تیر آخر کمان سے نکلا.۔۔۔ ۔۔۔۔۔ غزل اصلاح کے لئے

ایک غزل اصلاح اور تبصرے کے لئے پیش کر رہا ہوں.
استاد محترم جناب الف عین سر سے اصلاح کی درخواست ہے.
مطلع کا پہلا مصرع جناب فارس کی غزل سے ہے.
احباب سے گزارش ہے کہ اپنی رائے سے ضرور نوازیں. بندہ منتظر ہے!

فاعلاتن مفاعلن فعلن
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
×××××××××××××××××××××××××××××
"ضبط کے امتحان سے نکلا"
تیر آخر کمان سے نکلا

کتنے مبہم نشان سے نکلا
اک چھپا در مکان سے نکلا

پڑھنے والی کے دل کا شہزادہ
اُس پری داستان سے نکلا

رات شبنم نے آہ و زاری کی
پر یہ آنسو چٹان سے نکلا

مختصر وصل کا زمانہ بھی
ہجر کے خاندان سے نکلا

اس کی پیہم جفا کے بدلے میں
شکریہ ہی زبان سے نکلا

رنگ کے ساتھ جلد بھی بدلی
بڑھ کے وہم و گمان سے نکلا

میں روایت شکن ہمیشہ کا
گھر کے امن و امان سے نکلا

دور سیارگاں کا سنّاٹا
صبح پہلی اذان سے نکلا

نام بچوں کا جب لیا کاشف
"خوش رہو تم!"، زبان سے نکلا

سیّد کاشف
××××××××××××××××××××××××××××××
 
آخری تدوین:
بہت خوب کاشف بھائی۔ حسن اتفاق سے کچھ روز پہلے چند مصرعے ترتیب پائے۔ سب سے پہلا مصرعہ اور شعر کچھ یوں تھا۔۔

بات کھل کر جو آج کہہ دی ہے
تیر سارے کمان سے نکلے۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے ماشاء اللہ۔
کتنے مبہم نشان سے نکلا
اک چھپا در مکان سے نکلا
واضح نہیں۔


رنگ کے ساتھ جلد بھی بدلی
بڑھ کے وہم و گمان سے نکلا
یہ بھی واضح نہیں۔


نام بچوں کا جب لیا کاشف
"خوش رہو تم!"، زبان سے نکلا
یہ"تم: کہاں سے آ گیا۔ بچوں کا نام تو لینے والا کوئی اور تھا یا بچے ہی تھے؟

باقی درست بلکہ بہت اچھی غزل ہے۔
 
شکریہ استاد محترم جناب الف عین سر
میں سمجھ نہیں پایا کہ ان اشعار میں کس ابہام کی جانب اشارہ ہے ؟
رنگ کے ساتھ جلد بھی بدلی
بڑھ کے وہم و گمان سے نکلا

نام بچوں کا جب لیا کاشف
خوش رہو تم زبان سے نکلا

رہنمائی فرمائیں.
چند اشعار اور اس غزل میں شامل کر رہا ہوں. آپ سے گزارش ہے کہ ان کو بھی ایک بار اصلاح کی نظر سے دیکھ لیں.

رفعتِ آسمان کا سچ بھی
میری اونچی اڑان سے نکلا

جب عمارت کی نیو رکھی گئی
تب کا لمحہ تکان سے نکلا

سارے رشتوں کو آزما کر میں
جھوٹ کے درمیان سے نکلا


جزاک اللہ
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
نئے اشعار درست ہیں۔
جب شعر ہی سمجھ میں نہیں آ سکا تو یہ کیسے کہہ سکتا ہوں کہ کس ابہام کی طرف اشارہ ہے؟
بچوں والے شعر میں صیغے پر غور کرو۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
رنگ کے ساتھ جلد بھی بدلی
بڑھ کے وہم و گمان سے نکلا

۔۔ یہاں ایک مصرع دوسرے کے ساتھ مربوط نہیں ہوتا۔ اس شعر سے کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ شاعر کہنا کیا چاہتا ہے۔ یہاں آپ تو مجھے بتا سکتے ہیں کہ مطلب کیا تھا، لیکن لطف تب ہے جب شعر اپنا مدعا خود واضح کرتا ہو۔
نام بچوں کا جب لیا کاشف
خوش رہو تم زبان سے نکلا
۔۔۔ اس شعر کے دوسرے مصرعے سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ "خوش رہو تم" کے الفاظ کس سے کہے جا رہے ہیں۔ خود شاعر سے یا بچوں سے؟
 
رنگ کے ساتھ جلد بھی بدلی
بڑھ کے وہم و گمان سے نکلا

۔۔ یہاں ایک مصرع دوسرے کے ساتھ مربوط نہیں ہوتا۔ اس شعر سے کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ شاعر کہنا کیا چاہتا ہے۔ یہاں آپ تو مجھے بتا سکتے ہیں کہ مطلب کیا تھا، لیکن لطف تب ہے جب شعر اپنا مدعا خود واضح کرتا ہو۔
نام بچوں کا جب لیا کاشف
خوش رہو تم زبان سے نکلا
۔۔۔ اس شعر کے دوسرے مصرعے سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ "خوش رہو تم" کے الفاظ کس سے کہے جا رہے ہیں۔ خود شاعر سے یا بچوں سے؟
بہت بہت شکریہ شاہنواز بھائی۔
ان اشعار پر دوبارہ غور کرتا ہوں۔
اللہ آپ کو سلامت رکھے۔
جزاک اللہ۔
 
استاد محترم مکمل غزل حاضر ہے. حسنِ مطلع اور ایک شعر حذف کر رہا ہوں. دو نئے اشعار بھی شامل کئے ہیں.
غزل کے اشعار کی ترتیب بھی از سر نو کی ہے.
××××××××××××××××××××
"ضبط کے امتحان سے نکلا"
تیر آخر کمان سے نکلا

اس کی پیہم جفا کے بدلے میں
شکریہ ہی زبان سے نکلا

پڑھنے والی کے دل کا شہزادہ
اُس پری داستان سے نکلا

رات شبنم نے آہ و زاری کی
پر یہ آنسو چٹان سے نکلا

مختصر وصل کا زمانہ بھی
ہجر کے خاندان سے نکلا

میں روایت شکن ہمیشہ کا
گھر کے امن و امان سے نکلا

جب عمارت کی نیو رکھی گئی
تب کا لمحہ تکان سے نکلا

رفعتِ آسمان کا سچ بھی
میری اونچی اڑان سے نکلا

دور سیارگاں کا سنّاٹا
صبح پہلی اذان سے نکلا

یاد بچوں کو جب کیا کاشف
"خوش رہو تم!"، زبان سے نکلا

××××××××××××××××××××
 
آخری تدوین:
Top