ریختہ صفحہ 72
جادۂ تسخیر
جس کی سحر بیانی بے مثل و نظیر اور جس کی شیریں زبانی مقبول صغیر و کبیر ہے اگر اس کو یوسف بازار حسن کہیں تو زیبا ہے اور اگر نگارخانہ کہیں تو بجا ہے اور جس کو حاکم قلم رو سخن دانی، فرماں روائے اقلیم روشن بیانی عالی جناب نواب حیدر علی خاں بہادر رئیس رام پور نے بہ عبارت رنگیں تصنیف فرمایا ہے اور کیسا کیسا زور طبع دکھیا ہے۔
باردوم
مطبع منشی نول کشور لکھنؤ میں چھپا5981ء۔
ریختہ صفحہ 73
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
حمد خدائے دو جہاں خالقِ کُن فکاں
حمد بے حد واسطے اُس محبوبِ زمین و زماں اور مطلوبِ مکین و مکاں کے شایاں ہے کہ جس نے اپنے حُسنِ عالم آرا اور جمال دل رُبا کو منظورِ نظر عشق ٹھیرا کر چہرۂ حسینانِ جہاں اور مہ جبینانِ دلستاں میں جلوہ گر فرمایا اور اس سودے کی خریداری کو بمعنی آپ آ کر اور بصورت اوروں کو سودائی بنا کر بازارِ ملامت اور رسوائی میں پھرایا۔ عشقِ لیلٰی میں مجنوں کا بیاباں کو نکل جانا اور سوزِ عشقِ شمع میں پروانے کا جل جانا، گلوں میں نیرنگی کا رنگ، بُلبُلوں کے نغموں میں نالوں کے آہنگ، یوسف کی خریداری، زلیخا کی بے اختیاری، شیریں کے حُسن کا زور، فرہاد کی تلخ کلامی کا شور، کوئی تیوری چڑھائے، کوئی سرِتسلیم جھکائے، کسی کے قامتِ زیبا کو سروِ شمشاد پر فوق، کسی کی گردن میں مثلِ قمری بندگی کا طوق، کسی کے ساغرِ چشم میں کیفیتِ جام شراب، کسی کے دیدۂِ پُر آب میں جوشیں خونِ ناب، کسی کی زُلفِ مشکیں مشکبار، کسی کے دل میں ناسور، کلیجہ فگار، کسی کا چہرہ آفتابِ عالم تاب، کوئی مانند ذرّے کے بے تاب، کسی کے ابرو میں تیغ کا خم، کسی بِسمل کے لبوں پر دَم، کسی کی نکیلی پلکیں، کوئی اُس کا نخچیر، کسی کے لبِ لعلِ آبدار، کسی کا سر پتھر کے ٹکرانے سے گل نار، کسی کی وحشت، کسی کی اُلفت، کہیں ناز، کہیں نیاز، کہیں سوز، کہیں ساز، کسی کی جفاکاری، کسی کی وفاداری، کسی کا تبسم صاعقہ بار، کسی پر نزولِ برق بلا، ہر بار کسی کی گردن کے سامنے صراحی سرنگوں، کسی کا شیشہِ دل حسرت سے پُر خوں، کسی کی کمر کا بال، کسی کی جاں کا وبال، کسی کی کلائی، گلدستہِ نور، کسی کا دل کوتاہ دستی سے چُور، کسی کی ساق
ریختہ صفحہ 74
شمعِ کا فوری، کوئی پروانہ وار سپندِ آتشِ مہجوری، کسی کے کفِ پا میں رخسارۂِ گُل کی ترکیب، کسی کو کانٹوں پر لوٹنا نصیب۔
فی الحقیقت، یہ سب اُسی طالب و مطلوب کا افسانہ ہے اور اُسی حُسن و عشق کا بہانہ ہے۔ سبحان اللہ، خوشا دِل رُبائی، زہے صورت نمائی، اُسی کی عنایت سے زمین نے سکون، آسمان نے عروج پایا۔ اُسی نے خاک کو جامۂِ انسانیت پہنایا، لالے کو رنگ، گل کو بُو دی، گو ہر کو آب، دریا کو آبرو دی۔ سرو کو باآں کہ پادر گلِ ہے۔ لقبِ آزادی دیا اور سبزے کو، باوجودے کہ مصاحبِ گلشن ہے، بیگانہ کیا۔ اُسی کے پرتو سے مہر چراغ روز ہے اور ماہ گوہرِشب افروز۔ کہیں دیدۂِ بے خواب آئینۂ حیرت ہے، کہیں دِل بے تاب نشانۂِ ناوکِ حسرت ہے۔ کسی نازنیں کا دہن موہوم، کسی مہ جبیں کی کم معدوم۔ کوئی صاحبِ تخت و تاج، کوئی نانِ شبینہ کو محتاج۔ اشعار:
ہے یہ نقش ونگارِ، نقشِ مُراد
اُسی موجد کی ہیں یہ سب ایجاد
رنگ و خوبی عطا کیا گُل کو
نالۂِ درد ناک، بُلبُل کو
ماہ کو نور دور ہالے کو
چشم نرگس کو، داغ لالے کو
اُس نے بخشا، بتوں کو حُسن و جمال
عاشقوں کو کیا پریشاں حال
اُس کا ہمسر نہیں، ندیم نہیں
سب ہیں حادث، کوئی قدیم نہیں
ذاتِ معبود جاودانی ہے
اور جو چیز ہے، وہ فانی ہے
ریختہ صفحہ 75
بلا تصنع اُس مصور یکتا اور نقاشِ جہاں آرا نے موقلم قدرت سے ایسی تصویریں، بے مانند اور شکلیں دِل پسند، قلم بند فرمائیں کہ جن کا نقشہ کہیں کھینچنے میں، مانی و بہزاد سے، بجز نالہ و فریاد کے، کچھ نہ کھچ سکا۔ خصوصاً اُس صانع باکمال اور حلی بند لا یزال نے آخر کار ایسی صورت سراپا معنی پیدا کی کہ جس کو تمام عالم نے دیکھ کر کہا۔ شعر:
با صورتِ تو کسے کم تر آفریدہ خُدا
تراشیدہ و دست از قلم کشیدہ خُدا
الغرض یہ نقشِ نو اُس نقاش ِ قدیم کو ایسا پسند آیا کہ آپ عاشق بنا اُس کو معشوق بنایا۔ ہر شخص پر ظاہر ہے، ہر شخص اس سے ماہر ہے کہ اُس نے چاند کو ایک اُنگلی سے شق کیا، اُس نے بطلانِ باطل اور احقاقِ حق کیا۔ صاحبِ تبلیغ و رسالت، دافع ضلالت، باعثِ ہدایت، عرش اُس کے قصرِ رفعت کا آستان، جبرئیل اُس کے نابِ عظمت کا داربان، دفترِ بنی آدم بلکہ کُل خُشک و ترِ عالم، جس کے نور سے معرضِ وجود میں آیا، محض وہ نور، نورِ حضرتِ عزت سے جلوہ گاہِ شہود میں آیا۔
حجر، اُس کی رسالت کا قصر، شجر، اُس کی نبوت کا مظہر، روح القدس، اُسی کا مُرغِ نامہ بر، سلیمان، اُس کا گدائے در "قاب قوسین او ادنی" اُس کا ادنٰی نمونہ قرب و اتصال " لو لاک لما خلقت الافلاک" اُس کا مختصر نقشۂ جاہ و جلال۔ انبیائے کرام ، اُس