جج بحال ہونے سے عام آدمی کو کیا فائدہ ہو گا

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
آج کل اس بار پر بہت شور مچ رہا ہے جج بحال کرو میں پوچھنا چاہتا ہوں جج بحال ہونے پر عام آدمی کوکیافائدہ ہو گا
کیا بجلی نہیں جائے گی؟
کیا آٹا آرام سے مل جاے گا ؟
کیا کرایہ کم ہو جائے گے
کیا قمیتوں میں کمی ہو گی
 

نبیل

تکنیکی معاون
جج بحال ہونے سے ان میں سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔
عوام کو ایک موہوم سی امید ہے کہ شاید ججوں کے بحال ہونے سے قانون کی بالادستی کا دور شروع ہو جائے گا کیونکہ قانون کی بالادستی ہی معاشرے میں انصاف فراہم کرنے کی بنیاد بنتی ہے۔ اس وقت معاشرے میں جتنا ظلم ہے وہ ناانصافی کی وجہ سے ہی ہے۔ یہ علیحدہ بحث ہے کہ آیا 2 نومبر 2007 کی عدلیہ کو بحال کرنے سے آزاد عدلیہ یا قانون کی بالا دستی کا خیال حقیقت پسندانہ ہے یا نہیں۔ پاکستان کے تمام اداروں کی طرح عدلیہ بھی انتہائی کرپٹ ہے اور عوام اپنی پوری عمر مقدمات بھگتنے میں لگا دیتے ہیں۔ عدلیہ کا آزاد ہونا ضروری ہے لیکن عدلیہ کے موجودہ نظام کی ریفارم بھی ضروری ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
یہ سب کچھ ایسا ہی رہے گا، بس وہ جو ضد بازی چل رہی ہے ناں ایک دوسرے کو نیچا دکھانےکی، اس کا کیا ہو گا، بس اسی لیے یہ سارا شور شرابا ہے۔ ویسے جج بحال ہوتے نظر نہیں آتے۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
جج بحال ہونے سے ان میں سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔
عوام کو ایک موہوم سی امید ہے کہ شاید ججوں کے بحال ہونے سے قانون کی بالادستی کا دور شروع ہو جائے گا کیونکہ قانون کی بالادستی ہی معاشرے میں انصاف فراہم کرنے کی بنیاد بنتی ہے۔ اس وقت معاشرے میں جتنا ظلم ہے وہ ناانصافی کی وجہ سے ہی ہے۔ یہ علیحدہ بحث ہے کہ آیا 2 نومبر 2007 کی عدلیہ کو بحال کرنے سے آزاد عدلیہ یا قانون کی بالا دستی کا خیال حقیقت پسندانہ ہے یا نہیں۔ پاکستان کے تمام اداروں کی طرح عدلیہ بھی انتہائی کرپٹ ہے اور عوام اپنی پوری عمر مقدمات بھگتنے میں لگا دیتے ہیں۔ عدلیہ کا آزاد ہونا ضروری ہے لیکن عدلیہ کے موجودہ نظام کی ریفارم بھی ضروری ہے۔


کیا مشرف سے پہلے عدلیہ بحال تھی اور کیا اس دور میں نا انصافی نہیں ہوتی تھی
 

ایم اے راجا

محفلین
میں نے کہیں پڑھا تھا یا شاید کسی سے سنا تھا کہ، جنگِ عظیم کے دوران چرچل کو ایک وفد نے بتایا کہ جرمن جہازوں کی بمباری سے لندن کھنڈر بن چکا ہے اور برطانیہ کو سخت خطرہ ہے تو چرچل نے کہا کہ کیا عدالتیں اپنا کام ٹھیک سے کر رہی ہیں اور لوگوں کو سستا، فوری اور ٹھیک انصاف میسر آرہا ہے کہیں لوگ نظامِ عدل کے خلاف تو نہیں تو وفد نے بتایا کہ جناب عدالتیں بہتر بلکہ بہت بہتر کام کر رہی ہیں اور لوگوں کو سستا اور فوری انصاف میسر آرہا ہے عوام کو نظامِ عدل سے کوئی شکایت نہیں اسپر چرچل نے کہا کہ، تو پھر کوئی طاقت برطانیہ کاکچھ نہیں بگاڑ سکتی اور ہم اس جنگ میں سرخرو ہونگے۔
ایک اور واقع ہیکہ حضرت عمر خلیفتہ المومنین تھے تو مدینہ منورہ میں زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوئے تو حضرت عمر نے اپنا درا ( کوڑا ) زمین پر مار کر کہا کہ اے مدینے کی زمین کیا تجھ پر انصاف نہیں ہو رہا جو تو ہل رہی ہے، وہاں تھر تھرا جہاں تجھ پر عدل نہیں ہو رہا۔
یہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ عدل اور انصاف کسی معاشرے کی مضبوطی اور مستحکم روایات کے لیئے کتنا ضروری ہے، اب انصاف کے لیئے قائم کیئے گئے اداروں میں اگر صحیح لوگ تعینات نہ ہوں اور لوگوں کے لیئے انصاف کا حصول اشکِ بلبل حاصل کرنے کے مترادف ہو تو وہ معاشرہ کیسے پنپ سکتا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں کے سسٹم آف جو ڈیشری کو ملاحظہ کریں تو بندہ دنگ رھ جاتا ہے، جبکہ سب سے بہترین عدل اور انصاف اسلام نے روشناس کروایا ہے، اسلام سے پہلے ایسی مثال نہیں ملتی، رہا مسئلہ ہمارے ملک کا تو سب سے پہلے تو ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ کیا ہماری جوڈیشری اس قابل بھی ہیکہ وہ لوگوں تک انصاف پہنچا سکے اپنے عدل پر مبنی احکامات پر عمل کروا سکے، اسکے بات سوال پیدا ہوتا ہیکہ کس قسم کے لوگوں کو جوڈیشری میں شامل کیا جانا چاہئیے، میرا خیال ہیکہ ہمارے ملک میں شاید ہی کوئی ایسا جج ( سپریم کورٹ یا کسی اور اعلیٰ عدالت میں ) میں مقرر ہوا ہے جو کہ انصاف کے تقاضے پورے کرے اور دوسرے اداروں کو اس کا پابند بنائے، میں سمجھتا ہوں کہ عدالتوں کو اتنا طاقتور ہونا چاہیئے کہ وہ ہر مسئلے کو اور مشکل کو حل کروا سکے اور اداروں کو ملکی قانون کا پابند بنا سکے۔
اگر ہم پیچھے دیکھیں تو معزول ججوں نے اس کام کو کافی بہتر طریقے سے انجام دینے کی کوشش کی تھی اور لوگوں کو قانونی رلیف ملنا شروع ہوا تھا، لیکن آخر کیوں انھیں کام کرنے سے روک دیا گیا، اگر اسوقت کی حکومت ان ججوں کو کرپٹ کہتی تھی تو اسکے ثبوت عوام کے سامنے کیوں نہیں لائی( کیونکہ عوام سب سے بڑی عدالت ہیں ) اگر اب لوگ ( وہ جو ججوں کو بحال کروانے کی تگ و دو میں ہیں ) انھیں بحال کروانا چاہتے ہیں تو کیوں؟ اس سے پہلے بھی کئی ججوں کو معزول کیا گیا لیکن کیا کبھی اتنی بڑی تحریک چلی، اصل میں میڈیا اور معزول جوڈیشری نے لوگوں میں اعتماد اور بات کرنے کی صلاحیت پیدا کردی ہے۔
میرے آپ لوگوں سے چند سوال ہیں کہ۔ کیا کبھی کسی عدالت نے کسی عوامی مسئلے پر اتنے نوٹس لیئے تھے۔ کیا کبھی کسی عدالت کا اداروں پر اتان رعب اور خوف طاری ہوا تھا۔ کیا کبھی کسی عدالت کی مداخلت پر کسی خاتون یا مقتول کے ورثہ کو اتنا انصاف ملا تھا۔ کیا کبھی کسی جرگہ کرنے اور چوری کی سزا زنا دینے پر عدالت نے وڈیرے یا چودھری کو گرفتار کروانے کے احکامات دیئے اور ان پر عمل کروایا تھا۔ کیا اسٹیل مل کو چنوں کے مول بیچنا درست تھا اور عدالت عظمیٰ کا روکنا غلط تھا۔ ایسے کئی سو واقعات ہیں جو کہ سوالیہ ہیں، پولیس اور دوسرے اداروں کے کرپٹ افسران میں ایک سراسیمگی کی فضا چھا گئی تھی اور لوگوں کو تھانوں میں ایک باعزت طریقہ میسر آنے لگا تھا لیکن وہ کون سے ہاتھ تھے جنھوں نے اس بساط کو پلٹ دیا، ہمیں سوچنا چاہئیے، خدا کے لیئے انصاف کی بالا دستی قائم کرنے کے لیئے کچھ کریں ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انصاف جو مصلحتوں کی نظر ہوجائے گا
نظامِ ہستی زیر و زبر ہو جائے گا
مٹ جائیں گی شرفا کی آبادیاں شہر سے
ہر میدان بس قبر، قبر ہو جائے گا
 

نبیل

تکنیکی معاون
میں نے کہیں پڑھا تھا یا شاید کسی سے سنا تھا کہ، جنگِ عظیم کے دوران ہٹلر کو اسکے ایک جنرل نے کہا کہ اتحادی بہت طاقتور ہیں اور جرمنی کو خطرہ ہے تو ہٹلر نے کہا کہ فورن سروے کرو کہ کیا عدالتیں اپنا کام ٹھیک سے کر رہی ہیں اور لوگوں کو سستا، فوری اور ٹھیک انصاف میسر آرہا ہے کہیں لوگ نظامِ عدل کے خلاف تو نہیں تو جنرل نے بعد از سروے رپورٹ دی کہ جناب عدالتیں بہتر بلکہ بہت بہتر کام کر رہی ہیں اور لوگوں کو سستا اور فوری انصاف میسر آرہا ہے عوام کو نظامِ عدل سے کوئی شکایت نہیں اسپر ہٹلر نے کہا کہ، تو پھر کوئی طاقت جرمنی کاکچھ نہیں بگاڑ سکتی۔

جناب، ہٹلر کو انصاف کرنے کی کیا ضرورت پڑ گئی تھی؟
یہ واقعہ برطانیہ کے وزیراعظم چرچل سے منسوب ہے ہٹلر سے نہیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
حوالہ: ایک تاریخی سچ، عباس اطہر (ڈیلی ایکسپریس، 4 دسمبر 2007 )

1100310109-2.gif
 

محسن حجازی

محفلین
بات مسائل کے حل ہوجانے کی نہیں وقار کی ہے۔ کیا قانون کے مطابق چلنے کی کوشش کرنے والے کو یوں ہی مسل دیا جائے گا؟ انہی کرتوتوں کے سبب یہ وقت ہے آج پاکستان پر کہ زخمی سڑک پر تڑپتا جان دے دیتا ہے لیکن کوئی اسے ہسپتال تک لے جانے کو تیار نہیں ہوتا سب تماشا دیکھتے ہیں۔ آج اسے بحال نہ کیا تو کل کوئی جج حکومت وقت کے غلط اقدامات سے اختلاف کی جرات ہی نہیں کرے گا۔ بات ساری یہ ہے دو ٹکے کی نوکر ی کا مسئلہ نہیں ہے جیسے کہ سیدنا ناجی مدظلہ العالی اپنے کالموں میں تسلسل سے فرما رہے ہیں کہ جج ہی معاف کر دیں۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
دیکھیں جناب دلوں کے حال تو اللہ سبحان و تعالیٰ جانتے ہیں ہم ٹھہرے انسان اور ظاہر بین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ہم بات کریں گے جو ظاہر ہے۔۔۔۔۔ ایک تو ہر بات میں‌ فائدہ دیکھنا ضروری نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ آج ایک درخت لگاتے ہیں آپکو کیا فائدہ کہ جب وہ درخت جوان ہو گا شباب پر ہو گا آپ نہیں‌ ہونگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے بزرگوں نے اللہ ان سب کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے قیام پاکستان کیلئے جانیں قربان کر دیں۔۔۔ حتٰی کہ وہ لوگ کہ جن کو یقین تھا کہ ان کی سرزمین اس نئے مجوزہ ملک کا حصہ نہیں ہو گی انہوں‌نے بھی جانی و مالی ہر طرح کی قربانی دی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر وہ بھی ہماری طرح جو کہ آج من حیثت القوم ہماری سوچ ہے ہوتی تو کیا یہ ملک وجود میں آ سکتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم نظریہ ، انصاف ، قاعدہ قانون بھی کچھ چیزیں ہیں جن سے معاشرے تشکیل پاتے ہیں۔۔۔۔۔۔ ورنہ تو جنگل ہے جہاں‌ ہر بڑا درندہ چھوٹے درندے کو کھا جاتا ہے ۔ اور یہ قانون فطرت کہلاتا ہے۔۔۔
ساٹھ انسانوں نے ایک نظریے ایک قاعدے کیلئے اپنے عہدوں کی قربانی دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو کیا من حیثیت القوم ہم سب کا فرض نہیں بنتا کہ ہم با شعور انسان ہونے کا ثبوت دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کم از کم اتنا تو کریں کہ جہاں جہاں‌تک کسی کا زور چلتا ہے وہ اپنی بات کرے اور دعا کرے کہ خدا ہم سب کو اس امتحان میں‌سرخرو کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایک نظریے ایک غلط اور صحیح کی بات ہے ۔ آٹے دال کی بات نہیں۔۔۔۔۔۔۔ اگر کوئی ایسے سوچتا ہے تو پھر اس کا کوئی فائدہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ رازق تو کوئی اور ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر آج سب لوگ سوئے رہتے ہیں یا اپنے اپنے فائدے کو سوچتے ہیں تو کل کون ہو گا جو کسی نظریہ کیلئے اپنی جان اپنی نوکری داو پر لگانے کو تیار ہو گا۔ ۔۔۔۔۔۔ کون ہو گا ہو اس فرسودہ سسٹم سے ٹکرانے کی ہمت کرے گا۔ کوئی نہیں ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ہم میں سے ہر کوئی ہر بات میں صرف فائدہ تلاش کرے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو پھر ہمارا اللہ ہی حافظ ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ایک طبقے کے فائدے سے دوسرے طبقے کا نقصان ہونا بھی ضروری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیدھی سے بات ہے آٹا سستا ہوتا ہے تو تاجروں‌کو منافع کم کرنا پڑے گا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بھی صرف اپنا فائدہ دیکھیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب کچھ بہتر ہو سکتا ہے اگر حکومت میں شامل لوگ سادگی اور اپنا معیار زندگی ایک عام آدمی کے برابر کر لیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر وہ کیوں‌ کریں گے کہ اس میں ان کا فائدہ نہیں‌۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اپنا فائدہ دیکھیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس طرح جب کوئی طبقہ نقصان برداشت کرنے کو تیارہی نہیں تو فائدے کے سوا وہ کسی بات کیلئے جنبش تک نہیں‌ کرتا تو پھر اللہ تعالٰی ہم پر رحم کیسے کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب ہم خود ہی ایک دوسرے پر طلم کرنے پر آمادہ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
مجھے تو اور بھی بہت سی چیزوں کی سمجھ نہیں آتی - مثلا" میرے شاعری کرنے یا پڑھنے کا عام آدمی کو کیا فائدہ؟ - فنونِ لطیفہ کا عام آدمی کو کیا فائدہ؟ - خرم بھائی کا شاعری کرنے کا عام آدمی کو کیا فائدہ؟ اردو محفل کو عام آدمی کو کیا فائدہ؟ میرا یہاں‌وقت ضائع کرنے کا عام آدمی کو کیا فائدہ؟ آخر یہ سب کرنے سے کیا عام آدمی کے روٹی کپڑے اور مکان کے مسائل حل ہوجائیں گے ؟ کیا اس سے اناج زیادہ پیدا ہوگا یا نہیں - :confused:
 

شمشاد

لائبریرین
میں ایک عام آدمی ہوں، کم از کم مجھے آپ کی تحریریں پڑھ کر لطف آتا ہے، تو کیا یہ فائدہ نہیں ہے؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
میں ایک عام آدمی ہوں، کم از کم مجھے آپ کی تحریریں پڑھ کر لطف آتا ہے، تو کیا یہ فائدہ نہیں ہے؟

بہت شکریہ شمشاد صاحب یقینا" ہم سب معاشرتی حیوان ہیں اور اشرف المخلوقات بھی یہی وجہ ہے کہ ہم یہاں ایک دوسرے کی تحاریر پڑھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں- اگر صرف حیوان ہوتے تو یقینا"‌ روٹی کپڑے اور مکان سے آگے نہ سوچتے مگر انسان کی یہی بنیادی ضرورتیں نہیں - اور بھی بہت سی ضرورتیں ہیں جو ان سے ماورا ہیں - جن سے انسان کو انسان ہونے کا شرف حاصل ہوتا ہے اور انہی میں سے ایک ضرورت انصاف کا حصول بھی ہے جو ایماندار ججوں کے ہونے سے ہی حاصل ہوسکتا ہے -
 

شمشاد

لائبریرین
تو پھر ایماندارانہ انصاف بھی صرف عام آدمیوں کے لیے ہی ہے، جن کی نہ پہنچ ہے اور نہ ہی ان کے پاس پیسہ ہے۔
بڑے لوگوں کا قانون بھی اپنا ہے اور انصاف بھی اپنا ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
انسان کو اس کی بنیادی ضرورتیں ہی اگر میسر نہ ہوں تو اس سے بڑھ کر انصاف ، عدلیہ ، بے معنی ہو کر رہ جاتیں ہیں ۔ انسانی کی زندگی کا دارومدار سب سے پہلے روٹی ، کپڑا اور پھر مکان ہے ۔ ان چیزوں کے حصول کے بعد ہی انسان معاشرے میں کوئی کلیدی کردار ادا کرنے کے قابل ہوتا ہے ۔ اور پھر اسی طرح بتدریج اسے انصاف اور دیگر معاشرتی ضروریات کا حصول درکار ہوتا ہے ۔ جب انسانی کی زندگی ان بنیادی ضرورتوں سے محروم ہوجائے تو اسے معاشرے کا نہیں اپنے وجود کا ضیاع ہونے کا خطرہ محسوس ہونے لگتا ہے ۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم روز نہیں تو ہر دوسرے روز ایسی خبریں پڑھتے ہیں ۔ جس میں کسی شخص نے بھوک و افلاس سے تنگ آکر خودکشی کرلی ۔ مگر ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کسی نے انصاف نہ ملنے پرخودکشی کی ہو ۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ ایشوز پر نان ایشوز کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اس وقت ملک میں ایک عام شخص کو روٹی مہیا کرنی ہے ۔ اور وہ اسی صورت میں ممکن ہے ۔ جب آپ اسے انسان کی بنیادی ضرورتوں میں اولین حیثیت دیں گے ۔ عدلیہ اور انصاف معاشرے کے لیئے بہت اہم ہیں مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ عدالت کے باہر لوگوں کو انصاف کی زیادہ ضرورت ہے ۔ یا ملک میں ایک عام آدمی کو روٹی پہلے چاہیئے ۔ یہ سارے کام سلسلہ وار اور بتدریج ہوتے ہیں ۔ مگر کسی ایسی ضرورت کے لیئے چھلانگ لگانا مثبت قدم ہر گز نہیں ہے ۔ جو کسی اور ضرورت کے بعد آتی ہے ۔
 

وجی

لائبریرین
عام آدمی کو بہت فائدہ ہوگا جب جج بحال ہونگے تو
میٹھائی والوں کو فائدہ ہوگا
ڈھول تاشے والوں کا فائدہ ہوگا
بینر بنانے والوں کا فائدہ ہوگا
نئے کوٹ بنانے اور خریدنے کی وجہ سے کپڑے والوں کا فائدہ ہوگا
اور خاص طور پر جب جج بھال ہونگے تو خدا خدا کرکے وکیل عدالتوں میں جانا شروع ہونگے تو عام آدمی جنکے کیس عدالتوں میں ہیں انکو فائدہ ہوگا
 
ش

شوکت کریم

مہمان
انسان کو اس کی بنیادی ضرورتیں ہی اگر میسر نہ ہوں تو اس سے بڑھ کر انصاف ، عدلیہ ، بے معنی ہو کر رہ جاتیں ہیں ۔ انسانی کی زندگی کا دارومدار سب سے پہلے روٹی ، کپڑا اور پھر مکان ہے ۔ ان چیزوں کے حصول کے بعد ہی انسان معاشرے میں کوئی کلیدی کردار ادا کرنے کے قابل ہوتا ہے ۔ اور پھر اسی طرح بتدریج اسے انصاف اور دیگر معاشرتی ضروریات کا حصول درکار ہوتا ہے ۔ جب انسانی کی زندگی ان بنیادی ضرورتوں سے محروم ہوجائے تو اسے معاشرے کا نہیں اپنے وجود کا ضیاع ہونے کا خطرہ محسوس ہونے لگتا ہے ۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم روز نہیں تو ہر دوسرے روز ایسی خبریں پڑھتے ہیں ۔ جس میں کسی شخص نے بھوک و افلاس سے تنگ آکر خودکشی کرلی ۔ مگر ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کسی نے انصاف نہ ملنے پرخودکشی کی ہو ۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ ایشوز پر نان ایشوز کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اس وقت ملک میں ایک عام شخص کو روٹی مہیا کرنی ہے ۔ اور وہ اسی صورت میں ممکن ہے ۔ جب آپ اسے انسان کی بنیادی ضرورتوں میں اولین حیثیت دیں گے ۔ عدلیہ اور انصاف معاشرے کے لیئے بہت اہم ہیں مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ عدالت کے باہر لوگوں کو انصاف کی زیادہ ضرورت ہے ۔ یا ملک میں ایک عام آدمی کو روٹی پہلے چاہیئے ۔ یہ سارے کام سلسلہ وار اور بتدریج ہوتے ہیں ۔ مگر کسی ایسی ضرورت کے لیئے چھلانگ لگانا مثبت قدم ہر گز نہیں ہے ۔ جو کسی اور ضرورت کے بعد آتی ہے ۔

ٹھیک ہے بنیادی ضرورت روٹی ہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ مگر صرف روٹی کیلئے جینا کیا خالق کائنات نے صرف اس لئے اشرف المخلوقات بنایا اور اسے اپنی نیابت کا حقدار ٹھہرایا۔۔۔۔۔۔۔ ذرا ذمہ داری سے سوچیں کیا یہ بھی کوئی مقصد ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم تو الحمد للہ ان لوگوں کے ماننے والوں میں سے ہیں کہ جو پیٹ پر پتھر باندھ کر ایک مقصد کیلئے جدوجہد کرتے رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھوک کو مار کر ایک معاشرہ ہمیں بنا کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جنہوں نے جاں بلب ہوتے ہوئے بھی اپنی پیاس کو مار کر دوسرے کی پیاس کا احساس کیا اور سارے پیاسے ہی اللہ کو پیارے ہو گئے مگر ایک جذبہ ایک راہ ہمارے لئے چھوڑ گئے ۔۔۔۔ کیا ہم انہی کے وارث ہیں۔۔۔۔۔۔

روٹی جو انسانوں اور جانوروں‌ میں مشترک ہے۔۔۔۔ اب روٹی کے حصول کا ذریعہ کیا ہے ۔۔۔۔۔۔ بقا کیلئے کیا طریقہ اختیار کرنا ہے ۔۔۔۔۔ یہاں سے اشرف المخلوقات کا رتبہ شروع ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ درندے کے سامنے صرف اپنی بقا کا سامان ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ مگر اشرف المخلوقات اپنی بقا کے ساتھ دوسروں کی بقا کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہیں انصاف و عدل کا کام شروع ہوتا ہے۔۔ اگر انصاف نہ ہو عدلیہ عادل اور ذمہ دار نہ ہو گی تو کیا ہو گ۔ انسانوں‌میں‌صرف دو گروہ ہوں ایک طاقتورآقا اور ایک کمزور غلام۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک وہ جنکے پاس روٹی ہو گی اور ایک وہ کہ جو اس روٹی کیلئے انکی ہر بات ماننے پر مجبور ہو ں

یہ اس لئے کہ انکے درمیان توازن برقرار رکھنے والا کوئی ادارہ کوئی منصف کوئی قانون نہ ہو گا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ طاقتور کمزوروں کو روٹی کیلئے غلام بنا لیں گے۔۔۔ جیسے کہ پہلے ہوتا چلا آیا ہے اور ابھی بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بیگار کیمپ جو اس وقت اکا دکا اور چھپے ہوئے ہیں زور شور سے کھل جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔ روٹی ملے گی مگر اتنی جس سے کہ غلام کے جسم و روح کا رشتہ برقرار رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ار نتیجہ کیا کہ روٹی صرف طاقتور کے لئے ہی ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک مہذب اور حقیقی انسانی معاشرے کیلئے اقدار کا ہونا اور ان کا احترام کرنا ہی انسانوں کیلئے عزت مندانہ روٹی کا ضامن ہو سکتا ہے۔ ورنہ شائد بچی کچھی روٹی تو مل جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی عزت سے سر اٹھا کے چلنے والا نہ ملے گا۔ اور نئے پیدا ہونے والے پیدائشی غلام طبقے کے رکن ہوں گے۔۔۔۔۔۔
 

ظفری

لائبریرین
ٹھیک ہے بنیادی ضرورت روٹی ہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ مگر صرف روٹی کیلئے جینا کیا خالق کائنات نے صرف اس لئے اشرف المخلوقات بنایا اور اسے اپنی نیابت کا حقدار ٹھہرایا۔۔۔۔۔۔۔ ذرا ذمہ داری سے سوچیں کیا یہ بھی کوئی مقصد ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم تو الحمد للہ ان لوگوں کے ماننے والوں میں سے ہیں کہ جو پیٹ پر پتھر باندھ کر ایک مقصد کیلئے جدوجہد کرتے رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھوک کو مار کر ایک معاشرہ ہمیں بنا کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جنہوں نے جاں بلب ہوتے ہوئے بھی اپنی پیاس کو مار کر دوسرے کی پیاس کا احساس کیا اور سارے پیاسے ہی اللہ کو پیارے ہو گئے مگر ایک جذبہ ایک راہ ہمارے لئے چھوڑ گئے ۔۔۔۔ کیا ہم انہی کے وارث ہیں۔۔۔۔۔۔

روٹی جو انسانوں اور جانوروں‌ میں مشترک ہے۔۔۔۔ اب روٹی کے حصول کا ذریعہ کیا ہے ۔۔۔۔۔۔ بقا کیلئے کیا طریقہ اختیار کرنا ہے ۔۔۔۔۔ یہاں سے اشرف المخلوقات کا رتبہ شروع ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ درندے کے سامنے صرف اپنی بقا کا سامان ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ مگر اشرف المخلوقات اپنی بقا کے ساتھ دوسروں کی بقا کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہیں انصاف و عدل کا کام شروع ہوتا ہے۔۔ اگر انصاف نہ ہو عدلیہ عادل اور ذمہ دار نہ ہو گی تو کیا ہو گ۔ انسانوں‌میں‌صرف دو گروہ ہوں ایک طاقتورآقا اور ایک کمزور غلام۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک وہ جنکے پاس روٹی ہو گی اور ایک وہ کہ جو اس روٹی کیلئے انکی ہر بات ماننے پر مجبور ہو ں

یہ اس لئے کہ انکے درمیان توازن برقرار رکھنے والا کوئی ادارہ کوئی منصف کوئی قانون نہ ہو گا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ طاقتور کمزوروں کو روٹی کیلئے غلام بنا لیں گے۔۔۔ جیسے کہ پہلے ہوتا چلا آیا ہے اور ابھی بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بیگار کیمپ جو اس وقت اکا دکا اور چھپے ہوئے ہیں زور شور سے کھل جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔ روٹی ملے گی مگر اتنی جس سے کہ غلام کے جسم و روح کا رشتہ برقرار رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ار نتیجہ کیا کہ روٹی صرف طاقتور کے لئے ہی ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک مہذب اور حقیقی انسانی معاشرے کیلئے اقدار کا ہونا اور ان کا احترام کرنا ہی انسانوں کیلئے عزت مندانہ روٹی کا ضامن ہو سکتا ہے۔ ورنہ شائد بچی کچھی روٹی تو مل جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی عزت سے سر اٹھا کے چلنے والا نہ ملے گا۔ اور نئے پیدا ہونے والے پیدائشی غلام طبقے کے رکن ہوں گے۔۔۔۔۔۔

معافی چاہتا ہوں کہ میرا استدلال آپ کی سمجھ سے باہر ہے ۔
میں‌ نے صرف یہ کہنے کی جسارت کی تھی کہ ملک میں اس وقت ایک عام آدمی کی معاشی حالت بہتر کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ عدلیہ کی بحالی کی ۔ اگر ایک عام آدمی کو روزگار ( روٹی ) میسر آگیا تو یہ عدل کی طرف پہلا قدم ہوگا پھر آپ عدل کے نظام کی طرف توجہ دیں ۔ بس صرف یہی نقطہ اٹھایا تھا اور آپ نے بات کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ۔ پہلے سامنے والی کی بات تو سمجھ لیا کریں کہ آخر وہ کیا کہنا چاہ رہا ہے پھر کوئی ایسا موقف اختیار کریں جس کا اسی پیرائے سے تعلق بنتا ہو ۔ میں‌کھیت کی کہہ رہا ہوں اور آپ کھیلیان کی بات کر رہے ہیں ۔:rolleyes:
اور جس عدلیہ کی بحالی کی بات ہو رہی ہے ( خیر میں اسے عدلیہ کی بحالی نہیں ججوں کی بحالی کہوں‌گا ) ۔ ذرا ان کےماضی کو دیکھیں تو آج کے متعین ججوں سے کم نظر نہیں آئے گی ۔ عدلیہ کی بحالی کا تقاضا اب ایک معاشرتی ضرورت سے زیادہ سیاسی ضرورت بن چکا ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پہلے ہر غریب آدمی کی رسائی عدلیہ تک تھی اور تھالی میں بھر بھر کو ایک عام آدمی کو کسی تفریق کے بغیر انصاف ملتا تھا ۔ اور اب اسی انصاف کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیئے جہدوجہد ہو رہی ہے ۔ یعنی کہ خود فریبی کی حد ہوگئی ہے کہ ایک آدمی سامنے اپنے بچوں سمیت بھوک و افلاس سے خود کشی کر رہا ہے اور لوگوں نےججوں کو ان کے شاہانہ محلوں ‌میں دوبارہ پہنچانے کا عزم کیا ہوا ہے ۔
 
Top