کامران چوہدری
محفلین
یوں تو ہم اللہ کے فضل و کرم سے چار نمازوں کے پکے نمازی تھے پانچویں نماز فجر ہے جسکے لئے سردیوں میں گرم بستر سے نکلنے کے لئے مظبوط ایمان کی ضرورت ہے جو شاید ابھی تک ہم میں ناپید ہے۔
محلے کی نکڑ پر واقع مسجد میں ہم باقاعدگی سے جاتے اور تمام "بزرگ" جماعتی ساتھیوں سے گھل مل سے گئے تھے۔ایک دو بار دوران نماز کسی ساتھی نمازی کے موبائل کی گھنٹی بجنے پہ "بزرگان مسجد" نے خوب آنکھیں نکال نکال دکھائیں تھیں۔اسی خوف کے پیش نظر ہم مسجد کے لئے گھر سے نکلتے ہی موبائل فون بند کر لیتے تھے۔
آج قسمت کا کرنا یوں ہوا کہ ہم موبائل بند کرنا بھول گئے ابھی دو رکعات نماز ہی پڑھی تھی کہ فرشتہ اجل کی مانند کسی موصوف نے کال کر ڈالی اوپر سے ہمارے "سمارٹ فون" کی بیل بھی اس قدر بے ہودہ کے دن دیہاڑے غصہ آجائے۔مارے خوف "بزرگان جماعت" کے ہمارے ہاتھ پاوں پھولنے لگےبس بہتیرا کاٹا بہتیرا سپیکر پہ ہاتھ رکھا مگر "کالر" صاحب نے ٹھان رکھی تھی کہ آج ہے تو بس ہے۔ پوری ایک رکعت کے بعد کسی نہ کسی طرح ہم موبائل فون آف کرنے میں کامیاب ہو گئے۔مگر سلام پھر جانے کے بعد کے منظر کا سوچ کہ ہمارا کلیجہ منہ کو آرہا تھا۔انٹی موبائل سکواڈ کے ہرکاروں کے خوفناک چہرے آنکھوں میں گھوم رھے تھے۔
جوں ہی سلام پھری اگلی ہی صف میں بیٹھے باریش اور نورانی چہرے والے بزرگ نے پیچھے مڑ کر ایسی کہر آلود نظر گھومائ کہ شدید سردی میں بھی پسینہ آگیا۔اس کے فورا بعد تمام انٹی موبائل سکواڈ ایکٹو ہوگیا اور لگا فتوی دینے کے یہ ایک فتنہ ہے جسکی سرکوبی انتہائ ضروری ہے ہم تھے کے اندر سے کانپی جا رہے تھے اور بحثیت ایک ملزم کے سر نیچا کر کے بیٹھے تھے جیسے کٹیہرے میں کھڑے ہوں۔خدا بھلا کرے امام صاحب کا جنہوں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دیئے ورنہ ہم پہ فرد جرم عائد ہونے کے قریب تھی۔
ہم تہیہ کر چکے تھے کے جونہی دعا ختم ہوگی ہم رفو چکر ہوتے ہی بقیہ نماز گھر آ پڑھیں گے۔آمین کہتے ہی ہم نے جوتا اٹھایا اور گھر کی راہ لی اور شکر ادا کیا کہ۔۔جان بچی سو لاکھوں پائے۔
محلے کی نکڑ پر واقع مسجد میں ہم باقاعدگی سے جاتے اور تمام "بزرگ" جماعتی ساتھیوں سے گھل مل سے گئے تھے۔ایک دو بار دوران نماز کسی ساتھی نمازی کے موبائل کی گھنٹی بجنے پہ "بزرگان مسجد" نے خوب آنکھیں نکال نکال دکھائیں تھیں۔اسی خوف کے پیش نظر ہم مسجد کے لئے گھر سے نکلتے ہی موبائل فون بند کر لیتے تھے۔
آج قسمت کا کرنا یوں ہوا کہ ہم موبائل بند کرنا بھول گئے ابھی دو رکعات نماز ہی پڑھی تھی کہ فرشتہ اجل کی مانند کسی موصوف نے کال کر ڈالی اوپر سے ہمارے "سمارٹ فون" کی بیل بھی اس قدر بے ہودہ کے دن دیہاڑے غصہ آجائے۔مارے خوف "بزرگان جماعت" کے ہمارے ہاتھ پاوں پھولنے لگےبس بہتیرا کاٹا بہتیرا سپیکر پہ ہاتھ رکھا مگر "کالر" صاحب نے ٹھان رکھی تھی کہ آج ہے تو بس ہے۔ پوری ایک رکعت کے بعد کسی نہ کسی طرح ہم موبائل فون آف کرنے میں کامیاب ہو گئے۔مگر سلام پھر جانے کے بعد کے منظر کا سوچ کہ ہمارا کلیجہ منہ کو آرہا تھا۔انٹی موبائل سکواڈ کے ہرکاروں کے خوفناک چہرے آنکھوں میں گھوم رھے تھے۔
جوں ہی سلام پھری اگلی ہی صف میں بیٹھے باریش اور نورانی چہرے والے بزرگ نے پیچھے مڑ کر ایسی کہر آلود نظر گھومائ کہ شدید سردی میں بھی پسینہ آگیا۔اس کے فورا بعد تمام انٹی موبائل سکواڈ ایکٹو ہوگیا اور لگا فتوی دینے کے یہ ایک فتنہ ہے جسکی سرکوبی انتہائ ضروری ہے ہم تھے کے اندر سے کانپی جا رہے تھے اور بحثیت ایک ملزم کے سر نیچا کر کے بیٹھے تھے جیسے کٹیہرے میں کھڑے ہوں۔خدا بھلا کرے امام صاحب کا جنہوں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دیئے ورنہ ہم پہ فرد جرم عائد ہونے کے قریب تھی۔
ہم تہیہ کر چکے تھے کے جونہی دعا ختم ہوگی ہم رفو چکر ہوتے ہی بقیہ نماز گھر آ پڑھیں گے۔آمین کہتے ہی ہم نے جوتا اٹھایا اور گھر کی راہ لی اور شکر ادا کیا کہ۔۔جان بچی سو لاکھوں پائے۔