تیسری جنس۔ چودھری محمد ردولوی

مدی کا اصلی نام احمدی خانم ہے ۔ تحصیل دار صاحب پیار سے مدی مدی کہتے تھے ۔ وہی مشہور ہو گیا۔ مدی کا رنگ بنگال میں سو دو سو میں اور ہمارے صوبے میں ہزار میں ایک تھا۔ جس طرح فیروزے کا رنگ مختلف روشنیوں میں بدلا کرتا ہے، اسی طرح مدی کا رنگ تھا۔
تھی تو کھلتی ہوئی سانولی رنگت جس کو سبزہ کہتے ہیں، مگر مختلف رنگ کے دوپٹوں یا ساڑھیوں کے ساتھ مختلف رنگ پیدا ہوتا تھا۔ کسی رنگ کے ساتھ دمک اٹھتا تھا، کسی رنگ کے ساتھ تمتما ہٹ پیدا کرتا تھا۔ بعض اوقات جلد کی زردی میں سبزی ایسی جھلکتی تھی کہ دل چاہتا تھا دیکھا ہی کرے ۔ شمع کی روشنی میں مدی کی رنگت غضب ہی ڈھاتی تھی۔ کبھی آپ نے دوسرے درجے کے مدقوق کو دیکھا ہے، اگر بیماری سے قطع نظر کیجیے تو رنگت کی نزاکت ویسے ہی تھی۔ آنکھیں بڑی نہ تھیں مگر نگاہ نیچے سے اوپر کرتی تھی تو واہ واہ معلوم ہوتا تھامندر کا دروازہ کھل گیا، دیوی جی کے درشن ہو گئے ۔ مسکراہٹ میں نہ شوخی نہ شرارت، بناوٹ کی شرم، لبھاوٹ کی کوشش۔ لکڑی لوہے کے قلم کو کیسے موقلم کر دوں کہ آپ کے سامنے وہ مسکراہٹ آ جائے ۔
بس یہ سمجھ لیجیے کہ خدا نے جیسی مسکراہٹ اس کے لیے تجویز کی تھی، وہی تھی۔ مدی اپنی طرف سے اس میں کوئی اضافہ نہیں کرتی تھی۔ اس کے کسی انداز میں بناوٹ نہ تھی۔ ہاتھ پاؤں، قد چہرے کے اعضا سب چھوٹے چھوٹے مگر واہ رئے تناسب۔ آواز، ہنسی، چال ڈھال ہر چیز ویسی ہی۔ میں مدی سے بہت بے تکلف تھا، مگر عشاق میں کبھی نہ تھا اور جہاں تک میں جانتا ہوں کوئی اور بھی نہیں سنا گیا۔ ایسی خوب صورت عورت بلا مرد کی حفاظت کے، زندگی بسر کرے اور عشاق نہ ہوں، بڑے تعجب کی بات ہے ۔ مگر واقعہ ہے ، ایک دن میں نے کہا، "مدی! اگر ہم جادوگر ہوتے تو جادو کے زور سے تم کو تتلی بنا کر ایک چھوٹی سی ڈبیا میں بند کر کے اپنی پگڑی میں رکھ لیتے ۔ " اس فن شریف سے واقف کار حضرات جانتے ہیں کہ جو حربہ میں نے استعمال کیا تھا، وہ کم خالی جانے والا تھا۔ مگر اس کے جواب میں وہی بے تکلف مسکراہٹ کی ڈھال جو تلوار کا منھ توڑدے ۔
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
اکثر خیال گذرتا ہے کہ یہ استغنا تحصیل دار مرحوم کی سفید داڑھی کے سائے میں پرورش پانے کا اثر ہے ۔ مگر پھر عقل کہتی تھی کہ جوش حیات نے نہ معلوم کتنی سفید داڑھیوں میں پھونکا ڈالا ہے ۔ وہ سفید داڑھی قبر میں پہنچ گئی، اس کا اثر کہاں سے آیا۔ بہرحال قصہ سنتے جائیے اور رفتہ رفتہ رائے قائم کرتے جائیے ۔ مدی کے ہر انداز میں نسوانیت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ ایک بات البتہ تھی جو گو عورتوں میں بھی ہوتی ہے مگر ایسے بوژوا لوگ اس کو مرد ہی سے منسوب کرتے ہیں ، یعنی اپنے ہم طبقہ عورتوں میں اور اسی طبقے کے مردوں میں مدی حکومت خوب کر لیتی تھیں ۔ ہر شخص عورت ہو کہ مرد ان کا تابع فرمان رہتا تھا، اور ان کے اشارے پر چلنے کو تیار۔ اب شروع سے قصہ سنیے ۔ تحصیل دار صاحب کا نام کیا کیجیے گا جان کر، مرحوم بڑے اچھے آدمی تھے ۔ مگر بے عیب خدا کی ذات، کچھ خاص خاص کمزوریاں کہی جاتی تھیں ۔ پرانی وضع کے لوگ تھے ۔ بڑی شان سے تحصیل داری کی۔ لاکھوں کمائے اور ہزاروں اڑائے مگر اولاد نہ ہونے کی وجہ سے ان کی زندگی کچھ بے مرکز سی ہو گئی تھی۔ بی بی بہت دن ہوئے مرچکی تھی۔ کوئی قریب کا عزیز بھی نہ تھا۔ صرف ایک نوکر تھا وہی سیہ سپید کا مالک تھا۔ تنخواہ اسی کے ہاتھ آتی تھی اور جب پنشن ہوئی تو پنشن کا بھی وہی حق دار ٹھہرا۔ میاں کے کپڑے اور کھانا بھی میاں حسن علی ہی پسند کرتے تھے ۔ حسن علی کسی کام کو بازار گئے ۔ وہ تھان رادھا نگری ڈوریے کے لیے چلے آتے ہیں ۔ میاں کے کرتے بنیں گے مگر میاں کو اس وقت خبر ہوئی کہ جب درزی قطع کرنے لگا۔
"ارے میاں حسن علی، یہ ڈوریہ کیا لائے ہو؟"
حسن علی: "آپ کے کرتوں کے لیے ۔ ڈوریہ وضع دار ہے ۔ سلنے پر اور کھلے گا۔ "
"کھلے گا تو مگر کرتے تو میرے پاس تھے ۔ ابھی اسی دن شربتی لے آئے ۔ آج ڈوریہ لیے چلے آتے ہیں، آخر پوچھ تو لیا ہوتا۔ "
"پوچھ کے کیا کرتا۔ آپ ہی تو کہتے کہ رہنے دو گھر میں ایک چیز ہو گئی۔ برسات کا زمانہ ہے ۔ دھوبی دیر میں آیا کرے گا۔ دو جوڑے فاضل اچھے ہوتے ہیں ۔ "
"خیر بھئی۔ "
تحصیل دار کھانے پر بیٹھے ہیں ۔ "میاں حسن علی آج کل بازار میں مچھلی نہیں آتی؟"
"آتی تو ہے مگر گرمیوں کی وجہ سے میں نے نہیں منگوائی۔ اس فصل میں مچھلی نقصان کرتی ہے، صبح کو مرغ پک جائے گا۔ " تحصیل دار صاحب پر حسن علی کی شخصیت ایسی غالب آئی تھی کہ جو بات وہ پسند کرتے تھے، تحصیل دار سمجھتے تھے کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے ۔ اسی وجہ سے غیر ذمہ دار لوگ دونوں کا ذکر کر کے مسکراتے تھے اور آپس میں آنکھیں مارتے تھے ۔ میاں حسن علی کا استرے صفاچٹ چہرہ اور تحصیل دار صاحب کی بھبو داڑھی پر چہ مگوئیاں ہوتی تھیں ۔ داڑھی مونچھوں کا صفایا صرف انگریزی داں حضرات کا حق ہے ۔ اگر حسن علی ایسے اپنی چال چھوڑکر ہنس کی چال چلیں گے تو اللہ ہی نے کہا ہے لوگ کوئی نہ کوئی فی نکالیں گے ۔
بہرحال اصلیت کی خبر خدا کو ہے ۔ ہم تو جو کچھ بھی دیکھتے تھے، وہ یہ تھا کہ تحصیل دار کا ہمدرد دنیا جہاں میں حسن علی کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ حسن علی کو بھی اس سے اچھا آقا اگر چراغ لے کر ڈھونڈتے تو نہ ملتا۔
اللہ میاں نے دو جنس بنائی تھیں ؛ عورت اور مرد۔ یورپ کے ڈاکٹروں نے تحقیقات کر کے ایک اور جنس ایجاد کی ہے جو اپنے ہی جنس کی طرف راغب ہو۔ اس جنس میں عوتیں بھی شامل ہیں اور مرد بھی۔ اب نہ معلوم تحصیل دار اور حسن علی اس تیسری جنس میں سے تھے یا ویسے ہی تھے جیسے ہم آپ یا بعد کو کچھ ادل بدل ہوئی۔ اس کو نہ ہم جانتے ہیں نہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ وہ جانیں اور ان کا کام۔ بظاہر ان دونوں کے افعال سے دوسروں کی سماجی زندگی میں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ اس لیے ہم کو کھوج کی کوئی ضرورت بھی نہیں معلوم ہوتی۔ تحصیل دار صاحب بھاری بھرکم آدمی تھے ۔ اولاد نہ ہونے کا دکھڑا کیا روتے مگر اولاد کی تمنا اس بات سے ظاہر ہوتی تھی کہ جب کھانا کھاتے تو حسن علی احمدی کو بلوا بھیجتے تھے کہ دسترخوان پر بیٹھ جائے ۔ اسی وجہ سے کھانا تنہائی میں کھانے لگے تھے ۔ نوکر کی لڑکی کو دسترخوان پر کھلاتے کچھ اچھا نہیں لگتا تھا۔ اس کے علاوہ اگر سب کے سامنے کھلاتے تو صاحب اولاد نہ ہونے کا رنج اور بچوں کی تمنا لوگوں پر کھل جاتی۔ بی احمد ی خانم عرف مدی بیگم کا سن چار برس کا رہا ہو گا۔ دسترخوان پر شوربہ گرانا، لقمہ ڈبونے میں دال کا پیالہ گھنگول دینا بچوں کا شیوہ ہے ۔ اور نفیس لوگ اسی وجہ سے بچوں کو الگ کھلاتے ہیں ۔ گو کہتے یہی ہیں کہ جوانوں والا کھانا بچوں کو نقصان کرتا ہے مگر تحصیل دار صاحب کو اس میں لطف آتا تھا۔ ادھر دسترخوان پر بیٹھے اور ادھر بی مدی کی طلب ہوئی۔ رفتہ رفتہ مدی خود وقت پہچان گئیں ۔ تھوڑے دنوں میں مدی تحصیل دار صاحب کے یہاں رہنے لگیں ۔ یا گھر میں ایک طرف چھوٹا بھیا اور بیچ میں حسن علی کی بی بی تھیں یا ان کی پلنگڑی الگ بنی۔ صاف چادر لگائی گئی۔ چھوٹے چھوٹے تکیے بنوائے گئے ۔ تحصیل دار صاحب کے پاس ان کی بھی پلنگڑی بچھنے لگی۔ جوتے پہنے رہنے کی تاکید ہوئی کہ بچھونا میلا نہ ہو۔ لڑکی تھی پیدائشی سلیقہ مند۔ ایک بار سے دوسری بار بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ پانچ چھ ہی برس کے سن میں ایسا سلیقہ آ گیا کہ آدھی بی بی معلوم ہوتی تھیں ۔ تحصیل دار صاحب کے پان خود بناتی تھی۔ دس گیارہ برس کے سن میں جنس تلوانا، کھانا پکوانا، سب کچھ مدی کے ہاتھ ہو گیا تھا۔ دن جاتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ چودھویں برس مدی کا شباب دمک اٹھا۔ دیکھنے والوں کا دل چاہتا کہ دیکھا ہی کریں ۔ مدی بھی جب بال بنانے کھڑی ہوتی تو آئینے کے ساتھ خود بھی متحیر رہ جاتی تھیں ۔ اب ماں کو شادی کی فکر ہوئی۔ تحصیل دار صاحب سے کہا گیا۔ انھوں نے کہا جلدی کیا ہے، ہو جائے گی۔ مگر لڑکی حسن علی کے بھتیجے کو بچپن ہی سے مانگی تھی۔ ادھر سے بھی اصرار ہوا کہ جوان لڑکیوں کا امیروں کے گھر میں رہنا اچھا نہیں ۔ لیجیے صاحب شادی ہو گئی۔ تحصیل دار صاحب نے خود تو اپنے گھر سے شادی نہیں کی مگر جہیز وغیرہ خوب سا دیا۔ چوتھی چالے کے بعد پھر وہی تحصیل دار صاحب کے یہاں کا رہنا۔ مدی کے دولہا بھی تحصیل دار صاحب کے یہاں آتے تھے ۔ مدی سسرال کم جاتی تھی۔ گئیں بھی تو کھڑی سواری، بہت رہیں تو ایک رات نہیں تو اسی دن واپس آ گئیں ۔ سسرال والے جاہل، شوہر بھی ایف کے نام لٹھا نہیں جانتے ۔ گو مدی بھی بغدادی قاعدہ اور عم کے سپارے کے آگے نہیں پڑھی تھیں مگر پھر بھی پڑھے لکھے ہوئے کی پالی ہوئی تھیں ۔ عمر بھر امیری کارخانہ دیکھا تھا، مدی کا دل سسرال میں کم لگتا تھا۔ کم سنی میں بیاہ کا تجربہ کچھ اچنبھے میں ڈالے تھا۔ شادی کے بعد اگر عورت پر کنوارے پنے کی آب نہیں رہ جاتی تو سہاگ کی رونق چہرہ چمکا دیتی ہے ۔ مگر احمدی کے چہرے سے نہ اس بات کا پتہ چلتا تھا، نہ اس کا۔ میاں بیوی کا برتاؤ کا حال دو چار دن میں کیا کھلتا۔ مگر کسی خاص خوشی یا اطمینان کا اندازہ اس میں بھی نہیں دکھائی دیتا تھا۔ کچھ ہی دنوں میں یہ بھی نہ رہ گیا اور کھلم کھلا نا خوشی کے آثار ظاہر ہونے لگے ۔ شوہر صاحب کچھ دبے دبے سے تھے ۔ تحصیل دار صاحب کے یہاں آ کر وہ بھی اپنی شوہریت کا برتر درجہ برت نہیں سکتے تھے ۔ خود اپنی ہیچ میرزی اور بی بی کی بلندی ان کی نظر میں کھٹکتی تھی۔ ضرورتیں مجبور کرتی تھیں ، نئی نئی بی بی، کچھ روپیہ پیسہ بھی ہاتھ آ جاتا تھا۔ اس لیے چپ تھے ۔ ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ مدی جو سو کر اٹھیں تو ایک چھڑغائب۔ بستر پر اِدھر اُدھر دیکھا، دلائی جھاڑی، پائینتی جھک کے دیکھا، گھر میں ادھر اُدھر تلاش کیا مگر کہیں نہ ملا۔ نہ معلوم کیا سمجھ کر چپ ہو گئیں ۔ دو پہر کے قریب ماں سے آ کر کہا ۔ ماں نے شور مچا دیا۔ تحصیل دار صاحب تک خبر ہوئی، انھوں نے سنتے ہی کہہ دیا کہ یہ حرکت سوائے مدی کے دولہا کے اور کسی کی نہیں ہو سکتی ۔ یہ بھی کہا کہ اس کے جوا کھیلنے کی خبر مجھ تک پہنچ چکی ہے ۔ لیجیے صاحب شوہر بھی روٹھ گئے ۔ دو چار دن کے بعد رخصتی کا اصرار ہوا۔ مگر چھڑے والی بات پکڑکر مدی کے ماں باپ نے انکار کر دیا۔ ایک روز مدی کے شوہر نے حسن علی کے گھر آ کر بہت سخت سست سنایا، اور غصے میں یہ بھی کہا کہ حرام زادی کے جھونٹے پکڑکر گھسیٹتا نہ لے جاؤں تب کہنا۔ اس وقت تک مدی نے کسی کی جانب داری نہیں کی تھی لیکن اب وہ بھی فرنٹ ہو گئی۔ اور ایسی فرنٹ ہوئی کہ مرتے دم تک پھر منھ نہ دیکھا۔ حسن علی نے بھی خیال کیا، داماد ممکن ہے کچھ شہداپن ہی کر بیٹھے ، اس لیے مدی کا پورے طور سے تحصیل دار صاحب ہی کے یہاں رہنا اچھا ہے ۔ شوہر صاحب، ہمیشہ کے لیے معطل کر دیے گئے ۔
جب سے مدی کی شادی ہوئی تھی۔ تحصیل دار صاحب کچھ چپ سے رہتے تھے، اس واقعے کے بعد وہ بھی بحال ہو گئے ۔ مدی کے شوہر نے اپنی مفاہمت سے یہ بھی کہا کہ تحصیل دار صاحب نے اس سے آشنائی کر رکھی ہے مگر اس کو کون باور کرتا۔ حسن علی والی بات پر تو لوگ ہنسی مذاق بھی کرتے تھے مگر اس بات کو کسی نے جھوٹوں بھی یقین نہ کیا۔ البتہ تحصیل دار صاحب تجربہ کار آدمی تھے، انھوں نے موت زندگی کا خیال کر کے مدی کے لیے علاحدہ گھر اور کچھ بودگی کا انتظام کرنا شروع کیا۔ اس واقعے کے دوسرے سال کے اند ر تحصیل دار صاحب کا انتقال ہو گیا۔ تحصیل دار صاحب مرحوم کے یا تو کوئی نہیں تھا یا یکبارگی نہ معلوم کتنے وارث پیدا ہو گئے اور آپس میں مقدمہ بازی شروع ہو گئی۔ بی مدی نے بھاری پتھر چوم کے چھوڑا۔ اٹھ کر اپنے گھر چلی آئیں ۔ تخت، چارپائیوں، الماریوں پر نہ ان کا حق تھا، نہ انھوں نے دعویٰ کیا۔ نقد جو کچھ تحصیل دار صاحب ان کو دے گئے ہوں ، کون لے سکتا تھا۔ ہاتھ ناک، گلے میں جو کچھ تھا وہ ان کا تھا ہی۔ مدی نے حسن علی کی صلاح سے یہ طریق اختیار کیا کہ اپنے طبقے سے اونچی ہو کر رہنا پسند نہ کیا بلکہ جس حیثیت کے ان کے ماں باپ تھے، اسی برادری میں رہیں ۔ البتہ روپیہ پیسہ اور سلیقہ ہونے کی وجہ سے اپنے طبقے میں یوں رہیں جیسے مالی کی نگاہ میں سب پھولوں میں گلاب کا پھول ہوتا ہے ۔
تحصیل دار صاحب کے سال ہی بھر بعد طاعون بڑے زوروں کا پڑا۔ اس میں میاں حسن علی اور ان کی بی بی بھی چل بسیں، اب صرف بی مدی اور ان کا چھوٹا بھائی رہ گئے ۔
اس وقت تک مدی نے کچھ اچھا برا کیا ہو گا، اس کی ذمہ داری صرف ان کے اوپر نہ تھی۔ کیوں کہ ہر معاملے میں تحصیل دار مرحوم اور اس سے کم درجے تک ان کے باپ کی رائے شامل رہتی تھی۔ اس کے بعد جو کچھ پیش آیا، وہ البتہ ان کے دل و دماغ کا نتیجہ تھا۔ ۔ مدی کابرتاؤ ہر شخص سے عمدہ تھا۔ کوئی شاکی نہ تھا بلکہ اڑوس پڑوس کی عورتیں ہر وقت ان کے گھر میں موجود رہتی تھیں ۔ ان سے بھی جو ہو سکتا تھا، آنے جانے والیوں کے ساتھ سلوک کرتی تھیں ۔ گھر میں کپڑا سینے کی مشین تھی۔ دن بھر لوگوں کے کپڑے مفت سیا کرتی تھی۔ کسی کو اگر روپے دو روپے کی ضرورت ہوتی، وہ بھی قرض کے نام سے دے دیے ۔ جس کسی کا کہیں ٹھکانہ نہ لگے، وہ مدی کے یہاں چلا آئے ۔ روٹی اپنی پکائے دال بی مدی سے لے لے ۔ پان پتا بھی مدی کے پاندان سے کھائے ۔ اسی زمانے میں ایک عورت نہ معلوم کہاں کی باہر سے آئی۔ اس کو بھی مدی نے رکھ لیا۔ عورت سلیقہ مند تھی۔ اپنا بار بھی ان پر نہیں ڈالتی تھی بلکہ پیسے دو پیسے کا سلوک خود ہی کر دیتی تھی۔ کچھ انگوٹھیاں، کچھ کیلیں، لیس، صابون وغیرہ بیچتی تھیں ۔ صبح ہوئی اور برقع اوڑھ کر نکل گئیں ۔ دوپہر کو آئیں، کھانا کھایا، آرام کیا، اس کے بعد پھر نکل گئیں ۔ شام کو لوٹیں ...یہ مسماۃ آئی تھیں تو یہ کہہ کر دو چار دن میں سودا کر کے دوسری جگہ چلی جائیں گی۔ مگر مدی سے کچھ ایسی پرگت ملی کہ گھر کی طرح رہنے لگیں ۔ محبت و یگانگی کی وہ پینگیں بڑھیں کہ سگی بہنیں مات تھیں ۔ صورت و شکل کی تو معمولی تھیں مگر قد کشیدہ تھا۔ جب برقع اوڑھ کر راستہ چلتی تھی تو معلوم ہوتا تھا کہ مرد کا بھیس بدلے ہوئے چلا آتا ہے ۔ چال ڈھال قد کے علاوہ بھی کچھ اور باتیں مردوں کی ایسی تھیں مثلاً ہاتھ پاؤں کے دیکھتے سینہ کم تھا۔ کمر، کولھے، پاؤں کی چوڑی چوڑی ایڑیاں بھی عورتوں کی ایسی نہ تھیں ۔ تھوڑے ہی دنوں میں یہ ہو گیا کہ دن کو ویسا ہی مجمع رہتا تھا مگر رات کو دوسری عورتیں کم رہنے لگیں ۔ جب منھ نہیں پایا تو پرائے گھر میں کیسے ٹھہرتیں ۔ پہلے تو عورتوں میں سرگوشیاں ہوئیں ، پھر محلے میں ہر شخص اسی کا ذکر کرنے لگا۔ مگر مدی اور اس عورت نے بجائے تردید کرنے کے ایک آزادانہ بے پروائی کا انداز اختیار کر لیا۔ ان عورتوں نے کہا، ہم لوگ کسی کی بہو بیٹی ہیں یا پھر سے نکاح کرنا ہے جو ہر شخص کے آگے قسمیں کھاتے، قرآن اٹھاتے پھریں ۔ دنیا اپنی راہ، ہم اپنی راہ۔ مدی نے کہا، اگر ہمارے کوئی والی وارث ہوتا تو کسی کی مجال پڑی تھی کہ ایسی بات کہتا۔ زمانہ گذرتا گیا اور لوگوں کا شک یقین میں بدلتا گیا۔ قاعدہ ہے کہ پنچ برادری سے اگر دب جاؤ تو وہ اور دباتے ہیں ۔ اگر مقابلے پر تیار ہو جاؤ تو لوگ اپنی نیکی کی وجہ سے اکثر معاف بھی کر دیتے ہیں ۔ یہی حال ان دونوں کا ہوا کہ نہ کسی نے پوچھ گچھ کی، نہ انھوں نے انکار کی زحمت اٹھائی۔
لکھنے والے کو اغلام مساحقے کے ذکر میں کوئی مزا نہیں آتا، مگر اسی کے ساتھ ان چیزوں کا ذکر کرنے سے ڈرتا بھی نہیں ۔ اگر یہ چیز دنیا میں ہوتی ہیں تو چپ رہنے سے ان میں اصلاح نہ ہو گی۔ نہ یہ طے ہو سکے گا کہ کہاں تک یہ چیزیں فطری ہیں، اور کہاں تک اسباب زمانہ سے پیش آتی ہیں ۔ کسی جولا ہے کے پاؤں میں تیر لگا تھا۔ خون بہتا جاتا تھا مگر دعائیں مانگ رہا تھا کہ اللہ کرے جھوٹ ہو۔
ہمارے قصبے کے لوگ دراصل ہیولاک ایلس اور فرائڈ نہیں پڑھے ہیں۔ اس وجہ سے مجبوراً ہمیں ان مسائل پر بحث کرنا پڑی۔
ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ ہر عورت میں کچھ جزو مرد کا ہوتا ہے، اور ہر مرد میں کچھ جزو عورت کا۔ جو جزو غالب ہوتا ہے، اسی طرح کے خیالات اور افعال ہوتے ہیں ۔ مردانہ قسم کی عورتیں اور زنانہ قسم کے مرد ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں ۔ ممکن ہے بعض ان میں ایسے ہوں جن کے فطرتاً اپنے ہی جنس سے اچھے تعلقات معلوم ہوتے ہیں ۔ مگر اس میں بھی کلام نہیں کہ اسباب زمانہ سے بھی لوگ اس راہ لگ جاتے ہیں ۔ بجائے اصلاح کی کوشش کے ہر معاملے میں یہی رائے قائم کرنا کہ یہ قدرتی تقاضے سے ہے اور اس لیے اصلاح کی ضرورت نہیں، ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔ البتہ ایسے فعل کی جس میں سماج کا کوئی نقصان نہ ہوتا ہو، تو قانونی سزا ہونی چاہیے یا نہیں یہ دوسرا مسئلہ ہے ۔
اچھا اب قصہ سنیے ۔ مدی اور اس عورت سے دو سال دوستی رہی۔ اسی کے بعد لڑائی ہو گئی۔ کس پر بگاڑہو گیا، یہ کسی کو معلوم نہیں ۔ وہ عورت جس راہ آئی تھی، اسی راہ چلی گئی۔ بی مدی اجڑی بچڑی رنڈاپا کھینے لگیں ۔ جوئندہ یا بندہ۔ تھوڑے دنوں کے بعد ایک اور ہم جنس مل گئیں ۔ اس کے بعد اور بھی ملا کیں مگر ؂
نہ بے وفائی کا ڈر تھا نہ غم جدائی کا
مزا میں کیا کہوں آغاز آشنائی کا
وہ پہلی سی بات پھر نہ نصیب ہوئی۔ اب روپیہ پیسہ بھی کم رہ گیا تھا، اسی لیے آمدنی بڑھانے کی بھی فکر دامن گیر ہوئی۔ بی مدی نے تحصیل کے آگے ہاتھ بڑھایا، نہ پھر سے شادی کی ہوس کی بلکہ خود کام کرنے پر تیار ہو گئیں ۔ پراٹھے کباب بنانا شروع کیے ۔ جاڑوں کی فصل میں انڈے گاجر کا حلوا بنانے لگیں ۔ کچھ عورتوں کی ضروریات کا بساط خانہ بھی منگوا لیا۔ چکن کورشیا کا بھی ڈھچر ڈالا، بیچنے والوں کی کمی نہ تھی۔ ارد گرد کی لڑکیاں اور عورتیں سودا بیچ لاتی تھیں اور حق المحنت سے زیادہ حصہ پاتی تھیں ۔ بی مدی کو سودا گری کا سب سے بڑا گر نہیں یاد تھا۔ یعنی جو آدمی بہت سے کام ساتھ ہی کرتا ہے، وہ کوئی کام نہیں کر سکتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خرچ آمدنی سے زیادہ ہی رہا۔ یہاں تک کہ مکان بھی گروی رکھنا پڑا۔
روپیہ جانے کے بعد توقیر میں بھی فرق آ جاتا ہے مگر اس کی شائستگی اور رکھ رکھاؤ ایسا تھا کہ پھر بھی لوگوں کی نظر میں ہلکی نہ ہوئی۔ کپڑے اب بھی سلیقے کے پہنتی تھی۔ گاڑھا پردہ کبھی نہیں تھا۔ آج بھی سڑک پر ماری ماری نہیں پھرتی تھی۔ تنخواہ والے نوکر کبھی نہیں تھے ۔ آج بھی کام کاج کرنے والے آسانی سے مل جاتے تھے مگر اقبال مندی میں گھن بہت دنوں سے لگ چکا تھا، اس لیے چہرے کی آب رخصت ہو چکی تھی۔ زمانہ بدل جانے سے مزاج میں بھی فرق آ گیا تھا۔ ایک دن ان کے گھر میں کئی عورتیں جمع تھیں ۔ کسی نے کہا، "بن مرد کی عورت کس گنتی شمار میں ہے ۔ " بی مدی بول اٹھیں "سچ کہتی ہو بہن"۔ ایسی بات ان کے منھ سے کبھی نہیں سنی گئی تھی۔ یہ سن کر بعض نے دوسروں کو اشارہ کیا۔ بعض نے اتفاق کیا۔ دو ایک ایسی بھی تھیں جو مدی کا منھ تعجب سے دیکھنے لگیں ۔ یہ وہ تھیں جنھوں نے مدی کے منھ سے مرد کا نام بلا ناک بھوں چڑھائے عمر بھر نہیں سنا تھا۔
زمانہ گذرتا گیا۔ مگر بی مدی کے دن نہ پھرنا تھے نہ پھرے ۔ کچھ دنوں بعد ایک شاہ صاحب آئے ۔ بہت مرجع خلائق تھے ۔ عقیدت مندوں کا ہجوم ہر وقت لگا رہتا تھا۔ بی مدی بھی دو تین بار کباب پراٹھے کی نذر نیاز پیش کر چکی تھیں ۔ اتنے میں خبر اڑی کہ شاہ صاحب حج کو جائیں گے ۔ ہمیشہ مرغ پلاؤ توکل پر کھایا کیے ۔ اب حج بھی توکل پر کریں گے ۔ جس دن شاہ صاحب چلے، لوگوں نے دیکھا مدی بھی دامن سے لگی چلی جا رہی ہیں اور لوگوں سے کہا سنا معاف کرا رہی ہیں ۔ جو کچھ بچی کھچی پونجی تھی، وہ بیچ کر نقد کر لیا۔ باقی کے لیے شاہ صاحب کی ذات اور توکل کا توشہ کافی ٹھہرا۔ حج سے واپسی پر وطن نہیں آئیں بلکہ شاہ صاحب ہی کے قدموں سے لگی رہیں ۔ شاہ صاحب اپنے وقت کے بلعم باعور تھے ۔ جی چاہے الگنی پر ڈال دیجیے، چاہے چادر کی طرح کاندھے پر لٹکا لیجیے ۔ مدی میں جوانی کی کنی گلنے میں اب بھی دیر تھی۔ مگر شاہ صاحب کو دیکھ کر خواب میں بھی آشنائی کا خیال نہیں ہوتا تھا۔ لیکن اگر غور کیجیے تو پیر بھی ایک طرح کا شوہر ہی ہوتا ہے جس پر مرید اسی طرح تکیہ کرتا ہے جیسے عورت مرد پر۔
 
جزاک اللہ سید شہزاد ناصر سرکار
فکر انگیز و دلچسپ تحریر ۔۔۔ زبردست
سدا سعادتیں سمیٹیں
یہ چوہدر محمد علی رودلوی کی نمائندہ تحریر نہیں ہے
ان کی تحریر میں زبان و بیان کی چاشنی ہے
ان کے خطوط ضیا محی الدین نے تحت لفظ پڑھے ہیں
خاصے کی چیز ہیں
 

تلمیذ

لائبریرین
بہت عمدہ کھوج، شاہ جی۔
آپ کی وساطت سےچوہدری محمد علی رودلوی کی پہلی تحریر نظر سے گذری ہے اور متاثر کن ہے۔
جزاک اللہ!
 

پردیسی

محفلین
بہت خوبصورت کہانی اور اعلی اندازوبیاں
بہت عرصہ بعد مزا آیا
بہت شکریہ برادر سید شہزاد ناصر صاحب
 
بہت خوبصورت کہانی اور اعلی اندازوبیاں
بہت عرصہ بعد مزا آیا
بہت شکریہ برادر سید شہزاد ناصر صاحب
چوہدری محمد علی رودلوی کی تحاریر کا انداز بیان بہت خوبصورت ہوتا ہے تشبیہات اور استعارات کا بہت خوبصورتی سے استعمال کرتے ہیں
افسوس ان کی تحاریر انٹرنیٹ پر دستیاب نہیں
 
قبلہ !آپ بھی بڑی دور کی کوڑی لائے ہیں، صاف ،شستہ، رواں، سلیس تحریر، مزہ دے گئی صاحب
چوہدری محمد علی اردو ادب کے عطر کی گمشدہ خوشبو کی طرح ہیں
بہت سے لوگ شاید ان کا نام بھی نہیں جانتے
پسند کرنے کا شکریہ
شاد و آباد رہیں
 

نایاب

لائبریرین
بہت گہری فکر کے در کھولتی اک بہترین شراکت ۔
قصہ مختصر میں ہزار داستان سمیٹ دی ۔۔۔۔۔
بہت شکریہ بہت دعائیں محترم سید بادشاہ ۔
 
بہت گہری فکر کے در کھولتی اک بہترین شراکت ۔
قصہ مختصر میں ہزار داستان سمیٹ دی ۔۔۔ ۔۔
بہت شکریہ بہت دعائیں محترم سید بادشاہ ۔
بھائی جی یہ اردو ادب کے گمشدہ اوراق ہیں
پسند کرنے کا شکریہ
شاد و آباد رہیں
 

تلمیذ

لائبریرین
چوہدری محمد علی رودلوی کی تحاریر کا انداز بیان بہت خوبصورت ہوتا ہے تشبیہات اور استعارات کا بہت خوبصورتی سے استعمال کرتے ہیں
افسوس ان کی تحاریر انٹرنیٹ پر دستیاب نہیں
میرا تو خیال ہے کہ ان کی دستیابی کی جگہ پرانی کتابوں کے بک سٹال ہی ہیں (خصوصی توجہ برائے راشد اشرف صاحب) ۔ کیونکہ آؤٹ آف پرنٹ ہونے کی بنا پر عام کتابوں کی دکانوں سے تو ملنے سے رہیں۔
 

اوشو

لائبریرین
رودلوی کی کچھ تحاریر ضیاء محی الدین کے کسی پروگرام میں سنیں تھیں۔ اور تب ہی بہت پسند آئی تھیں۔ شہزاد ناصر جی آپ کی وساطت سے ایک عمدہ تحریر پڑھنے کو ملی۔ بلاشبہ یہ تحاریر اردو ادب کا شاہ کار ہیں۔​
آپ کا شکریہ​
 

پردیسی

محفلین
Khusra+jia+hai.jpg


مدی کا رنگ بنگال میں سو دو سو میں اور ہمارے صوبے میں ہزار میں ایک تھا۔ جس طرح فیروزے کا رنگ مختلف روشنیوں میں بدلا کرتا ہے، اسی طرح مدی کا رنگ تھا۔
تھی تو کھلتی ہوئی سانولی رنگت جس کو سبزہ کہتے ہیں، مگر مختلف رنگ کے دوپٹوں یا ساڑھیوں کے ساتھ مختلف رنگ پیدا ہوتا تھا۔ کسی رنگ کے ساتھ دمک اٹھتا تھا، کسی رنگ کے ساتھ تمتما ہٹ پیدا کرتا تھا۔ بعض اوقات جلد کی زردی میں سبزی ایسی جھلکتی تھی کہ دل چاہتا تھا دیکھا ہی کرے
"مدی! اگر ہم جادوگر ہوتے تو جادو کے زور سے تم کو تتلی بنا کر ایک چھوٹی سی ڈبیا میں بند کر کے اپنی پگڑی میں رکھ لیتے ۔ " اس فن شریف سے واقف کار حضرات جانتے ہیں کہ

ساجد بھائی عاطف بٹ بھائی باباجی سرکار حسیب نذیر عسکری برادر فاتح برادر قیصرانی برادر
 
Top