاطب ہوا۔ تم پھر آ گئے ہو؟ یوں تم نوکری نہیں لے سکتے، ہم تمہارے کام آئیں گے۔ میں منیر صاحب سے بات کر چکا ہوں وہ کہتے ہیں چلو تم غریب آدمی ہو دو سو میں تمہارا کام کر دیں گے۔ میں نے کہہ لیجئے جوابی حملہ کیا: یار بڑے پتھر دل ہو یار، کبھی کسی کے کام ویسے بھی آ جایا کرو، ایک آدھ بکرے کو چھری نہ بھی پھرے تو کیا ہے۔ اس نے نہایت مکروہ قہقہہ لگایا۔ عین اس وقت دو تین صاحبان بڑے صاحب کے دفتر سے نکلے، اور اپنے پاس موجود فہرستوں کے مطابق نو آمدگان کے نام پکارنے لگے کہ یہ صاحباں میرے ساتھ آئیں۔ ظاہر ہے ایک فہرست میں میرا نام بھی تھا۔ میں اٹھ کر چلا تو وہ بولا: بہت گھُنے ہو، تمہاری جائننگ ہو چکی؟ میں نے کہا بعد میں بتاؤں گا اس وقت کال ہے مجھے اپنے انچارج کے ساتھ جانا ہے۔ اس کی حالت دیدنی تھی۔ میں نے کہا: یار اپنا نام تو بتا دو۔ کہنے لگا: ملک ہدایت اللہ۔ میں نے بے ساختہ کہا: اللہ تمہیں ہدایت دے۔ اس کے منہ سے بھی بے اختیار نکل گیا: آمین!
 
آخری تدوین:
یوں مجھے پہلی باضابطہ سرکاری ملازمت (لوئر ڈویژن کلرک : نیشنل پے سکیل نمبر 5، ابتدائی بنیادی تنخواہ 150 روپے ماہوار) ملی۔ اس وقت تک میں ایک بیٹی کا باپ بن چکا تھا۔ بعد کے برسوں میں بھی مالی مسائل تو خیر پیش آتے رہے۔ مگر وہ مجھ پر یوں بھی قدرے سہل رہے کہ کڑوے کے بعد پھیکا بھی کھائیں تو میٹھا لگتا ہے۔
 
میرا تعلق مشہورِ زمانہ ’’ارائیں‘‘ برادری سے ہے۔ میرے بزرگ 1939-1945 کی جنگ کے زمانے تک سابقہ ضلع لاہور کے ایک دور دراز گاؤں موضع ’’بُوہ‘‘ میں آباد تھے۔ وہ لوگ زمین دار تھے۔ میرے دادا (شہاب الدین) کے ایک بھائی فوج میں صوبے دار ہوتے تھے۔ میں ان کا اصل نام کبھی نہ جان سکا۔ وجہ یہ ہوئی کہ اُن کے کسی کارنامے پر خوش ہو کر سرکار نے ان کو ’’چوغتہ خان‘‘ (اس کے درست ہجے میرے علم میں نہیں) کا خطاب دے دیا اور ساتھ ہی غالباََ چار مربعے یعنی سو ایکڑ زمین بھی عطا کی۔ میرے پردادا کی اپنی زمین بوہ میں تھی اور وہ لوگ اپنے زمانے کے مطابق اچھی زندگی بسر کر رہے تھے۔ اپنے چھوٹے بھائی (یعنی صوبے دار) صاحب کی اس خواہش پر کہ چل کر عطیے کی زمین آباد کرتے ہیں، سب کچھ وہیں چھوڑ چھاڑ کر میرے موجودہ آبائی گاؤں (چک نمبر 1۔ وَن ایل) میں چلے آئے ۔ دو تین سال بعد پاکستان بنا تو دادا جی اور صوبے دار صاحب اپنی جدی وراثت سے محروم ہو گئے۔ صورتِ حال کچھ یوں بنی کہ میرے دادا جی اپنے بھائی کے مزارع بن گئے۔ میں نے اپنے بچپن کے واقعات میں جن رشتے کے چچا کا ذکر کیا ہے وہ انہی صوبے دار صاحب کےاکلوتے فرزندِ ارجمند تھے۔ ان لوگوں نے اپنے معاملات کس طرح نمٹائے یا نہیں نمٹائے اس کی تفصیلات اب کے معنی ہو چکی ہیں۔ مختصر یہ کہ میرے دادا جی کی وفات کے وقت میرے ابا اسی چوہدری محمد عالم کی نو دس ایکڑ زمین بٹائی پر کاشت کر رہے تھے۔
دادا جی کی چار اولادیں تھیں۔ پہلے تین بیٹے: شیر محمد، فضل دین اور الٰہی بخش (میرے ابا) اور ان سب سے چھوٹی بیٹی جیواں بی بی۔ تایا شیر محمد کو میں نے نہیں دیکھا، وہ میری پیدائش سے پہلے اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔ وہ رینالہ خورد کے اُس پار ایک دوسرے گاؤں میں رہتے تھے، تاہم ان کا میل جول اپنے بھائیوں سے کم کم ہی رہا۔ان کے غالباََ تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ سب سے بڑے کا نام محمد ابراہیم تھا، پھر محمد سلیمان اور پھر محمد طفیل۔ محمد ابراہیم کی وفات بھی میری پیدائش سے پہلے کا واقعہ ہے۔
تایا فضل دین میرے لڑکپن تک زندہ تھے، ایک بہت زندہ دل شخصیت اور روتوں کو ہنسانے والے۔ رسمی تعلیم کا شاید تب رواج ہی نہیں تھا۔ تاہم تایا جی کو بزرگوں کے لطائف، قابلِ توجہ باتیں اور نکات بہت سارے تو ازبر تھے اور کچھ وہ اپنے پاس سے ملا بھی دیا کرتے۔ کبھی موج میں ہوتے تو شیخ سعدی اور علامہ اقبال کا نام لے کر فارسی شعر سنایا کرتے، جن کی صحتِ لفظی کا ذمہ کوئی نہیں لے سکتا۔ چائے کے بہت رسیا تھے اور جہاں کسی نے پوچھ لیا کہ تایا چائے بناؤں تو چھٹ کہہ دیتے: ایسی بات کا پوچھتے نہیں ہیں کر دیتے ہیں۔ انہوں نے چائے کی صفات پر ایک ’’شعر‘‘ بنا رکھا تھا، جسے چائے کی ہر پیالی پر دہراتے۔ اور پھر خود ہی اس کی تشریح بھی کر دیتے۔ ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتے کہ یہ یہ لفظ فارسی کا ہے اور اس کا یہ معنیٰ ہے۔ کہا کرتے چائے میں چھ صفات ہونی چاہئیں:
خوش رنگ بھی ہو، خوش شِیر بھی ہو، خوش قند بھی ہو
لب ریز بھی ہو، لب سوز بھی ہو، لب بند بھی ہو​
اس شعر کی لفظیات اور تشریح سے قطع نظر اُن کا اندازِ تشریح بہت دل چسپ ہوا کرتا تھا۔ تایا فضل دین نے دو شادیاں کیں پہلی بیوی سے دو بیٹے سراج دین اور نواب دین ہوئے، وہ فوت ہو گئی۔ میری دوسری تائی میرے لڑکپن تک زندہ تھیں، ان سے تایا کی کی باقی ساری اولاد ہوئی۔ ان کے دونوں بیٹے میرے بہنوئی بنے۔ دمِ تحریر بڑے مہر نور دین اور ان کی بیوی میری سب سے بڑی بہن وفات پا چکے ہیں، چھوٹے محمد شفیع حیات ہیں مگر ا ن کی بیوی میری دوسری بڑی بہن وفات پا چکی ہیں۔ ان دونوں بھائیوں کی پہلوٹی کی اولاد ایک کا بیٹا اور ایک کی بیٹی مجھ سے دو سال چھوٹے ہیں۔
مہر الٰہی بخش (میرے ابا جی) میں ساتویں جماعت میں تھا، جب کا سارا قصہ ’’خواب سے سانجھ تک‘‘ میں بیان ہو چکا۔ ہم کل چھ بہن بھائی تھے، سب سے بڑی دونوں بہنیں اللہ کو پیاری ہو چکیں تیسری بڑی بہن کی صحت بھی کئی برسوں سے چلتے پھرتے نظر آنے والی بات ہے۔ ان سے چھوٹے میرے بڑے بھائی احمد دین ہیں، پھر ایک بہن ہے اور میں سب سے چھوٹا ہوں۔ بھائی کی پانچ بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں سب بیاہے جا چکے سب سے چھوٹی بیٹی کا بھی رشتہ طے ہو چکا ہے۔ مجھ سے بڑی اور بھائی سے چھوٹی بہن بھی ایک مدت سے ٹھیک نہیں رہ رہیں۔ جس دن میرے چھوٹے بھتیجے کی شادی تھی، اس دن میری بہن لاہور کے ایک ہسپتال میں انتہائی نگہداشت کے شعبے میں پری تھیں۔ اللہ تعالیٰ اپنا کرم فرمائے۔ اب رہ گیا یہ فقیر تو جب تک دھُونی مر نہیں جاتی کہانی چلتی رہے گی، ساتھ ساتھ رہئے گا۔
 
آخری تدوین:
میں نے ایک خود نوشت پنجابی میں لکھنی شروع کی تھی، بس شروع ہی کی اور کچھ لکھا نہیں۔ اس روداد کا نام رکھا تھا ’’اِک سی مُنڈا‘‘۔
اپنے قارئین کو اس مُنڈے کے بچپن سے ملواتا ہوں، ذرا تیاری کر لوں۔
 
تین چار پانچ چھ سال کی عمر کے واقعات کسی کو بھی یاد نہیں ہوا کرتے اور وہ بھی جب انسان ساٹھ سے نکل چکا ہو! مجھے یہ باتیں کچھ تو اماں سے معلوم ہوئیں اور کچھ بڑی بہنوں سے، کہ میں چونکہ سب سے چھوٹا تھا تو سب کی توجہ میری طرف رہا کرتی ہو گی۔ کچھ کچھ گونج سی، کچھ ہیولے سے ایسے ہوتے ہیں کہ بندہ ان کو کوئی نام نہیں دے سکتا اور نہ ان سے کوئی واضح یاد داشت ترتیب دے سکتا ہے۔ ایسا ہوتا ضرور ہے کہ ’’کچھ تھا، ایسا‘‘! کچھ چہرے جیسے ذہن کے کسی کونے سے ابھر کر سامنے آتے ہیں، کچھ آوازیں، ان کی گونج اور اس کے ساتھ انسان پر کوئی خاص موڈ کا جھونکا سا آنا، جیسے اداسی، مسرت، خوف، ، اور پھر کچھ بھی نہیں۔ اس کی متعدد مثالیں ہیں۔
مجھے ایک بابا یاد آ رہے ہیں۔ سفید لباس، دونوں ٹانگوں سے معذور، دو ریڑھی جیسے پہیوں کی مدد سے گھسٹ گھسٹ کر چلتے ہوے، گرج دار آواز میں ناقابلِ اشاعت قسم کی گالیاں دیتے ہوئے، کبھی ہمارے گھر کبھی کسی دوسرے کے آ جا رہے ہیں۔ سب ان کی گالیوں کو برا جانتے ہیں پر، کوئی بھی برا نہیں مناتا۔ وہ ہمارے چھ سات گھروں کے مشترکہ بزرگ تھے، جس گھر میں کھانے کا وقت ہوتا، کھا لیتے، جہاں ان کو رات ہو جاتی اسی گھر میں وہیں بیٹھے بیٹھے سو جاتے اور گھر والے موسم کے مطابق چادر، کھیس، رضائی وغیرہ ان کے گرد لپیٹ دیتے۔ ان کا نام خدا بخش تھا، بابا خدائیا ان کی عرفیت تھی، اور وہ اس سے چِڑتے بھی بہت تھے۔ ایک بڑی اماں ہوتی تھیں۔ کمر مکمل طور پر جھکی ہوئی، ایک چھڑی کے سہارے چلتی پھرتی تھیں۔ وہ بھی مشترکہ بزرگوں میں تھیں، جہاں کھانے کا وقت ہو گیا، اسی گھر سے کھا لیتیں، مگر سوتی اپنے گھر جا کر تھیں۔ ایک اور بزرگ تھے، کسی دوسرے گاؤں میں رہتے تھے۔ کبھی کبھار ہمارے ہاں آیا کرتے، پروقار شخصیت کے حامل تھے، صاف ستھرے لباس میں ہوتے۔ اماں اور بابا دونوں ان کو بہت عزت دیا کرتے۔ ٹکتے کم ہی تھے، آئے چائے لسی وغیرہ پی، کچھ دیر بیٹھے باتیں کیں باتیں سنیں اور چلے گئے۔
 
آخری تدوین:
میرے والدین سیدھے سادے کاشت کار تھے۔ کسی نے بھی کبھی سکول کا منہ نہ دیکھا، مسجد کے ملا جی سے نورانی قاعدہ، پکی روٹی، یسرنا القرآن، آخری سیپارہ پڑھ لیا، نماز سیکھ لی، یہی کچھ کافی سمجھا جاتا۔ کوئی مولوی صاحب بہت کرتے تو چیدہ چیدہ بچوں کو تختی لکھنا سکھا دیتے۔ اماں نے بچپن میں قرآن شریف کے علاوہ پنجابی پڑھنا سیکھ لیا تھا، لکھ نہیں سکتی تھیں۔ عصر کے وقت محلے کی چھوٹی بچیاں اماں کے پاس ’’سبق پڑھنے‘‘ آیا کرتی تھیں۔ کوئی نورانی قاعدے پر، کوئی یسرنا القرآن پر اور کوئی پہلے سیپارے پر۔ میں بھی ان کے ساتھ بیٹھ جاتا اور اماں مجھے بھی عربی الف بے پڑھانے لگیں۔ اللہ تعالیٰ نے ذہن اچھا دیا ہے، مجھے سبق جلدی یاد بھی ہو جاتا اور میں ’’ٹوکویں حرف بھی اٹھا لیتا‘‘۔ یعنی بیچ بیچ میں پوچھا جاتا، جیم کون سا ہے، نون کون سا ہے، شین کون سا ہے یا یہ حرف کیا ہے، یہ کیا ہے وغیرہ تو میں ٹھیک بتا دیا کرتا۔ مجھے بھی دوسرے بچوں کی طرح سکول سے پہلے مسجد بھیجا جانے لگا۔ مولوی صاحب بھی یہی قاعدے پڑھاتے تھے۔ نماز، دعائیں، الحمد شریف، چاروں قل، اور کچھ مزید آخری سورتیں اور دعائیں سب یاد ہو گئیں۔ اور میں کئی ساتھیوں کو پیچھے چھوڑ کر پارہ الف لام میم تک پہنچ گیا۔ پہلا سیپارہ پورا بھی نہیں ہوا تھا کہ مولوی صاحب نے کہہ دیا کہ تم خود پڑھنے کے قابل ہو چکے ہو، روز اپنا سبق سنا دیا کرو، جتنا درست سنا سکتے ہو۔ ساتھ ساتھ یہ بھی چلتا رہا کہ گھر پر جب بچیاں سبق یاد کر رہی ہوتیں تو میں ان کے بیچ پھرتا رہتا۔ کہیں کسی بچی نے غلط پڑھ دیا تو میں اپنی عمر کے عین مطابق دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر اچھلتا اور شور مچا دیتا : ’’غلط، غلط، غلط‘‘۔ اماں نے کئی بار مجھے منع کیا کہ یوں نہ کیا کرو بچیاں سبکی محسوس کرتی ہیں، مگر میں باز نہ آتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ شعور آتا گیا، میں سکول میں داخل ہو گیا تو میرا یہ انداز ہوتے ہوتے خود ہی ختم ہو گیا۔
پنجابی شاعری کی کچھ کتابیں گھر پر رکھی تھیں، جن میں مولوی عبدالستار کی اکرامِ محمدی اور مجموعہء اشعار، مولوی غلام رسول کی احسن القصص اور قصص الانبیاء، قابلِ ذکر ہیں۔ رات کو گھر کے کام کاج سے فارغ ہو جاتے تو کبھی ابا کہہ دیا کرتے، اور کبھی کوئی دوسرا فرد، اور کبھی اپنی مرضی سے وہ انہی کتابوں میں سے کوئی کتاب لے کر بیٹھ جاتیں اور گنگنانے کے انداز میں پڑھا کرتیں۔ میرا تیسرا معمول یہ تھا کہ جب اماں کتاب پڑھ رہی ہوتیں تو میں اُن کے پہلو سے لگ کر بیٹھ جاتا اور پورے غور سے دیکھا کرتا کہ ان کی انگلی کس سطر پر پھر رہی ہے اور وہ کیا پڑھ رہی ہیں۔ پھر وہیں بیٹھا بیٹھا سو جاتا۔
میری سب سے بڑی بہن کے کہنے کے مطابق میں اکثر ضد کیا کرتا کہ مجھے وہ بیان پڑھ کر سنائیں جس میں ایک چھوٹے سے بچے کی ماں مر جاتی ہے۔ (اُمِ رسول سیدہ آمنہ رحمہا اللہ کی رحلت بمقام ابواء)۔ اماں میری خواہش پر وہ پڑھا کرتیں اور میں بلک بلک کر رویا کرتا۔ دوسرے چوتھے روز پھر کہتا کہ وہی سنائیں جس میں ایک بچے کی ماں مر جاتی ہے۔
 
Top