’’کاف سین‘‘ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے یہود کی بحیثیت قومیت سے انکار کر دیا۔ برائے کرم جب کسی عنوان کے متعلق آپ کے پاس کافی علم نہیں تو زبان کھولنے کی زحمت نہ کیا کریں۔
 
’’کاف سین‘‘ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے یہود کی بحیثیت قومیت سے انکار کر دیا۔ برائے کرم جب کسی عنوان کے متعلق آپ کے پاس کافی علم نہیں تو زبان کھولنے کی زحمت نہ کیا کریں۔
یہود کی کل عالمی آبادی صرف 1،5 کروڑ ہے۔ جو کہ مختلف قومیتوں میں یوں تقسیم ہے:
jewishpopulation2010.jpg

ہر ملک کے یہودیوں کی زبان، رسم و رواج دیگر سے مختلف ہے۔ صرف ہم مذہب یا دین ہو جانے سے قوم ایک نہیں بن جاتی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو عقل سلیم عطا کرے۔ آمین
 
معلومات فراہم کرنے کے لیے انتہائی مشکور ہوں۔ جناب قومیت سے مراد صرف یہ نہیں ہے کہ مختلف جگہوں یا زبان سے تعلق رکھنے والے ہوں۔ ’’مسلمان ایک قوم ہیں‘‘ اس کا آپ کیا جواب کریں گے۔ شکریہ
 

سید عمران

محفلین
ہم آپ کی بات سے متفق ہیں لیکن ’’کاف سین‘‘ صاحب یہ بھول جاتے ہیں کہ یہودی قوم جہاں کہیں بھی آباد ہے تمام کا شجرۂ نسب ایک جگہ جمع ہوتا ہے۔
 
میری رائے میں مابین المذاہب گفتگو کرنا، خاص طور پر کسی بھی اوپن پلیٹ فارم پر، دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے۔ جب آپ کسی اوپن پلیٹ فارم پر کسی مذہب کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں تو دعوت، ہمدردی، اعتدال اور رواداری کے اہم پہلوؤں کو ملحوظ خاطر رکھنا آپ کی تحریر کو مؤثر بنا دیتا ہے۔ بصورت دیگر آپ کی بات ہوا ہوجاتی ہے یا آپ کو نقصان دے جاتی ہے۔
میری ناقص رائے میں اس کی خاص تربیت کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ہمارے اس کا فقدان ہے۔
بلکہ میں اس پر زور دوں گا کہ چونکہ دنیا گلوبل ویلج بننے جارہی ہے، اس لیے ہمارے اداروں میں اس کے باقاعدہ تربیتی کورسز ہونے چاہییں۔ شاید بہت محدود پیمانے پر یہ تربیت شروع بھی کی گئی ہے۔
 
’’عبید انصاری‘‘ بھائی میں نے ’’تیسری عالمی جنگ‘‘ کا مضمون مابین المذاہب گفتگو پر نہیں لکھا بلکہ عالمی طاقتوں کی دہشت گردی کو عیاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ مکالمہ بین المذاہب میں مؤثر اسلوب کو بروئے کار لانے کی کوشش کرتے ہیں بہر حال آپ کی تجویز خوب ہے ان شاء اللہ عملی جامہ پہنانے کی کوشش کریں گے۔ دنیا گلوبل ولیج کیوں بننے جا رہی ہے آپ کو اس بارے یعنی ’’گلوبلائزیشن‘‘ کے بارے ضرور پڑھنا چاہیے اور ہمیں اپنی بساط کے مطابق اس سازش کو ناکام بنانا چاہیے
 
معلومات فراہم کرنے کے لیے انتہائی مشکور ہوں۔ جناب قومیت سے مراد صرف یہ نہیں ہے کہ مختلف جگہوں یا زبان سے تعلق رکھنے والے ہوں۔ ’’مسلمان ایک قوم ہیں‘‘ اس کا آپ کیا جواب کریں گے۔ شکریہ
اسکا جواب آپکو روز ملتا ہے جب مسلمان مسلمانوں کے ہاتھوں ہی رسوا اور شہید ہوتے ہیں۔
 

امان زرگر

محفلین
اگر کچھ قابلِ غور امر ہے اس بحث میں تو وہ محض ذاتی اصلاح ہے۔ کیونکہ مجموعی طور پر نظریاتی و عملی اصلاح کے معاملات متعلقہ افراد بحسن و خوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ پاکستان میں حالیہ دنوں میں ''پیغامِ پاکستان'' اس کی مثال ہے۔ ہم جملہ مسلمانوں کو اگر ضرورت ہے تو وہ ذاتی اصلاحِ احوال کی ہے، بحیثیتِ فرد اعمال کی درستی مجموعی طور پر اثر انداز ہو گی۔ مسلم قوم یا امتِ مسلمہ پر تنقید کی بجائے ہر فرد اپنی اصلاحِ احوال کی فکر کرے۔ اللہ توفیق عطا فرمائے
 
Top