جیا راؤ
محفلین
ماسٹر لیول پہ تو قابل قبول ھے لیکن گریجوایشن لیول پہ زیادہ سے زیادہ چالیس فیصد والے کو پاس ہونا چاہیئے ۔
ِ
اس سلسلے میں طلباء کا احتجاج جاری ہے۔۔۔ دیکھئے کیا نتیجہ نکلتا ہے۔۔۔۔
ماسٹر لیول پہ تو قابل قبول ھے لیکن گریجوایشن لیول پہ زیادہ سے زیادہ چالیس فیصد والے کو پاس ہونا چاہیئے ۔
ِ
اچھا ہوا پہلے گزر گئے اس مرحلے سے ، ورنہ ٹینشن ہی رہتی (ویسے آئے ساٹھ فیصد سے زیادہ تھے)
وسلام
ٹینشن ہی رہتی
آپ کی اردو اس قدر کمزور نہیں جس کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے ۔۔ ویسے بھی آٹھ نو گھنٹے کی نوکری کے ساتھ اتنے نمبر قابل ستائش ہونے چاہییں
مگر لاہور کے رکشہ ڈرائیور نے ٹاپ کر کے ہمیں اس قابل بھی نہ چھوڑا ۔۔
وسلام
شکر ہے آج آپ کو بھی فرصت مل گئی۔ ایسی کیا مصروفیات پال لی ہیں جو محفل کو وقت نہیں دے پا رہیں؟
کسی قابل سے کیا مراد بھئی ؟ قابل ستائش نہیں رہے ۔۔۔۔۔۔۔ (کیا اس کی اردو بھی ٹھیک کروانا پڑے گی؟)
ذرا شمشاد کے مراسلے کا جواب دیں ۔۔۔۔۔
وسلام
ہمم یعنی اب دو لوگ ہو گئے جو میری سنتے ہیں اس محفل میں ۔۔۔۔۔۔
وسلام
بہت دن تو یہی سوچ کر نہیں آئی کہ کسی نے نہ آنے کی وجہ پوچھ لی تو کیا جواب دوں گی۔۔۔
جواب گول کرنے کی ماہر ہوتی جا رہی ہیں۔ کاشف بھائی سے بات کرنی پڑے گی۔
ہمارے یہاں (گوجرانوالہ) میں یہ ہو گیا ہے۔ یعنی میٹرک اور انٹر میں %40 نمبرز والا ہی پاس ہے۔ اور پنجاب یونیورسٹی نے بیچلرز میں %45 مارکس والا سٹوڈنٹ پاس طے کیا ہے۔میرا بھی یہی خیال ہے کہ کم از کم 40 فیصد نمبروں پر ہی امیدوار کو کامیاب قرار دیا جانا چاہیے ۔۔
وسلام
نہیں درد ناک تو نہیں شاید میرے لکھنے کا انداز ایسا ہو گیا ہو۔ ہاں ٹحیک ہے کر دینا چاہیے 50 پرسنٹ لیکن اگر کلرکی کی تعلیم کے سٹینڈرڈ کو ہائی کرنا ہے اور اسے محدود لوگوں تک ہی رکھنا ہے تو ساتھ ساتھ متبادل نظام بھی تو پیش کرنا چاہیے نا۔ جیسے کہ skilled labour۔ ملک میں بڑے لیول پر ٹیکنیکل انسٹیوٹس کھلنے چاہیے۔ جہاں لوگوں کو ہاتھ کا ہنر سکھایا جائے۔ لیکن اور بہت بڑا مسلئہ یہ ہے ہمارے ملک میں لیبر کی نا کوئی عزت ہے اور نہ ہی لیبر کو مناسب اجرت دی جاتی ہے۔ حالانکہ کئی بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا یہی راز ہے کہ وہاں کلرک کم اور ہنر جاننے والے زیادہ ہیں۔ لیکن یہاں تو آج کل ہر کوئی MBA اور ACCA کر کے بڑی کمپنیز کے مینجر بننا چاہتا ہے اور طے شدہ ناکامی کے بعد ملک کی بیروزگاری میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔بڑی درد ناک کہانی ہے آپ کی دراصل ہمارے تعلیمی نظام کی ۔ خیر حالات تو میرے بھی ایسے ہی رہے مگر اسلام آباد اور کراچی بورڈ کے چکروں نے کہیں کا نہ چھوڑا ۔ سب سے بڑی مصیبت مختلف بورڈ الگ الگ کتابیں الگ الگ معیار ۔ اسی لئے لوگ پرائیویٹ اداروں کر ترجیح دینے لگے ہیں ۔ خیر نمبر تو آہستہ آہستہ پچاس فیصد تک لے جانے چاہیں کہ کامیابی اسی کو سمجھا جائے ۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ تعلیم معیار کو بلند کرنے کے ساتھ ساتھ سارے ملک میں ایک ہی ذریعہ تعلیم اور معیار کو بھی اپنایا جائے ۔ ایسا نہ ہو کہ چند اداروں سے پڑھے ہوئے کسی اور جہان کی مخلوق معلوم ہوں ۔
وسلام
تھرڈ ڈویژن حاصل کرنے والے کو فیل تصور کیا جائے گا!
ایک خبر کے مطابق بلوچستان کے وزیر تعلیم شفیق محمد نے محکمہ تعلیم کو تجویز پیش کی ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی میں تھرڈ ڈویژن حاصل کرنے والے کو فیل تصور کیا جائے گا۔
مزید تفصیل یہاں ملاحظہ فرمائیں!
ڈگری کو میری لیجئے ، اچار ڈالیے!
میں تھرڈ ڈویژنر ہوں ، مجھے مار ڈالیے!
(سید ضمیر جعفری)
سیاست میں خواری ہی خواری ہے، اس طرف نہ جائیں۔