جالا بُنا گیا تھا پتا ہی نہیں چلا - پرویز اختر

فرخ منظور

لائبریرین
جالا بُنا گیا تھا پتا ہی نہیں چلا
مکڑی نے کچھ لکھا تھا پتا ہی نہیں چلا

سوتا نہیں تھا میں توکبھی فرشِ سنگ پر
آج اتنا تھک چکا تھا پتا ہی نہیں چلا

تھے سب ہی سوگوار پتا چل گیا مگر
کِس کِس کو دکھ ہوا تھا پتا ہی نہیں چلا

منصف نے بس سزائیں بتائیں، سبب نہیں
مجرم وہ کیوں بنا تھا پتا ہی نہیں چلا

پرویز سب کے ساتھ بُجھاتا رہا میں آگ
میرا ہی گھر جلا تھا پتا ہی نہیں چلا
 

نوید صادق

محفلین
یوں تو ساری غزل ہی خوب ہے۔ لیکن یہ شعر

جالا بُنا گیا تھا پتا ہی نہیں چلا
مکڑی نے کچھ لکھا تھا پتا ہی نہیں چلا

مطلع اپنے اندر ایک جہانِ معنی سموئے ہوئے ہے۔ آج کا انسان اپنے کارہائے روزوشب میں اس قدر مصروف ہے کہ اسے اپنے گرد و پیش کی قطعا" خبر نہیں۔ روایات کے مطابق جالے کا بُنا جانا، نحوست کی علامت ہے، ویرانی کی علامت ہے۔ لیکن ہم اس پر غور کریں تو!!!
شعر کو وسیع تر تناظر میں دیکھیں تو دنیا میں جو ہم کر رہے ہیں ، یہ ہماری اپنی تباہی کا پیش خیمہ ہے۔ لیکن ہمیں اس کی مطلق خبر نہیں۔ کیونکہ ہم لوگ محض فتوحات کے چکر میں ہیں۔
 

نوید صادق

محفلین
پرویز اختر کی شاعری میں اس کا مشاہدہ قابلِ دید ہے۔ وہ اپنے موضوعات اپنے گرد و پیش سے اٹھاتے ہیں۔ ان کے ہاں ابہام نام کو نہیں۔ ہاں شعر میں دوسری تیسری قرات میں جا کر دیگر معانی دستیاب ہوتے ہیں۔
مرحوم گفتگو میں بھی ایسے ہی تھے۔ میری ان سے دو ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ انتہائی سادہ انسان۔ ان کی باتیں مزے کی تھیں۔ پہلی بار ملے تو بہت خوش تھے۔ میرے گھر تشریف لائے۔
دوسری بار پاکستان آئے تو بیمار تھے۔ مجھے اپنے ہاں بلا لیا۔ اس ملاقات میں ان کی ساری گفتگو اپنی بیماری سے متعلق تھی۔ پریشانی تھی۔
 

مغزل

محفلین
جالا بُنا گیا تھا پتا ہی نہیں چلا
مکڑی نے کچھ لکھا تھا پتا ہی نہیں چلا

’’ پوری قوم و امت وعہد کا نوحہ ‘‘

سوتا نہیں تھا میں توکبھی فرشِ سنگ پر
آج اتنا تھک چکا تھا پتا ہی نہیں چلا

’’ جبلّتِ انسانی ‘‘

تھے سب ہی سوگوار پتا چل گیا مگر
کِس کِس کو دکھ ہوا تھا پتا ہی نہیں چلا

’’ کیا جواب ہے / چہ خوب‘‘

منصف نے بس سزائیں بتائیں، سبب نہیں
مجرم وہ کیوں بنا تھا پتا ہی نہیں چلا

’’ کیا جواب ہے / چہ خوب‘‘

پرویز سب کے ساتھ بُجھاتا رہا میں آگ
میرا ہی گھر جلا تھا پتا ہی نہیں چلا

’’ کیا جواب ہے / چہ خوب‘‘


قدر و ناقدری کاسامزاج، کلاسیکی رویہ، جدّت طرازی، گدازِ طبع اور قدرتِ کلام کا منھ بولتا ثبوت،
بہت شکریہ فرخ صاحب ، بہت شکریہ (جناب سے ملاقات ہو تو بندے کا سلام عرض کیجئے )
 

محمداحمد

لائبریرین
جالا بُنا گیا تھا پتا ہی نہیں چلا
مکڑی نے کچھ لکھا تھا پتا ہی نہیں چلا

’’ پوری قوم و امت وعہد کا نوحہ ‘‘

سوتا نہیں تھا میں توکبھی فرشِ سنگ پر
آج اتنا تھک چکا تھا پتا ہی نہیں چلا

’’ جبلّتِ انسانی ‘‘

تھے سب ہی سوگوار پتا چل گیا مگر
کِس کِس کو دکھ ہوا تھا پتا ہی نہیں چلا

’’ کیا جواب ہے / چہ خوب‘‘

منصف نے بس سزائیں بتائیں، سبب نہیں
مجرم وہ کیوں بنا تھا پتا ہی نہیں چلا

’’ کیا جواب ہے / چہ خوب‘‘

پرویز سب کے ساتھ بُجھاتا رہا میں آگ
میرا ہی گھر جلا تھا پتا ہی نہیں چلا

’’ کیا جواب ہے / چہ خوب‘‘


قدر و ناقدری کاسامزاج، کلاسیکی رویہ، جدّت طرازی، گدازِ طبع اور قدرتِ کلام کا منھ بولتا ثبوت،
بہت شکریہ فرخ صاحب ، بہت شکریہ (جناب سے ملاقات ہو تو بندے کا سلام عرض کیجئے )

مغل بھائی

پرویز اختر صاحب ہم میں نہیں رہے ہیں اب اُن کا کلام ہی اُن سے ملاقات کا سبب ہو سکتا ہے۔
 

نوید صادق

محفلین
مغل بھائی،
میں بار بار اسی بات پر زور دیتا ہوں کہ مفاہیم پر بات کریں۔ آپ نے یقینا" یہ کر دکھایا ہے۔ لیکن اگر ہم شعر کے رجحان اور مطمع نظر پر بات کریں تو یقین جانئے بہت لطف رہے گا۔

اس غزل پر بات میں مزا آ رہا ہے۔

شائد آپ کو یاد ہو کسی زمانے میں ادبِ لطیف وغیرہ میں غزلوں/ نظموں کا تجزیہ پیش کیا جاتا تھا۔ ہم اسی طرح اگر باری باری محض داد کی بجائے کھل کھلا کر اپنی اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق غزل پر بات کریں تو لطف تو رہے گا ہی اور ساتھ ساتھ ہم بہت کچھ سیکھ سکیں گے۔
 

نوید صادق

محفلین
ایک سال ہونے کو ہے۔ بس پاکستان آئے۔ طبیعت کافی خراب تھی۔ ملاقات ہوئی میری۔ واپس گئے، کچھ دن بعد ہی وہاں سے فون آ گیا۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
چونکہ مجھے پرویز اخترا کی تقریباً ساری شاعری ہی بہت پسند آئی ہے - میرا خیال ہے پرویز اس عہد کے ان تمام شاعروں سے آگے کھڑا دکھائی دیتا ہے جو جدید غزل اور جدید شاعری کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں اور اپنے تئیں سمجھتے ہیں کہ وہ بہت جدید شاعری کر رہے ہیں - پرویز نے اپنی روزمرہ زندگی کی شاعری میں سمویا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے یوں لگتا ہے کہ آپ اس کے تجربوں میں دوبارہ جی رہے ہیں - اگر ویسا ہی حادثہ آپ کے ساتھ ہوا ہے جیسا پرویز اپنی شاعری میں بیان کررہا ہے تو یقیناً آپ اس حادثے یا واقعے کو بینعہ ویسے ہی جیتے ہیں جیسے آپ نے اسے پہلی بار جیا تھا -
 

فرخ منظور

لائبریرین
جب نوید صاحب نے مجھے یہ کتاب عنائت کی تو میرا خیال تھا کہ شاید یہ کوئی شوقیہ شاعر ہیں اور چند ایک اشعار کے سوا باقی اشعار بے کار ہی ہوں گے - لیکن جب میں نے نوید صاحب کے سامنے ہی کتاب کھولی تو اچھل کر رہ گیا اور نوید صاحب کو کہا - نوید صاحب یہ ہے جدید شاعر اور جدید غزل کہ شاعر نے اپنے روزمرہ واقعات کو اس خوبصورتی کے ساتھ شاعری میں باندھا ہے کہ آپ اس واقعے کی حقیقی لذت کو محسوس کرتے ہیں اور ایک ہی شعر بار بار پڑھ کر قندِ مکرر کا مزا لیتے ہیں -
 
Top