مزمل شیخ بسمل
محفلین
اب تو وزن کا خلا آ گیا ہے۔
اور مقطع کے پہلے مصرعے میں "کر" مجھے کھٹک رہا ہے۔ اس کی وضاحت کر دیں
وزن وغیرہ کا مجھےتو کوئی مسئلہ نہیں لگا مقطع میں. آپ کیوں ایسا لگا؟
اب تو وزن کا خلا آ گیا ہے۔
اور مقطع کے پہلے مصرعے میں "کر" مجھے کھٹک رہا ہے۔ اس کی وضاحت کر دیں
وزن وغیرہ کا مجھےبتو کوئی مسئلہ نہیں لگا مقطع میں. آپ کیوں ایسا لگا؟
ہم بے حیا ہیں ایسے کوئی = جیا بھی ہےمفعول فاعلات مفاعیل فاعلنکر ٹھیک ہے پہلے مصرعے میں۔
خوبصورت الہامیہ آمد ہے۔۔۔ مبارک بادکیا زندگی ہے زیست کا کوئی مزا بھی ہے
ہم بے حیا ہیں ایسے کیا کوئی جیابھی ہے
خود چارہ گر, مریض بھی خود, خود دوا بھی ہے
ہر سانس میرا اسکے اسیر رضا بھی ہے
بسمل بتوں کو دیکھ کر ایماں قوی ہوا
جو حسن بے بہا ہے وہ شان خدا بھی ہے.
خوبصورت الہامیہ آمد ہے۔۔۔ مبارک باد
کیا زندگی ہے زیست کا کوئی مزا بھی ہےہم بے حیا ہیں ایسے کیا کوئی جیابھی ہےپہلے مصرع میں زندگی اور زیست کا یوں استعمال محاورے سے ہٹ کر ہے کہ اگر اسے نثر میں پڑھا جائے تو یوں ہو گا کہ "کیا زندگی ہے، زندگی کا کوئی مزا بھی ہے" اور یوں یہ مصرع اعلیٰ پائے کا نہیں رہتا۔
دوسرے مصرع میں "حیا" کا کیا علاقہ ہے؟ زندگی کے بے مزا یا بے کیف ہونے سے بے حیائی کا تعلق نہیں بنتا۔یہاں بے حیا کی بجائے بے کیف و بے سرور کا محل ہے۔ نیز "کیا" کو کَ باندھا ہے جو قرات میں برا محسوس ہو رہا ہے۔۔۔ اشد مجبوری کے تحت تو باندھ سکتے تھے لیکن یہاں ایسی کوئی مجبوری نہیں تھی، محض "کیا" اور "کوئی" کے مقامات آپس میں تبدیل کر دینے سے روانی آ سکتی ہے۔۔۔ یہ مصرع یوں ہو سکتا ہے "بے کیف و بے سرور کوئی کیا جیا بھی ہے"۔۔۔ اور "ہم" کے نکل جانے سے شعر کا کینوس وسیع ہو جاتا ہے۔
خود چارہ گر, مریض بھی خود, خود دوا بھی ہےہر سانس میرا اسکے اسیر رضا بھی ہےپہلے مصرع میں تین "خود" واقعی اچھے نہیں لگ رہے، دو خود کے مقامات کے بعد تیسرے کے ساتھ "ہی" لگتا تو زیادہ واضح ہو جاتا۔ مثلاً "خود چارہ گر، مریض بھی خود ہی دوا بھی ہے"۔۔۔ اس طرح "ہی" بھی آ جاتا ہے اور دوسرا "خود" مریض اور دوا دونوں پر اپلائی ہو جاتا ہے نیز "خود دوا" کے کے دو دال کے باعث پیدا ہونے والے ایطا کے عیب سے بھی چھٹکارا مل جاتا ہے۔
دوسرے مصرع میں "اس کے اسیر" کی بجائے "اس کا اسیر" کرنے سے محاورہ درست ہو جاتا ہے۔
مزمل شیخ بسمل بھائی معذرت کے ساتھ ۔۔۔
مقطّع اور مطلع دونوں کے دوسرے مصرعوں کا مطلب سمجھا دیجئے۔ میں شاید اس تک نہیں پہنچ پا رہا جو متکلم کہنا چاہ رہا ہے۔
ہر سانس میرا اس کے اسیر رضا بھی ہےکیا یہ شترگربہ نہیں ہے؟
ہیں ں ں ں ں ں !خوبصورت الہامیہ آمد ہے۔۔۔ مبارک باد
میں بھی تو "ان" حضرت کے بارے بتائیں۔۔۔ !!
جب سب کچھ ہی دو نمبر چل رہا ہے تو شاعر بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔جناب فکر نہ کریں، بات ہمارے چائے والے شاعر کی ہو رہی ہے۔
آج اُس نے چائے بنائی دو کی بجائے ایک کپ
افسوس آج تُو بھی فراموش ہو گیا
ایطا غلطی سے لکھا گیا ہے۔۔۔ میرا مطلب تھا تنافرزبردست فاتح بھائی.
بے مزا زندگی سے بے حیائی اور بے غیرتی کا تعلق مجازی ہو نہ ہو حقیقی تو ہے. بے حیا زندگی میں کیا مزا؟ بے سرور بھی درست ہے.
دوسرے شعر میں آپکی اصلاح کے مطابق خود کی جگہ ہی لگانا مجھے بھی اچھا لگ رہا ہے. اسکے لئے شکر گذار. لیکن دو دال سے پیدا ہونے والا ایطا کیا چیز ہے ؟ اسکی وضاحت فرما دیں سمجھ نہیں سکا.
کیا فاتح بھائی کی تجویز کو قبول کرنے کے لیے یہی وجہ کافی نہیں کہ مصرعہ جو پہلے خود کی بے تحاشا دال کی وجہ سے دھکم دھکا ہو رہا تھا اب اس کی نسبت کہیں زیادہ بہتر ، بے تکلف اور رواں دواں ہوگیا۔مجھے تو تنافر بھی نہیں لگ رہا یہ فاتح بھائی اسکے باوجود آپ کی اصلاح اس مصرعے کے بارے میں میرے لئے قابل قبول ہے.
کیا فاتح بھائی کی تجویز کو قبول کرنے کے لیے یہی وجہ کافی نہیں کہ مصرعہ جو پہلے خود کی بے تحاشا دال کی وجہ سے دھکم دھکا ہو رہا تھا اب اس کی نسبت کہیں زیادہ بہتر ، بے تکلف اور رواں دواں ہوگیا۔
جب تنافر وغیرہ کی نوعیت کا کوئی عیب مصرعہ میں نہیں تھا۔تو اصلاح قابل قبول کیوں ہوئی
آپ تو گویا فاتح بھائی سے یوں مخاطب ہیں:
عیب سے پاک ہونے کے باوجود بھی ہم آپ کی تجویز (جسے ہم اصلاح نہیں جانتے)کو شرف قبولیت بخشتے ہیں اور یہ اس لیے نہیں کہ ہمارا مصرعہ قابل اصلاح تھا۔
بلکہ یہ صرف اس لیے کہ ہماری جانب سے یہ سند قبولیت آپ کے لیے باث اعزاز و افتخار و مسرت ہوگی
میں کہاں کا دانا ہوں کس ہنر میں یکتا ہوں ؟(غالب بہ ترمیم)آپ کی اصلاح کا بھی منتظر ہوں.
اور ہمارے کسی جملہ سے برا نہ ماننا ۔۔۔ ۔اس ہنستے ہوئے کاکے کی تصویر کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ ہم نے یہ جملہ مزاقاً کہا ہے
شاکر بھائی! دراصل ان اشعار پر مزمل سے فون پر کافی تفصیلی گفتگو ہو رہی تھی جس وقت مزمل نے یہ مراسلہ لکھا اور باقی تمام امور پر مزمل کی اور میری رائے یکساں تھی سوائے تنافر کے جس پر ہم ایک دوسرے کے نکتۂ نظر کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے اور یہی بات مزمل کے مراسلے کے مضمون میں شامل تھی ورنہ بخدا یہ بچہ مجھے دو وجوہات کی بنا پر واقعی اپنے چھوٹے بھائیوں کی طرح عزیز ہے۔۔۔ اول، یہ ہمیشہ مجھے میری اوقات سے بڑھ کر عزت دیتا ہے اور دوم، اس دور میں عروض جیسے خشک مضمون کو بے حد دلچسپی اور غور سے پڑھ کر سیکھ رہا ہے اور عروض پر اس کا مطالعہ میرے لیے بھی بھی حیران کن ہوتا ہے۔کیا فاتح بھائی کی تجویز کو قبول کرنے کے لیے یہی وجہ کافی نہیں کہ مصرعہ جو پہلے خود کی بے تحاشا دال کی وجہ سے دھکم دھکا ہو رہا تھا اب اس کی نسبت کہیں زیادہ بہتر ، بے تکلف اور رواں دواں ہوگیا۔
جب تنافر وغیرہ کی نوعیت کا کوئی عیب مصرعہ میں نہیں تھا۔تو اصلاح قابل قبول کیوں ہوئی
آپ تو گویا فاتح بھائی سے یوں مخاطب ہیں:
عیب سے پاک ہونے کے باوجود بھی ہم آپ کی تجویز (جسے ہم اصلاح نہیں جانتے)کو شرف قبولیت بخشتے ہیں اور یہ اس لیے نہیں کہ ہمارا مصرعہ قابل اصلاح تھا۔
بلکہ یہ صرف اس لیے کہ ہماری جانب سے یہ سند قبولیت آپ کے لیے باث اعزاز و افتخار و مسرت ہوگی
کیا مطلب جناب؟پھر تو ان اشعار کو یہاں اصلاح کے لیے پوسٹ کرنا ہی نہیں چاہیئے تھا