جاوید ہاشمی پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو گئے

عثمان

محفلین
ایک شخص جو پچھلے پندرہ برس سے اپنی پارٹی تشکیل نہیں دے سکا۔ انقلاب کا نعرہ لگانے والے انقلابی کا یہ حال کہ اس کا انقلابی منشور دو جملوں سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ کبھی مشرف ، کبھی جماعت اسلامی کبھی نون لیگ اور کبھی زید حامد جیسے مسخروں کی گود میں بیٹھ کر انقلابی نعرے لگاتا رہا ہے۔ اور اب یکایک لوٹوں اور گِدھوں کے ٹولے غول در غول شرکت کر رہے ہیں۔
ق لیگ اس تحریک مزاق سے اس طور بہتر تھی کہ اس میں کم از کم ایک ہی پارٹی کے چُھوٹے مردار خور مزید کھانے پینے کا اہتمام کرنے کے لئے دسترخوان پر جمع ہوئے تھے۔ جبکہ یہ تحریک مزاق تو چوں چوں کے مربہ کے ساتھ بھی مزاق ہے کہ چوں چوں کے مربہ کے اجزائے ترکیبی بھی کسی طور ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہونگے۔ ادھر تو لگتا ہے کہ ایجنسیاں قرعہ نکال نکال کر سیاسی مخول کررہی ہیں۔
 

کاشفی

محفلین
مجھے لگ رہا ہے کہ تحریک انصاف دوسری "ق لیگ" بننے والی ہے۔

فرحان بھائی۔ کچھ بھی ہو ق لیگ بنے یا کیو لیگ بنے۔۔۔۔ سیاسی گیم اپنے عروج پر ہے۔۔۔ مینو تو مزا آری یا ہے۔۔ ;)
کراچی حیدرآباد اور دیگر سندھ کے وہ لوگ جن کا ماضی لوٹاکریسی سے پاک ہے وہ اپنی نمائندہ جماعت میں ہی رہیں گے انشاء اللہ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
سپریم کورٹ بار کے سابق صدر چودھری اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کو تیسری قوت مانتے ہیں ، وہ پہلی یا دوسری قوت بھی بن سکتی ہے، ، پیپلزپارٹی چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں ، میری دعائیں اورہمدردیاں تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔ ایوان اقبال لاہورمیں قائد اعظم ڈے پر ایک سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے جاوید ہاشمی زیرک سیاستدان ہیں انہوں نے اپنے کردار سے ثابت کردیا ہے کہ وہ جھکنے اوربکنے والے نہیں ، جاوید ہاشمی نے حکومت میں رہتے ہوئے مسلم لیگ ن کو چھوڑا ہے۔ اعتزازاحسن کا کہناتھاکہ عدلیہ کی تصدیق اور توثیق کے بغیر مارشل لا نہیں لگ سکتا۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں ، تاہم دعائیں اور ہمدردیاں تحریک انصاف کے ساتھ ہیں، خدا کرے کہ 27دسمبر بھی خیریت سے گزرجائے۔
 
شاہ محمود قریشی کے بعد جاوید ہاشمی کی پی ٹی آئی میں شمولیت ہمیں تو اچھا لگا یوں جنوبی پنجاب میں نون لیگ کا سیاسی یتیم ہونا
 

شہزاد وحید

محفلین
تحریک انصاف کو ایجنسیوں نے بنایا ہے یا لوٹوں یا امریکہ نے یا پھر کسی اور پھنے خان نے، عوام کا اس میں کیا فائدہ؟
مهاتما زرداری اگر بے نظیر سے شادی اور بربادی کر کے ملک کا صدر بنا تو عوام کا اس میں کیا فائدہ؟
نواز شریف نے اگر ضیاالحق کی گود میں بیٹھ کر جھولے لئیے تو عوام کا اس میں کا کیا فائدہ؟
چوہدری افتخار کی بحالی کا مطلب اگر عدلیہ آزااااااااااادی ہےتو عوام کا اس میں کیا فائدہ؟

عوام کی طرف سے کوئی خان، نواز، زرداری، کتا، بلا حکومت کر لے، بس اپنے ڈرامے چھوڑ کے عوام کے لیئے روزگار لے آئے، بجلی سستی کر دے، بجٹ کا ایک اچھا معقول حصہ عوام کی فلاح اور ترقیاتی منصوبوں پر لگا دے تو عوام بس خوش۔ لیکن بہرحال پیپلز پارٹی کے موجودہ راہ نماؤں (مثلا بابر اعوان عرف سمندری ڈاکو) کی شکل پر ہی یہ لکھا نظر آتا ہے کہ انہوں نے یہ سب نہیں کرنا۔ اس لیئے میں اس دفعہ مسٹر عمران یا نواز کو ووٹ دینا ہے۔
 

ساجد

محفلین
ایک زبردست دھچکا ہے ، نواز شریف کے لئیے۔ جاوید ہاشمی کا تحریک انصاف میں شامل ہونا بظاہر تو پاکستانی سیاست کی روایات کے تحت معمول کی کارروائی ہے لیکن اس کے ملکی سیاست پر غیر معمولی اثرات پڑیں گے۔ شاہ محمود قریشی کی شمولیت سے کچھ تجزیہ نگار حیران ہوئے تھے تو قصوری کی شمولیت نے اس حیرانی کو دوچند کردیا ۔ یہ بات بہت اہمیت کی حامل ہے کہ ٖقریشی اور ٖقصوری دونوں پاکستان کے سابق وزرائے خارجہ ہیں اور ایسے لوگ کسی بھی سیاسی پارٹی کے لئیے بڑے اہم ہوتے ہیں اور ان کا یکے بعد دیگرے ایک ہی جماعت میں جانا ،(میرے معزز دوستوں کے الفاظ میں) "لوٹوں اور گِدھوں " کے غول سے مماثلت نہیں رکھتا اور نہ ہی اسے ہڑبونگ کہہ کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ یہ پی پی اور ق لیگ کی عوامی غیر مقبولیت کا کھلا ثبوت ہے ۔ قریشی اور قصوری کے بعد ہاشمی کی ن لیگ سے ہجرت نے اس بات پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے کہ اب پنجاب کی حد تک پاکستانی سیاست میں بہت کچھ بدلنے والا ہے۔ یہ تینوں گھاگھ سیاستدان ہیں اور عوامی مزاج سے کمال کی آشنائی رکھتے ہیں ۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ چند لوٹوں کی ہجرت ہے وہ اس بات کو بھی پیش نظر رکھیں کہ انتخابات قریب ہیں اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ قومی اسمبلی اپنے مقررہ وقت سے قبل ہی تحلیل کر دی جائے گی اور اب تو اس کا امکان یوں بھی بڑھ گیا ہے کہ ق لیگ اور پی پی کے ساتھ ساتھ اب ن لیگ بھی یہی چاہے گی کہ مزید ممبران کی ہجرت سے قبل ہی اسمبلی تحلیل کر دی جائے تا کہ مزید رسوائی سے بچا جا سکے۔ جاوید ہاشمی کی نون لیگ میں حیثیت ریڑھ کی ہڈی جیسی تھی۔ اب بلا شبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ شریف برادران اپنی سیاسی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
ہاشمی کی پی ٹی آئی میں شمولیت اس لحاظ سے سیاسی صورت حال ایک ڈرامائی تبدیلی کی طرف جا سکتی ہے اور تمام سیاسی جماعتوں سے، پی ٹی آئی میں، مزید بڑے بڑے نام بھی شامل ہونے کا اعلان کر سکتے ہیں۔
 

ساجد

محفلین
جاوید ھاشمی کو تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنے پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد۔ اُمید ہے کہ اور بھی مزید لوٹے تحریکِ انصاف میں شامل ہونگے۔
لوٹے؟؟؟
انہوں نے بتایا کہ وہ اور ان کی صاحبزدای میمونہ ہاشمی قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہو رہے ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
1101408848-2.gif
 

arifkarim

معطل
ایک شخص جو پچھلے پندرہ برس سے اپنی پارٹی تشکیل نہیں دے سکا۔ انقلاب کا نعرہ لگانے والے انقلابی کا یہ حال کہ اس کا انقلابی منشور دو جملوں سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ کبھی مشرف ، کبھی جماعت اسلامی کبھی نون لیگ اور کبھی زید حامد جیسے مسخروں کی گود میں بیٹھ کر انقلابی نعرے لگاتا رہا ہے۔ اور اب یکایک لوٹوں اور گِدھوں کے ٹولے غول در غول شرکت کر رہے ہیں۔
ق لیگ اس تحریک مزاق سے اس طور بہتر تھی کہ اس میں کم از کم ایک ہی پارٹی کے چُھوٹے مردار خور مزید کھانے پینے کا اہتمام کرنے کے لئے دسترخوان پر جمع ہوئے تھے۔ جبکہ یہ تحریک مزاق تو چوں چوں کے مربہ کے ساتھ بھی مزاق ہے کہ چوں چوں کے مربہ کے اجزائے ترکیبی بھی کسی طور ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہونگے۔ ادھر تو لگتا ہے کہ ایجنسیاں قرعہ نکال نکال کر سیاسی مخول کررہی ہیں۔
کم از کم عمران خان کو مسائل اور اسکے حل سے متعلق معلومات حاصل ہیں۔ ق لیگ اور باقی لٹریرے پارٹیاں تو پنجاب اور علاقائی سیاست سے ہی باہر نہیں آئیں آجتک۔
 

الف نظامی

لائبریرین
جاوید ہاشمی کی تحریک انصاف میں شمولیت!
ہفتے کے روز کی بڑی خبروں میں مخدوم جاوید ہاشمی کے مسلم لیگ ن کو چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہونے کی خبر نمایاں تھی۔ ملک بھر کے میڈیا میں اس پر بھرپور توجہ دی گئی۔ اس پر دونوں جانب سے ملا جلا ردعمل بھی سامنے آ چکا ہے۔ جاوید ہاشمی اپنے زمانہ طالب علمی سے سیاست میں سرگرمی سے حصہ لیتے آ رہے ہیں۔ وہ بلاشبہ ایک سنجیدہ فکر سیاسی شخصیت ہیں۔ اپنے فکر و فلسفہ پر استقامت بھی ان کے طرز سیاست کا خاصہ ہے، خاص طور پر آزمائش کے لمحات میں ان کی مستقل مزاجی کو سب قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ آخری روز مسلم لیگ ن کے لوگوں نے انہیں پارٹی چھوڑ کر جانے کا فیصلہ تبدیل کرنے پر بہت زور دیا۔ اسی طرح ملتان میں مسلم لیگ کے کارکنوں نے انہیں کراچی روانگی کے وقت روکنے کی بہت کوشش کی لیکن ان کا کہنا تھا کہ اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ جمہوری سیاست میں ہر شخص کو اپنے فیصلے کرنے کا حق ہوتا ہے اور جاوید ہاشمی جیسے سرد و گرم چشیدہ سیاستدان نے اتنا بڑا قدم اٹھانے سے پہلے یقیناً سب باتوں پر غور کر لیا ہو گا۔ بعض سیاسی مبصرین اسے مسلم لیگ ن کیلئے بہت بڑا دھچکا قرار دے رہے ہیں۔ کسی پارٹی سے کسی بڑی شخصیت کی علیحدگی یقیناً اپنا ایک اثر رکھتی ہے لیکن سنجیدگی سے سوچا جائے تو کسی ایک پارٹی کو چھوڑ کر دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کا عمل دونوں طرح کے اثرات رکھتا ہے۔ وطن عزیز میں تو پارٹیاں تبدیل کرنے کی روایت بڑی پرانی اور بہت عام ہے ۔بلکہ ایک طرح سے بازار سیاست کی رونق اور چہل پہل کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ مخدوم جاوید ہاشمی ایک با اصول سیاستدان مانے جاتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ ایک مخصوص نظریاتی سوچ اور روایت رکھنے والی جماعت کو چھوڑنے کے بعد ایک دوسری جماعت میں جا کر مشرف دور سے تعلق رکھنے والی بے شمار شخصیات کے علاوہ بہت سے مختلف الخیال افراد کے ساتھ مل کر وہ اپنے نظریات کے مطابق ملک و قوم کی خدمت کیلئے کیا کرپاتے ہیں۔ مخدوم جاوید ہاشمی کے سیاسی کرداراورریکارڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے لوگ ان کیلئے نیک تمناؤں کا اظہار بہرحال کر رہے ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
وہ جدوجہد اور قیدوبند کے زمانے کے ساتھیوں کو چھوڑ کر چلا گیا ۔ باغی نے اپنوں کے خلاف بغاوت کر ڈالی۔ جاوید ہاشمی کا مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہونا 2011ء کی سب سے بڑی سیاسی بغاوت ہے ۔ 23دسمبر کی سہ پہر ایوان اقبال لاہور میں خواجہ رفیق فاؤنڈشن کے سیمینار میں جاوید ہاشمی اسٹیج پر میری بائیں طرف لیاقت بلوچ اور حافظ حسین احمد کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔ خواجہ سعد رفیق نے بڑے درد بھرے لہجے میں مجھے کان میں بتایا کہ جاوید ہاشمی صاحب تحریک انصاف میں جانے کا فیصلہ کر چکے ہیں آپ پلیز انہیں سمجھائیں کہ پرانے ساتھیوں کو چھوڑ کر مت جائیں ۔ یہ سن کر میں واقعی لرز گیا۔ جس شخص کو پرویز مشرف کی جیلیں اور تشدد نہ توڑ سکا اسے عمران خان نے کیسے توڑ لیا ؟ جاوید ہاشمی ایک ایسی جماعت میں کیسے جا سکتا ہے جو پرویز مشرف کی کابینہ کے وزیروں سے بھر چکی ہے ؟ حافظ حسین احمد نے تقریر شروع کی تو میں نے جاوید ہاشمی کی طرف سوالیہ انداز میں دیکھنا شروع کیا۔وہ سمجھ گئے کہ میری نظریں کیا پوچھ رہی تھیں ۔ پھر انہوں نے جو کہا اس کو مسترد کرنا میرے لئے مشکل تھا ۔ میرے پاس کوئی دلائل نہیں تھے کیونکہ ماضی کے کئی واقعات کا تو میں خودعینی شاہد تھا ۔ میں نے بحث نہیں کی۔ خاموش ہو گیا۔
 
Top