بلال
محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس تقریب کا احوال یا روداد لکھنے کا ذمہ ساجد بھائی نے لیا تھا۔ اب پتہ نہیں انہوں نے کچھ لکھا ہے یا نہیں مگر میں نے اپنے ساتھی بلاگران کے لئے کچھ لکھا تو سوچا یہاں بھی شیئر کر دیتا ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ لوگوں کو میری بونگیاں پسند آ جائیں۔
جب اردو والے ملتے ہیں
اس تحریر کے دو حصے ہیں۔ پہلا رسمی تقریب پر مشتمل ہے اور دوسرے میں ہماری غیر رسمی گپ شپ کے حالات ہیں۔
کچھ دن پہلے خرم شہزاد خرم اور الف نظامی صاحب کا فون موصول ہوا۔ جس میں انہوں نے اردو ویب (اردو محفل) کی طرف سے القلم تاج نستعلیق کی تخلیق پر شاکرالقادری صاحب کے اعزاز میں تقریب میں شمولیت کی دعوت دی۔ میں نے کہا کہ میری نوے فیصد کوشش ہو گی کہ حاضری دوں۔ الف نظامی صاحب نے کہا کہ نہیں نہیں، کوشش نہیں بلکہ آپ نے اور غلام عباس نے ضرور شرکت کرنی ہے۔
یوں تو میری اور غلام عباس کی مکمل تیاری تھی مگر ہمیں گجرات سے نکلتے نکلتے کچھ تاخیر ہو گئی۔ 2 دسمبر 2012ء دن اڑھائی بجے کے قریب اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد پہنچے۔ مجھے یہ پریشانی تھی کہ دیر ہو گئی ہے۔ ابھی ہم اکادمی کی عمارت کی طرف جا رہے تھے کہ ایک بندہ موٹر سائیکل پر آتا نظر آیا۔ قریب آنے پر معلوم ہوا یہ تو جناب خرم صاحب ہیں۔ مہمانوں کو پریشانی تھی کہ کہیں دیر نہ ہو گئی ہو مگر یہاں تو ہمارا میزبان خود تاخیر کا شکار تھا۔ کانفرنس ہال میں پہنچے تو تقریب شروع ہو چکی تھی اور نعت پڑھی جا رہی تھی۔ گو کہ آگے کئی نشستیں خالی تھیں مگر ہم سب سے آخری قطار میں ایک کونے میں بیٹھ گئے۔ خرم تصاویر بنانے لگا اور ہم لوگ اندازے لگانے لگے کہ فلاں کون ہے اور فلاں کون۔ خرم کی شادی پر اس سے ملاقات ہوئی تھی، اس کے علاوہ میں تقریب میں موجود کسی بندے کو پہلے نہیں ملا تھا۔ شاکرالقادری، افتخار اجمل بھوپال اور محمد سعد کی تصویریں دیکھی ہوئی تھیں تو انہیں پہچان گیا۔ محمد سعد ہم سے بہت آگے بیٹھا تھا اور بمشکل پتہ چل رہا تھا کہ یہ کوئی داڑھی والا نوجوان ہے۔ میں نے غلام عباس کو کہا کہ مجھے وہ بندہ محمد سعد لگتا ہے اور بعد میں پتہ چلا کہ وہ واقعی محمد سعد تھا۔
تقریب کے منتظم اور نقابت کے فرائض الف نظامی صاحب ادا کر رہے تھے۔ حمد اور نعت کے بعد جناب عبدالحمید (چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان)، ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد اور شاکرالقادری کو سٹیج پر مدعو کیا گیا۔ نستعلیق رسم الخط ایجاد ہونے کی تاریخ یعنی خواجہ میر علی تبریزی کی بے مثال رسم الخط ایجاد کرنے کے لئے دعائیں مانگنا، دعا کا قبول ہونا اور خوبصورت و بے مثال نستعلیق خط کے وجود آنے پر الف نظامی صاحب نے خوبصورت باتیں بتا کر ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد کو اظہار خیال کے لئے مائیک پر بلایا۔ ڈاکٹر صاحب نے مشینی نستعلیق (نوری نستعلیق) پر کچھ باتیں کیں اور ساتھ ہی شاکر القادری صاحب کے کارنامے پر اظہار خیال کرتے ہوئے اجازت چاہی۔ اس کے بعد شاکرالقادری صاحب کو مائیک پر مدعو کیا گیا تاکہ وہ اپنے خیالات کا اظہار فرمائیں۔ شاکر صاحب نے 1980ء میں مرزا جمیل احمد کے پاکستان میں نوری نستعلیق کے ترسیمے بنانے سے بات شروع کی۔ پھر مشینی نستعلیق رسم الخط پر تاریخی حوالے سے بات چیت کی۔ اس سے ملتی جلتی باتیں آپ میری ان دو تحاریر ”موجودہ دور میں اردو زبان“ اور ”الف سے اردو ب سے بابا“ میں تفصیل سے پڑھ سکتے ہیں۔ مثلاً نوری نستعلیق کے ترسیموں کی ہندوستان کو فروخت، ہندوستان کی سافٹ ویئر کمپنی کا ان پیج بنانا۔ پاکستان میں چوری شدہ ان پیج کا بڑے پیمانے پر استعمال۔ 2008ء میں علوی اور جمیل نوری نستعلیق کا بننا، اردو پبلشنگ پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لئے مختلف اداروں اور لوگوں کی امجد حسین علوی کو دھمکیاں۔ ایسے حالات میں اردو کمیونٹی کا اپنا اوپن سورس نستعلیق بنانے پر غور کرنا اور پھر شاکرالقادری اور ان کی ٹیم کا القلم تاج نستعلیق بنانا۔
تقریب اپنے اختتام کی طرف رواں دواں تھی اور اب صدارتی خطبے کے لئے اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین جناب عبدالحمید صاحب کو دعوت دی جا رہی تھی۔ اس دوران مجھے الف نظامی، خرم ابن شبیر اور اردو محفل کے کرتا دھرتا پر بہت غصہ آ رہا تھا۔ اتنی زبردست تقریب منعقد کر لی مگر اردو محفل کی طرف سے کیا کوئی اظہارِخیال کرنے والا نہیں تھا۔ خیر عبدالحمید صاحب نے مائیک پر آتے ہی کہا، یہ زندگی میں پہلا اتفاق ہے کہ جس موضوع پر بولنے لگا ہوں اس کا مجھے خود نہیں پتہ۔ بس جو لکھ کر دیا گیا ہے وہ پڑھ دیتا ہوں۔ واقعی انہوں نے ایسے ہی پڑھا جیسے ایک بچہ استاد کو کتاب پڑھ کر سنا رہا ہوتا ہے۔ بہرحال آخر پر انہوں نے کہا، گو کہ مجھے ان سب چیزوں کا نہیں پتہ اور ادارۂ فروغِ قومی زبان (پرانا نام:-مقتدرہ قومی زبان) سے میرا براہ راست کوئی تعلق نہیں مگر ہم اور وہ ایک ہی وزیر کے زیرنگرانی آتے ہیں، اگر اردو والوں کو یا شاکرالقادری صاحب کو ان سے کوئی کام نکلوانا ہو یا کچھ کہنا ہو تو میں سیکرٹری یا وزیر کو کہہ سکتا ہوں (میرے خیال میں یہ صرف اور صرف ایک سیاسی بیان تھا اور اللہ کرے میرا خیال غلط ہو)۔
چیئرمین کے بعد الف نظامی صاحب نے اعلان کیا کہ اب اردو محفل کے نبیل حسن نقوی کی طرف سے بھیجا گیا پیغام ساجد صاحب پڑھ کر سنائیں گے۔ پینٹ کوٹ میں پھنسا ہوا اور ٹائی کے پھندے سے لٹکتا ہوا ایک تیز طراز بندہ مائیک پر پہنچا۔ ابھی چند سطریں ہی پڑھی تھیں کہ مجھے اندازہ ہو گیا کہ یا تو اس کی بیلٹ کافی ”ٹائیٹ“ ہے یا پھر یہ پیغام ابھی ابھی ان صاحب کے ہاتھ میں پکڑایا گیا ہے اور وہ براہ راست بولنا شروع ہو گئے ہیں۔ دراصل وہ میری طرح اردو بول رہے تھے۔ وہ کیا ہے کہ میری مادری زبان پنجابی ہے، اوپر سے الحمد اللہ ہم پینڈو (دیہاتی) ہیں اس لئے میں اردو کے اکثر الفاظ بڑے ”چبا چبا“ کر بولتا ہوں۔
بالکل ایسا ہی حال اس وقت اپنے ساجد صاحب کا تھا۔ پہلے ”ہیں“ کو ”ہے ے ے“ پڑھ جاتے اور ساتھ ہی درستگی کر لیتے۔وہ تو تقریب کے بعد جب ان سے غیر رسمی گفتگو ہوئی تو پتہ چلا کہ حضرت کافی اچھی اردو بولتے ہیں یہ تو بس فوراً ان کے ہاتھ میں خط تھما دیا گیا تھا کہ یہ پڑھ کر سنا دو کیونکہ وہ تقریب میں تھوڑی تاخیر سے پہنچے تھے جبھی صدارتی خطبے کے بعد ان کو مائیک پر بلایا گیا۔ لہٰذا انہوں نے نبیل حسن نقوی کا بھیجا گیا پیغام پڑھ کر سنایا۔
ان سب باتوں کے بعد چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان نے شاکرالقادری کو اردو محفل کی طرف سے اعزازی شیلڈ پیش کی۔ خوب جم کر فوٹو گرافی ہوئی کیونکہ تقریب میں اتنے سامعین نہیں تھے جتنے فوٹو گرافر تھے۔ خیر اس کے بعد چیئرمین نے اجازت چاہی اور ہم نے ہنسی خوشی اجازت دے دی۔ کیونکہ انہیں فوراً کہیں پہنچنا تھا، شاید ان کے گھر والے کسی تقریب میں تھے اور انہیں لینے جانا تھا۔ اڑھائی بجے سے شروع ہو کر تقریباً چار سوا چار تک تقریب کا رسمی حصہ اپنے اختتام کو پہنچا۔
رسمی تقریب یہاں پر ختم ہو گئی۔ اب کھلے ماحول کی کھلی باتوں کا وقت تھا۔
مکمل تحریر اس لنک پر پڑھیئے
http://www.mbilalm.com/blog/when-volunteers-of-urdu-meet/
اس تقریب کا احوال یا روداد لکھنے کا ذمہ ساجد بھائی نے لیا تھا۔ اب پتہ نہیں انہوں نے کچھ لکھا ہے یا نہیں مگر میں نے اپنے ساتھی بلاگران کے لئے کچھ لکھا تو سوچا یہاں بھی شیئر کر دیتا ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ لوگوں کو میری بونگیاں پسند آ جائیں۔
جب اردو والے ملتے ہیں
اس تحریر کے دو حصے ہیں۔ پہلا رسمی تقریب پر مشتمل ہے اور دوسرے میں ہماری غیر رسمی گپ شپ کے حالات ہیں۔
کچھ دن پہلے خرم شہزاد خرم اور الف نظامی صاحب کا فون موصول ہوا۔ جس میں انہوں نے اردو ویب (اردو محفل) کی طرف سے القلم تاج نستعلیق کی تخلیق پر شاکرالقادری صاحب کے اعزاز میں تقریب میں شمولیت کی دعوت دی۔ میں نے کہا کہ میری نوے فیصد کوشش ہو گی کہ حاضری دوں۔ الف نظامی صاحب نے کہا کہ نہیں نہیں، کوشش نہیں بلکہ آپ نے اور غلام عباس نے ضرور شرکت کرنی ہے۔
یوں تو میری اور غلام عباس کی مکمل تیاری تھی مگر ہمیں گجرات سے نکلتے نکلتے کچھ تاخیر ہو گئی۔ 2 دسمبر 2012ء دن اڑھائی بجے کے قریب اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد پہنچے۔ مجھے یہ پریشانی تھی کہ دیر ہو گئی ہے۔ ابھی ہم اکادمی کی عمارت کی طرف جا رہے تھے کہ ایک بندہ موٹر سائیکل پر آتا نظر آیا۔ قریب آنے پر معلوم ہوا یہ تو جناب خرم صاحب ہیں۔ مہمانوں کو پریشانی تھی کہ کہیں دیر نہ ہو گئی ہو مگر یہاں تو ہمارا میزبان خود تاخیر کا شکار تھا۔ کانفرنس ہال میں پہنچے تو تقریب شروع ہو چکی تھی اور نعت پڑھی جا رہی تھی۔ گو کہ آگے کئی نشستیں خالی تھیں مگر ہم سب سے آخری قطار میں ایک کونے میں بیٹھ گئے۔ خرم تصاویر بنانے لگا اور ہم لوگ اندازے لگانے لگے کہ فلاں کون ہے اور فلاں کون۔ خرم کی شادی پر اس سے ملاقات ہوئی تھی، اس کے علاوہ میں تقریب میں موجود کسی بندے کو پہلے نہیں ملا تھا۔ شاکرالقادری، افتخار اجمل بھوپال اور محمد سعد کی تصویریں دیکھی ہوئی تھیں تو انہیں پہچان گیا۔ محمد سعد ہم سے بہت آگے بیٹھا تھا اور بمشکل پتہ چل رہا تھا کہ یہ کوئی داڑھی والا نوجوان ہے۔ میں نے غلام عباس کو کہا کہ مجھے وہ بندہ محمد سعد لگتا ہے اور بعد میں پتہ چلا کہ وہ واقعی محمد سعد تھا۔
تقریب کے منتظم اور نقابت کے فرائض الف نظامی صاحب ادا کر رہے تھے۔ حمد اور نعت کے بعد جناب عبدالحمید (چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان)، ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد اور شاکرالقادری کو سٹیج پر مدعو کیا گیا۔ نستعلیق رسم الخط ایجاد ہونے کی تاریخ یعنی خواجہ میر علی تبریزی کی بے مثال رسم الخط ایجاد کرنے کے لئے دعائیں مانگنا، دعا کا قبول ہونا اور خوبصورت و بے مثال نستعلیق خط کے وجود آنے پر الف نظامی صاحب نے خوبصورت باتیں بتا کر ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد کو اظہار خیال کے لئے مائیک پر بلایا۔ ڈاکٹر صاحب نے مشینی نستعلیق (نوری نستعلیق) پر کچھ باتیں کیں اور ساتھ ہی شاکر القادری صاحب کے کارنامے پر اظہار خیال کرتے ہوئے اجازت چاہی۔ اس کے بعد شاکرالقادری صاحب کو مائیک پر مدعو کیا گیا تاکہ وہ اپنے خیالات کا اظہار فرمائیں۔ شاکر صاحب نے 1980ء میں مرزا جمیل احمد کے پاکستان میں نوری نستعلیق کے ترسیمے بنانے سے بات شروع کی۔ پھر مشینی نستعلیق رسم الخط پر تاریخی حوالے سے بات چیت کی۔ اس سے ملتی جلتی باتیں آپ میری ان دو تحاریر ”موجودہ دور میں اردو زبان“ اور ”الف سے اردو ب سے بابا“ میں تفصیل سے پڑھ سکتے ہیں۔ مثلاً نوری نستعلیق کے ترسیموں کی ہندوستان کو فروخت، ہندوستان کی سافٹ ویئر کمپنی کا ان پیج بنانا۔ پاکستان میں چوری شدہ ان پیج کا بڑے پیمانے پر استعمال۔ 2008ء میں علوی اور جمیل نوری نستعلیق کا بننا، اردو پبلشنگ پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لئے مختلف اداروں اور لوگوں کی امجد حسین علوی کو دھمکیاں۔ ایسے حالات میں اردو کمیونٹی کا اپنا اوپن سورس نستعلیق بنانے پر غور کرنا اور پھر شاکرالقادری اور ان کی ٹیم کا القلم تاج نستعلیق بنانا۔
اسی دوران حاضرین میں موجود ایک صاحب رحمان حفیظ نے شاکرالقادری صاحب سے نوری نستعلیق مفت ہونے اور نہ ہونے کے متعلق چند سوالات کیے۔ جن کے جواب میں شاکرالقادری صاحب نے تفصیل سے بتایا کہ ایک دفعہ ہم نے مرزا جمیل احمد سے نوری نستعلیق کو مفت کرنے کے متعلق رابطہ کیا تھا مگر کوئی خاطر خواہ نتائج نہ نکل سکے۔ مگر اب فاروق سرور خان صاحب کی وساطت سے پتہ چلا ہے کہ مرزا جمیل احمد نے نوری نستعلیق مفت کر دیا ہے اور اب اس کے مفت استعمال پر کوئی پابندی نہیں۔ شاکر صاحب نے مزید بتایا کہ جب ہم اوپن سورس القلم تاج نستعلیق بنا رہے تھے تو اس دوران کئی لوگوں اور اداروں نے ہم سے رابطہ کیا اور سات آٹھ لاکھ روپے کے عوض القلم تاج نستعلیق فروخت کرنے کی آفر کی، مگر ہم نے سب کو انکار کر دیا اور واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ ہم یہ فانٹ اردو والوں کے لئے بنا رہے ہیں اور مفت میں عوام کو دیں گے۔ شاکر صاحب نے کہا کہ اب آپ خود سوچئے کہ یہ لوگ القلم تاج نستعلیق کو مفت میں عوام تک کیوں پہنچنے نہیں دے رہے تھے؟ ویسے شاکر صاحب کے اس سوال کا جواب تو شاید ایک عام آدمی کے پاس بھی ہو اور وہ یہ ہے کہ سیدھی سی بات ہے، یہ ادارے اردو پر اپنی اجارہ داری قائم رکھتے ہوئے مال بنانا چاہتے ہیں۔
ان باتوں کے علاوہ شاکر صاحب نے القلم تاج نستعلیق میں اپنے معاون اشتیاق علی قادری کا ذکر کیا۔ مزید اردو کی خدمات پر امجد حسین علوی ، نبیل حسن نقوی اور اردو محفل کی خدمات کو سراہتے ہوئے اپنی بات چیت ختم کی۔ اس دوران ہم آخری قطار میں چپ چاپ بیٹھے تھے۔ تبھی ایک صاحب نے آ کر کہا کہ تھوڑا اگلی نشستوں پر ہو جائیں تو پھر ہمیں مجبوری میں ایک دو قطار آگے جانا پڑا۔ گو کہ یہ بات خرم کافی دیر سے کہہ رہا تھا مگر میں نے اس کی ایک نہ سنی اور کہا کہ ایسی تقاریب میں سب سے آخری قطار اور کسی کونے میں بیٹھ کر باتیں سننے میں جو مزہ ہوتا ہے وہ کہیں اور نہیں ہوتا۔ تقریب میں تیس کے قریب لوگ موجود تھے۔تقریب اپنے اختتام کی طرف رواں دواں تھی اور اب صدارتی خطبے کے لئے اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین جناب عبدالحمید صاحب کو دعوت دی جا رہی تھی۔ اس دوران مجھے الف نظامی، خرم ابن شبیر اور اردو محفل کے کرتا دھرتا پر بہت غصہ آ رہا تھا۔ اتنی زبردست تقریب منعقد کر لی مگر اردو محفل کی طرف سے کیا کوئی اظہارِخیال کرنے والا نہیں تھا۔ خیر عبدالحمید صاحب نے مائیک پر آتے ہی کہا، یہ زندگی میں پہلا اتفاق ہے کہ جس موضوع پر بولنے لگا ہوں اس کا مجھے خود نہیں پتہ۔ بس جو لکھ کر دیا گیا ہے وہ پڑھ دیتا ہوں۔ واقعی انہوں نے ایسے ہی پڑھا جیسے ایک بچہ استاد کو کتاب پڑھ کر سنا رہا ہوتا ہے۔ بہرحال آخر پر انہوں نے کہا، گو کہ مجھے ان سب چیزوں کا نہیں پتہ اور ادارۂ فروغِ قومی زبان (پرانا نام:-مقتدرہ قومی زبان) سے میرا براہ راست کوئی تعلق نہیں مگر ہم اور وہ ایک ہی وزیر کے زیرنگرانی آتے ہیں، اگر اردو والوں کو یا شاکرالقادری صاحب کو ان سے کوئی کام نکلوانا ہو یا کچھ کہنا ہو تو میں سیکرٹری یا وزیر کو کہہ سکتا ہوں (میرے خیال میں یہ صرف اور صرف ایک سیاسی بیان تھا اور اللہ کرے میرا خیال غلط ہو)۔
چیئرمین کے بعد الف نظامی صاحب نے اعلان کیا کہ اب اردو محفل کے نبیل حسن نقوی کی طرف سے بھیجا گیا پیغام ساجد صاحب پڑھ کر سنائیں گے۔ پینٹ کوٹ میں پھنسا ہوا اور ٹائی کے پھندے سے لٹکتا ہوا ایک تیز طراز بندہ مائیک پر پہنچا۔ ابھی چند سطریں ہی پڑھی تھیں کہ مجھے اندازہ ہو گیا کہ یا تو اس کی بیلٹ کافی ”ٹائیٹ“ ہے یا پھر یہ پیغام ابھی ابھی ان صاحب کے ہاتھ میں پکڑایا گیا ہے اور وہ براہ راست بولنا شروع ہو گئے ہیں۔ دراصل وہ میری طرح اردو بول رہے تھے۔ وہ کیا ہے کہ میری مادری زبان پنجابی ہے، اوپر سے الحمد اللہ ہم پینڈو (دیہاتی) ہیں اس لئے میں اردو کے اکثر الفاظ بڑے ”چبا چبا“ کر بولتا ہوں۔
ان سب باتوں کے بعد چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان نے شاکرالقادری کو اردو محفل کی طرف سے اعزازی شیلڈ پیش کی۔ خوب جم کر فوٹو گرافی ہوئی کیونکہ تقریب میں اتنے سامعین نہیں تھے جتنے فوٹو گرافر تھے۔ خیر اس کے بعد چیئرمین نے اجازت چاہی اور ہم نے ہنسی خوشی اجازت دے دی۔ کیونکہ انہیں فوراً کہیں پہنچنا تھا، شاید ان کے گھر والے کسی تقریب میں تھے اور انہیں لینے جانا تھا۔ اڑھائی بجے سے شروع ہو کر تقریباً چار سوا چار تک تقریب کا رسمی حصہ اپنے اختتام کو پہنچا۔
رسمی تقریب یہاں پر ختم ہو گئی۔ اب کھلے ماحول کی کھلی باتوں کا وقت تھا۔
مکمل تحریر اس لنک پر پڑھیئے
http://www.mbilalm.com/blog/when-volunteers-of-urdu-meet/