میں تیسری جماعت میں ہوا تو اماں کی لائبریری کی ساری کتابوں سے مانوس ہو چکا تھا، روانی سے پنجابی شعر پڑھ لیا کرتا۔ اب کے ’’کتاب سنانے‘‘ کی ذمہ داری کچھ کچھ مجھ پر بھی آن پڑی۔ ادھر سکول کے ہیڈماسٹر فتح محمد صاحب نے مجھے بزمِ ادب کے جمعہ وار اجلاسوں میں باقاعدگی سے شریک ہونے کا حکم صادر کر دیا۔ میں کبھی تو اپنے نصاب سے اور کبھی چوتھی پانچویں کے نصاب سے کوئی نظم یاد کر کے سنا دیتا، کبھی کوئی لطائف کبھی کچھ۔ بزم میں بھی ظاہر ہے اپنے ہی سکول کے لڑکے اور اساتذہ ہوتے لیکن شاید وہ جسے ’’سٹیج کا خوف‘‘ کہتے ہیں، وہ اپنا کام دکھاتا تھا۔ شروع شروع میں زبان لڑکھڑا جاتی اور کبھی تو ٹانگیں بھی کانپنے لگتیں۔ ہوتے ہوتے یہ خوف جاتا رہا۔ میں اچھا خاصا ذہین تھا مگر میرے نمبر کبھی بھی امتیازی نہیں ہوئے۔ کلاس میں میرا شمار چوٹی کے چار پانچ لڑکوں میں ہوتا تو امتحان میں درمیانے طلباء میں۔ میں اس راز کو کبھی نہیں پا سکا، لکھائی بھی میری اگرچہ خوش خطی نہیں کہلا سکتی، تاہم آسانی سے پڑھی جانے والی ضرور تھی۔