مے کے متعلق ت میں نے آپ سے پہلے بھی عرض کیا تھا آسی صاحب کہ اردو تو اردو فارسی شاعری کے معروف ترین شاعر حافظ نے بھی اسے مئے باندھا ہے:
بدہ ساقی مئے باقی کہ در خواہی نہ جنت یافت
اس کے متعلق کیا کہیے گا؟


ایسا اشکال کتابت یا خطاطی کے سبب ہوا ہو گا۔ ’’مے‘‘ کا لفظ کسی مرکب میں آیا تو لکھنے والے (کاتب) نے اسے ’’مۓ‘‘ لکھا۔ اس میں ہمزہ عملاً یاے کے بعد ہے سو درست۔ جب کہ ’’مئے‘‘ میں ہمزہ یاے سے پہلے ہے سو درست نہیں۔
ایک مثال دیکھئے: مئی کا مہینہ، گرمیٔ گفتار ۔۔
اس گرمیٔ گفتار کو ہمارے سافٹ ویئر وغیرہ کی مجبوری کے تحت ’’گرمیء گفتار‘‘ لکھنا درست، اور ’’گرمئی گفتار لکھنا‘‘ نا درست۔ یہی معاملہ ’’مئے ناب، مۓناب، مےء ناب‘‘ کا ہے۔ ’’مئے ناب‘‘ نا درست ہے۔
’’مۓ ‘‘ اور ’’گرمیٔ ‘‘ میں میم کے بعد دندانہ نہیں ہے، سو یہاں اشکال کے امکانات موجود ہیں۔

آداب۔
 
ایسا اشکال کتابت یا خطاطی کے سبب ہوا ہو گا۔ ’’مے‘‘ کا لفظ کسی مرکب میں آیا تو لکھنے والے (کاتب) نے اسے ’’مۓ‘‘ لکھا۔ اس میں ہمزہ عملاً یاے کے بعد ہے سو درست۔ جب کہ ’’مئے‘‘ میں ہمزہ یاے سے پہلے ہے سو درست نہیں۔
ایک مثال دیکھئے: مئی کا مہینہ، گرمیٔ گفتار ۔۔
اس گرمیٔ گفتار کو ہمارے سافٹ ویئر وغیرہ کی مجبوری کے تحت ’’گرمیء گفتار‘‘ لکھنا درست، اور ’’گرمئی گفتار لکھنا‘‘ نا درست۔
’’مۓ ‘‘ اور ’’گرمیٔ ‘‘ میں میم کے بعد دندانہ نہیں ہے، سو یہاں اشکال کے امکانات موجود ہیں۔
آداب۔
استاد صاحب فارسی اضافت میں مضاف کا آخری حرف ہمیشہ مکسور ہوتا ہے، البتہ جب مضاف کے آخر میں الف ہو تو ”ئے“ کا اضافہ کیا جاتا ہے، جیسے شعرائے کرام۔ لیکن اگر مضاف کے آخر میں ”ی“ ہو تو اس پر تو کسرہ آنا چاہیے نا۔ ”ء“ والا اصول کہیں پڑھا نہیں۔ رہنمائی فرمائیے۔
 
والیٔ بطحا
خرابیٔ بسیار
ویرانیٔ دل
مثنویٔ مولویٔ معنوی​
ہست قرآں در زبانِ پہلوی​

جامی کا شعر مجھے پورا یاد نہیں ۔۔ از جامیٔ بی چارہ مکن ؟؟؟

عطف میں ہمزہ نہیں لکھا جاتا: حالی و غالب، معانی و مفاہیم، گرانی و ارزانی

محمد اسامہ سَرسَری
 
والیٔ بطحا
خرابیٔ بسیار
ویرانیٔ دل
مثنویٔ مولویٔ معنوی​
ہست قرآں در زبانِ پہلوی​

جامی کا شعر مجھے پورا یاد نہیں ۔۔ از جامیٔ بی چارہ مکن ؟؟؟

عطف میں ہمزہ نہیں لکھا جاتا: حالی و غالب، معانی و مفاہیم، گرانی و ارزانی

محمد اسامہ سَرسَری
میں چونکہ فارسی پڑھاتا ہوں، اگر حوالہ مل جائے تو بہت آسانی ہوجائے گی، ویسے آپ کا کہنا بھی میرے لیے بجائے خود ایک حوالہ ہے۔:)
 
بہت خوب، یہ تو آپ نے بڑی کارآمد سائٹ بتادی، مجھے بہت کام آئے گی، جزاکم اللہ خیرا۔
مگر استاد صاحب میرا مطلب تھا کہ جس طرح قواعدِ فارسی کی کتب میں مضاف کے آخر کا کسرہ اور بصورتِ الف ”ئے“ موجود ہے کیا کسی قاعدے کی کتب میں ”ی“ کے اوپر ”ء“ لکھنے کا قاعدہ ہے؟
 

فاتح

لائبریرین
فاتح بھائی مطلع میں قافیہ درست ہے۔ اور دلیل یہ ہے جو میں لکھ چکا ہوں کہ مطلع کہ دونوں قوافی لفظی اور معنوی اطوار سے مختلف ہیں۔ البتہ صوتی اعتبار سے مختلف نہیں۔ اور علم قافیہ میں کوئی ایسا قانون نہیں دکھایا جاسکتا جس سے یہ ثابت ہو جائے کہ دو مختلف مگر ایک صوت رکھنے والے الفاظ (یا ایک لفظ اور ایک مرکب) کو ایک شعر میں قافیہ نہیں کیا جا سکتا۔
ہاں اگر ایسا ہوتا کہ دونوں مصرعوں میں جانے کو قافیہ کیا جاتا، یا دونوں میں جانِ کو قافیہ کرتے تو یقیناً غلط ہوتا۔ پھر بھی میں نے بہتر صورت وہی بتائی ہے کہ ایک قافیہ بدل دیا جائے۔
مرزا سلامت علی دبیر کا ایک مطلع پیش کرتا ہوں:

صادق مثال شمس و قمر کی نہ آئے نہ
کیا تاب منہ تو دیکھو جو بر رو ہو آئنہ

یہ بھی وہی صورتِ حال ہے جو اسامہ کے شعر میں ہے۔
ایک فرق یہ ہے کہ از روئے علمِ قافیہ مرزا کے شعر میں معمولِ ترکیبی کا عیب پیدا ہوگیا ہے۔ جب کہ اسامہ کا شعر اس عیب سے بھی پاک ہے۔ :) :) :)
محمد یعقوب آسی
شاید آپ ہمارا نکتہ نہیں سمجھے۔ صوتی قافیے کے متعلق تو ہم نے اعتراض ہی نہیں کہا کہ یہ کام تو ہم خود کرتے ہیں۔۔۔ ہمارے اپنے اشعار میں صوتی قوافی کی امثال مل جائیں گی۔
کیا اس شعر میں کو اور مو قوافی نہیں ہیں؟ اگر ایسا ہے تو شاعر صاحب کو ایک الگ نوٹ لگانا چاہیے کہ براہ مہربانی کو اور کے قوافی سے صرف نظر فرماتے ہوئے جانے اور جان اے کو قافیہ مانا جائے۔
جسے پہچانے دل اور جس کو جانے من
وہ ہے گلفام و دل آرام و جانِ من
دبیر کے ہاں کسی قافیہ سے صرف نظر نہیں کروایا جا رہا۔
ہم دوبارہ یہی عرض کریں گے کہ قافیے کا اعلان مطلع میں کیا جاتا ہے اور بعد کے اشعار میں اس اعلانیہ پابندی کو نبھایا جاتا ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
ایسا اشکال کتابت یا خطاطی کے سبب ہوا ہو گا۔ ’’مے‘‘ کا لفظ کسی مرکب میں آیا تو لکھنے والے (کاتب) نے اسے ’’مۓ‘‘ لکھا۔ اس میں ہمزہ عملاً یاے کے بعد ہے سو درست۔ جب کہ ’’مئے‘‘ میں ہمزہ یاے سے پہلے ہے سو درست نہیں۔
ایک مثال دیکھئے: مئی کا مہینہ، گرمیٔ گفتار ۔۔
اس گرمیٔ گفتار کو ہمارے سافٹ ویئر وغیرہ کی مجبوری کے تحت ’’گرمیء گفتار‘‘ لکھنا درست، اور ’’گرمئی گفتار لکھنا‘‘ نا درست۔ یہی معاملہ ’’مئے ناب، مۓناب، مےء ناب‘‘ کا ہے۔ ’’مئے ناب‘‘ نا درست ہے۔
’’مۓ ‘‘ اور ’’گرمیٔ ‘‘ میں میم کے بعد دندانہ نہیں ہے، سو یہاں اشکال کے امکانات موجود ہیں۔

آداب۔
آسی صاحب! ہم نے محض املا کی بات نہیں کی بلکہ ہم تو اس کی ادائیگی کے حوالے سے بات کر رہے ہیں کہ حافظ کے مذکورہ شعر میں اگر مے کو دو لفظی مان کر فع کے طور پر پڑھ جائے تو شعر ہی وزن سے خارج ہو جاتا ہے۔ اور یہ شعر صرف اسی صورت میں با وزن رہے گا اگر مے کو تین حرفی (م ء ے) یعنی بر وزن فعو پڑھا جائے۔
علاوہ ازیں اگر اسے مےِ پڑھا جائے تو یہ بر وزن فاع ہو جائے گا اور یوں بھی شعر بے وزن ہو جائے گا
 
شاید آپ ہمارا نکتہ نہیں سمجھے۔ صوتی قافیے کے متعلق تو ہم نے اعتراض ہی نہیں کہا کہ یہ کام تو ہم خود کرتے ہیں۔۔۔ ہمارے اپنے اشعار میں صوتی قوافی کی امثال مل جائیں گی۔
کیا اس شعر میں کو اور مو قوافی نہیں ہیں؟ اگر ایسا ہے تو شاعر صاحب کو ایک الگ نوٹ لگانا چاہیے کہ براہ مہربانی کو اور کے قوافی سے صرف نظر فرماتے ہوئے جانے اور جان اے کو قافیہ مانا جائے۔
جسے پہچانے دل اور جس کو جانے من
وہ ہے گلفام و دل آرام و جانِ من
دبیر کے ہاں کسی قافیہ سے صرف نظر نہیں کروایا جا رہا۔
ہم دوبارہ یہی عرض کریں گے کہ قافیے کا اعلان مطلع میں کیا جاتا ہے اور بعد کے اشعار میں اس اعلانیہ پابندی کو نبھایا جاتا ہے۔
فاتح بھائی! براہِ مہربانی عروضی قواعد کی کوئی ایسی کتاب بتادیں جس میں یہ اصول لکھا ہوا ہے کہ مطلع کے دونوں مصرعوں میں جتنی چیزوں (حرفِ روی ، قافیہ) کا اشتراک ہوجاتا ہے پوری نظم میں اس کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ میں اپنی رہنمائی کے لیے مانگ رہا ہوں، کیونکہ اس سے قبل آپ نے میری اس نظم کو بھی یہی اصول بتا کر غلط قافیوں پر مشتمل نظم قرار دیا تھا۔:)
 

فاتح

لائبریرین
فاتح بھائی! براہِ مہربانی عروضی قواعد کی کوئی ایسی کتاب بتادیں جس میں یہ اصول لکھا ہوا ہے کہ مطلع کے دونوں مصرعوں میں جتنی چیزوں (حرفِ روی ، قافیہ) کا اشتراک ہوجاتا ہے پوری نظم میں اس کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ میں اپنی رہنمائی کے لیے مانگ رہا ہوں، کیونکہ اس سے قبل آپ نے میری اس نظم کو بھی یہی اصول بتا کر غلط قافیوں پر مشتمل نظم قرار دیا تھا۔:)
آپ نے کون کون سی کتب عروضی قواعد پر پڑھی ہیں؟
 

قیصرانی

لائبریرین

فاتح

لائبریرین
اچھا انداز ہے رہنمائی کرنے کا۔
اگر آپ سے پوچھا ہے کہ کون کون سی پڑھی ہیں تو اس میں اس قدر چراغ پا ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر آپ نام بتا دیتے کہ فلاں فلاں کتب آپ صفحہ اول تا آخر پڑھ چکے ہیں تو میرے لیے نسبتاً سہل ہو جاتا آپ کو انھی کتب سے حوالہ دینا۔
 
اگر آپ سے پوچھا ہے کہ کون کون سی پڑھی ہیں تو اس میں اس قدر چراغ پا ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر آپ نام بتا دیتے کہ فلاں فلاں کتب آپ صفحہ اول تا آخر پڑھ چکے ہیں تو میرے لیے نسبتاً سہل ہو جاتا آپ کو انھی کتب سے حوالہ دینا۔
میرے خیال میں آپ کو (اور مجھے بھی) علمِ قافیہ دوبارہ پڑھنے کی ضرورت ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
ان دو اقتباسات کو ساتھ رکھ کر کیا دکھانا چاہ رہے ہیں آپ؟ کیا آپ واقعی اس قدر معصوم اور بھولے ہیں کہ اس اقتباس میں لکھے جملے "میرے خیال میں آپ کو (اور مجھے بھی) علمِ قافیہ دوبارہ پڑھنے کی ضرورت ہے۔" کا مطلب نہیں سمجھ سکے۔
اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ میری جہالت کو علم قافیہ دوبارہ پڑھنے کی ضرورت ہے تو آپ کا سوال ہی غلط تھا کہ مجھ سے عروضی قواعد کے متعلق کتب کا پوچھ رہے تھے۔اور اگر آپ جانتے ہیں کہ جو آپ نے کیا ہے قوافی کے ساتھ وہ سو فیصد درست ہے تو اس کے حوالے دیجیے بجائے مزمل شیخ بسمل یا دوسروں کے کندھوں پر بندوقیں رکھ کے چلانے کے۔
معذرت چاہتا ہوں لیکن میرے خیال میں مجھے اپنی بکواس بند کر کے دفع ہو جانا چاہیے تا کہ آپ آزادی کے ساتھ جو چاہیں کریں۔ مجھے ٹیگوں سے باز ہی رکھیں کیونکہ میں خود آپ کے کسی دھاگے میں چھلانگیں نہیں لگانے آتا جب تک آپ ٹیگ نہ کریں۔
بہرحال یہ میرا آخری مراسلہ ہے آپ کے ساتھ۔ مع السلامہ
 
اگر آپ سے پوچھا ہے کہ کون کون سی پڑھی ہیں تو اس میں اس قدر چراغ پا ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر آپ نام بتا دیتے کہ فلاں فلاں کتب آپ صفحہ اول تا آخر پڑھ چکے ہیں تو میرے لیے نسبتاً سہل ہو جاتا آپ کو انھی کتب سے حوالہ دینا۔
معذرت چاہتا ہوں لیکن میرے خیال میں مجھے اپنی بکواس بند کر کے دفع ہو جانا چاہیے تا کہ آپ آزادی کے ساتھ جو چاہیں کریں۔ مجھے ٹیگوں سے باز ہی رکھیں کیونکہ میں خود آپ کے کسی دھاگے میں چھلانگیں نہیں لگانے آتا جب تک آپ ٹیگ نہ کریں۔
بہرحال یہ میرا آخری مراسلہ ہے آپ کے ساتھ۔ مع السلامہ
:(
 
آسی صاحب! ہم نے محض املا کی بات نہیں کی بلکہ ہم تو اس کی ادائیگی کے حوالے سے بات کر رہے ہیں کہ حافظ کے مذکورہ شعر میں اگر مے کو دو لفظی مان کر فع کے طور پر پڑھ جائے تو شعر ہی وزن سے خارج ہو جاتا ہے۔ اور یہ شعر صرف اسی صورت میں با وزن رہے گا اگر مے کو تین حرفی (م ء ے) یعنی بر وزن فعو پڑھا جائے۔
علاوہ ازیں اگر اسے مےِ پڑھا جائے تو یہ بر وزن فاع ہو جائے گا اور یوں بھی شعر بے وزن ہو جائے گا

http://www.urduencyclopedia.org/urdudictionary/index.php?title=مے
 
بدہ ساقی مئے باقی کہ در جنّت نخواہی یافت

ب دہ سا قی (مفاعیلن)
مَ ےِ با قی (مفاعیلن) ۔۔۔۔۔ یہاں ’’ے‘‘ مکسور پر اشباع ہے یعنی زیر کو کھینچ کر یاے کے برابر لمبا کر دینا۔ ہمزہ کا محض اشتباہ ہو رہا ہے۔
ک در جن نت (مفاعیلن)
ن خا ہی یا ف (مفاعیلان)

مزید الفاظ: مَے کدہ، مَے خوار، مَے نوش
قرض کی پیتے تھے مَے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دِن
۔۔۔۔۔۔۔ غالب
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
قر ض کی پی (فاعلاتن) تے ت مے لے (فاعلاتن) کن س مج تے (فاعلاتن) تے ک ہا (فاعلن)
رن گ لا ئے (فاعلاتن) گی ہ ما ری (فاعلاتن) فا ق مس تی (فاعلاتن) اے ک دن (فاعلن)

۔۔۔۔۔۔۔
 
Top