گھر کے ماحول کا اثر خاص طور پر ان برسوں کا جب آپ کی شخصیت کی تعمیر ہو رہی ہوتی ہے زندگی بھر رہتا ہے۔ میرے بھائی اور بہنوں کا کہنا ہے کہ مجھ میں ابا کی سی عادات اور مزاج پایا جاتا ہے، وہی اوپر سے سخت اور اندر سے نرم، اخروٹ کی صورت کڑوا میٹھا ملا جُلا۔ اور علم دوستی مجھے اماں سے ملی۔
 
میں تیسری جماعت میں ہوا تو اماں کی لائبریری کی ساری کتابوں سے مانوس ہو چکا تھا، روانی سے پنجابی شعر پڑھ لیا کرتا۔ اب کے ’’کتاب سنانے‘‘ کی ذمہ داری کچھ کچھ مجھ پر بھی آن پڑی۔ ادھر سکول کے ہیڈماسٹر فتح محمد صاحب نے مجھے بزمِ ادب کے جمعہ وار اجلاسوں میں باقاعدگی سے شریک ہونے کا حکم صادر کر دیا۔ میں کبھی تو اپنے نصاب سے اور کبھی چوتھی پانچویں کے نصاب سے کوئی نظم یاد کر کے سنا دیتا، کبھی کوئی لطائف کبھی کچھ۔ بزم میں بھی ظاہر ہے اپنے ہی سکول کے لڑکے اور اساتذہ ہوتے لیکن شاید وہ جسے ’’سٹیج کا خوف‘‘ کہتے ہیں، وہ اپنا کام دکھاتا تھا۔ شروع شروع میں زبان لڑکھڑا جاتی اور کبھی تو ٹانگیں بھی کانپنے لگتیں۔ ہوتے ہوتے یہ خوف جاتا رہا۔ میں اچھا خاصا ذہین تھا مگر میرے نمبر کبھی بھی امتیازی نہیں ہوئے۔ کلاس میں میرا شمار چوٹی کے چار پانچ لڑکوں میں ہوتا تو امتحان میں درمیانے طلباء میں۔ میں اس راز کو کبھی نہیں پا سکا، لکھائی بھی میری اگرچہ خوش خطی نہیں کہلا سکتی، تاہم آسانی سے پڑھی جانے والی ضرور تھی۔
 
میں نے پانچویں کا امتحان پاس کیا تو ہائی سکول میں داخلے کا مرحلہ آیا۔ ان دنوں داخلے ایسے مشکل نہیں ہوتے تھے، جیسے اب ہیں۔ شہر (رینالہ خورد) میں دو ہائی سکول تھے، ایک گورنمنٹ ہائی سکول جسے عوامی زبان میں ’’وڈا سکول‘‘ کہا جاتا تھا، ایک ملت ہائی سکول (پرائیویٹ) تھا جسے ’’چھوٹا سکول‘‘ کہتے تھے۔ فیسیں دونوں کی برابر تھیں، فرق وردیوں اور دیگر مختلف معاملات میں تھا۔ وڈے سکول میں خاکی پتلون اور سفید شرٹ تھی اور چھوٹے سکول میں ملیشیا کی شلوار قمیض۔ ابا جی نے اپنے حالات کے پیشِ نظر مجھے چھوٹے سکول میں داخلہ دلایا۔
چھٹی سے آٹھویں تک لازمی مضامین کے علاوہ دو اختیاری مضامین تھے جن میں سے ایک پڑھنا ہوتا تھا: فارسی یا ڈرائنگ۔ سچی بات ہے کہ میں ڈرائنگ پڑھنا چاہتا تھا مگر اس میں اخراجات بہت تھے۔ بڑا سا ڈرائنگ بورڈ، بڑی سی ایک ٹی، پلاسٹک شیشے کی ڈی اور دیگر چیزیں، خصوصی طور پر بنائی گئی پرکار؛ یہ سارا کچھ تو ایک بار لینا تھا، اس کے بعد رواں خرچہ ڈرائنگ شیٹ، خاص روشنائی، نبیں، پنسلیں سکے اور پتہ نہیں کیا کچھ۔ یہ خرچہ اٹھانا ابا کے بس میں تھا ہی نہیں، سو میں نے اپنی خواہش کو دبا دیا اور فارسی اختیار کر لی۔ اردو اور فارسی دونوں کے استاد تھے: ماسٹر کرم بخش جوش صاحب۔ کسی سرکاری سکول سے ریٹائر ہو کر ملت ہائی سکول میں ملازم ہو گئے۔ اردو ان کی مادری زبان تھی۔ ان کا پڑھانے کا طریقہ بہت دل نشین تھا، انہیں مشکل نکات کو آسان بنا کر پیش کرنے کا فن آتا تھا۔
میری فارسی سے دل چسپی کے پیچھے ماسٹر جوش صاحب کی محنت اور پیشہ ورانہ مہارت کار فرما ہے۔ اردو کے تلفظ ہجوں اعراب قواعد جو پرائمری کی سطح پر ماسٹر فتح محمد صاحب کی شفقت سے لبریز محنت نے ازبر کرائے تھے، جوش صاحب کی محنتوں، مہارت اور لگن نے ان کو مزید نکھار بخشا۔ میرا ہر لفظ ان دونوں علمی بزرگوں کے لئے اظہارِ سپاس کا مقروض ہے۔
 
ہائی سکول کے پانچ سالوں کے دوران ایک ہی اہم واقعہ پیش آیا جو میری زندگی کی راہ ہی بدل گیا اور نئی راہوں پر ڈال گیا؛ یعنی ابا کی رحلت، جس کا ذکر پہلے کر چکا ہوں۔ میٹرک کا امتحان دے چکنے سے پہلی باضابطہ سرکاری ملازمت تک کے واقعات بھی بیان ہو چکے۔
 
اماں کو غیر معمولی محنت اور غموں نے توڑ پھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ میرے برسرِ روزگار ہونے سے ان کے بہت سارے تفکرات ختم ہو گئے تاہم وہ صرف میری والدہ ہی تو نہیں تھیں، میرے پانچ بہن بھائی اور تھے، میرے ایک ماموں تھے (محمد ابراہیم) جو اماں سے چھوٹے تھے۔ ان کے حالات پر بھی اماں کا دل جلا کرتا، ہزار روگ تھے جو اُن کی جان کو جانے کب سے کھا رہے تھے۔ بہ این ہمہ انہوں نے زندگی کو جس صبر و تحمل اور وقار سے گزارا یہ شاید ان ہی کا حصہ تھا۔ میری شادی ہو گئی، ملازمت مل گئی، میں دو بیٹیوں کا باپ بن گیا اور اماں کی دعائیں ساتھ ساتھ پھیلتی گئیں۔
آخر ایک دن معمولی سا بخار بہانہ بنا جو دھڑکتی ہوئی دعاؤں کے اس سرچشمے کو بخارات میں بدل گیا۔ یہاں آ کر لفظ ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔
سانس وہ جس کو آہ کہتے ہیں
دل کی گہرائی سے نکلتی ہے
دل کی گہرائی میں اترتی ہے
کسی زمانے میں ایک افسانہ لکھا تھا ’’آخری جزیرہ‘‘۔ موقع ملا تو پیش کر دوں گا۔ ان شاء اللہ۔
 
میں تو نوکری پر ہوتا تھا، بیوی کو گاؤں میں اماں کے پاس چھوڑا تھا کہ انہیں ہمہ وقت توجہ کی ضرورت تھی۔ ادھر بیوی کو بھی اطمینان تھا کہ بزرگوں کے دامانِ شفقت میں ہے۔ اماں فوت ہو گئیں تو وہ خود کو اور بچیوں کو غیرمحفوظ محسوس کرنے لگی۔ ساہی وال میں مناسب کرائے کا مکان تلاش کر کے میں نے گھر کا بھاری سامان ماماجی کے ہاں رکھوایا اور بیوی بچوں کو ساہی وال لے گیا۔ اس کے بعد مجھے بھی اکیلا رہنے کی عادت نہیں رہی اور بیوی اور بچوں کو بھی۔ پھر رزق کی تلاش جہاں مجھے لے جاتی ہفتے دس دن بعد گھر والوں کو بھی لے جاتا۔ ساہی وال میں رہتے ہوئے مجھے تین چار بار کرائے کے گھر بدلنے پڑے، پھر ہم لوگ ٹیکسلا چلے آئے جہاں میرے درجے کے مطابق مجھے سرکاری گھر مل گیا۔
 
آخری تدوین:
بے روزگاری کے دنوں میں بھی میرا اور کتاب کا ساتھ نہیں چھوٹا تھا۔ مزدوریاں اور دیہاڑیاں کرتے میں ساتھ ساتھ پڑھنا بھی جاری رہا۔ ایف اے کی تیاری کی اور میٹرک کے پانچ سال بعد 1973 میں ایف اے پاس کر لیا۔ انہی کڑے دنوں میں کبھی ٹائپنگ بھی سیکھی تھی اور انگریزی کے علاوہ اردو شارٹ ہینڈ بھی۔ ان کوششوں کا ثمرہ مجھے بعد میں ملا اور بحمد للہ بہت اچھا ملا۔ پہلے مرحلے میں نہانے کو کالے صابن کی جگہ لائف بوائے نے لی تو اس مرحلے میں لائف بوائے کی جگہ کیپری نے لے لی۔ کھانے پینے میں بھی کچھ کچھ نخرے آنے لگے، یہاں تک کہ ’’لال کُکڑ‘‘ کو بھول بھال گیا۔ کپڑے بھی روز استری ہونے لگے۔
پرانی بات یاد آ گئی۔ اب تو دیہات میں بھی ویسا نہیں رہا، تب یہ ہوتا تھا کہ جن لوگوں نے بھینسیں رکھی ہوتی تھیں ان کے گھروں میں دودھ جمایا جاتا، بلویا جاتا، مکھن نکالا جاتا اور گھڑوں کے حساب سے لسی بنتی۔ ضرورت مند گھروں کی عورتیں بھی ان لوگوں سے لسی لے جاتیں۔ آزمائش کے برسوں میں کتنی ہی بار یہ نوبت آئی کہ آٹا تو ہے، سالن وغیرہ کچھ نہیں۔ کُونڈی میں سرخ مرچ کوٹ لیتے اور کسی چاچے ماسی کے گھر سے لائی گئی لسی میں تھوڑی سی مرچ اور نمک ملا کر روٹی کھا لیتے اور اللہ کا شکر بجا لاتے۔ کوئی پوچھ لیتا کہ بہن بیٹی آج کیا پکا ہے تو کہتے ’’لال کُکڑ‘‘ (سرخ مرغا) پکا ہے۔
 
لال ککڑ کو آپ ریڈی میڈ سالن بھی کہہ سکتے ہیں۔ اُس دَور کے غریبوں کے دسترخوان پر ہوتی تو ایک ہی ڈش ہوا کرتی۔ کچھ ڈشوں کے بارے میں بتاتا چلوں۔
گھونگنیاں: گندم یا مکئی کے دانے اچھی طرح دو کر ان کو پانی میں اتنا ابالتے کہ کھانے کے قابل ہو جاتے۔ ان کو پانی سے نکال کر کچھ دیر کسی سوراخ دار برتن میں رکھتے کہ پانی نچڑ جائے۔ اس پر حسبِ توفیق شکر یا نمک ڈال کر کھا لیتے۔
مسی روٹی: پیاز، مرچیں، سبز دھنیا، پودینہ، جو میسر ہوتا باریک کتر کر اور نمک حسبِ ذائقہ آٹے میں گوندھ لیتے، تندور پر روٹی پکا لیتے، لسی کے ساتھ کھاتے۔
چھلیاںاور دانے: مکئی کے بھٹے اگر نرم ہوتے تو ان کو دہکتے کوئلوں پر بھون لیتے۔ اگر پکے ہوئے دانوں والے ہوتے تو پانی میں اچھی طرح ابال لیتے اور نمک لگا کر کھاتے۔ چنے، مکئی، گندم، جوار، باجرہ یا جو انداج میسر ہوتا اس کے دانے ریت میں بھون لیتے اور گڑ کے ساتھ کھاتے۔ یا انہی بھنے ہوئے دانوں کو گڑ کے گاڑھے شیرے میں تھوڑا سا پکاتے کہ گڑ ان کے ساتھ اچھی طرح جڑ جائے۔ اس کی چھوٹی چھوٹی پِنیاں بنا کر سُکھاکر رکھ لیتے، یہ سفر کے دوران بہت مزے کا کھانا ہوتا۔
سالن: پتلے شوربے والی مسور، مونگ، ماش، یا چنے کی دال، آلو؛ عید وغیرہ کے موقع پر اس کو رسیلا بنانے کے لئے پاؤ بھر گوشت کی باریک بوٹیاں بھی پکا لیتے۔ سبزیاں سوائے بھنڈی اور کریلے کے سب شوربے والی پکاتے۔ مہمان آ جاتے تو اس میں اور پانی ڈال لیتے اور ساتھ پیاز کاٹ لیتے۔ پاؤ بھر پیاز میں حسبِ ذائقہ سرخ مرچ اور نمک ملا کر تڑکا لگا لیتے اور اس میں مرغی کے دو انڈے ڈال کر مزید پکا لیتے، جو گھر بھر کو کافی ہوتا۔
ریڈی میڈ سالن: سالم پیاز کو ہاتھوں میں لے کر زور سے دباتے تو وہ پھِنس جاتا۔ اس کو کھول کر سوکھے چھلکے اتار دیتے، اچار یا گڑ موجود تو سالن تیار۔ سرخ یا سبز مرچ میں سبز دھنیا، پودینہ، لہسن یا ادرک اور نمک ملا کر کوٹ لیتے۔
بچوں کے لئے مزے دار چیزیاں: گندم، چنے، مکئی کے بھنے ہوتے دانے ملا کر باریک کوٹ لیتے، اور شکر ملا کر بچوں کو دیتے جو پانی یا لسی کے گھونٹ گھونٹ کے طور پر کھاتے۔ موٹے چاول چھان اور دھو کر نمک اور میٹھا سوذا ملے پانی میں پہر بھر بھگو دیتے۔ پھر پانی اتار دیتے اور چاولوں کو کسی کڑاھی وغیرہ میں بھون لیتے، یہ کئی دن تک خراب نہیں ہوتے تھے۔
مشروبات: موسم کے مطابق سادہ گھڑے کا پانی، شکر یا گڑ کا شربت، ستو، لسی، کبھی مل جائے تو دودھ میں شکر اور بہت سا پانی ملا کر مہمانوں کی تواضع کرتے۔ موسمِ گرما میں لسی پتلی کر کے اس میں شکر ملا کر پیتے۔ کچی لسی بھی بناتے۔
مہمانوں کے لئے اور تہواروں پر سوجی کا گڑ والا حلوہ، میٹھے چاول، میٹھی تندوری روٹی، آلو گوشت یا دال گوشت وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا۔
۔۔۔ اور بھی ایسی کئی چیزیں ہوا کرتی تھیں۔ وہ فطری لذتیں آج کل کہاں!!!
 
شناختی کارڈ کے محکمے میں ایک سال پانچویں سکیل میں کلرک رہا، پھر وہیں آٹھویں سکیل میں سٹینو بن گیا۔ تقریباََ دو سال بعد یونیورسٹی کالج آف انجینئرنگ ٹیکسلا میں جس کا کیمپ آفس ساہی وال میں تھا، دسویں سکیل میں جونئر سٹینوگرافر ملازمت اختیار کر لی۔ یہ اپریل 1977 کی بات ہے۔ تب ٹیکسلا میں کالج کی تعمیر ہو رہی تھی۔ فروری 1978 میں جب اتنی عمارات، ہاسٹل اور رہائشی مکانات تعمیر ہو گئے کہ کام چلایا جا سکتا تھا، ہم لوگ پورا لاؤ لشکر یہاں (ٹیکسلا) چلے آئے۔ دوسرے لوگوں کے ساتھ مجھے بھی بتا دیا گیا تھا کہ مکان نمبر فلاں آپ کو الاٹ کر دیا گیا ہے، ٹیکسلا پہنچ کر فلاں دفتر سے مکان کی چابی لے لیجئے گا۔
اسی انجینئرنگ کالج کو اکتوبر 1993 میں خود مختار یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ٹیکسلا کی حیثیت دے دی گئی اور ڈاکٹر کے ای درانی پہلے وائس چانسلر مقرر ہوئے، اور کالج کے جملہ ملازمین نوزائیدہ یونیورسٹی کے باضابطہ ملازمین قرار پائے۔
 
آخری تدوین:
یہاں ایک اور شخصیت پروفیسر عبدالوہاب خان کا خاص طور پر ذکر کرنا چاہوں گا۔ خان صاحب انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کے الیکٹریکل انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ میں پروفیسر تھے۔ یونیورسٹی کے توسیعی ترقیاتی پروگرام کے مطابق ٹیکسلا (ضلع رالپنڈی) میں ایک ذیلی انجینئرنگ کالج کا منصوبہ منطور ہوا۔ زمین وغیرہ خرید لی گئی اور تعمیراتی کام شروع کر دیا گیا۔ یونیورسٹی میں طلبا کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیشَ نظر فیصلہ کیا گیا کہ جب تک ٹیکسلا میں بنیادی ضرورت تک کا تعمیراتی کام مکمل نہیں ہو جاتا، کالج میں داخلے کر کے پڑھائی شروع کر دی جائے۔ گورنمنٹ پولی ٹیکنک انسٹی ٹیوٹ ساہی وال کے پاس کچھ فاضل عمارتیں موجود تھیں، جنہیں 1975 میں کرائے پر حاصل کیا گیا اور پہلے بَیچ 1975 انٹری کا داخلہ وغیرہ ساہی وال کے لئے عمل میں لایا گیا۔
خان صاحب کو کالج کا پہلا پرنسپل بنایا گیا اور یونیورسٹی کے کچھ تجربہ کار اساتذہ اور دفتری اہل کاروں کو ساہی وال ٹرانسفر کر دیا گیا۔ محکمہ شناختی کارڈ کی طرح یہ بھی نیا ادارہ تھا، نئے اداروں میں جہاں مسائل زیادہ ہوتے ہیں وہیں ملازمین کے لئے ترقی کے مواقع بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کا ایک اچھا تجربہ مجھے ہو چکا تھا۔ کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے پروفیسر عبدالوہاب خان کو خاصے وسیع اختیارات حاصل تھے۔
انٹرویو لینے والی ٹیم چار یا پانچ افسروں پر مشتمل تھی اور بڑی کرسی پر ایک بہت ایک ایسی شخصیت براجمان تھی جسے دیکھ کر ہی میرے جیسا شخص مرعوب ہو جائے۔ انٹر ویو زیادہ تر اسی شخصیت نے چلایا، دیگر صاحبان ضمنی قسم کے سوالات ہی کرتے رہے۔ انٹرویو خاص دل چسپ اور دماغ کی چولیں ہلا دینے والا تھا۔ میرا شارٹ ہینڈ کا ٹیسٹ بھی ہوا، جس کے بعد مجھے انتظار کرنے کو کہا گیا۔اتفاق سے مجھے وہاں ایک پرانے جاننے والے مل گئے؛ محمد انور وٹو جو آٹھویں سکیل میں سٹینوٹائپسٹ تھے۔ کوئی ایک گھنٹے بعد مجھے بلایا گیا۔ وہی بارعب شخصیت (خان صاحب) اور ایک اور صاحب موجود تھے، باقی جا چکے تھے۔ خان صاحب نے خوش دلی کے انداز میں بتایا: ہا! جی! کمیٹی نے آپ کی سفارش کر دی ہے۔ کہئے آپ کتنے دنوں میں ڈیوٹی پر آ سکتے ہیں۔ مجھے ظاہر ہے بہت مسرت ہوئی، میں نے بتایا کہ قواعد کے مطابق مجھے نوٹس پیریڈ وغیرہ کے لئے پندرہ دن درکار ہوں گے ، احتیاطاََ بیس پچیس دن کی گنجائش رکھ لیں۔ میں ان کا شکریہ ادا کر کے باہرنکل آیا۔ وہ تو مجھے بعد میں پتہ چلا کہ خان صاحب کی خوش دلی اس دن اور میرے لئے خاص نہیں تھی، وہ تو ان کے مزاج کا حصہ تھی۔
 
رسمی مراحل طے کرنے کے بعد میں نے کالج میں حاضری رپورٹ پیش کر دی۔ اور کام سنبھال لیا، جو میرے لئے نیا نہیں تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ کالج میں خالص سرکاری دفتروں جیسی گھٹی گھٹی نہیں بلکہ کھلی فضا تھی جس میں کام کرنے والے شخص کی صلاحیتوں کو نکھار ملتا ہے۔ ایک دن میں نے انور وٹو سے پوچھا: یار، ایک بات بتاؤ میں باہر سے آ گیا، تم یہاں پہلے سے موجود تھے، تم نے کیوں درخواست نہیں دی۔ وہ ہنس کر کہنے لگا: میں نے کون سا یہاں رہنا ہے! میں تو کوئی مناسب موقع ملا تو کہیں اور نکل جاؤں گا۔ میں اس کی بات کچھ سمجھا، کچھ نہیں سمجھا تاہم کریدنا مناسب خیال نہیں کیا۔
جوں جوں وقت گزرتا گیا میری ذمہ داریاں بڑھتی گئیں۔ میں اپنی تمام ذمہ داریوں میں براہ راست خان صاحب کو جواب دِہ تھا، جن کا رویہ افسرانہ کی بجائے پدرانہ تھا۔ وہ ہر ایک ملازم سے یوں پیش آیا کرتے جیسے بزرگ اپنے بچوں سے۔ کسی کے بھی کام میں کوئی کوتاہی پاتے تو اسے بلاتے اور سمجھاتے۔ عام طور پر کہا کرتے: اجی صاحب، ایک ذرا سے مفاد کے لئے اپنی کمائی کو خراب کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ انسان اس کمائی کا حق ادا کرنے کی کوشش تو کرے۔ جائیے اور اپنے کام پر توجہ دیجئے۔ ’’اجی صاحب!‘‘ ’’ہا، جی‘‘ یہ دو الفاظ وہ اکثر بات کے شروع میں بولا کرتے تھے۔
 
خان صاحب بلاشبہ ایک بہت عظیم انسان تھے، ایسے لوگ کم کم پائے جاتے ہیں۔
مجھے سات برس تک ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ ان کی رہائش کیمپس سے باہر تھی مگر دور نہیں۔ ٹیکسلا شہر ہے ہی کتنا! ایک بڑا قصبہ کہہ لیجئے۔ وہ گھر سے کالج آتے تو پہلے اپنے ڈیپارٹمنٹ میں جاتے جس کے وہ چیئرمین بھی تھے۔ پھر دفتر آتے میں انہیں دس بج جاتے، یہ معمول تھا۔ پھر وہ دفتر میں جم کر بیٹھتے، اور دیر تک بیٹھتے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ کالج کا سارا عملہ چھٹی کر کے گھر جا چکا ہے۔ ایک پرنسپل صاحب، ایک ان کا چپڑاسی اور ایک پی اے بیٹھے ہیں۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
 
پروفیسر عبدالوہاب خان کے معمولات سے کچھ مچالیں پیش کرتا ہوں۔

۔1۔
صاحب نے بیل دی، نائب قاصد حاضر ہو گیا، کہا: ’’پانی پلائیے صاحب! ٹھنڈا، یخ!‘‘ ۔ وہ پانی لے آیا، اور رکھ کر چلا گیا، ایک پلیٹ گلاس کے نیچے ہے، ایک اوپر ہے۔ صاحب کام میں مصروف رہے، پندرہ بیس منٹ بعد خیال آیا کہ ہم نے پانی منگوایا تھا۔ گلاس اٹھایا اور پی گئے۔ یہ بھی نہیں کہا کہ یہ تو گرم ہو چکا اور لے آئیے۔ ۔۔ ایسا ہی اکثر چائے کے ساتھ ہوتا۔ کہتے: ’’چائے پلوائیے جی! گرما گرم!‘‘ چائے آ گئی، وہ بھی ویسے ہی کہ ایک پلیٹ میں کپ رکھا ہے ایک سے ڈھکا ہوا ہے۔ کام میں لگے ہیں تو چائے پڑی پڑی ٹھنڈی ہو گئی، اس پر پپڑی جم گئی، پپڑی کو ہٹایا اور ایک دو گھونٹ میں چائے پی لی۔ نائب قاصد سے نہیں کہا کہ یہ ٹھنڈی ہو گئی اور بنا لائیے۔

۔2۔
کالج کے کسی ملازم یا طالب علم کو (دو چار لوگ مستثنیٰ تھے) کبھی تم یا تو کہہ کر نہیں پکارا۔ ہمیشہ ’’آپ‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے۔ کسی سے کوئی بڑی غلطی ہو گئی، کام میں بہت کوتاہی ہو گئی، بہت ہوا تو کہا: ’’یوں کرتے ہیں؟ جائیے اس کو ٹھیک کر کے لائیے! فوراََ ‘‘۔ چھوٹی موٹی غلطی پر گرفت نہیں کرتے تھے۔

۔3۔
ایک دن کلاس روم سے آئے، ہاتھوں پر، گاؤن پر چاک کی سفیدی نمایاں! ایک جونئر استاد جو میرے پاس ان کے انتظار میں بیٹھے تھے اٹھے اور کچھ ایسا جملہ کہا کہ: سر یہ تو سارا کچھ گرد گرد ہو رہا ہے؛ وغیرہ۔ بولے: ’’اجی، یہ تو استاد کی شان ہے، ہم کلاس میں پڑھانے کو جاتے ہیں اپنا لباس دکھانے کو نہیں‘‘ وہ استاد بے چارے اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔
 
خان صاحب کی شخصیت بہت باوقار اور کسی حد تک بارعب تھی۔ کوئی شخص ان کے سامنے یوں ہی منہ نہیں کھولتا تھا، بولتا تو سوچ کر بولتا۔ کوئی غلط بھی بول جاتا تو اسے یا تو نظر انداز کر دیتے یا پھر مسکت جواب سے نواز دیتے اور بس۔

۔4۔
بارے ایک طالب علم ’’لیڈر‘‘ نے گستاخانہ لہجے میں بات کی۔ خان صاحب نے مسکراتے ہوئے، اس طالب علم کے والد کا نام لیا (فرض کیجئے صدیقی صاحب) اور کہا: ’’صدیقی صاحب تو بہت نفیس آدمی ہیں، ہمیں بہت عزت دیتے ہیں!‘‘ ۔ خود اندازہ لگائیے کہ اس کی کیا حالت ہوئی ہو گی۔

۔5۔
دو ملازم یوں ہی گپ شپ میں ایک دوسرے کو گالیاں بھی دے رہے تھے، مذاق بھی کر رہے تھے۔ ان کے پاس سے گزر ہوا، دونوں کو بلا لیا: ’’جھگڑ رہے ہیں۔ کیا؟‘‘ وہ دونوں ایسے کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ ’’ن ن ن نہیں سر، وہ ہم م م مذاق ۔۔۔‘‘۔خان صاحب نے کسی قدر تلخی سے کہا: ’’مذاق میں گالیاں دیتے ہو، جھگڑ پڑو تو کہاں تک پہنچو گے؟ اور سنو، برائی کے لئے جواز نہیں ڈھونڈا کرتے! چلو شاباش! ختم کرو یہ سب کچھ‘‘۔
 
آخری تدوین:
ان کی دور اندیشی، معاملہ فہمی، خود داری اور تحمل مزاجی ایک درخشاں مثال پیش کرتا ہوں۔

جنزل ضیاء الحق کا دور تھا، ایک موقع آیا، کہ طلباء کے ایک گروہ نے کالج کے گراؤنڈ میں اجتماع کیا، کچھ بڑوں کی تصویریں جلائیں، پر جوش تقریریں کیں اور ایک جلوس کی شکل اختیار کر لی۔ میں ڈکٹیشن لے رہا تھا کہ ڈائریکٹر برائے امورِ طلبا خاصے گھبرائے ہوئے دفتر میں داخل ہوئے (وہ دفتر میں بھی پنجابی بولا کرتے تھے)۔ ’’خاں صاب، سر، مُنڈے، جلوس، تصویر، جلوس ۔۔۔‘‘ ان سے بات نہیں ہو رہی تھی، مارشل لاء کا دور جو تھا۔ انہیں بیٹھنے کو کہا اور چپڑاسی سے کہا: ’’ڈاکٹر صاحب کو پانی پلائیے‘‘۔ مجھے مخاطب ہوئے۔ ’’جی لکھئے‘‘ اور وہی خط جو لکھا رہے تھے، جاری رکھا ۔ ڈائریکٹر صاحب ظاہر ہے خاصے بے چین تھے اور شاید یہ بھی سوچ رہے ہوں کہ یہ کیا تماشا ہے، ادھر جلوس نکل رہے ہیں اور پرنسپل صاحب کو خط لکھوانے کی پڑی ہے۔
خط مکمل ہوا، ڈائریکٹر صاحب سے کہنے لگے: ’’اجی ڈاکٹر صاحب، کچھ نہیں ہوتا! آپ اِن (طلباء) کے ایک دو گروؤں کو بلائیے اور ان سے کہئے، جلوس نکالیں، ضرور نکالیں، مگر کالج کی باؤنذری وال سے باہر نہ جائیں۔‘‘ ڈائریکٹر صاحب نے کہا کہ وہ بپھرے ہوئے ہیں، کوئی نقصان کر دیں گے۔ تو جواب ملا، ’’جوان خون ہے صاحب، ذرا ابلے گا ٹھنڈا ہو جائے گا۔ انہیں چھیڑئیے گا تو وہ بپھر جائیں گے، جائیے آپ، ان کے لیڈروں کو سمجھا دیجئے، تقریر وغیرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ ڈائریکٹر صاحب چلے گئے۔ لڑکوں نے کالج کی روشوں پر کچھ دیر تک نعرے بازی کی، اور ہاسٹل میں اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔
کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ضلعی انتظامیہ کے کسی افسر کا فون آ گیا۔ بات کی اور ڈائریکٹر صاحب کو بلا لیا اور بتایا کہ: ’’ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا فون تھا، کہ جی آپ کے کالج میں ہنگامہ ہوا ہے۔ پولیس نے اُن کو رپورٹ کیا ہے، تو ہم نے کہہ دیا کہ ’اس پولیس والے سے پوچھا ہوتا کہ کیا ہم نے اُن کو رپورٹ کیا؟ ضرورت ہی نہیں تھی، جوان بچے ہیں اپنے کالج میں اگر کچھ دیر شور مچا لیا تو کیا ہوا! کیا وہ سڑک پر نکلے؟ امنِ عامہ کو کچھ ہوا؟ مجسٹریٹ صاحب اب نہیں پوچھیں گے، اور کوئی پوچھے تو آپ بھی یہی کہئے گا۔ جب پرنسپل خود ذمہ لے رہا ہے تو انہیں ضرورت ہی کیا ہے پکڑ دھکڑ اور شور شرابہ کرنے کی! ‘‘۔
۔۔۔
 
عید قربان کا ایک موقع تھا۔ میں نے اپنا جانور ذبح کیا، بچے چھوٹے تھے، تاہم ان کو ساتھ لگایا، مل ملا کے سارا کام کیا۔ میں اور بیوی مل کر گوشت کی بوٹیاں بنا رہے تھے، دروازے کی گھنٹی بجی۔ میں اس حالت میں باہر نکلا کہ بنیان اور دھوتی کے علاوہ میرے ہاتھوں اور چہرے پر بھی کہیں خون کے چھینٹے ہیں تو کہیں کوئی بوٹی چھیچھڑا چپکا ہوا ہے، کہیں چربی لگی ہے۔ اور باہر ہمارے پرنسپل صاحب اپنی کار میں بیگم اور ایک بچے کے ساتھ موجود ہیں۔ یا اللہ میرے پاس تو ڈھنگ کی جگہ بھی نہیں ہے ان کو بٹھانے کے لئے اور پھر ایسی حالت میں؟ چلئے دیکھتے ہیں!
مجھے دیکھا تو چہک کر بولے: ’’آہا! پتہ ہے؟ یہ جو دھبے آپ کے چہرے اور لباس پر ہیں، کتنے قیمتی ہیں!‘‘ میرے جواب کا انتظار کئے بغیر بولے: ’’کہاں تک پہنچ گئے؟‘‘ ’’بوٹیاں بنا رہے ہیں، باقی کام ہو گیا‘‘ ’’کون کون ہیں؟‘‘ ’’میں ہوں، بیوی ہے، بچے ہیں، اور کون ہو گا!‘‘ ’’اوکے! چینج کر کے آئیے، جانا ہے!‘‘ ’’کہاں جانا ہے سر؟‘‘ ’’اجی چینج کر کے آئیے!‘‘ میں اندر گیا، گھر والی کو بتایا، منہ دھو کر تولئے سے رگڑا، قمیض شلوار چڑھائی اور آ گیا۔ ان کی بیگم پسنجر سیٹ پر بیٹھی تھیں، اپنے مخصوص انداز میں بائیں ہاتھ کے انگوٹھے سے اشارہ کرتے ہوئے بولے: ’’آپ پیچھے چلی جائیے!‘‘ مجھے اپنے ساتھ بٹھا لیا اور ہدایات ۔۔ ’’ہم کالونی کا چکر لگائیں گے، آپ بتاتے جائیں گے کس کس کے ہاں قربانی نہیں ہے۔ (اپنے بیٹے کی طرف اشارہ کیا) یحییٰ گوشت دے کر آئے گا‘‘۔ کوئی پون گھنٹے میں یہ کام نمٹ گیا۔ مجھے گھر کے سامنے اتارا، اور چلے گئے۔
 
خان صاحب کی عادت تھی کہ روٹین کی ڈاک روزانہ نکال دیتے، کوئی اہم خطوط جن کا جواب لکھانا وہ وہ الگ رکھتے جاتے۔ ہفتے میں کبھی دو دن اور کبھی تین دن، حسبِ سہولت ایسے سب معاملات میں مجھے ڈکٹیشن دے دیا کرتے۔ اس دن مجھے کہا کرتے: ’’کچھ کھا پی آئیے، آج بیٹھیں گے‘‘ پھر میں چاہے ایک گھنٹے میں واپس آ جاؤں چاہے دو گھنٹے میں، کوئی پروا نہیں۔ پھر جو لکھانے بیٹھتے تو بسا اوقات شام ہو جاتی۔ اور شارٹ ہینڈ نوٹ بک آدھی سے زیادہ بھر جاتی۔ اگلے دو دن مجھے سر کھجانے کی فرصت نہیں ہوتی تھی۔
ایک دن دوستوں کے ساتھ پروگرام بنایا کہ آج ایک بجے کی بس سے راولپنڈی جائیں گے، فلاں سینما میں فلاں مووی لگی ہے، ووپہر کا شو دیکھیں گے، چھوٹی موٹی خریداری کریں گے اور پانچ بجے کی بس سے واپس۔ صاحب نے دفتر میں داخل ہوتے ہی وہی جملہ داغ دیا: ’’کچھ کھا پی آئیے، آج بیٹھیں گے‘‘۔ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن ۔۔ یا ۔۔ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن ۔۔۔ کہاوت ہی گڑبڑ ہو گئی! جھجکتے جھجکتے کہا کہ: ’’سر آج ۔۔‘‘ ’’ اجی کیا ہے آج‘‘ ’’نہیں سر، کچھ نہیں‘‘ ’’طبیعت ٹھیک ہے؟‘‘ ’’جی ٹھیک ہے‘‘ ’’تو پھر کہیں جانا ہے؟ موڈ نہیں ہے کیا؟‘‘ ’’وہ سر، کچھ ایسا ہی ہے‘‘۔ ہنس دیے: ’’ٹھیک ہے! جائیے موج کیجئے! کل سہی!‘‘۔ ایسے شخص کی عزت کیوں نہ کی جائے گی!
 
خوبیاں تو گویا خان صاحب میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں۔ مشتے از خروارے کےطور پر دو واقعات کا ذکر کر کے آگے چلتے ہیں۔

۔1۔
بارے مجھے اپنے گھر پر طلب کیا کہ ’’شام کو دھوپ نرم ہو جائے تو آ جائیے، کچھ اہم کاغذات ہیں، ہم لانا بھول جاتے ہیں! وہ لے آئیے گا‘‘۔ میں نے اپنے ایک دوست کو جو ملازمت میں بھی میرے ساتھی تھے، لے لیا اور پیدل چلتے خان صاحب کے گھر پر حاضر ہو گیا۔ ہمیں بیٹھک میں بٹھایا گیا۔ خان صاحب کاغذات کا پلندہ لئے آ گئے، باتیں ہونے لگیں۔ اتنے میں چائے آ گئی۔ خادمہ نے ٹرالی بیٹھک میں چھوڑی اور چلی گئی۔ میرے ساتھی اٹھے کہ بڑے صاحب کا گھر ہے، چائے پیالیوں میں ڈالتا ہوں۔ خان صاحب نے انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور کہا: ’’یہ گھر ہے صاحب! دفتر نہیں ہے، اور دفتر میں بھی یہ جس کا کام ہے وہی کرتا ہے۔ آپ تشریف رکھئے!‘‘ اٹھے، چائے پیالیوں میں ڈالی، اور ہم دونوں کو بالکل ایسے پیش کی جیسے کسی معزز مہمان کو پیش کی جاتی ہے۔

۔2۔
اکیڈمک سٹاف (سارے اساتذہ) کی میٹنگ ہو رہی ہے۔ آوازیں اٹھتی ہیں کہ صاحب ہم تو چائے نہیں کوک پئیں گے۔ تب چائے کی پیالی آٹھ آنے کی تھی اور کوک کی بوتل پونے دو روپے کی۔ کہنے لگے: ’”سرکار ایک میٹنگ میں آٹھ آنے فی کس کی اجازت دیتی ہے، اس میں تو چائے ہی آ سکتی ہے‘‘۔ کسی نے پھر کہہ دیا جی ہم تو کوک پئیں گے۔ بولے: ’’ٹھیک ہے! ہم بھی کوک پئیں گے! (اپنی جیب سے سوا روپیہ نکالا، میز پہ رکھ دیا) یہ رہا ہمارا سوا روپیہ، نکالئے اپنا اپنا سوا روپیہ!‘‘ یوں سب شرکاء نے اپنی جیب سے کوک کے پیسے دئے۔ اکثر کہا کرتے کہ سرکار کا پیسہ انتہائی کنجوسی سے خرچنا چاہئے، اور اپنا؟ اسے کنجوسی سے نہیں کفایت سے۔
 
خود دار شخص میں ایک خوبی لازماََ ہوتی ہے کہ وہ دوسرے کی خود داری کا بھی خیال کرتا ہے۔ ایسے شخص کے ساتھ متواتر سات آٹھ برس تک کام کرنے کے بعد میری سرکاری عادات کس حد تک ’’بگڑ‘‘ چکی تھیں، آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔

بہت بعد میں جب کالج کو یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہو گیا، خان صاحب الیکٹریکل انجینئرنگ میں سبجیکٹ سپیشلسٹ بنائے گئے۔ اساتذہ کے سیلیکشن بوڑد میں انہیں آنا ہوتا تھا۔ وہ جب بھی آتے میٹنگ وغیرہ سے فارغ ہوتے تو سِوِل بلاک کے ٹیرس پر پچاس ساٹھ پرانے ملازم ایک بڑا سا دائرہ بنا کر کھڑے ہیں، درمیان میں خان صاحب۔ ستر برس کی عمر میں بھی ان کا وہی ٹھہرا ٹھہرا سا انداز اور کھنکتا ہوا لہجہ ہے، ہر شخص کی طرف متوجہ ہیں۔ باتیں ہو رہی ہیں، اور مزے کی بات کہ کوئی سرکاری بات نہیں ہو رہی، سب ذاتی!۔ خاصی دیر بعد کہتے ہیں: ’’اب ہم تھک گئے! اب اتنی دیر کھڑے نہیں رہ سکتے، ہم چلیں گے‘‘۔
 
Top