فاخر
محفلین
” صرف میدانِ کربلا ہے عبیدؔ
اب وہ دجلہ کہاں فرات کہاں“
یہ شعر ہما رےفورم کی رہنما اور مقتدا شخصیت حضرت اعجاز عبید صاحب مدظلہ العالی( دام ظلہ اللہ ) کا ہے ۔ اس شعر سے میں جو سمجھ سکا ہوں، وہ یہ کہ زندگی جینے کے لیے بے لوث ہو کر کام کرنا چاہیے، تعب ،تھکن ،مشقت اور عرق ریزی کو ا س کا حاصل سمجھنا چاہیے۔اس سے سوا یہ کہ انہوں نے اسی جذبہ کے ساتھ اردو کے لیے بہت کام کیا ہے ۔
خیر الف عین صاحب کے متعلق آج شب سے قبل کچھ بھی نہیں جانتا تھا، سوائے یہ کہ” الف عین“ کے مخفف میں کوئی استادچھپے ہیں ؛لیکن کل رات کیا جی میں آئی کہ ’’چلو الف عین کے متعلق گوگل سرچ سے کچھ جاننے کی کوشش کرتے ہیں‘‘ ، تو حیرت و رشک سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی کی رہ گئیں۔ مجھے رشک اس پر آیا کہ نیٹ گردی کی مثبت عادت نے مجھے ایک ایسے فورم پر لے گئی کہ جہاں صرف اورصرف حاصل ہی کیا جاسکتا ہے جس کے عوض کچھ خرچ نہیں کرنا پڑتا گااور حضرت اعجاز عبید صاحب جیسی شفیق ہستی ہماری تربیت کررہے ہیں ہماری کج مج خیالات و تعبیرات بے بحر مصرعوں کی اصلاح کر رہے ہیں ۔ میں کسی مبالغہ کا شکار نہیں ، کل تک ہم یہی پڑھتے آرہے ہیں کہ مولانا حالی نے اس اردو کی بقا کیلئے بڑی تگ و دو کی اور ”قصر رفیع الشان “ کا حسین خواب دیکھا تھا،اردو نظم کی نئی شکل کے لیے انجمن پنجاب کا قیام عمل میں آیا وغیرہ وغیرہ ۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی خدمات ہیں جو اردو کی بقاکے لیے انجام دی گئیں ۔ آ ج جب کہ اردو ڈیجیٹل کا زمانہ ہے، نئی نسل ڈیجیٹل اسپیس کی طرف بڑ ھ رہی ہے ، نئی نسل کے لیے جس طرح کی خدمات انہوں نے انجام دی ہیں ، وہ واقعی قابلِ رشک ہی نہیں ؛بلکہ آب زر سے لکھے جانے کے لائق ہیں ۔یونی کوڈ فارمیٹ کی وجہ سے جو اردو کو موبائل تک پہنچانے کا جو کام کیا ہے، وہ یقینا اپنی مثال آپ اور معرکۃ الآرا ہے ۔اس کے بیان کے لیے الفاظ نہیں ہیں ، سوائے یہ کہ اعتراف عظمت میں سرادب و تعظیم سے جھک جائے۔ یہ چند سطریں قلم برداشت لکھ رہا ہوں ،یقینا یہ چند سطریں حضرت اعجاز عبید صاحب دام ظلہ کی عظمت ، ان کی بے لوث خدمات، شعر و ادب کے تئیں کارہائے نمایاں اوران کی ادب نوازی کے بیان سے قاصر ہیں ؛(بلکہ مجھے سوئے ادب کا خدشہ بھی ہے)۔ ان کی زندگی ، ان کی نغز گو شاعری ،اردو کی بیش بہا خدمات وغیرہ دیگر پہلوؤں پر بہت کچھ لکھا جانا اور ان کے تابندہ پہلوؤں کا بیان باقی ہے۔
اب وہ دجلہ کہاں فرات کہاں“
یہ شعر ہما رےفورم کی رہنما اور مقتدا شخصیت حضرت اعجاز عبید صاحب مدظلہ العالی( دام ظلہ اللہ ) کا ہے ۔ اس شعر سے میں جو سمجھ سکا ہوں، وہ یہ کہ زندگی جینے کے لیے بے لوث ہو کر کام کرنا چاہیے، تعب ،تھکن ،مشقت اور عرق ریزی کو ا س کا حاصل سمجھنا چاہیے۔اس سے سوا یہ کہ انہوں نے اسی جذبہ کے ساتھ اردو کے لیے بہت کام کیا ہے ۔
خیر الف عین صاحب کے متعلق آج شب سے قبل کچھ بھی نہیں جانتا تھا، سوائے یہ کہ” الف عین“ کے مخفف میں کوئی استادچھپے ہیں ؛لیکن کل رات کیا جی میں آئی کہ ’’چلو الف عین کے متعلق گوگل سرچ سے کچھ جاننے کی کوشش کرتے ہیں‘‘ ، تو حیرت و رشک سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی کی رہ گئیں۔ مجھے رشک اس پر آیا کہ نیٹ گردی کی مثبت عادت نے مجھے ایک ایسے فورم پر لے گئی کہ جہاں صرف اورصرف حاصل ہی کیا جاسکتا ہے جس کے عوض کچھ خرچ نہیں کرنا پڑتا گااور حضرت اعجاز عبید صاحب جیسی شفیق ہستی ہماری تربیت کررہے ہیں ہماری کج مج خیالات و تعبیرات بے بحر مصرعوں کی اصلاح کر رہے ہیں ۔ میں کسی مبالغہ کا شکار نہیں ، کل تک ہم یہی پڑھتے آرہے ہیں کہ مولانا حالی نے اس اردو کی بقا کیلئے بڑی تگ و دو کی اور ”قصر رفیع الشان “ کا حسین خواب دیکھا تھا،اردو نظم کی نئی شکل کے لیے انجمن پنجاب کا قیام عمل میں آیا وغیرہ وغیرہ ۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی خدمات ہیں جو اردو کی بقاکے لیے انجام دی گئیں ۔ آ ج جب کہ اردو ڈیجیٹل کا زمانہ ہے، نئی نسل ڈیجیٹل اسپیس کی طرف بڑ ھ رہی ہے ، نئی نسل کے لیے جس طرح کی خدمات انہوں نے انجام دی ہیں ، وہ واقعی قابلِ رشک ہی نہیں ؛بلکہ آب زر سے لکھے جانے کے لائق ہیں ۔یونی کوڈ فارمیٹ کی وجہ سے جو اردو کو موبائل تک پہنچانے کا جو کام کیا ہے، وہ یقینا اپنی مثال آپ اور معرکۃ الآرا ہے ۔اس کے بیان کے لیے الفاظ نہیں ہیں ، سوائے یہ کہ اعتراف عظمت میں سرادب و تعظیم سے جھک جائے۔ یہ چند سطریں قلم برداشت لکھ رہا ہوں ،یقینا یہ چند سطریں حضرت اعجاز عبید صاحب دام ظلہ کی عظمت ، ان کی بے لوث خدمات، شعر و ادب کے تئیں کارہائے نمایاں اوران کی ادب نوازی کے بیان سے قاصر ہیں ؛(بلکہ مجھے سوئے ادب کا خدشہ بھی ہے)۔ ان کی زندگی ، ان کی نغز گو شاعری ،اردو کی بیش بہا خدمات وغیرہ دیگر پہلوؤں پر بہت کچھ لکھا جانا اور ان کے تابندہ پہلوؤں کا بیان باقی ہے۔