محمد بلال اعظم

لائبریرین
میری ناقص رائے میں قافیہ درست ہے اب بات یہ ہے کہ:
پہلی بات تو یہ کہ محمد یعقوب آسی صاحب نے بجا فرمایا کہ ایک دوسرے پر اشتباہ ہو یہ بھی نواقض میں ہے۔ تو بچا جائے تو انتہائی بہتر ہے۔
فاتح بھائی کی بات سے بھی اتفاق کہ مطلع میں قافیہ مقرر کرلینا ضروری ہے۔
یہاں میں ایک بات یہ کہنا چاہوں گا کہ قافیہ ہے تو بالکل درست۔ کیونکہ مطلع کے "دونوں مصرعوں میں مختلف لفظوں کو قافیہ کیا ہے"۔ (یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ قافیہ کی تمام شرائط اس شعر میں پائی جاتی ہیں۔ شاعر اگر اصرار کرے تو اسے اختیار ہے کہ یہی قافیہ استعمال کرے) مگر پھر بھی بقول یعقوب آسی صاحب کے کہ اشتباہ ہو رہا ہے ایک دوسرے پر تو مطلعے کے پہلے مصرعے میں اگر قافیہ بدل کر "مانے"، "لانے"، "ڈھانے" یا دیوانے یا اسی طرح کا اور کچھ کر دیا جائے تو بہتر ہوگا۔

دوسری بات: بہت ممکن ہے کہ کسی کے دماغ میں خیال آئے کہ اضافت کی کسرہ کو "ے" کا قائم مقام بنا کر قافیہ میں بطورِ "حرف وصل" استعمال کرنا غلط ہے۔ تو ایسا نہیں ہے۔ یہ تصرف بھی برتا گیا ہے۔ اور جائز ہے۔ بلکہ اساتذہ کے کلام میں بھی مثالیں موجود ہیں اور متاخرین میں بھی جو وقت کی کمی کی وجہ سے پیش نہیں کر رہا۔ بہرحال۔ ایک غزل احمد فراز کی محمد بلال اعظم سے درخواست کرتا ہوں کہ پیش کردیں جس میں "ی" قافیہ ہے اور کسرہ کو "ے" کا قائم مقام بنا کر قافیہ میں استعمال کیا گیا ہے۔
آپ شاید فراز کی اس غزل کی بات کر رہے ہیں:

کس نے کہا تھا کہ وحشت میں چھانیے صحرا
کڑی ہے دھوپ تو اب سر پہ تانیے صحرا

بس اک ذرا سے اُجڑنے پہ زعم کتنا ہے
یہ دل بضد ہے کہ اب اس کو مانیے صحرا

کسی کی آبلہ پائی عنایتِ رہِ دوست
کسی کی چاک قبائی نشانیِ صحرا

یہ زندگی کہ خیاباں بھی ہے خرابہ بھی
اب اس کو خلد سمجھیے کہ جانیے صحرا

ہوس کے واسے سو در کھُلے ہیں شہروں میں
اگر جنونِ وفا ہے تو چھانیے صحرا

ستم تو یہ ہے کہ اب خانہ زادگانِ چمن
ہمیں بتانے لگے ہیں معانیِ صحرا

ہمیں ملی نہ کہیں خیمہ زن نگارِ بہار
لئے پھری ہے عبث بیکرانیِ صحرا

فرازؔ و قیس ہیں دونوں ہی کشتگانِ وفا
یہ جانِ شہرِ ملامت وہ جانیِ صحرا
٭٭٭​
 
میری ناقص رائے میں قافیہ درست ہے اب بات یہ ہے کہ:
پہلی بات تو یہ کہ محمد یعقوب آسی صاحب نے بجا فرمایا کہ ایک دوسرے پر اشتباہ ہو یہ بھی نواقض میں ہے۔ تو بچا جائے تو انتہائی بہتر ہے۔
فاتح بھائی کی بات سے بھی اتفاق کہ مطلع میں قافیہ مقرر کرلینا ضروری ہے۔
یہاں میں ایک بات یہ کہنا چاہوں گا کہ قافیہ ہے تو بالکل درست۔ کیونکہ مطلع کے "دونوں مصرعوں میں مختلف لفظوں کو قافیہ کیا ہے"۔ (یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ قافیہ کی تمام شرائط اس شعر میں پائی جاتی ہیں۔ شاعر اگر اصرار کرے تو اسے اختیار ہے کہ یہی قافیہ استعمال کرے) مگر پھر بھی بقول یعقوب آسی صاحب کے کہ اشتباہ ہو رہا ہے ایک دوسرے پر تو مطلعے کے پہلے مصرعے میں اگر قافیہ بدل کر "مانے"، "لانے"، "ڈھانے" یا دیوانے یا اسی طرح کا اور کچھ کر دیا جائے تو بہتر ہوگا۔

دوسری بات: بہت ممکن ہے کہ کسی کے دماغ میں خیال آئے کہ اضافت کی کسرہ کو "ے" کا قائم مقام بنا کر قافیہ میں بطورِ "حرف وصل" استعمال کرنا غلط ہے۔ تو ایسا نہیں ہے۔ یہ تصرف بھی برتا گیا ہے۔ اور جائز ہے۔ بلکہ اساتذہ کے کلام میں بھی مثالیں موجود ہیں اور متاخرین میں بھی جو وقت کی کمی کی وجہ سے پیش نہیں کر رہا۔ بہرحال۔ ایک غزل احمد فراز کی محمد بلال اعظم سے درخواست کرتا ہوں کہ پیش کردیں جس میں "ی" قافیہ ہے اور کسرہ کو "ے" کا قائم مقام بنا کر قافیہ میں استعمال کیا گیا ہے۔
بہت شکریہ مزمل صاحب!
آپ نے سب کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے، دیکھتے ہیں کتنی کامیابی ملتی ہے آپ کو، میں باقی تو تمام باتوں سے مکمل طور پر متفق ہوں، بس ایک بات سے بلکہ آپ کی ایک رائے سے اختلاف (حالانکہ اس لائق نہیں ہوں) کروں گا کہ ”پہلے مصرعے میں جانے کی جگہ کچھ اور لانا زیادہ بہتر ہے“، اس لیے کہ یہاں ”جانے“ کو تین مرتبہ استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہے، مفہوم عام سا ، لفاظی غالب ہے، نیز مقصد مفہوم پیش کرنا نہیں، بلکہ جناسِ تام پر مشتمل تین لفظ پیش کرنا ہے، البتہ یہاں محترم آسی صاحب کا فرمان بہت اچھا لگا کہ
”صنائع بدائع سے کام لیجیے صاحب! صنائع بدائع پر انحصار نہ کیجیے۔ بہت آداب۔“:)ایک مرتبہ پھر بہت بہت شکریہ مزمل صاحب آپ کا بھی اور جناب محمد یعقوب آسی صاحب ، جناب کاشف عمران صاحب اور جناب فاتح صاحب کا کہ انھوں نے بہت مفید مفید باتیں بتائیں۔مجھے کاشف عمران صاحب کا اندازِ گفتگو اس دھاگے میں بہت پسند آیا کہ انھوں نے صنائع بدائع کی ایک مثال پر مشتمل اس قطعے کی مناسبت سے اپنی باتوں میں لفاظی کو غالب رکھا۔اللہ تعالیٰ آپ سب حضرات کو اجرِ جزیل عطا فرمائے۔ آمین!​
 
بہت شکریہ جناب مزمل شیخ بسمل ۔۔
صرف ایک نکتہ اور ہے:
اشباع (جانے اور جانِ) کی رعایت بجا، پھر بھی ’’جان اَے‘‘ کا کیا کیجئے گا؟ یائے مجہول کے ساتھ یائے لین؟
توجہ کا طالب ہوں۔

یہ اعتراض بھی بجا ہے استاد محترم۔ دیکھیں اسامہ صاحب کیا فرماتے ہیں۔
 
آپ شاید فراز کی اس غزل کی بات کر رہے ہیں:

کس نے کہا تھا کہ وحشت میں چھانیے صحرا​
کڑی ہے دھوپ تو اب سر پہ تانیے صحرا​
بس اک ذرا سے اُجڑنے پہ زعم کتنا ہے​
یہ دل بضد ہے کہ اب اس کو مانیے صحرا​
کسی کی آبلہ پائی عنایتِ رہِ دوست​
کسی کی چاک قبائی نشانیِ صحرا​
یہ زندگی کہ خیاباں بھی ہے خرابہ بھی​
اب اس کو خلد سمجھیے کہ جانیے صحرا​
ہوس کے واسے سو در کھُلے ہیں شہروں میں​
اگر جنونِ وفا ہے تو چھانیے صحرا​
ستم تو یہ ہے کہ اب خانہ زادگانِ چمن​
ہمیں بتانے لگے ہیں معانیِ صحرا​
ہمیں ملی نہ کہیں خیمہ زن نگارِ بہار​
لئے پھری ہے عبث بیکرانیِ صحرا​
فرازؔ و قیس ہیں دونوں ہی کشتگانِ وفا​
یہ جانِ شہرِ ملامت وہ جانیِ صحرا​
٭٭٭​

شکریہ بلال ۔ جی یہی غزل تھی۔ بہت خوب۔ :)

بہت شکریہ مزمل صاحب!
آپ نے سب کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے، دیکھتے ہیں کتنی کامیابی ملتی ہے آپ کو، میں باقی تو تمام باتوں سے مکمل طور پر متفق ہوں، بس ایک بات سے بلکہ آپ کی ایک رائے سے اختلاف (حالانکہ اس لائق نہیں ہوں) کروں گا کہ ”پہلے مصرعے میں جانے کی جگہ کچھ اور لانا زیادہ بہتر ہے“، اس لیے کہ یہاں ”جانے“ کو تین مرتبہ استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہے، مفہوم عام سا ، لفاظی غالب ہے، نیز مقصد مفہوم پیش کرنا نہیں، بلکہ جناسِ تام پر مشتمل تین لفظ پیش کرنا ہے، البتہ یہاں محترم آسی صاحب کا فرمان بہت اچھا لگا کہ
”صنائع بدائع سے کام لیجیے صاحب! صنائع بدائع پر انحصار نہ کیجیے۔ بہت آداب۔“:)ایک مرتبہ پھر بہت بہت شکریہ مزمل صاحب آپ کا بھی اور جناب محمد یعقوب آسی صاحب ، جناب کاشف عمران صاحب اور جناب فاتح صاحب کا کہ انھوں نے بہت مفید مفید باتیں بتائیں۔مجھے کاشف عمران صاحب کا اندازِ گفتگو اس دھاگے میں بہت پسند آیا کہ انھوں نے صنائع بدائع کی ایک مثال پر مشتمل اس قطعے کی مناسبت سے اپنی باتوں میں لفاظی کو غالب رکھا۔اللہ تعالیٰ آپ سب حضرات کو اجرِ جزیل عطا فرمائے۔ آمین!​

بھیا دیکھو مسئلہ یہ کہ میں نے مفہوم کے حوالے سے کچھ اور لانے کو بہتر نہیں کہا۔ تکنیکی حوالے سے کچھ اور قافیہ کرنا مستحسن قرار دیا ہے۔
ورنہ فاتح بھائی جیسے کٹر عروضی آپ کی شاعری کو شاعری ماننے سے انکار کردیں کوئی عجب نہیں۔ :p
 
نہیں جناب۔ جانے مانے میں مجہول ہے۔ اے میں الف پر زبر ہے۔ اور یہاں اشباع میں اختلاف واقع ہو رہا ہے جیسا کہ محمد یعقوب آسی صاحب نے نشاندہی فرمائی۔ :) یہ بات بھی نہایت قبیح ہے
ارے مرگیا۔
یعنی پہلے اور چوتھے مصرعے میں قافیہ تبدیل کروں؟:) ورنہ دھمکی تو آپ دے ہی چکے ہیں۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
بات کہنے سے پہلے ہی، آپ تمام حضرات سے انتہائی انتہائی معذرت۔ مگر یہ عاجز خلوص سے سمجھتا ہے کہ اس پر لازم ہے کہ ایک اختلافی نوٹ تحریر کرے۔

اب بحث نے وہ رخ اختیار کر لیا ہے جو علمائے قدیم کے ہاں ہوتا تھا۔ جس کے سبب تاتاریوں نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ایک طرف یہ بحث تھی کہ نوکِ سوزن پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں۔ دوسری طرف عملی زوال کی انتہا تھی۔

مان لیا قافیے سب درست ہیں۔ مان لیا وزن ٹھیک ہے۔ مان لیا ہر لفظی ضرورت پوری ہوئی۔ معنی کیا نکلا؟؟ چھلکا خوب ہے، بس یہی مطمحِ نظر ہے؟ ان اشعار میں معانی کہاں ہے؟؟ ہم کہیں غلط سمت میں تو نہیں جا رہے؟

میں ان بچوں سے جو میری بات مانتے ہیں، یہ کہوں گا کہ ان علوم کی تحصیل نہ کریں۔ مجھے عروض کا علم نہیں۔ مگر ہر بحر میں شعر کہہ سکتا ہوں۔ کیا ثابت ہوا؟ صنائع بدائع کے صرف نام سے واقف ہوں۔ مگر خوب سمجھتا ہوں اچھوتی تشبہہ کیسی باندھی جاتی ہے۔ شعر کی بندش کیسے درست کی جاتی ہے۔ کیا ثابت ہوا؟؟

کوئی مجھے یہ بتا دے کہ جس قطعے پر گفتگو ہو رہی ہے، فکری گہرائی یا جذبات کی سچائی کے لحاظ سے اس کا کیا مقام ہے؟

انا للہ و انا الیہ راجعون۔
 

فاتح

لائبریرین
میری ناقص رائے میں قافیہ درست ہے اب بات یہ ہے کہ:
پہلی بات تو یہ کہ محمد یعقوب آسی صاحب نے بجا فرمایا کہ ایک دوسرے پر اشتباہ ہو یہ بھی نواقض میں ہے۔ تو بچا جائے تو انتہائی بہتر ہے۔
فاتح بھائی کی بات سے بھی اتفاق کہ مطلع میں قافیہ مقرر کرلینا ضروری ہے۔
یہاں میں ایک بات یہ کہنا چاہوں گا کہ قافیہ ہے تو بالکل درست۔ کیونکہ مطلع کے "دونوں مصرعوں میں مختلف لفظوں کو قافیہ کیا ہے"۔ (یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ قافیہ کی تمام شرائط اس شعر میں پائی جاتی ہیں۔ شاعر اگر اصرار کرے تو اسے اختیار ہے کہ یہی قافیہ استعمال کرے) مگر پھر بھی بقول یعقوب آسی صاحب کے کہ اشتباہ ہو رہا ہے ایک دوسرے پر تو مطلعے کے پہلے مصرعے میں اگر قافیہ بدل کر "مانے"، "لانے"، "ڈھانے" یا دیوانے یا اسی طرح کا اور کچھ کر دیا جائے تو بہتر ہوگا۔

دوسری بات: بہت ممکن ہے کہ کسی کے دماغ میں خیال آئے کہ اضافت کی کسرہ کو "ے" کا قائم مقام بنا کر قافیہ میں بطورِ "حرف وصل" استعمال کرنا غلط ہے۔ تو ایسا نہیں ہے۔ یہ تصرف بھی برتا گیا ہے۔ اور جائز ہے۔ بلکہ اساتذہ کے کلام میں بھی مثالیں موجود ہیں اور متاخرین میں بھی جو وقت کی کمی کی وجہ سے پیش نہیں کر رہا۔ بہرحال۔ ایک غزل احمد فراز کی محمد بلال اعظم سے درخواست کرتا ہوں کہ پیش کردیں جس میں "ی" قافیہ ہے اور کسرہ کو "ے" کا قائم مقام بنا کر قافیہ میں استعمال کیا گیا ہے۔
میں آپ کی بات سے اتفاق نہیں کروں گا کہ قافیہ درست ہے بلکہ میری رائے میں تو اس قطعہ میں کوئی قافیہ سرے سے موجود ہی نہیں۔
ہاں یہ درست کہا آپ نے کہ اگر مطلع کے مصرع ثانی میں مانے ڈھانے وغیرہ برتا جاتا تب اسے قافیہ مانا جا سکتا تھا لیکن موجود شکل میں بہرحال نہیں۔
 
جسے پہچانے دل اور جس کو جانے من
وہ ہے گلفام و دل آرام و جانِ من
ضروری تو نہیں محبوب مل جائے
تصور بھی بہت ہے ان کا جان اے من!
قابل احترام شعرائے کرام کی بحث کا خلاصہ:
یہ ایک ایسا قطعہ ہے جو ”فن“ اور ”فکر“ دونوں سے محروم ہے۔
فن سے محروم اسطرح ہے کہ اول تو اس میں قافیہ ہے ہی نہیں۔
اس قطعہ میں کوئی قافیہ سرے سے موجود ہی نہیں۔
اور اگر ہے تو اس میں دو قسم کے عیب ہیں:
پہلا عیب:

اصولی طور پر یہ قافیہ کے نواقض ہیں کہ ایک پر دوسرے کا اشتباہ ہو۔

دوسرا عیب:
”جانے“ میں ”ے“ مجہول ہے۔ ”اے“ میں الف پر زبر ہے۔ اور یہاں اشباع میں اختلاف واقع ہو رہا ہے:) یہ بات بھی نہایت قبیح ہے
”فکر“ سے محروم ہے:
کوئی مجھے یہ بتا دے کہ جس قطعے پر گفتگو ہو رہی ہے، فکری گہرائی یا جذبات کی سچائی کے لحاظ سے اس کا کیا مقام ہے؟
کاشف عمران صاحب! میں بھی آپ کے ساتھ مل کر دل کی گہرائی سے کہہ رہا ہوں:
انا للہ و انا الیہ راجعون۔
انا للہ و انا الیہ راجعون۔:(
مزمل شیخ بسمل محمد یعقوب آسی فاتح
 
”اے“ کی یاء مجہول نہیں ہے؟
اَے (تخاطب) اس میں یائے لین ہے، مجہول نہیں۔
اَے، فَے، ہَے، نَے، رَے، شَے، مَے، طَے ۔۔ لبَیک، علَیک، کَیف، اَین، وَیسا، جَیسا، کَیسا، پَیسہ
و علیٰ ھٰذا القیاس۔
یائے مجہول: ریل پیل، تیل، سے، ارے، دے، لے، دیکھ، ایک؛ وغیرہ
یائے معروف: لی، دی، کی، سی، مِیم، نِیم، کھِیر، چِیز، تِیر؛ وغیرہ

نوٹ: کچھ لوگ طَے، مَے، شَے کے ہجے ’’طئے، مئے، شئے‘‘ لکھ دیتے ہیں وہ درست نہیں ہیں۔

محمد اسامہ سَرسَری
 
اَے (تخاطب) اس میں یائے لین ہے، مجہول نہیں۔
اَے، فَے، ہَے، نَے، رَے، شَے، مَے، طَے ۔۔ لبَیک، علَیک، کَیف، اَین، وَیسا، جَیسا، کَیسا، پَیسہ
و علیٰ ھٰذا القیاس۔
یائے مجہول: ریل پیل، تیل، سے، ارے، دے، لے، دیکھ، ایک؛ وغیرہ
یائے معروف: لی، دی، کی، سی، مِیم، نِیم، کھِیر، چِیز، تِیر؛ وغیرہ

نوٹ: کچھ لوگ طَے، مَے، شَے کے ہجے ’’طئے، مئے، شئے‘‘ لکھ دیتے ہیں وہ درست نہیں ہیں۔

محمد اسامہ سَرسَری
بہت شکریہ استاد صاحب! بہت فائدے کی بات بتائی۔
 

فاتح

لائبریرین
اَے (تخاطب) اس میں یائے لین ہے، مجہول نہیں۔
اَے، فَے، ہَے، نَے، رَے، شَے، مَے، طَے ۔۔ لبَیک، علَیک، کَیف، اَین، وَیسا، جَیسا، کَیسا، پَیسہ
و علیٰ ھٰذا القیاس۔
یائے مجہول: ریل پیل، تیل، سے، ارے، دے، لے، دیکھ، ایک؛ وغیرہ
یائے معروف: لی، دی، کی، سی، مِیم، نِیم، کھِیر، چِیز، تِیر؛ وغیرہ

نوٹ: کچھ لوگ طَے، مَے، شَے کے ہجے ’’طئے، مئے، شئے‘‘ لکھ دیتے ہیں وہ درست نہیں ہیں۔

محمد اسامہ سَرسَری
مے کے متعلق ت میں نے آپ سے پہلے بھی عرض کیا تھا آسی صاحب کہ اردو تو اردو فارسی شاعری کے معروف ترین شاعر حافظ نے بھی اسے مئے باندھا ہے:
بدہ ساقی مئے باقی کہ در خواہی نہ جنت یافت
اس کے متعلق کیا کہیے گا؟
 
ایک بات میں آپ سے ضرور کہنا چاہوں گا، جناب محمد اسامہ سَرسَری صاحب۔
آپ چاہے قوافی کی مشق ہی کر رہے ہوں، آپ کے شعر کو ’’شعر‘‘ سے کمتر نہیں ہونا چاہئے۔

خود اپنی بات بھی کر لوں تو شاید کوئی ہرج نہ ہو۔ پچھلے دنوں ایک اور سائٹ پر بیت بازی چل رہی تھی، اس فرق کے ساتھ کہ آپ نے ایک شعر اپنا درج کیا یا کسی کا نقل کیا، اس میں ایک لفظ کو نشان زد کر دیا کہ آپ کے بعد والا دوست ایسا شعر لائے جس میں نشان زدہ لفظ آیا ہو۔
ایک لفظ آ گیا ’’حشر‘‘۔ ذہن پر بہت زور دیا مگر تب کسی کا کوئی ایسا شعر یادداشت میں نہیں ابھرا۔ سوچا: چلئے، ایک شعر ’’بناتے‘‘ ہیں۔ وہ ’’بنایا ہوا‘‘ شعر بھی دیکھتے جائیے:

عقلِ کم کوش کو موت کی گود میں جا کے نیند آ گئی​
عشق منہ زور تھا برزخوں کے سفر پر رہا حشر تک​
۔۔
بہت آداب۔
 
ایک بات میں آپ سے ضرور کہنا چاہوں گا، جناب محمد اسامہ سَرسَری صاحب۔
آپ چاہے قوافی کی مشق ہی کر رہے ہوں، آپ کے شعر کو ’’شعر‘‘ سے کمتر نہیں ہونا چاہئے۔

خود اپنی بات بھی کر لوں تو شاید کوئی ہرج نہ ہو۔ پچھلے دنوں ایک اور سائٹ پر بیت بازی چل رہی تھی، اس فرق کے ساتھ کہ آپ نے ایک شعر اپنا درج کیا یا کسی کا نقل کیا، اس میں ایک لفظ کو نشان زد کر دیا کہ آپ کے بعد والا دوست ایسا شعر لائے جس میں نشان زدہ لفظ آیا ہو۔
ایک لفظ آ گیا ’’حشر‘‘۔ ذہن پر بہت زور دیا مگر تب کسی کا کوئی ایسا شعر یادداشت میں نہیں ابھرا۔ سوچا: چلئے، ایک شعر ’’بناتے‘‘ ہیں۔ وہ ’’بنایا ہوا‘‘ شعر بھی دیکھتے جائیے:

عقلِ کم کوش کو موت کی گود میں جا کے نیند آ گئی​
عشق منہ زور تھا برزخوں کے سفر پر رہا حشر تک​
۔۔
بہت آداب۔
جزاکم اللہ خیرا۔
 
میں آپ کی بات سے اتفاق نہیں کروں گا کہ قافیہ درست ہے بلکہ میری رائے میں تو اس قطعہ میں کوئی قافیہ سرے سے موجود ہی نہیں۔
ہاں یہ درست کہا آپ نے کہ اگر مطلع کے مصرع ثانی میں مانے ڈھانے وغیرہ برتا جاتا تب اسے قافیہ مانا جا سکتا تھا لیکن موجود شکل میں بہرحال نہیں۔

فاتح بھائی مطلع میں قافیہ درست ہے۔ اور دلیل یہ ہے جو میں لکھ چکا ہوں کہ مطلع کہ دونوں قوافی لفظی اور معنوی اطوار سے مختلف ہیں۔ البتہ صوتی اعتبار سے مختلف نہیں۔ اور علم قافیہ میں کوئی ایسا قانون نہیں دکھایا جاسکتا جس سے یہ ثابت ہو جائے کہ دو مختلف مگر ایک صوت رکھنے والے الفاظ (یا ایک لفظ اور ایک مرکب) کو ایک شعر میں قافیہ نہیں کیا جا سکتا۔
ہاں اگر ایسا ہوتا کہ دونوں مصرعوں میں جانے کو قافیہ کیا جاتا، یا دونوں میں جانِ کو قافیہ کرتے تو یقیناً غلط ہوتا۔ پھر بھی میں نے بہتر صورت وہی بتائی ہے کہ ایک قافیہ بدل دیا جائے۔
مرزا سلامت علی دبیر کا ایک مطلع پیش کرتا ہوں:

صادق مثال شمس و قمر کی نہ آئے نہ
کیا تاب منہ تو دیکھو جو بر رو ہو آئنہ

یہ بھی وہی صورتِ حال ہے جو اسامہ کے شعر میں ہے۔
ایک فرق یہ ہے کہ از روئے علمِ قافیہ مرزا کے شعر میں معمولِ ترکیبی کا عیب پیدا ہوگیا ہے۔ جب کہ اسامہ کا شعر اس عیب سے بھی پاک ہے۔ :) :) :)
محمد یعقوب آسی
 
Top