ناعمہ عزیز
لائبریرین
اکثر بات کرتے ہوئے میرے منہ سے ایک ہی فقرہ نکل جاتا ہے کہ "جب ہم چھوٹے تھے نا " اور پھر جواب آتا ہے کہ "کتنا چھوٹے تھے " ؟
مجھے تو یہی لگتا ہے کہ میں کل بھی چھوٹی تھی پتا نہیں مجھے لگتا ہے یا سب کو ہی یہ لگتا ہے ! میں بس خود کو "آج" میں بڑی لگتی ہوں اور یہ آج بھی جب "کل "بن جائے گا تو مجھے اس کل میں کئی خامیاں نظر آئیں گی ۔ اپنی رہی سہی معصومیت ، اپنا بھولا پن جاتا دکھائی دے گا ، اور مجھے لگے گا کہ جو کل گزر گیا تب میں چھوٹی ہی تھی اس میں یہ غلطی ہو گئی نہیں ہونی چاہئے تھی وغیرہ وغیرہ
تو میں یہ کہہ رہی تھی کہ جب ہم چھوٹے تھے تو اکثر سنا کرتے تھے کہ بچپن میں بڑی کشش ہے ۔ مگر اتنے معصوم ہوا کرتے تھے کہ بڑا ہونے کا شوق ہوتا تھا دل کرتا تھا ہمارے سامنے جتنے فائدے بڑوں کو ملتے ہیں ہمیں بھی اتنے ہی ملیں ہم بھی جلدی سے بڑے ہو جائیں ، دھڑلے سے ریلوے کی لائن کراس کریں ، سڑک کراس کرتے اماں کا ہاتھ نا پکڑنا پڑے ، جیسے بڑوں کو ڈانٹ نہیں پڑتی ہمیں بھی نا پڑے، گڑیا کے کپڑے سلائی کرتے اماں سے چھپنا نہیں پڑے کہ مشین میں دھاگہ الجھ جائے گا اوراماں سے ڈاانٹ پڑے گی ، سب کام اپنی مرضی سے کریں ۔
مگر پھر جب خود بڑے ہونے لگے تو پتا چلا کہ بچپن واقع ہی بڑا پرُ سکون دور ہوتا ہے ! جب انا کا سانپ گہری نیند میں سویا ہوتا ہے ، بڑوں کے ہوتے بڑی تکلیفوں کا تصور بھی نہیں ہوتا اور چھوٹی تکلیفیں بس وقتی ہوتیں ہیں اپنا اثر نہیں چھوڑتی ! اماں کا ہاتھ پکڑ کر ریلوے لائن یا سڑک کراس کرنے پر کوئی ڈر نہیں ہوتا کہ ہمیں کچھ ہوجائے گا ، کوئی پریشانی آنے پر بزدلوں کی طرح یہ نہیں لگتا کہ زندگی یہاں ختم ہو گئی ہے ، کسی کپڑے کو سلائی لگائے جو دھاگہ الجھ جائے تو اماں کچھ نہیں کہتی پر ذہن میں بھی گرہیں پڑنے لگتی ہیں زندگی بھی اس دھاگے کی طرح الجھی الجھی لگتی ہے ، مگر مشین کا دھاگہ تو اماں ٹھیک کر دیتی تھیں زندگی کے دھاگے خود ہی سلجھانا پڑتے ہیں ۔
گڑیا کے کپڑے بنایا ، اسے پہنانا ،اس سے کھیلنا ، اس کا گھر بنانا ، چھوٹے چھوٹے کھلونوں میں اس کا کھانا بنانا ، لڑکیوں کا بچپن اکثر ایسا ہی ہوتا ہے ، مگر بچپن کی معصومیت میں یہ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ یہی کام ساری زندگی کرنے ہیں ۔ آہستہ آہستہ گڑیا کی جگہ ختم ہونے لگتی ہے اور اس کی جگہ ہمارے اردگرد کے رشتے ہمیں جکڑ لیتے ہیں ، جگنوؤں ، تتلیوں کے پیچھے بھاگنے والا بچپن ختم ہونے لگتا ہے ۔ پھر ہم زندگی ہمیں بھگاتی ہے، ہر روز نئے دریچے کھولتی ہے، ہماری معصومیت ، بھولا پن ، آنکھوں کی چمک ، زندگی سے بھرپور مسکراہٹیں کہیں چھپنے لگتیں ہیں ، ایسی گرد پڑتی ہے کہ کہیں نام و نشان ہی نظر نہیں آتا ! پھر جیسے جیسے بڑے ہونے لگتے ہیں بڑا ہونے سے ڈر لگنے لگتا ہے ، دل گھبراتا ہے ، جیسے بخار کی کیفیت میں دل چاہتا ہے کہ ہم جلدی سے اپنی نارمل حالت میں واپس آجائیں ، جیسے ہائی بلڈ پریشر سے دل عجیب لے پر دھڑکنے لگے ، فشار خون آنتوں میں ابلتاہو، کچھ ایسی ہی حالت ہوتی ہے شاید ، ہم جلدی گھبرا جاتے ہیں ، دل کرتا ہے کہ جلدی سے بچے بن جائیں ۔ اکثر لوگوں کو اپنا بچپن اسی لیے یاد آتا ہے ۔وہ کسی شاعر نے کہا تھا کہ
مجھے چھوٹے چھوٹے مرغی کے بچے ، بکری کے بچے ، گائے کا بچھڑا ، کبوتر، طوطے چڑیا کے بچے بہت اچھے لگتے تھے ، مجھے اپنی بہن صالحہ بھی چھوٹی ہوتی بہت اچھی لگتی تھی ، وہ اب بھی مجھ سے چھوٹی ہی ہے ، مگر چھوٹے ہوتے وہ مجھے کیوں اچھی لگتی تھی میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا ، اب پتا چلا کہ اس کی کی معصومیت کی وجہ سے ، اس کی بے غرض بے لوث محبت کی وجہ سے ،وہ اب بھی اتنی ہی اچھی ہے مجھ سے ڈانٹ کھا کر بھی اتنا ہی پیار کرنے والی معصوم سی ،اور اسے دیکھ کے میں ہمیشہ سوچتی ہوں کہ جب یہ بڑی ہو تو یہ نا سوچے کہ کاش میں چھوٹی رہتی ! میرا بچپن کتنا اچھا تھا!
بچپن کا ہی ایک دور ہوتا ہے جس سے ہم سب سے زیادہ لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ مجھے لگتا تھا کہ بڑا ہونے سے مجھے ڈر لگتا ہے ایسا نہیں ہے شاید ، سب کو ہی ڈر لگتا ہے شاعر بھی اپنے بچپن کو کسی کونے کھدرے میں بیٹھ کر ایسے ہی یاد کرتے ہیں اور پھر لفظوں کا خراج دیتے ہیں ، اپنے بڑے ہونے پر پچھتاتے ہیں جیسے نوشی گیلانی کہتی ہے کہ
میرے اسکائپ آئی ڈی کے اسٹیٹس پر یہی شعر بڑے عرصے سے لکھا ہے میں تبدیل کرنے کا سوچتی ہوں اور اپنا ارادہ ترک کر دیتی ہوں شاید ایسے ہی سب کا بچپن فیس بک ، اسکائپ کے اسٹیٹس تک محدود رہ جاتا ہے یا شاید کچھ باتوں میں کہ ایسے ہی جب میں حسرت سے کوئی بات کرتی ہوں
"جب ہم چھوٹے تھے نا "
اور بچپن کی وادیوں میں عمر و عیار اور پریوں کی کہانیوں کی طرح گم ہونے سےپہلے ہی یہ سوال پھر سے ہمیں حقیقت کی دنیا میں کھینچ لاتا ہے کہ
"کتنے چھوٹے تھے "؟
از: ناعمہ عزیز
مجھے تو یہی لگتا ہے کہ میں کل بھی چھوٹی تھی پتا نہیں مجھے لگتا ہے یا سب کو ہی یہ لگتا ہے ! میں بس خود کو "آج" میں بڑی لگتی ہوں اور یہ آج بھی جب "کل "بن جائے گا تو مجھے اس کل میں کئی خامیاں نظر آئیں گی ۔ اپنی رہی سہی معصومیت ، اپنا بھولا پن جاتا دکھائی دے گا ، اور مجھے لگے گا کہ جو کل گزر گیا تب میں چھوٹی ہی تھی اس میں یہ غلطی ہو گئی نہیں ہونی چاہئے تھی وغیرہ وغیرہ
تو میں یہ کہہ رہی تھی کہ جب ہم چھوٹے تھے تو اکثر سنا کرتے تھے کہ بچپن میں بڑی کشش ہے ۔ مگر اتنے معصوم ہوا کرتے تھے کہ بڑا ہونے کا شوق ہوتا تھا دل کرتا تھا ہمارے سامنے جتنے فائدے بڑوں کو ملتے ہیں ہمیں بھی اتنے ہی ملیں ہم بھی جلدی سے بڑے ہو جائیں ، دھڑلے سے ریلوے کی لائن کراس کریں ، سڑک کراس کرتے اماں کا ہاتھ نا پکڑنا پڑے ، جیسے بڑوں کو ڈانٹ نہیں پڑتی ہمیں بھی نا پڑے، گڑیا کے کپڑے سلائی کرتے اماں سے چھپنا نہیں پڑے کہ مشین میں دھاگہ الجھ جائے گا اوراماں سے ڈاانٹ پڑے گی ، سب کام اپنی مرضی سے کریں ۔
مگر پھر جب خود بڑے ہونے لگے تو پتا چلا کہ بچپن واقع ہی بڑا پرُ سکون دور ہوتا ہے ! جب انا کا سانپ گہری نیند میں سویا ہوتا ہے ، بڑوں کے ہوتے بڑی تکلیفوں کا تصور بھی نہیں ہوتا اور چھوٹی تکلیفیں بس وقتی ہوتیں ہیں اپنا اثر نہیں چھوڑتی ! اماں کا ہاتھ پکڑ کر ریلوے لائن یا سڑک کراس کرنے پر کوئی ڈر نہیں ہوتا کہ ہمیں کچھ ہوجائے گا ، کوئی پریشانی آنے پر بزدلوں کی طرح یہ نہیں لگتا کہ زندگی یہاں ختم ہو گئی ہے ، کسی کپڑے کو سلائی لگائے جو دھاگہ الجھ جائے تو اماں کچھ نہیں کہتی پر ذہن میں بھی گرہیں پڑنے لگتی ہیں زندگی بھی اس دھاگے کی طرح الجھی الجھی لگتی ہے ، مگر مشین کا دھاگہ تو اماں ٹھیک کر دیتی تھیں زندگی کے دھاگے خود ہی سلجھانا پڑتے ہیں ۔
گڑیا کے کپڑے بنایا ، اسے پہنانا ،اس سے کھیلنا ، اس کا گھر بنانا ، چھوٹے چھوٹے کھلونوں میں اس کا کھانا بنانا ، لڑکیوں کا بچپن اکثر ایسا ہی ہوتا ہے ، مگر بچپن کی معصومیت میں یہ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ یہی کام ساری زندگی کرنے ہیں ۔ آہستہ آہستہ گڑیا کی جگہ ختم ہونے لگتی ہے اور اس کی جگہ ہمارے اردگرد کے رشتے ہمیں جکڑ لیتے ہیں ، جگنوؤں ، تتلیوں کے پیچھے بھاگنے والا بچپن ختم ہونے لگتا ہے ۔ پھر ہم زندگی ہمیں بھگاتی ہے، ہر روز نئے دریچے کھولتی ہے، ہماری معصومیت ، بھولا پن ، آنکھوں کی چمک ، زندگی سے بھرپور مسکراہٹیں کہیں چھپنے لگتیں ہیں ، ایسی گرد پڑتی ہے کہ کہیں نام و نشان ہی نظر نہیں آتا ! پھر جیسے جیسے بڑے ہونے لگتے ہیں بڑا ہونے سے ڈر لگنے لگتا ہے ، دل گھبراتا ہے ، جیسے بخار کی کیفیت میں دل چاہتا ہے کہ ہم جلدی سے اپنی نارمل حالت میں واپس آجائیں ، جیسے ہائی بلڈ پریشر سے دل عجیب لے پر دھڑکنے لگے ، فشار خون آنتوں میں ابلتاہو، کچھ ایسی ہی حالت ہوتی ہے شاید ، ہم جلدی گھبرا جاتے ہیں ، دل کرتا ہے کہ جلدی سے بچے بن جائیں ۔ اکثر لوگوں کو اپنا بچپن اسی لیے یاد آتا ہے ۔وہ کسی شاعر نے کہا تھا کہ
میرے دل کے کسی کونے میں اک معصوم سا بچہ
بڑوں کی دیکھ کر دنیا بڑا ہونے سے ڈرتا ہے
بڑوں کی دیکھ کر دنیا بڑا ہونے سے ڈرتا ہے
مجھے چھوٹے چھوٹے مرغی کے بچے ، بکری کے بچے ، گائے کا بچھڑا ، کبوتر، طوطے چڑیا کے بچے بہت اچھے لگتے تھے ، مجھے اپنی بہن صالحہ بھی چھوٹی ہوتی بہت اچھی لگتی تھی ، وہ اب بھی مجھ سے چھوٹی ہی ہے ، مگر چھوٹے ہوتے وہ مجھے کیوں اچھی لگتی تھی میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا ، اب پتا چلا کہ اس کی کی معصومیت کی وجہ سے ، اس کی بے غرض بے لوث محبت کی وجہ سے ،وہ اب بھی اتنی ہی اچھی ہے مجھ سے ڈانٹ کھا کر بھی اتنا ہی پیار کرنے والی معصوم سی ،اور اسے دیکھ کے میں ہمیشہ سوچتی ہوں کہ جب یہ بڑی ہو تو یہ نا سوچے کہ کاش میں چھوٹی رہتی ! میرا بچپن کتنا اچھا تھا!
بچپن کا ہی ایک دور ہوتا ہے جس سے ہم سب سے زیادہ لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ مجھے لگتا تھا کہ بڑا ہونے سے مجھے ڈر لگتا ہے ایسا نہیں ہے شاید ، سب کو ہی ڈر لگتا ہے شاعر بھی اپنے بچپن کو کسی کونے کھدرے میں بیٹھ کر ایسے ہی یاد کرتے ہیں اور پھر لفظوں کا خراج دیتے ہیں ، اپنے بڑے ہونے پر پچھتاتے ہیں جیسے نوشی گیلانی کہتی ہے کہ
کچھ نہیں چاہئے تجھ سے اے میری عمررواں
میرا بچپن میرے جگنو میری گڑیا لا دے
میرا بچپن میرے جگنو میری گڑیا لا دے
میرے اسکائپ آئی ڈی کے اسٹیٹس پر یہی شعر بڑے عرصے سے لکھا ہے میں تبدیل کرنے کا سوچتی ہوں اور اپنا ارادہ ترک کر دیتی ہوں شاید ایسے ہی سب کا بچپن فیس بک ، اسکائپ کے اسٹیٹس تک محدود رہ جاتا ہے یا شاید کچھ باتوں میں کہ ایسے ہی جب میں حسرت سے کوئی بات کرتی ہوں
"جب ہم چھوٹے تھے نا "
اور بچپن کی وادیوں میں عمر و عیار اور پریوں کی کہانیوں کی طرح گم ہونے سےپہلے ہی یہ سوال پھر سے ہمیں حقیقت کی دنیا میں کھینچ لاتا ہے کہ
"کتنے چھوٹے تھے "؟
از: ناعمہ عزیز
آخری تدوین: