ویسے جس بیمار ذہنیت کے آدمی نے یہ خبر لکھی ہے۔ وہ لڑکیوں کی تصویر لگانا نہیں بھولا۔ اپنی کسی بہن کی تصویر لگا دیتا اگر دنیا کو فیضیاب ہی کرنا تھا۔ لڑکیوں اور لڑکوں کا الگ الگ گروپس میں بیٹھنا یہاں کی عمومی روایت ہے۔ اور اس کھلے مجلسی اختلاط کو عمومی لوگ پسند بھی نہیں کرتے۔
بفرض محال ایسا ہوا بھی ہو تو کسی ایک واقعہ کو بنیاد بنا کر اسلامی شعار کی تضحیک کرنا میڈیا کا پرانا مشغلہ ہے۔ حیرت ان لوگوں پر ہے جو ان پر کان دھرتے ہیں۔ بقیہ قائداعظم یونیورسٹی میں کوئی اسلامی کلچر پروان چڑھتا نظر نہیں آتا۔ میں کچھ دن پہلے ہی وہاں کینٹین کی ایک ڈش کھانے گیا تھا۔۔۔۔ سب ہی کپڑوں سے باہر ہونے کو پھرتے تھے۔
مزید یہ کہ اساتذہ کو وہ بچے تو یاد رہتے ہیں جو نماز پڑھنے جاتے ہیں اور واپس نہیں آتے لیکن وہ یاد نہیں رہتے جو سیڑھیوں میں ایک دوسرے کا ہار بنے رہتے ہیں۔ اور سرے سے کلاس ہی میں نہیں آتے۔ (اس بات سے واپس نہ آنے اور غلط بیانی کی روش کی وکالت ہرگز مقصود نہیں)۔