امجد علی راجا
محفلین
تھپڑ تھا کس نے مارا، دکھائی نہیں دیا
پر اس کے بعد کچھ بھی سنائی نہیں دیا
اندھا کیا یوں حسرتِ دیدارِ یار نے
بھائی بھی ساتھ اس کا دکھائی نہیں دیا
بجلی گئی تو وصل کا موقع ملا ہمیں
بتی جلی تو کچھ بھی سجھائی نہیں دیا
کس کو خبر تھی کتا بھی ہوتا ہے اس کے گھر
پھر اس کے بعد رستہ دکھائی نہیں دیا
شادی جو اس نے کی بھی تو میرے پڑوس میں
اس با وفا نے دردِ جدائی نہیں دیا
بیگم زباں دراز ہے لیکن یہ کم ہے کیا؟
اب تک پڑوسیوں کو سنائی نہیں دیا
ناراض اک پٹھان ہوا ڈاکٹر سے یوں
"ٹیکہ لگا دی ام کو، دوائی نہیں دیا"
استادِ محترم محمد یعقوب آسی کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اس غزل کی اصلاح کر کے قابلِ اشاعت بنایا۔
افلاطون الشفاء الف عین الف نظامی امر شہزاد باباجی ذوالقرنین سید اِجلاؔل حسین سید زبیر شمشاد شوکت پرویز شہزاد احمد شیزان عمراعظم عینی شاہ مقدس مہ جبین نیرنگ خیال نیلم کاشف عمران یوسف-2
@امجدمیاںداد@محمد اسامہ سَرسَری @محمد بلال اعظم @محمد حفیظ الرحمٰن @محمدوارث @محمد یعقوب آسی @محمداحمد