کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ابوشامل

محفلین
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيہِ قُلْ قِتَالٌ فِيہِ كَبِيرٌ وَصَدٌّ عَن سَبِيلِ اللّہِ وَكُفْرٌ بِہِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَھْلِہِ مِنْہُ أَكْبَرُ عِندَ اللّہِ وَالْفِتْنَۃُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ (بقرہ: 217)
لوگ پوچھتے ہیں کہ ماہ حرام میں لڑنا کیسا ہے ؟ کہو، اس میں لڑنا بہت برا ہے ، مگر راہِ خدا سے لوگوں کو روکنا اور اللہ سے کفر کرنا اور مسجدِ حرام کا راستہ خدا پرستوں پر بند کرنا اور حرم کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک اِس سے زیادہ برا ہے اور فتنہ خونریزی سے شدید تر ہے ۔
پھر ہجرت کے دوسرے سال کے اندر ہی ماہ رمضان المبارک میں غزوۂ بدر کبریٰ پیش آیا۔ سورۂ انفال میں اس جنگ پر تبصرہ کیا گیا ہے ۔
اسلامی تحریک کا یہ موقف اگر حالات کے اس پس منظر میں رکھ کر دیکھا جائے تو یہ کہنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ اسلامی تحریک کا بنیادی منصوبہ دراصل رائج الوقت مفہوم کے مطابق اپنی "مدافعت" کے سوا کچھ نہ تھا۔ یعنی وہی تاویل جو حالاتِ حاضرہ کی "سرخ آنکھوں" کا یارانہ رکھنے والے حضرات، اور مستشرقین کی عیارانہ تنقیدوں سے بوکھلا اُٹھنے ولے مفکرین کی طرف سے پیش کی جا رہی ہے ۔ درحقیقت جو لوگ غلبۂ اسلام کی بے نظیر تحریک کو خالص مدافعانہ اسباب کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور پھر اس کا ثبوت فراہم کرنے کے لیے اِدھر اُدھر ہاتھ پاؤں مارتے ہیں، یہ "اربابِ تحقیق" مستشرقین کی اُس جارحانہ تحریک سے مات کھاچکے ہیں جس نے اسلام پر ایسے وقت میں تابڑ توڑ حملے شروع کر رکھے ہیں جب نہ مسلمانوں کی شان و شوکت باقی رہی ہے ، اور نہ اسلام کیساتھ ان کی وابستگی قابلِ رشک ہے ۔ البتہ ایک گروہ قلیل بہ توفیق ایزدی ایسے ہتھکنڈوں سے ضرور محفوظ ہے ، اور وہی لوگ اس بات پر بھی ڈٹے ہوئے ہیں کہ اسلام کا یہ ابدی پیغام کہ روئے زمین پر بسنے والے تمام انسان اقتدار الٰہی کے سوا ہر قسم کے اقتدار و استبداد سے نجات پائیں اور دین سراسر اللہ کے لیے ہو، غالب و برتر کر کے رہیں گے ۔ مگر اس گروہ قلیل کے ماسوا باقی تمام مفکرین کا یہ حال ہے کہ وہ اس تلاش میں رہتے ہیں کہ انہیں اسلامی جہاد کے لیے اخلاقی وجوہ مل جائيں جن سے وہ معترضین کو مطمئن کر سکیں۔ مگر خاک بر سرِ آنہا، اسلامی فتوحات کے لیے قرآن نے جو وجوہ جواز پیش کر دیے ہیں ان سے زائد کسی اور اخلاقی سند کی ضرورت باقی نہیں ہے ۔ قرآن کہتا ہے :
فَلْيُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللّہِ الَّذِينَ يَشْرُونَ الْحَيَاۃَ الدُّنْيَا بِالآخِرَۃِ وَمَن يُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللّہِ فَيُقْتَلْ أَو يَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِيہِ أَجْرًا عَظِيمًا • وَمَا لَكُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّہِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْہ ھَ۔ذِہِ الْقَرْيَۃِ الظَّالِمِ أَھْلُہَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا • الَّذِينَ آمَنُواْ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّہِ وَالَّذِينَ كَفَرُواْ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُواْ أَوْلِيَاء الشَّيْطَانِ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا (النساء: 74 تا 76)
اللہ کی راہ میں لڑنا چاہیے ان لوگوں جو آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی کو فروخت کر دیں، پھر جو اللہ کی راہ میں لڑے گا اور مارا جائے گا یا غالب رہے گا اُسے ضرور ہم اجرِ عظیم عطا کریں گے ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پا کر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کر دے ۔جن لوگوں نے ایمان کا راستہ اختیار کر لیا ہے ، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور جنہوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا ہے وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں، پس شیطان کے ساتھیوں سے لڑو اور یقین جانو کہ شیطان کی چالیں حقیقت میں نہایت کمزور ہیں۔
قُل لِلَّذِينَ كَفَرُواْ إِن يَنتَہُواْ يُغَفَرْ لَہُم مَّا قَدْ سَلَفَ وَإِنْ يَعُودُواْ فَقَدْ مَضَتْ سُنَّۃُ الأَوَّلِينِ • وَقَاتِلُوھُمْ حَتَّی لاَ تَكُونَ فِتْنَۃٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّہُ لِلّہ فَإِنِ انتَہَوْاْ فَإِنَّ اللّہَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ • وَإِن تَوَلَّوْاْ فَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ مَوْلاَكُمْ نِعْمَ الْمَوْلَي وَنِعْمَ النَّصِيرُ (الانفال 38 تا 40)
اے نبی، ان کافروں سے کہو کہ اگر اب بھی باز آ جائیں تو جو کچھ پہلے ہو چکا ہے اس سے درگزر کر لیا جائے گا، لیکن اگر یہ اسی پچھلی روش کا اعادہ کریں گے تو گزشتہ قوموں کے ساتھ جو کچھ ہو چکا ہے وہ سب کو معلوم ہے ۔ اے ایمان والو، اُن کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہو جائے ۔ پھر اگر وہ فتنہ سے رک جائيں تو ان کے اعمال کا دیکھنے والا اللہ ہے اور اگر وہ نہ مانیں تو جان رکھو کہ اللہ تمہارا سرپرست ہے اور وہ بہترین حامی و مددگار ہے ۔
قَاتِلُواْ الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِاللّہِ وَلاَ بِالْيَوْمِ الآخِرِ وَلاَ يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللّہُ وَرَسُولُہُ وَلاَ يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ حَتَّي يُعْطُواْ الْجِزْيَۃَ عَن يَدٍ وَھُمْ صَاغِرُونَ • وَقَالَتِ الْيَہُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللّہِ وَقَالَتْ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللّہِ ذَلِكَ قَوْلُھُم بِأَفْوَاھِھِمْ يُضَاھِؤُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن قَبْلُ قَاتَلَھُمُ اللّھُ أَنَّي يُؤْفَكُونَ • اتَّخَذُواْ أَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّہِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُواْ إِلاَّ لِيَعْبُدُواْ إِلَ۔ھًا وَاحِدًا لاَّ إِلَ۔ہَ إِلاَّ ھُوَ سُبْحَانَہُ عَمَّا يُشْرِكُونَ • يُرِيدُونَ أَن يُطْفِؤُواْ نُورَ اللّہِ بِأَفْوَاھِھِمْ وَيَأْبَي اللّہُ إِلاَّ أَن يُتِمَّ نُورَہُ وَلَوْ كَرِہَ الْكَافِرُونَ (التوبہ: 29 تا 32)
جنگ کرو اہلِ کتاب میں سے اُن لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان نہیں لاتے ، اور جو کچھ اللہ اور اُس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے ان سے لڑو یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں، یہودی کہتے ہیں عُزَیر اللہ کا بیٹا ہے اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے ۔ یہ بے حقیقت باتیں ہیں جو وہ اپنی زبانوں سے نکالتے ہیں ان لوگوں کی دیکھا دیکھی جو ان سے پہلے کفر میں مبتلا ہوئے تھے ۔ خدا کی مار ان پر یہ کہاں سے دھوکہ کھا رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اس طرح مسیح ابن مریم کو بھی۔ حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بُجھا دیں۔ مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر رہنے والا نہیں ہے خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔
جہاد کے جو وجوہ و محرکات ان آیات کے اندر بیان ہوئے ہیں وہ یہ ہیں: دنیا کے اندر اللہ تعالٰی کی الوہیت کا سکہ رواں کرنا، انسانی زندگی میں اللہ تعالٰی کے بھیجے ہوئے نظام حق کو قائم کرنا، تمام شیطانی قوتوں اور شیطانی نظامہائے حیات کا قلع قمع کرنا، انسان کی آقائی ختم کرنا جو انسانوں کو اپنی غلامی کی زنجیروں میں جکڑتی ہے حالانکہ انسان صرف خدا کے غلام ہیں اور سوائے اُس کے کسی غلام کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ انسانوں کو اپنے خود ساختہ اقتدار کا تابع بنائے اور ان پر اپنی اھواء و اغراض کی شریعت نافذ کرے ۔ یہی وجوہ و محرکات جہاد قائم کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ اس اصول کی بھی پابندی کی جانی چاہیے کہ "لا اکراہ فی الدین" (دین میں کوئی جبر نہیں ہے )۔ یعنی بندوں کے اقتدار اور الوہیت سے چھٹکارا پا جانے کے بعد اور اس اصول کی بالاتری کے بعد کہ اقتدار صرف اللہ کا ہوگا یا بالفاظ دیگر دین سراسر اللہ کے لیے ہوگا کسی فرد بشر کو عقیدۂ اسلام قبول کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جائے گا۔ جہاد کے ان وجوہ محرکات پر اگر آپ غور کریں گے تو ان کا حاصل یہ نکلے گا کہ اسلام جس غرض کے لیے جہاد کا علمبردار ہے وہ اس دنیا کے اندر انسان کی مکمل اور حقیقی آزادی ہے ۔ اور یہ آزادی تبھی مکمل ہو سکتی ہے کہ انسان کو انسان کی عبودیت سے نکال کر اُسے خدا کی عبودیتِ کاملہ کی فضائے بسیط میں لایا جائے جو صرف ایک ہے اور اُس کا کوئی ساجھی نہیں ہے ۔ کیا جہاد کو برپا کرنے کے لیے صرف یہی مقصد عظیم کافی نہیں ہے ؟
بہرحال قرآن نے جہاد کے جو وجوہ و مقاصد بیان کیے ہیں یہی وجوہ و مقاصد ہر وقت مسلمان مجاہدین کے پیش نظر رہتے تھے ۔ ایسا کوئی واقعہ نہیں ملتا کہ کسی مسلمان مجاہد سے یہ دریافت کیا گیا ہو کہ تم کس لیے جہاد پر نکل کھڑے ہوئے ہو، اور اُس نے یہ جواب دیا ہو کہ " ہمارے وطن کو خطرہ درپیش ہے ، ہم اُس کے دفاع کے لیے اُٹھے ہیں" یا "ہم مسلمانوں پر اہلِ فارس اور اہلِ روم کی جارحانہ کاروائیوں کو روکنے کے لیے نکلے ہیں" یا "ہم ملک کے رقبہ کی توسیع چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ غنائم حاصل ہوں!!" ۔۔۔۔۔۔ اس کے برعکس ان کا جواب وہ ہوتا تھا جو ربعی ابن عامر، حذیفہ بن محصن اور مغیرہ بن شعبہ نے قادسیہ کی جنگ میں فارسی لشکر کے سپہ سالار رستم کو دیا تھا۔ رستم آغازِ جنگ سے تین روز پہلے تک برابر ان مجاہدین کرام سے الگ الگ یہ پوچھتا رہا کہ "کیا خواہش تمہیں یہاں لے کر آئی ہے ؟ مگر ان سب کا جواب یہ تھا کہ
"اللہ نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم انسان کو اپنے جیسے انسانوں کی غلامی سے نکال کر صرف خدائے واحد کی بندگی کی طرف لائیں، دنیا کی تنگی سے نکال کر انہیں دنیا کی فراخی سے بہرہ ور کریں، ادیان کے ظلم و ستم سے نجات دے کر عدلِ اسلام سے ہمکنار کریں۔ اس مقصد کے لیے اللہ تعالٰی نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اپنا دین دے کر اپنی مخلوق کے پاس بھیجا ہے ۔ پس جو ہمارے اس دین کو قبول کر لیتا ہے ، ہم اس کے اقرار کو تسلیم کر لیتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں اور اُس کا مُلک اُسی کے حوالے کر دیتے ہیں، اور جو سرتابی کرتا ہے اُس سے جنگ کرتے ہیں یہاں تک کہ شہادت پا کر جنت حاصل کر لیں یا فتح یاب ہو جائیں۔"
جہاد کی ایک اور طبعی وجہ
جہاد کے خارجی وجوہ و محرکات کے علاوہ اس کی ایک قائم بالذات وجہ جواز بھی جو خود اس دین کی سُرشت میں مُضمر، اور اس کے انسانی آزادی کے ہمہ گیر مطالبے میں پنہاں ہے ۔ یہ دین جس طرح انسان کے عملی حالات سے کامیاب جوابی وسائل کے ساتھ دُو بدُو ہوتا ہے ، اور متعیّن مراحل کے اندر ہر ہر محاذ پر نئے نئے ذرائع اختیار کرتا ہے خود یہ حقیقت پسندانہ طریقِ کار بھی جہاد کی اس طبعی وجہ کی نشاندہی کرتا ہے ۔ یہ وجہ آغازِ دعوت ہی سے پیدا ہو جاتی ہے اور سرزمینِ اسلام پر اور اُس کے مسلمان باشندوں پر کسی بیرونی حملے کا خطرہ ہو یا نہ ہو یہ برقرار رہتی ہے ۔ اس وجہ کو وجود میں لانے کے ذمہ دار محدود نوعیت کے دفاعی تقاضے یا وقتی حالات نہیں ہیں بلکہ بے خدا معاشروں کے اندر دعوتِ اسلامی کے لیے جو عملی مشکلات اور رکاوٹیں پائی جاتی ہیں ایک طرف وہ اور دوسری طرف خود اسلام کا اپنا مخصوص طرزِ زندگی اور عملی زندگی میں اس کی دعوتِ کشمکش مِل جُل کر کر اس وجہ کی تخلیق کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ بجائے خود جہاد کے حق میں ایک بہت بڑی دلیل ہے کہ ایک مسلمان اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرتا ہے ، ان اقدار کے غلبہ و فروغ کے لیے جہاد کرتا ہے جن کے اندر اس کی کوئی ذاتی منفعت شامل نہیں ہوتی اور نہ اس طرح کا کوئی اور لالچ اسے اس پر ابھارتا ہے ۔ ایک مسلمان جب جہاد کے لیے نکلتا ہے اور میدانِ کارزار میں قدم رکھتا ہے تو اس سے بہت پہلے وہ ایک بڑا معرکۂ جہاد سر کر چکا ہوتا ہے ۔ اس معرکہ میں اُس کا حریف نفس کا شیطان ہوتا ہے ، اس کی اھواء و خواہشات ہوتی ہیں، خوشنما امنگیں اور آرزوئیں ہوتی ہیں، ذاتی مفادات ہوتے ہیں، اپنی برادری اور قوم کے مفادات ہوتے ہیں۔ الغرض اس کا مقابلہ ہر اُس نعرے سے ہوتا ہے جو اسلام کے خلاف ہو، ہر اُس جذبہ کے خلاف ہوتا ہے جو بندگئ خدا سے متصادم ہو اور دنیا میں حکومتِ الٰہیہ کے قیام اور طاغوت میں خاتمہ حائل ہو۔
اسلام کی نگاہ میں دفاعِ وطن کا اصل محرّک
جو لوگ جہاد اسلامی کا جواز صرف "وطنِ اسلام" کے دفاع تک محدود رکھتے ہیں وہ دراصل اسلام کے طریقِ زندگی کی عظمت کو کم کرتے ہیں۔ ان کی نگاہ میں یہ پاکیزہ طریقِ زندگی اتنی اہمیت بھی نہیں رکھتا جتنی اہمیت "وطن" کو حاصل ہے ۔ وطن اور ایسے ہی دوسرے عوامل کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر وہ نہیں ہے جو یہ حضرات پیش کرتے ہیں۔ ان کا یہ نقطۂ نظر عہدِ حاضر کی تخلیق ہے ، یہ اسلامی شعور اور اسلامی تعلیم کے لیے قطعاً اجنبی اور نووارد ہے ۔ اسلامی تعلیم کی رُو سے جہاد کو قائم کرنے کے لیے اصل اعتبار اسلامی عقیدہ کے تحفظ کا ہے ، یا اُس طریقِ حیات کے تحفظ کا ہے جو اس عقیدہ کی عملی تفسیر پیش کرتا ہے یا اُس معاشرے کے تحفظ کا ہے جس میں اس طریقِ حیات کی عملداری ہو۔ رہی "خاک وطن" تو بذات خود اسلام کی نگاہ میں اس کی کوئی وقعت نہیں ہے اور نہ اس کا کوئی وزن ہے ۔ تصور اسلامی کے تحت "خاک وطن" میں اگر کوئی چیز شرف و عظمت بخش سکتی ہے اور اُسے گراں قدر بنا سکتی ہے تو وہ صرف یہ بات ہے کہ وہاں اللہ کی حکومت کا سکہ رواں ہو اور اللہ کا بھیجا ہوا نظامِ زندگی وہاں نافذ ہو۔ اس نسبت کے بعد وطن عقیدۂ اسلام کا قلعہ، اسلامی نظام حیات کی جلوہ گاہ، اسلام کا گھر (دارالاسلام) اور انسان کی آزادئ کامل کی تحریک کا منبع و مرکز قرار پا جاتا ہے ۔ اور بلاشبہ دارالاسلام کا تحفظ اور دفاع خود عقیدۂ اسلام کا دفاع ہے ، اسلامی نظامِ حیات اور اسلام کے نمائندہ معاشرہ کا دفاع ہے ۔ لیکن دفاع کو اصل اور آخری مقصد نہیں قرار دیا جا سکتا، اور نہ دار الاسلام کا تحفظ ہی اسلام کی تحریک جہاد کی اصل غایت ہے ۔ بلکہ دار الاسلام کی حفاظت تو خدا کی حکومت کے قیام کا ایک ذریعہ ہے ۔ اور ثانیاً اس کی وجہ یہ ہے کہ دار الاسلام کو وہ مرکزی مقام بنانا مقصود ہوتا ہے کہ جہاں سے اسلام کا آفتاب جہاں تاب دنیا کے کونے کونے میں چمکے اور نوع انسانی اُس کے اعلانِ آزادی سے متمتع ہو ۔۔۔۔۔۔ یہ بات ہم بیان کر چکے ہیں کہ اس دین کا موضوع "نوع انسان" ہے اور اس کا دائرۂ کار پورا کرۂ ارضی ہے ۔
جہاد اسلام کی فطری ضرورت ہے
جیسا کہ ہم پیچھے بیان کر چکے ہیں دنیا میں اللہ کی حکومت کے قیام میں کئی مادی رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں۔ ریاست کی بے پناہ طاقت، معاشرے کا نظام اور روایات، پورا انسانی ماحول۔ ان میں سے ہر ہر چیز اسلام کی راہ میں ایک سنگِ گراں ہے ۔اسلام ان تمام رکاوٹوں کو ہٹانے کے لیے طاقت کا استعمال کرتا ہے تاکہ اسلام کے درمیان اور افراد انسانی کے درمیان کوئی حجاب حائل نہ رہے اور وہ آزاد فضا کے اندر انسان کی روح اور عقل سے اپیل کر سکے ۔ بناوٹی آقاؤں کی قیود سے رہا کر کے وہ انسان کو ارادہ و انتخاب کی آزادی فراہم کرتا ہے تاکہ وہ اپنی آزاد مرضی سے جس بات کو چاہیں قبول کریں اور جسے چاہيں رد کر دیں۔
اسلام کے نظریۂ جہاد پر مستشرقین نے جو مکروہ حملے شروع کر رکھے ہیں اُن سے ہمیں ہر گز دھوکا نہیں کھانا چاہیے اور نہ کسی گھبراہٹ کا اظہار کرنا چاہیے ۔ یہ بات بھی ہماری حوصلہ شکنی کا باعث نہیں ہونی چاہیے کہ حالات کا دھارا ہمارے خلاف بہہ رہا ہے اور دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں بھی ہمارے خلاف ہیں۔ یہ باتیں ایسی نہیں ہیں کہ ہم ان سے متاثر ہو کر اسلامی جہاد کے وجوہ جواز دین کی فطرت و حقیقت سے کہیں باہر تلاش کرنا شروع کر دیں۔ اور جہاد کو دفاعی ضرورت اور وقتی اسباب و حالات کا نتیجہ قرار دینے لگیں۔ جہاد جاری ہے اور جاری رہے گا۔ خواہ دفاعی ضروریات اور وقتی اسباب و حالات پائے جائیں یا نہ پائے جائیں۔ تاریخ کے نشیب و فراز کا جائزہ لیتے وقت ہمیں ان اصل محرکات اور تقاضوں کو ہرگز نظر انداز نہ کرنا چاہیے جو اس دین کی طبیعت میں، اس کے عالم گیر اعلانِ آزادی میں، اور اس کے حقیقت پسندانہ طریقِ کار میں پنہاں ہیں۔ یہ بات درست نہ ہوگی کہ ہم ان اصل محرکات اور تقاضوں کے درمیان اور دفاعی ضروریات اور وقتی داعیات کے درمیان خلط مبحث کریں۔
بلاشبہ اس دین کو بیرونی حملہ آوروں سے اپنے دفاع کا پورا پورا انتظام کرنا ہوگا۔ اس لیے کہ دین کا محض اس شکل میں آنا کہ یہ اللہ کی عالمی ربوبیت کا اعلان اور غیر اللہ کی بندگی سے انسان کی رستگاری کی دعوت ہے ، اور پھر اس کا ایک منظم تحریک کا قالب اختیار کر لینا جو جاہلی قیادتوں سے باغی اور ایک بالکل نئی اور جُداگانہ طرز کی قیادت کے تابع ہو، اور ایک نرالے اور مستقل معاشرے کی تخلیق کرنا جو انسانی حاکمیت کو اس لیے تسلیم نہ کرتا ہو کہ حاکمیت صرف خدائے واحد کا حق ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دین کا اس شکل میں دنیا سے اپنا تعارف کرانا ہی اس امر کے لیے بہت کافی ہے کہ اردگرد کے وہ تمام جاہلی معاشرے اور طبقے جو بندگئ انسان کی بنیاد پر قائم ہیں اس کو نیست و نابود کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور اپنے وجود کے تحفظ و دفاع کے لیے خم ٹھونک کر باہر نکل آئیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں نئے اسلامی معاشرے کو بھی اپنے تحفظ و دفاع کا انتظام کرنا ہوگا۔ اس صورتِ حال کا رونما ہونا ناگزیر ہے جوں ہی اسلام کا ظہور ہوگا یہ صورتِ حال بھی لازماً پیدا ہوگی۔ اس کشمکش کو چھیڑنے میں اسلام کی پسند و ناپسند کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کیوں کہ یہ کشمکش تو اسلام پر ٹھونسی جاتی ہے ۔ یہ وہ طبعی کشمکش ہے جو دو ایسے نظاموں کے مابین چھڑ کر رہتی ہے جو زیادہ عرصہ تک بقائے باہم کے اصول پر ساتھ ساتھ نہیں رہ سکتے ۔ یہ وہ حقیقت ہے جس میں مجال شک نہیں ہے ۔ اور اسی نفس الامری حقیقت کی رُو سے اسلام کے لیے اپنی مدافعت ضروری ہو جاتی ہے ۔ اُسے یہ مسلط کردہ دفاعی جنگ لڑے بغیر چارہ نہیں ہے ۔
 

ابوشامل

محفلین
جاہلیت کے مقابلے میں اسلام "جنگ بندی" نہیں کر سکتا
لیکن اس حقیقت نفس الامری کے علاوہ ایک اور اٹل حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے جو اس پہلی حقیقت سے زیادہ اہم اور روشن ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلام کی فطرت کا یہ ایک اٹل تقاضا ہے کہ وہ بنی نوع انسان کو غیر اللہ کی بندگی کے گڑھے سے نکالنے کے لیے روزِ اول ہی سے پیش قدمی شروع کر دیتا ہے ۔ لہذا اس کے لیے جغرافی حدود کی پابندی ناممکن ہے ، اور نہ وہ نسلی حد بندیوں میں محصور ہو کر رہ سکتا ہے ، اُسے یہ گوارا نہیں ہے کہ وہ مشرق سے مغرب تک پھیلی ہوئی پوری نوع انسانی کو شر و فساد اور بندگئ غیر اللہ کا لقمہ بنتے دیکھے اور پھر اسے چھوڑ کر گوشہ نشینی اختیار کرلے ۔ اسلام کے مخالف کیمپوں پر تو ایک ایسا وقت آ سکتا ہے کہ ان کی مصلحت کا تقاضا یہ ہو کہ اسلام کے خلاف کوئی جارحانہ کاروائی نہ کی جائے بشرطیکہ اسلام انہیں اس بات کی اجازت دے دے کہ وہ اپنی علاقائی حدود کے اندر رہ کر بندگئ غیر اللہ کی ڈگر پر چلتے رہیں، اسلام انہیں ان کے حال پر چھوڑ دے اور انہیں اپنی دعوت اور اپنے اعلانِ آزادی کی پیروی پر مجبور نہ کرے ۔ مگر اسلام اُن کے ساتھ "جنگ بندی" کا مؤقف اختیار نہیں کر سکتا۔ اِلّا یہ کہ وہ اسلام کے اقتدار کے آگے اپنا سر خم کر دیں، اور جزیہ دینا قبول کر لیں۔ جو اس امر کی ضمانت ہوگا کہ انہوں نے دعوتِ اسلام کے لیے اپنے دروازے کھول دیے ہیں، اور اُس کی راہ میں کسی سیاسی طاقت کے بل پر روڑے نہیں اٹکائیں گے ۔ اس دین کا یہی مزاج ہے اور اللہ کی عالمی ربوبیت کا اعلان، اور مشرق و مغرب کے انسانوں کے لیے غیر اللہ کی بندگی سے نجات کا پیغام ہونے کی حیثیت سے اس کا یہ ناگزیر فرض بھی ہے ۔ اسلام کے اس تصور میں اور اس تصور میں جو اس کو جغرافیائی اور نسلی حدود میں مقید کر دیتا ہے ، اور جب تک کسی بیرونی جارحیت کا خطرہ نہ ہو، اس کو کسی اقدام کی اجازت نہیں دیتا، فرق ظاہر ہے ؛ پہلی حالت میں وہ ایک زندہ اور متحرک قوت ہے ، جب کہ دوسری صورت میں وہ تمام داخلی اور فطری محرکاتِ عمل سے یکسر محروم ہو جاتا ہے !
اسلام کی پیش قدمی اور حرکت پسندی کے وجوہ جواز زیادہ مؤثر اور واضح طور پر سمجھنے کے لیے یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ اسلام انسانی زندگی کا خدائی نظام ہے ، یہ کسی انسان کا وضع کردہ نہیں ہے ، نہ یہ کسی انسانی جماعت کا خود ساختہ مسلک ہے ، اور نہ یہ کسی مخصوص انسانی نسل کا پیش کردہ طریقِ حیات۔ اسلام کی تحریک جہاد کے اسباب خارج میں ڈھونڈنے کی ضرورت صرف اسی وقت پیش آتی ہے جب ہماری نگاہوں سے یہ عظیم حقیقت اوجھل ہو جاتی ہے ، اور ہم بھول جاتے ہیں کہ دین کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کی حکومت کے قیام کے ذریعے سارے مصنوعی خداؤں کی خدائی کی بساط لپیٹ دی جائے ۔ یہ ناممکن ہے کہ انسان اس اہم اور فیصلہ کن حقیقت کو اپنے ذہن میں ہر وقت تازہ بھی رکھے اور پھر جہاد اسلامی کے سلسلے میں کسی خارجی وجہ جواز کی تلاش و جستجو میں سرگرداں بھی ہو۔
اسلام کے بارے میں دو تصور اور ان کا فرق
اسلام کے ان دو تصوروں کے درمیان جو فرق ہے اُس کا صحیح اندازہ سفر کی پہلی منزل پر نہیں ہو سکتا۔ ایک تصور تو یہ ہے کہ اسلام کو جاہلیت کے خلاف غیر ارادی طور پر جنگ لڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس لیے کہ اس کے وجود کا طبعی تقاضا تھا کہ جاہلی معاشرے اس پر حملہ آور ہوں۔ اور اسلام بامر مجبوری مدافعت کے لیے اٹھ کھڑا ہو۔ اور دوسرا تصور یہ ہے کہ اسلام لازماً بذاتِ خود شروع سے پیش قدمی کرے گا اور بالآخر معرکۂ کارزار میں داخل ہوگا۔ اختلافِ مسلک کے آغاز میں تو ان دونوں تصورات کا باہمی فرق نمایاں طور پر واضح نہیں ہو سکتا اس لیے دونوں حالتوں میں لازماً اسلام کو جنگاہ میں اُترنا پڑے گا لیکن منزل پر پہنچ جانے کے بعد معلوم ہوگا کہ دونوں تصوروں میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ اسلام کے بارے میں دونوں کے احساس و جذبات میں اور خیالات و تصورات میں بڑا بنیادی اور نازک سا فرق ہے ۔
اس خیال میں کہ اسلام الٰہی نظام حیات ہے اور اس خیال میں کہ وہ ایک علاقائی نظام ہے بہت بڑا اور غیر معمولی فرق ہے ۔ اول الذکر خیال کے مطابق اسلام دنیا میں اس لیے آیا ہے کہ وہ خدا کی زمین پر خدا کی حکومت کا اعلان کرے ، اور تمام انسانوں کو ایک اِلٰہ کی بندگی کی دعوت دے ، اور اپنے اعلان اور دعوت کو عملی سانچے میں ڈھالے ، اور پھر ایک ایسا معاشرہ تیار کرے جس میں انسان انسانوں کی بندگی سے آزاد ہوں اور بندگئ رب پر جمع ہوں، ان پر صرف شریعت الٰہی جو اللہ کے بالاتر اقتدار کی نمائندگی کرتی ہے حکمراں ہو۔ صرف اسی اسلام کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اُن تمام موانع کو زائل کرے جو اس کے راستے میں حائل ہوں۔ تاکہ وہ ریاست کے سیاسی نظام یا انسانوں کی خود ساختہ معاشرتی روایات کی دیواروں کو ڈھانے کے بعد افراد کے عقل و وجدان سے آزادانہ اپیل کر سکے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ثانی الذکر خیال کی رُو سے اسلام محض ایک وطنی نظام ہے اور اُسے صرف اتنا حق حاصل ہے کہ اس کی علاقائی حدود پر جب کوئی طاقت حملہ کرے تو وہ اپنا دفاع کرے ۔ اب یہ دونوں تصور آپ کے سامنے ہیں۔ بے شک اسلام دونوں حالتوں میں جہاد کو قائم کرتا ہے ، لیکن دونوں حالتوں میں جہاد کے محرکات، جہاد کے مقاصد اور جہاد کے نتائج سے جو دو عملی تصویریں بنتی ہیں وہ ایک دوسرے سے بے حد مختلف ہیں۔ فکر و نظر کے لحاظ سے بھی اور منصوبہ و رحجان کے اعتبار سے بھی۔
بے شک اسلام کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ ابتداء ہی پیش قدمی سے کرے ۔ اسلام کسی قوم یا وطن کی میراث نہیں ہے ۔ یہ خدا کا دین ہے اور تمام دنیا کے لیے ہے ۔ اسے یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ ان موانع کو پاش پاش کر دے جو روایات اور نظاموں کی شکل میں پائے جاتے ہیں اور جو انسان کی آزادئ انتخاب کو پابندِ سلاسل کرتے ہیں۔ وہ افراد پر حملہ نہیں کرتا اور نہ ان پر اپنا عقیدہ زبردستی ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے ، وہ صرف حالات و نظریات سے تعرض کرتا ہے تاکہ افراد انسانی کو اُن فاسد اور زہریلے اثرات سے بچائے جنہوں نے اُن کی فطرت کو مسخ کر دیا ہے اور ان کی آزادئ انتخاب کو پامال کر رکھا ہے ۔
اسلام اپنے اس حق سے بھی کسی طور دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں کہ وہ انسانوں کو بندوں کی آقائی سے نکال کر صرف ایک خدا کی بندگی پر جمع کرے تاکہ وہ اللہ تعالٰی کی ربوبیت اور انسانوں کی آزادی کامل کی تحریک کو پایۂ تکمیل تک پہنچا سکے ۔ تصور اسلامی اور امرِ واقع دونوں کے نقطۂ نظر سے اللہ تعالٰی کی بندگی اپنی پوری شان سے صرف اسلامی نظام ہی کے سائے میں رُو بعمل آ سکتی ہے ۔ اسلامی نظام ہی ایک ایسا منفرد نظام ہے جس میں تمام انسانوں کا خواہ وہ حاکم ہوں یا محکوم، کالے ہوں یا گورے ، غریب ہوں یا امیر، قریب کے ہوں یا دُور کے ، صرف اللہ تعالٰی ہی قانون ساز ہوتا ہے ، اور اس کا قانون سب کے لیے برابر ہوتا ہے اور سب انسان یکساں طور پر اُس کے آگے سرنگوں ہوتے ہیں۔ رہے دوسرے نظام ہائے حیات تو ان میں انسان اپنے ہی جیسے انسانوں کی بندگی کرتے ہیں، اور وہ اپنے ہی جیسے انسانوں کی گھڑی ہوئی شریعت کی اطاعت کرتے ہیں۔ شریعت سازی الوہیت کی خصوصیات میں سے ایک ہے ۔ جو انسان یہ دعویٰ کرے کہ انسانوں کے لیے حسبِ منشا قانون بنانے کا اُسے اختیار ہے تو بالفاظ دیگر اس کے دعوے کا مطلب یہ ہے کہ وہ الوہیت کا مدعی ہے ، خواہ وہ زبان سے الوہیت کا دعویٰ کرے یا نہ کرے ۔ جو شخص ایسے مدعی کا یہ حق ۔۔۔۔۔۔۔ یعنی آزادانہ قانون سازی کا حق ۔۔۔۔۔۔۔۔ تسلیم کرے گویا اُس نے اس کے حق الوہیت کو تسلیم کیا چاہے وہ اسے الوہیت کا نام دے یا اس کے لیے کچھ دوسرے نام یا اصطلاحیں تجویز کرتا پھرے ۔
اسلام محض عقیدہ و فکر کا نام نہیں ہے کہ وہ لوگوں تک محض وعظ و بیان کے ذریعے اپنا پیغام پہنچا دینے پر اکتفاء کر لے ۔ اسلام ایک طریقِ زندگی ہے جو منظم تحریک کی صورت میں انسان کی آزادی کے لیے عملی اقدام کرتا ہے ۔ غیر اسلامی معاشرے اور نظام ہائے حیات اُسے یہ موقع نہیں دیتے کہ وہ اپنے نام لیواؤں کو اپنے طریقِ کار کے تحت منظم کر سکے ، اس لیے اسلام کا یہ فرض ہے کہ وہ ایسے نظاموں کو، جو انسان کی آزادئ کامل کے لیے سدِ راہ بن رہے ہوں، ختم کرے ۔ صرف اسی صورت میں دین پورے کا پورا اللہ کے لیے قائم ہو سکتا ہے ۔ پھر نہ کسی انسان کا اقتدار باقی رہے گا اور نہ کسی انسان کی بندگی کا سوال پیدا ہوگا۔ جیسا کہ دوسرے نظامہائے زندگی کا حال ہے جو انسان کی آقائی اور انسان کی بندگی پر اپنی عمارت قائم کرتے ہیں۔
اسلام میں مغرب کے تصور جہاد کی گنجائش نہیں
ہمارے وہ معاصر مسلمان محقق جو حالات حاضرہ کے دباؤ اور مستشرقین کی مکارانہ تنقیدوں سے مرعوب ہیں وہ اسلام کی مذکورہ بالا حقیقت کے اظہار و اثبات کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔ مستشرقین نے اسلام کی جو تصویر بنائی ہے اُس میں اسلام کو ایک خون آشام تحریک کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے ، جو شمشیر بدست انسانوں پر اپنے عقاید و نظریات ٹھونستی پھرتی ہے ۔ یہ بدطینت مستشرقین خوب جانتے ہیں کہ اسلام اس تصور سے قطعاً پاک ہے ، لیکن اس ہتھکنڈے سے کام لے کر دراصل وہ اسلامی جہاد کے اصل محرکات و اسباب کو مسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر ہمارے مسلمان محققین ۔۔۔۔۔ یہی شکست خوردہ محققین ۔۔۔۔ اسلام کی پیشانی سے اس "داغ" کو دھونے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اور ایسے دلائل کی تلاش میں لگ جاتے ہیں جن سے وہ یہ ثابت کر سکیں کہ اسلام میں جہاد سے مراد "مدافعانہ جنگ" ہے ۔ حالانکہ یہ لوگ اسلام کی فطرت اور اس کے اصل کارنامے سے قطعاً نابلد ہیں، انہیں یہ تک معلوم نہیں ہے کہ اسلام ۔۔۔۔۔۔ ایک عالمی اور انسانی مذہب ۔۔۔۔۔ کا یہ ناگزیر حق ہے کہ وہ انسانوں کی آزادی کے لیے خود اقدام کرے ۔ عصرِ حاضر کے ان مرعوب و ہزیمت خوردہ اربابِ تخلیق کے ذہنوں پر دین کا وہ تصور غالب ہے جو اصلاً مغرب کا تصور ہے ۔ مغربی تصور کے لحاظ سے دین محض ایک عقیدہ کا نام ہے ، اس کا مقام ضمیر ہے ۔ زندگی کے عملی نظام سے اُسے کوئی واسطہ نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دین کے نام پر جب کوئی جنگ لڑی جاتی ہے تو اہلِ مغرب کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کچھ لوگ دوسروں پر اپنا عقیدہ اور نظریہ جنگ کے ذریعے زبردستی ٹھونسنا چاہتے ہیں۔
لیکن اسلام میں دین کا یہ تصور کبھی نہیں رہا، اور نہ اس تصور کے تحت اس نے کبھی علمِ جہاد بلند کیا ہے ۔ اسلام انسانی زندگی کا خدائی نظام ہے جو صرف اللہ تعالٰے کی بندگی کا قائل ہے ، اس کے نزدیک الوہیت کا صحیح مظہر حاکمیتِ خدا ہے ، اسی طرح یہ نظام انسان کی عملی زندگی کے بڑے سے بڑے مسائل سے لے کر روزمرہ کے چھوٹے چھوٹے معاملات کی مکمل تنظیم کرتا ہے ۔ اُس کا نظامِ جہاد دراصل اس خدائی نظام کو برپا کرنے اور اسے غالب کرنے کی کوشش ہی کا دوسرا نام ہے ۔ رہا عقیدہ کا معاملہ تو ظاہر ہے کہ اُس کا تعلق آزادئ رائے سے ہے ، اسلام چاہتا ہے کہ انسانی رائے کو متاثر کرنے کی راہ میں حائل ہونے والی تمام رکاوٹیں دور ہوں، اور ہمہ پہلو اسلام کا نظام غالب ہو جائے ۔ فرد کو ہر قسم کا عقیدہ اور نظریہ کے رد و قبول کی آزادی ہو، اور وہ اپنی مرضی سے جو عقیدہ چاہے اختیار کر سکے ۔ ظاہر ہے کہ دین کا یہ نقشہ اُس نقشے اپنے اساسی نظریات اور تفصیل دونوں کے لحاظ سے سرتاپا مختلف ہے جو مغرب نے پیش کیا ہے ۔
چنانچہ جہاں کہیں ایسا اسلامی معاشرہ پایا جاتا ہے جو الٰہی نظام حیات کی عملی تفسیر و تعبیر ہو تو اللہ تعالٰی کی طرف سے اُسے یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اقدام کرے اور آگے بڑھ کر اقتدار کی زمام ہاتھ میں سنبھال لے اور جریدۂ عالم پر الٰہی نظام حیات کا نقش ثبت کر دے ۔ البتہ عقیدہ اور ایمان کے مسئلے کو وہ انسان کے وجدان اور آزاد رائے پر چھوڑ دیتا ہے ۔ اللہ تعالٰی نے امت مسلمہ کو ایک معین عرصہ تک اگر جہاد سے روکا تھا تو یہ منصوبہ بندی کے طور پر تھا۔ نہ کہ کسی اصول و ضابطے کی تعلیم تھی۔ یہ تحریک کے ایک خاص مرحلے کی ضروریات کا مسئلہ تھا، نہ کہ اسلام کے بنیادی عقیدہ اور نظریہ کا مسئلہ۔ اسی واضح بنیاد کی روشنی میں ہمیں قرآن مجید کی بکثرت ایسی آیات کا مفہوم سمجھ میں آ سکتا ہے جن کا تعلق تحریک کے بدلتے ہوئے مراحل سے رہا ہے ۔ ان آیات کو پڑھتے وقت ہمیں یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ان کا ایک مفہوم وہ ہے جو اس مرحلے کے ساتھ وابستہ ہے جس میں یہ نازل ہوئی تھیں، اور دوسرا ان کا عمومی مفہوم ہے جس کا تعلق اسلامی تحریک کی ناقابل تغیر اور ابدی شاہراہِ حیات سے ہے ۔ ہمیں ان دونوں حقیقتوں کو کبھی گڈ مڈ نہ کرنا چاہیے ۔
 

ابوشامل

محفلین
باب پنجم
لا الٰہ الا اللہ​
اسلام کا نظام حیات​
اسلامی نظام زندگی کی اساس
"لا الٰہ الا اللہ" (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ) اسلامی عقیدہ کے رکن اول ۔۔۔۔۔ یعنی کلمہ شہادت ۔۔۔۔۔ کا پہلا جزو ہے جس میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ بندگی و عبادت کے لائق صرف ایک اللہ ہے ۔ "محمد رسول اللہ" اس کا دوسرا جزو ہے اور اس میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اس بندگی کی کیفیت اور اس طریقہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے حاصل کیا جائے گا۔ مومن اور مسلم کا دل وہ دل ہے جس کی گہرائیوں میں یہ کلمہ اپنے ان دونوں اجزا سمیت پوری طرح جاگزیں ہوتا ہے ۔ اس لیے کہ ان دونوں شہادتوں کے بعد ایمان کے جتنے ستون اور اسلام کے جتنے ارکان ہیں وہ دراصل ان شہادتوں ہی کے تقاضے میں پیدا ہوتے ہیں۔ چنانچہ ملائکہ پر ایمان، اللہ کی کتابوں پر ایمان، اللہ کے رسولوں پر ایمان، آخرت پر ایمان، تقدیر خیر و شر پر ایمان، اسی طرح نماز، روزہ زکٰوۃ اور حج، اور پھر حدود، تعزیرات، حلال و حرام، معاملات، قوانین، اسلامی ہدایات و تعلیمات ان سب کی اساس اللہ کی عبودیت پر استوار ہوتی ہے ۔ اور ان سب کا منبع وہ تعلیم ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کی طرف سے ہم تک پہنچائی ہے ۔
اسلامی معاشرہ وہ معاشرہ ہے جو کلمۂ شہادت اور اس کے تمام تقاضوں کی عملی تفسیر ہو۔ اگر یہ کلمہ اور اس کے تقاضوں کی کوئی جھلک معاشرے کی عملی زندگی میں نہ پائی جاتی ہو تو وہ اسلامی معاشرہ نہیں ہے ۔ گویا کلمہ شہادت (لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ) ایک ایسے مکمل نظام کی بنیاد ٹھیرتا ہے جس پر امت مسلمہ کی زندگی اپنی تمام تفصیلات اور ضروریات سمیت تعمیر ہوتی ہے ۔ اس بنیاد کے قیام سے پہلے زندگی کی تعمیر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر اس بنیاد کے ماسوا کسی اور بنیاد پر زندگی کی عمارت اٹھائی جائے یا اس بنیاد کے ساتھ کسی اور بنیاد کو یا متعدد خارجی بنیادوں کو بھی شامل کر کے زندگی کی تعمیر کی کوشش کی جائے تو ان کے نتیجے میں قائم ہونے والے معاشرے کو اسلامی زندگی کا نمائندہ کسی طرح بھی نہیں کہا جا سکے گا۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے :
إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّہ أَمَرَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاہ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ (یوسف 40)
حکم صرف اللہ کا ہے ۔ اس کا فرمان ہے کہ اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کی جائے ۔ یہی دین قیّم (ٹھیٹھ اور سیدھا طریق زندگی) ہے ۔
مَّنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّہ (النساء 80)
جس نے رسول کی اطاعت کی اُس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی۔
یہ مختصر، اصولی اور فیصلہ کُن بیان دین حق اور اس کی عملی تحریک سے تعلق رکھنے والے بنیادی مسائل کے بارے میں دو ٹوک فیصلہ کرنے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے ۔ اولاً: یہ "مسلم معاشرے کی فطرت" کے تعیّن میں ہماری رہنمائی کرتا ہے ، ثانیاً: "مسلم معاشرے کے طریقۂ تعمیر" کی نشاندہی میں ہمیں اس سے مدد ملتی ہے ، ثالثاً: ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اسلام نے جاہلی معاشروں کے ساتھ نمٹنے کے لیے کیا طریقِ کار تجویز کیا ہے ۔ اور رابعاً: وہ یہ تعین کرتا ہے کہ انسانی زندگی کی عملی صورتِ حال کو بدلنے کے لیے اسلام کا ضابطۂ کار کیا ہے ۔ یہ تمام مسائل وہ ہیں جو قدیم زمانے سے لے کر آج تک اسلامی تحریک کے نظام کار میں نہ صرف اساسی اہمیت کے حامل رہے ہیں بلکہ بڑے نازک اور فیصلہ کن سمجھے جاتے رہے ہیں۔
اسلامی معاشرے کا امتیازی وصف
مسلم معاشرے کا امتیازی وصف یہ ہے کہ یہ معاشرہ اپنے تمام معاملاتِ زندگی میں صرف اللہ کی عبودیت کی اساس پر قائم ہوتا ہے ۔ کلمۂ شہادت (لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ) اسی عبودیت کا اظہار کرتا ہے اور اس کی کیفیت متعین کرتا ہے ۔ انسان کا اعتقاد بھی اس عبودیت کا مظہر ہوتا ہے ، عبادات و شعائر میں بھی اس عبودیت کا پرتو پایا جاتا ہے ، قوانین و ضوابط اس کی عملی تصویر ہوتے ہیں۔ جو شخص اللہ سبحانہ تعالٰی کی وحدانیت پر یقین نہیں رکھتا تو اُس نے دراصل ایک اللہ کی بندگی اختیار ہی نہ کی:
وَقَالَ اللّہ لاَ تَتَّخِذُواْ إِل۔ہيْنِ اثْنَيْنِ إِنَّمَا ہوَ إِلہ وَاحِدٌ فَإيَّايَ فَارْہبُونِ • وَلَہ مَا فِي الْسَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَلَہ الدِّينُ وَاصِبًا أَفَغَيْرَ اللّہ تَتَّقُونَ • (النمل: 51 – 52)
اور اللہ کا فرمان ہے کہ دو خدا نہ بنا لو، خدا تو بس ایک ہی ہے ، لہذا تم مجھی سے ڈرو، اُسی کا ہے وہ سب کچھ جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اور خالصاً اُسی کا دین (کائنات میں) چل رہا ہے ۔ پھر کیا اللہ کو چھوڑ کر کسی اور سے تقویٰ کرو گے ۔
اسی طرح جو شخص اللہ کے سوا کسی اور ہستی کے آگے یا اللہ کے ساتھ کسی اور ذات کو شریک کر کے عبادات و شعائر بجا لاتا ہے وہ بھی خدائے واحد کا بندہ نہیں ہو سکتا:
قُلْ إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّہ رَبِّ الْعَالَمِينَ • لاَ شَرِيكَ لَہ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ • (انعام 162 – 163)
کہہ دیجیے میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں، اسی کامجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والا میں ہوں۔
اسی طرح جو شخص ان قوانین کو چھوڑ کر جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اللہ تعالٰی نے ہم کو دیے ہیں کسی اور منبع سے قوانین اخذ کرتا ہے تو وہ بھی اللہ کی بندگئ خالص سے محروم ہے :
أَمْ لَہمْ شُرَكَاء شَرَعُوا لَہم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِہ اللَّہ (شوریٰ 21)
کیا یہ لوگ کچھ ایسے شریکِ خدا رکھتے ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین کی نوعیت رکھنے والا ایک ایسا طریقہ مقرر کر دیا ہے جس کا اللہ نے اذن نہیں دیا۔
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہ وَمَا نَہاكُمْ عَنْہ فَانتَہوا (حشر 7)
جو کچھ رسول تمہیں دل اُسے پکڑ لو اور جس چیز سے روکے اُس سے رُک جاؤ۔
یہ ہیں اسلامی معاشرے کی اقدارِ اصلی۔ اس معاشرے میں جس طرح افراد کے معتقدات و تصورات میں بندگئ رب رچی بسی ہوتی ہے ، اسی طرح ان کی عبادات اور شعائر و مناسک پر بھی بندگئ خالص کا رنگ چڑھا ہوتا ہے اور ان کا جماعتی نظام اور قوانین و ضوابط بھی بندگئ رب کے عملی پیکر ہوتے ہیں۔ ان پہلوؤں میں سے ایک پہلو میں بھی اگر بندگی کا رنگ معدوم ہو تو پورے کا پورا اسلام کالعدم ہو جاتا ہے ۔ اس لیے کہ اس طرح اسلام کا رکن اول، کلمۂ شہادت، جس پر اسلام کی بنیاد ہے سرے سے وجود پذیر ہی نہیں ہو سکتا۔
اوپر ہم نے یہ عرض کیا ہے کہ اسلامی معاشرے کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے افراد کے اعتقادات بھی اسی جذبۂ عبودیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ بتا دیا جائے کہ اسلامی اعتقاد کیا ہے ؟
اسلامی اعتقاد کیا ہے ؟
"اسلامی اعتقاد" کس چیز کا نام ہے ، دراصل یہ ایک ایسا اعتقاد اور تصور ہے جس کا پودا انسان کے شعور و ادراک میں اس وقت پھوٹتا ہے جب وہ عقیدۂ اسلام کے حقائق و رموز کو براہ راست ربانی سرچشمۂ ہدایت (قرآن) سے اخذ کرتا ہے ۔ اور جب اس تصور اور اعتقاد کا نقش پوری طرح انسان کے ذہن پر مُرقَسِم ہو جاتا ہے تو پھر اُسے اپنے رب کی حقیقت کا عرفان حاصل ہوتا ہے ، جس کائنات میں وہ سانس لے رہا ہوتا ہے اُس کی خفی اور جلی حقیقتیں بھی اُسی وقت اُس پر منکشف ہوتی ہیں، جس زندگی کی بدولت وہ زندہ انسانوں میں شمار ہوتا اور ان کے ساتھ مربوط ہوتا ہے اُس کے پنہاں اور عیاں حقائق بھی اُس پر روشن ہو جاتے ہیں۔ اور ساتھ ہی عرفانِ ذات بھی اسے نصیب ہوتا ہے ۔ یعنی وہ خود انسان کی اصلیت سے باخبر ہو جاتا ہے ۔ پھر اسی تصور کی بنیاد پر وہ تمام حقائق کے ساتھ اپنے معاملات کی کیفیت متعین کرتا ہے ۔ اپنے پروردگار کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کرتا ہے جس میں اس کی عبودیت اور بندگی کے نور کا پرتو ہو، کائنات اور کائنات کے قوانین و نوامیس، ذی روح مخلوقات، نوع انسانی اور اس کے مختلف اداروں کے بارے مین وہ ایسا رویہ اختیار کرتا ہے جس کی جڑیں اللہ کے دین میں پیوست ہوتی ہیں اور اُس تعلیم سے ماخوذ ہوتی ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے انسانوں تک پہنچتی ہے ۔ اس طرح وہ اپنے پورے رویۂ زندگی کے اندر اللہ کی عبودیت و بندگی کا اظہار کرتا ہے ، اور یوں اس کی زندگی کی تمام سرگرمیوں پر اسی پاکیزہ روش کی مُہر ثبت ہوتی جاتی ہے
اسلامی معاشرہ کو وجود میں لانے کا طریقِ کار
مسلم معاشرے کے حدودِ اربعہ متعین ہو جانے کے بعد اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس نوعیت کا معاشرہ کیسے وجود میں آتا ہے ؟ اور اس کی تعمیر کا طریقِ کار کیا ہے ؟
یہ معاشرہ اس وقت تک وجود میں نہیں آ سکتا جب تک پہلے ایک ایسا انسانی گروہ ظہور پذیر نہ ہو جو یہ فیصلہ کر چکا ہو کہ اس کی بندگی اور عبودیت تمام کی تمام صرف اللہ کے لیے مخصوص ہوگی، اور وہ اللہ کی بندگی کے ساتھ کسی اور ہستی کی بندگی کی شرکت گوارا نہیں کرے گا، نہ عقیدہ و تصور کے لحاظ سے غیر اللہ کی بندگی کو قبول کیا جائے گا، نہ عیادات و شعائر میں غیر اللہ کی اطاعت کو دخل اندازی کا موقعہ دیا جائے گا، اور نہ قوانین اور نظام زندگی کے اندر غیر اللہ کی بندگی کا کوئی شائبہ برداشت کیا جائے گا۔ اس فیصلہ کے بعد یہ گروہ انسانی بالفعل اپنی زندگی کو اللہ کی عبودیتِ خالصہ کی بنیاد پر منظم کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ اپنے ضمیر اور دِل کی دنیا سے وہ ان تمام اعتقادات و تصورات کو کھرچ دیتا ہے جو غیر اللہ کی الوہیت کے قائل اور اللہ کی الوہیت میں سے کسی اور کو بھی شریک ٹھیراتے ہیں۔ اس معاشرے کی تمام مراسم عبادت ایک اللہ کے لیے مخصوص ہو جاتے ہیں اور اس کے سوا باقی سب سے اس کا رشتہ منقطع ہو جاتا ہے ۔ اس طرح کے مثالی اسلامی معاشرے کے تمام قوانین کا ماخذ صرف خدا کی ذات ہوتی ہے ، اور ان الٰہی قوانین میں وہ کسی اور قانون کی آمیزش گوارا نہیں کرتا۔
یہی وہ رویہ ہے ، جس کو اختیار کرنے کے بعد یہ جماعت صحیح معنوں میں مسلم جماعت کہلائے گی اور جو معاشرہ یہ جماعت منظم کرے گی اُسے "مسلم معاشرہ" کہا جا سکے گا۔ کوئی انسانی جماعت اس طرز پر جو ہم نے اوپر بیان کی ہے اللہ کی خالص عبودیت کا اقرار کرنے سے قبل مسلم جماعت شمار نہیں ہو سکتی، اور نہ عبودیت کی اساس پر اپنے نظامِ حیات کو استوار اور منظم کرنے سے قبل اُس کا قائم کردہ معاشرہ "مسلم معاشرہ" قرار دیا جا سکتا ہے ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ وہ اولین بنیاد جس پر اسلام کی عمارت قائم ہوتی ہے اور مسلم معاشرہ تشکیل پاتا ہے یعنی "لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ" کی شہادت، وہ اپنے دونوں اجزاء سمیت قائم نہیں ہوئی ہے ۔
اس لیے قبل اس کے کہ اسلام کے اجتماعی نظام کو قائم کرنے کے بارے میں سوچ بچار کیا جائے اور اس نظام کی اساس پر ایک مسلم معاشرے کے قیام کی تدبیریں تلاش کی جائیں، ضروری ہے کہ اولین توجہ افراد کے قلب و ضمیر کو غیر اللہ کی بندگی کی تمام صورتوں سے پاک کرنے پر صرف کی جائے ۔ اور جن لوگوں کے قلوب و اذہان غیر اللہ کی بندگی سے پُوری طرح پاک صاف ہوتے جائیں وہ سب مل کر ایک جماعت بنائیں، یہی جماعت جس کے افراد اپنے اعتقادات و تصورات کے لحاظ سے ، مراسم عبادت کے لحاظ سے اور شریعت و قانون کے لحاظ سے غیر اللہ کی بندگی سے پوری طرح آزاد ہوں، اسلامی معاشرے کی داغ بیل ڈال سکتی ہے ، اور جو شخص بھی اسلامی معاشرے میں زندگی بسر کرنا چاہے گا وہ اس میں شامل ہوتا جائے گا، اور اُسے اس کا عقیدہ اُس کی عبادات اور اُس کا وہ قانون اختیار کرنا ہوگا جس میں اللہ کی عبودیت خالص کے کسی اور چیز کا شائبہ تک نہ ہوگا یا دوسرے لفظوں میں وہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی قولی شہادت کی عملی تصویر ہوگا۔ یہی وہ نہج ہے جس کے مطابق دنیا کی پہلی اسلامی جماعت کی تشکیل ہوئی اور پہلا اسلامی معاشرہ منصۂ شہود پر آیا۔ آئندہ بھی صرف اسی نہج پر اسلامی جماعت کی نشوونما ہو سکتی ہے اور اسلامی معاشرہ پھل پھول سکتا ہے ۔
اسلامی معاشرہ اسی صورت میں آشنائے وجود ہو سکتا ہے کہ انسانی افراد اور گروہ اللہ کے ماسوا ہر ہستی کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چاہے وہ مستقل بالذات ہو یا اللہ کی شریک ہو ۔۔۔۔۔۔۔ ٹھکرا کر صرف خدائے واحد و لا شریک کی بندگی کو اپنائیں، اور مستقل طور پر طے کر لیں کہ وہ اپنا نظامِ زندگی اللہ کی بندگی پر استوار کریں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی اجتماع اور فیصلے سے ایک نیا معاشرہ جنم لے گا جو اگرچہ قدیم جاہلی معاشرہ ہی کے اندر سے برآمد ہوگا، مگر اپنے نئے عقیدہ و فکر اور نئے نظامِ زندگی کی بدولت فرسودہ جاہلی معاشرے کے لیے ایک چیلنج ثابت ہوگا۔ یہ نیا نظامِ زندگی اسلام کے رکن اول توحید، اور رسالت محمدی ۔۔۔۔۔۔۔ (لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ) کے نورِ ازل کی جلوہ گاہ ہوگا !!
عین ممکن ہے کہ قدیم جاہلی معاشرہ کلیتہً نئے اسلامی معاشرے میں مدغم ہو جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایسا نہ ہو۔ یہ بات بھی خارج از امکان نہیں کہ جاہلی معاشرہ مسلم معاشرے کے ساتھ مصالحت کرنے کی کوشش کرے ۔ اسی طرح مسلم معاشرے کے خلاف جاہلیت کا ردعمل مسلح تصادم کی صورت بھی اختیار کر سکتا ہے ۔ ویسے اس باب میں سنت الٰہی تو یہی چلی آ رہی ہے کہ جاہلی معاشرہ ہی اسلام پر شب خون مارتا ہے ۔ کبھی اُس نے جیشِ اسلام کے اُس ہراول دستے پر چڑھائی کی، جو اسلامی معاشرے کی داغ بیل ہی سے ابھی فارغ نہ ہوا تھا، اور متفق افراد اور گروہوں کی شکل میں بٹا ہوا تھا۔ اور کبھی اس نے اسلامی معاشرے کے قیام کے بعد اُس پر چڑھائی کی۔ حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک بلا استثنا اسلامی دعوت کی پوری تاریخ میں یہی صورت حال پیش آتی رہی ہے ۔
یہ ایک اور واضح اور طبعی حقیقت ہے کہ نیا اسلامی معاشرہ اس وقت تک نہ تعمیر کے مرحلے کو طے کر سکتا ہے اور نہ اپنے وجود کو منوا سکتا ہے ، جب تک وہ اعلٰی درجہ قوت حاصل نہ کر لے کہ اس کے بل پر قدیم جاہلی معاشرے کے دباؤ کا بآسانی مقابلہ کر سکے ۔ یہی نہیں بلکہ یہ قوت ہمہ جہتی اور ہمہ گیر بھی ہونی چاہیے ۔ اعتقاد اور تصور کی قوت، اخلاقی اور نفسیاتی تربیت کی قوت، تنظیم کی قوت اور جماعتی نظام کی قوت، اور وہ ساری قوتیں جن کی مدد سے وہ جاہلی معاشرے کا مقابلہ کر سکے ، اور اُس پر اگر غلبہ حاصل نہ کر سکے تو کم از کم اُس کے سامنے ڈٹا رہے اور کسی طرح کی ہزیمت کا شکار نہ ہو۔
جاہلی معاشرے کی خصوصیات
اب آئیے دیکھیے کہ "جاہلی معاشرہ" کی حقیقت کیا ہے اور اسلام اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا طریق کار اختیار کرتا ہے ؟
مختصر لفظوں میں اسلام کی نظر میں مسلم معاشرہ کے سوا ہر دوسرا معاشرہ جاہلی معاشرہ ہے ۔ اگر ہم اس کی صحیح منطقی تعریف کرنا چاہیں تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ: ہر وہ معاشرہ جو اپنی بندگی کو خواہ وہ اعتقاد و تصور میں ہو، مراسم عبادت میں ہو یا قانونی نظام میں، صرف اللہ کے لیے خالص نہیں کرتا، وہ جاہلی معاشرہ کہلائے گا۔ اس تعریف کی رو سے آج دنیا میں جتنے معاشرے پائے جاتے ہیں وہ سب کے سب "جاہلی معاشرے " ہیں۔
کمیونسٹ معاشرے اس سلسلے میں سرفہرست ہیں۔ اولاً اس بنا پر کہ انہوں نے اللہ سبحانہ و تعالی کی ذات برتر کے متعلق الحاد کی روش اختیار کر رکھی ہے اور خدا کی ہستی کے سرے سے مُنکر ہیں اور اس نظریہ کے علمبردار ہیں کہ اس کائنات کا خالق اور علت مادہ یا نیچر ہے ، اور انسان اور اس کی تاریخ کا خالق اور محرک اقتصاد یا آلاتِ پیداوار ہیں۔ ثانیاً اس بنا پر کہ جو نظام زندگی وہ قائم کرتے ہیں اس میں بندگی کا حق اللہ تعالی کو نہیں بلکہ کمیونسٹ پارٹی کو حاصل ہوتا ہے ۔ اس کی دلیل وہ اقتدار اور پیشوائی ہے جو کمیونسٹ ملکوں میں بالفعل کمیونسٹ پارٹی کو حاصل ہوتی ہے ۔ مزید برآں کمیونزم کے ان تصورات اور اس نظام کو جو نتائج عملاً مترتب ہوتے ہیں وہ بھی ایک "جاہلی معاشرہ" ہی کے رنگ ڈھنگ ہیں۔ مثلاً انہی تصورات کا یہ شاخسانہ ہے کہ انسان کے "بنیادی مطالبات" صرف وہی سمجھے جاتے ہیں جو حیوان کے مطالبات ہوتے ہیں۔ یعنی کھانا پینا، لباس، مکان اور جنسی تسکین۔ انسان کو ایک جانور سمجھنے کا ایک نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بحیثیت انسان اس میں جو اعلٰی اخلاقی اوصاف پائے جاتے ہیں، انہیں پوری طرح پامال کیا جاتا ہے ۔ اور ان تمام ضروریات اور تقاضوں سے اسے محروم کر دیا جاتا ہے جو "انسانی روح" کا لازمہ ہیں اور انسان کو حیوان سے متمیز کرتی ہیں۔ ان ضروریات اور تقاضوں میں سرفہرست اللہ پر ایمان، اس ایمان کو اختیار کرنے کی کھلی آزادی اور اس کے اظہار و اعلان کا غیر مشروط حق ہے ۔ اسی طرح انسان کے لیے اظہار "انا" کی آزادی بھی انسان کی خاص خصوصیت ہے ۔ یہ انا گوناگوں رویوں میں جلوہ گر ہوتی ہے ۔ انفرادی ملکیت میں اسی انا کا ظہور ہوتا ہے ۔ نوعیت کار کے انتخاب اور اس میں خصوصی مہارت پیدا کرنے میں بھی اسی کو دخل ہوتا ہے ، فن کے ذریعہ شخصیت کے اظہار میں اس کا اضطراب کارفرما ہوتا ہے ۔ علٰی ہذا القیاس اشتراکی نظام ہر اس آزادی سے انسان کے لیے پیغام حرمان نصیبی لے کر آتا ہے جو انسان اور حیوان اور انسان اور مشین کے درمیان ما بہ الامتیاز ہے ۔
تمام بت پرست اور مشرک معاشرے بھی جاہلی معاشروں کی صف میں شامل ہیں۔ اس نوعیت کے معاشرے آج تک ہندوستان، جاپان، فلپائن اور افریقہ میں پائے جاتے ہیں۔ جو بات انہیں جاہلی معاشروں میں داخل کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اولاً یہ معاشرے اللہ کے ماسوا کچھ اور ہستیوں کی صفت الوہیت میں اعتقاد رکھتے ہیں یا الوہیت میں اللہ کے ساتھ دوسری ہستیوں کو بھی شریک ٹھیراتے ہیں۔ ثانیاً انہوں نے طرح طرح کے دیوتا اور معبود تراش رکھے ہیں جن کے بارے میں نہ صرف الوہیت کا عقیدہ رکھتے ہیں بلکہ ان کے سامنے عملاً مراسم عبودیت و نیاز مندی بھی بجا لاتے ہیں۔ یہ بات بھی ان معاشروں کو جاہلی معاشرہ ٹھیرانے کے لیے کافی ہے کہ ان میں جو قوانین اور شرائع نافذ کیے جاتے ہیں ان کا منبع و ماخذ بھی خدا اور اس کی شریعت نہیں بلکہ دوسری ہستیاں ہوتی ہیں، خواہ وہ پادری ہوں یا کاہن پروہت ہوں یا جادوگر ہوں، اکابر قوم ہوں یا وہ سیکولر ادارے ہوں جو شریعت الٰہی سے بے نیاز ہو کر قانون سازی کرتے ہیں، اور جنہیں قوم، پارٹی یا کسی ہستی کے نام سے حاکمیتِ اعلٰی کا منصب حاصل ہوتا ہے ، حالانکہ حاکمیتِ اعلٰی کا منصب خدا کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہے اور اسے صرف اسی شکل میں بروئے کار لایا جا سکتا ہے جو خدا نے اپنے رسولوں کے ذریعے اپنے بندوں کے لیے پسند فرمائی ہے ۔
روئے زمین پر پائے جانے والے تمام یہودی اور عیسائی معاشرے بھی جاہلی معاشرے ہیں۔ انہوں نے اپنے عقائد میں تحریف کر رکھی ہے اور الوہیت کو صرف اللہ تعالٰی کی مخصوصی صفت قرار دینے کے بجائے دوسروں کو بھی اُس میں شریک ٹھیراتے ہیں۔ اس شرک نے کئی صورتیں اختیار کر رکھی ہیں۔ کہیں یہ ابنیت کی شکل میں ہے اور کہیں تثلیث کی شکل میں۔ کہیں اس نے اللہ کے بارے میں ایسا تصور قائم کر رکھا ہے جو اللہ کی حقیقت کے منافی ہے ۔ کہیں اُس نے مخلوق کے ساتھ اللہ کے تعلق کو ایسا رنگ دے رکھا ہے جو سراسر خلافِ حق ہے ۔
وَقَالَتِ الْيَہودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللّہ وَقَالَتْ النَّصَارَی الْمَسِيحُ ابْنُ اللّہ ذَلِكَ قَوْلُہم بِأَفْوَاہہمْ يُضَاہؤُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن قَبْلُ قَاتَلَہمُ اللّہ أَنَّی يُؤْفَكُونَ (التوبہ 30)
یہودی کہتے ہیں عُزیر اللہ کا بیٹا ہے اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے ۔ یہ بے حقیقت باتیں ہیں جو وہ اپنی زبانوں سے نکالتے ہیں اُن لوگوں کی دیکھا دیکھی جو ان سے پہلے کفر میں مبتلا ہوئے ۔ خدا کی مار ان پر یہ کہاں سے دھوکا کھا رہے ہیں۔
لَّقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُواْ إِنَّ اللّہ ثَالِثُ ثَلاَثَۃ وَمَا مِنْ إِلَ۔ہ إِلاَّ إِلَ۔ہ وَاحِدٌ وَإِن لَّمْ يَنتَہواْ عَمَّا يَقُولُونَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِنْہمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (المائدہ 73)
یقیناً کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ اللہ تین میں کا ایک ہے ، حالانکہ ایک خدا کے سوا کوئی خدا نہیں ہے ۔ اگر یہ لوگ اپنی ان باتوں سے باز نہ آئے تو ان میں سے جس جس نے کفر کیا ہے اًس کو دردناک سزا دی جائے گی۔
وَقَالَتِ الْيَہودُ يَدُ اللّہ مَغْلُولَۃ غُلَّتْ أَيْدِيہمْ وَلُعِنُواْ بِمَا قَالُواْ بَلْ يَدَاہ مَبْسُوطَتَانِ يُنفِقُ كَيْفَ يَشَاء (المائدہ 64)
یہودی کہتے ہیں اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، باندھے گئے ان کے ہاتھ اور لعنت پڑی اِن کی اس بکواس کی بدولت جو یہ کرتے ہیں، اللہ کے ہاتھ توکشادہ ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے ۔
وَقَالَتِ الْيَہودُ وَالنَّصَارَی نَحْنُ أَبْنَاء اللّہ وَأَحِبَّاؤُہ قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُم بِذُنُوبِكُم بَلْ أَنتُم بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ (المائدہ 18)
یہود اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں۔ ان سے پوچھو پھر وہ تمہارے گناہوں پر تمہیں سزا کیوں دیتا ہے ۔ در حقیقت تم بھی ویسے ہی انسان ہو جیسے اور انسان خدا نے پیدا کیے ہیں۔
یہ معاشرے اس لیے بھی جاہلی ہیں کہ انہوں نے اپنے لیے عبودیت کے جو مراسم اور پرستش کی جو شکلیں وضع کر رکھی ہیں وہ ان کے گمراہانہ عقائد اور مشرکانہ تصورات سے ماخوذ ہیں اور اس لیے بھی یہ جاہلی معاشرے ہیں کہ ان کے تمام قوانین و شرائع بندگئ رب کی اساس پر قائم نہیں ہیں، نہ وہ خدا کی بے ہمتا حاکمیت کا اقرار کرتے ہیں اور نہ خدا کی شریعت کو اختیارات کی واحد اساس تسلیم کرتے ہیں۔ بلکہ انہوں نے انسانوں پر مشتمل ایسے ادارے قائم کر رکھے ہیں جنہوں نے حاکمیتِ اعلٰی کے اُس منصب و مقام پر قبضہ جما رکھا ہے جو صرف اللہ تعالٰی کا حق ہے ۔ قرآن نے اپنے نزول کے دور میں ایسے لوگوں کو مشرک اور کافر کا لقب دیا تھا۔ کیونکہ ان لوگوں نے حاکمیت کا یہی حق اپنے احبار و رہبان کو دے رکھا تھا، جو من مانی شریعت وضع کرتے تھے اور یہ لوگ اسے بے چون و چرا قبول کرتے تھے ۔
اتَّخَذُواْ أَحْبَارَہمْ وَرُہبَانَہمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّہ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُواْ إِلاَّ لِيَعْبُدُواْ إِلَ۔ہا وَاحِدًا لاَّ إِلَ۔ہ إِلاَّ ہوَ سُبْحَانَہ عَمَّا يُشْرِكُونَ (التوبہ 31)
انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابنِ مریم کو بھی حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں ہے ، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو لوگ کرتے ہیں۔
یہ لوگ اپنے احبار و رہبان کی الوہیت کا عقیدہ نہیں رکھتے تھے اور نہ ان کے سامنے مراسم بندگی بجا لاتے تھے بلکہ وہ فقط یہ تسلیم کرتے تھے کہ احبار و رہبان کو حاکمیت کا مقام حاصل ہے ۔ چنانچہ وہ اللہ کے اذن و حکم سے بے نیاز ہو کر جو شریعت سازی کر کرتے تھے یہ لوگ اُسے اختیار کر لیتے تھے ۔ اگر اُس وقت قرآن نے انہیں مشرک اور کافر کہہ کر پکارا تھا تو آج تو بدرجہ اولٰی ان کا مشرک اور کافر ہونا ثابت ہے ۔ اس لیے کہ آج انہوں نے جن لوگوں کو یہ حق دے رکھا ہے وہ احبار اور رہبان نہیں ہیں بلکہ انہی کے ہم پلہ افراد ہیں۔
اس سلسلے میں آخری بات یہ سمجھ لینی چاہیے کہ موجودہ دور میں پائے جانے والے نام نہاد "مسلم" معاشرے بھی دراصل جاہلی معاشرے ہیں۔ جس بنا پر ہم انہیں جاہلی معاشروں میں شمار کرتے ہیں وہ یہ نہیں ہے کہ وہ اللہ کے سوا کسی اور ہستی کی الوہیت پر ایمان رکھتے ہیں یا غیر اللہ کے سامنے مراسمِ بندگی بجا لاتے ہیں بلکہ وہ اس معنی میں جاہلی معاشرے ہیں کہ ان کا نظامِ حیات بندگئ رب کے اصول پر نہیں چل رہا ہے ۔ وہ اگرچہ اللہ کے سوا کسی اور الٰہ پر ایمان نہیں رکھتے ۔ مگر انہوں نے الوہیت کی صفت خاص یعنی حاکمیت کو دوسروں کے حوالے کر رکھا ہے ، اور غیر اللہ کی حاکمیت تسلیم کر رکھی ہے ۔ یہی حاکمیت ان کے نظام زندگی، اقدار و معیار حیات، روایات، رسم و رواج الغرض تقریباۤ ان کی پوری حیات اجتماعی کی اساس ہے ۔
ارباب حاکمیت کے بارے میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے :
وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّہ فَأُوْلَ۔ئِكَ ہمُ الْكَافِرُونَ (المائدہ 44)
جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں۔
اور محکومین کے بارے مین فرمایا:
أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّہمْ آمَنُواْ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُواْ إِلَی الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُواْ أَن يَكْفُرُواْ بِہ (النساء: 60)
اے نبی! تم نے دیکھا نہیں اُن لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اُس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں، مگر چاہتے ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لیے طاغوت کی طرف رجوع کریں حالانکہ انہیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّی يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَہمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِہمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيمًا (النساء: 65)
نہیں اے محمد! تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ کریں، بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں۔
اس سے پہلے اللہ تعالٰی نے یہود اور نصاریٰ کو اسی جرم کا مرتکب قرار دیا تھا اور ان کے جرائم کی فہرست میں شرک، کفر، اللہ کی بندگی سے انحراف اور اس کے مقابلے میں احبار اور رہبان کی بندگی اختیار کر لینا بتایا تھا، اور ان تمام جرائم کی واحد بنیاد یہ بتائی کہ انہوں نے احبار اور رہبان کو وہی حقوق اور اختیارات دے رکھے تھے جو آج اسلام کا دعویٰ کرنے والوں نے اپنی ہی ملّت کے کچھ لوگوں کو دے رکھے ہیں۔ یہود اور نصاریٰ کا یہ فعل اللہ تعالٰی کے نزدیک ویسا ہی شرک قرار پایا جیسا شرک نصاریٰ کا عیسٰی ابن مریم کو رب اور الٰہ بنانا، اور اُن کی بندگی کرنا تھا۔ اسلام کے نزدیک شرک کی ان دو اقسام میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ دونوں یکساں لحاظ سے خدائے واحد کی بندگی سے خروج، دینِ الٰہی سے سرتابی اور لا الٰہ الا اللہ کی شہادت سے انحراف کے مترادف ہیں۔
موجودہ مسلم معاشروں میں سے بعض تو برملا اپنی "لادینیت" کا اعلان کرتے ہیں اور دین کے ساتھ اپنے ہر گونہ تعلقات کی کلّی طور پر نفی کرتے ہیں۔ بعض معاشرے زبان کی حد تک "دین کا احترام" کرتے ہیں مگر اپنے نظامِ اجتماعی سے انہوں نے دین کو فارغ خطی دے رکھی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم "غیب" کے قائل نہیں ہیں، ہم اپنے اجتماعی نظام کی عمارت "علم و تجربہ" پر اٹھائیں گے ۔ جہاں "علم و تجربہ" ہوگا وہاں "غیب" نہیں چل سکے گا۔ یہ دونوں ایک دوسرے کی ضِد ہیں۔ لیکن ان کا یہ خیال بذاتِ خود ایک نوع کی جہالت ہے ، اور صرف وہی لوگ اس طرح کی باتیں کر سکتے ہیں جو سراسر جہالت کے پتلے ہوں کچھ ایسے معاشرے بھی ہیں جنہوں نے حاکمیت کی زمامِ کار عملاً غیر اللہ کو سونپ رکھی ہے ، وہ جیسی شریعت چاہتے ہیں گھڑ لیتے ہیں، اور پھر اپنی اس خانہ ساز شریعت کے بارے میں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ "یہ خدا کی شریعت ہے " ۔۔۔۔۔۔۔ یہ تمام معاشرے اس لحاظ سے مساوی حیثیت رکھتے ہیں کہ ان کی بنیادیں بندگئ رب پر قائم نہیں ہیں۔
اس اُصولی حقیقت کے الم نشرح ہو جانے کے بعد ان تمام جاہلی معاشروں کے بارے میں اسلام کا موقف اس ایک فقرے میں بیان کیا جا سکتا ہے کہ "اسلام ان تمام معاشروں کی اسلامیت اور قانونی جواز کو تسلیم نہیں کرتا" اسلام کی نظر ان لیبلوں، ٹائٹلوں اور سائن بورڈوں پر نہیں ہے جو ان معاشروں نے اپنے اوپر لگا رکھے ہیں۔ اس ظاہر فریبی کے باوجود ان تمام معاشروں میں ایک بات مشترک پائی جاتی ہے ، اور وہ یہ ہے کہ ان سب کا نظامِ زندگی اللہ تعالٰی کی کامل بندگی سے خالی ہے ۔ اس لحاظ سے یہ معاشرے دوسرے کافر اور مشرک معاشروں کے ساتھ جاہلیت کے وصف میں ہم رنگ اور ہم آہنگ ہیں۔
اس بحث سے اب ہم خود بخود اس آخری نکتے تک پہنچ گئے ہیں، جسے ہم نے اس فصل کے آغاز میں بیان کیا ہے ، یعنی انسانی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے اسلام کا دائمی اور ابدی طریقِ کار کیا ہے ، وہ طریق کار جو قیدِ زمان و مکان سے آزاد ہے اور ہر زمانے میں خواہ وہ دور حاضر ہو یا آنے والا کوئی دورِ بعید ۔۔۔۔۔ اسلام کا واحد طریقہ کار رہے گا ۔۔۔۔۔ اس سوال کا جواب ہم اُس بحث کی روشنی میں معلوم کر سکتے ہیں جو ہم اوپر "مسلم معاشرے کی فطرت و حقیقت" کے عنوان سے کر چکے ہیں، اور جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلم معاشرہ اپنی زندگی کے ہر چھوٹے بڑے معاملے کو اللہ کی بندگی پر قائم کرتا ہے ۔ مسلم معاشرے کی یہ فطرت معیّن ہو جانے کے بعد ہمیں ایک اور اہم سوال کا دو ٹوک جواب بھی مل سکتا ہے ۔ وہ سوال یہ ہے کہ وہ اصل کیا ہے جسے انسانی زندگی کا ماخذ و مرجع اور بِنا اور اساس ہونا چاہیے ؟ کیا اللہ کا دین اور اس کا پیش کردہ نظامِ حیات ہماری یہ ضرورت پوری کر سکتا ہے ؟ یا اس کے لیے ہمیں کسی انسانی نظامِ حیات کی طرف رجوع کرنا پڑے گا؟
اسلام اس سوال کا نہایت دو ٹوک اور غیر مبہم جواب بلا تامّل و تردّد ہمارے سامنے رکھ دیتا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ انسانی زندگی کو من حیث المجموع جس اصل کو اپنا مرجّع و اساس قرار دینا چاہیے وہ اللہ کا دین اور اس کا تجویز کردہ نظامِ حیات ہے ۔ جب تک اس کو حیاتِ اجتماعی کی اساس اور اس کا محور و مرکز نہ بنایا جائے گا لا الٰہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کی شہادت جو اسلام کا رکنِ اول ہے نہ قائم ہو سکے گی اور نہ اپنے حقیقی اثرات و نتائج ہی پیدا کر سکے گی۔ جب تک اس اصل کو تسلیم نہ کیا جائے اور بے چون و چرا اس کا اتباع نہ کیا جائے اُس وقت تک خدا کی بندگئ خالص کا تقاضا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہرگز پورا نہ ہوگا۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے :
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہ وَمَا نَہاكُمْ عَنْہ فَانتَہوا (حشر 7)
رسول جو کچھ تمہیں سے اُسے پکڑ لو اور جس چیز سے منع کرے اُس سے رُک جاؤ۔
مزید برآں اسلام انسان کے سامنے یہ سوال بھی رکھتا ہے کہ: انتم اعلم ام اللہ (کیا تم زیادہ علم رکھتے ہو یا اللہ؟) اور پھر خود ہی یہ جواب دیتا ہے کہ: واللہ یعلم وانتم لا تعلمون (اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے )، وما اوتیتم من العلما الا قلیلا (جو کچھ تمہیں علم دیا گیا ہے وہ بہت کم ہے ) اب ظاہر ہے کہ وہ ہستی جو علم رکھتی ہے ، جس نے انسان کو پیدا کیا، اور جو اس کی رزق رساں ہے اُسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ انسان کی حکمران بھی ہو اور اُس کا دین زندگی کا نظام ہو، اور اُسی کو زندگی کا مرجع و منبع ٹھیرایا جائے ۔ رہا انسان کے خود ساختہ افکار و نظریات تو ان میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے ۔ اور وہ انحراف کا شکار ہو جاتے ہیں، کیوں کہ وہ انسانی علم پر مبنی ہوتے ہیں اور ناقص ہوتے ہیں، ۔۔۔۔۔۔ انسان خود ناآشنائے راز ہے اور جو علم اسے دیا گیا ہے وہ بہت تھوڑا اور ناقص ہے ۔
خدا کا دین کوئی چیستاں نہیں ہے اور نہ اُس کا پیش کردہ نظامِ حیات کوئی سیال شے ہے کلمۂ شہادت کے دوسرے جُز میں اُس کی واضح حد بندی کر دی گئی ہے ، اور اُن نصوص و قواعد و اصول میں اُسے منضبط کر دیا گیا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائے ہیں۔ اگر کسی معاملے میں نص موجود ہو تو وہی بنائے فیصلہ ہوگی اور نص کے ہوتے ہوئے اجتہاد کی گنجائش نہ ہوگی، اور اگر نص نہ پائی جائے گی تو اجتہاد اپنا رول ادا کرے گا، مگر اُن اصولوں اور ضابطوں کے تحت جو اللہ نے اپنے نظامِ حیات میں بیان کر دیے ہیں نہ کہ اہواء و خواہشات کا تابع بن کر:
فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوہ إِلَی اللّہ وَالرَّسُولِ (النساء 59)
اگر کسی بات میں تمہارے درمیان نزاع برپا ہو جائے تو اُسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو۔
اجتہاد و استنباط کے اصول بھی مقرر کر دیے گئے ہیں۔ اور وہ معلوم و معروف ہیں۔ ان میں کوئی ابہام نہیں پایا جاتا ہے اور نہ اُن میں کسی نوعیت کا ڈھیلا پن پایا جاتا ہے ۔ مگر کسی کو یہ اجازت نہیں ہے وہ اپنے بنائے ہوئے قانون کو اللہ کی شریعت بتائے ۔ البتہ اگر اللہ کی حاکمیت اعلٰی کا اعلان کر دیا جائے ، اور قوت و اختیار کا ماخذ صرف اللہ سبحانہ و تعالٰی ہو، کوئی قوم یا پارٹی یا کوئی فرد بشر اس کا سرچشمہ نہ ہو، اور منشائے الٰہی معلوم کرنے کے لیے اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کی طرف رجوع کیا جاتا ہو تو ایسی صورت میں جو قانون سازی ہوگی وہ شریعت کی حدود کے اندر شمار ہوگی۔ مگر یہ حق ہر اُس شخص کو نہیں دیا جا سکتا جو اللہ کے نام پر اپنے اقتدار کا سکّہ جمانا چاہتا ہو۔ جیسا کہ کسی زمانے میں یورپ تھیاکریسی اور "مقدس بادشاہت" کے پردے میں اس کا مزہ چکھ چکا ہے ۔ اسلام میں اس طرز کی حکومت کی کوئی گنجائش نہیں ہے ، یہاں رسول کے سوا اللہ کے نام پر کسی اور کو اپنا حکم چلانے کا اختیار نہیں ہے ۔ یہاں واضح اور بین نصوص موجود ہیں جو شریعت الٰہی کے حدود اربعہ کا تعین کر دیتی ہیں۔
"دین زندگی کے لیے ہے " یہ ایک ایسا جملہ ہے جسے انتہائی غلط معنی پہنائے گئے ہیں اور اسے یکسر غلط استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔ بے شک "دین زندگی کے لیے ہے " مگر کس قسم کی زندگی کے لیے ؟
یہ دین اس زندگی کے لیے ہے جسے یہ خود تعمیر کرتا، اور اپنے طریقِ کار کے مطابق پروان چڑھاتا ہے ۔ یہ زندگی انسانی فطرت سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہوتی ہے اور انسان کی تمام حقیقی ضروریات کی کفیل ہوتی ہے ۔ ضروریات سے مراد وہ "ضروریات" نہیں ہیں جن کو انسان بزعم خویش اپنی ضروریات سمجھ بیٹھتا ہے ، بلکہ ان کا تعین صرف وہی ہستی طے کر سکتی ہے اور کرے گی، جس نے انسان کو پیدا کیا اور اس کی اور اپنی اور دوسری مخلوق کی تمام ضروریات سے بخوبی واقف ہے ۔
أَلاَ يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَہوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ (ملک 14)
کیا جس نے مخلوق کو پیدا کیا ہے وہ اُس کے حال کو نہیں جانتا ہے ۔ وہ تو باریک بین اور باخبر ہے ۔
دین کا کام یہ نہیں ہے کہ جس طرز کی بھی زندگی ہو وہ اُسے برحق ثابت کرتا پھرے ، اور اُس کے لیے سند جواز فراہم کر کے دے اور ایسا شرعی فتوے ٰ اس کے لیے مہیا کر دے جسے وہ مستعار لیبل کی طرح اپنے اوپر چسپاں کر لے ۔ بلکہ دین تو اس لیے ہے کہ وہ زندگی کو اپنی کسوٹی پر پرکھے ، جو کھرا ہو اُسے برقرار رکھے اور جو کھوٹا ثابت ہو اسے اٹھا کر پرے پھینک دے ۔ اگر زندگی کا پورا نظام بھی اُس کی مرضی کے خلاف ہو تو وہ اسے ختم کر کے اُس کی جگہ نئی زندگی کی تعمیر کرے ۔
دین کی تعمیر کردہ یہ زندگی ہی اصل اور برحق زندگی ہوگی۔ اس فقرے کا مفہوم یہی ہے کہ اسلام زندگی کا دین ہے ۔ اس فقرے میں اس کے علاوہ کسی اور مفہوم کی تلاش کسی طرح بھی صحیح اور درست نہیں ہوگی!
یہاں پر یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ "کیا بشری مصلحت ہی وہ اصل چیز نہیں ہے جسے انسانی زندگی کی صورت گری کرنا چاہیے ؟" لیکن ہم یہاں پھر اسی سوال کو قارئین کے سامنے رکھیں گے ، جسے اسلام خود اُٹھاتا ہے اور خود ہی اس کا جواب دیتا ہے کہ انتم اعلم ام اللہ (کیا تمہیں زیادہ علم ہے یا اللہ کو) واللہ یعلم و انتم لا تعلمون (دراصل اللہ ہی جانتا ہے اور علم رکھتا ہے اور تم نہیں جانتے ہو) شریعت الٰہی جس شکل میں اللہ نے نازل فرمائی ہے اور جس شکل میں اللہ کے رسول نے ہم تک پہنچائی ہے وہ خود بشری مصالح کا پورا پورا لحاظ کرتی ہے ۔ اگر کبھی انسان کو یہ گمان ہوتا ہے کہ اس کی مصلحت اس قانون کی پابندی میں نہیں بلکہ خلاف ورزی میں ہے جو اللہ نے انسانوں کے لیے تجویز فرمایا ہے تو اولاً تو اس کے اس قیاس اور احساس کی حیثيت ایک واہمہ اور وسوسہ سے زیادہ نہیں:
إِن يَتَّبِعُونَ إِلاَ الظَّنَّ وَمَا تَہوَی الْأَنفُسُ وَلَقَدْ جَاءہم مِّن رَّبِّہمُ الْہدَی • أَمْ لِلْإِنسَانِ مَا تَمَنَّی • فَلِلَّہ الْآخِرَۃ وَالْأُولَی (النجم 23 – 25)
یہ لوگ بس اٹکل اور اپنی نفسانی خواہشوں پر چلتے ہیں اس کے باوجود کہ ان کے پروردگار کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے ۔ کہیں انسان کو من مانی مراد بھی ملی ہے ۔ سو آخرت اور دنیا میں سب کچھ اللہ ہی کے اختیار میں ہے ۔
اور ثانیاً اسے یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ شریعت کے بارے میں اس موقف کا اختیار کرنا کفر کے مترادف ہے ۔ آخر یہ کیوں کر ہوسکتا ہے کہ ایک شخص یہ اعلان بھی کرے کہ اس کی رائے میں مصلحت و منفعت شریعت الٰہی کی مخالفت میں ہے اور اس کے باوجود وہ اس دین کا پیرو بھی رہے ، اور صرف پیرو ہی نہ رہے بلکہ اہلِ دین میں شمار ہو!!!
 

ابوشامل

محفلین
باب ششم
آفاقی ضابطۂ حیات
اسلام فکر و عمل کی دنیا میں اپنے عقیدہ کی عمارت اللہ کی بندگئ کامل کی بنیاد پر اٹھاتا ہے ۔ اس کے اعتقادات، عبادات اور جملہ قوانین حیات، سب میں یکساں طور پر اس بندگی کا اظہار ہوتا ہے ۔ بندگی کی اسی جامع صورت کو وہ "لا الہ الا اللہ" کی قولی شہادت کا صحیح عملی تقاضا گردانتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیفیتِ بندگی کی تفصیل کا حصول اس کے نزدیک "محمد رسول اللہ" کی شہادت کا ناگزیر عملی نتیجہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلام اپنی عمارت اس طرح اٹھاتا ہے کہ کلمۂ شہادت کے دونوں حصے اسلامی نظامِ زندگی کا تعین کریں اور اس کے نورانی خدوحال کی صورت گری کریں اور اس کی خصوصیات کو طے کریں، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلام اگر ایسی لاثانی طرز پر اپنی عمارت چُنتا ہے جو تاریخ کے تمام انسانی نظاموں سے اُسے جداگانہ حیثیت دے دیتی ہے تو دراصل اسلام اپنے اس رویے کی بدولت اُس "مرکزی قانون" سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے جو صرف انسانی وجود ہی کو نہیں پوری کائنات کو بھی مُحیط ہے ، اور جس کا دائرۂ عمل صرف انسانی زندگی کے نظام تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ پورے نظام ہستی کو اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے ۔
پوری کائنات ایک ہی مرکزی قانون کے تابع ہے
اسلامی نظریہ کے مطابق اس تمام کائنات کو اللہ نے خلعتِ تخلیق بخشا ہے ، اللہ تعالٰی نے اُس کو وجود میں لانے کا ارادہ فرمایا اور وہ وجود پذیر ہو گئی اور پھر اللہ تعالٰی نے اُس کے اندر ایسے نوامیسِ فطرت ودیعت کر دیے جن کی بدولت وہ حرکت کر رہی ہے ۔ اسی کے طفیل اس کے تمام اجزاء اور پرزوں کی حرکت میں بھی تناسب اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور اس کی کلّی حرکت میں بھی نظم و ضبط اور تناسب و توازن ملتا ہے :
إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَيْءٍ إِذَا أَرَدْنَاہ أَن نَّقُولَ لَہ كُن فَيَكُونُ (نحل 40)
جب ہم کسی چیز کو وجود میں لانا چاہتے ہیں تو اُسے صرف یہی کہنا ہوتا ہے کہ ہو جا اور بس وہ ہو جاتی ہے ۔
وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَہ تَقْدِيرًا (فرقان 2)
اور اُس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور پھر اُسے ٹھیک ٹھیک اندازے پر رکھا۔
اس کائنات کے پسِ پردہ ایک ارادہ کارفرما ہے جو اس کی تدبیر کرتا ہے ، ایک طاقت ہے جو اسے حرکت بخشی ہے ، ایک قانون ہے جو اسے پابندِ نظام رکھتا ہے ۔ یہی قوت اس کائنات کے مختلف اجزاء میں نظم و ضبط قائم رکھتی ہے اور ان کی حرکت و گردش کو ایک ضابطے میں کَس کر رکھتی ہے ۔ چنانچہ نہ وہ کبھی ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں، نہ ان کے نظام میں کبھی کوئی خلل ہی واقع ہوتا ہے ، وہ کبھی متعارض و بے ہنگم نہیں ہوتے ، اُن کی مسلسل و منظم حرکت میں کبھی ٹھیراؤ راہ نہیں پاتا، وہ اُس وقت تک جاری ہے اور رہے گی جب تک مشیّتِ ایزدی اُسے جاری رکھنا چاہے گی۔ یہ کائنات اس مدبّر ارادے ، محرک قوت اور غالب و قاہر ضابطے کی مطیع اور تابع اور اس کے آگے سر عجز و نیاز خم کیے ہوئے ہے ۔ حتٰی کہ ایک لمحہ کے لیے بھی یہ ممکن نہیں کہ وہ اس الٰہی ارادے سے سرتابی کرے ، اس کی نافرمانی کرے اور اس کے بنائے ہوئے قانون کے خلاف چلے ۔ اسی اطاعت شعاری اور فرمانبرداری کی وجہ سے یہ کائنات صحیح و سلامت گردش کر رہی ہے ، اور اس وقت تک اس میں کوئی خرابی اور فساد اور انتشار راہ نہیں پا سکتا جب تک مشیت ایزدی اسے ختم کرنے کا فیصلہ نہ کر دے ۔
إِنَّ رَبَّكُمُ اللّہ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ فِي سِتَّۃ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّہارَ يَطْلُبُہ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِہ أَلاَ لَہ الْخَلْقُ وَالأَمْرُ تَبَارَكَ اللّہ رَبُّ الْعَالَمِينَ (اعراف 54)
درحقیقت تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر اپنے تخت سلطنت پر متمکن ہوا۔ جو رات کو دن پر ڈھانک دیتا ہے اور پھر دن رات کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے ۔ جس نے سورج اور چاند اور تارے پیدا کیے ۔ سب اس کے فرمان کے تابع ہیں۔ خبردار رہو، اُسی کی خلق ہے اور اُسی کا امر ہے ۔ بڑا بابرکت ہے اللہ، سارے جہانوں کا مالک اور پروردگار۔
انسان غیر ارادی پہلوؤں میں مرکزی قانون کا تابع ہے
انسان اس کائنات کا ایک جُز ہے ۔ جو قوانین انسان کی فطرت پر فرمانروائی کرتے ہیں وہ اس مرکزی نظام سے مستثنٰی نہیں ہیں جو پوری کائنات کو محیط ہے ۔ اس کائنات کو بھی اللہ ہی نے خلعتِ وجود بخشا، اور انسان کا خالق بھی اللہ ہے ۔ انسان کی جسمانی ساخت اسی زمین کی مٹی سے کی گئی ہے لیکن اللہ تعالٰی نے اس کے اندر کچھ ایسی خصوصیات بھی رکھ دی ہیں جو ایک ذرہ خاکی سے فزوں تر ہیں۔ انہی کی بدولت آدمی انسان بنتا ہے ، لیکن یہ خصوصیات اللہ تعالٰی نے ایک مقررہ اندازے کے مطابق اُسے ارزانی عطا فرمائی ہیں۔ انسان اپنے جسمانی وجود کی حد تک طوعاً و کرہاً اُس قانونِ فطرت کا تابع ہے جو اللہ تعالٰی نے اُس کے لیے مقرر فرما دیا ہے ۔ اس کی تخلیق کا آغاز اللہ کی مشیت سے ہوتا ہے نہ کہ اُس کی اپنی مرضی سے یا اپنے باپ اور ماں کی مرضی سے ۔ اس کے ماں اور باپ صرف باہمی اتصال پر قادر ہیں، لیکن قطرۂ آب کو وجودِ انسانی میں بدلنے کی طاقت و ہرگز نہیں رکھتے ۔ اللہ نے مدتِ حمل اور طریقۂ ولادت کے لیے جو اصول وضع فرما دیا ہے انسان اُسی کے مطابق پیدا ہوتا ہے اور اُسی ہوا میں سانس لیتا ہے جو اللہ نے اُس کے لیے پیدا کی ہے ، اور اتنی مقدار میں اور اُسی کیفیت کے تحت لیتا ہے جو اللہ نے اس کے لیے مقرر کر دی ہے ۔ وہ قوت احساس و ادراک رکھتا ہے ، درد سے متاثر ہوتا ہے ، اُسے بھوک اور پیاس ستاتی ہے ، وہ کھاتا اور پیتا ہے ، الغرض وہ چاہے نہ چاہے اس کو اپنی پوری زندگی ناموسِ الٰہی کے مطابق بسر کرنا پڑتی ہے ، اور اُس کے ارادہ و اختیار کو اس میں کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اس لحاظ سے اس میں اور اس کائنات اور اس میں پائی جانے والی ذی روح اور غیر ذی روح مخلوق میں سرِمُو فرق نہیں ہے ۔ سب اللہ کی مشیت، قدرت اور قانون کے آگے غیر مشروط طور پر سر تسلیم و اطاعت خم کیے ہوئے ہیں۔
جس اللہ نے اس کائنات کو وجود بخشا اور انسان کو پیدا کیا، اور جس نے انسان کو بھی ان قوانین کے تابع بنایا جن قوانین کے تابع یہ پوری کائنات ہے ، اُسی ذات بے عیب نے انسان کے لیے ایک شریعت اُسی ہمہ گیر قانونِ الٰہی کا ایک حصہ ہے جو انسان کی فطرت پر اور اس مجموعی کائنات کی فطرت پر فرماں روائی کر رہا ہے اور اس کو ایک لگے بندھے ضابطے کے تحت چلا رہا ہے ۔
اللہ کا ہر کلمہ، اس کا ہر امر و نہی، اس کا ہر وعدہ، اس کی ہر وعید، اس کا ہر قانون، اور اس کی ہر ہدایت کائنات کے مرکزی قانون ہی کا ایک حصہ ہے اور ویسے ہی سربسر سچائی اور صحت پر مبنی ہے جو ان قوانین میں پائی جاتی ہے جنہیں ہم نوامیس فطرت ۔۔۔۔۔ یا خدا کے کائناتی قوانین ۔۔۔۔۔ سے تعبیر کرتے ہیں اور جو اپنی پوری فطرت اور ازلی صداقت کے ساتھ ہمیں اس کائنات میں رو بعمل نظر آتے ہیں۔ ان کی کار فرمائی میں اللہ تعالٰی کے مقرر کردہ ان اندازوں کا پرتو ملتا ہے جو اس نے ان کے لیے ٹھیرا رکھے ہیں۔
شریعت الٰہی مرکزی قانون سے ہم آہنگ ہے
یہ اس بات کی بہت بڑی دلیل ہے کہ وہ شریعت جسے اللہ تعالٰی نے انسانی زندگی کی تنظیم کے لیے وضع فرمایا ہے دراصل ایک کائناتی شریعت ہے ۔ اس لحاظ سے کہ وہ کائنات کے مرکزی قانون سے مربوط اور ہم آہنگ ہے ۔ اس حقیقت کے پیش نظر شریعت الٰہی کا اتباع انسانی زندگی کی ایک ناگزیر ضرورت بن جاتا ہے کیوں کہ صرف اسی طرح انسان اور کائنات میں جس میں وہ جی رہا ہے ، توافق اور ہم آہنگی پیدا ہو سکتی ہے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ واقعہ یہ ہے کہ انسان کی طبعی زندگی میں کار فرما (طبعی) قوانین (Physical Laws) اور اس کی ارادی زندگی کے (اخلاقی) قوانین (Moral Laws) میں بھی ہم آہنگی شریعتِ الٰہی کے اتباع سے ہی ابھر سکتی ہے ۔ صرف اسی طریقہ سے "اندر" اور "باہر" کے انسان کو وحدت اور یگانگی سے ہم کنار کیا جا سکتا ہے ۔ انسان کائنات کے تمام قوانین اور اس میں کار فرما مرکزی نظام کے ادراک سے عاجز اور قاصر ہے ۔ کائناتی قوانین کا ادراک فہم تو بڑی بات ہے ۔ وہ تو اس قانون کو بھی نہیں سمجھ پاتا جس کے ضابطے میں اس کی ذات جکڑی ہوئی ہے ، اور جس سے سرِمُو انحراف بھی اس کے لیے ناممکن ہے ۔ یہی وہ عجز و درماندگی ہے جس کی وجہ سے انسان اس بات پر قادر نہیں کہ وہ اپنی زندگی کے لیے کوئی ایسی شریعت وضع کر سکے جس کی تنقید سے حیات انسانی اور حرکت کائنات کے مابین ہمہ گیر توافق تو کجا خود اس کی اپنی فطرت خفی اور حیات ظاہری کے درمیان ہی ہم آہنگی قائم ہو سکے ۔ یہ قدرت صرف اسی ذات کو حاصل ہے جو کائنات کی صانع ہے اور انسان کی خالق بھی، جو کائنات کی تدبیر و انتظام بھی کرتی ہے اور انسانی معاملات کی مدبر و منتظم ہے ۔ اور سب کو اسی ایک مرکزی قانون میں جکڑے ہوئے ہے جسے اُس نے خود منتخب و پسند فرمایا ہے ۔
پس یہی وہ حقیقت ہے شریعت کے اتباع کو لازم اور ناگزیر بنا دیتی ہے ۔ تاکہ کائنات کے ساتھ مکمل موافقت پیدا ہو سکے ۔ اس کا اتباع اتنا ہی لازم و ناگزیر ہے جتنا اعتقادی اور نظری طور پر اسلام کا قیام۔ کسی فرد یا جماعت کی زندگی اس وقت تک اسلام کے رنگ سے خالی رہے گی جب تک بندگی کو صرف اللہ تعالٰی کے لیے مخصوص نہ کیا جائے گا، اور بندگی کو بجا لانے کا وہ طریقہ نہ اپنایا جائے گا، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کو سکھایا ہے ۔ بالفاظ دیگر جب تک اسلام کے رکن اول کے دونوں اجزاء لا الہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کا عملی زندگی میں ظہور نہ ہوگا، زندگی خواہ وہ انفردی ہو یا اجتماعی نورِ اسلام سے بے بہرہ ہوگی۔
شریعت الٰہی کا اتباع کیوں لازم ہے
انسانی زندگی اور قانون کائنات کے مابین ہمہ گیر توافق بنی نوع انسان کے لیے سراسر خیر و فلاح کا موجب ہے ۔ یہی ایک صورت ہے جس سے انسانی زندگی فساد و شر سے محفوظ رہ سکتی ہے ۔ انسان کو اگر کائنات کے ساتھ سلامتی کا رویہ اختیار کرنا ہے اور خود اپنی ذات سے بھی امن میں رہنا ہے ، تو اس کے لیے کائنات سے توافق و ہم آہنگی پیدا کرنا ایک ناگزیر ضرورت ہے ! اب رہا کائنات کی جانب سے انسان کے مامون و مصؤن رہنے کی صورت تو وہ صرف انسان اور کائنات کی حرکت میں باہمی مطابقت اور یک جہتی پر موقوف ہے ۔ اسی طرح خود انسان اور اس کی اپنی ذات کے درمیان امن و سلامتی کا قیام بھی صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ انسان کی ظاہری حرکت اور اس کے صحیح فطری تقاضوں میں مکمل ہمنوائی ہو تاکہ انسان اور فطرت کے درمیان تصادم اور معرکہ آرائی کی کیفیت رونما نہ ہو۔ یہ صرف شریعتِ الٰہی ہی کا کمال ہے کہ اس کے ذریعے انسان کی مادی زندگی اور اس کی فطرتِ حقیقی کے درمیان نہایت سہولت اور ہمواری کے ساتھ توافق اور تعاون پیدا کیا جا سکتا ہے اور جب فطرت کے ساتھ انسان تعاون و یکجہتی کی فضا پیدا کر لیتا ہے تو اس کے نتیجہ میں انسانوں کے باہمی تعلقات اور زندگی کی عمومی جدوجہد کے درمیان از خود توافق کی عمل داری قائم ہو جاتی ہے ، کیوں کہ انسان جب فطرت کے ساتھ تعاون کی روش اختیار کرتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حیات انسانی اور کائنات میں مکمل توافق جنم لیتا ہے ، اور انسان کی زندگی اور کائنات میں ایک ہی نظام کی کارفرمائی قائم ہوجاتی ہے ۔ یوں انسانی زندگی کا اجتماعی پہلو بھی باہمی تصادم اور تعارض سے پاک ہو جاتا ہے اور انسانیت خیر کلّی سے بہرہ اندوز ہو جاتی ہے ۔ اس کے بعد کائنات کے مختلف اسرار بھی اس کے لیے اسرار نہیں رہتے ۔ انسان فطرت کا آشنائے راز بن جاتا ہے ، کائنات کی مخفی طاقتیں اس کے سامنے آشکار ہو جاتی ہیں، اور کائنات کی پہنائیوں میں چھپے ہوئے خزانوں کا سراغ اسے مل جاتاہے ۔ وہ ان قوتوں اور خزانوں کو اللہ کی شریعت کی رہنمائی میں انسانی کی کلّی فلاح و سعادت کے لیے استعمال کرتا ہے اس طرح کہ نہ کہیں تصادم پیدا ہوتا ہے ، اور نہ انسان اور فطرت میں رسّہ کشی اور نزاع کی نوبت آتی ہے ، بصورت دیگر ان دونوں میں مستقل طور پر کھینچا تانی ہوتی رہتی ہے اور اللہ کی شریعت کے بالمقابل انسان کی خواہشات اور نفسانی اہواء سر اٹھاتی رہتی ہیں۔ اس بارے میں اللہ کا ارشاد ہے کہ:
وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَہوَاءہمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِيہنَّ (مومنون 71)
اور اگر حق ان کی خواہشات کے پیچھے چلتا تو زمین اور آسمان اور ان کی ساری آبادی کا نظام درہم برہم ہو جاتا۔
"حق" ناقابلِ تقسیم ہے
اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی نظریہ کی رُو سے "حق" ایک اکائی ہے ۔ یہی اس دین کی بنیاد ہے ، اور اسی پر زمین و آسمان کا نظام قائم ہے ، اور اسی سے دنیا و آخرت کے تمام معاملات درست ہوتے ہیں، اسی کے بارے میں انسانوں کو اللہ تعالٰی کے روبرو جواب دہی کرنی ہے ۔ اور جو اس سے تجاوز کرتے ہیں، ان کو وہ سزا بھی دیتا ہے ۔ حق ایک وحدت ہے ، جس کی تقسیم نا ممکن ہے ۔ اور یہ کائنات کے اُسی مرکزی قانون سے عبارت ہے جس کو اللہ تعالٰی جل شانہ نے تمام حالات کے لیے جاری فرما رکھا ہے اور جس کے آگے عالم وجود کی تمام انواع اور تمام ذی روح و غیر ذح روح مخلوقات سر اطاعت خم کیے ہوئے ہیں اور مکمل طور پر اس کی گرفت میں ہیں:
لَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ كِتَابًا فِيہ ذِكْرُكُمْ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ • وَكَمْ قَصَمْنَا مِن قَرْيَۃ كَانَتْ ظَالِمَۃ وَأَنشَأْنَا بَعْدَہا قَوْمًا آخَرِينَ • فَلَمَّا أَحَسُّوا بَأْسَنَا إِذَا ہم مِّنْہا يَرْكُضُونَ • لاَ تَرْكُضُوا وَارْجِعُوا إِلَی مَا أُتْرِفْتُمْ فِيہ وَمَسَاكِنِكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْأَلُونَ • قَالُوا يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ • فَمَا زَالَت تِّلْكَ دَعْوَاہمْ حَتَّی جَعَلْنَاہمْ حَصِيدًا خَامِدِينَ • وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاء وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَہمَا لاَعِبِينَ • لَوْ أَرَدْنَا أَن نَّتَّخِذَ لَہوًا لاَتَّخَذْنَاہ مِن لَّدُنَّا إِن كُنَّا فَاعِلِينَ • بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُہ فَإِذَا ہوَ زَاہقٌ وَلَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُونَ • وَلَہ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ عِندَہ لاَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِہ وَلاَ يَسْتَحْسِرُونَ • يُسَبِّحُونَ اللَّيْلَ وَالنَّہارَ لاَ يَفْتُرُونَ (انبیاء 10 تا 20)
بے شک ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب بھیجی ہے جس میں تمہارا ہی ذکر ہے ۔ کیا تم سمجھتے نہیں ہو۔ کتنی ہی ظالم بستیاں ہیں جن کو ہم نے پیس کر رکھ دیا اور اُن کے بعد دوسری قوم کو اٹھایا۔ جب اُن کو ہمارا عذاب محسوس ہوا تو لگے سر پٹ دوڑنے (کہا گیا) بھاگو نہیں، جاؤ اپنے گھروں اور عیش کے سامانوں میں جن کے اندر تم چین کر رہے تھے ، شاید کہ تم سے پوچھا جائے ۔ کہنے لگے ہائے ہماری کم بختی، بے شک ہم خطا وار تھے ۔ اور وہ یہی پکارتے رہے یہاں تک کہ ہم نے کھلیان کر دیا۔ اور وہ بھسم ہو کر رہ گئے ۔ ہم نے اس آسمان اور زمین کو اور جو کچھ بھی ان میں ہے کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنایا ہے ۔ اگر ہم کوئی کھلونا بنانا چاہتے اور بس یہی کچھ ہمیں کرنا ہوتا تو اپنے ہی پاس سے کر لیتے ۔ مگر ہم تو باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں جو اس کا سر توڑ دیتی ہے اور وہ دیکھتے دیکھتے مٹ جاتا ہے اور تمہارے لیے تباہی ہے اُن باتوں کی وجہ سے جو تم بناتے ہو۔ زمین و آسمان میں جو مخلوق بھی ہو وہ اللہ کی ہے اور جو (فرشتے ) اس کے پاس ہیں وہ نہ اپنے آپ کو بُرا سمجھ کر اُس کی بندگی سے سرتابی کرتے ہیں اور نہ ملول ہوتے ہیں۔ شب و روز اُسی کی تسبیح کرتے رہتے ہیں۔ دَم نہیں لیتے ۔
کائنات "حق" پر قائم ہے
انسان کی فطرت اپنی گہرائیوں میں اس "حق" کا پورا پورا ادراک رکھتی ہے ۔ ایک طرف انسان کی اپنی ہیئت اور ساخت اور دوسری طرف اس کے ارد گرد پھیلی ہوئی وسیع و عریض کائنات کی ساخت و تربیت ہر لحظہ انسان کو یاد دلاتی رہتی ہے کہ یہ کائنات حق پر استوار ہے ، اور حق ہی اس کا اصل و جوہر ہے ، اور یہ ایک ایسے مرکزی قانون سے مربوط ہے جس نے اس کو ثبات و دوام بخش رکھا ہے ۔ چنانچہ اس کائنات میں کوئی اختلال پیدا نہیں ہوتا، اس کی راہیں جدا جدا نہیں ہیں، اس میں اختلافِ دَور نہیں ہے ، اس کے اجزاء میں کوئی تضاد نہیں ہے ، وہ الل ٹپ طریقے پر کام نہیں کر رہی ہے ، نہ وہ محض بخت و اتفاق کی مرہونِ منت ہے ، نہ ایک باقاعدہ منصوبے اور اسکیم کے بغیر رواں دواں ہے ، وہ ہر آن بدلتی ہوئی خواہشات اور سرکش اہواء انسانی کے ہاتھوں میں محض کھلونا بھی نہیں ہے ، بلکہ وہ اپنے جُز رس، سخت گیر اور مقررہ نظام کی شاہراہ پر بے چون و چرا چل رہی ہے ۔ اختلافات کا آغاز انسان اور اس کی فطرت کے درمیان تصادم پیدا ہو جانے سے ہوتا ہے اور وہ اس وقت ہوتا ہے جب انسان اُس "حق" سے منحرف ہو جاتا ہے ، جو اُس کی فطرت کی اتھاہ گہرائیوں میں پنہاں ہے اور اُس کی خواہشات اُس پر حاوی ہو جاتی ہے ، اور پھر وہ اپنا قانون حیات اللہ کی شریعت سے اخذ کرنے کے بجائے خواہشات کی شریعت سے حاصل کرنے لگتا ہے ، اور جس طرح یہ کائنات اپنے مولٰی کے آگے سر افگندہ ہے اُسی طرح وہ اپنے ارادہ و اختیار اور اُس کے آگے سر افگندہ ہونے کے بجائے سرتابی اور سرکشی کو شیوہ بنا لیتا ہے ۔
حق سے انحراف کے نتائج
جس طرح انسان اور اس کی فطرت اور انسان اور کائنات کے درمیان تصادم اور اختلاف پیدا ہو جاتا ہے اسی طرح یہی اختلافات بڑھتے بڑھتے انسانی افراد، انسانی گروہوں، قوموں اور ملّتوں اور مختلف انسانی نسلوں کے باہمی اختلاف کی صورت بھی اختیار کر لیتا ہے ، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کائنات کی تمام قوتیں اور ذخائر و خزائن بجائے اس کے کہ نوعِ انسانی کی فلاح و ترقی میں استعمال ہوں، الٹا اس کے حق میں وسائل ہلاکت اور اسباب شقاوت بن جاتے ہیں۔
اس تفصیل سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ وہ واضح مقصد جس کے لیے دنیا میں اللہ تعالٰی کی شریعت کا قیام مطلوب ہے وہ صرف آخرت کے لیے ذخیرۂ عمل جمع کرنا ہی نہیں ہے ۔ دنیا اور آخرت دو مختلف چیزیں نہیں ہیں بلکہ ایک ہی منزل کے دو مرحلے ہیں، دونوں برابر کی حیثیت رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ اللہ تعالٰی کی شریعت ایک طرف انسانی زندگی میں ان دونوں مرحلوں میں توافق کا رنگ پیدا کرتی ہے اور دوسری طرف پوری انسانی زندگی کو کائنات کے مرکزی قانون کے ساتھ مربوط کرتی ہے ۔ چنانچہ کائنات کے مرکزی قانون کے ساتھ جب توافق پیدا ہوگا تو اس کے نتیجے میں انسان کو سعادت و خوش بخشی کی جو دولت ملے گی وہ آخرت تک کے لیے ملتوی نہیں رکھی جائے گی بلکہ پہلے مرحلہ (دنیا) میں بھی اُس کے فوائد ظاہر ہو کر رہیں گے ۔ البتہ آخرت میں وہ اوجِ کمال اور نقطۂ عروج کو پہنچے گی۔
یہ ہے اس پوری کائنات کے بارے میں اور اس کے ایک جُز، انسانی وجود کے بارے میں اسلامی تصور کی بنیاد۔ یہ تصور اپنی فطرت و اصلیت کے لحاظ سے ان تمام تصورات سے بنیادی اختلاف رکھتا ہے جو دنیا میں اب تک رائج رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تصور اپنے جِلو میں جن ذمہ داریوں اور فرائض کو لے کر آتا ہے وہ دنیا کے کسی دوسرے تصور اور نظریۂ حیات میں نہیں ملتے ۔ اس تصور کی رُو سے شریعت الٰہی کا اتباع اور دراصل اس ضرورت کا اقتضاء ہے کہ حیات انسانی اور حیات کائنات کے درمیان اور اسُ قانون کے درمیان جو انسانی فطرت اور کائنات میں کار فرما ہے ، کامل ارتباط ہونا چاہیے ۔ اسی ضرورت کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ کائنات کے مرکزی قانون کے درمیان اور حیاتِ انسانی کی تنظیم کرنے والی شریعت کے درمیان بھی پوری مطابقت ہو۔ نیز شریعتِ الٰہی کے اتباع ہی سے انسان کماحقہ اللہ کی بندگی کا فریضہ انجام دے سکتا ہے جس طرح یہ کائنات صرف اللہ کی بندگی کر رہی ہے اور کوئی انسان اپنے لیے اس کی بندگی کا مدعی نہیں ہے ۔
جس توافق اور مطابقت کی ضرورت کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے اُسی کا اشارہ اُس گفتگو میں بھی موجود ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام امّت مسلمہ کے باپ ۔۔۔۔۔۔ اور نمرود کے درمیان ہوئی۔ یہ شخص ایک جابر فرمانروا تھا اور ملک کے اندر بندگانِ خدا پر اپنی خدائی کا دعویدار تھا، مگر اس کے باوجود افلاک اور سیاروں اور ستاروں کی دنیا اس کے دعوئٰ خدائی سے خارج رہی۔ اس کے سامنے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دلیل پیش کی کہ "جو ذات اس پوری کائنات کے اقتدار کی مالک ہے صرف اُسی ذات کو انسانی زندگی پر بھی اقتدار (Sovereignty) حاصل ہونا چاہیے "۔ تو وہ مبہوت ہو کر رہ گیا، اس دلیل کا اس سے کوئی جواب نہ بن پڑا، قرآن سے اس قصے کو یوں نقل کیا ہے :
أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِي حَآجَّ إِبْرَاہيمَ فِي رِبِّہ أَنْ آتَاہ اللّہ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاہيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِ۔ي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِ۔ي وَأُمِيتُ قَالَ إِبْرَاہيمُ فَإِنَّ اللّہ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِہا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُہتَ الَّذِي كَفَرَ وَاللّہ لاَ يَہدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (بقرہ: 258)
کیا تم نے اُس شخص کے حال پر غور نہیں کیا جس نے ابراہیم سے جھگڑا کیا تھا، اس بات پر کہ ابراہیم کا رب کون ہے ۔ اور اس بنا پر کہ اس شخص کو اللہ نے حکومت دے رکھی تھی۔ جب ابراہیم نے کہا میرا رب وہ ہے جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے ، تو اُس نے جواب دیا زندگی اور موت میرے اختیار میں ہے ۔ ابراہیم نے کہا: اچھا، اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تُو ذرا اُسے مغرب سے نکال لا، یہ سُن کر وہ منکرِ حق ششدر رہ گیا۔ مگر اللہ ظالموں کو راہ راست نہیں دکھایا کرتا۔
بے شک اللہ نے سچ فرمایا:
أَفَغَيْرَ دِينِ اللّہ يَبْغُونَ وَلَہ أَسْلَمَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْہا وَإِلَيْہ يُرْجَعُونَ (آل عمران 83)
اب کیا یہ لوگ اللہ کی اطاعت کا طریقہ (دین اللہ) چھوڑ کر کوئی اور طریقہ چاہتے ہیں، حالانکہ زمین و آسمان کی ساری چیزیں چاروناچار اللہ ہی کی تابع فرمان ہیں، اور اُسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے ۔
 

ابوشامل

محفلین
باب ہفتم
اسلام ہی اصل تہذیب ہے​
اسلامی معاشرے اور جاہلی معاشرے کا بنیادی فرق
اسلام صرف دو قسم کے معاشروں کو جانتا ہے ۔ ایک اسلامی معاشرہ اور دوسرا جاہلی معاشرہ۔ اسلامی معاشرہ وہ ہے جس میں انسانی زندگی کی زمامِ قیادت اسلام کے ہاتھ میں ہو۔ انسانوں کے عقائد و عبادات پر، ملکی قانون اور نظام ریاست پر، اخلاق و معاملات پر غرضیکہ زندگی کے ہر پہلو پر اسلام کی عملداری ہو۔ جاہلی معاشرہ وہ ہے جس میں اسلام عملی زندگی سے خارج ہو۔ نہ اسلام کے عقائد و تصورات اس پر حکمرانی کرتے ہو، نہ اسلامی اقدار اور رد و قبول کے اسلامی پیمانوں کو وہاں برتری حاصل ہو، نہ اسلامی قوانین و ضوابط کا سکہ رواں ہو اور نہ اسلامی اخلاق و معاملات کسی درجہ فوقیت رکھتے ہوں۔
اسلامی معاشرہ وہ نہیں ہے جو "مسلمان" نام کے انسانوں پر مشتمل ہو، مگر اسلامی شریعت کو وہاں کوئی قانونی پوزیشن حاصل نہ ہو۔ ایسے معاشرے میں اگر نماز، روزے اور حج کا اہتمام بھی موجود ہو، تو بھی وہ اسلامی معاشرہ نہیں ہوگا، بلکہ وہ ایک ایسا معاشرہ ہے جو خدا اور رسول کے احکام اور فیصلوں سے آزاد ہو کر اپنے مطالبۂ نفس کے تحت اسلام کا ایک جدید ایڈیشن تیار کر لیتا ہے ، اور اُسے ۔۔۔۔ برسبیلِ مثال ۔۔۔۔۔ "ترقی پسند اسلام" کے نام سے موسوم کرتا ہے !
جاہلی معاشرہ مختلف بھیس بدلتا رہتا ہے ، جو تمام کے تمام جاہلیت ہی سے ماخوذ ہوتے ہیں۔ کبھی وہ ایک ایسے اجتماع کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے ، جس میں اللہ کے وجود کا سرے سے انکار کیا جاتا ہے اور انسانی تاریخ کی مادی اور جدلی تعبیر (Dialectal Interpretation) کی جاتی ہے اور "سائنٹفک سوشلزم" نظام زندگی کی حیثيت سے عملی جامہ پہنایا جاتا ہے ۔ کبھی وہ ایک ایسی جمعیت کے رنگ میں نمودار ہوتا ہے جو خدا کے وجود کی تو منکر نہیں ہوتی، لیکن اُس کی فرماں روائی اور اقتدار کو صرف آسمانوں تک محدود رکھتی ہے ۔ رہی زمین کی فرماں روائی تو اس سے خدا کو بے دخل رکھتی ہے ۔ نہ خدا کی شریعت کو نظامِ زندگی میں نافذ کرتی ہے ، اور نہ خدا کی تجویز کردہ اقدارِ حیات کو جسے خدا نے انسانی زندگی کے لیے ابدی اور غیر متغیر اقدار ٹھیرایا ہے فرماں روائی کا منصب دیتی ہے ۔ وہ لوگوں کو یہ تو اجازت دیتی ہے کہ وہ مسجدوں، کلیساؤں اور عبادت گاہوں کی چار دیواری کے اندر خدا کی پوجا پاٹ کر لیں، لیکن یہ گوارا نہیں کرتی کہ لوگ زندگی کے دوسرے پہلوؤں کے اندر بھی شریعتِ الٰہی کو حاکم بنائیں۔ اس لحاظ سے وہ جمعیت تختۂ زمین پر خدا کی الوہیت کی باغی ہوتی ہے کیونکہ وہ اُسے عملی زندگی میں معطل کر کے رکھ دیتی ہے ، حالانکہ اللہ تعالٰی کا صریح فرمان ہے : وھو الذی فی السماء الہ و فی الارض الہ (وہی خدا ہے جو آسمان میں بھی الٰہ ہے اور زمین میں بھی) اس طرزِ عمل کی وجہ سے یہ معاشرہ اللہ کے اس پاکیزہ نظام کی تعریف میں نہیں آتا جسے اللہ تعالٰے نے آیت ذیل میں "دین قیّم" سے تعبیر فرمایا ہے :
إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّہ أَمَرَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاہ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ (یوسف 40 )
حکم صرف اللہ کا ہے ۔ اُسی کا فرمان ہے کہ اُس کے سوا کسی کی بندگی نہ کی جائے ۔ یہی دین قیّم (ٹھیٹھ سیدھا طریقِ زندگی) ہے ۔
یہی وہ اجتماعی طرزِ عمل ہے جس کی وجہ سے یہ معاشرہ بھی جاہلی معاشروں کی صف میں شمار ہوتا ہے ۔ چاہے وہ لاکھ اللہ کے وجود کا اقرار کرے اور لوگوں کو مسجدوں اور کلیساؤں اور صوامع کے اندر اللہ کے آگے مذہبی مراسم کی ادائیگی سے نہ روکے ۔
صرف اسلامی معاشرہ ہی مہذب معاشرہ ہوتا ہے
آغاز میں ہم اسلامی معاشرہ کی جو تعریف کر آئے ہیں اُس کی بنا پر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ صرف اسلامی معاشرہ ہی درحقیقت "مہذب معاشرہ" ہے ۔ جاہلی معاشرے خواہ جس رنگ اور روپ میں ہوں بنیادی طور پر پسماندہ اور غیر مہذب معاشرے ہوتے ہیں۔ اس اجمال کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے ۔
ایک مرتبہ میں نے اپنی ایک زیرِ طبع کتاب کا اعلان کیا اور اُس کا نام رکھا "نحو مجتمع اسلامی متحضر" (مہذب اسلامی معاشرہ)۔ لیکن اگلے اعلان میں میں نے "مہذب" کا لفظ حذف کر دیا اور اس کا نام صرف "اسلامی معاشرہ" رہنے دیا۔ اس ترمیم پر ایک الجزائری مصنف کی جو فرانسیسی زبان میں لکھتے ہیں نظر پڑی اور انہوں نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس تبدیلی کا محرک وہ نفسیاتی عمل ہے جو اسلام کی مدافعت کے ذہن پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ موصوف نے افسوس کیا کہ یہ عمل جو ناپختگی کی علامت ہے مجھے اصل مشکل کا حقیقت پسندانہ سامنا کرنے سے روک رہا ہے ۔ میں اِس الجزائری مصنف کو معذور سمجھتا ہوں۔ میں خود بھی پہلے اُنہی کا ہم خیال تھا اور جب میں نے پہلی مرتبہ اس موضوع پر قلم اٹھایا تو اُس وقت میں بھی اُسی انداز پر سوچ رہا تھا جس انداز پر آج وہ سوچ رہے ہیں۔ اور جو مشکل آج انہیں درپیش ہے وہی مشکل اس وقت خود مجھے درپیش تھی۔ یعنی یہ کہ "تہذیب کسے کہتے ہیں؟" اُس وقت تک میں نے اپنی اُن علمی اور فکری کمزوریوں سے نجات نہیں پائی تھی جو میری ذہنی اور نفسیاتی تعمیر میں رچ بس چکی تھیں۔ ان کمزوریوں کا ماخذ مغربی لٹریچر اور مغربی افکار و تصورات تھے جو بلاشبہ میرے اسلامی جذبہ و شعور کے لیے اجنبی تھے ، اور اُس دور میں بھی وہ میرے واضح اسلامی رحجان اور ذوق کے خلاف تھے ۔ تاہم ان بنیادی کمزوریوں نے میری فکر کو غبار آلود اور اُس کے پاکیزہ نقوش کو مسخ کر رکھا تھا۔ تہذیب وہ تصور جو یورپی فکر میں پایا جاتا ہے میری آنکھوں میں سمایا رہتا تھا، اس نے میرے ذہن پر پردہ ڈال رکھا تھا اور مجھے نکھری ہوئی اور حقیقت رسا نظر سے محروم کر رکھا تھا۔ مگر بعد میں اصل تصویر نکھر کر سامنے آ گئی اور مجھ پر یہ راز کھلا کہ اسلامی معاشرہ ہی دراصل مہذب معاشرہ ہوتا ہے ۔ میں نے اپنی کتاب کے نام پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ اس میں لفظ "مہذب" زائد ہے ۔ اور اس سے مفہوم میں کسی نئی چیز کا اضافہ نہیں ہوتا بلکہ یہ لفظ الٹا قاری کے احساسات پر اُس اجنبی فکر کی پرچھائیاں ڈال دے گا جو میرے ذہن پر بھی چھائی رہی ہیں اور جنہوں نے مجھے صحت مندانہ نگاہ سے محروم کر رکھا تھا۔
اب موضوع زیر بحث یہ ہے کہ "تہذیب کسے کہتے ہیں" اس حقیقت کی وضاحت ناگزیر معلوم ہوتی ہے ۔
جب کسی معاشرے میں حاکمیت صرف اللہ کے لیے مخصوص ہو، اور اس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ اللہ کی شریعت کو معاشرے میں بالاتری حاصل ہو تو صرف ایسے معاشرے میں انسان اپنے جیسے انسانوں کی غلامی سے کامل اور حقیقی آزادی حاصل کر سکتے ہیں۔ اسی کامل اور حقیقی آزادی کا نام "انسانی تہذیب" ہے ۔ اس لیے کہ انسان کی تہذیب ایک ایسا بنیادی ادارہ چاہتی ہے جس کی حدود میں انسان مکمل اور حقیقی آزادی سے سرشار ہو اور معاشرے کا ہر فرد غیر مشروط طور پر انسانی شرف و فضیلت سے متمع ہو۔ اور جس معاشرے کا یہ حال ہو کہ اس میں کچھ لوگ رب اور شارع بنے ہوں اور باقی ان کے اطاعت کیش غلام ہوں، تو ایسے معاشرے میں انسان کو بحیثیت انسان کوئی آزادی نصیب نہیں ہوتی اور نہ وہ اس شرف و فضیلت سے ہمکنار ہو سکتا ہے جو لازمۂ انسانیت ہے ۔
یہاں ضمناً یہ نکتہ بیان کردینا بھی ضروری ہے کہ قانون کا دائرہ صرف قانونی احکام تک ہی محدود نہیں ہوتا، جیسا کہ آج کل لفظ شریعت کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں محدود اور تنگ مفہوم پایا جاتا ہے ۔ بلکہ تصورات، طریقۂ زندگی، اقدار حیات، رد و قبول کے پیمانے ، عادات و روایات یہ سب بھی قانون کے دائرے میں آتے ہیں اور یہ افراد پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگر انسانوں کا ایک مخصوص گروہ یہ سب بیڑیاں یا دباؤ کے اسالیب ہدایت الہی سے بے نیاز ہو کر تراش لے اور معاشرے کے دوسرے افراد کو ان میں مقید کر کے رکھ دے تو ایسے معاشرے کو کیوں کر آزاد معاشرہ کہا جا سکتا ہے ۔ یہ تو ایسا معاشرہ ہے جس میں بعض افراد کو مقام ربوبیت حاصل ہے اور باقی لوگ ان ارباب کی عبودیت میں گرفتار ہیں۔ اس وجہ سے یہ معاشرہ پسماندہ معاشرہ شمار ہوگا یا اسلامی اصطلاح میں اسے جاہلی معاشرہ کہیں گے ۔
صرف اسلامی معاشرہ ہی وہ منفرد اور یکتا معاشرہ ہے جس میں اقتدار کی زمان صرف ایک الٰہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور انسان اپنے ہم جنسوں کی غلامی کی بیڑیاں کاٹ کر صرف اللہ کی غلامی میں داخل ہو جاتے ہیں اور یوں وہ کامل اور حقیقی آزادی سے جو انسان کی تہذیب کا نقطۂ ماسکہ ہے ، بہرہ ور ہوتے ہیں۔ اس معاشرے میں انسانی فضیلت و شرف اسی حقیقی صورت میں نور افگن ہوتی ہے جو اللہ تعالی نے اس کے لیے تجویز فرمائی ہے ۔ اس معاشرے میں انسان ایک طرف زمین پر اللہ کی نیابت کے منصب پر سرفراز ہوتا ہے ، اور دوسری طرف ملا اعلی میں اس کے لیے غیرمعمولی اعزاز اور مرتبہ بلند کا اعلان بھی ہو جاتا ہے ۔
اسلامی معاشرہ اور جاہلی معاشرہ کی جوہری خصوصیات
جب کسی معاشرے میں انسانی اجتماع اور مدنیت کے بنیادی رشتے عقیدہ، تصور، نظریہ اور طریق حیات سے عبارت ہوں اور ان کا ماخذ و منبع صرف ایک الٰہ ہو اور انسان نیابت کے درجہ پر سرفراز ہو اور یہ صورت نہ ہو کہ فرمانروائی کا سرچشمہ زمینی ارباب ہوں اور انسان کے گلے میں انسان کی غلامی کا طوق پڑا ہو ۔۔۔۔۔ بلکہ اس کے برعکس انسان صرف ایک خدا کے بندے ہوں تو تبھی ایک ایسا پاکیزہ انسانی اجتماع وجود میں آسکتا ہے ، جو ان تمام اعلٰی انسانی خصائص کی جلوہ گاہ ہوتا ہے جو انسان کی روح اور فکر میں ودیعت ہیں۔ لیکن اس کے برعکس اگر معاشرے کے اندر انسانی تعلقات کی بنیاد رنگ و نسل، اور قوم و ملک اور اسی نوعیت کے دوسرے رشتوں پر رکھی گئی ہو تو ظاہر ہے کہ یہ رشتے زنجیریں ثابت ہوتے ہیں اور انسان کے اعلٰی خصائص کو ابھرنے کا موقع نہیں دیتے ۔ انسان رنگ و نسل اور قوم و وطن کی حد بندیوں سے آزاد رہ کر بھی انسان ہی رہے گا مگر روح اور عقل کے بغیر وہ انسان نہیں رہ سکتا۔ مزید برآں یہ کہ وہ اپنے عقیدہ و تصور اور نظریۂ حیات کو اپنے آزاد ارادہ سے بدلنے کا بھی اختیار رکھتا ہے ، مگر اپنے رنگ اور اپنی نسل میں تبدیلی پر قادر نہیں ہے ، اور نہ اس بات کی اسے قدرت حاصل ہے کہ وہ کسی مخصوص قوم یا مخصوص وطن میں اپنی پیدائش کا فیصلہ کرے ۔ لہٰذا یہ ثابت ہوا کہ وہ معاشرہ جس میں انسان کا اجتماع ایک ایسی بات پر ہو جس کا تعلق ان کی آزاد مرضی اور ان کی ذاتی پسند سے ہو وہی معاشرہ نور تہذیب سے منور ہے ۔ اس کے برعکس وہ معاشرہ جس کے افراد اپنے انسانی ارادے سے ہٹ کر کسی اور بنیاد پر مجتمع ہوں، وہ پسماندہ معاشرہ ہے یا اسلامی اصطلاح میں وہ جاہلی معاشرہ ہے ۔
اسلامی معاشرے کو ہی یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس میں اجتماع کا بنیادی رشتہ عقیدہ پر استوار ہوتا ہے ، اور اس میں عقیدہ ہی وہ قومی سند ہوتا ہے جو کالے اور گورے اور احمر و زرد، عربی اور رومی، فارسی اور حبشی اور ان تمام اقوام کو جو روئے زمین پر آباد ہیں ایک ہی صف میں کھڑا کر دیتا ہے اور ایک ہی امت میں انہیں جمع کر دیتا ہے ، جس کا پروردگار صرف اللہ ہوتا ہے اور وہ صرف اسی کے آگے سر عجز و نیاز جھکاتی ہے ، اس میں معزز وہ ہے جو زیادہ متقی اور خدا ترس ہوگا، اس کے تمام افراد یکساں حیثیت رکھتے ہیں اوروہ سب ایسے قانون پر متفق ہوتے ہیں جو کسی انسان کا بنایا ہوا نہیں بلکہ اللہ نے ان کے لیے وضع فرمایا ہے ۔
جب معاشرے کے اندر انسان کی انسانیت ہی اعلٰی قدر سمجھی جاتی ہو، اور انسانی خصوصیات ہی مستحق تکریم اور لائق قدر ہوں تو یہ معاشرہ مہذب معاشرہ ہوتا ہے ۔ اور اگر مادیت ۔۔۔۔۔ خواہ وہ کسی شکل و صورت میں ہو ۔۔۔۔۔ قدر اعلٰی کا درجہ رکھتی ہو، قطع نظر اس کے کہ وہ نظریہ کی صورت میں ہو جیسے تاریخ کی مارکسی تعبیر میں قدر اعلٰی مادہ پرستی ہے ، یا مادی پیداوار کے رنگ میں ہو جیسا کہ امریکہ، یورپ اور ان تمام معاشروں کا حال ہے جو مادی پیداوار کو ہی اعلٰی قدر قرار دیتے ہیں اور اس کی قربان گاہ پر تمام دوسری اقدار اور انسانی خصوصیات کو بھینٹ چڑھا دیتے ہیں ۔۔۔۔ تو یہ معاشرہ پسماندہ معاشرہ کہلائے گا یا اسلامی اصطلاح میں اسے جاہلی معاشرہ کہیں گے ۔
مہذب معاشرہ ۔۔۔۔۔ یعنی اسلامی معاشرہ ۔۔۔۔۔۔ مادہ کو حقارت سے نہیں دیکھتا۔ نہ نظری طور پر اسے خارج از اعتبار ٹھیراتا ہے ، اور نہ مادی پیداوار میں ہی اسے نظر انداز کرتا ہے ۔ اس کا نظریہ یہ ہے کہ یہ کائنات جس میں ہم جی رہے ہیں اور جس پر ہم اثر انداز بھی ہوتے ہیں اور جس سے اثر پذیر بھی، مادہ ہی سے بنی ہے ۔ مادی پیداوار کو وہ دنیا میں خلافت الٰہیہ کا پشتیبان سمجھتا ہے ۔ پس فرق یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ مادہ کو قدر اعلٰی کا لباس پہنا کر اسے ایک ایسا معبود قرار نہیں دیتا جس کے آستانۂ تقدس پر انسان کی تمام روحانی و عقلی خصوصیات اور لوازم انسانیت کو نچھاور کر دیا جائے ، فرد کی آزادی اور شرف اس پر قربان کر دیا جائے ، خاندانی نظام کی بنیاد و اساس کو اس کی خاطر منہدم کر دیا جائے ، معاشرتی اخلاق اور معاشرے کے مقدس رشتوں کو پامال کر دیا جائے ، الغرض تمام بلند تر اقدار فضائل و مکارم اور عز و شرف کو خاک میں ملا دیا جائے ۔ جیسا کہ تمام جاہلی معاشرے مادی پیداوار کی فراوانی کے لیے سب کچھ کر ڈالتے ہیں۔
اگر اعلٰی انسانی اقدار اور ان پر تعمیر ہونے والے انسانی اخلاق کے ہاتھ میں معاشرے کی زمامِ کار ہو تو لاریب ایسا معاشرہ ہی صحیح معنوں میں گہوارۂ تہذیب ہوگا۔ انسانی اقدار اور انسانی اخلاق کوئی ڈھکی چھپی چیز یا ایسی چیز نہیں جو گرفت میں نہ آسکتی ہو، اور نہ یہ تاریخ کی مادی تعبیر اور سائنٹفک سوشلزم کے دعوے کے مطابق زمانے کے ساتھ ساتھ "ترقی" کرنے والی اور یوں ہر آن آمادۂ تغیر رہنے والی ہیں کہ کسی حال پر انہیں ٹھیراؤ نہ ہو اور کسی اصل و مرکز کے ساتھ ان کے قلابے ملے ہوئے نہ ہوں۔ بلکہ یہ وہ اقدار و اخلاق ہيں جو انسان کے اندر اُن انسانی خصائص کی آبیاری کرتی ہیں جو اُسے حیوان سے ممیّز کرتی ہیں، اور جو انسان کے اندر اُس جوہر کو زیادہ سے زیادہ نمایاں کرتی ہیں جو اُسے حیوانوں کی صف سے نکال کر انسانوں کی صف میں لاتا ہے ۔ یہ اقدار و اخلاق ایسے نہیں ہیں کہ یہ انسان کے اندر اُن صفات کی پرورش کریں اور اُن پہلوؤں کو اُبھاریں جن میں انسان اور حیوان یکساں طور پر شریک ہیں۔
 

ابوشامل

محفلین
تہذیب کا اصل پیمانہ
مسئلہ تہذیب کو جو اس پیمانے سے ناپا جائے تو ایک ایسا قطعی، اٹل اور ناقابل تغیّر خطِ فاصل ابھر کر سامنے آ جاتا ہے جو ان تمام کوششوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیتا ہے جو ترقی پسندوں اور سائنٹفک سوشلزم کے علمبرداروں کی طرف سے تہذيبی اقدار و اخلاق کو مادۂ سیال بنانے کے لیے متواتر صرف کی جا رہی ہیں۔ مسئلہ تہذیب کی تشریحِ بالا سے یہ بھی عیاں ہو گیا کہ "ماحول" اور "عُرف" کی اصطلاحیں دراصل اخلاقی اقدار کا تعین نہیں کرتی ہیں بلکہ بدلتے ہوئے ماحول اور عرف کے پس پردہ ایک ایسی ٹھوس اور تغیر نا آشنا میزان ہوتی ہے جو ان کا تعین کرتی ہے ، اور اس میزان کے اندر اس امر کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ کچھ اخلاقی اور اقدار "زرعی" کہلائیں اور کچھ "صنعتی" یا کچھ اخلاق و اقدار "سرمایہ دارانہ" ہوں اور کچھ "سوشلسٹ" یا "بورژو اخلاق" اور "پرولتاری اخلاق"۔ اور پھر ان اخلاقیات کا وجود بھی ختم ہو جاتا ہے جو ماحول، معیارِ زیست، عبوری دور اور ایسے ہی دیگر سطحی اور متغیّر پیمانوں کی پیداوار ہوں۔ بلکہ اس سطحی تقسیم اور تعبیر کے برعکس یہاں "انسانی" اخلاق و اقدار ہوتی ہیں یا ان کے برعکس "حیوانی" اخلاق و اقدار۔ اسلامی اصطلاح میں اسی بات کو ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ اخلاقیات کی صرف دو ہی اصناف ہیں: اسلامی اخلاق و اقدار اور جاہلی اخلاق و اقدار!
یہ انسانی اخلاق و اقدار انسان کے نفس میں اُن پہلوؤں کو جِلا دیتے ہیں جو انسان کو حیوان سے جُدا اور ممتاز کرتے ہیں، اسلام ان تمام معاشروں کے اندر جن پر اُسے غلبہ و سیادت نصیب ہوتی ہے ان اخلاق و اقدار کی تخم ریزی کرتا ہے اور پھر انہیں سینچتا ہے ، پروان چڑھاتا ہے ، ان کی دیکھ بھال کرتاہے ، اور ان کی جڑوں کو مضبوط سے مضبوط تر کرتا ہے ۔ خواہ یہ معاشرے زرعی دور سے گزر رہے ہوں یا صنعتی دور سے ۔ اور خواہ بدویانہ اور چرواہوں کے معاشرے ہوں اور جانوروں اور مویشیوں پر ان کی گزر بسر ہو، خواہ متمدّن اور قرار یافتہ ہوں، خواہ نادار مفلس ہوں اور خواہ توانگر اور سرمایہ دار۔ اسلام ہر حالت میں انسانی خصائص کو ترقی دیتا رہتا ہے اور حیوانیت کی طرف جانے سے انہیں بچائے رکھتا ہے ۔ دراصل اخلاق و اقدار کی دنیا میں وہ خطِ فاصل جس کی طرف ہم اوپر اشارہ کر آئے ہیں اُس کا اُبھار نیچے سے اوپر کی طرف ہے ۔ حیوانیت کی پست سطح سے انسانیت کی سطح مرتفع کی طرف جاتا ہے اور اگر یہ خط معکوس شکل اختیار کرلے تو مادی ترقی (تہذیب) کے ہوتے ہوئے بھی اس کو تہذیب کا نام نہ دیا جا سکے گا، بلکہ یہ تنزل و پسماندگی ہوگی یا جاہلیت۔
تہذیب کے فروغ میں خاندانی نظام کی اہمیت
اگر خاندان معاشرے کی اکائی ہوں، اور خاندان کی بنیاد اس اصول پر ہوکہ زوجین کے درمیان تقسیم کار ہو اور جو جس کام کی خصوصی صلاحیت اور فطری اہلیت لے کر دنیامیں آیا ہے اُسی کے مطابق اپنی ذمہ داریاں ادا کرے ، اور نئی پود کی تربیت و نگہداشت خاندان کا اصل وظیفہ ہو تو ایسا معاشرہ بلا شبہ مہذب معاشرہ ہوتا ہے ۔ اس طرز کا خاندانی نظام اسلامی اصولِ حیات کے تحت وہ ماحول مہیا کر دیتا ہے جس میں اعلٰی انسانی قدروں اور انسانی اخلاق کے شگوفے کھلتے ہیں اور نمو پذیر ہوتے ہیں اور نژاد نو کو اپنی تازگی اور نکہت سے نوازتے ہیں۔ یہ قدریں اور اخلاق خاندانی اکائی کے علاوہ کسی اور اکائی کے اندر شرمندۂ وجود نہیں ہو سکتے لیکن اگر جنسی تعلقات، جنہیں "آزاد جنسی تعلقات" کا نام دیا جاتا ہے ، اور ناجائز نسل معاشرے کی بنیادی اینٹ ہوں، اور مرد و عورت کا باہمی رشتہ نفسانی خواہش، جنسی بھوک اور حیوانی اکساہٹ پر قائم ہو اور خاندانی ذمہ داریوں اور قدرتی صلاحیتوں کے مطابق تقسیم کار کے اصول پر استوار نہ ہو۔ عورت کا کام صرف زینت و آرائش، دلربائی اور ناوک اندازی ہو، اور نئی پود کی تربیت و نگہداشت کے منصبِ اساسی سے دست بردار ہو جائے ، اور خود یا معاشرے کی طلب پر کسی ہوٹل، یا بحری جہاز یا ہوائی جہاز میں "مہمان نواز" بننے کو ترجیح دے ، اور اس طرح اپنی صلاحیتیں اور قوتیں انسان سازی کے بجائے مادی پیداوار اور سامان سازی پر صرف کر دے ۔ کیوں کہ "انسانی پیداوار" کی نسبت اُس کے لیے مادی پیداوار زیادہ نفع بخش،زیادہ عزت افزا اور زیادہ باعثِ نمود و ستائش ہے پس جب نوبت یہ آ جائے تو اسے انسانیت کے لیے تہذیبی پس ماندگی اور تہذیبی افلاس کا پیغام سمجھنا چاہیے ۔ اسی حالت کو اسلامی اصطلاح میں جاہلیت سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ خاندانی نظام اور زوجین کے باہمی تعلقات کی بنیاد یہ ایک ایسا اہم مسئلہ ہے جو معاشرے کی حیثیت متعین کرنے میں فیصلہ کن اور حرف آخر کا درجہ رکھتا ہے ۔ اسی کے ذریعے سے ہم جان سکتے ہیں کہ کوئی معاشرہ پسماندہ ہے یا مہذب، جاہلی ہے یا اسلامی۔ جن معاشروں پر حیوانی اقدار و اخلاق اور حیوانی جذبات و رحجانات کی سیادت ہوتی ہے وہ کبھی مہذب معاشرے نہیں ہو سکتے ۔ چاہے صنعتی، اقتصادی اور سائنسی ترقی میں وہ کتنے ہی عروج پر ہوں۔ یہ وہ پیمانہ ہے جو "انسانی ترقی" کی مقدار معلوم کرنے میں کبھی غلطی نہیں کرتا۔
تہذیبِ مغرب کا حال
عہد حاضر کے جاہلی معاشروں میں اخلاق کا مفہوم اس حد تک محدود ہو کر رہ گیا ہے کہ اس کے دائرے سے ہر وہ پہلو خارج ہو چکا ہے جو انسانی صفات اور حیوانی صفات میں خطِ فاصل کا کام دے سکتا ہے ۔ ان معاشروں کی نگاہ میں ناجائز جنسی تعلقات بلکہ افعال ہم جنسی تک بھی اخلاقی رذالت اور عجیب شمار نہیں ہوتے ۔ اخلاق کا مفہوم قریب قریب اقتصادی معاملات کے اندر محصور ہو کر رہ گیا ہے ، اور کبھی کبھار سیاست کے اندر بھی اس کا چرچا ہوتا ہے مگر ریاست کے مفادات کی حد تک۔ چنانچہ مثال کے طور پر کریسٹن کیلر اور برطانوی وزیر پروفیمو کا اسکنڈل جنسی پہلو سے برطانوی معاشرے کے اندر کوئی گھناؤنا واقعہ نہیں تھا۔ یہ اگر "شرمناک" تھا تو صرف اس پہلو سے کہ کریسٹن کیلر بیک وقت پروفیمو کی معشوقہ بھی تھی اور روسی سفارت خانے کے ایک بحری اتاشی سے بھی اُس کا معاشقہ تھا۔ اس وجہ سے نو عمر حسینہ کے ساتھ ایک وزیر کا تعلق قائم کرنا ریاست کے رازوں کے لیے باعث خطرہ تھا۔ اس پر اضافہ یہ ہوا کہ اس وزیر نے دروغ گوئی سے کام لیا اور برطانوی پارلیمنٹ کے سامنے اُس کے جھوٹ کا پول کھُل گیا۔ اس واقعہ سے ملتے جلتے وہ اسکنڈل ہیں جو امریکی سینٹ کے اندر افشا ہوتے رہتے ہیں، اور ان انگریز اور امریکی جاسوسوں اور سرکاری ملازمین کی حیا سوز داستانیں ہیں جو فرار ہو کر روس پناہ لے چکے ہیں مگر یہ سب واقعات اس پہلو سے کوئی اخلاقی حادثہ نہیں سمجھے گئے کہ ان کے پیچھے فعل ہم جنسی کا گھناؤنا پس منظر ہے بلکہ انہیں صرف اس وجہ سے اہمیت حاصل ہو گئی کہ ریاست کے راز ان کی لپیٹ میں آتے تھے ۔
دور و نزدیک کے تمام جاہلی معاشروں میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ اربابِ نگارش، اہلِ صحافت اور ادباء و افسانہ نویس نوخیز دوشیزاؤں اور شادی شدہ جوڑوں کو برملا یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ آزاد جنسی تعلقات قطعاً اخلاقی عیب نہیں ہیں۔ ہاں اگر کوئی لڑکا اپنی فرینڈ گرل یا کوئی لڑکی اپنے فرینڈ بوائے سے سچی محبت کے بجائے جھوٹا پیار کرے تو یہ بلاشبہ عیب کی بات ہے ۔ برائی یہ ہے کہ بیوی ایسی صورت میں بھی اپنی عفت و ناموس کی حفاظت کرتی رہے جب کہ اُس کے سینے میں اپنے خاوند کی محبت کی آگ بجھ چکی ہو۔ اور خوبی یہ ہے کہ وہ کوئی دوست تلاش کرے اور فراخ دلی کے ساتھ اپنا جسم اُسے پیش کر دے ۔ بیسیوں ایسی تحریریں ملتی ہیں جن میں اسی آوارگی اور آزاد خیالی کی دعوت دی جا رہی ہے ۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اخبارات کے اداریے ، فیچر، کارٹون، سنجیدہ اور مزاحیہ کالم اِسی طرزِ حیات کا مشورہ دے رہے ہیں۔
خاندانی نظام کا اصل رول
انسانیت کے نقطۂ نظر کی رُو سے اور ارتقائے انسانیت کے پیمانے کے مطابق ایسے معاشرے پسماندہ اور بیگانۂ تہذیب معاشرے ہیں۔ انسانیت کے ارتقاء کا خط جس سمت کو جاتا ہے اُس میں ہم دیکھتے ہیں کہ حیوانی جذبات کو لگام دی جاتی ہے ، اور اُن کی تسکین کا دائرہ محدود کیا جاتا ہے ۔ اس غرض کے لیے ایک خاندان کی بنیاد ڈالی جاتی ہے ، اور اس میں کام اور فرائض کی تقسیم فطری صلاحیتوں اور ذمہ داریوں کے مطابق کی جاتی ہے ۔ اس خاندانی نظام کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ جذبات وہ اصل انسانی وظیفہ سر انجام دیں جس کی غرض و غایت محض لذت پسندی نہیں ہے بلکہ ایسی انسانی نسل کی فراہمی ہے جو نہ صرف موجودہ نسل کی جانشیں ہو بلکہ اُس ممتاز اور بے نظیر انسانی تہذیب کی سچی وارث بن کر اُٹھے جس میں انسانی خصوصیات و اوصاف کے گلہائے رنگ رنگ عطر بیز رہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی انسانی نسل جو حیوانی خصائص اور جذبات کو پابجولاں رکھے اور انسانی خصائص کو زیادہ سے زیادہ ترقی و کمال تک پہنچائے صرف اُسی گہوارہ سے نکل سکتی ہے ۔ جس کے چاروں طرف تحفظات کی ایسی باڑھ کھڑی کر دی گئی ہو جس کے اندر ذہنوں کو پورا سکون نصیب ہو اور جذبات کسی ہیجان خیزی کا نشانہ نہ بننے پائیں اور جس گہوارہ کی داغ بیل ایک ایسے اہم فرض کو ادا کرنے کے لیے ڈالی گئی ہو جو وقتی جذبات اور ہنگامی تاثرات سے متاثر نہیں ہوتا۔ مگر جس معاشرے کی آبیاری ناپاک تعلیمات اور زہر آلود مشورے کر رہے ہوں اور جس میں اخلاقی تصور کا دائرہ اس حد تک سُکڑ جائے کہ وہ معاشرہ تمام جنسی آداب سے عاری ہو جائے تو ایسے معاشرے میں انسانیت ساز گہوارہ کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ اسلامی اقدار و اخلاق اور اسلامی تعلیمات و تحفظات ہی انسان کے لیے مفید اور مناسب ہو سکتے ہیں اور ترقی کے ٹھوس اور غیر متغیّر پیمانے کی رُو سے اسلام ہی اصل تہذیب ہے اور اسلامی معاشرہ ہی تہذیب کی اصل جلوہ گاہ ہے ۔
خدا پرست تہذیب اور مادی ترقی
خلاصہ یہ ہے کہ جب انسان دنیا کے اندر اللہ کی خلافت کو ہمہ پہلو قائم کرتا ہے ، اور اس کے تقاضے میں وہ صرف اللہ کی بندگی کے لیے وقف ہو جاتا ہے ، غیر اللہ کی ہر نوعیت کی عبودیت سے کاملۃً چھٹکارا پا لیتا ہے ، صرف اللہ کے پسندیدہ نظامِ زندگی کو قائم کرتا ہے اور دوسرے تمام غیر الٰہی نظام ہائے حیات کے جواز کو مسترد کر دیتا ہے ، اپنی زندگی کے ہر زاویے اللہ کی شریعت کو فرماں روا بناتا ہے اور دوسرے ہر قانون اور شریعت سے دستبردار ہو جاتا ہے ، ان اقدار و اخلاق کو آویزۂ گوش بناتا ہے جو اللہ نے پسند فرمائے ہیں اور نام نہاد اخلاق و اقدار کو دیوار پر دے مارتا ہے ۔ ایک طرف وہ یہ رویہ اختیار کرتا ہے اور دوسری طرف اُن کائناتی قوانین کا کھوج لگاتا ہے جو اللہ تعالٰے نے مادی اسباب کے اندر ودیعت کر رکھے ہیں، اور زندگی کو ترقی سے ہمکنار کرنے کے لیے ان قوانین سے استفادہ کرتا ہے ، انہیں زمین کے بے بہا خزانوں اور خوراک کے اُن لامتناہی ذخیروں کی دریافت کے لیے استعمال کرتا ہے جو اللہ تعالٰی نے سینۂ کائنات کے اندر چھپا رکھے ہیں اور اپنے نوامیس میں سے انہیں سر بہمر کر رکھا ہے اور انسان کو یہ قدرت دے دی ہے کہ وہ ان مہروں کو اس حد تک توڑ سکتا ہے جس حد تک ایسا کرنا اس کے لیے نیابت الٰہی کا فرض سر انجام دینے کے لیے ضروری اور ناگزیر ہو۔ الغرض جب انسان دنیا کے اندر اللہ کے عہد و میثاق کے مطابق خلافت الٰہیہ کا بول بالا کرتا ہے اور اس خلافت کے زیر سایہ وہ رزق کے خزانوں کا اکتشاف کرتا ہے ، مادۂ خام کو صنعت میں تبدیل کرتا ہے اور گوناگوں صنعتیں وجود میں لاتا ہے اور اُن سارے فنی تجربوں اور علمی معلومات کو کام میں لاتا ہے جو انسانی تاریخ کا حاصل ہیں۔ وہ ان تمام امور کو ایک خدا پرست انسان، اللہ کا خلیفۂ برحق اور سچا عبادت گزار ہونے کی حیثیت سے انجام دیتا ہے جب انسانی زندگی کے مادی اور اخلاقی پہلوؤں میں یہ رویہ اختیار کرتا ہے تو بلاشبہ اُس وقت انسان تہذیبی لحاظ سے درجۂ کمال کو پہنچتا ہے اور ایسا انسانی معاشرہ تہذیب کے بامِ عروج پر متمکن ہوتا ہے ۔ رہیں محض مادی ایجادات تو اسلام کی نگاہ میں اُنہیں تہذیب نہیں کہا جا سکتا۔ مادی ترقی اور جاہلیت ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں۔ عین ممکن ہے کہ معاشرے کے اندر مادی ترقی عروج پر ہو مگر اس کے باوجود جاہلیت کا دور دورہ ہو بلکہ اللہ تعالٰی نے قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر جاہلیت کا ذکر کرتے وقت جاہلی معاشروں کی مادی ترقی کو بھی بیان کیا ہے ۔ ذیل کی آیات میں اس کی مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں:
أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِيعٍ آيَۃ تَعْبَثُونَ • وَتَتَّخِذُونَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ • وَإِذَا بَطَشْتُم بَطَشْتُمْ جَبَّارِينَ • فَاتَّقُوا اللَّہ وَأَطِيعُونِ • وَاتَّقُوا الَّذِي أَمَدَّكُم بِمَا تَعْلَمُونَ • أَمَدَّكُم بِأَنْعَامٍ وَبَنِينَ • وَجَنَّاتٍ وَعُيُونٍ • إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ (الشعراء: 128 تا 135)
یہ تمہارا کیا حال ہے کہ ہر اونچے مقام پر لاحاصل ایک یادگار عمارت بنا ڈالتے ہو، اور بڑے بڑے قصر تعمیر کرتے ہو گویا تمہیں ہمیشہ رہنا ہے ۔ اور جب کسی پر ہاتھ ڈالتے ہو جبار بن کر ڈالتے ہو۔ پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ ڈرو اُس سے جس نے تمہیں وہ کچھ دیا ہے جو تم جانتے ہو۔ تمہیں جانور دیے ، اولادیں دیں، باغ دیے اور چشمے دے ۔ مجھے تمہارے حق میں ایک بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے ۔
أَتُتْرَكُونَ فِي مَا ہاہنَا آمِنِينَ • فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ • وَزُرُوعٍ وَنَخْلٍ طَلْعُہا ہضِيمٌ • وَتَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا فَارِہينَ • فَاتَّقُوا اللَّہ وَأَطِيعُونِ • وَلاَ تُطِيعُوا أَمْرَ الْمُسْرِفِينَ • الَّذِينَ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَلاَ يُصْلِحُونَ (الشعراء: 146 تا 152)
کیا تم اُن سب چیزوں کے درمیان، جو یہاں ہیں، بس یُونہی اطمینان سے رہنے دیے جاؤ گے ؟ ان باغوں اور چشموں میں؟ ان کھیتوں اور نخلستانوں میں جن کے خوشے رس بھرے ہیں؟ تم پہاڑ کھود کھود کر فخریہ ان میں عمارتیں بناتے ہو۔ اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ اُن بے لگام لوگوں کی اطاعت نہ کرو جو زمین میں فساد برپا کرتے ہیں اور کوئی اصلاح نہیں کرتے ۔
فَلَمَّا نَسُواْ مَا ذُكِّرُواْ بِہ فَتَحْنَا عَلَيْہمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّی إِذَا فَرِحُواْ بِمَا أُوتُواْ أَخَذْنَاہم بَغْتَۃ فَإِذَا ہم مُّبْلِسُونَ • فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُواْ وَالْحَمْدُ لِلّہ رَبِّ الْعَالَمِينَ (انعام: 44، 45 )
پھر جب انہوں نے اس نصیحت کو، جو انہیں کی گئی تھی، بھُلادیا، تو ہم نے ہر طرح کی خوشحالیوں کے دروازے ان کے لیے کھول دیے ، یہاں تک کہ جب وہ اُن بخششوں میں جو انہیں عطا کی گئی تھیں خوب مگن ہو گئے تو اچانک ہم نے انہیں پکڑ لیا اور اب حال یہ تھا کہ وہ ہر خیر سے مایوس تھے ۔ اس طرح ان لوگوں کی جڑ کاٹ کر رکھ دی گئی جنہوں نے ظلم کیا تھا اور تعریف ہے اللہ رب العالمین کے لیے (کہ اس نے ان کی جڑ کاٹ دی)۔
حَتَّی إِذَا أَخَذَتِ الأَرْضُ زُخْرُفَہا وَازَّيَّنَتْ وَظَنَّ أَہلُہا أَنَّہمْ قَادِرُونَ عَلَيْہآ أَتَاہا أَمْرُنَا لَيْلاً أَوْ نَہارًا فَجَعَلْنَاہا حَصِيدًا كَأَن لَّمْ تَغْنَ بِالأَمْسِ (یونس: 24)
پھر عین اس وقت جب کہ زمین اپنی بہار پر تھی اور کھیتیاں بنی سنوری کھڑی تھیں اور ان کے مالک سمجھ رہے تھے کہ اب ہم ان سے فائدہ اٹھانے پر قادر ہیں۔ یکایک رات کو یا دن کو ہمارا حکم آ گیا اور ہم نے اسے ایسا غارت کر کے رکھ دیا کہ گویا کل وہاں کچھ تھا ہی نہیں۔
لیکن، جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں اسلام مادی ترقی اور مادی وسائل کے خلاف نہیں ہے اور ان کی اہمیت کو کم نہیں کرتا بلکہ نظام الٰہی کے زیر سایہ ہونے والی مادی ترقی کو اللہ تعالٰے ایک نعمت کی حیثیت دیتا ہے ۔ اور اطاعت و فرمانبرداری کے صلہ میں انسانوں کو اس نعمت کی بشارت بھی دیتا ہے ۔
فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّہ كَانَ غَفَّارًا • يُرْسِلِ السَّمَاء عَلَيْكُم مِّدْرَارًا • وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْہارًا (نوح: 10 تا 12)
(حضرت نوحؑ کہتے ہیں کہ) میں نے قوم سے کہا کہ تم اپنے پروردگار سے مغفرت طلب کرو۔ بیشک وہ مغفرت قبول کرنے والا ہے ۔ وہ تم پر موسلا دھار بارشیں برسائے گا اور اموال اور اولادوں سے تمہیں قوت بخشے گا اور تمہارے لیے باغ بنائے گا اور ان میں تمہارے لیے نہریں جاری کرے گا۔
وَلَوْ أَنَّ أَہلَ الْقُرَی آمَنُواْ وَاتَّقَواْ لَفَتَحْنَا عَلَيْہم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاء وَالأَرْضِ وَلَ۔كِن كَذَّبُواْ فَأَخَذْنَاہم بِمَا كَانُواْ يَكْسِبُونَ (الاعراف: 96)
اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم اُن پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے ، مگر اُنہوں نے تو جھُٹلایا،لہذا ہم نے اُس بُری کمائی کے حساب میں اُنہیں پکڑ لیا جو وہ سمیٹ رہے تھے ۔
مادی ترقی اصل چیز نہیں ہے بلکہ اصل چیز وہ بنیادی تصور ہے جس پر مادی اور صنعتی ترقی کی عمارت قائم ہوتی ہے اوروہ اقدارِ حیات ہیں جن کو معاشرے میں قدر و منزلت حاصل ہوتی ہے اور جن کے مجموعی عمل سے انسانی تہذیب کے خصائص و نقوش تیار ہوتے ہیں۔
 

ابوشامل

محفلین
اسلامی معاشرے کے آغاز اور ارتقاء کا فطری نظام
اسلامی معاشرہ کا ایک تحریکی بنیاد پر قائم ہونا اور اس کا ایک نمو پذیر نظام کی حیثیت اختیار کرنا یہ دونوں خوبیاں مل کر اسلامی معاشرے کو اپنی طرز کا منفرد اور لاثانی معاشرہ بنا دیتی ہیں جس پر وہ نظریات و رحجانات منطبق نہیں ہو سکتے جو جاہلی معاشروں کے قیام اور ان کی نمو پذیر فطرت کے لیے مناسب ہوتے ہیں۔ اسلامی معاشرے کی ولادت ایک تحریک کی جدوجہد کی رہینِ منت ہوتی ہے ۔ یہ تحریکی نظام اس کے اندر برابر برسرِ عمل رہتا ہے ، یہ تحریک ہی معاشرے کے ہر ہر فرد کی قیمت اور اس کا مرتبہ و مقام متعیّن کرتی ہے اور پھر اس اصل قیمت کی روشنی میں معاشرے کے اندر اُس کی اصل ڈیوٹی اور اجتماعی حیثیت طے کرتی ہے ۔ جس تحریک کے بطن سے یہ معاشرہ جنم لیتا ہے اس تحریک کا فکری و عملی ماخذ عالمِ آب و گِل سے ماوراء اور بشری دائرہ سے خارج ہوتا ہے ۔ یہ تحریک درحقیقت اُس عقیدہ کی متحرک تصویر ہوتی ہے جو اللہ تعالٰی کی طرف سے انسان پر نازل کیا گیا ہے اور جو انسان کو کائنات اور زندگی اور انسانی تاریخ کے بارے میں مخصوص تصور دیتا ہے ، زندگی کے مقاصد اور اقدار کا نیا مفہوم عطا کرتا ہے اور جدوجہد کا مخصوص طریقہ سکھاتا ہے جو اس کے مزاج اجتماعی کی صحیح ترجمانی کرتا ہے ۔ چنانچہ وہ محرکِ اولین جو آفتابِ تحریک کے طلوع کا باعث بنتا ہے اُس کی چنگاریوں کا مرکز انسانی نفوس نہیں ہوتے اور نہ مادی کائنات کا کوئی گوشہ اُس کی حرارت اور سرگرمی کا ماخذ ہوتا ہے بلکہ جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے وہ محرک کرۂ ارضی سے ماوراء اور عالم بشری سے بالاتر ماخذ سے صادر ہوتا ہے ۔ اور یہی وہ خاص خوبی ہے جو اسلامی معاشرے اور اُس کے اجزائے ترکیبی کو دوسرے تمام معاشروں سے ممیز کرتی ہے ۔
تحریک اسلامی کے فطری عوامل اور اس کا مخصوص نظامِ عمل
یہ غیر مادی عنصر جو تقدیرِ الٰہی سے پردۂ غیب سے وجود میں آتا ہے اس کے وجود میں آنے سے پہلے انسان کا ذہن بالکل خالی ہوتا ہے اور اُس کے آغاز میں بھی انسان کی کسی کوشش کو دخل نہیں ہوتا۔ اِسی عنصر کے مطالبے پر تحریک ایک اسلامی معاشرے کی تخم ریزی کا پہلا قدم اُٹھاتی ہے ۔ اور اس کے ساتھ ہی اُس کی طرف سے "انسان سازی" کا عمل شروع ہو جاتا ہے ۔ ایک ایسے انسان کی تیاری کی مہم شروع ہو جاتی ہے جو اس عقیدہ پر ایمان رکھتا ہو جو منبع غیب سے القاء ہوا ہے اور جسے خالصاً تقدیرِ خداوندی نے جاری فرمایا ہے ۔ اگر ایک انسانی فرد بھی اس عقیدہ پر ایمان لے آتا ہے تو اصولاً اسلامی معاشرے کی داغ بیل پڑ جاتی ہے ۔ یہ فرد واحد اس نئے عقیدہ کو قبول کرنے کے بعد اُسے اپنے نہاں خانۂ دماغ کی زینت بنا کر نہیں رکھتا، بلکہ وہ اسے لے کر اُٹھ کھڑا ہوتا ہے ۔ اس عقیدے کی یہی فطرت ہے اور ایک توانا اور فعال تحریک کی فطرت بھی یہی ہوتی ہے ۔ جس بالاتر طاقت نے اس عقیدہ کا چراغ انسان کے دل میں روشن کیا ہے وہ خوب جانتی ہے کہ یہ عقیدہ وادئ دل سے نکل کر کائنات انسانی کے ذرہ ذرہ پر نقش ثبت کر کے رہے گا، اور وہ پہلا شعلۂ فروزاں جس کی بدولت دل کی دنیا نور عقیدہ سے منور ہوتی ہے وہ لازماً باہر کی دنیا میں بھی پھیل کر رہے گا۔
اس عقیدہ پر ایمان لانے والوں کی تعداد جب تین افراد تک پہنچ جاتی ہے تویہ عقیدہ اُن کو بتاتا ہے کہ: "اب تم ایک معاشرہ بن گئے ہو، ایک جداگانہ اسلامی معاشرہ، اور اس جاہلی معاشرے سے ممتاز معاشرہ، جو اس عقیدہ کو تسلیم نہیں کرتا اور جس میں اس عقیدہ کی بنیادی اقدار کو بالاتری حاصل نہیں ہوتی (وہی بنیادی اقدار جن کی طرف ہم اوپر اشارہ کر آئے ہیں)"۔ اب اسلامی معاشرہ بالفعل وجود میں آ گیا ہے ۔ یہی تین افراد آگے بڑھ کر دس بن جاتے ہیں، اور دس کی جدوجہد سے سو ۔۔۔۔۔۔ ہزار ۔۔۔۔۔۔ 12 ہزار بن جاتے ہیں۔ اور اِس طرح اسلامی معاشرے کا ڈھانچہ متشکل ہوتا جاتا ہے ، اور اس کی جڑیں گہری ہوتی جاتی ہیں۔ اس تحریکی ترقی کے دوران میں جاہلیت سے کشمکش بھی چھڑچکی ہوتی ہے ۔ ایک طرف وہ نومولود معاشرہ ہوتا ہے جو عقیدہ و تصور کے لحاظ سے ، اقدار حیات اور تہذیبی پیمانوں کے لحاظ سے ، اپنے تنظیمی ڈھانچے اور جداگانہ وجود کے لحاظ سے جاہلی معاشرے سے الگ ہوچکا ہوتا ہے ، اور دوسری طرف جاہلی معاشرہ ہوتا ہے جس کے اندر اسلامی معاشرہ موزوں افراد کو چھانٹ کر اپنے اندر جذب کر لیتا ہے ۔ یہ تحریک اس درمیانی مرحلہ میں جو اس کے آغاز سے لے کر اُس کے ایک نمایاں اور قائم بالذات معاشرے کی صورت میں نمایاں ہونے تک کی مدت پر پھیلا ہوتا ہے ، اپنے معاشرے کے ہر ہر فرد کی خوب اچھی طرح آزمائش کر چکی ہوتی ہے ، اور معاشرے کے اندر ہر فرد کو وہی مرتبہ و مقام اور وزن دیتی ہے جس کا وہ اسلامی میزان اور اسلامی کسوٹی کی رُو سے مستحق ہوتا ہے ۔ معاشرے کی طرف سے خود بخود اُس کے اس مرتبہ و مقام کا اعتراف کیا جاتا ہے اور اُس کو اس بات کی ضرورت پیش نہیں آتی کہ خود بڑھ کر اپنی اہلیت کا ثبوت پیش کرے اور پھر اُس کا اعلان کرتا پھرے ۔ بلکہ اُس کا عقیدہ اور وہ مقدس اقدار جنہیں اُس کی ذات پر اور اُس کے معاشرے پر بالاتری حاصل ہوتی ہے اُسے مجبور کرتی ہیں کہ وہ ان نگاہوں سے اپنے آپ کو چھُپا کر رکھے جو اُس کے آس پاس اُس کی جانب اُٹھ رہی ہیں اور اُسے کوئی ذمہ دارانہ منصب سونپنا چاہتی ہیں۔ لیکن تحریک ۔۔۔۔۔۔ جو عقیدہ اسلامی کا طبعی نتیجہ اور اس عقیدہ کی کوکھ سے جنم لینے والے معاشرے کا فطری جوہر ہے ۔۔۔۔۔۔ اپنے کسی فرد کو گوشۂ مخمول کی نذر نہیں ہونے دیتی۔ اس تحریک کے ہر فرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ سرگرمِ عمل ہو، اس کے عقیدہ میں جوش و خروش ہو، اس کے خون میں حرارت ہو، اُس کا معاشرہ سیمابی کیفیت کا حامل ہو اور اس توانا معاشرے کی تکمیل کے لیے ہر شخص دانۂ سپند کی مانند مضطرب و بے قرار ہو۔ اور اس جاہلیت کا بھرپُور مقابلہ کرے جو اُس کے ماحول پر مسلط ہے ، جس کے بچے کھچے اثرات خود اس کے اپنے نفس میں اور اس کے ساتھیوں کے اندر پائے جاتے ہیں۔ پس یہ کشمکش ایک دوامی کشمکش ہے ۔ یہی مفہوم ہے اس ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا جس میں فرمایا گیا ہے کہ جہاد قیامت تک کے لیے جاری و ساری رہے گا۔
اپنے سفر کے دوران میں تحریک جن نشیب و فراز سے گزرتی ہے وہی دراصل یہ طے کر دیتے ہیں کہ تحریکی معاشرے کے اندر ہر ہر رکن کی حیثیت اور اُس کا دائرۂ کار کیا ہے ۔ یہ بات نظروں سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے کہ افراد اور مناصب و فرائض کے درمیان اعلٰی قسم کی مناسبت اور ہم آہنگی کی بدولت ہی تحریک پایۂ تکمیل تک پہنچتی ہے ۔ اسلامی معاشرے کا یہ طرزِ آغاز و نشو و نما اور یہ اسلوبِ تکمیل اس کی دو ایسی نمایاں خصوصیتیں ہیں جو اس کے وجود و ترکیب کو، اس کے مزاج اور شکل کو، اس کے نظام اور اس کے عملی طریقِ کار کو دوسرے تمام معاشروں سے ممیّز کرتی ہیں اور اسے منفرد اور جداگانہ حیثیت عطا کرتی ہیں۔ اس کے بعد یہ سوال ہی خارج از بحث ہو جاتا ہے کہ دوسرے اجتماعی نظریات کے ذریعہ بھی اسلامی معاشرہ اور اس کے ان تمام اوصاف کو جن کا ہم نے ابھی ذکر کیا ہے حاصل کیا جا سکتا ہے ، یا کسی ایسے نظامِ تعلیم کے ذریعہ ان کو سمجھا جا سکتا ہے جو اس کی فطرت کے خلاف ہو یا انہیں کسی دوسرے نظامِ حیات سے مستعار طریقہ کار کے ذریعے قائم کیا جا سکتا ہے ۔
اسلامی تہذیب پوری انسانیت کی میراث ہے
عام ڈگر سے ہٹ کر ہم نے "تہذیب" کی جو تعریف کی ہے ، اس کی روشنی میں اسلامی معاشرہ محض ایک تاریخی مرحلے کا نام نہیں ہے جسے صرف اوراق ماضی میں تلاش کیا جا سکتا ہے ۔ بلکہ یہ عہدِ حاضر کی طلب اور مستقبل کی آرزو اور تمنا ہے ۔ یہ وہ گوہر مقصودہے جس سے تمام انسانیت آج بھی شرف یاب ہو سکتی ہے اور آئندہ بھی۔ اور اس کی بدولت وہ جاہلیت کے اُس قعر مذلت سے نکل سکتی ہے جس میں آج وہ لڑھک رہی ہے ، اس قعر مذلت میں وہ قومیں بھی گری ہوئی ہیں جو صنعتی اور اقتصادی ترقی میں دوسروں کی امام ہیں وہ بھی جو پسماندہ اور کمزور کہلاتی ہیں۔
یہ اقدار جن کی طرف ہم مجمل اشارہ کر آئے ہیں، انسانی اقدار ہیں، انسانیت نے ان اقدار کو اب تک صرف ایک دَور میں جلوہ گر دیکھا ہے ، اور وہ تھا "اسلامی تہذیب" کا دور ۔۔۔۔۔۔۔۔ "اسلامی تہذیب" سے ہماری مراد وہ تہذیب ہے جس میں یہ اقدار بدرجہ اتم پائی جاتی ہوں۔ اور جو تہذیب ان اقدار سے خالی ہو چاہے وہ صنعت و اقتصاد اور سائنس میں کتنی ہی بام عروج پر ہو، اسلامی تہذیب ہر گز نہ ہوگی۔
یہ اقدار محض تخیل کی پیداوار نہیں ہیں بلکہ سر تا پا عملی اقدار ہیں اور حقیقت کی دنیا سے تعلق رکھتی ہیں۔ انسان جب بھی صحیح اسلامی مفہوم کی روشنی میں ان کو بروئے کار لانے کی کوشش کرے گا، ان کو پا لے گا۔ ان کو ہر ماحول میں عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے ، خواہ وہاں کوئی سا نظام زندگی پایا جاتا ہو اور صنعت و اقتصاد اور سائنس میں اس کی ترقی کی حد خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو۔ یہ اقدار خلافتِ ارضی کے کسی بھی پہلو میں انسان کو ترقی سے نہیں روکتیں۔ کیونکہ اسلامی عقیدہ کی فطرت ہی ایسی ہے کہ وہ ہمہ پہلو ترقی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ اقدارِ حیات ان ممالک کے اندر خاموش تماشائی بن کر رہنے پر بھی راضی نہیں جو اخلاقی میدان میں پسماندہ ہیں۔ یہ ایک عالم گیر تہذیب ہے اور ہر ماحول میں اور ہر خطے میں پروان چڑھ سکتی ہیں مگر انہی اقدار کے ستونوں پر جو اس کی اپنی امتیازی اقدار ہیں۔ رہی ان اقدار کی مادی تشکیلات اور مظاہر تو ان کی تحدید اور حصر ناممکن ہے کیونکہ مادی تشکیلات ہر ماحول میں اُنہی صلاحیتوں اور قوتوں کو، جو بالفعل وہاں پائی جاتی ہیں، استعمال کرتی ہیں اور ان کو نشو و نما دیتی ہیں۔
اس سے یہ واضح ہو گیا کہ اسلامی معاشرہ اپنی ہیئت و صورت، حجم و وسعت اور طرزِ زندگی کے اعتبار سے تو بلاشبہ جامد اور غیر متبدل تاریخی تصویر نہیں ہے مگر اِسلامی معاشرہ کا وجود اور اس کی تہذیب لازماً ایسی اقدار سے مربوط ہوتا ہے جو حد درجہ ٹھوس، تغیْر نا آشنا اور تاریخ انسانی کے اٹل حقائق ہیں۔ زندگی کی ان اسلامی اقدار کو جب ہم "تاریخی حقائق" کہتے ہیں، تو اس سے ہماری مراد صرف اتنی ہوتی ہے کہ یہ اقدار تاریخ کے ایک مخصوص مرحلے میں جلوہ گر رہی ہیں اور انسان ان کو خوب جانتا پہچانتا ہے ۔ ان کو تاریخی اقدار قرار دینے کا یہ مقصد ہر گز نہیں ہے کہ یہ تاریخ کی پیدا کردہ ہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ اقدار اپنی فطرت کے لحاظ سے کسی مخصوص زمانے سے وابستہ نہیں ہیں، بلکہ ہر دَور کے لیے ہیں، اور یہ انسانوں کے پاس اُس سرچشمۂ ازل سے آئی ہیں جوربانی منبع ہے ، اور جو دائرۂ انسانیت سے بلکہ خود مادی کائنات کے دائرہ سے ماوراء اور بالاتر ہے ۔
اسلامی تہذیب کی مادی شکلیں زمانے اور ماحول کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں
اسلامی تہذیب اپنی مادی اور ظاہری تنظیم کے لیے گوناگوں اور بوقلموں شکلیں اختیار کر سکتی ہے لیکن یہ تہذیب جن اصولوں اور قدروں پر استوار ہوتی ہے وہ بیشک دائمی اور جامد اقدار ہیں، اس لیے کہ وہ اس تہذیب کے حقیقی ستون اور پشتیبان ہیں، اور وہ ہیں: صرف خدا کی بندگی، عقیدۂ توحید کی بنیاد پر انسانی اجتماع، مادیت پر انسانیت کا غلبہ، انسانی اقدار کا فروغ اور اس کے ذریعے انسان کے اندر کے حیوان کی تسخیر اور انسانیت کی نشو و نما میں استعمال، خاندانی نظام کا احترام، زمین پر اللہ تعالٰی کی خلافت کا قیام اللہ ہی کی ہدایت و تعلیم اور عہد و شرط کے مطابق، اور خلافت کے تمام معاملات پر صرف اللہ کی شریعت اور الٰہی طریق حیات کی حکمرانی!
جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں کہ اسلامی تہذیب مادی تنظیمات کے لیے اُن صلاحیتوں کو استعمال کرتی ہے جو بالفعل کسی ماحول میں موجود ہوتی ہیں، اس لیے اسلامی تہذیب کی مادی صورتیں اور خاکے پائیدار اور ابدی اقدار پر استوار ہونے کے باوجود صنعتی، اقتصادی اور سائنٹفک ترقی کے مختلف درجوں اور مرحلوں سے متاثر ہوتے رہتے ہیں۔ اس لیے ان شکلوں اور خاکوں میں برابر تبدیلی ہوتے رہنا ناگزیر ہے بلکہ یہ تبدیلی بجائے خود یہ ضمانت فراہم کرتی ہے کہ اسلام کے اندر ایسی لچک اور گنجائش موجود ہے کہ وہ ہر قسم اور ہر سطح کے ماحول میں داخل ہو کر زندگی کو اپنے حسب منشا ڈھال سکتا ہے ۔ اسلامی تہذیب کی ظاہری اور خارجی صورتوں میں لچک اور تغیر پذیری کاوجود عقیدۂ اسلام پر جو تہذیب کا ماخذ ہے ، کہیں باہر سے ٹھونسا نہیں گیا ہے بلکہ یہ خود اس عقیدہ کی فطرت اور مزاج کا تقاضا ہے ۔ البتہ یہ پیش نظر رہے کہ کسی چیز کے لچک دار ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اُسے مادۂ سیال میں تبدیل کر دیا جائے ۔ لچک میں اور اس طرح کے سیال پن میں بہت بڑا فرق ہے ۔
اسلام نے وسطی افریقہ کے ننگ دھڑنگ اقوام کے اندر تہذیب کی بنیاد ڈال دی تھی، اور اس کا اثر یہ تھا کہ جہاں جہاں اور جیسے جیسے وہ اسلام سے متاثر ہوتے عریانی اور ننگے جسم ستر پوش ہوتے جاتے اور برہنہ گھومنے والے انسان لباس پہن کر دائرۂ تہذیب میں داخل ہو جاتے ۔ یہ سب اسلامی تعلیمات ہی کا کرشمہ تھا، ان تعلیمات کا، جو فکر انسانی کو عزلت و تنہائی سے نکال کر بصیرت افروز حقائق سے روشناس کرتیں، انسانی ذہنوں کو جِلا بخشتیں اور انسانوں کو اس قابل بنا دیتیں کہ وہ کائنات کے مادی خزانوں کو اپنے تصرف میں لا سکیں۔ ان کے زیرِ اثر انسان قبیلہ اور برادری کے محدود دائروں سے نکل کر امت اور ملت کے دائرہ میں داخل ہو جاتے ۔ اور غاروں میں بیٹھ کر سورج دیوتا کی پرستش کرنے کے بجائے پروردگارِ عالم کی بندگی اختیار کر لیتے ۔۔۔۔۔۔۔ پس اگر اس عظیم انقلاب کا نام تہذیب نہیں ہے تو پھر تہذیب کس بلا کا نام ہے ؟ یہ اس خاص ماحول کی تہذیب ہے جو اپنے اندر بالفعل پائے جانے والے وسائل و ذرائع پر اعتماد کرتا ہے ۔ اگر اسلام کسی اور ماحول میں داخل ہوگا، تو وہاں وہ اپنی تہذیب کو وہ شکل دے گا جو اس ماحول کے وسائل و ذرائع اور اُس کے اندر بالفعل پائی جانے والی صلاحیتوں کو استعمال کرنے اور انہیں مزید نشو و نما دینے کے لیے ضروری ہے ۔ الغرض اسلامی طریق حیات کے تحت تہذیب کا قیام و فروغ صنعتی، اقتصادی اور علمی ترقی کے کسی مخصوصی معیار پر موقوف نہیں ہے ، تہذیب جہاں بھی قائم ہوگی وہاں کے مادی وسائل و امکانات کا پورا پورا استعمال کرے گی اور انہیں مزید ترقی دے گی، ان کے مقاصد کو اعلٰی و ارفع حیثیت عطا کرے گی، اور جہاں جہاں مادی وسائل و امکانات موجود نہ ہوں گے وہاں تہذیب خود ان کو مہیا کرے گی اور اُن کے نشو و نما اور ترقی کا انتظام کرے گی، لیکن قائم بہرحال وہ اپنے مستقل، پائدار اور ابدی اصولوں پر ہی ہوگی۔ اور اُس کے ذریعہ جو اسلامی معاشرہ وجود میں آئے گا اُس کا مخصوص مزاج اور مخصوص تحریکی نظام ہر حال میں باقی رہے گا، وہ مزاج اور تحریکی نظام جو اسلامی معاشرے کے وجود میں آنے کے بعد پہلے روز سے ہی اسے دوسرے تمام جاہلی معاشروں کے مقابلے میں ممتاز اور الگ کر دیتا ہے : "صبغۃ اللہ و من احسن من اللہ صبغۃ؟"
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top