توہین مذہب کے مقدمے میں سزائے موت پانے والے بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے سابق لیکچرار جنید حفیظ کون ہیں؟
عارف شمیم بی بی سی اردو، لندن
پاکستان میں پنجاب کے جنوبی شہر ملتان کی بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے سابق لیکچرار جنید حفیظ کو پنجاب کی ایک عدالت نے توہین مذہب کے مقدمے میں موت کی سزا سنائی ہے۔
جنید حفیظ کون ہیں؟
جنید حفیط جنوبی پنجاب کے ایک شہر راجن پور میں پیدا ہوئے۔ جنید حفیظ نے ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں پری میڈیکل میں ٹاپ کیا اور کنگ ایڈروڈ میڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا۔ لیکن ایم بی بی ایس کے پہلے ہی سال کے بعد انھیں احساس ہوا کہ ان کا دل طب کی کتابوں میں نہیں بلکہ لٹریچر کی رومانیت میں ہے۔
انھوں نے سنہ 2006 میں میڈیکل کی تعلیم چھوڑ دی اور بہاؤ الدین ذکریا یونیورسٹی میں انگلش لٹریچر کے شعبہ میں داخلہ لے لیا۔ ان کے تعلیمی کیریر میں حاصل کردہ اچھے نمبروں کی وجہ سے انھیں فل برائٹ سکالرشپ پروگرام کے لیے منتخب کیا گیا اور وہ امریکہ میں اپنی ماسٹرز کی ڈگری مکمل کرنے چلے گئے۔
انھوں نے جیکسن سٹیٹ یونیورسٹی سے امریکی لٹریچر، فوٹوگرافی اور تھیئٹر میں تعلیم حاصل کی اور پھر واپس پاکستان آ گئے۔
سنہ 2011 میں انھوں نے بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے انگلش ڈیپارٹمنٹ میں بطور وزیٹنگ لیکچرار اپنی خدمات انجام دینا شروع کر دیں اور ساتھ ہی اپنی ایم فل کی ڈگری کے لیے پڑھائی کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔
ان کا تھسیز یعنی مکالہ ’این ایتھنوگرافک سٹڈی آف میسکولینیٹی ان پوپولر سنیما ان ملتان‘ یعنی ’ملتان کے مقبول سنیما میں مردانگی سے متعلق نسلی جغرافیے کا ایک جائزہ‘ تھا۔
برطانوی نژاد پاکستانی اور جنید حفیظ کیس
جنید حفیظ پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ لبرل خیالات کے لوگوں کو یونیورسٹی میں بلا کر مذہبی منافرت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک واقعہ پاکستانی نژاد برطانوی مصنفہ قیصرہ شاہراز کے بہاؤ الدین یونیورسٹی میں بلائے جانے کا ہے۔
قیصرہ کو یونیورسٹی کی ایک تقریب میں بلایا گیا جسے منعقد کرنے والوں میں جنید حفیظ بھی شامل تھے۔ اس تقریب کی اجازت وائس چانسلر سے لی گئی تھی اور اس سے شعبہ انگلش لٹریچر کی سربراہ شیریں زبیر سمیت مختلف لوگوں نے خطاب کیا جن میں قیصرہ شاہراز بھی بطور مہمان سپیکر شامل تھیں۔ اس کے بعد میں کچھ لوگوں نے الزام لگایا کہ اس میں حفیظ نے ایسے کلمات کہے ہیں جن سے مذہب کی دل آزاری ہوتی ہے۔
13 مارچ 2013 کو جنید کو توہینِ مذہب کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا جبکہ شعبۂ انگلش کی سربراہ شیریں زبیر ملک چھوڑ کر چلی گئیں۔
سوشل میڈیا پر دل آزاری
جنید حفیظ پر سوشل میڈیا پر مذہبی دل آزاری پر مبنی تبصرہ کرنے کا مقدمہ 13 مارچ 2013 میں درج کیا گیا تھا۔ سکیورٹی خدشات کے باعث اپریل 2014 کو کیس کی سماعت سینٹرل جیل میں کرنے کی ہدایات جاری ہوئیں۔
مقدمے کا آغاز سنہ 2014 میں ہوا جبکہ استغاثہ نے اس میں تیرہ شہادتیں دی تھیں۔ جس میں یونیورسٹی کے دیگر استاد، طالب علم اور پولیس کی شہادتیں بھی شامل ہیں۔
جنید پر الزام ہے کہ انھوں نے بعض لوگوں کے ساتھ مل کر ’نام نہاد لبرلز آف پاکستان‘ نامی ایک فیس بک صفحہ بنایا تھا جس پر انھوں نے ’ملا منافق‘ نامی ایک یوزر کے مذہبی شخصیات کے متعلق نازیبہ کمنٹس (تبصرے) کو نہ صرف ڈلیٹ نہیں کیا بلکہ ’لائک‘ بھی کیا تھا۔
پولیس نے اپنی تحقیقات کے دوران اس صفحے کو ایک بڑی شہادت بنایا اور اسی بنیاد پر جیند حفیظ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور ذاتی کمپیوٹر کی بھی چھان بین کی گئی۔
’ملا منافق‘ کی پوسٹ 10 فروری 2013 کو لگائی گئی لیکن اس پر احتجاج 13 مارچ کو شروع ہوا۔
اب یہ صفحہ اور پوسٹ فیس بک پر نہیں ہیں۔
Image captionوکیل صفائی راشد رحمان کو سات مئی 2014 کو ملتان میں ان کے چیمبر میں گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا تھا
جنید حفیظ کے وکیل
جنید حفیظ کے پہلے وکیل تو شروع ہی میں کیس چھوڑ گئے لیکن اس کے بعد ایک اور وکیل اور ملتان میں انسانی حقوق کے کارکن راشد رحمٰن نے ان کا مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا۔
راشد رحمان کو مئی 2014 میں ان کے دفتر میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا۔
ستمبر 2014 میں جنید حفیظ کی طرف سے ایک پیٹیشن دائر کی گئی کہ ان کی جان کو خطرے کی بنا پر ان کا مقدمہ ملتان کی بجائے لاہور بھیجا جائے۔ لیکن ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اسے مسترد کر دیا۔
انتہائی حساس حالات کی وجہ سے اس مقدمے کا ٹرائل ملتان سنٹرل جیل میں ہوا اور ان کے نئے وکیل کو ہر پیشی پر وہیں جانا پڑتا۔ اس مقدمے کا فیصلہ بھی ملتان جیل میں ہی سنایا گیا۔
جنید حفیظ کی سزا
پاکستان میں پنجاب کے جنوبی شہر ملتان کی بہاؤ الدین ذکریا یونیورسٹی کے لیکچرار جنید حفیظ کے خلاف توہین مذہب کے مقدمے کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے انھیں سزائے موت کا حکم دیا ہے۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کاشف قیوم نے سنیچر کو سنٹرل جیل ملتان میں اس مقدمے کے فیصلے میں جیند حفیظ کو دفعہ 295 اے، بی اور سی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے پھانسی کی سزا، عمر قید، دس سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جیند حفیظ کی تینوں سزاؤں پر عملدرآمد ایک ساتھ شروع ہو گا۔ جس میں عمر قید اور قید کی سزا پوری ہونے پر پھانسی کی سزا دی جائے گی۔‘