انسان کو اس کی بنیادی ضرورتیں ہی اگر میسر نہ ہوں تو اس سے بڑھ کر انصاف ، عدلیہ ، بے معنی ہو کر رہ جاتیں ہیں ۔ انسانی کی زندگی کا دارومدار سب سے پہلے روٹی ، کپڑا اور پھر مکان ہے ۔ ان چیزوں کے حصول کے بعد ہی انسان معاشرے میں کوئی کلیدی کردار ادا کرنے کے قابل ہوتا ہے ۔ اور پھر اسی طرح بتدریج اسے انصاف اور دیگر معاشرتی ضروریات کا حصول درکار ہوتا ہے ۔ جب انسانی کی زندگی ان بنیادی ضرورتوں سے محروم ہوجائے تو اسے معاشرے کا نہیں اپنے وجود کا ضیاع ہونے کا خطرہ محسوس ہونے لگتا ہے ۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم روز نہیں تو ہر دوسرے روز ایسی خبریں پڑھتے ہیں ۔ جس میں کسی شخص نے بھوک و افلاس سے تنگ آکر خودکشی کرلی ۔ مگر ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کسی نے انصاف نہ ملنے پرخودکشی کی ہو ۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ ایشوز پر نان ایشوز کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اس وقت ملک میں ایک عام شخص کو روٹی مہیا کرنی ہے ۔ اور وہ اسی صورت میں ممکن ہے ۔ جب آپ اسے انسان کی بنیادی ضرورتوں میں اولین حیثیت دیں گے ۔ عدلیہ اور انصاف معاشرے کے لیئے بہت اہم ہیں مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ عدالت کے باہر لوگوں کو انصاف کی زیادہ ضرورت ہے ۔ یا ملک میں ایک عام آدمی کو روٹی پہلے چاہیئے ۔ یہ سارے کام سلسلہ وار اور بتدریج ہوتے ہیں ۔ مگر کسی ایسی ضرورت کے لیئے چھلانگ لگانا مثبت قدم ہر گز نہیں ہے ۔ جو کسی اور ضرورت کے بعد آتی ہے ۔
ٹھیک ہے بنیادی ضرورت روٹی ہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ مگر صرف روٹی کیلئے جینا کیا خالق کائنات نے صرف اس لئے اشرف المخلوقات بنایا اور اسے اپنی نیابت کا حقدار ٹھہرایا۔۔۔۔۔۔۔ ذرا ذمہ داری سے سوچیں کیا یہ بھی کوئی مقصد ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم تو الحمد للہ ان لوگوں کے ماننے والوں میں سے ہیں کہ جو پیٹ پر پتھر باندھ کر ایک مقصد کیلئے جدوجہد کرتے رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھوک کو مار کر ایک معاشرہ ہمیں بنا کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جنہوں نے جاں بلب ہوتے ہوئے بھی اپنی پیاس کو مار کر دوسرے کی پیاس کا احساس کیا اور سارے پیاسے ہی اللہ کو پیارے ہو گئے مگر ایک جذبہ ایک راہ ہمارے لئے چھوڑ گئے ۔۔۔۔ کیا ہم انہی کے وارث ہیں۔۔۔۔۔۔
روٹی جو انسانوں اور جانوروں میں مشترک ہے۔۔۔۔ اب روٹی کے حصول کا ذریعہ کیا ہے ۔۔۔۔۔۔ بقا کیلئے کیا طریقہ اختیار کرنا ہے ۔۔۔۔۔ یہاں سے اشرف المخلوقات کا رتبہ شروع ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ درندے کے سامنے صرف اپنی بقا کا سامان ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ مگر اشرف المخلوقات اپنی بقا کے ساتھ دوسروں کی بقا کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہیں انصاف و عدل کا کام شروع ہوتا ہے۔۔ اگر انصاف نہ ہو عدلیہ عادل اور ذمہ دار نہ ہو گی تو کیا ہو گ۔ انسانوںمیںصرف دو گروہ ہوں ایک طاقتورآقا اور ایک کمزور غلام۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک وہ جنکے پاس روٹی ہو گی اور ایک وہ کہ جو اس روٹی کیلئے انکی ہر بات ماننے پر مجبور ہو ں
یہ اس لئے کہ انکے درمیان توازن برقرار رکھنے والا کوئی ادارہ کوئی منصف کوئی قانون نہ ہو گا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ طاقتور کمزوروں کو روٹی کیلئے غلام بنا لیں گے۔۔۔ جیسے کہ پہلے ہوتا چلا آیا ہے اور ابھی بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بیگار کیمپ جو اس وقت اکا دکا اور چھپے ہوئے ہیں زور شور سے کھل جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔ روٹی ملے گی مگر اتنی جس سے کہ غلام کے جسم و روح کا رشتہ برقرار رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ار نتیجہ کیا کہ روٹی صرف طاقتور کے لئے ہی ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک مہذب اور حقیقی انسانی معاشرے کیلئے اقدار کا ہونا اور ان کا احترام کرنا ہی انسانوں کیلئے عزت مندانہ روٹی کا ضامن ہو سکتا ہے۔ ورنہ شائد بچی کچھی روٹی تو مل جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی عزت سے سر اٹھا کے چلنے والا نہ ملے گا۔ اور نئے پیدا ہونے والے پیدائشی غلام طبقے کے رکن ہوں گے۔۔۔۔۔۔