ہاہاہاغضب کی تحریر ہے جناب۔ بہت شکریہ ٹیگ کرنے کا۔ اف فوہ! چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔ پڑھنا شروع کیا تو وقت کی کمی کے باوجود ) کہ دفتر کو دیر ہوتی تھی) چھوڑا نہ گیا۔ کیا چیز پڑھوادی ہے سید شہزاد ناصر بھائی۔
خوش رہیے !ہاہاہا
جناب ہمارا تو وہی حساب ہے
اس محفل کیف و مستی میں ، اس انجمن عرفانی میں
سب ہی جام بکف بیٹے رہے، ہم پی بھی گئے چھلکا بھی گئے
آپ کا یہ تبصرہ سب تبصروں پر بھاری ہے جناب محمد خلیل الرحمٰن بھائی جیغضب کی تحریر ہے جناب۔ بہت شکریہ ٹیگ کرنے کا۔ اف فوہ! چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔ پڑھنا شروع کیا تو وقت کی کمی کے باوجود ) کہ دفتر کو دیر ہوتی تھی) چھوڑا نہ گیا۔ کیا چیز پڑھوادی ہے سید شہزاد ناصر بھائی۔
آپ نے بالکل ٹھیک کہا یہ انارکلی کی کسی پرانی کتابوں کی دوکان سے ہی ملے گیمیرا تو خیال ہے کہ ان کی دستیابی کی جگہ پرانی کتابوں کے بک سٹال ہی ہیں (خصوصی توجہ برائے @راشداشرف صاحب) ۔ کیونکہ آؤٹ آف پرنٹ ہونے کی بنا پر عام کتابوں کی دکانوں سے تو ملنے سے رہیں۔
آپ نے درست فرمایارودلوی کی کچھ تحاریر ضیاء محی الدین کے کسی پروگرام میں سنیں تھیں۔ اور تب ہی بہت پسند آئی تھیں۔ شہزاد ناصر جی آپ کی وساطت سے ایک عمدہ تحریر پڑھنے کو ملی۔ بلاشبہ یہ تحاریر اردو ادب کا شاہ کار ہیں۔آپ کا شکریہ
کیا کہنے جناب
قدر افزائی کا شکریہ جنابواہ واہ کیا خوبصورت تحریر ہے۔ لطف آ گیا
آپ کی محبت کا شکریہواہ شاہ جی کیا خوب کلاسیک ادب کا شاہکار ڈھونڈا ہے آپ نے
خوبصورت اسلوب و استعارات
خاص طور سے اس جملہ میں پوری تحریر کا مزہ سما گیا
"لیکن اگر غور کیجیے تو پیر بھی ایک طرح کا شوہر ہی ہوتا ہے جس پر مرید اسی طرح تکیہ کرتا ہے جیسے عورت مرد پر"۔
آپ کو یہ سب کیسے پتا چلاچودھری محمد ردولوی کی یہ تحریر منٹو، عصمت اینڈ کمپنی کی ”بہترین نقالی“ سے کسی قدر بھی کم نہیں ۔ اس گروپ کے ادیبوں کا ”مشن“ ہی یہ ہے کہ اخلاقیات کی چادراور چہار دیواری کے اندر موجود جنس، جنسی بھوک اور جنسی عدم توازن کو بے رحم لفظوں کے نشتر سے تار تار کرکے سماج کے گلی کوچوں اس طرح میں پھیلا دو کہ شرفاء کی پڑھی لکھی بہو بیٹیاں بھی تیزی سے اس آلودگی سے ”متاثر“ ہوتی چلی جائیں اور ان نام نہاد ادیبوں کے ”قلم اور پیٹ کی بھوک“ مٹانے کا مستقل ”وسیلہ “ بن سکیں۔
جی یہ خاکسار ادب کا ایک ادنیٰ طالب علم ہے۔ مختلف اقسام کے ادباء کی تحریروں، ان کی سوانح حیات پڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کی ”حرکتوں“ سے بھی واقفیت ہے، اس لئےآپ کو یہ سب کیسے پتا چلا
یعنی آپ منٹو ، عصمت، رحمان مذنب وغیرہ کے لکھے کو بھی "ادب" مانتے ہیں۔ پھر ان پر تنقید بےادبی نہ ہوئیجی یہ خاکسار ادب کا ایک ادنیٰ طالب علم ہے۔ مختلف اقسام کے ادباء کی تحریروں، ان کی سوانح حیات پڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کی ”حرکتوں“ سے بھی واقفیت ہے، اس لئے
جتنی ”بے ادبی“ اس قسم (یا اس قماش ) کے (نام نہاد) ادیبوں نے ”ادب“ کے نام پر تحریر کی ہے، اتنی تو ”غیر ادبی“ (تواریخ، سائنس، طب، نفسیات، ادیان وغیرہ جیسے شعبہ حیات کے) لکھاریوں نے مل کر بھی نہیں لکھی ہوگی۔یعنی آپ منٹو ، عصمت، رحمان مذنب وغیرہ کے لکھے کو بھی "ادب" مانتے ہیں۔ پھر ان پر تنقید بےادبی نہ ہوئی