ابوشامل
محفلین
مصنف اور تصنیف
بقلم: خلیل احمد حامدی
سید قطب شہید اور ان کے دوسرے ساتھیوں پر جب قاہرہ کی فوجی عدالت میں مقدمہ چل رہا تھا تو دوران مقدمہ سرکاری وکیل کی طرف سے ہر ملزم سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا اس نے "معالم فی الطریق" کا مطالعہ کیا ہے ۔ اس مقدمے کی فرد قرارداد جرم اسی کتاب کے مضامین پر مشتمل تھی۔ چنانچہ یہی کتاب سید قطب اور ان کے ساتھیوں کو تختۂ دار پر لے جانے کا موجب ہوئی ۔ لیکن یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے ۔ تاریخ میں متعدد ایسی کتابیں ملتی ہیں جو اپنے مصنفین کے لیے پیغام اجل لے کر آئیں۔ خود پاکستان کی تاریخ میں بھی اس سے ملتا جلتا ایک واقعہ پیش آ چکا ہے ۔
مصر کا ایک دور وہ تھا جب وہاں بادشاہت کا سکہ رواں تھا اور جسے اب تاریخ مصر کے سیاہ باب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اس سیاہ دور کا واقعہ ہے کہ مصر کے نامور مصنف عباس محمود العقاد نے 1931ء میں پارلیمنٹ میں شاہ مصر احمد فواد الاول پر شدید تنقید کی، چنانچہ انہیں جیل بھیج دیا گیا۔ مگر زیادہ دن نہ گزرنے پائے کہ انہیں رہا کر دیا گیا۔ رہائی کے بعد عقاد کے ایک دوست نے ان سے یہ دریافت کیا کہ "کیا یہ خبر صحیح ہے کہ احمد فواد نے وزیر اسمٰعیل صدقی کو یہ ہدایت کی ہے کہ وہ آپ کو یہ مشورہ دے کہ آپ کچھ نہ کچھ معذرت پیش کر دیں تاکہ اسی کی بنا پر آپ کو رہا کر دیا جائے ؟" عقاد نے اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا: "دراصل احمد فواد اس بات سے ڈر گیا تھا کہ تاریخ کے صفحات پر یہ ثبت ہو جائے گا کہ اس کے عہد میں ایک اہل قلم کو آزادی فکر کی پاداش میں نذر زنداں کر دیا گیا ۔ اس سیاہ دور کے بعد مصر میں 26 جولائی 1952ء کی صبح ایک نئے دور کا آغاز کرتی ہے جسے "اجتماعی مساوات" کے عہد سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اسی "عہد زریں" کا یہ واقعہ ہے کہ ایک ایسی کتاب کی تصنیف پر، جس میں نہایت جچے تلے انداز میں اصولی بحثیں کی گئی ہیں اور کسی شخصیت کو زیر بحث نہیں لایا گیا، مصنف کو پھانسی دے دی جاتی ہے ۔ ہم اسی جاوداں کتاب کا اردو ترجمہ اپنے ملک کے اہل علم کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ اور چاہتے ہیں کہ قارئین تصنیف سے پہلے خود مصنف سے تعارف حاصل کر لیں۔
مصنف کے حالات زندگی اردو میں کسی نہ کسی حد تک منتقل ہو چکے ہیں۔ لیکن مصنف کی عبقری شخصیت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے حالات کو زیادہ تفصیل اور جامعیت کے ساتھ ہند و پاک کے اہل علم و دعوت کے سامنے لایا جائے ۔
خاندان قطب
مصنف کا اصل نام سید ہے ۔ قطب ان کا خاندانی نام ہے ۔ ان کے آباؤاجداد اصلاً جزیرۃ العرب کے رہنے والے تھے ۔ ان کے خاندان کے ایک بزرگ وہاں سے ہجرت کر کے بالائی مصر کے علاقے میں آ کر آباد ہو گئے ۔ انہی کی اولاد میں سے سید قطب کے والد بزرگوار حاجی ابراہیم قطب تھے ۔ حاجی ابراہیم کی پانچ اولادیں تھیں۔ دو لڑکے سید قطب اور محمد قطب، اور تین لڑکیاں حمیدہ قطصب اور امینہ قطب، تیسری لڑکی کا نام معلوم نہیں ہو سکا۔ ان پانچوں بہن بھائیوں میں سید سب سے بڑے ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی محمد قطب بھی بڑے صاحب علم و فضل ہیں۔ ان کے قلم سے اب تک 11 سے زائد ضخیم کتابیں مختلف اسلامی موضوعات پر نکل چکی ہیں اور علمی و تحریکی حلقوں سے غیرمعمولی داد ستائش حاصل کر چکی ہیں۔ امینہ قطب بھی بڑی پڑھی لکھی خاتون ہیں، اور دعوت و جہاد میں اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ سرگرم کار رہی ہیں۔ ان کے اصلاحی اور معاشرتی مضامین بھی مختلف جرائد میں چھپتے رہے ہیں۔ ان کے اصلاحی افسانوں کا ایک مجموعہ "فی تیار الحیاۃ" کے نام سے چھپ گیا ہے ۔ ان کی دوسری بہن حمیدہ قطب بھی میدانِ جہاد میں اپنے بہن بھائیوں سے پیچھے نہیں رہی ہیں۔ یوں خاندان قطب کا ہر فرد گوہر یک دانہ نظر آتا ہے ۔ اور اس مثل کا صحیح مصداق ہے کہ ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔ صبر و عزیمت اور آزمائش و ابتلاء میں بھی اس خاندان نے بیسویں صدی میں جس اعلٰی کردار کا نمونہ پیش کیا ہے اس نے آلِ یاسر کی مثال زندہ کر دی ہے ۔ سید قطب نے تختۂ دار کو چوم لیا۔ محمد قطب جیل میں ڈال دیے گئے اور تعذیب و تشدد کا نشانہ بنے ۔ حمیدہ قطب کو بھی سات سال قید بامشقت کی سزا ملی اور امینہ قطب بھی ایسے ہی انجام سے دوچار ہوئیں۔ تیسری بہن نے بھی جن کا نام صحیح معلوم نہیں ہو سکا سید رفعت نامی اپنا ایک لخت جگر راہ حق میں قربان کر دیا اور جلاد کے تازیانیوں نے اسے شہید راہ الفت کے خطاب سے نواز دیا۔
سید کے حالات زندگی
سید قطب 1906ء میں مصر کے ضلع اسیوط کے موشا نامی گاؤں میں پیدا ہوئے ۔ سید قطب کی والدہ کا اسم گرامی فاطمہ حسین عثمان تھا۔ موصوفہ بڑی دیندار اور خدا پرست خاتون تھیں۔ انہیں قرآن مجید سے بڑا شغف تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کے بچے قرآن کے حافظ ہوں۔ سید قطب اپنی کتاب "التصویر الفنی فی القرآن" کا انتساب اپنی والدہ محترمہ کی طرف کرتے ہوئے موصوفہ کی قرآن سے محبت و شیفتگی کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں:
"اے میری ماں! گاؤں میں رمضان کا پورا مہینہ جب ہمارے گھر پر قاری حضرات قرآن کی دل نشین انداز میں تلاوت کیا کرتے تھے تو تُو گھنٹوں کان لگا کر، پوری محویت کے ساتھ پردے کے پیچھے سے سنا کرتی تھی۔ میں تیرے پاس بیٹھا جب شور کرتا تھا جیسا کہ بچوں کی عادت ہوتی ہے تو مجھے اشاروں کنایوں سے باز رہنے کی تلقین کرتی تھی اور پھر میں بھی تیرے ساتھ کان لگا کر سننے لگ جاتا۔ میرا دل الفاظ کے ساحرانہ لحن سے محفوظ ہوتا اگرچہ میں اس وقت مفہوم سے ناواقف تھا۔"
"تیرے ہاتھوں میں جب پروان چڑھا تو تُونے مجھے بستی کے ابتدائی مدرسہ میں بھیج دیا۔ تیری سب سے بڑی آرزو یہ تھی کہ اللہ میرے سینے کو کھول دے اور میں قرآن حفظ کرلوں اور اللہ مجھے خوش الحانی سے نوازے اور میں تیرے سامنے بیٹھا ہر لمحہ تلاوت کیا کروں۔ چنانچہ میں نے قرآن حفظ کر لیا اور یوں تیری آرزو کا ایک حصہ پورا ہو گیا۔"
"اے ماں! تیرا ننھا بچہ، تیرا جوان لختِ جگر آج تیری تعلیم و تربیت کی طویل محنت کا ثمرہ تیری خدمت میں پیش کر رہا ہے ۔ اگر حسنِ ترتیل کی اُس میں کمی ہے تو حُسنِ تاویل کی نعمت سے وہ ضرور بہرہ ور ہے ۔"
سید کے والد بھی بڑے باخدا اور درویش منش انسان تھے ۔ ان کا پیشہ زراعت تھا۔ سید نے اپنی کتاب "مشاھد القیامۃ فی القرآن" کا انتساب اپنے مرحوم والد کی طرف کیا ہے ۔ اس انتساب میں وہ اپنے والد کے تعلق باللہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"اے باپ! یہ کاوش تیری روح کی نذر کرتا ہوں۔ میں بچہ ہی تھا کہ تونے میرے احساس و وجدان پر یوم آخرت کا خوف نقش کر دیا۔ تونے مجھے کبھی نہیں جھڑکا تھا بلکہ تو میرے سامنے اس طرح زندگی بسر کر رہ تھا کہ قیامت کی باز پرس کا احساس تجھ پر طاری رہتا تھا۔ ہر وقت تیرے قلب و ضمیر میں اور تیری زبان پر اُس کا ذکر جاری رہتا تھا۔ تو دوسروں کا حق ادا کرتے وقت اپنی ذات کے ساتھ تشدد برتتا اور دوسروں سے اپنا حق وصول کرتے وقت تسامح سے کام لیتا تھا۔ اس کی وجہ تُو یہ بتایا کرتا تھا کہ اصل حساب روز قیامت کو ہوگا۔ تُو برائیوں سے درگزر کرتا تھا حالانکہ تجھ میں ان کا جواب دینے کی قدرت ہوتی تھی، بسا اوقات تو اپنی ضرورت کی اشیاء دوسروں کو پیش کر دیتا حالانکہ تو خود ان کا شدید حاجت مند ہوتا تھا، لیکن تُو کہا کرتا تھا کہ زاد آخرت جمع کر رہا ہوں۔ تیری صورت میرے تخیل پر مرقسم ہے ۔ عشاء کے کھانے کے بعد جب ہم فارغ ہو جایا کرتے تو تُو قرآن کی تلاوت کرنے لگ جاتا اور اپنے والدین کی روح کو ثواب پہنچاتا۔ ہم چھوٹے چھوٹے بچے تیرے ساتھ اِدھر اُدھر کی چند آیات گنگنانے لگتے جو ہمیں پوری طرح یاد نہ ہوتی تھیں۔"
سید کی تعلیمی زندگی
سید کی ابتدائی تعلیم گاؤں کے سادہ اور محدود ماحول میں ہوئی۔ انہوں نے اپنی والدہ محترمہ کی دلی آرزو کے مطابق بچپن میں قرآن حفظ کر لیا۔ اس زمانے میں مصر کے دیندار گھرانوں میں حفظ قرآن کا عام رواج تھا۔ اور خاص طور پر جو خاندان اپنے بچوں کو ازہر کی تعلیم دلانے کا شوق رکھتے تھے انہیں لازماً بچوں کو حفظ کرانا پڑتا تھا۔ سید کے والدین اپنے اس ہونہار اور اقبال مند بچے کی اعلٰی تعلیم کے لیے بڑے متفکر تھے ۔ چنانچہ قدرت کی طرف سے ایسا اتفاق ہوا کہ سید کے والدین گاؤں کو چھوڑ کر قاہرہ کی ایک نواحی بستی حلوان میں آ آباد ہوئے ۔ اور یوں سید کے لیے اللہ تعالٰی نے تعلیمی ترقی اور عروج کی راہ ہموار کر دی۔ سید قاہرہ کے ثانوی مدرسے "تجھیزیۃ دارالعلوم" میں داخل ہو گئے ۔ اس مدرسہ میں ان طلباء کو داخل کیا جاتا تھا جو یہاں سے فارغ ہو کر "دارالعلوم" (موجودہ قاہرہ یونیورسٹی) میں تکمیلِ علم کرنا چاہتے تھے ۔ اس دور میں جس طرح دینی و شرعی علوم کی اعلٰی تعلیم گاہ ازہر یونیورسٹی تھی۔ اسی طرح دارالعلوم جدید علوم و فنون کا اعلٰی تعلیمی ادارہ تھا۔ سید نے "تجہیزیہ دارالعلوم" سے فراغت حاصل کرتے ہی 1929ء میں دارالعلوم قاہرہ میں داخلہ لے لیا۔ اور 1933ء میں یہاں سے بی اے ایجوکیشن کی ڈگری حاصل کی اور اپنی خداداد ذہانت کی وجہ سے اسی کالج میں پروفیسر لگا دیے گئے ۔
بقلم: خلیل احمد حامدی
سید قطب شہید اور ان کے دوسرے ساتھیوں پر جب قاہرہ کی فوجی عدالت میں مقدمہ چل رہا تھا تو دوران مقدمہ سرکاری وکیل کی طرف سے ہر ملزم سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا اس نے "معالم فی الطریق" کا مطالعہ کیا ہے ۔ اس مقدمے کی فرد قرارداد جرم اسی کتاب کے مضامین پر مشتمل تھی۔ چنانچہ یہی کتاب سید قطب اور ان کے ساتھیوں کو تختۂ دار پر لے جانے کا موجب ہوئی ۔ لیکن یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے ۔ تاریخ میں متعدد ایسی کتابیں ملتی ہیں جو اپنے مصنفین کے لیے پیغام اجل لے کر آئیں۔ خود پاکستان کی تاریخ میں بھی اس سے ملتا جلتا ایک واقعہ پیش آ چکا ہے ۔
مصر کا ایک دور وہ تھا جب وہاں بادشاہت کا سکہ رواں تھا اور جسے اب تاریخ مصر کے سیاہ باب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اس سیاہ دور کا واقعہ ہے کہ مصر کے نامور مصنف عباس محمود العقاد نے 1931ء میں پارلیمنٹ میں شاہ مصر احمد فواد الاول پر شدید تنقید کی، چنانچہ انہیں جیل بھیج دیا گیا۔ مگر زیادہ دن نہ گزرنے پائے کہ انہیں رہا کر دیا گیا۔ رہائی کے بعد عقاد کے ایک دوست نے ان سے یہ دریافت کیا کہ "کیا یہ خبر صحیح ہے کہ احمد فواد نے وزیر اسمٰعیل صدقی کو یہ ہدایت کی ہے کہ وہ آپ کو یہ مشورہ دے کہ آپ کچھ نہ کچھ معذرت پیش کر دیں تاکہ اسی کی بنا پر آپ کو رہا کر دیا جائے ؟" عقاد نے اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا: "دراصل احمد فواد اس بات سے ڈر گیا تھا کہ تاریخ کے صفحات پر یہ ثبت ہو جائے گا کہ اس کے عہد میں ایک اہل قلم کو آزادی فکر کی پاداش میں نذر زنداں کر دیا گیا ۔ اس سیاہ دور کے بعد مصر میں 26 جولائی 1952ء کی صبح ایک نئے دور کا آغاز کرتی ہے جسے "اجتماعی مساوات" کے عہد سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اسی "عہد زریں" کا یہ واقعہ ہے کہ ایک ایسی کتاب کی تصنیف پر، جس میں نہایت جچے تلے انداز میں اصولی بحثیں کی گئی ہیں اور کسی شخصیت کو زیر بحث نہیں لایا گیا، مصنف کو پھانسی دے دی جاتی ہے ۔ ہم اسی جاوداں کتاب کا اردو ترجمہ اپنے ملک کے اہل علم کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ اور چاہتے ہیں کہ قارئین تصنیف سے پہلے خود مصنف سے تعارف حاصل کر لیں۔
مصنف کے حالات زندگی اردو میں کسی نہ کسی حد تک منتقل ہو چکے ہیں۔ لیکن مصنف کی عبقری شخصیت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے حالات کو زیادہ تفصیل اور جامعیت کے ساتھ ہند و پاک کے اہل علم و دعوت کے سامنے لایا جائے ۔
خاندان قطب
مصنف کا اصل نام سید ہے ۔ قطب ان کا خاندانی نام ہے ۔ ان کے آباؤاجداد اصلاً جزیرۃ العرب کے رہنے والے تھے ۔ ان کے خاندان کے ایک بزرگ وہاں سے ہجرت کر کے بالائی مصر کے علاقے میں آ کر آباد ہو گئے ۔ انہی کی اولاد میں سے سید قطب کے والد بزرگوار حاجی ابراہیم قطب تھے ۔ حاجی ابراہیم کی پانچ اولادیں تھیں۔ دو لڑکے سید قطب اور محمد قطب، اور تین لڑکیاں حمیدہ قطصب اور امینہ قطب، تیسری لڑکی کا نام معلوم نہیں ہو سکا۔ ان پانچوں بہن بھائیوں میں سید سب سے بڑے ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی محمد قطب بھی بڑے صاحب علم و فضل ہیں۔ ان کے قلم سے اب تک 11 سے زائد ضخیم کتابیں مختلف اسلامی موضوعات پر نکل چکی ہیں اور علمی و تحریکی حلقوں سے غیرمعمولی داد ستائش حاصل کر چکی ہیں۔ امینہ قطب بھی بڑی پڑھی لکھی خاتون ہیں، اور دعوت و جہاد میں اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ سرگرم کار رہی ہیں۔ ان کے اصلاحی اور معاشرتی مضامین بھی مختلف جرائد میں چھپتے رہے ہیں۔ ان کے اصلاحی افسانوں کا ایک مجموعہ "فی تیار الحیاۃ" کے نام سے چھپ گیا ہے ۔ ان کی دوسری بہن حمیدہ قطب بھی میدانِ جہاد میں اپنے بہن بھائیوں سے پیچھے نہیں رہی ہیں۔ یوں خاندان قطب کا ہر فرد گوہر یک دانہ نظر آتا ہے ۔ اور اس مثل کا صحیح مصداق ہے کہ ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔ صبر و عزیمت اور آزمائش و ابتلاء میں بھی اس خاندان نے بیسویں صدی میں جس اعلٰی کردار کا نمونہ پیش کیا ہے اس نے آلِ یاسر کی مثال زندہ کر دی ہے ۔ سید قطب نے تختۂ دار کو چوم لیا۔ محمد قطب جیل میں ڈال دیے گئے اور تعذیب و تشدد کا نشانہ بنے ۔ حمیدہ قطب کو بھی سات سال قید بامشقت کی سزا ملی اور امینہ قطب بھی ایسے ہی انجام سے دوچار ہوئیں۔ تیسری بہن نے بھی جن کا نام صحیح معلوم نہیں ہو سکا سید رفعت نامی اپنا ایک لخت جگر راہ حق میں قربان کر دیا اور جلاد کے تازیانیوں نے اسے شہید راہ الفت کے خطاب سے نواز دیا۔
سید کے حالات زندگی
سید قطب 1906ء میں مصر کے ضلع اسیوط کے موشا نامی گاؤں میں پیدا ہوئے ۔ سید قطب کی والدہ کا اسم گرامی فاطمہ حسین عثمان تھا۔ موصوفہ بڑی دیندار اور خدا پرست خاتون تھیں۔ انہیں قرآن مجید سے بڑا شغف تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کے بچے قرآن کے حافظ ہوں۔ سید قطب اپنی کتاب "التصویر الفنی فی القرآن" کا انتساب اپنی والدہ محترمہ کی طرف کرتے ہوئے موصوفہ کی قرآن سے محبت و شیفتگی کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں:
"اے میری ماں! گاؤں میں رمضان کا پورا مہینہ جب ہمارے گھر پر قاری حضرات قرآن کی دل نشین انداز میں تلاوت کیا کرتے تھے تو تُو گھنٹوں کان لگا کر، پوری محویت کے ساتھ پردے کے پیچھے سے سنا کرتی تھی۔ میں تیرے پاس بیٹھا جب شور کرتا تھا جیسا کہ بچوں کی عادت ہوتی ہے تو مجھے اشاروں کنایوں سے باز رہنے کی تلقین کرتی تھی اور پھر میں بھی تیرے ساتھ کان لگا کر سننے لگ جاتا۔ میرا دل الفاظ کے ساحرانہ لحن سے محفوظ ہوتا اگرچہ میں اس وقت مفہوم سے ناواقف تھا۔"
"تیرے ہاتھوں میں جب پروان چڑھا تو تُونے مجھے بستی کے ابتدائی مدرسہ میں بھیج دیا۔ تیری سب سے بڑی آرزو یہ تھی کہ اللہ میرے سینے کو کھول دے اور میں قرآن حفظ کرلوں اور اللہ مجھے خوش الحانی سے نوازے اور میں تیرے سامنے بیٹھا ہر لمحہ تلاوت کیا کروں۔ چنانچہ میں نے قرآن حفظ کر لیا اور یوں تیری آرزو کا ایک حصہ پورا ہو گیا۔"
"اے ماں! تیرا ننھا بچہ، تیرا جوان لختِ جگر آج تیری تعلیم و تربیت کی طویل محنت کا ثمرہ تیری خدمت میں پیش کر رہا ہے ۔ اگر حسنِ ترتیل کی اُس میں کمی ہے تو حُسنِ تاویل کی نعمت سے وہ ضرور بہرہ ور ہے ۔"
سید کے والد بھی بڑے باخدا اور درویش منش انسان تھے ۔ ان کا پیشہ زراعت تھا۔ سید نے اپنی کتاب "مشاھد القیامۃ فی القرآن" کا انتساب اپنے مرحوم والد کی طرف کیا ہے ۔ اس انتساب میں وہ اپنے والد کے تعلق باللہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"اے باپ! یہ کاوش تیری روح کی نذر کرتا ہوں۔ میں بچہ ہی تھا کہ تونے میرے احساس و وجدان پر یوم آخرت کا خوف نقش کر دیا۔ تونے مجھے کبھی نہیں جھڑکا تھا بلکہ تو میرے سامنے اس طرح زندگی بسر کر رہ تھا کہ قیامت کی باز پرس کا احساس تجھ پر طاری رہتا تھا۔ ہر وقت تیرے قلب و ضمیر میں اور تیری زبان پر اُس کا ذکر جاری رہتا تھا۔ تو دوسروں کا حق ادا کرتے وقت اپنی ذات کے ساتھ تشدد برتتا اور دوسروں سے اپنا حق وصول کرتے وقت تسامح سے کام لیتا تھا۔ اس کی وجہ تُو یہ بتایا کرتا تھا کہ اصل حساب روز قیامت کو ہوگا۔ تُو برائیوں سے درگزر کرتا تھا حالانکہ تجھ میں ان کا جواب دینے کی قدرت ہوتی تھی، بسا اوقات تو اپنی ضرورت کی اشیاء دوسروں کو پیش کر دیتا حالانکہ تو خود ان کا شدید حاجت مند ہوتا تھا، لیکن تُو کہا کرتا تھا کہ زاد آخرت جمع کر رہا ہوں۔ تیری صورت میرے تخیل پر مرقسم ہے ۔ عشاء کے کھانے کے بعد جب ہم فارغ ہو جایا کرتے تو تُو قرآن کی تلاوت کرنے لگ جاتا اور اپنے والدین کی روح کو ثواب پہنچاتا۔ ہم چھوٹے چھوٹے بچے تیرے ساتھ اِدھر اُدھر کی چند آیات گنگنانے لگتے جو ہمیں پوری طرح یاد نہ ہوتی تھیں۔"
سید کی تعلیمی زندگی
سید کی ابتدائی تعلیم گاؤں کے سادہ اور محدود ماحول میں ہوئی۔ انہوں نے اپنی والدہ محترمہ کی دلی آرزو کے مطابق بچپن میں قرآن حفظ کر لیا۔ اس زمانے میں مصر کے دیندار گھرانوں میں حفظ قرآن کا عام رواج تھا۔ اور خاص طور پر جو خاندان اپنے بچوں کو ازہر کی تعلیم دلانے کا شوق رکھتے تھے انہیں لازماً بچوں کو حفظ کرانا پڑتا تھا۔ سید کے والدین اپنے اس ہونہار اور اقبال مند بچے کی اعلٰی تعلیم کے لیے بڑے متفکر تھے ۔ چنانچہ قدرت کی طرف سے ایسا اتفاق ہوا کہ سید کے والدین گاؤں کو چھوڑ کر قاہرہ کی ایک نواحی بستی حلوان میں آ آباد ہوئے ۔ اور یوں سید کے لیے اللہ تعالٰی نے تعلیمی ترقی اور عروج کی راہ ہموار کر دی۔ سید قاہرہ کے ثانوی مدرسے "تجھیزیۃ دارالعلوم" میں داخل ہو گئے ۔ اس مدرسہ میں ان طلباء کو داخل کیا جاتا تھا جو یہاں سے فارغ ہو کر "دارالعلوم" (موجودہ قاہرہ یونیورسٹی) میں تکمیلِ علم کرنا چاہتے تھے ۔ اس دور میں جس طرح دینی و شرعی علوم کی اعلٰی تعلیم گاہ ازہر یونیورسٹی تھی۔ اسی طرح دارالعلوم جدید علوم و فنون کا اعلٰی تعلیمی ادارہ تھا۔ سید نے "تجہیزیہ دارالعلوم" سے فراغت حاصل کرتے ہی 1929ء میں دارالعلوم قاہرہ میں داخلہ لے لیا۔ اور 1933ء میں یہاں سے بی اے ایجوکیشن کی ڈگری حاصل کی اور اپنی خداداد ذہانت کی وجہ سے اسی کالج میں پروفیسر لگا دیے گئے ۔