جادہ منزل صفحہ 1 تا 100

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ابوشامل

محفلین
مصنف اور تصنیف
بقلم: خلیل احمد حامدی
سید قطب شہید اور ان کے دوسرے ساتھیوں پر جب قاہرہ کی فوجی عدالت میں مقدمہ چل رہا تھا تو دوران مقدمہ سرکاری وکیل کی طرف سے ہر ملزم سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا اس نے "معالم فی الطریق" کا مطالعہ کیا ہے ۔ اس مقدمے کی فرد قرارداد جرم اسی کتاب کے مضامین پر مشتمل تھی۔ چنانچہ یہی کتاب سید قطب اور ان کے ساتھیوں کو تختۂ دار پر لے جانے کا موجب ہوئی ۔ لیکن یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے ۔ تاریخ میں متعدد ایسی کتابیں ملتی ہیں جو اپنے مصنفین کے لیے پیغام اجل لے کر آئیں۔ خود پاکستان کی تاریخ میں بھی اس سے ملتا جلتا ایک واقعہ پیش آ چکا ہے ۔
مصر کا ایک دور وہ تھا جب وہاں بادشاہت کا سکہ رواں تھا اور جسے اب تاریخ مصر کے سیاہ باب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اس سیاہ دور کا واقعہ ہے کہ مصر کے نامور مصنف عباس محمود العقاد نے 1931ء میں پارلیمنٹ میں شاہ مصر احمد فواد الاول پر شدید تنقید کی، چنانچہ انہیں جیل بھیج دیا گیا۔ مگر زیادہ دن نہ گزرنے پائے کہ انہیں رہا کر دیا گیا۔ رہائی کے بعد عقاد کے ایک دوست نے ان سے یہ دریافت کیا کہ "کیا یہ خبر صحیح ہے کہ احمد فواد نے وزیر اسمٰعیل صدقی کو یہ ہدایت کی ہے کہ وہ آپ کو یہ مشورہ دے کہ آپ کچھ نہ کچھ معذرت پیش کر دیں تاکہ اسی کی بنا پر آپ کو رہا کر دیا جائے ؟" عقاد نے اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا: "دراصل احمد فواد اس بات سے ڈر گیا تھا کہ تاریخ کے صفحات پر یہ ثبت ہو جائے گا کہ اس کے عہد میں ایک اہل قلم کو آزادی فکر کی پاداش میں نذر‌ زنداں کر دیا گیا ۔ اس سیاہ دور کے بعد مصر میں 26 جولائی 1952ء کی صبح ایک نئے دور کا آغاز کرتی ہے جسے "اجتماعی مساوات" کے عہد سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اسی "عہد زریں" کا یہ واقعہ ہے کہ ایک ایسی کتاب کی تصنیف پر، جس میں نہایت جچے تلے انداز میں اصولی بحثیں کی گئی ہیں اور کسی شخصیت کو زیر بحث نہیں لایا گیا، مصنف کو پھانسی دے دی جاتی ہے ۔ ہم اسی جاوداں کتاب کا اردو ترجمہ اپنے ملک کے اہل علم کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ اور چاہتے ہیں کہ قارئین تصنیف سے پہلے خود مصنف سے تعارف حاصل کر لیں۔
مصنف کے حالات زندگی اردو میں کسی نہ کسی حد تک منتقل ہو چکے ہیں۔ لیکن مصنف کی عبقری شخصیت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے حالات کو زیادہ تفصیل اور جامعیت کے ساتھ ہند و پاک کے اہل علم و دعوت کے سامنے لایا جائے ۔
خاندان قطب
مصنف کا اصل نام سید ہے ۔ قطب ان کا خاندانی نام ہے ۔ ان کے آباؤاجداد اصلاً جزیرۃ العرب کے رہنے والے تھے ۔ ان کے خاندان کے ایک بزرگ وہاں سے ہجرت کر کے بالائی مصر کے علاقے میں آ کر آباد ہو گئے ۔ انہی کی اولاد میں سے سید قطب کے والد بزرگوار حاجی ابراہیم قطب تھے ۔ حاجی ابراہیم کی پانچ اولادیں تھیں۔ دو لڑکے سید قطب اور محمد قطب، اور تین لڑکیاں حمیدہ قطصب اور امینہ قطب، تیسری لڑکی کا نام معلوم نہیں ہو سکا۔ ان پانچوں بہن بھائیوں میں سید سب سے بڑے ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی محمد قطب بھی بڑے صاحب علم و فضل ہیں۔ ان کے قلم سے اب تک 11 سے زائد ضخیم کتابیں مختلف اسلامی موضوعات پر نکل چکی ہیں اور علمی و تحریکی حلقوں سے غیرمعمولی داد ستائش حاصل کر چکی ہیں۔ امینہ قطب بھی بڑی پڑھی لکھی خاتون ہیں، اور دعوت و جہاد میں اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ سرگرم کار رہی ہیں۔ ان کے اصلاحی اور معاشرتی مضامین بھی مختلف جرائد میں چھپتے رہے ہیں۔ ان کے اصلاحی افسانوں کا ایک مجموعہ "فی تیار الحیاۃ" کے نام سے چھپ گیا ہے ۔ ان کی دوسری بہن حمیدہ قطب بھی میدانِ جہاد میں اپنے بہن بھائیوں سے پیچھے نہیں رہی ہیں۔ یوں خاندان قطب کا ہر فرد گوہر یک دانہ نظر آتا ہے ۔ اور اس مثل کا صحیح مصداق ہے کہ ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔ صبر و عزیمت اور آزمائش و ابتلاء میں بھی اس خاندان نے بیسویں صدی میں جس اعلٰی کردار کا نمونہ پیش کیا ہے اس نے آلِ یاسر کی مثال زندہ کر دی ہے ۔ سید قطب نے تختۂ دار کو چوم لیا۔ محمد قطب جیل میں ڈال دیے گئے اور تعذیب و تشدد کا نشانہ بنے ۔ حمیدہ قطب کو بھی سات سال قید بامشقت کی سزا ملی اور امینہ قطب بھی ایسے ہی انجام سے دوچار ہوئیں۔ تیسری بہن نے بھی جن کا نام صحیح معلوم نہیں ہو سکا سید رفعت نامی اپنا ایک لخت جگر راہ حق میں قربان کر دیا اور جلاد کے تازیانیوں نے اسے شہید راہ الفت کے خطاب سے نواز دیا۔
سید کے حالات زندگی
سید قطب 1906ء میں مصر کے ضلع اسیوط کے موشا نامی گاؤں میں پیدا ہوئے ۔ سید قطب کی والدہ کا اسم گرامی فاطمہ حسین عثمان تھا۔ موصوفہ بڑی دیندار اور خدا پرست خاتون تھیں۔ انہیں قرآن مجید سے بڑا شغف تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کے بچے قرآن کے حافظ ہوں۔ سید قطب اپنی کتاب "التصویر الفنی فی القرآن" کا انتساب اپنی والدہ محترمہ کی طرف کرتے ہوئے موصوفہ کی قرآن سے محبت و شیفتگی کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں:
"اے میری ماں! گاؤں میں رمضان کا پورا مہینہ جب ہمارے گھر پر قاری حضرات قرآن کی دل نشین انداز میں تلاوت کیا کرتے تھے تو تُو گھنٹوں کان لگا کر، پوری محویت کے ساتھ پردے کے پیچھے سے سنا کرتی تھی۔ میں تیرے پاس بیٹھا جب شور کرتا تھا جیسا کہ بچوں کی عادت ہوتی ہے تو مجھے اشاروں کنایوں سے باز رہنے کی تلقین کرتی تھی اور پھر میں بھی تیرے ساتھ کان لگا کر سننے لگ جاتا۔ میرا دل الفاظ کے ساحرانہ لحن سے محفوظ ہوتا اگرچہ میں اس وقت مفہوم سے ناواقف تھا۔"
"تیرے ہاتھوں میں جب پروان چڑھا تو تُونے مجھے بستی کے ابتدائی مدرسہ میں بھیج دیا۔ تیری سب سے بڑی آرزو یہ تھی کہ اللہ میرے سینے کو کھول دے اور میں قرآن حفظ کرلوں اور اللہ مجھے خوش الحانی سے نوازے اور میں تیرے سامنے بیٹھا ہر لمحہ تلاوت کیا کروں۔ چنانچہ میں نے قرآن حفظ کر لیا اور یوں تیری آرزو کا ایک حصہ پورا ہو گیا۔"
"اے ماں! تیرا ننھا بچہ، تیرا جوان لختِ جگر آج تیری تعلیم و تربیت کی طویل محنت کا ثمرہ تیری خدمت میں پیش کر رہا ہے ۔ اگر حسنِ ترتیل کی اُس میں کمی ہے تو حُسنِ تاویل کی نعمت سے وہ ضرور بہرہ ور ہے ۔"
سید کے والد بھی بڑے باخدا اور درویش منش انسان تھے ۔ ان کا پیشہ زراعت تھا۔ سید نے اپنی کتاب "مشاھد القیامۃ فی القرآن" کا انتساب اپنے مرحوم والد کی طرف کیا ہے ۔ اس انتساب میں وہ اپنے والد کے تعلق باللہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"اے باپ! یہ کاوش تیری روح کی نذر کرتا ہوں۔ میں بچہ ہی تھا کہ تونے میرے احساس و وجدان پر یوم آخرت کا خوف نقش کر دیا۔ تونے مجھے کبھی نہیں جھڑکا تھا بلکہ تو میرے سامنے اس طرح زندگی بسر کر رہ تھا کہ قیامت کی باز پرس کا احساس تجھ پر طاری رہتا تھا۔ ہر وقت تیرے قلب و ضمیر میں اور تیری زبان پر اُس کا ذکر جاری رہتا تھا۔ تو دوسروں کا حق ادا کرتے وقت اپنی ذات کے ساتھ تشدد برتتا اور دوسروں سے اپنا حق وصول کرتے وقت تسامح سے کام لیتا تھا۔ اس کی وجہ تُو یہ بتایا کرتا تھا کہ اصل حساب روز قیامت کو ہوگا۔ تُو برائیوں سے درگزر کرتا تھا حالانکہ تجھ میں ان کا جواب دینے کی قدرت ہوتی تھی، بسا اوقات تو اپنی ضرورت کی اشیاء دوسروں کو پیش کر دیتا حالانکہ تو خود ان کا شدید حاجت مند ہوتا تھا، لیکن تُو کہا کرتا تھا کہ زاد آخرت جمع کر رہا ہوں۔ تیری صورت میرے تخیل پر مرقسم ہے ۔ عشاء کے کھانے کے بعد جب ہم فارغ ہو جایا کرتے تو تُو قرآن کی تلاوت کرنے لگ جاتا اور اپنے والدین کی روح کو ثواب پہنچاتا۔ ہم چھوٹے چھوٹے بچے تیرے ساتھ اِدھر اُدھر کی چند آیات گنگنانے لگتے جو ہمیں پوری طرح یاد نہ ہوتی تھیں۔"
سید کی تعلیمی زندگی
سید کی ابتدائی تعلیم گاؤں کے سادہ اور محدود ماحول میں ہوئی۔ انہوں نے اپنی والدہ محترمہ کی دلی آرزو کے مطابق بچپن میں قرآن حفظ کر لیا۔ اس زمانے میں مصر کے دیندار گھرانوں میں حفظ قرآن کا عام رواج تھا۔ اور خاص طور پر جو خاندان اپنے بچوں کو ازہر کی تعلیم دلانے کا شوق رکھتے تھے انہیں لازماً بچوں کو حفظ کرانا پڑتا تھا۔ سید کے والدین اپنے اس ہونہار اور اقبال مند بچے کی اعلٰی تعلیم کے لیے بڑے متفکر تھے ۔ چنانچہ قدرت کی طرف سے ایسا اتفاق ہوا کہ سید کے والدین گاؤں کو چھوڑ کر قاہرہ کی ایک نواحی بستی حلوان میں آ آباد ہوئے ۔ اور یوں سید کے لیے اللہ تعالٰی نے تعلیمی ترقی اور عروج کی راہ ہموار کر دی۔ سید قاہرہ کے ثانوی مدرسے "تجھیزیۃ دارالعلوم" میں داخل ہو گئے ۔ اس مدرسہ میں ان طلباء کو داخل کیا جاتا تھا جو یہاں سے فارغ ہو کر "دارالعلوم" (موجودہ قاہرہ یونیورسٹی) میں تکمیلِ علم کرنا چاہتے تھے ۔ اس دور میں جس طرح دینی و شرعی علوم کی اعلٰی تعلیم گاہ ازہر یونیورسٹی تھی۔ اسی طرح دارالعلوم جدید علوم و فنون کا اعلٰی تعلیمی ادارہ تھا۔ سید نے "تجہیزیہ دارالعلوم" سے فراغت حاصل کرتے ہی 1929ء میں دارالعلوم قاہرہ میں داخلہ لے لیا۔ اور 1933ء میں یہاں سے بی اے ایجوکیشن کی ڈگری حاصل کی اور اپنی خداداد ذہانت کی وجہ سے اسی کالج میں پروفیسر لگا دیے گئے ۔
 

ابوشامل

محفلین
سرکاری ملازمت اور سفر امریکہ
کچھ عرصہ تک دارالعلوم قاہرہ میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھاتے رہے ۔ پھر انہیں وزارت تعلیم میں انسپکٹر آف اسکولز لگا دیا گیا۔ مصر یہ عہدہ بڑے اعزاز و افتخار کا منصب سمجھا جاتا رہا ہے ۔ تاریخ التشریع الاسلامی کے مولف علامہ محمد الخضری بک جیسے فقیہہ و مؤرخ بھی اس عہدہ پر فائز رہ چکے ہیں۔ اسی دوران انہیں وزارتِ تعلیم کی طرف سے جدید طریقہ تعلیم و تربیت کے مطالعہ کے لیے امریکہ بھیجا گیا اور دو سال کے قیام کے بعد امریکہ سے لوٹے ۔ امریکہ میں ان کا قیام تھوڑے تھوڑے عرصے کے لیے مختلف کالجوں میں ہوا۔ واشنگٹن کے ولسن ٹیچرس کالج، گریلی کولوراڈو کے ٹیچرس کالج اور کیلیفورنیا میں اسٹان فورڈ یونیورسٹی میں ان کا قیام رہا۔ اس کے علاوہ نیویارک، شکاگو، سان فرانسسکو، لاس اینجلز اور دوسرے شہروں میں بھی جانے کا موقع ملا۔ امریکہ سے واپسی پر انہوں نے انگلستان، اٹلی اور سوئٹزرلینڈ میں بھی چند ہفتے گزارے ۔ امریکہ کا مختصر قیام ان کے لیے بڑے خیر و برکت کا موجب ہوا۔ موصوف نے مادی زندگی کی تباہ کاریوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ چنانچہ انہیں اسلام کی حقانیت و صداقت پر مزید اطمینان ہوا۔ اور وہ یہ یقین لے کر واپس آئے کہ انسانیت کی اصل فلاح صرف اسلام میں ہے ۔
"اخوان المسلمون" میں شمولیت
امریکہ سے واپس آتے ہی انہوں نے "اخوان المسلمون" کی طرف توجہ دی۔ ان کی دعوت کامطالعہ کیا اور بالآخر 1945ء میں وہ اخوان سے وابستہ ہو گئے ۔ یہ وہ دور تھا جب دوسری عالمی جنگ ختم ہو چکی تھی اور اخوان المسلمون کی تحریک نے عوامی پیمانے پر سیاسی مسائل میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ دوران جنگ انگریزوں نے آزادئ مصر کا جو وعدہ کیا تھا اخوان نے اسے فوری طور پر پورا کرنے کا مطالبہ کر رکھا تھا۔ اس سے ایک طرف اگر اخوان کی مقبولیت میں اضافہ ہو گیا تھا تو دوسری طرف انگریزی استعمار اور شاہی استبداد کی ملی بھگت سے ان کے لیے تکالیف و مصائب کے نئے دروازے بھی کھل گئے تھے ۔ اخوان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ دو سالوں کے اندر اندر ان کے صرف کارکنوں کی تعداد 25 لاکھ تک پہنچ گئی تھی اور عام ارکان اور ہمدردوں اور حامیوں کی تعداد اس سے بھی دوگنی تھی ۔ 12 فروری 1949ء میں اخوان کے مرشد عام استاذ حسن البنا شہید کیے گئے ، اور جماعت کو خلاف قانون قرار دیا گیا۔ آزمائش کا یہ مرحلہ مصر میں فوجی انقلاب کے قیام تک جاری رہا۔ جولائی 1952ء میں فوجی انقلاب برپا ہوا۔ جس نے بے شک اخوان المسلمون کی آزمائش کے ایک دور کو ختم کر دیا مگر ساتھ ہی آلام و مصائب کا ایک اور ایسا دور شروع کر دیا کہ بقول غالب
درد کی دوا پائی درد لا دوا پایا​
اس آزمائش کے بعد اخوان کے اندر جن لوگوں کو نمایاں اہمیت حاصل ہوئی ان میں ایک حسن الہضیبی ہیں جو بعد میں اخوان المسلمون کے مرشد عام منتخب ہوئے اور دوسرے عبد القادر عودہ شہید ہیں جو جماعت کے جنرل سیکرٹری (وکیل) مقرر ہوئے ۔ اور تیسرے جناب سید قطب جنہوں نے فکری میدان میں جماعت کی عظیم الشان خدمات سر انجام دیں۔
1952ء کے وسط میں اخوان المسلون کی تحریک دوبارہ بحال ہوئی۔ فاروق کا دور جبر ختم ہوا۔ اخوان کے رہنما اور کارکن جیلوں سے رہا ہوئے ، اور حسن الہضیبی کی قیادت میں قافلۂ تحریک نئے ولولوں سے وقفِ سفر ہوا۔ استاذ سید قطب اخوان کے مکتب الارشاد (مجلس عاملہ) کے رکن منتخب ہوئے ۔ جماعت کے مرکزی دفتر میں انہیں شعبۂ توسیع دعوت کا رئیس (انچارج) مقرر کر دیا گیا۔ 52ء سے پہلے تو وہ جماعت کے ایک عام رکن تھے مگر اب ان کا شمار رہنماؤں میں ہونے لگا۔ اور انہوں نے اپنی زندگی ہمہ تن دعوت و جہاد کے لیے وقف کر دی۔ اور مختلف پہلوؤں اور مختلف طریقوں سے اس تحریک کی خدمت کی۔ مارچ 1953ء میں مصر کے معاشرتی بہبود کے سرکل نے سید قطب کو معاشرتی بہبود کی کانفرنس میں شرکت کے لیے دمشق بھیجا۔ سید موصوف نے اس کانفرنس میں متعدد لیکچر دیے جن میں قابل ذکر لیکچر یہ تھا "التربیۃ الخلقیۃ لوسیلۃ لتحقیق التکافل الاجتماعی" (اخلاقی تربیت اجتماعی کفالت کو بروئے کار لانے کے ایک ذریعہ ہے ) کانفرنس سے فارغ ہو کر سید موصوف اردن کی زیارت کو روانہ ہوئے مگر اردنی حکام نے انہیں سرحد پر روک لیا اور اردن میں داخل ہونے سے منع کر دیا۔ اردنی حکام کا یہ اقدام گلب پاشا کے احکام کی بنا پر عمل میں آیا تھا جو ان دنوں اردن کے سیاہ و سفید کا مالک تھا۔ دسمبر 1953ء میں سید قطب کو اخوان کے مکتب الارشاد کی طرف سے بیت المقدس میں منعقد ہونے والی اسلامی کانفرنس میں بھیجا گیا۔ اس مرتبہ چونکہ سید قطب عالم اسلامی کے وفود کے ہمراہ اردن میں داخل ہوئے تھے اس لیے اردنی حکام کی طرف سے ان سے تعرض نہیں کیا گیا ورنہ سید قطب کی آتشیں تحریروں سے گلب پاشا کو جو چڑ تھی اس کی بنا پر ان کا اردن میں قدم رکھنا آسان نہ تھا۔ جولائی 54ء میں اخوان کی "مجلس دعوتِ اسلامی" نے سید قطب کو جریدہ "اخوان المسلمون" کا رئیس التحریر مقرر کیا۔ موصوف نے صرف 2 ماہ تک اس جریدے کی ایڈیٹری کے فرائض انجام دیے ۔ 10 ستمبر 1954ء کو اخبار کرنل ناصر کی حکومت کی طرف سے بند کر دیا گیا، کیونکہ اس اخبار نے اخوان المسلمون کی پالیسی کے تحت اس اینگلو مصری پیکٹ کی مخالفت کی تھی جو 7 جولائی 1954ء کو جمال عبد الناصر اور انگریزوں کے مابین ہوا تھا۔ اس پیکٹ کے بعد اخوان اور ناصر کے مابین کشمکش کا آغاز ہو گیا اور اخوان شدید تر دورِ ابتلاء میں گھر گئے ۔ ایک جعلی سازش کے الزام میں حکومت مصر نے اخوان المسلمون کو خلاف قانون قرار دے دیا۔ اخوان رہنماؤں کو گرفتار کر لیا۔ انہیں موت کی سزائیں دی گئیں ۔ ان کے ہزار ہا کارکنوں کو جیلوں میں ٹھونس دیا، اور ایسا محشر خیز ہنگامہ برپا ہوا کہ ہر اس شخص کی عزت و آبرو اور جان و مال پر دست درازی کی گئی جو اخوان کے ساتھ کسی نہ کسی نوعیت کا تعلق رکھتا تھا ۔
ابتلاء کا آغاز
ان گرفتار شدگان میں سید قطب بھی تھے ، انہیں مصر کی مختلف جیلوں میں رکھا گیا۔ کبھی قلعہ کی جیل میں، کبھی فوجی جیل میں اور گاہ ابو زعبل کی ہولناک جیل میں۔ سید موصوف کی گرفتاری اور تعذیب کی داستان بڑی زہرہ گداز ہے ، شام کے ہفت روزہ الشہاب کے حوالے سے ہم اس کی تلخیص نقل کرتے ہیں:
"فوجی افسر جب سید قطب کو گرفتار کرنے کے لیے ان کے گھر میں داخل ہوئے تو سید اس وقت انتہائی شدید بخار میں مبتلا تھے ۔ انہیں اسی حالت میں پابند سلاسل کر لیا گیا۔ اور پیدل جیل تک لے جایا گیا۔ راستے میں شدتِ کرب کی وجہ سے بیہوش ہو کر زمین پر گر جاتے اور جب ہوش میں آتے تو ان کی زبان پر اللہ اکبر وللہ الحمد (یہ اخوان کا نعرہ تھا) کے الفاظ جاری ہو جاتے ۔ انہیں جب سجن حربی (فوجی جیل) میں داخل کیا گیا تو جیل کے دروازہ پر ان کی ملاقات جیل کے کمانڈر حمزہ بسیوفی اور خفیہ پولیس کے افسروں سے ہوئی۔ جوں ہی سید قطب نے جیل کے اندر قدم رکھا تو جیل کے کارندے ان پر ٹوٹ پڑے اور پورے دو گھنٹے تک ان کو زدوکوب کرتے رہے ۔ جیل کے اندر ان پر ایک سدھایا ہوا گرگ نما فوجی کتا بھی چھوڑا گیا۔ جو ان کی ران منہ میں لے کر انہیں اِدھر اُدھر گھسیٹتا رہا۔ اس تمہیدی کاروائی کے بعد انہیں ایک کوٹھڑی میں لے جایا گیا، اور ان سے سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا اور مسلسل سات گھنٹے تک جاری رہا۔ سید قطب کی جسمانی طاقت گرچہ جواب دے چکی تھی مگر قلبی حرارت اور اطمینان و صبر کی طاقت نے انہیں پتھر کی چٹان میں تبدیل کر دیا تھا۔ ان پر گوناگوں اذیتوں کی بارش ہوتی رہی مگر وہ "اللہ اکبر وللہ الحمد" کے سرورِ جاودانی میں مستغرق رہتے ۔ رات کو جیل کی تنگ و تاریک کوٹھڑی میں ڈال دیے جاتے اور صبح کے وقت بلا ناغہ انہیں پریڈ کروائی جاتی۔ ان مالایطاق مشقتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ متعدد بیماریوں میں مبتلا ہو گئے ۔ 3 مئی 1955ء کو انہیں فوجی اسپتال میں منتقل کر دیا گیا۔ اس وقت موصوف امراض سینہ، قلبی ضعف، جوڑوں کے درد اور اسی نوعیت کی دوسری بیماریوں میں مبتلا تھے ۔
موصوف کے ایک شاگرد جناب یوسف العظم لکھتے ہیں:
"تعذیب کے گوناگوں پہاڑ سید قطب پر توڑے گئے ۔ انہیں آگ سے داغا گیا، پولیس کے کتوں نے انہیں کچلیوں میں لے کر گھسیٹا، ان کے سر پر مسلسل کبھی گرم اور کبھی ٹھنڈا پانی انڈيلا گیا، انہیں لاتوں اور گھونسوں سے مارا گیا، دل آزار الفاظ اور اشاروں سے ان کی توہین کی گئی۔ مگر ان سب چیزوں نے سید کے ایمان و اذعان میں اضافہ کیا اور حق پر ان کے قدم مزید جم گئے ۔"
 

ابوشامل

محفلین
عزیمت کی ایک مثال
13 جولائی 1955ء کو مصر کی "عوامی عدالت" (محکمۃ الشعب) کی طرف سے سید قطب کو 15 سال قید بامشقت سنائی گئی۔ "عوامی عدالت" کا یہ فیصلہ ان کی غیر حاضری میں سنایا گیا کیونکہ موصوف اس قدر کمزور ہو چکے تھے کہ وہ عدالت میں حاضر نہ ہو سکتے تھے ۔ 15 سالہ قید بامشقت کا ابھی ایک سال گزرا تھا کہ جمال عبد الناصر کی طرف سے ایک نمائندہ سید قطب کے پاس جیل خانے بھیجا گیا۔ اس نے سید قطب کو یہ پیش کش کی کہ "اگر آپ چند سطریں معافی نامہ کی لکھ دیں جنہیں اخبارات میں شائع کیا جا سکے تو آپ کو رہا کر دیا جائے گا، اور جیل کے مصائب سے نجات پا کر آپ گھر کی آرام دہ زندگی سے متمتع ہو سکیں گے ۔" اس پیش کش کے جواب میں اس مردِ مومن نے جو جواب دیا اُسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ انہوں نے کہا:
"مجھے ان لوگوں پر تعجب آتا ہے کہ جو مظلوم کو کہتے ہیں کہ ظالم سے معافی مانگ لے ۔ خدا کی قسم، اگر معافی کے چند الفاظ مجھے پھانسی سے بھی نجات دے سکتے ہوں تو میں تب بھی کہنے کے لیے تیار نہ ہوں گا، اور میں اپنے رب کے حضور اس حال میں پیش ہونا پسند کروں گا کہ میں اس سے خوش ہوں اور وہ مجھ سے خوش ہو ۔
جیل میں جب کبھی ان سے پیش کش کا ذکر کیا گیا اور معافی کا مشورہ دیا گیا تو انہوں نے ہمیشہ یہ کہا کہ "اگر میرا قید کیا جانا برحق ہے تو میں حق کے فیصلہ پر راضی ہوں، اور اگر باطل نے مجھے گرفتار کر رکھا ہے تو میں باطل سے رحم کی بھیک مانگنے کے لیے تیار نہیں ہوں ۔" عوامی عدالت (محمکۃ الشعب) کی کاروائی حکومت کی طرف سے کتابی شکل میں شائع کی جا چکی ہے ۔ اس کاروائی سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ سید قطب کو حکومت کی طرف سے وزارت تعلیم کی پیش کش بھی کی گئی تھی لیکن انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کر دی کہ وزارت کا قبول کرنا اس وقت تک لا حاصل ہے جب تک مصر کے پورے نظام تعلیم کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کا اختیار نہ ہو۔
رہائی!!
1964ء کے وسط تک سید قطب مصر کے مختلف جیل خانوں میں رہے ۔ ابتداء کے 3 سال تو انہوں نے انتہائی اذیت اور عذاب میں گزارے ۔ مگر بعد میں جبر و تشدد کا سلسلہ ہلکا کر دیا گیا اور ان کے اعزہ و اقارب کو بھی ملاقات کی اجازت مل گئی اور خود انہیں بھی جیل کے اندر اپنے علمی مشاغل جاری رکھنے کی سہولت کسی حد تک مہیا ہو گئی۔ اس جزوی سہولت سے انہوں نے پورا فائدہ اٹھایا اور اپنی تفسیر "فی ظلال القرآن" کی تکمیل پر متوجہ ہو گئے ۔ 1964ء کے وسط میں جب کہ ان کی قید کو تقریباُ دس سال ہو گئے تھے اور بالعموم 15 سال کی سزا پانے والا قیدی عملاً دس یا گیارہ سال گزار کر رہا ہو جاتا ہے ۔ عراق کے مرحوم صدر عبد السلام عارف نے قاہرہ کا دورہ کیا اور صدر ناصر سے سید قطب کی رہائی کی درخواست کی۔ چنانچہ صدر ناصر نے جو عبد السلام عارف مرحوم کے ساتھ خوشگوار تعلقات کے قیام کے متمنی تھے اس درخواست کے جواب میں سید قطب کو رہا کر دیا ۔ مگر اس رہائی سے عملاً کوئی فرق نہ پیدا ہوا۔ کیونکہ وہ برابر پولیس کی نگرانی میں رہتے تھے اور انہیں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت نہ تھی۔
دوبارہ گرفتاری و سزا
اس مقید آزادی کو ایک سال بھی نہ گزرنے پایا کہ سید قطب کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ ان پر الزام یہ تھا کہ وہ طاقت کے ذریعہ حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے تھے ۔ چنانچہ نہ صرف انہیں بلکہ ان کے بھائی محمد قطب اور ان کی ہمشیرگان حمیدہ قطب اور امینہ قطب کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ اور ان کے علاوہ اور بھی کثیر تعداد کو گرفتار کر لیا گیا۔ ڈیلی ٹیلیگراف کی رپورٹ کے مطابق گرفتار شدگان کی تعداد بیس ہزار سے تجاوز کر گئی ۔ ان میں سات سو کے قریب عورتیں تھیں۔ اس پکڑ دھکڑ کا آغاز اس وقت ہوا جب اگست 1965ء میں صدر ناصر نے روس کا دورہ کیا اور ماسکو میں ایک بیان دیتے ہوئے کہا کہ "اخوان المسلمون" نے میرے قتل کی سازش تیار کی ہے جو طشت ازبام ہو چکی ہے ۔ ماضی میں میں نے انہیں معاف کر دیا تھا لیکن اب معاف نہیں کروں گا" اس اعلان سے ایک سال پیشتر (24 مارچ 1964ء) مصر میں ایک نئے قانون (نمبر 119 مجریہ 1964ء) کے ذریعہ صدر کو یہ اختیارات دیے گئے تھے کہ وہ جسے چاہے بغیر مقدمہ چلائے گرفتار کر سکتا ہے ، جائیداد کی ضبطی اور دوسری انتظامی کاروائیوں کو روبہ عمل لا سکتا ہے ، اور صدر کی ایسی تمام کاروائیوں کے خلاف عدالتی چارہ جوئی اور اپیل نہیں کی جا سکے گی۔ صدر ناصر کے اعلانِ ماسکو کے بعد گرفتاریوں کا وسیع پیمانے پر سلسلہ شروع ہو گیا۔ اور جیلوں کے اندر تعذیب و تشدد کی بھٹیاں گرم ہو گئیں۔ کچھ عرصہ بعد خاص فوجی عدالتوں میں ان کے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا۔ پہلے اعلان ہوا کہ مقدمہ کی کاروائی ٹیلی ویژن پر دکھائی جائے گی۔ لیکن جب ملزموں نے اقبال جرم سے انکار کر دیا اور تشدد اور مظالم کی داستانیں بیان کیں تو فوری طور پر کاروائی ٹیلی وژن سے روک دی گئی اور بند کمرے میں مقدمہ چلنے لگا۔ ملزموں کی طرف سے کوئی وکیل مقدمہ کی پیروی کرنے والا نہ تھا۔ ملک کے باہر کے وکلاء نے مقدمہ کی پیروی کرنا چاہی مگر انہیں اجازت نہیں دی گئی۔ فرانس کی بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر ولیم تھارپ (William Thorp) اور ہیگ کے مشہور وکیل اے جے ایم وینڈال (A.J.M. Vandal) اور مراکش کے وکلاء نے باقاعدہ اجازت طلب کی جسے رد کر دیا گیا۔ سوڈان کے دو وکیل از خود قاہرہ پہنچ گئے اور وہاں کی بار ایسوسی ایشن میں اپنے آپ کو رجسٹر کرا کر پیروی کے لیے عدالت پہنچے لیکن پولیس نے دھکے دے کر انہیں باہر نکال دیا۔ اور فی الفور مصر چھوڑنے پر انہیں مجبور کیا گیا۔ جنوری اور فروری 1966ء میں ٹریبونل کے سامنے جو کاروائی ہوئی اس میں ملزموں نے بتایا کہ زبردستی اقبال نامے (Confessions) حاصل کرنے کے لیے ان کو جبر و تشدد اور اعضاء شکنی (Torture) کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔ خود سید قطب نے بھی جو اس مقدمہ کی مرکزی شخصیت تھی یہی الزام لگایا۔ ٹریبونل کے صدر نے ملزم کا منہ فوراً بند کر دیا اور ان کی شہادت سننے سے انکار کر دیا۔ ان دل دوز واقعات کی توثیق لندن میں وکلاء کے غیر جانب دار عالمی ادارے (Amnesty International) کی اس رپورٹ سے ہوتی ہے جو مسٹر پیٹر آرکر (Peter Archer) لندن کی پارلیمنٹ کے ممبر نے مصر کا دورہ کرنے کے بعد پیش کی ہے ۔ مسٹر آرکر نے واقعات و حقائق بیان کرنے کے بعد لکھا ہے :
"ملزمین کے جرم یا ان کی معصومیت کے بارے میں کوئی رائے زنی کیے بغیر ایمنسٹی انٹرنیشنل بڑے افسوس کے ساتھ اس امر کا اظہار کرتی ہے کہ ان مقدمات کے حالات و حقائق ان الزامات کی تائید کرتے ہیں جو ملزمین کے ساتھ جبر و تشدد کا سلوک کرنے کے بارے میں لگائے گئے ہیں اور یہ صورت حال مصری انصاف کی غیر جانب داری کو قطعاً مشکوک بنا رہی ہے ۔ایمنسٹی انٹرنیشنل حکومتِ مصر سے مطالبہ کرتی ہے کہ حکومت ملزمین کے بنیادی انسانی حقوق کا احترام کرے اور انہیں کھلے طور پر منصفانہ مقدمہ کا موقع دے کر بین الاقوامی ساکھ میں اضافہ کرے ۔"
تختۂ دار پر لٹکا دیے گئے
اگست 1966ء کو سید قطب اور ان کے دو ساتھیوں کو فوجی ٹریبونل کی طرف سے موت کی سزائیں سنائی گئیں۔ ان سزاؤں پر پوری دنیا کے اندر شدید ردعمل ہوا۔ دینی رہنماؤں، سیاسی شخصیتوں، مذہبی اور اصلاحی تنظیموں اور اخبارات و رسائل کی طرف سے سزاؤں میں تبدیلی کی درخواست کی گئی۔ مگر ان کی شنوائی نہ ہو سکی اور بالآخر 25 اگست 1966ء کی صبح کو یہ سزائیں نافذ کر دی گئیں۔ اور یہ بے نظیر شخصیت، جو مصر اور عرب دنیا کے الحاد پرست اور لادین عناصر کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی تھی "اپنے رب سے راضیاً مرضیاً" جا ملی
ہر گز نمیر و آنکہ دلش زندہ شُد بعشق
ثبت است بر جریدۂ عالم دوامِ ما
 

ابوشامل

محفلین
سید قطب ادب و علم کے میدان میں
سید قطب مصری معاشرے کے اندر ایک ادیب لبیب کی حیثیت سے ابھرے ۔ سیاسی اور اجتماعی نقاد کے عنوان سے انہوں نے نام پیدا کیا اور بالآخر اسلام کے عظیم مفکر اور داعی اور مفسرِ قرآن کے روپ میں وہ دنیا سے جامۂ شہادت پہنے رخصت ہوئے ۔
اخوان المسلمون کے ساتھ منسلک ہونے سے پہلے اُن کے ذہن و فکر نے تغیرات کے کئی مرحلے طے کیے :
انہوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز بچوں کے لیے تاریخی اور اسلامی لٹریچر کی تصنیف سے کیا۔ اور اپنے ایک قلمی رفیق عبد الحمید جودہ السمار کے ساتھ مل کر انبیاء کرام کے قصوں اور کہانیوں پر مشتمل ایک سلسلہ شائع کیا۔ اس سلسلہ کو انہوں نے کہانی کے نہایت پر کشش اور دلکش اسلوب میں بیان کیا ہے ۔ خدا کی برگزیرہ شخصیتوں کے واقعات و احوال کے ذریعہ سے وہ بچوں کے اندر بلند کرداری اور اخلاقی فضیلت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ نژاد نو جب معرکۂ زندگی میں قدم رکھے تو اُس کے سامنے انسانیت و اخلاق کا صرف وہ نمونہ ہو جو اللہ کے پیغمبروں اور نبیوں نے پیش کیا ہے ۔ اس رنگ میں مصر کے دوسرے ادباء نے بھی اپنے قلم کی جولانیاں دکھائی ہیں۔ کامل کیلانی مرحوم تو ساری زندگی "بچوں کے مصنف" کہلاتے رہے ۔ مگر سید قطب کے انداز میں جو سلاست و لطافت اور جذبہ و اخلاص جھلکتا تھا اس میں وہ منفرد نظر آتے ہیں۔ اس دور میں انہوں نے بچوں کے لیے اسلامی اور وطنی گیت بھی لکھے ہیں قلم نے جب مزید ترقی کی طرف قدم اٹھائے تو اظہار خیال کے زاویے بھی بدل گئے ۔ جوانی کی پنکھڑکیاں کھل رہی تھیں کہ ان کا پہلا افسانہ "اشواک" (کانٹے ) دنیائے ادب کے اندر نمودار ہوا۔ اس افسانے کے اندر انہوں نے ایک ایسی پاکیزہ محبت کی داستان بیان کی ہے جس کا انجام ناکامی ہوا ہے ۔ اس افسانہ کو پڑھنے والا محسوس کرے گا کہ وہ ایسے کردار کے ساتھ ہمسفر ہے جو انتہائی کریم النفس اور بلند اخلاق ہے ۔ موصوف افسانے کے انتساب میں لکھتے ہیں:
"اس کے نام جو میرے ساتھ وادئ پرخار میں ہمسفر رہی۔ میں بھی آبلہ پا ہوا اور وہ بھی آبلہ پا ہوئی۔ میں بھی سوختہ نصیبی سے دوچار ہوا اور وہ بھی سوختہ ارماں نکلی۔ پھر وہ الگ راستے پر چل پڑی اور میں الگ راستے پر چل پڑا۔ اس حال میں کہ معرکۂ سوز و ساز میں ہم دونوں زخمی ہو چکے تھے ۔ نہ اس کی جان کو قرار ملا اور نہ میری جان آشنائے سکوں ہوئی۔"
اشواک کے بعد افسانوی طرز کی دو اور کتابیں انہوں نے لکھیں۔ ایک طفل من القریۃ (گاؤں کا بچہ) اور دوسری المدینۃ المسحورہ (سحر زدہ شہر)۔ پہلی کتاب میں انہوں نے داستان کے رنگ میں اپنے بچپن کی زندگی اور دیہاتی ماحول کا نقشہ کھینچا ہے ۔ دیہاتی زندگی کی سادگی اور طہارت۔ دیو مالائی کہانیاں، بیماریاں، جہالت، سخاوت، رواداری اور جوش انتقام الغرض ہر ہر پہلو کو بڑے لطیف اسلوب میں بیان کیا ہے ۔ جس زمانے میں سید قطب نے یہ کتاب لکھی تھی اس زمانے میں وہ مصر کے نامور ادیب طٰہٰ حسین کے حلقہ سے وابستہ تھے ۔ طٰہٰ حسین کے طرز سے اس قدر متاثر تھے کہ انہوں نے اپنی یہ کتاب بھی ہو بہو طٰہٰ حسین کی "الایام" کے رنگ میں لکھی اور اسے منسوب بھی طٰہٰ حسین کے نام کیا کہ "امید ہے کہ وہ اس کہانی کو بھی "الایام" کے چند ایام کی حیثیت سے قبول فرمائیں گے " المدینۃ المسحورۃ محض ایک ادبی داستان ہے ۔ اور عہد ماضی کے شاہی محلات کا عکس پیش کرتی ہے ۔ سید نے اپنی زندگی میں صرف یہ تین افسانے رقم کیے ہیں۔
اس دور کی ایک اور بے نظیر کتاب "الاطیاف الاربعۃ" ہے ۔ اس کتاب کی تالیف میں چاروں بہن بھائی (سید قطب، محمد قطب، حمیدہ قطب اور امینہ قطب) شریک تھیں۔ ان میں سے ہر ایک نے انسان دوست اہل قلم کی حیثيت سے انسانی زندگی کی واردات کو بیان کیا ہے ۔ انسان کی خدمت، انسان کی محبت اور انسانیت کے لیے قربانی کا جذبہ چاروں کے اندر قدر مشترک ہے ۔
سید موصوف کو طالب علمی کے دور میں شعر و ادب اور صحافت سے دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔ دارالعلوم قاہرہ میں ان کی طالب علمی اور پھر پروفیسری کا جو زمانہ گزرا ہے وہ ان کے ادبی ذوق کو نکھارنے اور اسے ترقی دینے میں بڑا ممد ثابت ہوا۔ اس دور میں انہوں نے قاہرہ کے چوٹی کے ادباء اور اربابِ صحافت سے راہ و رسم پیدا کر لی تھی۔ پہلے طٰہٰ حسین کے حلقہ ارادت سے منسلک ہوئے بلکہ طٰہٰ حسین کے پرائیوٹ سیکرٹری بھی رہے اور پھر عباس محمود العقاد کی مجلس ادب و علم کے گل سر سبد بنے ۔ مصطفٰے صادق الرافعی کی طٰہٰ حسین اور عقاد کے ساتھ ٹھنی رہتی تھی۔ مصطفٰے صادق الرافعی بیسویں صدی کے جاحظ تھے ۔ ان کی انشا پردازی میں قرآنی ادب کی چاشنی ہوتی تھی۔ قرآن کی بلاغت و ایجاز اور قرآن کے ادبی و معنوی مقام کو رافعی نے جس قدرت و ندرت اور عربی مبین کے ساتھ بیان کیا ہے اس کی وجہ سے انہیں "قرآنی ادیب" کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ طٰہٰ حسین اور عقاد ان کے مقابلے میں ہیچ نظر آتے ہیں۔ رافعی اور عقاد کے مجادلات میں سید قطب عقاد کا دفاع کرتے رہے ۔ یہ دفاع اگرچہ دفاع ناکام تھا مگر سید قطب کو اس سے یہ فائدہ حاصل ہوا کہ ان کے ادب و انشاء کا رشتہ خداوندِ عالم کی کتابِ اعجاز کے ساتھ بندھ گیا۔ انہوں نے ادبی ذوق کی سیرابی اور اسالیب بلاغت اور اصول ایجاز کی جستجو میں قرآن کا مطالعہ کیا۔ اور اسی مطالعہ کے دوران اللہ تعالٰی نے ان پر اپنی حکمت و ہدایت کے دروازے بھی وا کر دیے ۔ یہ سید کے اخلاص اور پاکیزگی اور طلبِ صادق کا کرشمہ ہے کہ قرآن نے ان کو ادب کے لازوال خزانے بھی عطا کیے اور ہدایت کا ابدی نور بھی ارزانی فرمایا
جمیع العلم فی القرآن لکن
تقامہ عنہ افھام الرجال​
نئے ذہن و ذوق کے تقاضے میں سید قطب کے قلم سے جو گوہر ہائے بے بہا دنیائے ادب کی زینت میں اضافے کا موجب ہوئے وہ یہ ہیں:
1: مشاہد القیامۃ فی القرآن: اس کتاب میں سید قطب نے مناظر قیامت بیان کیے ہیں۔ یہ مناظر قرآن کی 114 سورتوں میں سے 80 سورتوں میں 150 مواقع پر بیان کیے گئے ہیں۔ موصوف لکھتے ہیں: اس کتاب میں میں نے جو چیز بیان کی ہے اسے میں نے "مناظر" کا نام دیا ہے ۔ منظر میں تصویر، حرکت اور تاثیر کے پہلو بھی شامل ہوتے ہیں۔ چنانچہ مصنف نے آخرت کے مناظر کی جو نقشہ کشی کی ہے اور جس حیرت انگیز اور مؤثر اسلوب میں واقعہ نگاری کی ہے وہ تعریف و توصیف سے بالا ہے ۔ پڑھنے والا صرف الفاظ سے ہی محظوظ نہیں ہوتا بلکہ آیاتِ جنت کو پڑھتے ہوئے جنت کے لذائذ اور آیاتِ دوزخ پڑھتے ہوئے دوزخ کی شعلہ سامانیوں کو بھی محسوس کرتا ہے ۔ یہ کتاب نہ صرف دعوت کے نقطۂ نظر سے بے مثال ہے بلکہ ادب و فن کا بھی شاہکار ہے ۔ سید قطب نے ماہر انشا پرداز اور تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال فن کار کے موقلم سے اس کتاب کو زندۂ جاوید صحیفہ بنا دیا ہے ۔
2: التصویر الفنی فی القراٰن: یہ 200 صفحات پر مشتمل کتاب ہے ۔ سید قطب کا قلم قرآن کے موضوع پر بڑی پختگی، خود اعتماد اور دقت رسی کے ساتھ چلتا ہے ۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ قرآن ان کا اصل موضوع ہے ۔ التصویر الفنی میں انہوں نے قرآن کی ادبی قدر و قیمت اجاگر کی ہے ۔ قرآن کی جادو بیانی، جادو بیانی کا منبع، قرآن کیسے سمجھا گیا، قرآن کے مناظر کی فنی نقشہ کشی، حسی تخیل، فن کے لحاظ سے نظم کلام، قرآنی قصے ، قصوں کے اغراض و مقاصد، قصہ گوئی میں فن اور دین کا امتزاج، قصہ کے فنی خصائص، قصہ میں واقعہ نگاری کا جز، قرآن کے انسانی نمونے ، وجدانی منطق اور قرآن کا طریقِ دعوت ان تمام پہلوؤں پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے ۔ المجمع العلمی العربی (عربک اکیڈیمی) کے تبصرہ کی رو سے آج تک اس طرز کی کوئی کتاب اس جامعیت کے ساتھ نہیں لکھی گئی۔ یہ دونوں کتابیں مصر کے مشہور ادارے دار المعارف نے شائع کیں اور علمی و ادبی حلقوں میں انہیں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ مراکش کے مشہور عالم و ادیب علال الفاسی کے الفاظ میں: "یہ دونوں کتابیں بتاتی ہیں کہ مصنف عربی زبان و ادب میں بہت اونچا مرتبہ رکھتا ہے اور قرآن کے اعجازی اسلوب کا اسے پختہ مذاق حاصل ہے ۔" اسی دور میں ادبی نقد و نظر پر بھی ان کی دو کامیاب کتابیں سامنے آئیں۔ "النقد الادبی: اصولہ و مناھجہ" (تنقید کے اصول و مناہج) اور طٰہٰ حسین کی کتاب "مستقل الثقافۃ" پر تنقید۔ عربی ادبیات کا طالب علم ان دونوں کتابوں سے صرف نظر کر کے عربی ادب کے جدید رحجانات کا کامل احاطہ نہیں کر سکتا۔ مصنف نقاد کے فرض اور غایت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں: نقاد کا اصل کام فن کے لحاظ سے ادبی کام کی اصلاح ہے ۔ نقاد یہ واضح کرتا ہے کہ جس ادبی کوشش کا وہ نقد و احتساب کر رہا ہے موضوع کے لحاظ سے اس کی قدر و قیمت کیا ہے ، اظہار و بیان اور احساس و وجدان کی رو سے اس کا کیا معیار ہے ، چمنستانِ ادب میں اس کا کیا مقام ہے ، ادبی ذخیرے میں اس سے کیا کچھ اضافہ ہوا ہے ، ادیب ماحول سے کس حد تک اثر پذیر اور ماحول پر کس حد تک اثر انداز ہوتا ہے ، ادیب کی وجدانی اور بیانی خوبیاں کیا ہیں، وہ نفسیاتی اور خارجی عوامل کیا ہیں جو ادیب کی تربیت و ساخت میں حصہ لے رہے ہیں۔"
صحافت کی طرف رخ
سید قطب اس دور میں اگرچہ صرف بحرِ ادب میں شناوری کر رہے تھے مگر ان کے احساس و وجدان کی دنیا ماحول کی ہر لہر سے متاثر ہو رہی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب مصر کے سینہ پر انگریزی استعمار دندناتا پھر رہا تھا۔ ایک طرف انگریزوں اور پاشاؤں نے لوٹ کھسوٹ مچا رکھی تھی اور دوسری طرف فلاحین اور عمال طرح طرح کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے ہوئے تھے ۔ یہ تمام حالات ان کے ذہن و وجدان کی دنیا پر اپنی پرچھائیاں ڈال رہے تھے ۔ چنانچہ انہی جذبات کو لیے ہوئے سید موصوف نے پہلے ماہنامہ "العالم العربی" کی ادارت کا کام ہاتھ میں لیا اور پھر "الفکر الجدید" کے نام سے اپنا ایک ماہ نامہ جاری کیا۔ جس کی مالی پشت پناہی مصر کے ایک نیک دل کتب فروش محمد علمی المنیادی نے کی۔ اسی پرچے کے اندر سید قطب کے رحجانات سوشلزم کی طرف مائل نظر آتے ہیں، جو اس وقت کے حالات کی پیداوار تھے ۔ چنانچہ اس پرچے میں انہوں نے متواتر مصر کے جاگیرداری نظام اور پاشاؤں کی دھاندلیوں پر حملے کیے ہیں۔ اور سرمایہ دارانہ استحصال کو چیلنج کیا حالانکہ اس وقت جاگیرداری نظام پوری قوت کے ساتھ قائم تھا۔ پاشاؤں کا طبقہ اوج کمال پر تھا اور سرمایہ داریت ملک کی زمام اقتدار پر قابض تھی۔ الفکر الجدید جس سوشلزم کا داعی تھا وہ سوشلزم اس مفہوم کا حامل نہ تھا جس مفہوم کے ساتھ وہ آج اپنے آپ کو متعارف کرا رہا ہے ۔ ان کا سوشلزم سرمایہ داریت اور جاگیرداری کے ظلم و ستم کے خلاف تھا اور اسلام کی تلوار سے ان کا خاتمہ کرنا چاہتا تھا۔ دولت کی ذخیرہ اندوزی اور اجارہ داری کو قرآن کی آیات کی روشنی میں ناجائز ثابت کرتا تھا اور قرآن کے اقتصادی نظام کی طرف رجوع کی دعوت دیتا تھا۔ اس کا بنیادی نصب العین عدل و انصاف کا قیام، غربا اور مساکین کی دستگیری اور زیر دستوں کو زبردستوں کے مظالم سے نجات دلانا تھا ۔
سفر امریکہ کے نتائج
اس زمانے میں سید موصوف کو امریکہ جانے کا موقع مل گیا۔ وہاں انہوں نے مغرب کی مادی تہذیب اور اس کی قیامت سامانیوں کا بچشمِ خود مشاہدہ کیا۔ اُن کے سامنے مغرب کا مصنوعی جمہوری نظام تھا۔ جس میں رنگ و نسل کی بنیاد پر انسان اور انسان میں تفریق روا رکھی جا رہی تھی اور گورا انسان کالے انسان پر انسانیت سوز مظالم توڑ رہا تھا۔ چنانچہ انہیں یقین ہو گیا کہ جس مغرب کی جمہوریت نوازی کا دنیا میں ڈھول پیٹا جا رہا ہے وہ انسانیت سے کوسوں دور ہے اور صرف اسلام ہی وہ دینِ حق ہے جو انسانیت کو فلاح و کامرانی سے ہمکنار کر سکتا ہے ۔ وہ جب امریکہ سے واپس آئے تو ان کے دل میں نسلی امتیاز، کھوکھلے جمہوری نظام اور انصاف و حریت کے جھوٹے مدعیوں ک خلاف جذبات کا شدید تلاطم برپا تھا اور دوسری طرف ان کے دل میں اسلام کی قدر و قیمت بڑھ گئی اور اسلامی اقدار اور تعلیمات سے ان کی شیفتگی دوبالا ہو گئی۔ امریکہ سے واپسی پر انہوں نے اپنے ان تاثرات کو "امریکہ التی رایت" (امریکہ، جسے میں نے دیکھا) نامی کتاب میں پیش کیا۔ امریکہ کا سفر ان کے لیے زندگی کا زبردست انقلاب بن کر آیا۔ واپسی پر وہ ہمہ تن اسلام کے مطالعہ کے لیے وقف ہو گئے ۔ اور اسلام کے اصل مآخذ سے تشنگی بجھانے میں مشغول ہو گئے ۔ ان کے مطالعہ و جستجو کا یہ حال تھا کہ ان کے یومیہ مطالعہ کے اوقات دس گھنٹوں سے کم نہ ہوتے تھے ۔ اسی مطالعہ کی بدولت ان کا تعلق مصر کی اسلامی تحریک سے قائم ہوا اور یوں ذہنی انقلاب کا جو سفر مشاہد القیامۃ فی القرآن کی تصنیف سے شروع ہوا تھا اخوان المسلمون کی عملی تحریک سے وابستگی پر منتج ہوا ۔ ان کی مشہور اور معرکۃ الآرا کتاب العدالۃ الاجتماعیہ فی الاسلام (اسلام کا عدل اجتماعی) اسی دور کی تصنیف ہے ۔
 

ابوشامل

محفلین
"العدالۃ الاجتماعیۃ" کی تالیف
العدالۃ الاجتماعیہ فی الاسلام 1948ء میں پہلی مرتبہ منظر عام پر آئی ہے ۔ اب تک اس کے سات ایڈیشن نکل چکے ہیں۔ ہر ایڈیشن میں سید موصوف اپنے تازہ مطالعہ کی بنا پر ترمیم و اضافہ کرتے رہے ہیں ۔ اس کتاب کے ساتویں باب میں سید موصوف نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور بنو امیہ کے بارے میں جس نقطۂ نظر کا اظہار کیا تھا ساتویں ایڈیشن میں انہوں نے اس میں مکمل تبدیلی کر دی تھی اور کوئی قابل اعتراض بات باقی نہیں رہنے دی ہے ۔ یہ تبدیلی ایامِ اسیری میں کر دی گئی تھی مگر حالات کی وجہ سے اس کی طباعت کی کوئی سبیل نہ پیدا ہو سکی۔ ان کی شہادت کے بعد یہ ترمیم شدہ ایڈیشن چھپ چکا ہے اور عرب ممالک میں وسیع پیمانے پر تقسیم ہو رہا ہے ۔ اس اس کتاب کے دنیا کے مختلف زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں اس کا انگریزی ترجمہ "Social Justice in Islam" کے نام سے امریکن کونسل آف لرنڈ سوسائٹیز واشنگٹن کی جانب سے 1953ء میں شائع ہو چکا ہے ۔ فارسی، ترکی، انڈونیشی اور اردو میں بھی ترجمے چھپ چکے ہیں۔ اس کا اردو ترجمہ "اسلام کا عدلِ اجتماعی" کے نام سے اسلامک پبلیکیشنز لاہور نے شائع کیا ہے ۔ یہ ترجمہ ہمارے دوست ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی صاحب (بھارت) نے کیا ہے ۔
تفسیر "فی ظلال القرآن"
سید قطب کا سب سے عظیم کارنامہ ان کی تفسیر قرآن ہے جو "فی ظلال القرآن" کے نام سے 8 جلدوں میں چھپ چکی ہے ۔ دنیا کی دوسری زبانوں میں بھی اس کے ترجمے ہو رہے ہیں۔ فارسی میں "در سایۂ قرآن" کے نام سے اس کے دس پارے چھپ چکے ہیں۔ اس تفسیر کا آغاز انہوں نے 1954ء کی اسیری سے پہلے کر دیا تھا اور جیل میں اُسے پایۂ تکمیل تک پہنچا دیا۔ یہ اصطلاحی معنی میں تفسیر نہیں ہے ، اور نہ متداول تفاسیر کے اسلوب میں اسے لکھا گیا ہے ۔ یہ دراصل ان تاثرات سے عبارت ہے جو مطالعۂ قرآن کے دوران اُن پر طاری ہوئے ہیں۔ لیکن ان تاثرات کو مصنف نے اس طرح پیش کیا ہے کہ قرآن کی ایک ایک آیت کے اندر دعوت و اصلاح اور تنبیہ و تذکیر اور نور و عرفان کے جو سمندر موجزن ہیں ان کا عکس کاغذ کے صفحات پر منتقل ہو گیا ہے ۔ "فی ظلال القرآن" (قرآن کے زیر سایہ) چھ بنیادی خوبیوں کی حامل ہے :
1. بلند پایہ ادبی اسلوب، جس میں سید قطب اکثر قدیم مفسرین اور محدثین سے بھی بڑھ گئے ہیں۔
2. تمام معروف تفاسیر سے انہوں نے استناد کیا ہے اور ان سے اخذ کردہ معلومات کو اپنی تفسیر میں اس عالمانہ انداز میں سمو دیا ہے کہ یہ تفسیر ادبی مقالات کا مجموعہ نہیں بلکہ معلومات کا دائرۃ المعارف بن گئی ہے ۔
3. اسرائیلیات سے یہ تفسیر مکمل طور پر خالی ہے ۔
4. معتزلہ اور خوارج اور اشاعرہ اور ماتریدیہ اور فقہ کے مختلف مکاتبِ فکر کے نزاعات سے جو عام عربی تفسیروں کے اندر ملتے ہیں یہ تفسیر خالی ہے ۔
5. پوری جامعیت اور تفصیل کے ساتھ ہر ہر بحث کو ادا کیا ہے ، اس کے بعد کسی اور کتاب کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
6. پوری تفسیر کے اندر ایک ایسی شفاف اور پاکیزہ روح جلوہ گر نظر آتی ہے جو یقین و اذعان کی دولت اور ایمان و عقیدہ کی گہرائی اور صبر و عزیمت کی نعمت سے لبریز ہے ۔ اس چیز نے تفسیر کو ایک متحرک زندگی اور رواں دواں اسلامی تحریک کی کتاب ہدایت کی شکل دے دی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام علماء نے اس تفسیر کی بڑی تعریف و توصیف کی ہے اور باوجودیکہ یہ مکمل طور پر چھپ چکی ہے اور مکتبوں سے بآسانی مل سکتی ہے مگر عرب ممالک کے اخبارات و رسائل اسے مسلسل اپنے کالموں میں نقل کر رہے ہیں۔
تمام تصانیف ایک نظر میں
سید موصوف کی تمام تصانیف کی تعداد 22 ہے ۔ جن کی مکمل فہرست یہ ہے :
1- فی ظلال القرآن (قرآن کے زیر سایہ)
2- العدالۃ الاجتماعیۃ فی الاسلام (اسلام کا عدلِ اجتماعی)
3- مشاھد القیامۃ فی القرآن (قرآن میں قیامت کے مناظر)
4- التصویر الفنی فی القرآن (قرآن کے فنی پہلو)
5- معرکۃ الاسلام و الراسمالیۃ (اسلام اور سرمایہ داری کی کشمکش)
6- السلام العالمی و الاسلام (عالمی امن اور اسلام)
7- دراسات اسلامیہ (اسلامی مقالات)
8- النقد الادبی: اصولہ و مناھجہ (ادبی تنقید کے اصول و مناہج)
9- نقد کتاب مستقبل الثقافۃ ("مستقبل الثقافۃ" پر تنقیدی نظر)
10- کتب و شخصیات (کتابیں اور شخصیتیں)
11- نحو مجتمع اسلامی (اسلامی معاشرے کے خدوخال)
12- امریکہ التی رایت (امریکہ جسے میں نے دیکھا)
13- اشواک (کانٹے )
14- طفل من القریۃ (گاؤں کا بچہ)
15- المدینۃ المسحورۃ (سحر زدہ شہر)
16- الاطیاف الاربعۃ (چاروں بہن بھائیوں کے افکار و تخیلات کا مجموعہ)
17- القصص الدینیۃ (انبیاء کے قصے ، باشتراک جودہ السمار)
18- قافلۃ الرقیق (مجموعہ اشعار)
19- حلم الفجر (مجموعہ اشعار)
20- الشاطئ المجھول (مجموعہ اشعار)
21- مھمۃ الشاعر فی الحیاۃ (زندگی کے اندر شاعر کا اصل وظیفہ)
22- معالم فی الطریق (نشانِ راہ، ہم نے اس کا نام جادہ و منزل تجویز کیا ہے )

شعر و سخن سے شغف
سید موصوف کی طبع رسا نے شعر و سخن کے اندر بھی جولانیاں دکھائی ہیں۔ ان کے اشعار کے تین مجموعے چھپ چکے ہیں۔ شعر و سخن سے ان کا لگاؤ ان کی ادبی زندگی کے آغاز میں ہو گیا تھا۔ بڑے بڑے اساتذہ کی صحبت نے اس جذبہ کو مہمیز کا کام دیا۔ ان کی شاعری میں تمام اصناف ملتی ہیں البتہ قصیدہ سرائی اور مدح گوئی کو انہوں نے ہاتھ نہیں لگایا۔ یہ صنف ان کی طبع بیباک اور فطرت پاکیزہ سے ہم آہنگ نہ تھی۔ وہ شروع سے ریا کاری اور تملق پیشگی سے متنفر تھے ۔ ان کا سب سے پہلا مجموعہ اشعار قافلۃ الرقیق (غلاموں کا کارواں) ہے ۔ وہ اپنے اس مجموعہ سے زیادہ خوش نہ تھے ۔ آخری ایام میں وہ اس مجموعہ کو اپنی "دورِ جاہلیت" کی یادگار کہتے رہے ۔ ان کی تمنا تھی کہ اگر اس مجموعہ کے تمام نسخے ان کے ہاتھ لگ جائیں تو ان کے اندر وہ تخیل، موضوع اور مقصد و غایت کے لحاظ سے جوہری تبدیلی کر ڈالیں۔ سیدموصوف کی آخری نظم جو انہوں نے اپنے آخری ایام اسیری میں کہی تھی۔ بڑی موثر اور دلنشین ہے ، اس نظم کے چند اشعار ملاحظہ ہوں
أخي أنت حر وراء القیود أخي أنت حر بتلك السدود
إذا كنت باللہ مستعصما فماذا يضيرك كيد العبيد
اے میرے ہمدم تو طوق و سلاسل کے اندر بھی آزاد ہے
اے میرے دمساز! تو آزاد ہے ، رکاوٹوں کے باوجود
اگر تیرا اللہ پر بھروسہ ہے
تو اِن غلام فطرت انسانوں کی چالیں تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں
أخي سنبيد جيوش الظلام ويشرق في الكون فجر جديد
فأطلق لروحك إشراقہا ترى الفجر يرمقنا من بعيد
برادرم! تاریکی کے لشکر مٹ کر رہیں گے
اور دنیا میں صبح نو طلوع ہو کر رہے گی
تو اپنی روح کو ضوفشاں ہونے دے
وہ دُور دیکھ صبح ہمیں اشارے کر رہی ہے ۔
أخي قد سرت من يديك الدماء أبت أن تشل بقيد الإماء
سترفع قربانہا ... للسماء مخضبۃ بوسام الخلود
جانِ برادر! تیرے ہاتھوں سے خون کے فوارے چھوٹے
مگر تیرے ہاتھوں نے کمترین مخلوق کی زنجیروں کے اندر بھی شل ہونے سے انکار کر دیا۔
تیرے ان ہاتھوں کی قربانی آسمان پر اٹھ جائے گی (منظور ہوگی)
اس حالت میں کہ یہ ہاتھ خائے دوام سے گلرنگ ہوں گے
أخي إن ذرفت علي الدموع وبللت قبري بہا في خشوع
فأوقد لہم من رفاتي الشموع وسيروا بہا نحو مجد تليد
میرے ہمسفر! اگر تو مجھ پر آنسو بہائے
اور میرے قبر کو اُن سے تر کر دے
تو میرے ہڈیوں سے ان تاریکی میں رہنے والوں کے لیے شمع فروزاں کرنا
اور ان شمعوں کو ابدی شرف کی جانب لے کر بڑھنا
أخي إن نمت نلق أحبابنا فروضات ربي أعدت لنا
وأطيارہا رفرفت حولنا فطوبي لنا في ديار الخلود
میرے رفیق! اگر میں احباب کو چھوڑ کر موت کی آغوش میں چلا بھی جاؤں، تو کوئی خسارہ نہیں
میرے رب کے باغات ہمارے لیے تیار ہیں
ان کے مرغان خوشنو! ہمارے ارد گرد محوِ پرواز ہیں
اس ابدی دیار کے اندر ہم خوش و خرم ہيں
أخي إنني ماسئمت الكفاح ولا أنا ألقيت عني السلاح
وإن طوقتني جيوش الظلام فإني علي ثقۃ ... بالصباح
میرے دوست! معرکہ عشق سے میں ہر گز نہیں اکتایا
اور میں نے ہر گز ہتھیار نہیں ڈالے
اگر تاریکی کے لشکر مجھے چاروں طرف سے گھیر بھی لیں
تو بھی مجھے صبح کے طلوع کا پختہ یقین ہے
فإن أنا مت فإني شہيد وأنت ستمضي بنصر جديد
قد اختارنا اللہ في دعوتہ وإنا سنمضي علي سنتہ
اگر میں مر جاؤں تو مجھے شہادت کا درجہ نصیب ہوگا
اور تُو انشاء اللہ نئی کامرانی کے جلو جانب منزل رواں دواں رہے گا
اللہ تعالٰی نے اپنی دعوت کے لیے ہمارے نام قرعہ فال ڈالا ہے
بیشک ہم سنت الٰہی پر گامزن رہیں گے
فمنا الذين قضوا نحبہم ومنا الحفيظ علي ذمتہ​
ہم میں سے کچھ لوگ تو اپنا فرض انجام دے گئے
اور کچھ اپنے عہد و پیمان پر ڈٹے ہوئے ہیں
سأفدي لكن لرب ودين وأمضي علي سنتي في يقين
فإما إلي النصر فوق الأنام وإما إلي اللہ في الخالدين
میں بھی اپنے آپ کو نچھاور کروں گا، لیکن صرف پروردگار اور دین حق پر
اور یقین و اذعان میں سرشار اپنے راستے پر چلتا رہوں گا
یہاں تک کہ یا تو اس دنیا پر نصرت سے بہرہ یاب ہو جاؤں
اور یا اللہ کی طرف چلا جاؤں اور زندگی جاوداں پانے والوں میں شامل ہو جاؤں
معالم فی الطریق
"معالم فی الطریق" سید موصوف کی آخری تصنیف ہے ۔ جس میں ان کی نئی تحریروں کے ساتھ کچھ پرانی تحریریں بھی ترمیم و اضافہ کے بعد شامل کی گئی ہیں۔ اس کتاب کو ہم "جادہ و منزل" کے نام سے اردو دان احباب کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ یہی وہ کتاب ہے جس نے سید قطب کو تختۂ دار تک پہنچایا ہے ۔ جہاں تک سید قطب کی انقلابی شخصیت اور تحریکی جوش و ولولہ کا تعلق ہے ۔ بے شک اس میں وہ اپنے دور کے چند گنے چنے لوگوں میں سے ہیں۔ جب مصر میں فوجی انقلاب برپا ہوا تھا اس میں سید قطب نے جو کردار ادا کیا تھا اس کی بنا پر بعض مصری مصنفین نے ان کو "انقلابِ مصر کا میرابو" کا لقب دیا ہے ۔ "میرابو" سے ان کا اشارہ اس فرانسیسی رائٹر کی طرف ہے جو فرانس کے اندر جاگیرداری اور استبداد کے خلاف انقلاب برپا کرنے کے لیے عوام کو اکساتا رہا ہے ۔ سید قطب کی کتاب "معرکۃ الاسلام و الراسمالیۃ" میں یہ انقلابی روح صاف محسوس کی جا سکتی ہے ۔ اور یہ اس دور میں لکھی گئی ہے جب وہ تمام بڑے بڑے جغادری جو اس وقت "اشتراکیت" اور "مساوات" اور اسی نوعیت کے دوسرے نعروں سے ہنگامہ نشور برپا کیے ہوئے ہیں منقار زیرِ پر تھے ۔ "معالم فی الطریق" میں انہوں نے اسلامی نظریہ اور اسلامی تنظیم کے بنیادی خدوخال بیان کیے ہیں۔ اس کتاب کی پوری اسکیم جس بنیادی نقطہ پر مرکوز ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح اسلام کے صدر اول میں اسلامی معاشرہ ایک مستقل اور جداگانہ معاشرے کی صورت میں ترقی و نمو کے فطری مراحل طے کرتا ہوا بام عروج کو پہنچا تھا اسی طرح آج بھی ویسا صحیح اسلامی معاشرہ وجود میں لانے کے لیے اُسی طریقِ کار کو اختیار کیا جانا لازم ہے ۔ اس اسلامی معاشرے کو ارد گرد کے جاہلی معاشروں سے الگ رہ کر اپنا تشخص قائم کرنا ہوگا۔
 

ابوشامل

محفلین
فرد قرارداد جرم
لیکن مصری حکام نے سید قطب کی اس صحیح اسلامی دعوت کو یہ معنی پہنائے کہ اس میں حکومتِ وقت کے خلاف انقلاب برپا کرنے کے لیے لوگوں کو اکسایا گیا ہے ۔ کتاب میں سید قطب نے جو کچھ کہا ہے وہ قارئین کتاب کے مطالعہ سے معلوم کر لیں گے ۔ اس لیے کتاب کے مضامین کو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ البتہ اس کتاب کے مختلف اقتباسات سے جو فرد جرم تیار کی گئی ہے ، وہ ہم ہو بہو نقل کیے دیتے ہیں۔ یہ فرد جرم "مسلح افواج کے میگزین" (مجلۃ القوات المسلحۃ) کے نمبر 446، شمارہ یکم اکتوبر 1965ء میں شائع ہوئی ہیں۔ یہ وہی زمانہ ہے کہ سید قطب کے خلاف فوجی ٹریبونل میں مقدمہ چل رہا تھا۔ اس میگزین نے پہلے تو سید قطب کو باغی اور غدار کہا ہے ۔ اور ان پر الزام عاید کیا ہے کہ وہ مصر کے اندر وسیع پیمانے پر توڑ پھوڑ کرنا چاہتے تھے اور مصری حکام اور مصر کے نامور ایکٹروں اور ایکٹرسوں کو قتل کرنے کی اسکیم تیار کر رہے تھے ۔ اس کے بعد میگزین نے ان الزامات کے ثبوت کے لیے "معالم فی الطریق" کی عبارتوں کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے اور لکھا ہے :
"مصنف (سید قطب) کا دعویٰ ہے کہ مغرب میں جمہوریت کا قریب قریب دیوالیہ نکل چکا ہے ۔ لہٰذا اب اس کے پاس ایسی "اقدار" باقی نہیں رہی ہیں جو وہ انسانیت کی خدمت میں پیش کر سکے ۔ مارکسزم کے بارے میں بھی اس کی یہ رائے ہے کہ مشرقی کیمپ کا یہ نظریہ بھی اب پسپا ہو رہا ہے ۔ انسانی فطرت اور اس کے مقتضیات کے ساتھ اس کی کشمکش برپا ہے ۔ یہ نظریہ صرف پامال شدہ اور زبوں ماحول کے اندر پنپ سکتا ہے ۔ اس کے بعد مصنف یہ فیصلہ دیتا ہے کہ اب انسانیت کو نئی لیڈر شپ کی ضرورت ہے جو مادی تہذیب کو جس تک انسانیت یورپ کے عبقری ذہن کے بدولت پہنچی ہے ، قائم اور بحال رکھ سکے اور اسے مزید نشوونما دے سکے ۔ وہ کہتا ہے : یورپ کی علمی تحریک بھی اب اپنا رول ادا کر چکی ہے اور اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے دوران میں وہ اپنے کمال کو پہنچ گئی تھی، اب اس کے پاس کوئی سرمایۂ حیات باقی نہیں رہا ہے ۔ یہی حال وطنی اور قومی نظریات کا ہے ۔ لہٰذا امت مسلمہ کے وجود کو بحال کیا جانا ناگزیر ہے ۔ ان خیالات کے بعد مصنف یہ دعویٰ کرتا ہے کہ آج دنیا جاہلیت کے اندر غرق ہے ۔ اس جاہلیت نے دنیا کے اندر اللہ کے اقتدار پر اور اللہ کی حاکمیت پر جو الوہیت کی صفت خاص ہے غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے ۔"
"مصنف قرآن کو عقیدہ کا اساسی مآخذ قرار دیتا ہے اور لکھتا ہے کہ ہمارا فرض ہے کہ ہم جاہلی معاشرے کے تسلط سے نجات حاصل کریں اور اس کے ساتھ مصالحت کی روش اختیار نہ کریں اور نہ اس کے ساتھ وفاداری کا موقف پسند کریں۔ ہمارا مشن موجودہ جاہلی نظام کو بنیادی طور پر تبدیل کر ڈالنا ہے ۔ لہذا ہمیں اپنی اقدار اور تصورات میں ذرہ بھر بھی تبدیلی نہ کرنی چاہیے ، اور نہ جاہلی نظام کے ساتھ کسی مقام پر سودا بازی کا خیال تک کرنا چاہیے ۔ یہ مہم سر انجام دینے کے لیے ہمیں غیر معمولی قربانیاں دینا ہوں گی۔"
"اس فیصلہ کے بعد مصنف مختلف اسالیب اختیار کر کے یہ دعوت دیتا ہے کہ ارضی اقتدار کے خلاف انقلاب کر دو جس نے الوہیت کی صفت خاص پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے ۔ اس کا بیان ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) بھی عرب قومیت کی تحریک برپا کر کے قبائل عرب کو اپنے گرد جمع کر سکتے تھے اور عربوں کے سلب شدہ علاقوں کو استعماری سلطنتوں (رومن اور فارسی امپائر) سے آزاد کروانے کے لیے ان کے قومی جذبات بھڑکا سکتے تھے ، لیکن یہ صحیح راستہ نہیں تھا کہ دنیا رومی اور فارسی طاغوتوں کے چنگل سے نکل کر عربی طاغوت کے چنگل میں گرفتار ہو جائے ۔"
"طاغوت سے مراد ہر وہ معبود ہے جو اللہ کے ماسوا ہو۔ طاغوت کا لفظ بت کدوں کے لیے بھی استعمال ہوتا تھا۔ اسی مفہوم کی بنا پر طاغوت "گمراہی کے سرغنوں" اور الٰہی اقتدار پر دست درازی کے لیے استعمال کیا گیا۔"
"مصنف کا بیان ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) دین اسلام لے کر آئے تھے ، اس وقت عرب معاشرہ انتہائی حد تک بگڑ چکا تھا۔ تقسیم دولت اور عدل و انصاف کا نظام تباہ ہو چکا تھا۔ محدود اقلیت مال و دولت اور تجارت کی اجارہ دار بنی ہوئی تھی اور سودی کاروبار کے ذریعہ اپنی دولت میں مزید اضافہ کرتی جا رہی تھی۔ رہی اکثریت تو اس کے پاس بھوک اور افلاس کے سوا کچھ نہ تھا۔ اس پر مصنف خیال ظاہر کرتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی جانتا ہے کہ معاشرے کے اندر اجتماعی عدل کا نظام ایک ایسے عقیدے پر استوار ہونا چاہیے جو ہر معاملے کا فیصلہ اللہ کی طرف لوٹاتا ہو۔ اور معاشرہ تقسیم دولت کے بارے میں اللہ کے عادلانہ فیصلوں کو خوش دلی کے ساتھ قبول کرتا ہو۔ ایسا نظام اُس صورت میں خالصتاً الٰہی نظام بن کر نمودار نہ ہو سکتا تھا اگر اسلام قومی نعرے یا اجتماعی تحریک (یعنی لا دینی تحریک) سے اپنی دعوت کا آغاز کرتا۔"
"مصنف کا یہ نظریہ کہ عقیدہ فوری طور پر ایک متحرک معاشرے کی شکل میں ابھر آنا چاہیے ۔ ایک اور مقام پر وہ لکھتا ہے کہ جس جاہلیت سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو سابقہ در پیش تھا وہ ایک "مجرد نظریہ" نہ تھی، بلکہ ایک متحرک اور توانا معاشرہ تھی، اور معاشرے کی لیڈر شپ کے آگے سرنگوں تھی۔ لہذا انسان کی پوری کی پوری زندگی اللہ کی طرف لوٹ جانی چاہیے ۔ انسان زندگی کے کسی معاملے اور کسی پہلو میں اپنی خود مختاری کی بنا پر کوئی فیصلہ نہ کریں۔ نیز جاہلی معاشرے کے اندر ایک نیا متحرک اور توانا معاشرہ ابھر آنا چاہیے جو جاہلی معاشرے سے بالکل الگ تھلگ اور مستقل ہو۔ اور اس جدید معاشرے کا محور ایک نئی قیادت ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حین حیات یہ قیادت آپ کے لیے مخصوص تھی اور آپ کے بعد ہر وہ قیادت یہ منصب سنبھال سکتی ہے جو انسانوں کو صرف اللہ کی الوہیت، حاکمیت، اقتدار اور شریعت کے آستانہ پر جھکائے ۔ جو شخص یہ گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں وہ جاہلیت کے متحرک معاشرے سے قطع تعلق کرے جس سے وہ نکل کر اسلامی معاشرے میں داخل ہو رہا ہے ، اسی طرح جاہلی قیادت سے بھی رشتہ منقطع کر لے ، چاہے وہ کاہنوں، پروہتوں، جادوگروں اور قیافہ شناسوں کی مذہبی قیادت ہو، یا سیاسی، اجتماعی اور اقتصادی قیادت ہو جیسا کہ قریش کو حاصل تھی۔ وہ اپنی تمام تر وفاداریاں نئے اسلامی معاشرے یا اسلامی جماعت کے لیے مخصوص کر دے ۔ مسلم معاشرہ ایک کھلا ہوا معاشرہ ہوتا ہے اس میں ہر نسل و قوم اور ہر رنگ و لسان کے لوگ شامل ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ اسلامی تہذیب کبھی بھی محض "عربی تہذیب" یا "قومی تہذیب" نہ تھی بلکہ وہ ہمیشہ اسلامی اور نظریاتی تہذیب تھی۔"
"مصنف یہ تسلیم کرتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو حکم دیا ہے کہ جو قتال کے لیے آئے اس سے قتال کیا جائے اور جو قتال سے دست بردار ہو جائے اس سے ہاتھ روک لیا جائے ۔ لیکن بایں ہمہ مصنف یہ بھی کہتا ہے کہ اسلام نے صرف دفاع کے لیے جہاد نہیں کیا بلکہ اسلام روز اول سے یہ نصب العین رکھتا ہے کہ ان تمام نظام اور حکومتوں کو ختم کیا جائے گا جو انسان پر انسان کی حاکمیت قائم کرتی ہیں۔ اسلام کے غلبہ کے بعد افراد کو فکری آزادی نہیں ہوگی کہ وہ اپنی منشا سے جس دین کو چاہیں اختیار کریں۔"
"مصنف نے قرآن کی آیات سے ثابت کیا ہے کہ اگر "اسلامی معاشرے " کے قیام کے راستے میں مادی موانع حائل ہو رہے ہوں تو ان کا طاقت کے ذریعے ازالہ ضروری ہے ۔ یہ مصنف کی طرف سے ایک گھپلا ہے ۔ قرآن کی جن آیات سے اس نے استشہاد کیا ہے وہ قتال فی سبیل اللہ کی دعوت دیتی ہے نہ کہ قتل و غارت پر اکساتی ہے لیکن بایں ہمہ مصنف نے باصرار کئی مقامات پر "طاقت" کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ اور وہ بار بار اس سے یہ مراد لیتا ہے : "رکاوٹوں کا ازالہ"۔ "رائج الوقت نظام کا خاتمہ"۔ "قوانین کا ابطال" وہ کہتا ہے : اگر اللہ تعالٰی نے ایک مخصوص وقت میں جماعت مسلمہ کو جہاد سے روک دیا تھا تو یہ صرف منصوبہ بندی کا تقاضا تھا، اصولی فیصلہ نہ تھا۔ مصنف ہر حکمران کو "شریک خدا" تصور کرتا ہے اور انسان کے انفرادی حقوق کی پر زور حمایت کرتا ہے (اس بارے میں مصنف نے العدالۃ الاجتماعیۃ میں تفصیل سے بحث کی ہے )"
"دوسری طرف مصنف یہ بیان کرتا ہے کہ وہ معاشرہ جس میں لوگوں کی اجتماعی زندگی رائے و انتخاب کی آزادی پر استوار ہو وہ متمدن اور مہذب معاشرہ ہوتا ہے لیکن جس معاشرے کی تشکیل میں لوگوں کی آزادانہ رائے کا حصہ نہ وہ معاشرہ پسماندہ ہے یا اسلامی اصطلاح میں وہ جاہلی معاشرہ ہے ۔"
یہ ہے وہ فرد جرم جو سید قطب پر لگائی گئی ہے اور اسے معالم فی الطریق کے مضامین سے کشید کیا گیا ہے ۔ اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ سید قطب سے اس کتاب میں انقلاب کی اسکیم پیش کی ہے اور اپنے بہن بھائیوں اور رفقاء کی مدد سے وہ اس اسکیم کو نافذ کرنا چاہتے تھے ۔
سید قطب اور مولانا مودودی
مصر کے ماہ نامہ الکاتب نے جو مصر کے کمیونسٹ عناصر کا ترجمان ہے ۔ سید قطب اور ان کے ساتھیوں کے خلاف "عدالتی کاروائی" کے دوران ایک مفصل مضمون شائع کیا تھا۔ اس مضمون کا عنوان ہے : "اخوان کے تشدد پسندانہ نظریات کے مآخذ"۔ اس مضمون کے آغاز میں مضمون نگار نے لکھا ہے :
"فوجی ٹریبونل نے "معالم فی الطریق" کے مآخذ پر بھی بحث کی ہے ۔ چنانچہ ایک موقع پر ٹریبونل کے صدر نے سید قطب سے یہ سوال کیا کہ "کیا یہ خیالات تم نے ابو الاعلٰی مودودی کی تصنیفات سے نقل نہیں کیے ؟" سید قطب نے جواب دیا: "میں نے مولانا مودودی کی کتابوں سے استفادہ کیا ہے " عدالت کی طرف سے پھر یہ سوال کیا گیا کہ: "تمہاری دعوت اور ابو الاعلٰی مودودی کی دعوت میں کیا فرق ہے ؟" سید نے کہا : لا فرق (کوئی فرق نہیں ہے )"
اس کے بعد مضمون نگار جو مصر کی کمیونسٹ پارٹی کا اہم رکن ہے لکھتا ہے :
"اسلامی اتحاد کا نظریہ برطانوی استعمار اور امریکی امپریلزم کا ایجاد کردہ ہے اور 1947ء سے اسے اشتراکیت کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے ۔ اس نظریہ کی جنم بھومی پاکستان ہے ۔ پاکستان ہی میں یہ پیدا ہوا اور پھلا پھولا ہے ۔ مودودی اسی ملک میں رہتا ہے ۔ سعید رمضان نے بھی کئی سال اس ملک میں بسر کیے ہیں۔ اس لیے یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے کہ اخوان کی تحریک کو سنٹو کی طرف سے مالی امداد دی گئی ہے ۔ اور یہ بھی کوئی نرالی بات نہیں ہے کہ سامراج از سرِ نو اپنا محبوب مہرہ استعمال کر رہا ہے ۔ یعنی مذہب کا استحصال اور "اسلامی فوجی معاہدہ" کی تشکیل ان مقاصد کی تکمیل کے لیے سامراج کا اصل سہارا ان ملکوں کی رجعت پسندانہ طاقتیں ہیں۔ اور یہ مل جل کر وطن پرستوں اور اشتراکی طاقتوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں"۔
اس تمہیدی کلمات کے بعد مضمون نگار نے دعویٰ کیا ہے کہ سید قطب نے مولانا مودودی کے افکار کا سرقہ کیا ہے اور انہیں "معالم فی الطریق" کے اندر مدون کیا ہے ۔ مضمون نگار نے اپنے دعوے کے ثبوت میں پہلے مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کی تاریخ بیان کی ہے اور اس کے بعد مولانا مودودی وار سید قطب کے افکار کا موازنہ کیا ہے ۔ وہ لکھتا ہے کہ سید قطب نے اپنی کتاب میں "حاکمیت" اور "جاہلیت" اور ایسی ہی دوسری جو اصطلاحیں استعمال کی ہیں وہ مودودی کا نتیجۂ فکر ہیں جنہیں وہ عرضۂ دراز سے استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں۔ چنانچہ مضمون نگار نے اس کے ثبوت میں مولانا مودودی کی مختلف تصنیفات مثلاً اسلامی قانون، دعوتِ اسلامی اور اس کے مطالبات، اسلامی تحریک کی اخلاقی بنیادیں، مسلمانوں کا ماضی حال اور مستقبل، اسلام کا نظام حیات وغیرہ سے مفصل اقتباسات پیش کیے ہیں۔ اس طرح پردے اور عورت کے بارے میں اور انفرادی ملکیت کے بارے میں سید قطب کے نظریات کو مولانا مودودی کے نظریات کا "چربہ" بتایا ہے اور لکھا ہے کہ عورت کے بارے میں مولانا مودودی کا جو نظریہ ہے اسی کی بنا پر سید قطب قاہرہ کی ایکٹرسوں اور ایکٹروں کو ختم کرنا چاہتے تھے ۔ مضمون نگار نے ساری بحث کے آخر میں یہ نتیجہ نکالا ہے کہ سید قطب کی تصنیف "معالم فی الطریق" در حقیقت مولانا مودودی کی تحریروں کی تشریح اور تفسیر ہے ۔ اور لکھا ہے کہ "اس کتاب میں ایک لفظ بھی ایسا نہیں ہے جس کی بنیاد اور جڑ مودودی کی تحریروں میں نہ ہو۔ فرق صرف یہ ہے کہ مودودی صاف گو ہے اور سید قطب ایچ پیچ کے ساتھ بات کہتا ہے ۔"
بہرحال اصل کتاب قارئین کے سامنے ہے ، وہ خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ سید قطب کی اصل دعوت کیا ہے ۔ رہی یہ بات کہ سید قطب اور مولانا مودودی کے افکار میں ہم آہنگی یا توارد ہے تو اس میں کیا تعجب کی بات ہے ۔ جو شخص بھی صاف ذہن اور اخلاص و عزیمت کے ساتھ کتاب و سنت کا مطالعہ کرے گا وہ اسی نتیجے پر پہنچے گا جس پر سلف صالحین پہنچے تھے ۔ یا جو آج مولانا مودودی،سید قطب اور دوسرے علمائے حق بیان کر رہے ہیں۔
آخرو دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

خلیل احمد حامدی۔ اچھرہ، لاہور، یکم مارچ 1968ء
 

ابوشامل

محفلین
إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْہِمُ الْمَلائِكَۃ أَلا تَخَافُوا وَلا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّۃِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ • نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاۃِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَۃِ وَلَكُمْ فِيہَا مَا تَشْتَہِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيہَا مَا تَدَّعُونَ • نُزُلا مِنْ غَفُورٍ رَحِيمٍ•

"جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے ، یقیناً ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ "نہ ڈرو، نہ غم کرو اور خوش ہو جاؤ اُس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ۔ ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی، وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمہیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمہاری ہوگی، یہ ہے سامان ضیافت اُس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے ۔"



چوں می گویم مسلمانم بلرزم
کردانم مشکلاتِ لا الہ را
(اقبال)




میں ظُلمتِ شب میں لیکے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شرر فشاں ہوگی آہ میری، نفس مِرا شُعلہ بار ہوگا
(اقبال)



یہ شہادت گۂ اُلفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آساں سمجھتے ہیں مُسلماں ہونا
(اقبال)



بسم اللہ الرحمٰن الرحیم​
مقدمۂ مصنف​
انسانیت کی زبوں حالی
آج انسانیت جہنم کے کنارے پر کھڑی ہے ۔ اس وجہ سے نہیں کہ ہمہ گیر تباہی کا خطرہ اس کے سر پر منڈلا رہا ہے کیوں کہ یہ خطرہ تو محض ظاہری علامت ہے ، اصل مرض نہیں بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ آج انسانیت کا دامن ان اقدار حیات سے خالی ہو چکا ہے جن سے اسے نہ صرف صحت مندانہ بالیدگی حاصل ہوتی ہے ، بلکہ حقیقی ارتقاء بھی نصیب ہوتا ہے ۔ خود اہلِ مغرب پر بھی اپنا یہ روحانی افلاس خوب اچھی طرح آشکارا ہو چکا ہے ، کیوں کہ تہذیب مغرب کے پاس انسانیت کے سامنے پیش کرنے کے لیے آج کوئی صحت مند قدر حیات باقی نہیں رہی، بلکہ اس کے روحانی دیوالیہ پن کا تو آج یہ حال ہے کہ اسے خود اپنے وجود و بقاء کے لیے بھی کوئی ایسی معقول بنیاد یا وجۂ جواز نہیں مل رہی جس سے اور کچھ نہیں تو کم از کم اپنے ضمیر اجتماعی کو ہی مطمئن کر سکتی۔ جمہوریت مغرب میں بانجھ ثابت ہو چکی ہے جس کی وجہ سے مغرب مشرقی افکار و نظریات اور نظام ہائے حیات کی خوشہ چینی پر مجبور نظر آتا ہے ۔ سوشلزم کے پردے میں مشرقی کیمپ کے اقتصادی تصورات کو جس طرح مغرب میں اپنایا جا رہا ہے ، وہ اس کی ایک نمایاں مثال ہے ۔
دوسری طرف خود مشرقی کیمپ کا حال بھی پتلا ہے ۔ مشرق کے اجتماعی نظریات کو لیجیے ، ان میں مارکسزم پیش پیش ہے ۔ یہ نظریہ شروع شروع میں مشرقی دنیا، بلکہ خود اہل مغرب کی ایک کثیر تعداد کو بھی، اپنی جانب کھینچنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کی کامیابی کی وجہ صرف یہ تھی کہ یہ محض ایک نظام ہی نہ تھا بلکہ اس پر عقیدہ کی چھاپ بھی لگی ہوئی تھی۔ مگر اب مارکسزم بھی فکری اعتبار سے مات کھا چکا ہے ۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ اب یہ ایک ایسی ریاست کا نظام بن کر رہ گیا ہے جسے مارکسزم سے دور کا واسطہ بھی نہیں، تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ بہ حیثیت مجموعی یہ نظریہ انسانی فطرت کی ضد واقع ہوا ہے ، اور انسانی فطرت کے تقاضوں سے متحارب ہے ۔ یہ صرف خستہ اور زبوں حال ماحول ہی میں پھل پھول سکتا ہے ۔ یا پھر اس کے لیے وہ ماحول سازگار ہوتا ہے جو طویل عرصہ تک ڈکٹیٹر شپ کو برداشت کرتے کرتے اس سے مانوس ہو چکا ہو، لیکن اب تو اس طرح کے پامال اور بے جان ماحول میں بھی اس کا مادہ پرستانہ اقتصادی تجربہ ناکام ثابت ہو رہا ہے ۔ حالانکہ یہی وہ واحد پہلو ہے جس پر اس کی پوری عمارت قائم ہے ، اور جس پر اسے ناز ہے ۔ روس اشتراکی نظام کے علمبردار ملکوں کا سرخیل ہے ۔ مگر اس کی غذائی پیداوار روز بروز گھٹتی جا رہی ہے ۔ حالانکہ زار کے عہد میں بھی روس فاضل اناج پیدا کرتا رہا ہے ۔ مگر اب وہ باہر سے اناج درآمد کر رہا ہے اور روٹی حاصل کرنے کے لیے اپنے سونے کے محفوظ ذخائر تک بیچ رہا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا اجتماعی کاشت کا نظام یکسر ناکام ہو چکا ہے ۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ نظام جو انسانی فطرت کے سراسر خلاف ہے اپنے ہاتھوں شکست کھا چکا ہے ۔
قیادتِ نو کی ضرورت
ان حالات کی روشنی میں یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں ہے کہ انسانیت اب ایک نئی قیادت کی محتاج ہے ۔ اب تک انسانیت کی یہ قیادت اہلِ مغرب کے ہاتھ میں تھی مگر اب یہ قیادت رُوبہ زوال ہے ۔ اور جیسا کہ ہم اوپر عرض کر چکے ہیں، اس قیادت کے زوال کا یہ سبب نہیں ہے کہ مغربی تہذیب مادی لحاظ سے مفلس ہو چکی ہے ، یا اقتصادی اور عسکری اعتبار سے مضمحل ہو گئی ہے بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ مغربی انسان ان زندگی بخش اقدار سے محروم ہو چکا ہے جن کی بدولت وہ قیادت کے منصب پر فائز رہ سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اب تاریخ کے اسٹیج پر اس کا رول تمام ہو چکا ہے اور ایک ایسی قیادت کی اشد ضرورت محسوس ہو رہی ہے جو ایک طرف یورپ کی تخلیقی ذہانت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی مادی ترقی کی حفاظت کر سکے اور اسے مزید نشوونما دے سکے ، اور دوسری طرف انسانیت کو ایسی اعلٰی اور اکمل اقدار حیات بھی عطا کر سکے ، جن سے انسانی علم اب تک ناآشنا رہا ہے ، اور ساتھ ہی انسانیت کو ایک ایسے طریقِ زندگی سے بھی روشناس کرا سکے جو انسانی فطرت سے ہم آہنگ ہو، مثبت اور تعمیری ہو، اور حقیقت پسندانہ ہو۔ یہ حیات آفرین اقدار اور منفرد نظامِ حیات صرف اسلام کے پاس ہے ۔ اسلام کے سوا کسی اور ماخذ سے اس کی جستجو لا حاصل ہے ۔
علمی ترقی کی تحریک بھی اب اپنی افادیت کھو چکی ہے ۔ اس تحریک کا آغاز سولہویں صدی عیسوی میں علمی بیداری کے ساتھ ہی ہو گیا تھا، اٹھارہویں اور انیسویں صدی اس کا زمانہ عروج تھا، مگر اب اس کے پاس بھی کوئی سرمایۂ حیات باقی نہیں رہا۔
تمام وطنی اور قومی نظریات جو اس دور میں نمودار ہوئے ، اور وہ تمام اجتماعی تحریکیں جو ان نظریات کی بدولت برپا ہوئیں ان کے پاس بھی اب کوئی نیا حربہ باقی نہیں رہا ہے ۔ الغرض ایک ایک کر کے تمام انفرادی اور اجتماعی نظریات اپنی ناکامی کا اعلان کر چکے ہیں۔
اسلام کی باری
اس انتہائی نازک، ہوش رہا اور اضطراب انگیز مرحلے میں تاریخ کے اسٹیج پر اب اسلام اور امتِ مسلمہ کی باری آئی ہے ۔ اسلام موجودہ مادی ایجادات کا مخالف نہیں ہے ۔ بلکہ وہ تو مادی ترقی کو انسان کا فرض اولیں قرار دیتا ہے ۔
زمین پر نیابتِ الٰہی کے منصب پر فائز ہونے کے بعد پہلے دن سے ہی اس کو جتا دیا تھا کہ مادی ترقی کا حصول اس کا فرض اولیں ہے ۔ چنانچہ اس سے بھی آگے بڑھ کر اسلام چند مخصوص شرائط کے تحت مادی جدوجہد کو عبادتِ الٰہی کا درجہ دیتا ہے اور اسے تخلیق انسانی کی غرض و غایت کو پورا کرنے کا ایک ذریعہ تصور کرتا ہے ۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے :
وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَۃ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ خَلِيفَۃ (بقرہ: 30)
اور یاد کرو جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلاَ لِيَعْبُدُونِ (ذاریات: 56)
اور میں نے جنوں اور انسانوں کو نہیں پیدا کیا مگر اس لیے کہ وہ میری بندگی کریں۔
اللہ تعالٰی نے امت مسلمہ کو جس مقصد کے لیے اٹھایا ہے اب وقت آگیا ہے کہ امت مسلمہ اس مقصد وجود کو پورا کرے ۔ اس بارے میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے :
كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّۃ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّہ (آل عمران: 110)
تم دنیا میں وہ بہترین گروہ ہو جسے انسانوں کی ہدایت کے لیے میدان میں لایا گیا ہے ، تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّۃ وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُہدَاء عَلَی النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَہيدًا (بقرہ: 143)
اور اسی طرح ہم نے تمہیں ایک امت وسط بنایا تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ اور رسول تم پر گواہ ہو۔
اسلام اپنا رول کیسے ادا کر سکتا ہے
اسلام اپنا رول اس وقت تک ادا نہیں کر سکتا جب تک وہ ایک معاشرے کی صورت میں جلوہ گر نہ ہو۔ دوسرے لفظوں میں اپنا صحیح رول ادا کرنے کے لیے اسلام کے لیے ایک امت اور قوم کی شکل اختیار کرنا ناگزیر ہے ۔ دنیا کے کسی دَور میں، اور بالخصوص دورِ حاضر میں، کبھی ایسے خالی خولی نظریہ پر کان نہیں دھرا جس کا عملی مظہر اسے جیتی جاگتی سوسائٹی میں نظر نہ آئے ۔ اس لحاظ سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امت مسلمہ کا "وجود" کئی صدیوں سے معدوم ہو چکا ہے کیونکہ امتِ مسلمہ کسی ملک کا نام نہیں ہے جہاں اسلام بستا رہا ہے اور نہ کسی "قوم" سے عبارت ہے جس کے آباؤ اجداد تاریخ کے کسی دور میں اسلامی نظام کے سائے میں زندگی گزارتے رہے ہیں بلکہ یہ اس انسانی جماعت کا نام ہے جس کے طور طریق، افکار و نظریات، قوانین و ضوابط، اقدار و معیار رد و قبول سب کے سوتے اسلامی نظام کے منبع سے پھوٹتے ہیں۔ ان اوصاف و امتیازات کی حامل امتِ مسلمہ اسی لمحہ سے نہان خانۂ عدم کی نذر ہو چکی ہے جس لمحہ روئے زمین پر شریعتِ الٰہی کے تحت حکمرانی و جہانبانی کا فریضہ معطل ہوا ہے ۔ لیکن اگر اسلام کو دوبارہ وہ کردار ادا کرنا ہے جس کے لیے آج انسانیت چشم براہ ہے تو ناگزیر ہے کہ پہلے امت مسلمہ کے اصل وجود کو بحال کیا جائے ، اور اس امتِ مسلمہ کو از سرِ نو زندہ کیا جائے جس پر کئی نسلوں کا ملبہ پڑا ہوا ہے ، جو غلط نظریات کے انباروں میں دبی پڑی ہے ، جو خود ساختہ اقدار و روایات کے اندر مدفون ہے اور جو ان باطل قوانین و دساتیر کے ڈھیروں میں پنہا ہے جن کا اسلام اور اسلام کے طریقۂ حیات سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے مگر اس کے باوجود اب تک اس خام خیالی میں مبتلا ہے کہ اس کا وجود قائم و دائم ہے اور نام نہام "عالم اسلامی" اس کا مسکن ہے !
میں اس بات سے بے خبر نہیں ہوں کہ تجدید و احیاء کی کوشش اور حصول قیادت کے درمیان بڑا طویل فاصلہ ہے ۔ ادھر امتِ مسلمہ کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے اصل "وجود" کو عرصۂ طویل سے فراموش کر چکی ہے ، اور تاریخ کے اسٹیج سے رخصت ہوئے اسے زمانۂ دراز گزر چکا ہے ۔ غیر حاضری کے اس طویل وقفے میں انسانی قیادت کے مناسب پر مختلف نظریات و قوانین، اقوام اور کچھ روایات قابض پائی گئی ہیں۔ یہی وہ دور تھا جس میں یورپ کے عبقری ذہن نے سائنس، کلچر، قانون اور مادی پیداوار کے میدان میں وہ حیرت ناک کارنامے انجام دیئے ، جن کے باعث اب انسانیت مادی ترقی اور ایجادات کے نقطۂ عروج پر پہنچ چکی ہے چنانچہ ان کمالات پر یا ان کمالات کے موجدین پر بآسانی انگلی نہیں دھری جا سکتی۔ خصوصاً اس حالات میں جب کہ وہ خطۂ زمین جسے "دنیائے اسلام" کے نام سے پکارا جاتا ہے ان ایجادات سے قریب قریب خالی ہے ۔ مگر ان تمام باتوں کے باوجود اسلام کا احیاء نہایت ضروری ہے ۔ احیائے اسلام کی ابتدائی کوشش اور حصولِ امامت کے درمیان خواہ کتنی ہی لمبی مسافت حائل ہو اور خواہ کتنی ہی گھاٹیاں سد راہ ہوں، احیائے اسلام کی تحریک سے صرف نظر نہيں کیا جا سکتا۔ یہ تو اس راہ میں پہلا قدم ہے اور ناگزیر مرحلہ!
امامت عالم کے لیے ناگزیر صلاحیت کیا ہے ؟
ہمیں اپنا کام علی وجہ البصیرت کرنے کے لیے متعین طور پر یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کیا صلاحیتیں ہیں جن کی بنا پر امتِ مسلمہ امامت عالم کا فریضہ ادا کر سکتی ہے ۔ یہ اس لیے ضروری ہے تاکہ تجدید و احیاء کے پہلے ہی مرحلے میں ان صلاحیتوں کی تفصیل اور تشخیص میں کسی غلطی کا شکار نہ ہو جائیں۔
امتِ مسلمہ آج اس بات پر نہ قادر ہے اور نہ اس سے یہ مطلوب ہے کہ وہ انسانیت کے سامنے مادی ایجادات کے میدان میں ایسے خارق عادۃ تفوّق کا مظاہرہ کرے ، جس کی وجہ سے اُس کے آگے انسانوں کی گردنیں جھک جائیں، اور یوں اپنی اس مادی ترقی کی بدولت وہ ایک بار پھر اپنی عالمی قیادت کا سکہ منوا لے ۔ یورپ کا عبقری دماغ اس دوڑ میں بہت آگ جا چکا ہے اور کم از کم آئندہ چند صدیوں تک اس امر کی کوئی توقع نہیں کی جا سکتی کہ یورپ کی مادی ترقی کا جواب دیا جا سکے یا اس پر تفوق حاصل کیا جا سکے ۔
لہٰذا ہمیں کسی دوسری صلاحیت کی ضرورت ہے ۔ ایسی صلاحیت جس سے تہذیب حاضر عاری ہے مگراس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مادی ترقی کے پہلو کو سرے سے نظر انداز کر دیا جائے ۔ بلکہ اس معاملے میں بھی پوری جانفشانی اور جدوجہد لازم ہے لیکن اس نقطۂ نظر سے نہیں ہمارے نزدیک موجودہ مرحلے میں انسانی قیادت کے حصول کے لیے کوئی ناگزیر صلاحیت ہے ، بلکہ اس نقطۂ نظر سے کہ یہ ہمارے وجود و بقا کی ایک ناگزیر شرط ہے ۔ اور خود اسلام جو انسان کو خلافت ارضی کا وارث قرار دیتا ہے اور چند مخصوص شرائط کے تحت کارِ خلافت کو عبادتِ الٰہی اور تخلیق انسانی کی غرض و غاریت خیال کرتا ہے ، مادی ترقی کو ہم پر لازم ٹھیراتا ہے ۔
انسانی قیادت کے حصول کے لیے مادی ترقی کے علاوہ کوئی اور صلاحیت درکار ہے ۔ اور یہ صلاحیت صرف وہ عقیدہ اور نظامِ زندگی ہو سکتا ہے جو انسانیت کو ایک طرف یہ موقع دے کہ وہ مادی کمالات کا تحفظ کرے ؛ اور دوسری طرف وہ انسانی فطرت کی ضروریات اور تقاضے ایک نئے نقطۂ نظر کے تحت اسی طمطراق کے ساتھ پورا کرے جس طرح موجودہ مادی ذہن نے پورا کیا ہے اور پھر یہ عقیدہ اور نظامِ حیات عملاً ایک انسانی معاشرے کی شکل اختیار کرے اور بالفاظِ دیگر ایک مسلم معاشرہ اُس کا نمائندہ ہو۔
عہد حاضر کی جاہلیت
موجودہ انسانی زندگی کی بنیادیں اور ضابطے جس اصل اور منبع سے ماخوذ ہیں اس کی رو سے اگر دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ آج ساری دنیا "جاہلیت" میں ڈوبی ہوئی ہے اور "جاہلیت" بھی اس رنگ ڈھنگ کی ہے کہ یہ حیرت انگیز مادی سہولتیں اور آسائشیں اور بلند پایہ ایجادات بھی اس کی قباحتوں کو کم یا ہلکا نہیں کر سکتیں۔ اس جاہلیت کا قصر جس بنیاد پر قائم ہے ، وہ ہے اس زمین پر خدا کے اقتدارِ اعلٰی پر دست درازی، اور حاکمیت جو الوہیت کی مخصوص صفت ہے اس سے بغاوت۔ چنانچہ اس جاہلیت نے حاکمیت کی باگ ڈور انسان کے ہاتھ میں دے رکھی ہے ۔ اور بعض انسانوں کو بعض دوسرے انسانوں کے لیے ارباب مّن دون اللہ کا مقام دے رکھا ہے ۔ اس سیدھی سادی اور ابتدائی صورت میں نہیں جس سے قدیم جاہلیت آشنا تھی بلکہ اس طنطنے اور دعوے کے ساتھ کہ انسانوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ خود افکار و اقدار کی تخلیق کریں، شرائع و قوانین وضع کریں اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کے لیے جو چاہیں نظام تجویز کریں۔ اور اس سلسلے میں انہیں یہ معلوم کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے کہ اللہ تعالٰی نے انسانی زندگی کے لیے کیا نظام اور لائحہ عمل تجویزکیا ہے ، کیا ہدایت نازل کی ہے اور کس صورت میں نازل کی ہے ۔ اس باغیانہ انسانی اقتدار اور بے لگام تصورِ حاکمیت کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ خلق اللہ ظلم و جارحیت کی چکی میں پس رہی ہے ۔ چنانچہ اشتراکی نظاموں کے زیر سایہ انسانیت کی جو تذلیل ہو رہی ہے ، یا سرمایہ دارانہ نظاموں کے دائرے میں سرمایہ پرستی اور جوع الارضی کے عفریت نے افراد و اقوام پر ظلم و ستم کے جو پہاڑ توڑ رکھے ہیں وہ دراصل اُسی بغاوت کا شاخسانہ ہے ، جو زمین پر خداوند تعالٰی کے اقتدار کے مقابلے میں دکھائی جا رہی ہے ۔ اللہ تعالٰی نے انسان کو جو تکریم اور شرف عطا کیا ہے انسان اُسے خود اپنے ہاتھوں پامال کر کے نتائج بد سے دوچار ہے ۔
 

ابوشامل

محفلین
اسلام اور جاہلیت کا اصل اختلاف
اس بارے میں صرف اسلامی نظریۂ حیات ہی منفرد خصوصیت کا علمبردار ہے ۔ اسلامی نظامِ حیات کے سوا آپ جس نظام کو بھی لیں گے آپ دیکھیں گے کہ اس میں انسان دوسرے انسانوں کی کسی نہ کسی شکل میں عبودیت کرتا نظر آتا ہے ۔ صرف اسلام ہی ایک ایسا نظامِ حیات ہے جس میں انسان اپنے ہی جیسے دوسرے انسان کی عبودیت سے آزاد ہو کر صرف خدائے واحد کی عبودیت اور بندگی کے لیے مخصوص ہو جاتا ہے ، صرف اللہ کی بارگاہ سے رشد و ہدایت کی روشنی حاصل کرتا ہے اور صرف اسی کے آگے سر افگندہ ہوتا ہے ۔
یہی وہ نقطہ ہے جہاں اسلام اور غیر اسلامی طرزِ حیات کی راہیں جدا جدا ہوتی ہیں۔ یہ ہے وہ دنیا اور نرالا تصورِ زندگی جسے ہم انسانیت کی خدمت میں آج پیش کر سکتے ہیں۔ یہ تصور انسانی زندگی کے تمام عملی پہلوؤں پر گہرے اثرات ڈالتا ہے ۔ یہی وہ نادر خزانہ ہے جس سے آج انسانیت محروم ہے ۔ اس لیے کہ مغربی تہذیب اس سلسلے میں بانجھ ہے ، یورپ کی حیران کن تخلیقی صلاحیتیں بھی ۔۔۔۔۔ خواہ وہ مغربی یورپ ہو یا مشرقی یورپ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس خزانے تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر ہیں!
یہ بات ہم پورے دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایک ایسے نظام حیات کے داعی ہیں جو نہایت درجہ کامل اور ہر لحاظ سے منفرد اور ممتاز ہے ۔ پوری نوعِ انسانی ایسے گنجِ گراں مایہ سے خالی ہے ۔ دیگر مادی مصنوعات کی طرح وہ اسے "پیدا" کرنے کی قدرت نہیں رکھتی۔ لیکن جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا ہے ، اس نظامِ نَو کی خوبی اس وقت تک نمایاں نہیں ہو سکتی، جب تک اسے عمل کے قالب میں نہ ڈھالا جائے ۔ پس یہ ضروری ہے کہ ایک امت عملاً اپنی زندگی اس کے مطابق استوار کر کے دکھائے ۔ اس مقصد کے بروئے کار لانے کے لیے ضروری ہے کہ کسی ایک اسلامی ملک میں احیائے دین کی مہم کی طرح ڈالی جائے ۔ احیائے نو کی یہی وہ ناگزیر کوشش ہے ، جو طویل یا مختصر مسافت کے بعد، بالآخر انسانی امامت و قیادت کے قبضہ پر منتج ہوگی۔
احیائے دین کا کام کیسے ہو؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ احیائے اسلام کی مہم کا آغاز کس طرح ہو؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ پہلے ایک ہراول دستہ وجود میں آئے جو اس کارِ عظیم کا عزمِ صمیم لے کر اٹھے ۔ اور پھر مسلسل منزل کی طرف پیش قدمی کرتا چلا جائے ۔ اور جاہلیت کے اس بیکراں سمندر کو چیرتا ہوا آگے کی جانب رواں دواں رہے ۔ جس کی لپیٹ میں پوری دنیا آ چکی ہے ۔ وہ اپنے سفر کے دوران میں اِس ہمہ گیر جاہلیت سے یک گونہ الگ تھلگ بھی رہے اور یک گونہ وابستہ بھی۔ یہ ہراول دستہ جس منزل تک پہنچنا چاہتا ہے ضروری ہے کہ اسے اپنے راستے کے نقوش اور سنگ ہائے میل پوری طرح معلوم ہوں، جنہیں دیکھ کر وہ اپنی مہم کے مزاج و طبیعت، اپنے فرض کی حقیقت و اہمیت، اپنے مقصد کی کنہ، اور اس سفر طویل کا نقطۂ آغاز پہچان سکے ۔ نہ صرف یہ بلکہ اُسے یہ بھی شعور حاصل ہونا ضروری ہے کہ اس عالم گیر جاہلیت کے مقابلے میں اس کا مؤقف کیا ہے ؟ کس کس پہلو میں وہ دوسرے انسانوں سے ملے ، اور کس کس مقام پر اُن سے جُدا ہو؟ وہ خود کن خوبیوں اور صلاحیتوں کا حامل ہے ؟ اور ارد گرد کی جاہلیت کن کن خصوصیات و خصائل سے مسلح اور لیس ہے ؟ نیز وہ اہل جاہلیت کو کیسے اسلام کی زبان میں خطاب کرے ، اور کن کن مسائل و مباحث میں خطاب کرے ؟ اور پھر اُسے یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ وہ ان تمام امور میں کہاں سے اور کیسے رہنمائی حاصل کرے ؟
ان نقوش راہ اور سنگ ہائے میل کا تعین اور تشخص اسلامی عقیدہ کے ماخذِ اولین کی روشنی میں ہوگا۔ ماخذ اولین سے ہماری مراد قرآن حکیم ہے ۔ اس کتاب کی بنیادی تعلیمات ان نقوش راہ کی نشان دہی کریں گی۔ یا پھر وہ تصور اس بارے میں رہنمائی کرے گا، جو قرآن حکیم نے اس پاکیزہ و برگزیدہ جماعت کے دلوں پر نقش کر دیا تھا جس کے ذریعہ اللہ تعالٰی نے دنیا کے اندر اپنی حکمت و قدرت کے محیر العقول کرشمے دکھائے اور ایک مرتبہ تو اس جماعت نے تاریخ انسانی کا دھارا بدل کر اُس رُخ پر موڑ دیا جو مشیتِ خداوندی کو مطلوب و مقصود تھا۔
حقیقتِ منتظر
اسی ہراول دستے کے لیے جسے میں "حقیقتِ منتظر" سمجھتا ہوں، میں نے یہ کتاب لکھی ہے ۔ اس کتاب کے چار ابواب میری تفسیر "فی ظلال القرآن" سے ماخوذ ہیں، جن میں میں نے موضوع کی رعایت سے کچھ ترمیم و اضافہ کر دیا ہے ۔ اس مقدمہ کے علاوہ بقیہ آٹھ ابواب میں نے مختلف اوقات میں قلمبند کیے ہیں۔ قرآن حکیم کے پیش کردہ ربانی نظریۂ حیات پر غور و فکر کے دوران میں مختلف اوقات میں مجھ پر جو حقائق منکشف ہوئے ، وہ میں نے ان ابواب میں سپردِ قلم کر دیے ہیں۔ یہ خیالات بظاہر بے جوڑ اور منتشر معلوم ہوں گے ، مگر ایک بات ان سب ميں مشترک ملے گی، اور وہ یہ کہ یہ خیالات "معالم فی الطریق" ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہر راستے کی علامات کا یہی حال ہوتا ہے ۔ مجموعی طور پر یہ گزارشات "معالم فی الطریق" کی پہلی قسط ہیں اور امید ہے کہ جس طرح اللہ تعالٰی نے مجھے اس کتاب کو پیش کرنے کی توفیق دی ہے ، اس موضوع پر اور بھی چند مجموعے پیش کرنے کی توفیق نصیب ہوگی ۔ و باللہ التوفیق
 

ابوشامل

محفلین
باب اول
قرآن کی تیار کردہ لاثانی نسل​
اسلام کے نام لیواؤں کو تاریخ اسلام کا ایک نمایاں پہلو خاص طور پر پیشِ نظر رکھنا چاہیے کیوں کہ یہ پہلو دعوت کے طریقِ کار اور رحجان پر نہایت گہرا اور فیصلہ کُن اثر ڈالتا دکھائی دیتا ہے ۔ لہذا ضروری ہے کہ دعوتِ اسلامی کے علمبردار خواہ کسی ملک اور زمانے سے تعلق رکھتے ہوں اس پہلو پر زیادہ سے زیادہ غور کریں۔ یہ پہلو اس حقیقت کا ترجمان ہے کہ دعوتِ اسلامی نے ایک زمانے میں ایسی انسانی نسل تیار کی تھی جس کی مثال پوری اسلامی تاریخ، بلکہ پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس نسل سے مراد رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام ہیں۔ اس نسل کے بعد تاریخی ادوار میں دعوتِ اسلامی کے ہاتھوں اس طرز اور کردار کی جمعیت پھر وجود میں نہیں آئی۔ اگرچہ تاریخ کے ہر دور میں اس کردار کے افراد تو بلا شبہ پائے گئے ، مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ایک ہی خطے میں بڑی تعداد میں اس طرز اور کردار کے لوگ جمع ہو گئے ہوں۔ جس طرح اسلام کے اولین دور میں جمع ہوئے ۔ یہ ایک ایسی بدیہی حقیقت ہے جس کا ثبوت تاریخ کے صفحات سے ملتا ہے اور اس کی تہ میں ایک خاص راز پنہاں ہے ، ہمیں اسی بدیہی حقیقت کا بنظرِ غائر مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ اُس راز تک رسائی حاصل کر سکیں۔
صحابۂ کرام کے بعد ایسی لاثانی جمعیت کیوں وجود میں نہ آئی؟
اسلام کی دعوت و ہدایت جس کتاب میں موجود ہے وہ ہمارے ہاتھوں میں ہے ۔ اس کتاب کو پیش کرنے والی ہستی ۔۔۔۔۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔۔۔ کی تعلیمات و احادیث اور سیرت پاک آج بھی اُسی طرح ہماری نگاہوں کے سامنے ہے جس طرح وہ اُس پہلی اسلامی جمعیت کی نگاہوں کے سامنے تھی جس کا تاریخ کے اسٹیج پر دوبارہ اعادہ نہ ہو سکا ۔۔۔۔۔۔۔۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم بنفسِ نفیس اِس جمعیت کے قائد تھے ، اور اب یہ صورتِ حال نہیں ہے ۔ لیکن کیا یہی فرق اسلام کی مثالی تنظیم کے دوبارہ وجود میں نہ آنے کا سبب ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود مبارک اگر دعوتِ اسلامی کے قیام اور بار آور ہونے کے لیے حتمی اور ناگزیر ہوتا تو اللہ تعالٰی نے اسلام کو ہر گز عالمگیر دعوت اور پوری انسانیت کے لیے دین نہ قرار دیا ہوتا، اور نہ اسے انسانیت کے لیے آخری پیغام کی حیثیت دی ہوتی، اور نہ روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کے معاملات و مسائل کی اصلاح کی ذمہ داری قیامت تک کے لیے اس کے سپرد کی ہوتی۔ اللہ تعالٰے نے قرآن حکیم کی حفاظت کا خود ذمہ لیا ہے ۔ اس لیے کہ وہ علیم و خبیر جانتا ہے کہ اسلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی برپا ہو سکتا ہے ، اور اپنے ثمرات سے انسانیت کو بہرہ ور کر سکتا ہے ۔ چنانچہ اس دعوت کو جب 23 سال گزر گئے ، اور وہ اپنے اوج کمال تک پہنچ گئی تو اللہ تعالٰی نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے جوارِ رحمت میں طلب فرما لیا اور آپ کے بعد اِس دین کو زمانۂ آخر تک کے لیے جاری و ساری کر دیا۔ پس رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود گرامی کا نگاہوں سے اوجھل ہو جانا معیاری اسلامی جمعیت کے فقدان کا باعث نہیں قرار دیا جا سکتا۔
اس کی پہلی وجہ
تو پھر ہمیں اس کا کوئی اور سبب تلاش کرنا چاہیے اس سلسلے میں ہمیں اس چشمۂ صافی پر بھی نگاہ ڈال لینی چاہیے جس سے پہلی اسلامی نسل نے اسلام کا فہم و شعور حاصل کیا۔ شاید اس کے اندر ہی کوئی تغیر واقع ہو چکا ہو! اُس طریقِ کار کا بھی جائزہ لے لینا چاہیے جس کے مطابق اس نے تربیت حاصل کی، ممکن ہے اُس میں تبدیلیوں نے راہ پالی ہو! جس چشمہ سے صحابۂ کرام کی عظیم المرتبت جماعت نے اسلام کا فہم حاصل کیا وہ صرف قرآن تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور تعلیمات اس چشمے سے پھوٹنے والے سوتے تھے ۔ چنانچہ جب ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ دریافت کیا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کیسے تھے ؟ تو آپ نے فرمایا: کان خلقہ القرآن (آپ کے اخلاق قرآن کا چلتا پھرتا نمونہ تھے )۔ الغرض قرآن حکیم ہی وہ واحد سرچشمہ تھا جس سے صحابۂ کرام سیراب ہوتے تھے ، یہی وہ سانچہ تھا جس میں وہ اپنی زندگیوں کو ڈھالتے تھے ، اسی سے وہ اکتساب فیض کرتے تھے ۔ صرف قرآن پر اُن کا اکتفاء کر لینا اس وجہ سے نہ تھا کہ اس وقت دنیا میں کسی اور تہذیب و تمدن اور ثقافت کے آثار موجود نہ تھے ، علمی تحقیقات اور سائنسی کمالات کا وجود نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام مظاہر گوناگوں شکل میں موجود تھے ۔ مثلاً رومی تہذیب موجود تھی، رومی علم و حکمت اور رومی قانون و نظام کا ڈنکا بج رہا تھا جو آج بھی یورپ کی تہذیب کی بنیاد ہے یا کم از کم موجودہ یورپ اُس کی ترقی یافتہ صورت ہے ۔ یونانی تہذیب کا ترکہ بھی منطق و فلسفہ اور ادب و فن کے رنگ میں موجود تھا جو آج تک مغرب کے فکر و نظر کا مرجع ہے ۔ عجمی تہذیب و تمدن، عجم کا آرٹ، اُس کی شاعری، اس کا روایتی ادب اور اس کے عقائد اور نظامہائے حکومت کا غلغلہ تھا۔ اور بھی کئی تہذیبیں جزیرۃ العرب کے قریب یا دور پائی جاتی تھیں، مثلاً ہندی تہذیب اور چینی تہذیب۔ رومی اور عجمی دونوں تہذیبوں کے دھارے جزیرۃ العرب کے ساتھ ساتھ شمال اور جنوب میں بہہ رہے تھے ۔ مزید برآں یہودی اور مسیحی آبادیاں خود جزیرۃ العرب کے وسط میں موجود تھیں۔ لہذا ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ صحابۂ کرام ۔۔۔۔۔۔ پہلی اسلامی نسل۔۔۔۔۔۔ کا صرف کتاب الٰہی پر اکتفاء کرنا اور فہم دین کی خاطر کسی اور چشمہ سے رجوع نہ کرنا فکر و نظر کے جمود اور تہذيب و تمدن سے بیگانگی کا وجہ سے نہ تھا، بلکہ یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے اور طے کردہ طریق کار کی بنا پر تھا۔ اس امر کی دلیل خود جناب رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک عمل سے ملتی ہے ۔ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تورات کے چند اوراق دیکھے ۔ آپ دیکھ کر ناراض ہوئے اور فرمایا "و انہ واللہ لو کان موسٰی حیابین اظھرکم ما حل لہ الا ان یتبعنی (خدا کی قسم! اگر موسٰی بھی آج تمہارے اندر موجود ہوتے تو میری ہی اطاعت کرتے )۔
اس واقعہ سے صاف ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادۃً اسلام کی اس اولین نسل کو جو ابھی تعمیر کے دور سے گزر رہی تھی صرف ایک ہی چشمہ سے اکتسابِ فیض کرنے تک محدود رکھا، اور وہ تھا قرآن حکیم۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا یہ تھا کہ اس جماعت کے دل صرف کتاب اللہ کے لیے خالص ہو جائیں، اور اُسی کے پیش کردہ نظامِ حیات کے مطابق وہ اپنے حالات کی اصلاح کریں۔ اس لیے آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھ کر غضب آلود ہو گئے کہ عمر ۔۔۔۔۔۔۔۔ رضي اللہ عنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ قرآن کے بجائے ایک دوسرے ماخذ کی طرف مائل ہیں۔ دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی لاثانی نسل تیار کرنا چاہتے تھے جس کا دل و دماغ نہایت پاکیزہ اور مطہر ہو، جس کا احساس و شعور انتہائی صاف و شفاف ہو اور جس کی تعمیر میں قرآن کے طریقۂ تربیت و تعلیم کے سوا کسی دوسرے طریقہ کو دخل نہ ہو۔
یہ نسل یا جمعیت تاریخ میں لاثانی اور یکتا تنظیم سمجھی گئی ہے ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اُس نے دین کے فہم اور تربیت کا اکتساب صرف ایک ہی ماخذ سے کیا۔ مگر بعد کے ادوار میں یہ صورت پیش آئی کہ اس چشمے کے اندر اور بھی متعدد چشموں کی آمیزش ہو گئی۔ بعد کی نسلوں نے جس چشمہ سے اخذ و اکتساب کیا اُس کا حال یہ تھا کہ اُس میں یونانی فلسفہ و منطق، قدیم عجمی قصے کہانیاں، اسرائیلیات، مسیحی الٰہیات اور دوسرے مذاہب اور تمدنوں کے بچے کچھے آثار مخلوط ہو چکے تھے ۔ چنانچہ قرآن کریم کی تعبیرات پر ان تمام چیزوں کا عکس پڑا، علم الکلام ان سے متاثر ہوا، فقہ اور اصول فقہ ان کے دخل سے نہ بچ سکے ۔ نسل اولیں کے بعد جتنی نسلیں اُٹھیں وہ اسی مخلوط چشمے سے اکتساب و استفادہ کرتی رہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ صحابۂ کرام جیسی کامل و خالص ہیئت اجتماعیہ دوبارہ منصۂ ظہور پر نہ آ سکی۔ اور ہم یہ بات کسی شک و شبہ کے بغیر کہتے ہیں کہ بعد کی نسلوں اور اسلام کی پہلی یکتا و ممتاز جمعیت میں جو نمایاں اختلاف نظر آتا ہے اُس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ بعد میں اسلام کے اولین منبع رشد و ہدایت میں ان مختلف ماخذ اور گوناگوں چشموں کا اختلاط ہو گیا جن میں سے بعض کی جانب ہم اوپر اشارہ کر آئے ہیں۔
دوسری وجہ
اس فرق کو پیدا کرنے میں ایک اور اساسی عامل بھی کار فرما رہا ہے ۔ صحابہ کرام قرآن کی تلاوت اور اس میں تدبر اس غرض کے لیے نہیں کرتے تھے کہ اپنی معلومات کو بڑھائیں، یا ادبی ذوق کو تسکین دیں، یا ذہنی تفریح کا سامان مہیا کریں۔ ان حضرات میں سے کوئی فرد بھی کبھی اس غرض کے لیے قرآن نہیں سیکھتا تھا کہ وہ اپنی معلومات عامہ کا دائرہ وسیع کرنا چاہتا ہے ، علمی اور قانونی رموز و مسائل میں اپنے سابقہ علم کے اندر اضافہ کرنا چاہتا ہے ، یا کسی بھی پہلو سے اپنی علمی کسر کو پورا کرنا چاہتا ہے بلکہ وہ قرآن کی طرف اس لیے رجوع کرتا تھا تاکہ وہ یہ معلوم کرے کہ اس کی انفرادی زندگی کے بارے میں مالک الملک نے کیا ہدایات دی ہیں؟ جس معاشرے کے اندر وہ سانس لے رہا ہے اُس کی اجتماعی زندگی کے لیے کیا احکام ہیں؟ اُس مخصوص نظامِ حیات کے بارے میں جس کا وہ اور اس کی جماعت علمبردار ہے پروردگار عالم کی طرف سے کیا تفصیلات دی گئی ہیں؟ اس برگزیدہ جماعت کا ہر فرد میدانِ جنگ میں لڑنے والے سپاہی کی مانند اللہ کے احکام موصول ہوتے ہی ان پر بلا چون و چرا کاربند ہو جاتا تھا۔ وہ ایک ہی نشست میں قرآن حکیم کی کئی سورتیں نہیں پڑھ ڈالتا تھا۔ اًسے احساس تھا کہ اس طرح اُس کس کندھوں پر یکدم بہت سے فرائض اور ذمہ داریوں کا بوجھ آ پڑے گا۔ وہ زیادہ سے زیادہ دس آیات کی تلاوت کرتا، انہیں حفظ کرتا، اور ان کی عملی زندگی پر نافذ کرتا۔ اس طریقہ تعلیم کی تفصیل ہمیں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک روایت سے ملتی ہے ۔
احکامِ خداوندی کی تعمیل کے اس احساس نے ان حضرات پر نہ صرف روحانی لذت و تسکین کے بے شمار افق وا کر دیے بلکہ علم و عرفان کی بے شمار راہیں بھی اُن پر کھول دیں۔ وہ اگر صرف کیف و نشاط اور مجرد علم و آگہی کے ارادے سے قرآن پڑھتے تو یہ غیر محدود حظ انہیں ہر گز حاصل نہ ہو سکتا تھا، اور وہ علم و عرفان کے بحر ناپیدا کنار میں شناوری نہ کر سکتے تھے ۔ پھر احساس اطاعت گزاری نے اُن کے لیے عمل کو بھی نہایت درجہ آسان کر دیا، خدا کے احکام ان کے لیے بوجھ بننے کے بجائے ہلکے پھلکے اور حد درجہ آسان ہو گئے ۔ قرآن کی تعلیمات ان کے نفوس میں اس طرح اتر گئیں کہ ان کی زندگیاں اسلام کا چلتا پھرتا نمونہ بن گئیں، وہ ایک ایسی ثقافت کا عملی پیکر بن گئے جو ذہن کی تختیوں اور کتاب کے صفحات تک محدود نہیں تھی بلکہ ایک ایسی عملی تحریک کی شکل میں جلوہ گر تھی جس نے انسانی زندگی کا دھارا بدل کر رکھ دیا۔
قرآن اپنے خزانوں کی کُنجیاں صرف ان لوگوں کو عطا کرتا ہے جو اس احساس و جذبہ کے ساتھ اُس بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں کہ قرآن سمجھ کر اُس پر عمل پیرا ہوں گے ۔ قرآن اس لیے نہیں نازل ہوا کہ وہ ذہنی لذت اور تسکین ذوق کی کتاب بن کر رہ جائے ، یا محض ادب و فن کا شہ پارہ قرار پائے ، یا اسے قصے کہانیوں اور تاریخ کا دفتر سمجھا جائے ۔ اگرچہ اُس کے مضامین ضمنی طور پر ان تمام خوبیوں سے مالا مال ہیں مگر اُس کے نزول کا مقصد یہ ہے کہ وہ کتابِ زندگی ہو، وہ انسان کا رہنما ہو۔ وہ یہ بتانے کے لیے آیا ہے کہ مالک الملک کو زندگی کا کون سا ڈھب محبوب ہے ۔ اسی مقصد و مدعا کے پیشِ نظر وہ صحابۂ کرام کو تدریج کے ساتھ اپنے مخصوص طریقِ زندگی کی تربیت دیتا رہا اور ٹھیر ٹھیر کر وقفوں سے ان پر احکام و ہدایات نازل کرتا رہا۔ اسی تدریجی طریقِ تعمیر و تربیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالٰے فرماتا ہے :
وَقُرْآناً فَرَقْنَاہ لِتَقْرَأَہ عَلَی النَّاسِ عَلَی مُكْثٍ وَنَزَّلْنَاہ تَنزِيلاً (بنی اسرائیل: 106)
اور اس قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا ہے تاکہ تم ٹھیر ٹھیر کر اسے لوگوں کو سناؤ، اور اسے ہم نے (موقع موقع سے )بتدریج اتارا ہے ۔
قرآنِ کریم یکبارگی نازل نہیں ہوا۔ بلکہ اسلامی معاشرے کے اندر جیسے جیسے نو بہ نو ضروریات پیدا ہوتی گئیں، لوگوں کے فہم و شعور میں بالیدگی اور وسعت رونما ہوتی گئی، عام انسانی زندگی ارتقاء سے ہمکنار ہوتی گئی، اور اسلامی جماعت کو عملی میدان میں مشکلات و مسائل سے سابقہ پیش آتا گیا اور اس کے مطابق قرآن کا نزول ہوتا گیا۔ ایک آیت یا چند آیات مخصوص نوعیت کے حالات اور مخصوص واقعات کی مناسبت سے اترتیں، اور اُن الجھنوں کو حل کرتیں جو لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہوتیں، اُن حالات کی نوعیت واضح کرتیں اور اُن سے نپٹنے کے لیے لائحہ عمل متعین کرتیں جن میں وہ گِھرے ہوتے تھے ۔ ان کے شعور و احساس کی لغزشوں اور معاملات کی غلطیوں کی تصحیح کرتیں، ہر ہر معاملے میں اللہ تعالٰی سے اُن کے تعلق کو استوار کرتیں، اور انہیں اپنے پروردگار سے اُس کی اُن صفات کی روشنی ميں متعارف کراتیں جو اس کائنات پر ہمہ پہلو اثر انداز ہو رہی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اس حقیقت کا اچھی طرح احساس کر لیا تھا کہ وہ زندگی کا ہر لمحہ اللہ تعالٰی کی رہنمائی اور نگرانی اور ملاء اعلٰی کی معیت میں بسر کر رہے ہیں اور رحمتِ خداوندی کے سایۂ عاطفت میں سفرِ حیات طے کر رہے ہیں۔ اس احساس کی وجہ سے عملی زندگی اُس مقدس قانون حیات کے مطابق ڈھل جاتی تھی جو اللہ تعالٰی کی طرف سے انہیں تعلیم کیا جا رہا تھا۔
پس معلوم ہوا کہ "تعلیم برائے تعمیل" کے اِس مخصوص طریقِ کار نے صحابۂ کرام کی لاثانی، مبارک اور منفرد تنظیم تیار کی۔ اور اس بعد کی نسلیں جس طریقِ کار کی روشنی میں تیار ہوئیں وہ "تعلیم برائے تحقیق و تفریح" سے عبارت تھا۔ اور لاریب یہ وہ دوسرا اساسی عامل ہے جس نے بعد کی نسلوں کو پہلی لاثانی اسلامی نسل سے بالکل مختلف کر دیا۔
تیسری وجہ
ایک تیسرا عامل بھی اس تاریخی حقیقت میں کار فرما نظر آتا ہے ۔ اُس کا جائزہ بھی مناسب معلوم ہوتا ہے ۔
عہد رسالت میں ایک شخص جب حلقہ بگوشِ اسلام ہو جاتا تو وہ اپنے دورِ جاہلیت کو یک قلم ترک کر دیتا تھا۔ دائرہ اسلام میں قدم رکھتے ہی وہ یہ محسوس کرتا کہ وہ کتابِ حیات کا ایک نیا ورق الٹ رہا ہے ، اور ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے جو گزشتہ جاہلی زندگی سے یکسر مختلف ہے ۔ وہ جاہلی زندگی کے تمام معمولات کو شک و شبہ اور خائف نگاہوں سے دیکھتا۔ اُس پر یہ خیال طاری رہتا کہ یہ تمام ناپاک اور پلید کام تھے ، ان میں اور اسلام میں کوئی مناسبت نہیں ہے ۔ پھر اسی احساس اور قلبی دھڑکن کے ساتھ وہ اسلام کی طرف لپکتا تاکہ وہاں سے نورِ ہدایت حاصل کرے ۔ اور اگر کبھی اُس کا نفس امارہ غالب آ جاتا یا ترک شدہ عادات کی کشش اس پر غالب آ جاتی یا اسلام کے احکام کی تعمیل میں اس سے کوئی تساہل ہو جاتا تو وہ احساس گناہ و لغزش سے بے چین ہو جاتا اور فوراً توبہ کرتا، وہ اپنے دل کی اتھاہ گہرائیوں میں اپنے گناہ کی تلافی اور روح کی تطہیر کی ضرورت محسوس کرتا اور دوبارہ قرآنی ہدایت کے مطابق مکمل طور پر ڈھل جانے کے لیے کوشاں ہو جاتا۔
دامنِ اسلام میں پناہ لینے کے بعد ایک مسلمان کی یہ کیفیت ہو جاتی تھی کہ اس کے جاہلی دور اور نئی اسلامی زندگی کے درمیان کامل انقطاع واقع ہو جاتا تھا۔ یہ انقطاع پورے شعور اور سوچے سمجھے فیصلے کے تحت ہوتا۔ اس کے نتیجے میں ارد گرد کے جاہلی معاشرے کے ساتھ اُس کے تمام اجتماعی روابط ٹوٹ جاتے ۔ وہ اپنی تمام کشتیاں جلا کر اس جذبہ و ولولہ کے ساتھ اسلام کے ساتھ مکمل طور پر وابستہ ہو جاتا کہ جاہلی ماحول کے ساتھ اُس کا ایک ایک رشتہ کٹ جاتا۔ اگرچہ تجارت اور روزانہ لین دین مشرکوں کے ساتھ اُس کا واسطہ قائم رہتا تھا مگر اس سے اس امر واقع میں کوئی فرق نہ پڑتا تھا کیوں کہ احساس و شعور کا تعلق اور محض کاروباری تعلق دو مختلف اور الگ الگ چیزیں ہیں۔ جاہلی ماحول، جاہلی رسوم و رواج، جاہلی افکار و نظریات اور جاہلی عادات و اطوار سے یہ کلی دستبرداری درحقیقت اُس عظیم فیصلے کا مظہر تھی جس کی رُو سے ایک شخص شرک سے دستبردار ہو کر دامنِ توحید میں پناہ لیتا تھا، زندگی و کائنات کے بارے میں جاہلیت کے تصور کو تج کر اسلام کے تصور کو اپناتا تھا، اور ایک نئی قیادت کے زیر سایہ جدید اسلامی تنظیم سے منسلک ہو جاتا تھا اور اپنی تمام وفاداریاں اور اطاعت گزاریاں اس نئے معاشرے اور نئی قیادت کے لیے وقف کر دیتا تھا۔
یہی وہ فیصلہ تھا جو اُس کی شاہراہ حیات کو دوسری تمام راہوں سے الگ کر دیتا تھا۔ اِس فیصلے کے بعد وہ زندگی کے نئے سفر کا آغاز کر دیتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ آزاد سفر، جاہلی معاشرے کی گُھٹی میں پڑی ہوئی روایات کے بوجھ، اور جاہلی اقدار و نظریات کے دباؤ سے آزاد سفر ۔۔۔۔۔۔۔ اس سفر میں اگر کسی بوجھ سے مسلمان کو سامنا تھا تو وہ آزمائش و اذیت تھی جو جاہلیت کے ہاتھوں اسے پہنچتی تھی۔ لیکن وہ اپنے دل کی گہرائیوں میں ہر امتحان اور ہر صعوبت کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنے اور راہ حق پر گامزن رہنے کا عزم صمیم کر چکا ہوتا تھا، اس لیے جاہلیت کے تصورات اور جاہلی معاشرے کی روایات کا دباؤ اُس کی سخت جانی پر کوئی اثر نہ ڈال سکتے تھے ۔
ہمارے لیے صحیح طریق کار؟
آج بھی ہم جاہلیت میں گِھرے ہوئے ہیں۔ یہ جاہلیت بھی اُسی خُو بُو کی ہے جس سے اسلام کو صدرِ اول میں سابقہ پیش آیا تھا۔ بلکہ اُس سے بھی تاریک تر جاہلیت۔ یوں نظر آتا ہے کہ ہمارا تمام ماحول جاہلیت کے چنگل میں گرفتار ہے ۔ ہمارے افکار و عقائد، ہماری عادات و اطوار، ہماری ثقافت اور اس کے مآخذ، ادب اور آرٹ، مروجہ نظام اور قوانین ان سب میں جاہلیت کی روح سرایت کیے ہوئے ہے ۔ یہاں تک کہ جن چیزوں کو غلطی سے اسلامی ثقافت، اسلامی مآخذ، اسلامی فلسفہ اور اسلامی فکر سمجھا جاتا ہے وہ سب بھی جاہلیت کی مصنوعات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی اقدار ہمارے دلوں میں گھر نہیں کرتیں، ہمارے اذہان و قلوب اسلام کے پاکیزہ اور اجلے تصور سے منور نہیں ہوتے ، اور ہمارے اندر انسانوں کی ویسی پاکیزہ و مثالی تنظیم برپا نہیں ہوتی جسے اسلام نے صدرِ اول میں برپا کیا تھا۔
پس ہم پر لازم ہے اور اسلامی تحریک کا مخصوص طریقِ کار بھی یہی تقاضا کرتا ہے کہ تحریک کے دور تربیت و تعمیر ہی میں ہم جاہلیت کے اُن تمام اثرات و عناصر سے پاک رہیں جن میں ہم رہ بس رہے ہیں بلکہ اخذ و استفادہ تک کر رہے ہیں۔ ہم پر لازم ہے کہ ابتدا سے ہم اس خالص سرچشمۂ ہدایت کی طرف رجوع کریں جس سے اسلام کے پہلے لاثانی معاشرے کے افراد نے فہم دین حاصل کیا تھا اور جس کے بارے میں اللہ تعالٰی نے یہ ضمانت دی ہے کہ وہ ہر گونہ اختلاط و آمیزش سے محفوظ رہے گا۔ ہمیں کائنات اور حیاتِ انسانی کی حقیقت، اور ان دونوں کے باہمی تعلق، اور پھر ان تمام چیزوں کے اور وجود کلی (باری تعالٰی کے وجود) کے باہمی تعلق کا صحیح تصور اس سرچشمہ سے حاصل کرنا ہوگا۔ اور اسی ضمن میں یہ بھی معلوم کرنا ہوگا کہ زندگی کا صحیح تصور کیا ہے ؟ ہماری قدریں اور اخلاق کس نوعیت کے ہوں؟ ہمارا نظامِ حکمرانی کس ڈھب کا ہو؟ ہماری سیاست اور اقتصاد کن اصولوں پر قائم ہو؟ غرضیکہ زندگی کے ہر ہر پہلو کے بارے میں اس کتاب ہدایت سے ہمیں رہنمائی حاصل کرنا ہوگی۔ یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ جب ہم ان مسائل کے بارے میں رہنمائی حاصل کرنے کے لیے اسلام کے چشمہ صافی (قرآن کریم) کی طرف رجوع کریں تو "علم برائے عمل" کے احساس و جذبہ کے ساتھ اُسے پڑھیں نہ کہ لُطف اندوزی، تسکین ذوق اور بحث و تحقیق کے شوق کی بنا پر۔ ہم یہ معلوم کرنے کے لیے اُس کی طرف رجوع کریں کہ وہ ہم سے کیسا انسان بننے کا مطالبہ کرتا ہے تاکہ ویسا انسان ہم بن کر دکھائیں ۔۔۔۔۔۔۔ یہ الگ بات ہے کہ مقصدِ حقیقی کے حصول کے دوران ہم پر قرآن کا فنی کمال اور ادبی حُسن بھی آشکار ہو جائے گا، اس کے حیرت انگیز قصے ہمارا دامنِ دل پکڑیں گے ، مناظر قیامت بھی آنکھوں کے سامنے جھلکیں گے اور اُس کی وجدانی منطق کی بھی ہم گلگشت کریں گے ۔ الغرض وہ سب لذتیں ضمناً ہمیں حاصل ہوگی جن کی تلاش جویانِ علم کو ہوتی ہے اور جن کی طلب میں اربابِ ذوق سرگرداں رہتے ہیں۔ بے شک ان سب فوائد و لذائذ سے ہم ہمکنار ہوں گے لیکن یہ چیزیں ہمارے مطالعہ کا اصل مقصد نہ ہو گی۔ ہمارا اصل مقصد صرف یہ معلوم کرنا ہوگا کہ قرآن ہم سے کس طرح کی عملی زندگی کا مطالبہ کرتا ہے ؟ زندگی اور کائنات کے بارے میں وہ اجمالی تصور کیا ہے جس پر ہمیں قرآن قائم کرنا چاہتا ہے ؟ وہ ہمیں اللہ تعالٰی کے بارے میں کس نوعیت کا شعور اور احساس رکھنے کی تلقین کرتا ہے ؟ اُسے کس قِسم کے اخلاق پسند ہیں؟ اور وہ زندگی میں کس ڈھنگ کا قانونی اور دستوری نظام نافذ کرنے کا خواہاں ہے ؟
جاہلیت سے مکمل مقاطعہ
ہمارا یہ بھی فرض ہوگا کہ ہم اپنی ذاتی زندگیوں میں جاہلی معاشرے کے شکنجے سے ، جاہلی تصورات کی گرفت سے ، جاہلی روایات کے دباؤ اور جاہلی لیڈر شپ کے تسلط سے آزادی حاصل کریں۔ ہمارا مشن جاہلی معاشرے کے عملی نظام کے ساتھ مصالحت (Compromise) کرنا نہیں ہے ، اور نہ ہم اس کے وفادار بن کر رہ سکتے ہیں۔ جاہلی معاشرہ ۔۔۔۔۔۔ اپنے جاہلی اوصاف و خصائص کی وجہ سے ۔۔۔۔۔۔ اس قابل نہیں ہے کہ ہمارے اور اُس کے درمیان مصالحت کا رویہ قائم ہو سکے ۔ لہذا ہمارا کام یہ ہونا چاہیے کہ ہم پہلے اپنے آپ کو بدلیں تاکہ بالآخر معاشرے کو تبدیل کر سکیں۔ ہمارا اولین مقصد معاشرے کے عملی نظام میں انقلاب ہے ۔ جاہلی نظام کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنا ہے جو اسلامی نظامِ زندگی کے ساتھ بنیادی طور پر متصادم ہے ، اسلامی تصورات کی ضد ہے ، اور جو ہمیں جبر و تشدد کے وسائل کا سہارا لے کر اُس نظامِ زندگی کے زیر سایہ زندگی بسر کرنے سے محروم کر رہا ہے جس کا مطالبہ ہم سے اللہ تعالٰی کرتا ہے ۔
زندگی کے اس نئے سفر میں ہمارا سب سے پہلا قدم یہ ہوگا کہ ہم جاہلی معاشرے اور اس کی تمام اقدار و نظریات پر غلبہ پانے کی کوشش کریں۔ اور جاہلی معاشرے کے ساتھ سودا بازی کرنے کے لیے ہم اپنی اقدار حیات اور اپنے نظریات میں سرمو تبدیلی گوارا نہ کریں۔ ایسی باتیں ہمارے حاشۂ خیال میں بھی نہ آنی چاہئیں۔ ہمارا راستہ الگ ہے اور جاہلیت کا راستہ الگ! اگر ہم ایک قدم بھی جاہلیت کے ساتھ چلے تو نہ صرف اپنے نظامِ حیات کا سر رشتہ ہاتھ سے چھوڑ بیٹھیں گے بلکہ راہِ حق کو بھی گم کر بیٹھیں گے ۔ بے شک اس کٹھن اور دشوار گزار راستے میں ہمیں جبر و تشدد کا اور تکالیف و مصائب کا سامنا کرنا ہوگا اور ہمیں بڑی بڑی قربانیاں بھی دینا ہوں گی۔ لیکن اگر ہم اُس راہ کے مسافر ہیں جس پر پہلی بے مثال و منفرد جمعیت چل چکی ہے ، اگر ہم اُن نفوس قدسیہ کے نقشِ پا پر چلنا چاہتے ہیں جن کے ذریعے اللہ تعالٰے نے اپنے پاکیزہ و برتر نظام کو دنیا کے اندر جاری فرمایا اور اُسے جاہلیت پر نُصرت و غلبہ بخشا تو پھر ہمیں یہ سب کچھ سہنا ہوگا، اور ہم اپنی مرضی کے مالک نہیں ہوں گے ۔ لہذا بہتری یہی ہے کہ ہم ہر وقت اس امر سے با خبر رہیں کہ ہمارے طریقِ کار کی فطرت و مزاج کیا ہے ، ہمارے مؤقف اور مسلک کی روح کیا ہے اور اُس راستے کے نشیب و فراز کیا ہیں جس پر چل کر ہم جاہلیت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے اُسی کامیابی کے ساتھ نکل جائیں جس کامیابی کے ساتھ صحابۂ کرام کی ممتاز و لاثانی جماعت نکلی تھی۔
 

ابوشامل

محفلین
باب دوم
قرآن کا طریق انقلاب​
مکی دور کا بنیادی مسئلہ
قرآن کریم کا وہ حصہ جو مکی سورتوں پر مشتمل ہے ، پورے 13 سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتا رہا۔ اس پوری مدت میں قرآن کا مدارِ بحث صرف ایک مسئلہ رہا۔ اس کی نوعیت میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی، مگر اُسے پیش کرنے کا انداز برابر بدلتا رہا۔ قرآن نے اسے پیش کرنے میں ہر مرتبہ نیا اسلوب اور نیا پیرایہ اختیار کیا، اور ہر مرتبہ یوں محسوس ہوا کہ گویا اسے پہلی بار ہی چھیڑا گیا ہے ۔
قرآن کریم پورے مکی دور میں اسی مسئلے کے حل میں لگا رہا۔ اس کی نگاہ میں یہ مسئلہ اس نئے دین کے تمام مسائل میں اولین اہمیت کا حامل تھا، عظیم تر مسئلہ تھا، اساسی اور اصولی مسئلہ تھا، عقیدہ کا مسئلہ تھا۔ یہ مسئلہ دو عظیم نظریوں پر مشتمل تھا۔ ایک اللہ تعالٰی کی الوہیت اور انسان کی عبودیت اور دوسرے ان کے باہمی تعلق کی نوعیت۔ قرآن کریم اِسی بنیادی مسئلہ کو لے کر انسان سے بحیثیت "انسان" خطاب کرتا رہا۔ کیونکہ یہ مسئلہ ایسا تھا کہ اس سے تمام انسانوں کا یکساں تعلق ہے ۔ وہ چاہے عرب کے رہنے والے انسان ہوں، یا غیر عرب، نزولِ قرآن کے زمانہ کے لوگ ہوں یا کسی بعد کے زمانے کے ۔ یہ وہ انسانی مسئلہ ہے جس میں کسی ترمیم و تغیر کا سوال نہیں پیدا ہوتا۔ یہ اس کائنات میں انسان کے وجود و بقا کا مسئلہ ہے ۔ انسان کی عاقبت کا مسئلہ ہے ۔ اسی مسئلے کی بنیاد پر یہ طے ہوگا کہ انسان کا اِس کائنات کے اندر کیا مقام ہے ؟ اور اس کائنات میں بسنے والی دوسری مخلوقات کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے ؟ اور خود کائنات اور موجودات کے خالق کے ساتھ اس کا کیا رشتہ ہے ؟ یہ وہ پہلو ہے جس کی وجہ سے اِس مسئلے میں کبھی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ اِس لیے کہ یہ اس کائنات کے ایک حقیر جز انسان کے ساتھ براہ راست تعلق رکھتا ہے ۔
مکی زندگی میں قرآن انسان کو یہ بتاتا رہا کہ اس کے اپنے وجود اور اس کے ارد گرد پھیلی ہوئی کائنات کی اصل حقیقت کیا ہے ؟ وہ انسان کو یہ بتاتا ہے کہ وہ کون ہے ؟ کہاں سے آیا ہے ؟ اور کس غرض کے لیے آیا ہے ؟ اور آخر کار وہ کہاں جائے گا؟ وہ معدوم تھا اُسے کس نے خلعتِ وجود بخشا؟ کون سی ہستی اُس کا خاتمہ کرے گی؟ اور خاتمہ کے بعد اُسے کس انجام سے دوچار ہونا ہوگا؟ ۔۔۔۔۔۔۔ وہ انسان کو یہ بھی بتاتا ہے کہ اس وجود کی حقیقت کیا ہے جسے وہ دیکھتا اور محسوس کرتا ہے ؟ اور وہ کون ہستی ہے جسے وہ پردۂ غیب میں کار فرما محسوس کرتا لیکن دیکھ نہیں پاتا؟ اس طلسماتی کائنات کو کس نے وجود بخشا، اور کون اس کا منتظم و مدبر ہے ؟ کون اسے گردش دے رہا ہے ؟ کون اسے بار بار نیا پیراہن بخشتا ہے ؟ کس کے ہاتھ میں ان تغیرات کا سرشتہ ہے جن کا ہر چشمِ بینا مشاہدہ کر رہی ہے ؟ وہ اسے یہ بھی سکھاتا ہے کہ خالقِ کائنات کے ساتھ اُس کا رویہ کیسا ہونا چاہیے ؟ اور خود کائنات کے بارے میں اُسے کیا روش اختیار کرنی چاہیے ؟ اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ انسانوں کے باہمی تعلقات کیسے ہونے چاہئیں۔
یہ ہے وہ اصل اور بنیادی مسئلہ جس پر انسان کی بقا اور وجود کا دارومدار ہے ۔ اور رہتی دنیا تک اسی عظیم مسئلہ پر انسان کی بقا اور وجود کا انحصار رہے گا۔ اس اہم مسئلے کی تحقیق و توضیح میں مکی زندگی کا پُورا تیرہ سالہ دور صَرف ہوا۔ اِس لیے کہ انسانی زندگی کا بنیادی مسئلہ یہی ہے ، اور اس کے بعد جتنے مسائل ہیں وہ اِسی کے تقاضے پیدا ہوتے ہیں اور ان کی حیثیت اس کی تفصیلات اور جزئیات سے زیادہ کچھ نہيں۔ قرآن نے مکی دور میں اسی بنیادی مسئلے کو اپنی دعوت کا مدار بنائے رکھا، اور اِس سے صَرف نظر کر کے نظامِ حیات سے متعلق فروعی اور ضمنی بحثوں سے تعرض نہیں کیا۔ اور اُس وقت تک انہيں نہیں چھیڑا جب تک علم الٰہی نے یہ فیصلہ نہیں فرما دیا کہ اب اِس مسئلہ کی توضیح و تشریح کا حق ادا ہو چکا ہے ، اور یہ اُس انتخابِ روزگار جماعت کے دلوں میں پوری طرح جاگزیں ہو چکا ہے جسے قدرت الٰہی اقامتِ دین کا ذریعہ بنا کر اس کے ہاتھوں اس دین کو عملی شکل میں برپا کرنے کا فیصلہ کر چکی تھی۔
جو لوگ دینِ حق کی دعوت لے کر اُٹھے ہیں، اور وہ دنیا کے اندر ایک ایسا نظام برپا کرنا چاہتے ہیں جو بالفعل اِس دین کی نمائندگی کرے انہیں اس عظیم حقیقت پر پہروں غور کرنا چاہیے ۔ یہی وہ حقیقت ہے جسے راسخ کرنے کے لیے قرآن کریم نے مکی زندگی کے پورے 13 سال صرف کیے ، اور اس دوران میں کبھی اس سے توجہ ہٹا کر نظامِ زندگی کی دوسری تفصیلات کو نہیں چھیڑا، نہ ان قوانین و احکام بیان کرنے کی حاجت محسوس کی جو آگے چل کر مسلم معاشرے میں نافذ ہونے والے تھے ۔
کارِ رسالت کا آغاز اِسی مسئلہ سے ہوا
یہ عین حکمتِ خداوندی تھی کہ آغاز رسالت ہی میں اس اہم مسئلہ کو جو عقیدہ و ایمان کا مسئلہ ہے دعوت کا محور و مرکز بنایا جائے ۔ یعنی اللہ کے رسول ۔۔۔۔۔۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔۔ راہِ حق میں پہلا قدم ہی اِس دعوت سے اٹھائیں کہ "لوگو! گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے "، اور پھر اسی دعوت پر اپنا تمام وقت صرف کر دیں۔ انسانوں کو ان کے حقیقی پروردگار سے آگاہ کریں، اور انہیں صرف اُسی کی بندگی کی راہ پر لگائیں۔
اگر ظاہر بین نگاہ، اور محدود انسانی عقل کی روشنی میں دیکھا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ عرب اس طریقِ دعوت سے بآسانی رام ہونے والے نہیں تھے ۔ عرب اپنی زبان دانی کی بدولت "الٰہ" کا مفہوم اور "لا الٰہ الا اللہ" کا مدعا خوب سمجھتے تھے ۔ انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ الوہیت سے مراد حاکمیتِ اعلٰی ہے ۔ وہ اس امر سے بھی کماحقہ آگاہ تھے کہ الوہیت کو صرف اللہ تعالٰی کے لیے مخصوص گرداننے کے صاف معنی یہ ہیں کہ اقتدار پورے کا پورا کاہنوں، پروہتوں، قبائل کے سرداروں اور امراء و حُکّام کے ہاتھ سے چھین کر اللہ کی طرف لوٹا دیا جائے ۔ ضمیر و قلب پر، مذہبی شعائر و مناسک پر، معاملاتِ زندگی پر، مال و دولت اور عدل و قضاء پر، الغرض ارواح و اجسام پر بہمہ وجوہ اللہ اور صرف اللہ کا اقتدار ہو۔ وہ خوب جانتے تھے کہ "لا الٰہ الا اللہ" کا اعلان در حقیقت اس دنیاوی اقتدار کے خلاف ایک چیلنج ہے جس نے الوہیت کی سب سے بڑی خصوصیت (حاکمیت) کو غصب کر رکھا ہے ، یہ ان تمام قوانین اور نظاموں کے خلاف اعلانِ بغاوت ہے جو اس قبضۂ غاصبانہ کی بنیاد پر وضع کیے جاتے ہیں، اور اُن تمام قوتوں کے خلاف اعلانِ جنگ ہے جو خانہ ساز شریعتوں کی بدولت دنیا میں کوس لمن الملک بجاتی ہیں۔ عرب اپنی زبان کے نشیب و فراز سے بخوبی آگاہ تھے اور وہ "لا الٰہ الا اللہ" کے حقیقی مفہوم کو پوری طرح سمجھ رہے تھے اُن سے یہ امر بھی پوشیدہ نہ تھا کہ ان کے خود ساختہ نظاموں اور ان کی پیشوائی اور قیادت کے ساتھ یہ دعوت کیا سلوک کرنا چاہتی ہے ۔ اسی وجہ سے انہوں نے اِس دعوت کا ۔۔۔۔۔ یا بالفاظ دیگر اس پیامِ انقلاب کا ۔۔۔۔ اُس تشدد اور غیظ و غضب کے ساتھ استقبال کیا، اور اس کے خلاف وہ معرکہ آرائی کی جس سے ہر خاص و عام واقف ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس دعوت کا آغاز اِس انداز سے کیوں ہوا؟ اور حکمتِ الٰہی نے کس بنا پر یہ فیصلہ کیا کہ اِس دعوت کا افتتاح ہی مصیبتوں اور آزمائشوں سے ہو؟
رسول اللہ صلعم نے قومیت کے نعرہ سے کیوں نہ کام کا آغاز کیا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اللہ تعالی کی طرف سے دین حق کو لے کر مبعوث ہوئے تو اس وقت حالت یہ تھی کہ عربوں کے سب سے زیادہ شاداب و زرخیز اور مال دار علاقے عربوں کے ہاتھوں میں نہیں تھے بلکہ دوسری اقوام ان پر قابض تھے ۔ شمال میں شام کے علاقے رومیوں کے زیر نگیں تھے ، جن پر عرب حکام رومیوں کے زیر سایہ حکومت چلا رہے تھے ۔ جنوب میں یمن کا پورا علاقہ اہل فارس کے قبضہ میں تھا، جنہوں نے اپنے ماتحت عرب شیوخ کو فرائض حکمرانی سونپ رکھے تھے ۔ عربوں کے پاس صرف حجاز اور تہامہ اور نجد کے علاقے تھے ۔ یا وہ بے آب و گیاہ صحرا تھے جن میں اکا دکا نخلستان پائے جاتے تھے ۔ یہ بات بھی محتاج دلیل نہیں ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم میں صادق اور امین کی حیثیت سے معروف تھے
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top