ابوشامل
محفلین
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيہِ قُلْ قِتَالٌ فِيہِ كَبِيرٌ وَصَدٌّ عَن سَبِيلِ اللّہِ وَكُفْرٌ بِہِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَھْلِہِ مِنْہُ أَكْبَرُ عِندَ اللّہِ وَالْفِتْنَۃُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ (بقرہ: 217)
لوگ پوچھتے ہیں کہ ماہ حرام میں لڑنا کیسا ہے ؟ کہو، اس میں لڑنا بہت برا ہے ، مگر راہِ خدا سے لوگوں کو روکنا اور اللہ سے کفر کرنا اور مسجدِ حرام کا راستہ خدا پرستوں پر بند کرنا اور حرم کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک اِس سے زیادہ برا ہے اور فتنہ خونریزی سے شدید تر ہے ۔
پھر ہجرت کے دوسرے سال کے اندر ہی ماہ رمضان المبارک میں غزوۂ بدر کبریٰ پیش آیا۔ سورۂ انفال میں اس جنگ پر تبصرہ کیا گیا ہے ۔
اسلامی تحریک کا یہ موقف اگر حالات کے اس پس منظر میں رکھ کر دیکھا جائے تو یہ کہنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ اسلامی تحریک کا بنیادی منصوبہ دراصل رائج الوقت مفہوم کے مطابق اپنی "مدافعت" کے سوا کچھ نہ تھا۔ یعنی وہی تاویل جو حالاتِ حاضرہ کی "سرخ آنکھوں" کا یارانہ رکھنے والے حضرات، اور مستشرقین کی عیارانہ تنقیدوں سے بوکھلا اُٹھنے ولے مفکرین کی طرف سے پیش کی جا رہی ہے ۔ درحقیقت جو لوگ غلبۂ اسلام کی بے نظیر تحریک کو خالص مدافعانہ اسباب کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور پھر اس کا ثبوت فراہم کرنے کے لیے اِدھر اُدھر ہاتھ پاؤں مارتے ہیں، یہ "اربابِ تحقیق" مستشرقین کی اُس جارحانہ تحریک سے مات کھاچکے ہیں جس نے اسلام پر ایسے وقت میں تابڑ توڑ حملے شروع کر رکھے ہیں جب نہ مسلمانوں کی شان و شوکت باقی رہی ہے ، اور نہ اسلام کیساتھ ان کی وابستگی قابلِ رشک ہے ۔ البتہ ایک گروہ قلیل بہ توفیق ایزدی ایسے ہتھکنڈوں سے ضرور محفوظ ہے ، اور وہی لوگ اس بات پر بھی ڈٹے ہوئے ہیں کہ اسلام کا یہ ابدی پیغام کہ روئے زمین پر بسنے والے تمام انسان اقتدار الٰہی کے سوا ہر قسم کے اقتدار و استبداد سے نجات پائیں اور دین سراسر اللہ کے لیے ہو، غالب و برتر کر کے رہیں گے ۔ مگر اس گروہ قلیل کے ماسوا باقی تمام مفکرین کا یہ حال ہے کہ وہ اس تلاش میں رہتے ہیں کہ انہیں اسلامی جہاد کے لیے اخلاقی وجوہ مل جائيں جن سے وہ معترضین کو مطمئن کر سکیں۔ مگر خاک بر سرِ آنہا، اسلامی فتوحات کے لیے قرآن نے جو وجوہ جواز پیش کر دیے ہیں ان سے زائد کسی اور اخلاقی سند کی ضرورت باقی نہیں ہے ۔ قرآن کہتا ہے :
فَلْيُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللّہِ الَّذِينَ يَشْرُونَ الْحَيَاۃَ الدُّنْيَا بِالآخِرَۃِ وَمَن يُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللّہِ فَيُقْتَلْ أَو يَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِيہِ أَجْرًا عَظِيمًا • وَمَا لَكُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّہِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْہ ھَ۔ذِہِ الْقَرْيَۃِ الظَّالِمِ أَھْلُہَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا • الَّذِينَ آمَنُواْ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّہِ وَالَّذِينَ كَفَرُواْ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُواْ أَوْلِيَاء الشَّيْطَانِ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا (النساء: 74 تا 76)
اللہ کی راہ میں لڑنا چاہیے ان لوگوں جو آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی کو فروخت کر دیں، پھر جو اللہ کی راہ میں لڑے گا اور مارا جائے گا یا غالب رہے گا اُسے ضرور ہم اجرِ عظیم عطا کریں گے ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پا کر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کر دے ۔جن لوگوں نے ایمان کا راستہ اختیار کر لیا ہے ، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور جنہوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا ہے وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں، پس شیطان کے ساتھیوں سے لڑو اور یقین جانو کہ شیطان کی چالیں حقیقت میں نہایت کمزور ہیں۔
قُل لِلَّذِينَ كَفَرُواْ إِن يَنتَہُواْ يُغَفَرْ لَہُم مَّا قَدْ سَلَفَ وَإِنْ يَعُودُواْ فَقَدْ مَضَتْ سُنَّۃُ الأَوَّلِينِ • وَقَاتِلُوھُمْ حَتَّی لاَ تَكُونَ فِتْنَۃٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّہُ لِلّہ فَإِنِ انتَہَوْاْ فَإِنَّ اللّہَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ • وَإِن تَوَلَّوْاْ فَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ مَوْلاَكُمْ نِعْمَ الْمَوْلَي وَنِعْمَ النَّصِيرُ (الانفال 38 تا 40)
اے نبی، ان کافروں سے کہو کہ اگر اب بھی باز آ جائیں تو جو کچھ پہلے ہو چکا ہے اس سے درگزر کر لیا جائے گا، لیکن اگر یہ اسی پچھلی روش کا اعادہ کریں گے تو گزشتہ قوموں کے ساتھ جو کچھ ہو چکا ہے وہ سب کو معلوم ہے ۔ اے ایمان والو، اُن کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہو جائے ۔ پھر اگر وہ فتنہ سے رک جائيں تو ان کے اعمال کا دیکھنے والا اللہ ہے اور اگر وہ نہ مانیں تو جان رکھو کہ اللہ تمہارا سرپرست ہے اور وہ بہترین حامی و مددگار ہے ۔
قَاتِلُواْ الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِاللّہِ وَلاَ بِالْيَوْمِ الآخِرِ وَلاَ يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللّہُ وَرَسُولُہُ وَلاَ يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ حَتَّي يُعْطُواْ الْجِزْيَۃَ عَن يَدٍ وَھُمْ صَاغِرُونَ • وَقَالَتِ الْيَہُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللّہِ وَقَالَتْ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللّہِ ذَلِكَ قَوْلُھُم بِأَفْوَاھِھِمْ يُضَاھِؤُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن قَبْلُ قَاتَلَھُمُ اللّھُ أَنَّي يُؤْفَكُونَ • اتَّخَذُواْ أَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّہِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُواْ إِلاَّ لِيَعْبُدُواْ إِلَ۔ھًا وَاحِدًا لاَّ إِلَ۔ہَ إِلاَّ ھُوَ سُبْحَانَہُ عَمَّا يُشْرِكُونَ • يُرِيدُونَ أَن يُطْفِؤُواْ نُورَ اللّہِ بِأَفْوَاھِھِمْ وَيَأْبَي اللّہُ إِلاَّ أَن يُتِمَّ نُورَہُ وَلَوْ كَرِہَ الْكَافِرُونَ (التوبہ: 29 تا 32)
جنگ کرو اہلِ کتاب میں سے اُن لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان نہیں لاتے ، اور جو کچھ اللہ اور اُس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے ان سے لڑو یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں، یہودی کہتے ہیں عُزَیر اللہ کا بیٹا ہے اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے ۔ یہ بے حقیقت باتیں ہیں جو وہ اپنی زبانوں سے نکالتے ہیں ان لوگوں کی دیکھا دیکھی جو ان سے پہلے کفر میں مبتلا ہوئے تھے ۔ خدا کی مار ان پر یہ کہاں سے دھوکہ کھا رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اس طرح مسیح ابن مریم کو بھی۔ حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بُجھا دیں۔ مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر رہنے والا نہیں ہے خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔
جہاد کے جو وجوہ و محرکات ان آیات کے اندر بیان ہوئے ہیں وہ یہ ہیں: دنیا کے اندر اللہ تعالٰی کی الوہیت کا سکہ رواں کرنا، انسانی زندگی میں اللہ تعالٰی کے بھیجے ہوئے نظام حق کو قائم کرنا، تمام شیطانی قوتوں اور شیطانی نظامہائے حیات کا قلع قمع کرنا، انسان کی آقائی ختم کرنا جو انسانوں کو اپنی غلامی کی زنجیروں میں جکڑتی ہے حالانکہ انسان صرف خدا کے غلام ہیں اور سوائے اُس کے کسی غلام کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ انسانوں کو اپنے خود ساختہ اقتدار کا تابع بنائے اور ان پر اپنی اھواء و اغراض کی شریعت نافذ کرے ۔ یہی وجوہ و محرکات جہاد قائم کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ اس اصول کی بھی پابندی کی جانی چاہیے کہ "لا اکراہ فی الدین" (دین میں کوئی جبر نہیں ہے )۔ یعنی بندوں کے اقتدار اور الوہیت سے چھٹکارا پا جانے کے بعد اور اس اصول کی بالاتری کے بعد کہ اقتدار صرف اللہ کا ہوگا یا بالفاظ دیگر دین سراسر اللہ کے لیے ہوگا کسی فرد بشر کو عقیدۂ اسلام قبول کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جائے گا۔ جہاد کے ان وجوہ محرکات پر اگر آپ غور کریں گے تو ان کا حاصل یہ نکلے گا کہ اسلام جس غرض کے لیے جہاد کا علمبردار ہے وہ اس دنیا کے اندر انسان کی مکمل اور حقیقی آزادی ہے ۔ اور یہ آزادی تبھی مکمل ہو سکتی ہے کہ انسان کو انسان کی عبودیت سے نکال کر اُسے خدا کی عبودیتِ کاملہ کی فضائے بسیط میں لایا جائے جو صرف ایک ہے اور اُس کا کوئی ساجھی نہیں ہے ۔ کیا جہاد کو برپا کرنے کے لیے صرف یہی مقصد عظیم کافی نہیں ہے ؟
بہرحال قرآن نے جہاد کے جو وجوہ و مقاصد بیان کیے ہیں یہی وجوہ و مقاصد ہر وقت مسلمان مجاہدین کے پیش نظر رہتے تھے ۔ ایسا کوئی واقعہ نہیں ملتا کہ کسی مسلمان مجاہد سے یہ دریافت کیا گیا ہو کہ تم کس لیے جہاد پر نکل کھڑے ہوئے ہو، اور اُس نے یہ جواب دیا ہو کہ " ہمارے وطن کو خطرہ درپیش ہے ، ہم اُس کے دفاع کے لیے اُٹھے ہیں" یا "ہم مسلمانوں پر اہلِ فارس اور اہلِ روم کی جارحانہ کاروائیوں کو روکنے کے لیے نکلے ہیں" یا "ہم ملک کے رقبہ کی توسیع چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ غنائم حاصل ہوں!!" ۔۔۔۔۔۔ اس کے برعکس ان کا جواب وہ ہوتا تھا جو ربعی ابن عامر، حذیفہ بن محصن اور مغیرہ بن شعبہ نے قادسیہ کی جنگ میں فارسی لشکر کے سپہ سالار رستم کو دیا تھا۔ رستم آغازِ جنگ سے تین روز پہلے تک برابر ان مجاہدین کرام سے الگ الگ یہ پوچھتا رہا کہ "کیا خواہش تمہیں یہاں لے کر آئی ہے ؟ مگر ان سب کا جواب یہ تھا کہ
"اللہ نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم انسان کو اپنے جیسے انسانوں کی غلامی سے نکال کر صرف خدائے واحد کی بندگی کی طرف لائیں، دنیا کی تنگی سے نکال کر انہیں دنیا کی فراخی سے بہرہ ور کریں، ادیان کے ظلم و ستم سے نجات دے کر عدلِ اسلام سے ہمکنار کریں۔ اس مقصد کے لیے اللہ تعالٰی نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اپنا دین دے کر اپنی مخلوق کے پاس بھیجا ہے ۔ پس جو ہمارے اس دین کو قبول کر لیتا ہے ، ہم اس کے اقرار کو تسلیم کر لیتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں اور اُس کا مُلک اُسی کے حوالے کر دیتے ہیں، اور جو سرتابی کرتا ہے اُس سے جنگ کرتے ہیں یہاں تک کہ شہادت پا کر جنت حاصل کر لیں یا فتح یاب ہو جائیں۔"
جہاد کی ایک اور طبعی وجہ
جہاد کے خارجی وجوہ و محرکات کے علاوہ اس کی ایک قائم بالذات وجہ جواز بھی جو خود اس دین کی سُرشت میں مُضمر، اور اس کے انسانی آزادی کے ہمہ گیر مطالبے میں پنہاں ہے ۔ یہ دین جس طرح انسان کے عملی حالات سے کامیاب جوابی وسائل کے ساتھ دُو بدُو ہوتا ہے ، اور متعیّن مراحل کے اندر ہر ہر محاذ پر نئے نئے ذرائع اختیار کرتا ہے خود یہ حقیقت پسندانہ طریقِ کار بھی جہاد کی اس طبعی وجہ کی نشاندہی کرتا ہے ۔ یہ وجہ آغازِ دعوت ہی سے پیدا ہو جاتی ہے اور سرزمینِ اسلام پر اور اُس کے مسلمان باشندوں پر کسی بیرونی حملے کا خطرہ ہو یا نہ ہو یہ برقرار رہتی ہے ۔ اس وجہ کو وجود میں لانے کے ذمہ دار محدود نوعیت کے دفاعی تقاضے یا وقتی حالات نہیں ہیں بلکہ بے خدا معاشروں کے اندر دعوتِ اسلامی کے لیے جو عملی مشکلات اور رکاوٹیں پائی جاتی ہیں ایک طرف وہ اور دوسری طرف خود اسلام کا اپنا مخصوص طرزِ زندگی اور عملی زندگی میں اس کی دعوتِ کشمکش مِل جُل کر کر اس وجہ کی تخلیق کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ بجائے خود جہاد کے حق میں ایک بہت بڑی دلیل ہے کہ ایک مسلمان اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرتا ہے ، ان اقدار کے غلبہ و فروغ کے لیے جہاد کرتا ہے جن کے اندر اس کی کوئی ذاتی منفعت شامل نہیں ہوتی اور نہ اس طرح کا کوئی اور لالچ اسے اس پر ابھارتا ہے ۔ ایک مسلمان جب جہاد کے لیے نکلتا ہے اور میدانِ کارزار میں قدم رکھتا ہے تو اس سے بہت پہلے وہ ایک بڑا معرکۂ جہاد سر کر چکا ہوتا ہے ۔ اس معرکہ میں اُس کا حریف نفس کا شیطان ہوتا ہے ، اس کی اھواء و خواہشات ہوتی ہیں، خوشنما امنگیں اور آرزوئیں ہوتی ہیں، ذاتی مفادات ہوتے ہیں، اپنی برادری اور قوم کے مفادات ہوتے ہیں۔ الغرض اس کا مقابلہ ہر اُس نعرے سے ہوتا ہے جو اسلام کے خلاف ہو، ہر اُس جذبہ کے خلاف ہوتا ہے جو بندگئ خدا سے متصادم ہو اور دنیا میں حکومتِ الٰہیہ کے قیام اور طاغوت میں خاتمہ حائل ہو۔
اسلام کی نگاہ میں دفاعِ وطن کا اصل محرّک
جو لوگ جہاد اسلامی کا جواز صرف "وطنِ اسلام" کے دفاع تک محدود رکھتے ہیں وہ دراصل اسلام کے طریقِ زندگی کی عظمت کو کم کرتے ہیں۔ ان کی نگاہ میں یہ پاکیزہ طریقِ زندگی اتنی اہمیت بھی نہیں رکھتا جتنی اہمیت "وطن" کو حاصل ہے ۔ وطن اور ایسے ہی دوسرے عوامل کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر وہ نہیں ہے جو یہ حضرات پیش کرتے ہیں۔ ان کا یہ نقطۂ نظر عہدِ حاضر کی تخلیق ہے ، یہ اسلامی شعور اور اسلامی تعلیم کے لیے قطعاً اجنبی اور نووارد ہے ۔ اسلامی تعلیم کی رُو سے جہاد کو قائم کرنے کے لیے اصل اعتبار اسلامی عقیدہ کے تحفظ کا ہے ، یا اُس طریقِ حیات کے تحفظ کا ہے جو اس عقیدہ کی عملی تفسیر پیش کرتا ہے یا اُس معاشرے کے تحفظ کا ہے جس میں اس طریقِ حیات کی عملداری ہو۔ رہی "خاک وطن" تو بذات خود اسلام کی نگاہ میں اس کی کوئی وقعت نہیں ہے اور نہ اس کا کوئی وزن ہے ۔ تصور اسلامی کے تحت "خاک وطن" میں اگر کوئی چیز شرف و عظمت بخش سکتی ہے اور اُسے گراں قدر بنا سکتی ہے تو وہ صرف یہ بات ہے کہ وہاں اللہ کی حکومت کا سکہ رواں ہو اور اللہ کا بھیجا ہوا نظامِ زندگی وہاں نافذ ہو۔ اس نسبت کے بعد وطن عقیدۂ اسلام کا قلعہ، اسلامی نظام حیات کی جلوہ گاہ، اسلام کا گھر (دارالاسلام) اور انسان کی آزادئ کامل کی تحریک کا منبع و مرکز قرار پا جاتا ہے ۔ اور بلاشبہ دارالاسلام کا تحفظ اور دفاع خود عقیدۂ اسلام کا دفاع ہے ، اسلامی نظامِ حیات اور اسلام کے نمائندہ معاشرہ کا دفاع ہے ۔ لیکن دفاع کو اصل اور آخری مقصد نہیں قرار دیا جا سکتا، اور نہ دار الاسلام کا تحفظ ہی اسلام کی تحریک جہاد کی اصل غایت ہے ۔ بلکہ دار الاسلام کی حفاظت تو خدا کی حکومت کے قیام کا ایک ذریعہ ہے ۔ اور ثانیاً اس کی وجہ یہ ہے کہ دار الاسلام کو وہ مرکزی مقام بنانا مقصود ہوتا ہے کہ جہاں سے اسلام کا آفتاب جہاں تاب دنیا کے کونے کونے میں چمکے اور نوع انسانی اُس کے اعلانِ آزادی سے متمتع ہو ۔۔۔۔۔۔ یہ بات ہم بیان کر چکے ہیں کہ اس دین کا موضوع "نوع انسان" ہے اور اس کا دائرۂ کار پورا کرۂ ارضی ہے ۔
جہاد اسلام کی فطری ضرورت ہے
جیسا کہ ہم پیچھے بیان کر چکے ہیں دنیا میں اللہ کی حکومت کے قیام میں کئی مادی رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں۔ ریاست کی بے پناہ طاقت، معاشرے کا نظام اور روایات، پورا انسانی ماحول۔ ان میں سے ہر ہر چیز اسلام کی راہ میں ایک سنگِ گراں ہے ۔اسلام ان تمام رکاوٹوں کو ہٹانے کے لیے طاقت کا استعمال کرتا ہے تاکہ اسلام کے درمیان اور افراد انسانی کے درمیان کوئی حجاب حائل نہ رہے اور وہ آزاد فضا کے اندر انسان کی روح اور عقل سے اپیل کر سکے ۔ بناوٹی آقاؤں کی قیود سے رہا کر کے وہ انسان کو ارادہ و انتخاب کی آزادی فراہم کرتا ہے تاکہ وہ اپنی آزاد مرضی سے جس بات کو چاہیں قبول کریں اور جسے چاہيں رد کر دیں۔
اسلام کے نظریۂ جہاد پر مستشرقین نے جو مکروہ حملے شروع کر رکھے ہیں اُن سے ہمیں ہر گز دھوکا نہیں کھانا چاہیے اور نہ کسی گھبراہٹ کا اظہار کرنا چاہیے ۔ یہ بات بھی ہماری حوصلہ شکنی کا باعث نہیں ہونی چاہیے کہ حالات کا دھارا ہمارے خلاف بہہ رہا ہے اور دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں بھی ہمارے خلاف ہیں۔ یہ باتیں ایسی نہیں ہیں کہ ہم ان سے متاثر ہو کر اسلامی جہاد کے وجوہ جواز دین کی فطرت و حقیقت سے کہیں باہر تلاش کرنا شروع کر دیں۔ اور جہاد کو دفاعی ضرورت اور وقتی اسباب و حالات کا نتیجہ قرار دینے لگیں۔ جہاد جاری ہے اور جاری رہے گا۔ خواہ دفاعی ضروریات اور وقتی اسباب و حالات پائے جائیں یا نہ پائے جائیں۔ تاریخ کے نشیب و فراز کا جائزہ لیتے وقت ہمیں ان اصل محرکات اور تقاضوں کو ہرگز نظر انداز نہ کرنا چاہیے جو اس دین کی طبیعت میں، اس کے عالم گیر اعلانِ آزادی میں، اور اس کے حقیقت پسندانہ طریقِ کار میں پنہاں ہیں۔ یہ بات درست نہ ہوگی کہ ہم ان اصل محرکات اور تقاضوں کے درمیان اور دفاعی ضروریات اور وقتی داعیات کے درمیان خلط مبحث کریں۔
بلاشبہ اس دین کو بیرونی حملہ آوروں سے اپنے دفاع کا پورا پورا انتظام کرنا ہوگا۔ اس لیے کہ دین کا محض اس شکل میں آنا کہ یہ اللہ کی عالمی ربوبیت کا اعلان اور غیر اللہ کی بندگی سے انسان کی رستگاری کی دعوت ہے ، اور پھر اس کا ایک منظم تحریک کا قالب اختیار کر لینا جو جاہلی قیادتوں سے باغی اور ایک بالکل نئی اور جُداگانہ طرز کی قیادت کے تابع ہو، اور ایک نرالے اور مستقل معاشرے کی تخلیق کرنا جو انسانی حاکمیت کو اس لیے تسلیم نہ کرتا ہو کہ حاکمیت صرف خدائے واحد کا حق ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دین کا اس شکل میں دنیا سے اپنا تعارف کرانا ہی اس امر کے لیے بہت کافی ہے کہ اردگرد کے وہ تمام جاہلی معاشرے اور طبقے جو بندگئ انسان کی بنیاد پر قائم ہیں اس کو نیست و نابود کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور اپنے وجود کے تحفظ و دفاع کے لیے خم ٹھونک کر باہر نکل آئیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں نئے اسلامی معاشرے کو بھی اپنے تحفظ و دفاع کا انتظام کرنا ہوگا۔ اس صورتِ حال کا رونما ہونا ناگزیر ہے جوں ہی اسلام کا ظہور ہوگا یہ صورتِ حال بھی لازماً پیدا ہوگی۔ اس کشمکش کو چھیڑنے میں اسلام کی پسند و ناپسند کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کیوں کہ یہ کشمکش تو اسلام پر ٹھونسی جاتی ہے ۔ یہ وہ طبعی کشمکش ہے جو دو ایسے نظاموں کے مابین چھڑ کر رہتی ہے جو زیادہ عرصہ تک بقائے باہم کے اصول پر ساتھ ساتھ نہیں رہ سکتے ۔ یہ وہ حقیقت ہے جس میں مجال شک نہیں ہے ۔ اور اسی نفس الامری حقیقت کی رُو سے اسلام کے لیے اپنی مدافعت ضروری ہو جاتی ہے ۔ اُسے یہ مسلط کردہ دفاعی جنگ لڑے بغیر چارہ نہیں ہے ۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ ماہ حرام میں لڑنا کیسا ہے ؟ کہو، اس میں لڑنا بہت برا ہے ، مگر راہِ خدا سے لوگوں کو روکنا اور اللہ سے کفر کرنا اور مسجدِ حرام کا راستہ خدا پرستوں پر بند کرنا اور حرم کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک اِس سے زیادہ برا ہے اور فتنہ خونریزی سے شدید تر ہے ۔
پھر ہجرت کے دوسرے سال کے اندر ہی ماہ رمضان المبارک میں غزوۂ بدر کبریٰ پیش آیا۔ سورۂ انفال میں اس جنگ پر تبصرہ کیا گیا ہے ۔
اسلامی تحریک کا یہ موقف اگر حالات کے اس پس منظر میں رکھ کر دیکھا جائے تو یہ کہنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ اسلامی تحریک کا بنیادی منصوبہ دراصل رائج الوقت مفہوم کے مطابق اپنی "مدافعت" کے سوا کچھ نہ تھا۔ یعنی وہی تاویل جو حالاتِ حاضرہ کی "سرخ آنکھوں" کا یارانہ رکھنے والے حضرات، اور مستشرقین کی عیارانہ تنقیدوں سے بوکھلا اُٹھنے ولے مفکرین کی طرف سے پیش کی جا رہی ہے ۔ درحقیقت جو لوگ غلبۂ اسلام کی بے نظیر تحریک کو خالص مدافعانہ اسباب کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور پھر اس کا ثبوت فراہم کرنے کے لیے اِدھر اُدھر ہاتھ پاؤں مارتے ہیں، یہ "اربابِ تحقیق" مستشرقین کی اُس جارحانہ تحریک سے مات کھاچکے ہیں جس نے اسلام پر ایسے وقت میں تابڑ توڑ حملے شروع کر رکھے ہیں جب نہ مسلمانوں کی شان و شوکت باقی رہی ہے ، اور نہ اسلام کیساتھ ان کی وابستگی قابلِ رشک ہے ۔ البتہ ایک گروہ قلیل بہ توفیق ایزدی ایسے ہتھکنڈوں سے ضرور محفوظ ہے ، اور وہی لوگ اس بات پر بھی ڈٹے ہوئے ہیں کہ اسلام کا یہ ابدی پیغام کہ روئے زمین پر بسنے والے تمام انسان اقتدار الٰہی کے سوا ہر قسم کے اقتدار و استبداد سے نجات پائیں اور دین سراسر اللہ کے لیے ہو، غالب و برتر کر کے رہیں گے ۔ مگر اس گروہ قلیل کے ماسوا باقی تمام مفکرین کا یہ حال ہے کہ وہ اس تلاش میں رہتے ہیں کہ انہیں اسلامی جہاد کے لیے اخلاقی وجوہ مل جائيں جن سے وہ معترضین کو مطمئن کر سکیں۔ مگر خاک بر سرِ آنہا، اسلامی فتوحات کے لیے قرآن نے جو وجوہ جواز پیش کر دیے ہیں ان سے زائد کسی اور اخلاقی سند کی ضرورت باقی نہیں ہے ۔ قرآن کہتا ہے :
فَلْيُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللّہِ الَّذِينَ يَشْرُونَ الْحَيَاۃَ الدُّنْيَا بِالآخِرَۃِ وَمَن يُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللّہِ فَيُقْتَلْ أَو يَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِيہِ أَجْرًا عَظِيمًا • وَمَا لَكُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّہِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْہ ھَ۔ذِہِ الْقَرْيَۃِ الظَّالِمِ أَھْلُہَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا • الَّذِينَ آمَنُواْ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّہِ وَالَّذِينَ كَفَرُواْ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُواْ أَوْلِيَاء الشَّيْطَانِ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا (النساء: 74 تا 76)
اللہ کی راہ میں لڑنا چاہیے ان لوگوں جو آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی کو فروخت کر دیں، پھر جو اللہ کی راہ میں لڑے گا اور مارا جائے گا یا غالب رہے گا اُسے ضرور ہم اجرِ عظیم عطا کریں گے ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پا کر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کر دے ۔جن لوگوں نے ایمان کا راستہ اختیار کر لیا ہے ، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور جنہوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا ہے وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں، پس شیطان کے ساتھیوں سے لڑو اور یقین جانو کہ شیطان کی چالیں حقیقت میں نہایت کمزور ہیں۔
قُل لِلَّذِينَ كَفَرُواْ إِن يَنتَہُواْ يُغَفَرْ لَہُم مَّا قَدْ سَلَفَ وَإِنْ يَعُودُواْ فَقَدْ مَضَتْ سُنَّۃُ الأَوَّلِينِ • وَقَاتِلُوھُمْ حَتَّی لاَ تَكُونَ فِتْنَۃٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّہُ لِلّہ فَإِنِ انتَہَوْاْ فَإِنَّ اللّہَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ • وَإِن تَوَلَّوْاْ فَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ مَوْلاَكُمْ نِعْمَ الْمَوْلَي وَنِعْمَ النَّصِيرُ (الانفال 38 تا 40)
اے نبی، ان کافروں سے کہو کہ اگر اب بھی باز آ جائیں تو جو کچھ پہلے ہو چکا ہے اس سے درگزر کر لیا جائے گا، لیکن اگر یہ اسی پچھلی روش کا اعادہ کریں گے تو گزشتہ قوموں کے ساتھ جو کچھ ہو چکا ہے وہ سب کو معلوم ہے ۔ اے ایمان والو، اُن کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہو جائے ۔ پھر اگر وہ فتنہ سے رک جائيں تو ان کے اعمال کا دیکھنے والا اللہ ہے اور اگر وہ نہ مانیں تو جان رکھو کہ اللہ تمہارا سرپرست ہے اور وہ بہترین حامی و مددگار ہے ۔
قَاتِلُواْ الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِاللّہِ وَلاَ بِالْيَوْمِ الآخِرِ وَلاَ يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللّہُ وَرَسُولُہُ وَلاَ يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ حَتَّي يُعْطُواْ الْجِزْيَۃَ عَن يَدٍ وَھُمْ صَاغِرُونَ • وَقَالَتِ الْيَہُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللّہِ وَقَالَتْ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللّہِ ذَلِكَ قَوْلُھُم بِأَفْوَاھِھِمْ يُضَاھِؤُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن قَبْلُ قَاتَلَھُمُ اللّھُ أَنَّي يُؤْفَكُونَ • اتَّخَذُواْ أَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّہِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُواْ إِلاَّ لِيَعْبُدُواْ إِلَ۔ھًا وَاحِدًا لاَّ إِلَ۔ہَ إِلاَّ ھُوَ سُبْحَانَہُ عَمَّا يُشْرِكُونَ • يُرِيدُونَ أَن يُطْفِؤُواْ نُورَ اللّہِ بِأَفْوَاھِھِمْ وَيَأْبَي اللّہُ إِلاَّ أَن يُتِمَّ نُورَہُ وَلَوْ كَرِہَ الْكَافِرُونَ (التوبہ: 29 تا 32)
جنگ کرو اہلِ کتاب میں سے اُن لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان نہیں لاتے ، اور جو کچھ اللہ اور اُس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے ان سے لڑو یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں، یہودی کہتے ہیں عُزَیر اللہ کا بیٹا ہے اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے ۔ یہ بے حقیقت باتیں ہیں جو وہ اپنی زبانوں سے نکالتے ہیں ان لوگوں کی دیکھا دیکھی جو ان سے پہلے کفر میں مبتلا ہوئے تھے ۔ خدا کی مار ان پر یہ کہاں سے دھوکہ کھا رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اس طرح مسیح ابن مریم کو بھی۔ حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بُجھا دیں۔ مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر رہنے والا نہیں ہے خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔
جہاد کے جو وجوہ و محرکات ان آیات کے اندر بیان ہوئے ہیں وہ یہ ہیں: دنیا کے اندر اللہ تعالٰی کی الوہیت کا سکہ رواں کرنا، انسانی زندگی میں اللہ تعالٰی کے بھیجے ہوئے نظام حق کو قائم کرنا، تمام شیطانی قوتوں اور شیطانی نظامہائے حیات کا قلع قمع کرنا، انسان کی آقائی ختم کرنا جو انسانوں کو اپنی غلامی کی زنجیروں میں جکڑتی ہے حالانکہ انسان صرف خدا کے غلام ہیں اور سوائے اُس کے کسی غلام کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ انسانوں کو اپنے خود ساختہ اقتدار کا تابع بنائے اور ان پر اپنی اھواء و اغراض کی شریعت نافذ کرے ۔ یہی وجوہ و محرکات جہاد قائم کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ اس اصول کی بھی پابندی کی جانی چاہیے کہ "لا اکراہ فی الدین" (دین میں کوئی جبر نہیں ہے )۔ یعنی بندوں کے اقتدار اور الوہیت سے چھٹکارا پا جانے کے بعد اور اس اصول کی بالاتری کے بعد کہ اقتدار صرف اللہ کا ہوگا یا بالفاظ دیگر دین سراسر اللہ کے لیے ہوگا کسی فرد بشر کو عقیدۂ اسلام قبول کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جائے گا۔ جہاد کے ان وجوہ محرکات پر اگر آپ غور کریں گے تو ان کا حاصل یہ نکلے گا کہ اسلام جس غرض کے لیے جہاد کا علمبردار ہے وہ اس دنیا کے اندر انسان کی مکمل اور حقیقی آزادی ہے ۔ اور یہ آزادی تبھی مکمل ہو سکتی ہے کہ انسان کو انسان کی عبودیت سے نکال کر اُسے خدا کی عبودیتِ کاملہ کی فضائے بسیط میں لایا جائے جو صرف ایک ہے اور اُس کا کوئی ساجھی نہیں ہے ۔ کیا جہاد کو برپا کرنے کے لیے صرف یہی مقصد عظیم کافی نہیں ہے ؟
بہرحال قرآن نے جہاد کے جو وجوہ و مقاصد بیان کیے ہیں یہی وجوہ و مقاصد ہر وقت مسلمان مجاہدین کے پیش نظر رہتے تھے ۔ ایسا کوئی واقعہ نہیں ملتا کہ کسی مسلمان مجاہد سے یہ دریافت کیا گیا ہو کہ تم کس لیے جہاد پر نکل کھڑے ہوئے ہو، اور اُس نے یہ جواب دیا ہو کہ " ہمارے وطن کو خطرہ درپیش ہے ، ہم اُس کے دفاع کے لیے اُٹھے ہیں" یا "ہم مسلمانوں پر اہلِ فارس اور اہلِ روم کی جارحانہ کاروائیوں کو روکنے کے لیے نکلے ہیں" یا "ہم ملک کے رقبہ کی توسیع چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ غنائم حاصل ہوں!!" ۔۔۔۔۔۔ اس کے برعکس ان کا جواب وہ ہوتا تھا جو ربعی ابن عامر، حذیفہ بن محصن اور مغیرہ بن شعبہ نے قادسیہ کی جنگ میں فارسی لشکر کے سپہ سالار رستم کو دیا تھا۔ رستم آغازِ جنگ سے تین روز پہلے تک برابر ان مجاہدین کرام سے الگ الگ یہ پوچھتا رہا کہ "کیا خواہش تمہیں یہاں لے کر آئی ہے ؟ مگر ان سب کا جواب یہ تھا کہ
"اللہ نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم انسان کو اپنے جیسے انسانوں کی غلامی سے نکال کر صرف خدائے واحد کی بندگی کی طرف لائیں، دنیا کی تنگی سے نکال کر انہیں دنیا کی فراخی سے بہرہ ور کریں، ادیان کے ظلم و ستم سے نجات دے کر عدلِ اسلام سے ہمکنار کریں۔ اس مقصد کے لیے اللہ تعالٰی نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اپنا دین دے کر اپنی مخلوق کے پاس بھیجا ہے ۔ پس جو ہمارے اس دین کو قبول کر لیتا ہے ، ہم اس کے اقرار کو تسلیم کر لیتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں اور اُس کا مُلک اُسی کے حوالے کر دیتے ہیں، اور جو سرتابی کرتا ہے اُس سے جنگ کرتے ہیں یہاں تک کہ شہادت پا کر جنت حاصل کر لیں یا فتح یاب ہو جائیں۔"
جہاد کی ایک اور طبعی وجہ
جہاد کے خارجی وجوہ و محرکات کے علاوہ اس کی ایک قائم بالذات وجہ جواز بھی جو خود اس دین کی سُرشت میں مُضمر، اور اس کے انسانی آزادی کے ہمہ گیر مطالبے میں پنہاں ہے ۔ یہ دین جس طرح انسان کے عملی حالات سے کامیاب جوابی وسائل کے ساتھ دُو بدُو ہوتا ہے ، اور متعیّن مراحل کے اندر ہر ہر محاذ پر نئے نئے ذرائع اختیار کرتا ہے خود یہ حقیقت پسندانہ طریقِ کار بھی جہاد کی اس طبعی وجہ کی نشاندہی کرتا ہے ۔ یہ وجہ آغازِ دعوت ہی سے پیدا ہو جاتی ہے اور سرزمینِ اسلام پر اور اُس کے مسلمان باشندوں پر کسی بیرونی حملے کا خطرہ ہو یا نہ ہو یہ برقرار رہتی ہے ۔ اس وجہ کو وجود میں لانے کے ذمہ دار محدود نوعیت کے دفاعی تقاضے یا وقتی حالات نہیں ہیں بلکہ بے خدا معاشروں کے اندر دعوتِ اسلامی کے لیے جو عملی مشکلات اور رکاوٹیں پائی جاتی ہیں ایک طرف وہ اور دوسری طرف خود اسلام کا اپنا مخصوص طرزِ زندگی اور عملی زندگی میں اس کی دعوتِ کشمکش مِل جُل کر کر اس وجہ کی تخلیق کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ بجائے خود جہاد کے حق میں ایک بہت بڑی دلیل ہے کہ ایک مسلمان اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرتا ہے ، ان اقدار کے غلبہ و فروغ کے لیے جہاد کرتا ہے جن کے اندر اس کی کوئی ذاتی منفعت شامل نہیں ہوتی اور نہ اس طرح کا کوئی اور لالچ اسے اس پر ابھارتا ہے ۔ ایک مسلمان جب جہاد کے لیے نکلتا ہے اور میدانِ کارزار میں قدم رکھتا ہے تو اس سے بہت پہلے وہ ایک بڑا معرکۂ جہاد سر کر چکا ہوتا ہے ۔ اس معرکہ میں اُس کا حریف نفس کا شیطان ہوتا ہے ، اس کی اھواء و خواہشات ہوتی ہیں، خوشنما امنگیں اور آرزوئیں ہوتی ہیں، ذاتی مفادات ہوتے ہیں، اپنی برادری اور قوم کے مفادات ہوتے ہیں۔ الغرض اس کا مقابلہ ہر اُس نعرے سے ہوتا ہے جو اسلام کے خلاف ہو، ہر اُس جذبہ کے خلاف ہوتا ہے جو بندگئ خدا سے متصادم ہو اور دنیا میں حکومتِ الٰہیہ کے قیام اور طاغوت میں خاتمہ حائل ہو۔
اسلام کی نگاہ میں دفاعِ وطن کا اصل محرّک
جو لوگ جہاد اسلامی کا جواز صرف "وطنِ اسلام" کے دفاع تک محدود رکھتے ہیں وہ دراصل اسلام کے طریقِ زندگی کی عظمت کو کم کرتے ہیں۔ ان کی نگاہ میں یہ پاکیزہ طریقِ زندگی اتنی اہمیت بھی نہیں رکھتا جتنی اہمیت "وطن" کو حاصل ہے ۔ وطن اور ایسے ہی دوسرے عوامل کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر وہ نہیں ہے جو یہ حضرات پیش کرتے ہیں۔ ان کا یہ نقطۂ نظر عہدِ حاضر کی تخلیق ہے ، یہ اسلامی شعور اور اسلامی تعلیم کے لیے قطعاً اجنبی اور نووارد ہے ۔ اسلامی تعلیم کی رُو سے جہاد کو قائم کرنے کے لیے اصل اعتبار اسلامی عقیدہ کے تحفظ کا ہے ، یا اُس طریقِ حیات کے تحفظ کا ہے جو اس عقیدہ کی عملی تفسیر پیش کرتا ہے یا اُس معاشرے کے تحفظ کا ہے جس میں اس طریقِ حیات کی عملداری ہو۔ رہی "خاک وطن" تو بذات خود اسلام کی نگاہ میں اس کی کوئی وقعت نہیں ہے اور نہ اس کا کوئی وزن ہے ۔ تصور اسلامی کے تحت "خاک وطن" میں اگر کوئی چیز شرف و عظمت بخش سکتی ہے اور اُسے گراں قدر بنا سکتی ہے تو وہ صرف یہ بات ہے کہ وہاں اللہ کی حکومت کا سکہ رواں ہو اور اللہ کا بھیجا ہوا نظامِ زندگی وہاں نافذ ہو۔ اس نسبت کے بعد وطن عقیدۂ اسلام کا قلعہ، اسلامی نظام حیات کی جلوہ گاہ، اسلام کا گھر (دارالاسلام) اور انسان کی آزادئ کامل کی تحریک کا منبع و مرکز قرار پا جاتا ہے ۔ اور بلاشبہ دارالاسلام کا تحفظ اور دفاع خود عقیدۂ اسلام کا دفاع ہے ، اسلامی نظامِ حیات اور اسلام کے نمائندہ معاشرہ کا دفاع ہے ۔ لیکن دفاع کو اصل اور آخری مقصد نہیں قرار دیا جا سکتا، اور نہ دار الاسلام کا تحفظ ہی اسلام کی تحریک جہاد کی اصل غایت ہے ۔ بلکہ دار الاسلام کی حفاظت تو خدا کی حکومت کے قیام کا ایک ذریعہ ہے ۔ اور ثانیاً اس کی وجہ یہ ہے کہ دار الاسلام کو وہ مرکزی مقام بنانا مقصود ہوتا ہے کہ جہاں سے اسلام کا آفتاب جہاں تاب دنیا کے کونے کونے میں چمکے اور نوع انسانی اُس کے اعلانِ آزادی سے متمتع ہو ۔۔۔۔۔۔ یہ بات ہم بیان کر چکے ہیں کہ اس دین کا موضوع "نوع انسان" ہے اور اس کا دائرۂ کار پورا کرۂ ارضی ہے ۔
جہاد اسلام کی فطری ضرورت ہے
جیسا کہ ہم پیچھے بیان کر چکے ہیں دنیا میں اللہ کی حکومت کے قیام میں کئی مادی رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں۔ ریاست کی بے پناہ طاقت، معاشرے کا نظام اور روایات، پورا انسانی ماحول۔ ان میں سے ہر ہر چیز اسلام کی راہ میں ایک سنگِ گراں ہے ۔اسلام ان تمام رکاوٹوں کو ہٹانے کے لیے طاقت کا استعمال کرتا ہے تاکہ اسلام کے درمیان اور افراد انسانی کے درمیان کوئی حجاب حائل نہ رہے اور وہ آزاد فضا کے اندر انسان کی روح اور عقل سے اپیل کر سکے ۔ بناوٹی آقاؤں کی قیود سے رہا کر کے وہ انسان کو ارادہ و انتخاب کی آزادی فراہم کرتا ہے تاکہ وہ اپنی آزاد مرضی سے جس بات کو چاہیں قبول کریں اور جسے چاہيں رد کر دیں۔
اسلام کے نظریۂ جہاد پر مستشرقین نے جو مکروہ حملے شروع کر رکھے ہیں اُن سے ہمیں ہر گز دھوکا نہیں کھانا چاہیے اور نہ کسی گھبراہٹ کا اظہار کرنا چاہیے ۔ یہ بات بھی ہماری حوصلہ شکنی کا باعث نہیں ہونی چاہیے کہ حالات کا دھارا ہمارے خلاف بہہ رہا ہے اور دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں بھی ہمارے خلاف ہیں۔ یہ باتیں ایسی نہیں ہیں کہ ہم ان سے متاثر ہو کر اسلامی جہاد کے وجوہ جواز دین کی فطرت و حقیقت سے کہیں باہر تلاش کرنا شروع کر دیں۔ اور جہاد کو دفاعی ضرورت اور وقتی اسباب و حالات کا نتیجہ قرار دینے لگیں۔ جہاد جاری ہے اور جاری رہے گا۔ خواہ دفاعی ضروریات اور وقتی اسباب و حالات پائے جائیں یا نہ پائے جائیں۔ تاریخ کے نشیب و فراز کا جائزہ لیتے وقت ہمیں ان اصل محرکات اور تقاضوں کو ہرگز نظر انداز نہ کرنا چاہیے جو اس دین کی طبیعت میں، اس کے عالم گیر اعلانِ آزادی میں، اور اس کے حقیقت پسندانہ طریقِ کار میں پنہاں ہیں۔ یہ بات درست نہ ہوگی کہ ہم ان اصل محرکات اور تقاضوں کے درمیان اور دفاعی ضروریات اور وقتی داعیات کے درمیان خلط مبحث کریں۔
بلاشبہ اس دین کو بیرونی حملہ آوروں سے اپنے دفاع کا پورا پورا انتظام کرنا ہوگا۔ اس لیے کہ دین کا محض اس شکل میں آنا کہ یہ اللہ کی عالمی ربوبیت کا اعلان اور غیر اللہ کی بندگی سے انسان کی رستگاری کی دعوت ہے ، اور پھر اس کا ایک منظم تحریک کا قالب اختیار کر لینا جو جاہلی قیادتوں سے باغی اور ایک بالکل نئی اور جُداگانہ طرز کی قیادت کے تابع ہو، اور ایک نرالے اور مستقل معاشرے کی تخلیق کرنا جو انسانی حاکمیت کو اس لیے تسلیم نہ کرتا ہو کہ حاکمیت صرف خدائے واحد کا حق ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دین کا اس شکل میں دنیا سے اپنا تعارف کرانا ہی اس امر کے لیے بہت کافی ہے کہ اردگرد کے وہ تمام جاہلی معاشرے اور طبقے جو بندگئ انسان کی بنیاد پر قائم ہیں اس کو نیست و نابود کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور اپنے وجود کے تحفظ و دفاع کے لیے خم ٹھونک کر باہر نکل آئیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں نئے اسلامی معاشرے کو بھی اپنے تحفظ و دفاع کا انتظام کرنا ہوگا۔ اس صورتِ حال کا رونما ہونا ناگزیر ہے جوں ہی اسلام کا ظہور ہوگا یہ صورتِ حال بھی لازماً پیدا ہوگی۔ اس کشمکش کو چھیڑنے میں اسلام کی پسند و ناپسند کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کیوں کہ یہ کشمکش تو اسلام پر ٹھونسی جاتی ہے ۔ یہ وہ طبعی کشمکش ہے جو دو ایسے نظاموں کے مابین چھڑ کر رہتی ہے جو زیادہ عرصہ تک بقائے باہم کے اصول پر ساتھ ساتھ نہیں رہ سکتے ۔ یہ وہ حقیقت ہے جس میں مجال شک نہیں ہے ۔ اور اسی نفس الامری حقیقت کی رُو سے اسلام کے لیے اپنی مدافعت ضروری ہو جاتی ہے ۔ اُسے یہ مسلط کردہ دفاعی جنگ لڑے بغیر چارہ نہیں ہے ۔