جامعہ قائداع

x boy

محفلین
uni-4.jpg
 
اس خبر کا سورس بھی نقل کر دیتے۔
نماز کیلئے جا کر واپس نا آنا تو کوئی اسلامی طریقہ نہیں۔
نماز کیلئے تدریس کے اوقات میں مناسب وقفہ ہونا چاہئے جسے اتفاق رائے سے طے کرنا چاہئے۔
نماز کیلئے جانے پر کسی مسلمان کو اعتراض نہیں ہوسکتا کسی استاد کی ناراضی کی شائد وجوہات کچھ اور ہوں۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ویسے جس بیمار ذہنیت کے آدمی نے یہ خبر لکھی ہے۔ وہ لڑکیوں کی تصویر لگانا نہیں بھولا۔ اپنی کسی بہن کی تصویر لگا دیتا اگر دنیا کو فیضیاب ہی کرنا تھا۔ لڑکیوں اور لڑکوں کا الگ الگ گروپس میں بیٹھنا یہاں کی عمومی روایت ہے۔ اور اس کھلے مجلسی اختلاط کو عمومی لوگ پسند بھی نہیں کرتے۔
بفرض محال ایسا ہوا بھی ہو تو کسی ایک واقعہ کو بنیاد بنا کر اسلامی شعار کی تضحیک کرنا میڈیا کا پرانا مشغلہ ہے۔ حیرت ان لوگوں پر ہے جو ان پر کان دھرتے ہیں۔ بقیہ قائداعظم یونیورسٹی میں کوئی اسلامی کلچر پروان چڑھتا نظر نہیں آتا۔ میں کچھ دن پہلے ہی وہاں کینٹین کی ایک ڈش کھانے گیا تھا۔۔۔۔ سب ہی کپڑوں سے باہر ہونے کو پھرتے تھے۔
مزید یہ کہ اساتذہ کو وہ بچے تو یاد رہتے ہیں جو نماز پڑھنے جاتے ہیں اور واپس نہیں آتے لیکن وہ یاد نہیں رہتے جو سیڑھیوں میں ایک دوسرے کا ہار بنے رہتے ہیں۔ اور سرے سے کلاس ہی میں نہیں آتے۔ (اس بات سے واپس نہ آنے اور غلط بیانی کی روش کی وکالت ہرگز مقصود نہیں)۔
 
سورس تو لگ رہا ہے کہ نیوز ٹرائب ہے جو کہ واٹر مارک میں نظر آ رہا ہے لیکن انتہائی چول ماری گئی ہے۔
میرے دوستوں میں قائد اعظم یونیورسٹی کے بہت سے طلباء طالبات اور اساتذہ کا شمار ہوتا ہے اور مجھے جب بھی وہاں جانا ہوا مجھے وہاں لڑکے لڑکیاں اکٹھے ایک گروپ میں بھی نظر آئے اور الگ الگ بھی۔ اور کسی قسم کی شکایت کسی حوالے سے نا مذہبی ذہن رکھنے والے دوستوں نے کی اور نہ ہی آزاد خیال دوستوں نے۔

شاید یونیورسٹی کے نام کا مغالطہ لگ گیا ہے رائٹر کو۔
 
Top